15/4/19

سید سلیمان ندوی ( نقوشِ سلیمانی کے حوالے سے) مضمون نگار: فاروق اعظم قاسمی




سید سلیمان ندوی
( نقوشِ سلیمانی کے حوالے سے)


فاروق اعظم قاسمی
علامہ سید سلیمان ندوی (22 نومبر 1884 ۔ 22 نومبر 1953) مرحوم ایک مایۂ ناز عالمِ دین، اسلامی تاریخ کے ماہر اور زبان و ادب کے محقق و ناقد ہیں۔ ان کا اصل میدان تو اسلامی تاریخ ہے اوراردو ادب سے ان کا تعلق ثانوی ہے۔ تاہم اس باب میں بھی ان کا نام بڑی عظمت سے لیا جاتا ہے۔ 
اس نقطے پر تو تما م اربابِ نظر متفق نظر آتے ہیں کہ علامہ سید سلیمان ندوی اسلامی علوم کے ماہر اور اس کے اسرار و رموز سے واقف و با خبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شبلی جیسی تاریخ ساز ہستی کی شاگردی نصیب ہوئی، پھربعد میں یہی شاگرد شبلی کے علوم و معارف کا حقیقی وارث و امین بھی ٹھہرا۔ شبلی 1914 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ان کی وفات کے بعد نومبر 1914 کو دارالمصنّفین اعظم گڑھ کی بنیاد ڈالی گئی اور جولائی 1916 میں سید صاحب نے ماہنامہ ’معارف‘ کے اجرا کی شکل میں اپنے استاذ کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جس کا شاندار سلسلہ اب ایک صدی عبور کرنے کو ہے۔ علامہ شبلی کا ایک عظیم خواب ’سیرت النبیؐ‘ کی تکمیل بھی ہے۔ اس کے علاوہ سیرتِ عائشہؓ، حیاتِ شبلی، حیاتِ امام مالک، خیام، تاریخِ ارض القرآن، اور ایک معروف اسکول ٹیکسٹ بک رحمتِ عالم وغیرہ ندوی صاحب کی علمی، تحقیقی اور تاریخی قد آوری کی زندہ تصویریں ہیں۔ 
نقوشِ سلیمانی کا شہرہ اس لیے بھی ہے کہ اردو زبان کے آغاز کے سلسلے میں سید صاحب کا جو ’ نظریۂ سندھ ‘ ہے،اس کا انکشاف پہلی بار اسی کتاب کے ذریعے ہوا۔ سید صاحب اپنے اس دعویٰ کے پیچھے مضبوط دلائل بھی رکھتے ہیں۔فرماتے ہیں: ’’ مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں، اس لیے قرینِ قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰ اسی وادیِ سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔ ‘‘(نقوشِ سلیمانی، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ (1993) چوتھا ایڈیشن،ص31) 
یہ الگ بحث ہے کہ اس باب میں ان کے اس نظریے کو زیادہ اعتبار حاصل نہیں ہے لیکن سرے سے اس نظریے کو مسترد کرنا بھی آسان نہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کا خیال ہے : ’’ اردو زبان کے آغاز اور ابتدائی نشوو نما سے وابستہ مباحث کے لحاظ سے بیشتر ماہرینِ لسانیات میں اسے کسی خاص خطے سے مشروط کرنے کا رجحان قوی تر نظر آتا ہے۔ چنانچہ پنجاب، دکن، اور سندھ کو اردو کی جنم بھومی ثابت کر نے کے لیے جو نظریات پیش کیے گئے انھیں خصوصی شہرت حاصل ہے بلکہ بیشتر لسانی مباحث بھی انھیں نظریات کی ضمنی پیداوار قرار پاتے ہیں‘‘۔ (اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی (2013) دوسرا ایڈیشن، ص63-64) 
