15/4/19

مولانا آزاد کے روشن افکار مضمون نگار: امام اعظم



مولانا آزاد کے روشن افکار
امام اعظم

مولانا ابوالکلام آزاد بنیادی طور پر ایک دانشور اور متبحر عالم تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی وزارت میں مولانا آزاد کو وزیر تعلیم کا عہدہ دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ جانتے تھے کہ مولانا کو اپنے ملک، اس کی تہذیب، قومی یکجہتی اور تعلیم کے فروغ و اشاعت سے گہری دلچسپی ہے۔ ملک کی تقسیم کے بعد انگریزوں نے جو کچھ چھوڑا تھا، اس میں نفرت زیادہ تھی اور آپسی اعتماد و اعتبار گم ہوتا جارہا تھا۔ ان حالات میں ایک ایسی تعلیمی پالیسی کی ضرورت تھی جس سے انگریزوں کی نفرت انگیز پالیسی کو ختم کیا جاسکے تاکہ تعلیمی اداروں سے صرف کلرک نہ پیدا ہوں بلکہ بدلے ہوئے حالات میں ملک کی ضرورت کی تکمیل اور ملک کی ترقی کے لیے کام کرنے والے لوگ نکلیں، ساتھ ہی ملک کو خود کفیل بھی بنانا تھا۔ اس لیے بہت باشعور آدمی ہی اس اہم موڑ پر ملک کے لیے اس کی ضرورتوں کے مطابق بہتر تعلیمی پالیسی کی تشکیل اور تنفیذ کرسکتا تھا۔ رادھا کرشنن جو بعد میں ہندوستان کے صدر بھی ہوئے ان کی کتاب "Eastern & Western History of Philosophy" میں مولانا آزاد نے جو تمہید لکھی اس میں اس بات کو واضح طور پر بتایا ہے کہ مشرق اور مغرب کی ملی جلی جانکاری سے ہی صحیح علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے انسان اور سماج کی ترقی ہوسکتی ہے۔ 
مولانا کے ذہن میں یہ بات بالکل صاف تھی کہ تعلیم صرف کاروباری یا اقتصادی معاملہ نہیں ہے کہ دو لفظ پڑھ کر آدمی روزی روٹی کمانے لگے۔ یہ تو صرف اس کا ایک پہلو ہے۔ آدمی کو جدید بنانے میں اور آزاد شخصیت کو نکھارنے میں تعلیم کا اہم رول ہے اور شخصیت کی تعمیر و تشکیل ہی اصل تعلیم ہے۔ 
ملک کی تہذیب کے مطابق مولانا تعلیم میں یہاں بسنے والے مختلف مذاہب، ذات اور زبان کے بولنے والوں کے جذبات کی بھی جھلکیاں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنے دورِوزارت میں ان ساری باتوں کا خاص خیال رکھا۔ 
پنڈت نہرو کے افکار سے وہ متفق تھے۔ ملک میں بڑے بڑے کارخانے لگانے کی بات کرتے تھے جس سے ایک نئے سماج کی تعمیر ہوسکے۔ ظاہر ہے اگر بڑے کارخانے ہمیں لگانے ہیں تو ان کے لیے سائنس داں اور تربیت یافتہ لوگوں کی ضرورت بھی ہوگی۔ اسی کے ذریعے ہم جدید عہد میں داخل ہوسکتے ہیں اور بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ مولانا نے ملک کے لیے جو تعلیمی پالیسی وضع کی، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ آج ہمارا ملک سائنسی اعتبار سے ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت تھی، لہٰذا انھوں نے وقت کے مطالبات کے مد نظر اس طرف خاص توجہ دی۔ ملک کا پورا تعلیمی ڈھانچہ مولانا آزاد ہی کا بنایا ہوا ہے۔ 