عرب و ہند کے تعلقات بھی چوں کہ سید صاحب کا موضوع رہا ہے اور اس سلسلے میں ان کی ایک مستقل کتاب ’’ عرب و ہند کے تعلقات ‘‘بھی ہے۔ اس لیے وہ اپنے ’نظریۂ سندھ‘ کی دلیل یوں پیش کرتے ہیں: ’’ ایک ایسا ملک جو مختلف نسلوں، مختلف قوموں، مختلف زبانوں کا مجموعہ تھا، نا گزیر ہے کہ وہاں باہمی میل جول کے بعد ایک زبان پیدا ہو۔ وہ پیدا ہوئی اور اسی کا نام اردو ہے‘‘۔ (نقوش،ص5) 
سید صاحب کا خیال ہے کہ اردو کا نام اردو بھی غلط ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ ہندوستان کی اس مشترک زبان کو اردو کہنا، میں اصطلاح کی غلطی سمجھتا ہوں۔ اردو کے ابتدائی مصنّفین نے اس کو ہمیشہ ہندی کہا ہے اور انگریزوں کی زبان میں اب تک اس کا نام ’’ ہندوستانی‘‘ ہے‘‘۔( نقوش،ص7)اسی کی وضاحت کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ اس زبان کا نام ’ اردو‘ تیرہویں صدی کے اوائل کی بات ہے یعنی آج سے تقریباً ڈھائی سو سال پہلے کا یہ نام ہے۔ 
سید سلیمان ندوی اس بات پربہت مصرنظر آتے ہیں کہ ہندوستان کی مشترکہ زبان کا نام اردو غلط ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح عرب کی زبان عربی، چین کی زبان چینی،جاپان کی جاپانی اور روس کی زبان روسی کہلاتی ہے اسی طرح ہندوستان کی اس مشترکہ زبان کا نام بھی ہندوستانی ہونا چاہیے۔ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں: ’’ایک شائستہ اور مہذب زبان کا خاصہ ہے کہ اس کے نام لینے کے ساتھ وہ قوم یا ملک سننے والے کی سمجھ میں آجائے۔... لفظِ اردو سے اس قسم کی کوئی مدد ذہنِ انسانی کو نہیں ملتی اس لیے اس کی جگہ اس کے اصلی نام ’ہندوستانی‘ کو رواج دینا چاہیے‘‘۔( نقوش،ص105)
انھوں نے اس سلسلے میں اہلِ وطن کے سامنے بڑی قیمتی تجاویز بھی رکھیں اورانھیں نظر انداز کرنے کی صورت میں اس کے خطرناک انجام سے بھی آگاہ کیا۔سید صاحب اس ہندوستانی کے قائل تھے جس کا رسمِ خط فارسی تھا لیکن وہ اس بات کے سخت مخالف تھے کہ اس پیاری اور شیریں زبان کو عربی وفارسی اور سنسکرت کے بھاری بھرکم الفاظ سے بوجھل کر دیا جائے۔ ’ہماری زبان بیسویں صدی میں‘ میں سید صاحب نے پورے ملک میں اردو زبان کی وسعت و ترقی، مختلف تحریکوں کے زیرِ اثر اردو زبان و ادب کے قائم ہونے والے نئے نئے جزیروں، اردو کی جامعات اور اداروں، اردو کو عالمگیر حیثیت عطا کرنے میں دینی مدارس کے کرداروں اور مختلف اردو اخبار ات و رسائل کے اجرا کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ اخیر میں مختلف موضوعات پر مشتمل اردو کی مطبوعہ کتابوں کی ایک طویل فہرست بھی درج کی گئی ہے۔
ایسے ہی مشمولہ ’ہماری زبان‘ میں بھی اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کی سید صاحب نے پر زور وکالت کی ہے۔ یہ مضمون در حقیقت اردو ہندی تنازع کے سلسلے میں اردو کے خلاف اٹھائے گئے چند سوالات کا جواب ہے جس میں سید صاحب نے بڑی دردمندی کے ساتھ اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر اس مشترکہ وراثت ’ہندوستانی‘ کو نظر انداز کیا گیا تو ملک کے ہزار سالہ تہذیب و تمدن کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔
سید صاحب کے خطبات کی روشنی میں اردو زبان کے تئیں ان کے نظریات کے ذکر کے بعد اب ان کی تحقیق و تنقید کی طرف قلم کا رخ موڑا جاتا ہے۔ سید صاحب نے اپنے تحقیقی مقالات اور تقریظ و مقدمے میں جو ادبی گفتگو یا آرا پیش کی ہیں انھی تحریروں کے تناظر میں ان کے تحقیقی و تنقیدی مقام و مرتبے کو متعین کرنے کی سعی کی جائے گی۔ 
مقالات کے ضمن میں پندرہ مضامین شاملِ کتاب ہیں۔ ان میں بیشتر مضامین کا رنگ تحقیقی ہے۔ ان کے خطبات کا رنگِ تحقیق بھی خاصا شوخ ہے لیکن خطبات کے مقابلے میں مقالات زیادہ مفصل اور مدلل ہیں۔ متذکرہ مقالات میں ’اکبر کا ظریفانہ کلام‘، ’ ہاشم علی کا مجموعۂ مراثی ‘ کے سوا بقیہ کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ تحقیق ہی سے ہے بطورِ خاص ’بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق‘‘ (بالاقساط ) ’ تہنید‘ اور ’ جواہر الاسرار میں کبیر کی بات چیت‘۔ ان مقالات میں ’انڈیا آفس لائبریری میں اردو کا خزانہ‘ کو سفرِ انگلینڈ کا اور ’ سفرِ گجرات کی چند یادگاریں ‘ کو سفرِ گجرات کا رپورتاژ کہنا چاہیے۔
’’ انجمن اردوئے معلی کے چند سوالوں کا جواب ‘ اور ’زبانِ اردو کی ترقی کا مسئلہ‘۔اردو ہندی تنازع کے تصفیے اور اردو کو قومی زبان کا مقام دینے کے سلسلے میں رشید احمد صدیقی نے مختلف اصحابِ نظر اور دانشوران سے چند سوالات کیے تھے۔ سوالنامہ سید صاحب کے پاس بھی آیا تھا۔ اول الذکر انھیں سوالات کے جواب پر مشتمل مضمون ہے۔ کسی بھی زبان کی ترقی کے حوالے سے پروفیسر براؤن ( مستشرق ) نے چند معروضات پیش کیے تھے۔ ان ہی معروضات کی روشنی میں مہدی حسن صاحب نے دارالمصنفین اعظم گڑھ کے سامنے کچھ تجاویز رکھی تھیں۔ آخر الذکر اسی تجویزی خط کا مدلل جواب ہے۔اس سے قبل سید صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اردو میں ایک جامع انسائیکلو پیڈیا تیار کرنے کی تجویز ر کھی تھی اور اردو ادب میں انسائیکلو پیڈیا کا یہ تصور شاید پہلا تھا۔ اس کی ترتیب کی معقول دلیل بھی انھوں نے پیش کی تھی لیکن قوم کی بہت سی محرومیوں کے ساتھ ایک اور محرومی کا اضافہ ہوا کہ سید صاحب کا یہ خواب خواب ہی رہا۔ مہدی حسن صاحب کو انھوں نے اس مضمون کا بھی حوالہ دیا کہ بازار میں ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ منصوبہ ناکام رہا اس لیے کہ پروفیسر براؤن کے یہ مشورے یہاں کی فضا کے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ سید صاحب فرماتے ہیں : 
’’ ہمارے نزدیک یہ اس وقت تک ناقا بلِ عمل ہیں جب تک ملک میں اس کی مانگ اور اس کی قدر دانی کا جذبہ نہ پیدا ہو ‘‘۔ ( نقوشِ سلیمانی، ص 184) 
اپریل 1692 میں شاید کانگریس کی طرف سے ’ہوم رول ‘ کی تجویز آئی تھی تو سید صاحب نے یہ مضمون ’’ ہوم رول سے پہلے ہوم لنگوئج‘‘ تحریر کیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ ہوم رول کے تخیل سے پہلے کم از کم ساتھ ساتھ ہوم لنگوئج کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔( نقوش،ص194) اس مضمون میں بھی ملکی زبان میں تعلیم دیے جانے پر سید صاحب نے خاصا زور دیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ہمارے نزدیک تو صرف اس کا علاج اردو زبان ہے جس کی عملاً ہمہ گیری اور عمومیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ (نقوش،ص197-98) ’اردو کیوں کر پیدا ہوئی ‘ میں السنۂ عالم کے جملہ خاندانوں کا جائزہ لیا گیا ہے، اردو کی پیدائش کے اسباب و عوامل اور پس منظر سے بھی بحث کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ اسلامی عہد کی ادبی تاریخ کے گہرے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مخلوط زبان سندھ، گجرات، اودھ، دکن، پنجاب اور بنگال ہر جگہ کی صوبہ وار زبانوں سے مل کر ہر صوبے میں الگ الگ پیدا ہوئی‘‘۔ (نقوش،ص251) ایک لسانی اصول کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’ ہر زبان تین قسم کے لفظوں سے بنتی ہے۔اسم، فعل، حرف۔ اس بولی میں جس کو اب اردو کہنے لگے ہیں، فعل جتنے ہیں وہ دہلوی ہندی کے ہیں۔ حرف جتنے ہیں ایک دو کو چھوڑ کر وہ ہندی کے ہیں البتہ اسم میں آدھے اس ہندی کے اور آدھے عربی،فارسی، اور ترکی کے لفظ ہیں‘‘۔ ( نقوش،ص255)
اردو لسانیات کے باب میں یہ مضمون بہت وقیع ہے۔ یہ خیال کہ سید صاحب علمِ لسانیات سے سرے سے واقف نہیں تھے زیادہ صحیح نہیں ہے البتہ عالمی سطح پر لسانیات کی مہارت ان کے یہاں ڈھونڈنا مشکل ہے تاہم مشرقی زبانوں بطورِ خاص عربی، فارسی اور ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانوں میں سید صاحب کو دسترس حاصل تھی اور وہ بحسن و خوبی ان زبانوں کی باریکیوں سے با خبر تھے۔ ’بہار کے نو جوان اور ادب کی خدمت‘ کو اَسّی سال قبل کی اردو ادب کی تاریخ کا ایک اہم جز قرار دیا جاسکتا ہے۔ آٹھ دہائیوں پہلے کا لکھا ہوا یہ ایک تجزیاتی مضمون ہے لیکن آج کے تناظر میں بھی اگر اس مضمون کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سید صاحب کے پیش کردہ یہ سارے نکات اور مفید مشوروں کی معنویت علیٰ حالہ برقرار ہے۔ نئے شعرا و ادبا کے لیے انھوں نے جو رہنما خطوط پیش کیے تھے وہ سب کے سب آج بھی منتظرِ عمل ہیں۔ 
’ بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق‘ دو قسطوں کا ایک طویل مضمون ہے جس میں بالدلیل قدیم الفاظ کی دل چسپ تحقیق پیش کی گئی ہے۔ علامہ ندوی کو چوں کہ عربی، فارسی اور انگریزی پر یکساں عبور حاصل تھا اور اردو تو ان کی مادری زبان تھی اس لیے لفظوں کی تحقیق میں مزید دلکشی پیدا ہو گئی ہے۔ ’ تہنید‘ کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھنا چاہیے بلکہ بعض اعتبار سے یہ مضمون اول الذکر سے زیادہ جامع اور پر لطف ہے۔ ’ تہنید‘ میں یہ بتایا گیا ہے کہ عربی، فارسی اور سنسکرت سے ’ہندوستانی‘ تک کس طرح لفظوں کا سفر طے ہوا اور بالآخر یہا ںآکر ان کی حتمی شکل کیا بنی۔ اس باب میں سید صاحب کا خیال یہ ہے کہ جس طرح سے ایک مہاجر ہجرت کر کے جس خطۂ ارضی کو اپنا مستقل مسکن بناتا ہے اور اسے وہیں کے قانون کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے اسی طرح لفظوں کی ہجرت کا حال ہے۔ اس ردو بدل اور شکست و ریخت کو سید صاحب نے ہر زندہ زبان کا حق قرار دیا ہے۔ 