مولانا نے سائنسی تعلیم کی ترقی کے لیے شانتی سروپ بھٹناگر جیسے سائنس داں کی قیادت میں سائنس کی اعلیٰ تحقیقات کا ادارہ بنایا اور نیو کلیائی ایٹمی توانائی کے لیے الگ سے ایک ادارہ قائم کرایا ۔ صنعت و حرفت، زراعت اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں کام کرنے والے سائنس دانوں کے لیے ایک طرف ’انڈین کاؤنسل فار ایگری کلچرل اینڈ سائنٹفک ریسرچ ‘قائم کیا تو دوسری طرف طبّی ترقی کے لیے ’انڈین کاؤنسل فار میڈیکل ریسرچ‘ بنائی گئی یعنی ملک میں اعلیٰ تکنیکی اور سائنسی تحقیق کی مولانا کے زمانے میں بنیاد ڈالی گئی تاکہ ریسرچ کے ذریعے زراعت و صنعت اور سائنس و ٹکنالوجی کو نئی سمت دی جاسکے۔ 
سائنس و ٹکنالوجی کی تعلیم اور اس کے استعمال کے معاملے میں مولانا آزاد کا نظریہ بالکل واضح تھا۔ انھوں نے خود خالص مشرقی تعلیم پائی تھی مگر انگریزی تعلیم پر زیادہ زور دیا ۔وہ جانتے تھے کہ یہ نہ صرف مغربی علوم اور سائنس کے لیے بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے لیے بھی ایک زنجیر کا کام دیتی ہے۔ مولانا جانتے تھے کہ سائنس کے خطرات اور غلط استعمال سے بچنے کے لیے اسے تہذیبی اور مذہبی کنٹرول میں رہنا چاہیے۔ سائنس کی خوبیوں، کمالات اور خدمات کو وہ سراہتے تھے لیکن یہ بھی چاہتے تھے کہ ہمارے سماج میں عوام و خواص جدید تعلیم سے آراستہ ہوں اور اپنی قومی میراث سے بے تعلق نہ ہوں۔ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کی سطح کو بلند کرنے کے لیے مولانا بہت زور دیتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بنیادی تعلیم پر محنت ہوگی تو ثانوی تعلیم کے لیے اچھے طلبا ملیں گے اور ثانوی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاسکے گی تب ہی اعلیٰ تعلیم کی سطح بلند ہوگی۔ 
مولانا نے اپنی تعلیمی پالیسی میں اس بات کا بھی خیال رکھا کہ سماجی علوم اور فنونِ لطیفہ کو بھی ساتھ ساتھ فروغ دیا جائے۔ سماجی علوم کے لیے انڈین کاؤنسل فار ہسٹوریکل ریسرچ اور انڈین کاؤنسل فار سوشل سائنس ریسرچ کا ادارہ قائم کیا گیا جس کا دائرہ تاریخ سے لے کر اقتصادیات اور سماجی میدان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دو اور ادارے ایک انڈین کاؤنسل فار کلچرل ریلیشنز اور دوسرا انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز مولانا کی سرپرستی میں ’سپرو ہاؤس‘ میں کھولا گیا۔
مولانا آزاد نے مذہب اور تعلیم کو الگ الگ خانوں میں نہیں رکھا بلکہ ایک مکمل نظام حیات کے حصول میں ان کے مشترکہ رول کی اہمیت بیان کی ہے۔ مولانا آزاد کے تعلیمی فلسفے کا ایک رخ مشرق جدید کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنے میں مضمر ہے۔ انھوں نے اپنے کانگریسی خطبات میں بار بار مشرق کو ایک طاقتور سیاسی، سماجی اور تہذیبی یگانگت کے روشن مینار کے طور پر دیکھا ہے۔ ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد انسان کو اس کے ماحول کے ساتھ اور ماحول کو انسان کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ ہندوستان کی مخصوص تہذیب و کلچر کو وہ جس قدر عزیز رکھتے تھے اسی کے پیش نظر بطور وزیر تعلیم انھوں نے فنون لطیفہ کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ ساہتیہ اکیڈمی، سنگیت ناٹک اکیڈمی اور للت کلا اکیڈمی کے جو کارنامے آج روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں وہ سب مولانا آزاد کے تصورات کے عملی نمونے ہیں۔ وہ تعلیم کے شعبے میں حکومت کی دخل اندازی کے مخالف تھے۔ بالخصوص اعلیٰ تعلیم و تحقیق کو بالکل آزادانہ طور پر چھوڑ دینے کے ہم خیال تھے۔ اس لیے یونیورسٹی کی آزادی کے تحفظ کے پیشِ نظر انھوں نے UGC جیسا عظیم الشان ادارہ قائم کیا تاکہ اعلیٰ تعلیم کو مزید وسائل میسر آسکیں اور سرکاری مداخلت کم ہو۔ ان اکادمیوں کا کام صرف یہ نہیں تھا کہ وہ ملک کے مشہور فن کاروں کو انعام دیں بلکہ یہ تھا کہ ملک کے مختلف حصوں کے ادب و فن کے مختلف Talents کو سمیٹ کر انھیں قومی منچ پر ایک اکائی کی شکل میں پیش کیا جائے۔ 
مولانا نے اپنی تعلیمی پالیسی کے ذریعے مغربی ایشیا کے مسلم ممالک سے تہذیبی اور سیاسی تعلقات کو مستحکم کرنے کی راہ نکالی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے عربی کا ایک رسالہ ’ثقافت الہند‘ اپنے دوست عبدالرزاق ملیح آبادی کی دیکھ ریکھ میں نکالا، جس میں تعلیم کے ذریعے مسلم ملکوں اور ہندوستان کی اہمیت پر اور ان سے تعلیم کے میدان میں کیا کچھ تعاون لیا جاسکتا ہے یا تعاون دیا جاسکتا ہے اس سلسلے میں مولانا نے بہت کچھ لکھا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مشرقی تعلیم کے ادارے، حیدر آباد کی عثمانیہ یونیورسٹی میں اسلامی تعلیمی ادارہ کے فروغ میں مولانا آزاد کا بڑا اہم رول ہے۔ 
مولانا کو تاریخ سے خاص لگاؤ تھا، اس لیے انھوں نے نیشنل آرکائیوز اور نیشنل میوزیم پر خصوصی توجہ دی جہاں ماضی کے بیش قیمت مخطوطے اور نقوش محفوظ رکھے جاسکیں۔ مولانا نے سنسکرت کی قدیم وراثت کو بچائے رکھنے اور اس کی توسیع و اشاعت پر بھی پورا زور دیا۔ 
مولانا نے وزارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مسلمانوں کے مذہبی اداروں اور تعلیم کے میدان میں کام کرنے والوں کی ایک کانفرنس بلائی۔ لکھنؤ کی اس کانفرنس میں انھوں نے مدرسوں کے نصاب کو جدید بنانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس، ٹکنالوجی اور سماجی میدان میں جو ترقی ہورہی ہے وہ مدرسوں کے نصاب میں شامل ہو تاکہ دینی اور دنیاوی تعلیم کا سنگم ہوسکے۔ مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کا جدید تعلیم پر بھی خاصا زور تھا۔ 
مولانا آزاد ملک کو ہر میدان میں آگے بڑھانا چاہتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ تعلیمی پالیسی ایسی ہونی چاہیے جو زمانے کا ساتھ دے سکے۔ ہمارے ملک کی تہذیب و ثقافت کی مناسبت سے ہو اور وہ تعلیم جو ملک کے اندر انگریزوں کی پھیلائی ہوئی ہے اور جس میں غلط نظریے سموئے ہوئے ہیں، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
مولانا اپنی علمی بصیرت، ذہنی کشادگی اور ملک سے والہانہ لگاؤ کے سبب ہمہ جہت ترقی کے لیے انسانوں کا ایک ایسا گروہ پیدا کرنا چاہتے تھے جو جدید عہد کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اسی کے پیش نظر مولانا نے نہایت جامع تعلیمی پالیسی وضع کی، مگر ہمیں اس بات پر بے انتہا حیرت ہوتی ہے کہ مولانا جیسے بلند پایہ ماہر تعلیم کے انتقال کے برسوں بعد مرکزی حکومت کو یہ خیال آیا کہ ملک میں قومی یوم تعلیم منانے کے لیے کسی ایک دن کا انتخاب کیا جائے اور یہ دن مولانا آزاد کی ولادت باسعادت کے دن سے بہتر اور کون سا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا گزشتہ کئی برسوں سے ہم ۱۱؍ نومبر کو قومی یوم تعلیم منا رہے ہیں۔ 