’ اکبر کا ظریفانہ کلام ‘ میں علامہ مرحوم نے اکبر الٰہ آبادی کی ظریفانہ شاعری پر بھر پور گفتگو کی ہے۔ اہلِ ادب واقف ہیں کہ اکبر مرحوم نے ہندی معاشرے کو مغربی طرزِ زندگی کی خرابیوں سے آگاہ کر کے اس کے نقصانات سمجھائے بلکہ مغرب کا کھلم کھلا مذاق بھی اڑایا۔ سید صاحب نے اپنے سات نکات کے ذریعے اکبر کی شعری خصوصیات و امتیازات کو بیان کیا ہے اور مثالوں کے ذریعے کلامِ اکبر کی تفہیم کو آسان کرنے کی خوب صورت کوشش کی ہے۔ ’جواہر الاسرار میں کبیر کی بات چیت‘ یہ ایک تشنہ اور ادھورا تاثراتی مضمون ہے۔ ’ہاشم علی کا مجموعۂ مراثی‘ یہ مضمون بظاہر ہاشم علی کے مرثیوں کے مجموعے پر ایک تبصراتی مضمون ہے لیکن اس ضمن میں سید صاحب کی دکنی زبان پر دسترس اور اس پر گہری نظر کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔ 
اردو میں تعمیری ادب میں بھی سید صاحب کا نام نمایاں ہے۔ غیر افسانوی نثر میں سوانح نگاری اور سفرنامہ نگاری میں بطورِ خاص انھوں نے اپنی توجہ صرف کی۔ ادبی صحافت سے بھی ان کی گہری وابستگی رہی ہے جس کی گواہی ’معارف ‘ اعظم گڑھ سے بآسانی لی جاسکتی ہے۔ انورسدید مرحوم نے انھیں شبلی اسکول کا رکنِ رکین قرار دیا ہے۔ انور سدید لکھتے ہیں : ’’ وہ اعلیٰ پائے کے نقاد تھے۔ حالی و شبلی، جگراور شاد پر ان کے مضامین جمالیاتی تنقید کی مثالیں ہیں ‘‘۔ ( تاریخِ اردو ادب،ص387)
سید صاحب کی اس کتاب میں مکتوب نگاری پر بھی دو اہم مضامین شامل ہیں۔اول ’مکاتیبِ شبلی‘ دوسرا ’مکاتیبِ مہدی‘۔ اول الذکر میں شبلی کے اولین مجموعۂ خطوط کی جمع آوری اور خطوط کی خصوصیات و امتیازات پر عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔ آخر الذکر میں خط کی تاریخ و تعریف اور اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے مہدی افادی کے خطوط کے امتیازات بھی بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ مرحوم کا قلم حد سے زیادہ چلبلا اور البیلا تھا۔ نوکِ قلم پر جو بات آگئی وہ نا گفتنی بھی ہوتی تو گفتنی ہو کر نکل جاتی اور پھر اس طرح نکلتی کہ شوخی صدقہ ہوتی اور متانت مسکراکر آنکھیں نیچی کر لیتی‘‘۔ ( نقوش،ص: 385)لیکن کہیں کہیں سید صاحب کا قلم تنقید کرتے کرتے ذاتی یادوں اور محبت و عقیدت کی سرحد میں جا گھستا ہے جو تنقید کے مزاج کے خلاف ہے۔اس کے با وجود یہ مضمون سید صاحب کی تنقیدی بصیرت کا واضح ثبوت ہے اور اردو مکتوب نگاری کے باب میں ایک خاصے کی چیز بھی۔ 
عبادت بریلوی نے سید صاحب کی عملی تنقید پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ سید سلیمان ندوی کی عملی تنقید کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاعری کی خصوصیات تو بیان کر دیتے ہیں لیکن اس سلسلے میں محض اصولوں سے کام نہیں لیتے۔ اسی وجہ سے کوئی معقول تجزیہ ان کے یہاں نہیں ملتا‘‘۔ ( اردو تنقید کا ارتقا، ص269) 