مولانا کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ علم وفضل اور سیاسی سوجھ بوجھ میں انھیں مہارت حاصل تھی۔ صحافت اور سیاست ان کی زندگی کے دو نمایاں پہلو تھے۔ ’الہلال ‘ اور ’البلاغ‘ کی اشاعت کا طنطنہ اس کا شاہد ہے۔ مجاہدِ آزادی بھی تھے اور شہر بدر ہونا اور سلاخوں کے پیچھے رہنا ان کے معمولاتِ زندگی میں شامل تھا۔ وسیع النظر ہونا اور عالمی سطح پر علمی کوششوں کو جس میں سائنسی کوششیں بھی شامل ہیں ‘ پر مضامین لکھنا ان کی وسیع النظری اور وسیع القلبی کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ ان کی انشاء پردازی، ان کی تحریر کی لطافت، ان کا Sense of Humour بامِ عروج پر تھا۔ ’الہلال‘ 13 جولائی 1912ء میں افقِ صحافت پر نمودار ہوا تو اس کی تیز کرنیں پورے ملک میں پھیل گئیں جنھوں نے عوام الناس کو بیدار کردیا۔ ’الہلال‘ کی اشاعت صحافت کی ترقی کا مسئلہ تھا‘ نہ ہی قلم کی جولانی دکھانے کا کوئی آلہ، یہ تو قومی ترقی کو فروغ دینے کا ترجمان تھا۔ یہاں عقل کی گنجائش تھی نہ نفع کا سودا ۔ ’الہلال‘ کے تیسرے شمارے کے شذرات میں مولانا لکھتے ہیں :
’’ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لیے نہیں بلکہ تلاشِ زیاں و نقصان میں آئے ہیں۔ صلہ و تحسین کے لیے نہیں بلکہ نفرت و دشنام کے طلب گار ہیں۔ عیش کے پھول نہیں بلکہ خلش و اضطراب کے کانٹے ڈھونڈتے ہیں۔ دنیائے سیم و زر کو قربان کرنے کے لیے بلکہ خود اپنے تئیں قربان کرنے آئے ہیں ۔۔۔ 
بدہ بشارتِ طوبیٰ کہ مرغِ ہمتِ ما
براں درخت نشیند کہ بے ثمر باشد
(’الہلال‘ جلد :1 ، شمارہ : 3 ، صفحہ 2)
’الہلال‘ کی اشاعت نے سوتے کو جگایا۔ اس سے صرف صحافت کی دنیا ہی میں انقلاب نہیں آیا بلکہ ملکی، ملّی اور سیاسی روشن خیالی بھی عام ہوئی۔ جذبۂ حریت کو فروغ دینے میں اس اخبار نے جو کردار ادا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ’الہلال ‘ مولانا آزاد کی علمی، ادبی، دینی اور سیاسی بصیرت کا آئینہ دار تھا۔ اس پر ان کی شخصیت کی چھاپ تو تھی ہی لیکن سب سے بڑھ کر ہندوستانیوں کے سوئے ہوئے ذہن کو جگانے کا ایک پیغام تھا۔ مولانا کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کو علمی، فکری اور عملی سطح پر بیدار کرنا تھا اور ہندوستانیوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص، غلامی کی زنجیر کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا تھا۔ انھوں نے ہر ہر لفظ کو جذبۂ حریت کا ایک جام اور آزادی کی جدوجہد کا پیغام بنا دیا تھا۔ ہرلفظ جذبے کی تیز و تند آنچ میں ڈھلا ہوا ایک شعلہ تھا۔ اس نے ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوؤں میں نہ صرف محبت کی جوت جگائی بلکہ انھیں تازیانے بھی لگائے۔ مسلمانوں کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ بھی اس جہدِ آزادی میں اپنا فرض ادا کریں ۔ وہ قومیں جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوتی ہیں‘ صفحۂ ہستی سے مٹا دی جاتی ہیں۔ ان کا پیغام غیر متزلزل تھا۔ اس میں کوئی تذبذب نہ تھا۔ وہ آزادی کا پیغام دینے کے لیے جیل جانے کو تیار تھے۔ گھر کے زیورات گروی رکھے گئے لیکن پیغام کا سلسلہ جاری رہا۔ ’’الہلال‘‘ 18 دسمبر 1912 کے شمارے میں کہتے ہیں :
’’ایک وقت تھا میں نے ہندوستان کی آزادی کے حصول کا احساس دلاتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔ جو ہونے والا ہے اس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے روک نہیں سکتی۔ ہندوستان کی تقدیر میں سیاسی انقلاب لکھا جاچکا ہے اور اس کی زنجیریں بیسویں صدی کی ہوائے حریت سے کٹ کر گرنے والی ہیں ۔۔۔ اگر تم نے وقت کے پہلو بہ پہلو قدم اٹھانے سے پہلو تہی کی اور تعطل کی موجودہ زندگی کو اپنا شعار بنائے رکھا تو مستقبل کا مورخ لکھے گا کہ تمھارے گروہ نے جو 7کروڑ انسانوں کا ایک غول تھا ‘ ملک کی آزادی کے بارے میں وہ رویہ اختیار کیا جو صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والی قوموں کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ آج ہندوستان کا جھنڈا پورے شکوہ سے لہرا رہا ہے ۔ یہ وہی جھنڈا ہے جس کی اڑانوں سے حاکمانہ غرور کے دل آزار قہقہے پر تمسخر کیا کرتے تھے ۔ ‘‘
انھوں نے کلکتہ سے اس ہفت روزہ اخبار کا اجراء کر کے اردو صحافت کی تاریخ میں ایک شان دار باب کا اضافہ کیا۔ ’الہلال‘ مولانا آزاد کی تعلیمی، ادبی، دینی و سیاسی بصیرت کا عکس تھا ۔ اس پر ان کی شخصیت کی پوری چھاپ ملتی ہے ۔
مولانا کی صحافت سے مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑ گئی اور وہ آزادی کی راہ میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ شانہ بشانہ گامزن ہوگئے ۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین ماہ کے اندر اس کے تمام شماروں کو دوبارہ طبع کرانا پڑا ۔ اتنا ہی نہیں ’الہلال ‘ کی اشاعت پچیس ہزار کی حد کو پار کرگئی جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بڑی بات تھی ۔ ’الہلال ‘ کی امتیازی خصوصیت اس کے عالمانہ مضامین اور مولانا آزاد کا انفرادی اسلوب تھا۔
مولانا آزاد کی پرورش و پرداخت خالص دینی ماحول میں ہوئی تھی۔ ان کی فطرت شروع سے باغیانہ رہی جو غلامی کو قبول نہیں کرسکتی تھی ۔ اس کا ثبوت ان کا اسلوبِ نگارش ہے ۔ ان کی نگارشات کا اسلوب و آہنگ جداگانہ ہے۔ پسِ دیوارِ زنداں لکھے جانے والے ’غبارِ خاطر ‘ کے خطوط ہوں یا ’الہلال ‘ و ’البلاغ‘ کا خطیبانہ اور پرشکوہ انداز‘ ان کی انفرادیت ہر جگہ قائم رہتی ہے۔ مولانا کی یہ صلاحیت خدائے بخشندہ کی بخشی ہوئی تھی اور انھوں نے عوام کے اندر قوم پرستی کے جذبات کو بیدار کرنے اور اسے غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینکنے پر آمادہ کرنے کے لیے اپنی اس خداداد صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا۔ اپنے دونوں اخبارات کے ذریعے انھوں نے خوابیدہ قوم کو بیدار کرنے کا فریضہ انجام دیا نیز برطانوی حکومت کی پالیسیوں اور اس کے مظالم کے خلاف جہاد چھیڑ دیا ۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران جب ہندوستانی اخبارات پر سنسر لگا اور ’الہلال‘ پر پابندی لگا دی گئی تو اس کے بعد انھوں نے ’البلاغ‘ کو جہاد کا وسیلہ بنایا۔ اس کے ذریعے بھی انھوں نے ملک و قوم کی وہ عظیم الشان خدمات انجام دیں جن کے ذکر کے بغیر اردو صحافت کی تاریخ نامکمل ہے۔ 12نومبر 1915 میں ’البلاغ‘ جاری ہوا تو حق کی اس آواز کو دبانے کے لیے برطانوی قہر و غضب کی بجلیاں گریں اور چھ ماہ کے اندر ہی اسے بھی بند کردینا پڑا۔ یہ مولانا کے اسلوبِ نگارش کا کمال تھا کہ بقول سعید الحق دسنوی ان کے جملے آگ بن کر ان کے قلم سے نکل پڑتے تھے۔ مولانا نے اسلام کی تاریخ کو دہراتے ہوئے مسلمانوں کو آزادی کی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’میں وہ صدا کہاں سے لاؤں جس کی آواز چالیس کروڑ دلوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کردے۔ میں اپنے ہاتھوں سے وہ قوت کیسے پیدا کروں کہ ان کی سینہ کوبی کے شور سے سرگشتگانِ خواب موت سے ہوشیار ہوجائیں ۔ دشمن شہر کے دروازے توڑ رہے ہیں ۔ اہلِ شہر رونے میں مصروف ہیں۔ ڈاکوؤں نے قفل توڑ دیے ہیں اور گھر والے سوئے ہوئے ہیں۔ لیکن اے رونے کو ہمت اور مایوسی کو زندگی سمجھنے والو!یہ کیا ہے کہ تمھارے گھر میں آگ لگ چکی ہے، ہوا تیز ہے اور شعلوں کی بھڑک سخت ہے، مگر تم میں سے کوئی نہیں جس کے ہاتھ میں پانی ہو ۔ ‘‘
مولانا کا کمال یہ تھا کہ وہ جو کچھ لکھتے تھے وہ دماغ کے ذریعہ دل میں اتر جاتا تھا ۔ ان کی نگارشات کی تہوں میں آتش فشاں موجود تھا جو بارود کی صورت میں جب پھٹتا تھا تو برطانوی حکومت کے ہوش ٹھکانے لگ جاتے تھے۔ مولانا کے ’الہلال‘ و ’البلاغ‘ کی تحریروں میں جو زیر و بم تھا، جو رعب و داب تھا اور جو شان و شوکت تھی ‘ شاید اسی سے متاثر ہو کر رشید احمد صدیقی نے کہا تھا کہ ’’مولانا کا اسلوبِ تحریر ان کی شخصیت تھی۔ ان کی شخصیت اور ان کا اسلوب دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔ ‘‘مولانا پہلے اور آخری شخص ہیں جنھوں نے باقاعدہ قرآن کو اپنے اسلوب کا سرچشمہ بنایا۔ 
مولانا آزاد نے اپنے اخبار ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے ذریعے جن مقاصد پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی تھی ‘ 19ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کے اوائل کے حالات و حوادث ان کے پیشِ نظر تھے۔ انھوں نے امتِ مسلمہ میں باہمی نزاعات اور مناقشات، پریشان خیالی اور یاس و حرماں کی وجہ سے مذہبی خیالات سے بحث کی تھی اور برگزیدہ بندہ کے اعمالِ حسنہ کو اپنے سیرت و کردار کا حصہ بنانے کی دعوت دی تھی ۔ تمدنی اور ثقافتی افکار نے جو نئے باب کھولے تھے ‘اس کی ضرورت آج 21ویں صدی میں بھی ہے۔

Dr. Imam Azam, 
Rigional Director (MANUU),
 Kolkata Rigional Center, 
71 G, Tiljala Road, Kolkata 700046 (WB)

ماہنامہ اردو دنیا، نومبر2016






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. بہت عمدہ تحریر ہے ۔کیا آپ ایک کتاب کی دستیابی میں میری مدد کرسکتے ہیں۔کتاب کا نام ہے مولاناآزاد اوران کے ناقد مصنف ایم اے شاہد اگر اس کی سافٹ کاپی مل جائے تو مہربانی ھوگی۔

    جواب دیںحذف کریں