حق یہ ہے کہ سید صاحب کا اصل میدان تحقیق ہے خواہ اس کا تعلق ادب سے ہو یا تاریخ سے، تاہم اردو تنقید میں بھی وہ اپنی ایک نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ مشرقی تنقید کے حوالے سے عبادت بریلوی خود لکھتے ہیں : ’’ تنقید کی مشرقی اصطلاحات سے وہ اپنی تنقیدی تحریروں میں ضرور کام لیتے ہیں۔ فصاحت و بلاغت، تشبیہات و استعارات، لطافت و روانی، بے ساختگی، آمد، آورد، جدتِ ادا، غرض یہ کہ اس قسم کی تمام اصطلاحات ان کی تنقید میں ملتی ہے۔ کہیں کہیں انھوں نے سادگی اور جوشِ بیان وغیرہ کی اصطلاحات سے بھی کام لیا ہے جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی عہدِ تغیر کی تنقید سے متأثر ہیں‘‘۔ (اردو تنقید کا ارتقا، ص269)
حالی کی مسدس ایک نظم ہی نہیں اسے مسلم معاشرے کے مختلف طبقوں میں در آنے والی خرابیوں کی اصلاح کا ایک جامع انسا ئیکلو پیڈیا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ سید صاحب لکھتے ہیں کہ حالی نے روایت سے بغاوت کر کے اردو شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ’مسدس حالی‘ یہ مضمون در اصل مسدس پر لکھا سید صاحب کا دیباچہ ہے۔ مسدس کا اتنا خوب صورت تجزیہ شاید ہی اس سے قبل کسی نے کیا ہو۔ اس مضمون میں مسدس کی تالیف کے پس پردہ اس کے اسباب و محرکات، مقاصد اور موضوعاتی و فنی پہلو سے اس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس تجزیاتی مضمون کے مطالعے سے حالی کے مسدس پڑھنے کا اشتیاق مزید بڑھ جاتا ہے اور جو اس کا مطالعہ کر چکا ہے اس کے دل میں دوبارہ اس کے پڑھنے کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے۔ سید صاحب نے کلام شاد پر جو مقدمہ تحریر کیا ہے وہ ایک انتہائی تشنہ تبصراتی مضمون ہے۔ وہ شاد کو ایک عظیم شاعر ضرور تسلیم کرتے ہیں تاہم مدلل انداز میں ان کے کلام پر گفتگو کرنے سے سید صاحب کا قلم جھجھک محسوس کرتا ہے۔ اس کی وجہ بھی سید صاحب خود ہی ’عدیم الفرصتی‘ بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس پر اظہارِ افسوس بھی کرتے ہیں کہ اب تک ’ کلیاتِ شاد ‘ منظرِ عام پر نہیں آپایا ہے لیکن اس سے وہ مایوس بھی نہیں ہوتے۔چناں چہ سید صاحب کی وفات کے 22 سال بعد 1975 میں بہار اردو اکادمی کے زیرِ اہتمام کلیم الدین احمد نے تین ضخیم جلدوں میں کلیاتِ شاد مرتب کر کے شائع کیا۔
’ شعلۂ طور‘ یہ جگر مراد آبادی کا شعری مجموعہ ہے۔ ’تعارف نو وارد شاعر‘ یہ مضمون در اصل اسی مجموعے کا دیباچہ ہے۔ اس میں تنقید کم اور تعارف و تبصرہ زیادہ ہے۔ جگر کا تعارف کرتے ہوئے سید صاحب لکھتے ہیں : ’’ جگر شاعر ہے مگر کیسا شاعر؟ تنہا شاعر، بلکہ ہمہ شاعر، ان کا طرز ابنائے زمانہ کے طرز سے الگ، لکھنؤ اور دہلی دونوں حکومتوں سے آزاد، موزوں الفاظ اور دل کش ترکیبوں کے با وجود بے ساختگی اور آمد سے معمور، ہر تکلف، تعمق اور آورد سے پاک، طلسمِ الفاظ سے خیالات کی ایک دنیا بناکر کھڑی کر دینے والا ‘‘۔ ( نقوش،ص429) یہ تحریر جگر اور کلامِ جگر کے مختصر تعارف پر مشتمل ہے اور انداز ایسا کہ اسے جگر کا خاکہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ’ خیابان‘ یہ تحریر محمود اسرائیلی کے مجموعۂ غزل ’خیابان ‘ کا مقدمہ ہے۔ اس میں غزل گوئی پر سید صاحب نے بڑی عمدہ بحث کی ہے۔ فنِ غزل پر گفتگو کرتے ہوئے معاصر شاعری کے بدلتے ہوئے منظر نامے کا جائزہ بھی لیا ہے اور ساتھ ہی اسرائیلی کی شاعری کو شبلی و ظفر علی خان اور اقبال کے رنگِ سخن کا حسین سنگم قرار دیا ہے۔ یہاں بھی تنقید کے بجائے تقریظ کا رنگ غالب ہے۔ ’کلیاتِ عشق‘ ایک طویل مضمون ہے جو شاہ رکن الدین عشق عظیم آبادی کے کلیات کا مقدمہ ہے۔ عشق صاحب ایک صوفی شاعر تھے۔ اس دیباچے کا تقریباً نصف حصہ تصوف اور اس کے مختلف سلسلوں کے بیان میں صرف کیا گیا ہے۔ نصفِ ثانی میں بھی آدھا حصہ کلامِ عشق پر معروضی گفتگو کی گئی ہے اور بقیہ حصے میں عشق و جذب سے معمور شاعر کے اشعار درج کیے گئے ہیں۔ 
’ خمستان‘ عبد السمیع مآل اثر صہبائی کا مجموعۂ کلام ہے۔ صہبائی پنجاب کے معروف شاعر تھے اور مختلف اصنافِ شاعری میں طبع آزمائی کے ساتھ رباعی گوئی میں سندِ امتیاز رکھتے تھے۔ ’ خمستان ‘ ہی کے عنوان سے سید صاحب نے اس کا دیباچہ تحریر کیا تھا۔ اس میں انھوں نے شاعر کے گرد و پیش کے حالات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ان کے کلام پر خاطر خواہ گفتگو کی ہے۔ لکھتے ہیں : ’’صہبائی کے فطری شاعر ہونے میں کلام نہیں، ان کا دل عشق و محبت سے لبریز اور نالۂ و شیون سے معمور ہے‘‘۔ (نقوش، ص434) اس میں نو جوان شعرا کو کچھ مشورے اور پنجاب کے دیگر شعرا کا بھی مختصراً ذکر کیا ہے۔ 
’ گلستانِ امجد ‘ کے بشمول اخیر میں دو مضامین اور ہیں۔ ’عطرِ سخن ‘ اور ’ حقیقتِ علمی شاعری ‘جو انتہائی سرسری اور تشنہ ہیں۔ الحاصل علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم جہاں ایک طرف جہاں دیدہ عالمِ دین اور اسلامی علوم کے ماہر و دانشور تھے وہیں علم و قلم کے شناور بھی۔ ان کے قلم سے علم و ادب کے کئی آبشار نکلے ہیں اور تشنگانِ علم و ادب نے ان سے اپنی پیاس بجھائی ہے۔
کتابیات:
۔ اردو تنقید کا ارتقا، عبادت بریلوی، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ (2013) پانچواں ایڈیشن
۔ اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ، سلیم اختر، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی(2013) دوسرا ایڈیشن 
۔ اردو ادب کی مختصر تاریخ، انور سدید،عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ دہلی (2014)
۔ نقوشِ سلیمانی، دارالمصنّفین شبلی اکادمی اعظم گڑھ (1993) چوتھا ایڈیشن

Mohd Farooque Azam,
 Room No.: 160
JNU, New Delhi - 110067

ماہنامہ اردو دنیا، نومبر2016






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں