15/4/19

احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں عورت مضمون نگار: شہناز رحمن



احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں عورت

شہناز رحمن
اردو افسانہ نگاری کی روایت میں احمد ندیم قاسمی ایک ایسا نام ہے جس کے بغیر ترقی پسند تحریک کی تاریخ نامکمل سمجھی جائے گی۔جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پریم چند کے بعدنئی نسل میں اگر کسی نے دیہی زندگی کو افسانے میں زندہ رکھا تو وہ احمد ندیم قاسمی ہیں۔انھوں نے اتنی کثیر تعداد میں افسانے لکھے کہ انھیں زود نویس بھی کہا جانے لگا۔لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ اب تک ان کے افسانوں کے موضوعات اور فکری و فنی گہرائیوں پر اس طرح تفصیلی گفتگو نہیں کی گئی جیسا کہ ان کے ہم عصر وں یعنی کرشن چندر،منٹو،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی وغیرہ کے فن پر کی گئی ہے۔اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مطالعے و تجزیے کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جائے جس میں احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں موضوعات کا تنوع، کردار وں کی نفسیات،زبان و بیان اور اسلوب میں کیے گئے تجربوں کا احاطہ کیا جاسکے۔لیکن ایک مختصر مضمون میں ان تمام عناصر کا احاطہ کرنا مشکل ہے اس لیے اس مضمون میں ان کے مختلف النوع موضوعات میں کسی ایک موضوع تک گفتگو محدود رکھی جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ احمد ندیم قاسمی کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہو کیوں کہ تلاش و جستجو کے بعد قمر رئیس کی کتاب میں ایک مضمون ’احمد ندیم قاسمی بحیثیت افسانہ نگار ‘ عبادت بریلوی کی کتا ب میں ’احمد ندیم قاسمی کے افسانے:بر گ حنا‘کے عنوان سے شامل مضمون میں اس مجموعے کے افسانوں کا خلا صہ،انوار احمد کی کتا ب ’اردو افسانہ :ایک صدی کا قصہ ‘ میں شامل احمد ندیم قاسمی،’اردو افسانے کی تاریخ کا اہم کردار‘ کے عنوان سے ایک مضمون، اوروقار عظیم کی کتاب ’نیا افسانہ‘میں،پروفیسر صادق کی کتا ب میں دو چار صفحات میں افسانوں کے تذکرے،اسلوب احمد انصاری کا مضمون ’احمد ندیم قاسمی اور اردو افسانہ ‘ اور افشاں ملک کی کتاب ’احمد ندیم قاسمی آثار و افکار ‘ میں احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری پر گفتگو ئیں موجود تو ہیں مگر ان سب کے مطالعے کے باوجود بعض چیزیں ایسی ہیں جو تشنہ رہ جاتی ہیں۔پروفیسر قمر رئیس کے مضمون سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے احمد ندیم قاسمی اور پریم چند کے درمیان مما ثلتیں تلاش کی ہیں۔انوار احمد نے تمام مجموعوں کا مختصرتعارف پیش کیاہے۔اور وقار عظیم نے بھی مجموعی طور پر ان کے موضوعات کا خلاصہ پیش کیا ہے۔جبکہ موضوعات کے ضمن میں بہت سے ایسے پہلو نکل آتے ہیں جو ان کے افسانوں میں موجود ہیں اور ان پر تفصیلی گفتگو بھی کی جا سکتی ہے۔مثلاً احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں دیہی مناظر کی عکاسی،شہری زندگی کے مسائل،معاشی نابرابری،طبقاتی جبر پر مبنی نظام کی خا میاں،انسان دوستی اور رشتوں کے اتار چڑھاؤ پر مبنی افسانے،فسادات کی افراتفری،کرداروں کی نفسیات سے متعلق افسانے اور عورتوں کے جنسی استحصال کے محرکات،عورتوں کے مختلف روپ وغیرہ موضوع قائم کر کے اس زمرے میں آنے والے افسانوں کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ فنی گفتگو میں زبان و بیان کے مسائل پر طویل بحث کی جاسکتی ہے۔مذکورہ بالا تمام مضامین اور کتابوں کے مطالعے کے دوران ایک نکتہ ذہن میں یہ آیا کہ احمد ندیم قاسمی نے عورت کے کردار کو ایک مختلف و منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔جو نہ تو منٹو کی طرح بالکل بے باک،اور نہ ہی بیدی کی طرح مصلحت شناس،اور نہ کرشن چندر کی طرح رومانی جذبات سے لبریز۔ بلکہ ایک الگ تصویر نمایاں ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں نسائی حسن اپنے پورے خد و خال کے ساتھ موجود ہے لیکن وہ عورتیں قیمتی زیورات اور لباس فاخرہ میں ملبوس نہیں ہوتی ہیں بلکہ غربت کے آسیبی گھیروں سے پریشان حال ہوتی ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہو تا ہے کہ ان کے یہاں حقیقت نگاری کا وہ رجحان غالب ہے جس سے انسانی مسائل کے حل کی تدبیریں سامنے آتی ہوں۔جب وہ اپنے پہلے مجموعے ’چوپال‘ (جس میں سولہ افسانے شامل ہیں ) کے افسانوں میں دیہی زندگی کی عکاسی رومان پرور فضاؤ ں میں کرتے ہیں تو ان کا مقصد یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ زندگی اپنی تمام ترخوبصورتیوں کے باوجود ناقابل حل مسائل کی وجہ سے بدصورت معلوم ہونے لگتی ہے۔اس کے علاوہ احمد ندیم قاسمی نے پنجاب کے دیہاتوں میں موجود کسانوں اور مزدوروں کی محنت و مشقت کی زندگی کو پیش کیا ہے کہ وہ کس طرح خون پسینہ ایک کر کے غلہ پیدا کرتے ہیں۔ جو بڑی آسانی سے جاگیرداروں کے قبضے میں آجاتی ہے۔
احمد ندیم کے بیشتر افسانوں کے واقعات مناظر فطرت کی خوشگواری اورسر سبز و شاداب وادیوں میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔جن میں ایک عدد الہڑ اور حسین دوشیزہ ضرور موجود ہوتی ہے مگر جب وہ اپنے افسانوں میں عورت کے کردار کو پیش کرتے ہیں تو ان کا مقصد یہ واضح کرنا ہو تا ہے کہ عورت صنف نازک،سنوارنے اور سراہے جانے کے قابل ایک ہستی اور وفا کی دیوی ضرور ہے مگر حالات کا جبر اسے بھاری بوجھ اٹھانے،دھول مٹی، عیاری، مکاری اور چالبازی کے کیچڑمیں لت پت ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اور بعض دفعہ اسے معاشرتی درندگی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔احمد ندیم قاسمی کی اس فنکاری کو ترقی پسند تحریک سے وابستگی کی دلیل قرار دیتے ہوئے انیس ناگی لکھتے ہیں :
’’احمد ندیم قاسمی کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ وہ ترقی پسند ادیب ہیں اس لیے وہ انسان کی تشریح اس کے مادی ماحول سے کرتے ہیں۔وہ بنیادی طور پر رئیلسٹ افسانہ نویس ہیں،اس لیے معاشرتی حقائق کی ترجمانی کو افسانے کی بنیاد قرار دیتے ہیں ‘‘
(پاکستانی اردو ادب کی تاریخ،ڈاکٹر انیس ناگی، جمالیات، لاہور، 2004237ص198)
احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں عورت کا ذکربھی مادیت کے شکنجے میں قید ہوتا ہے۔روحانی جذبے کے تحت یا اس کے حسن پر فریفتہ ہو کر جینے مرنے کی قسمیں اور وعدے لے کر ان عورتوں کو کوئی اپنا تا نہیں بلکہ سب وقتی ضرورت اور ہوس کے تحت استعما ل کرتے ہیں۔اس ضمن میں ’سفید گھوڑا ‘ کی بلقیس خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس افسانے میں ایک عورت اپنی بیٹی کو خود اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنی عصمت کا سودا کرے۔افسانے کی وہ سطریں ملاحظہ ہوں جس میں افسانے کا واحد متکلم کہتا ہے۔
’’میں نے بڑا ظلم کیا تھا کہ الیاس کے کمرے میں اس لڑکی کے داخل ہوتے ہی اسے رخصت نہ کر دیا تھا۔ الیاس یقیناًبرا مانتا مگر وہ میری نیت پر شبہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ یقیناًمیری بات مان لیتا اور ایک معصوم لڑکی ہمیشہ کے لیے تباہ ہونے سے بچ جاتی۔وہ لڑکی جو ان سب لڑکیوں کی نمائندہ تھی جن کے والدین اپنی بیٹیوں کے مستقبل کی خاطر اپنے آپ کو بیچ ڈالتے ہیں مگر جب یہ ذریعہ بھی کار گر نہیں ہوتا تو اپنے مستقبل کی خاطر بیٹیوں کو بیچ ڈالتے ہیں۔‘‘
(مجموعہ احمد ندیم قاسمی،پبلیشر نیاز احمد،سنگ میل پبلیشرز،لاہور، 2008،ص332)
’والدین خود کو بیچ دیتے ہیں یا بیٹیاں بیچ ڈالتے ہیں ‘دونوں ہی صورتیں نام نہاد شر فاء و امراء کی شبیہ پر شدید طنز کی صورت میں نمایاں ہوتی ہیں۔یوں تو بظاہر خود کو بیچنے والے خطاوار نظر آتے ہیں لیکن مصنف کا مدعا بین السطور میں پوشیدہ ہے۔وہ کہنا چاہتا ہے کہ اصل مجرم وہ معاشرہ ہے جس نے اپنے سے کمتر لوگوں،مزدوروں اور غریبوں کی آمدنی کے تمام ذرائع مسدود کر رکھے ہیں۔ افلاس زدہ زندگی سے تنگ آکر ان کے گھروں کی عورتیں ایسے اقدام کرنے پر مجبور ہیں جس سے ان کی زندگی کچھ دنوں کے لیے خوشحال تو ہو جاتی ہے مگر اندر ہی اندر وہ روز مرتی ہیں۔اور ان کی دنیا جہنم سے بد تر ہو جاتی ہے۔ بے ضمیرشرفاء انھیں اپنی عیاشیوں اور جنسی ہوس کے لیے استعمال کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔اس افسانے کے آخر میں مصنف یہ راز فاش کرتا ہے کہ وہ عورت کوئی اور نہیں بلقیس کی ماں ہے جو دلالہ کے طور پربلقیس کو شہر بہ شہر لے جاتی ہے۔جب وہ بلقیس کو لے کر الیاس کے کمرے میں داخل ہو تی ہے تو یہ مژدہ سناتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’ابھی نئی نویلی ہے ‘‘۔تاکہ گاہکوں کی اشتہاء اور بڑھ جائے۔ جبکہ نہ وہ نئی نویلی ہے اور نہ ہی اس کا شرمانا لجانا فطری ہے۔بلکہ اسے شرمانے،لجانے اور الہڑ پن دکھانے کی پریکٹس کرائی گئی ہے۔خواہ مخواہ دلالہ اسے جھڑکتے ہوئے کہتی ہے کہ جس بات کے لیے اتنا سمجھایا تھا تو وہی کر رہی ہے۔اس سے بھی زیادہ تلخ لمحہ اس وقت آتا ہے جب الیاس،ماں اور بیٹی دونوں کے درمیان بیٹھ کر ایک ساتھ دونوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔کچھ دنوں تک لاہور میں رہنے کے بعد جب گاہک ختم ہو جاتے ہیں تو وہ ماں اوربیٹی کراچی چلی جاتی ہیں۔کیوں کہ جنس کے بھو کے گاہک ایک عورت کے ساتھ رات گزارنے کے بعد دوسری بار نئی عورت کا تقاضا کرنے لگتے ہیں ایسی صورت میں زیادہ دنوں تک ایک ہی شہر میں قیام کرنے سے دھندا ختم ہونے اور بھوکے رہنے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس لیے وہ شہر بدل دیتی ہیں۔پھر نئے شہر میں نئے نام اور نئے گاہک تلاش کر لیتی ہیں۔لیکن قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ بعض دفعہ کھوئے ہوئے اور بھولے بسرے لوگ دوبارہ مل جاتے ہیں۔
اس میں مصنف کہیں بھی یہ واضح نہیں ہونے دیتا کہ یہ جسم فروشی پر کیوں کر آمادہ ہوئیں اور نہ ہی کوئی کردار اس بات پر تبصرہ کرتا ہے۔ اس افسانہ’سفید گھوڑا‘ میں وہ خامی پیدا نہیں ہونے پائی ہے جو ان کے ابتدائی مجموعے ’چوپال کے ایک افسانہ ’وہ جا چکی ہے‘ میں تھی جس میں مرکزی کردارکی زبان سے اس کی غربت کا رونا رلا دیتے ہیں۔جو کہ بالکل اضافی معلوم ہوتا ہے۔جبکہ ان کے رہن سہن سے ان کی خستہ حالی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ افسانہ ’سفید گھوڑا ‘اس خامی سے مبرا ہے۔ افسانے کی آخر ی سطروں سے ان کی بے بسی قاری پر واضح ہوتی ہے۔
’’عورت ایک دم بولنے لگی۔’’ذرا جلدی سے جاؤ مشتاق بھائی۔کچھ تکے کبا ب بھجوا دو۔اور دیکھو کباب ذرا تیز مرچوں والے ہوں جو مجھے بالکل رلا دیں۔‘‘
مشتاق چلا گیا تو میں نے دیکھا کہ عورت کبابوں کے آنے سے پہلے ہی رو رہی ہے۔اس نے لپک کر چٹخنی چڑھا دی اور پلٹ کر میرے قدموں میں ڈھیر ہو گئی۔وہ اپنے بھیگے ہوئے گال میرے پاؤں سے رگڑنے لگی اور فریاد کرنے لگی۔میرا پردہ رکھ لیجیے صاحب !میرا اور میری بیٹی کا پردہ خدا اور آپ کے ہاتھ میں ہے۔میں کیا کروں صاحب !میری ایک ہی بیٹی ہے مگر سب نئی بیٹی مانگتے ہیں۔ میں اپنی بیٹی کو کیسے بدلوں صاحب ! اسی لیے شہر بدل لیتی ہوں... مجھ نگوڑی کو کیا پتہ تھا کہ آپ لوگ بھی شہر بدل لیتے ہیں۔خدا کے لیے صاحب،خدا کے لیے میرا اور میری بیٹی کا پردہ رکھ لیجیے ورنہ کوئی ہمیں دو پیسے کو بھی نہیں پوچھے گا۔‘‘
(مجموعہ احمد ندیم قاسمی،پبلشر نیاز احمد،سنگ میل پبلشرز،لاہور، 2008)
احمد ندیم قاسمی نے عورت کے جسما نی استحصال کے ساتھ ساتھ جذباتی اور رو حانی استحصال کو بھی موضوع بنایا ہے۔توہم پرستی ہمارے معا شرے میں پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔خصوصاً عورتیں مزاروں کی بڑی قائل ہوتی ہیں،پیروں کے مزاروں پر تکیہ کرنے والے ڈھونگیوں کی کرامات پر انھیں بڑا بھروسہ ہوتا ہے۔اس لیے بنا سوچے سمجھے ان کی باتوں پر بھروسہ کر لیتی ہیں اور حکم کی تعمیل کرنے لگتی ہیں۔افسانہ ’بین ‘کی رانو اور اس کے والدین بھی اسی نوعیت کے توہم پرست افرادہیں۔اس افسانے میں واحد حاضر کی زبانی یہ معلوم ہوتا ہے کہ رانو ایک بہت ہی معصوم،شریف اور فرما نبردار لڑکی ہے۔ بڑے ہی ناز و نعم سے اس کی پرورش کی جاتی ہے۔جب اس کی شادی طے ہوتی ہے تو مزارکے ایک پیر کو یہ خوشخبری دی جاتی ہے۔ دعائیں دینے کے بجائے خوبصورت رانو کے لیے اس کی نیت خراب ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ مجھے خواب میںیہ الہام ہوا ہے کہ رانو سے خدمت لی جائے اس لیے کچھ دنوں کے لیے اس کے والدین رانو کو مزار کے حضرت شاہ سائیں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر حضرت شاہ اپنی جنسی ہوس پوری کر کے مزار چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔اس حادثے کی وجہ سے رانوہوش و حواس کھو بیٹھتی ہے۔جب اس کے والدین اسے لینے آتے ہیں تو انھیں دیکھتے ہی وہ غضب ناک ہو جاتی ہے تب حضرت شاہ کا خادم انھیں بتاتا ہے کہ اچانک کسی جن بھوت نے اس پر قبضہ کر لیا ہے اس لیے یہ چیخ و پکار کر رہی ہے۔جن اتارنے کے لیے حضرت شاہ خاص وظیفہ کر رہے ہیں اس لیے نہیں مل سکتے اور حکم ہوا ہے کہ رانو کو ابھی درگاہ شریف کی نگرانی میں رہنے دیا جائے،جب جن اتر جائے گا تو آپ کی امانت پہنچا دی جائے گی۔لیکن رانو کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس پر کوئی جن نہیں بلکہ وہ انتقام کی آگ میں جل رہی ہے۔
’’اب تم جاؤ‘ہمارے سروں پر تمھہاری آواز تھی اور ہم نے سر اٹھا کر دیکھا تھا کہ تمھاری آنکھیں تالابوں کی طرح بھری ہوئیں تھیں۔اب تم جاؤ میرے بابا۔جاؤ میری اماں۔اب تم جاؤ۔مزار شریف ضرور کھلے گا۔دست مبارک ضرور نکلے گا۔فیصلہ ضرور ہوگا۔فیصلہ ہو جائے گا تو میں سیدھی تمھارے پاس پہنچوں گی۔‘‘
(مجموعہ احمد ندیم قاسمی،پبلشر نیاز احمد،سنگ میل پبلشرز، لاہور، 2008، ص385)
مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بعد بھی وہ حضرت سائیں کو خود سے سزا دینے کے حق میں نہیں ہے بلکہ کسی غیبی فیصلے کے انتظار میں ہے۔اس کے والدین اس کی حرکتوں سے متحیر ہو کرکوئی فیصلہ لینے کے قابل ہی نہیں رہ جاتے۔ انھیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہر لمحہ تلاوت کرنے والی لڑکی کے پاس جن بھوت کیسے آ سکتے ہیں،تب حضرت شاہ کا خادم کہتا ہے کہ کوئی کافر جن ہے جو قبضے میں نہیں آرہا ہے ۔ایک بوڑھی عورت کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ جس رات یہ واقعہ ہو ا تھااس نے رانو کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ’’ دست مبارک جب نکلے گا تب نکلے گا۔لیکن اگر تم ایک قدم بھی آ گے آئے تو میں ان پتھروں سے تمھارا ناس کردوں گی۔‘‘
پورے افسانے میں راوی (حاضر راوی جو ماں کا کردار بھی نبھا رہی ہے )کی زبان سے کہیں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ حضرت شاہ کے ذریعے رانو کی عصمت دری ہوئی ہے اور نہ ہی کسی عمل کاکو ئی ایسا منظر بیان کیا گیا ہے جس سے فحش نگاری کی طرف دھیان جائے۔مصنف کا کمال یہ ہے کہ اس نے بے ہوشی اور نیم دیوانگی کی حالت میں بالواسطہ فقروں کے ذریعے ایسی فضا تیار کی ہے کہ قاری کو اشارے مل جائیں۔اسے احمد ندیم کے فنی گرفت کی مضبوطی ہی کہنا چاہیے کہ انھوں نے گہرے مشاہدے اور عمیق تجربے کے ذریعے رمزیت کو باقی رکھا جس کی وجہ سے ان کے اوپر جنس نگار یا فحش نگار جیسے لیبل چسپاں نہیں کیے گئے۔اس ضمن میں اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں:
’’جنس سے ان کی دلچسپی معمول کے مطابق ہے۔ اس میں مریضانہ لذت اندوزی نہیں۔ان کے یہاں طنز کے چھینٹے بھی جگہ جگہ ملتے ہیں مگر یہ طنز ایسا نہیں جو مردم آزاری کی سرحدوں کو چھو لے۔ان کے نقطہ نظر میں اعتدال اور سلامت روی اور ان کے لہجے میں نرمی شائستگی اور حلاوت ملتی ہے جو برسوں کے عمل صیقل اور کام و دہن کی ہر آزمائش سے گزرنے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔‘‘
(مجموعہ،طلوع و غروب،احمد ندیم قاسمی،گلوب پبلشرز،لاہور 1986 فلیپ کے اوپر)
اسلوب احمد کی اس رائے کی معنویت افسانہ’ بین ‘ ’بدنام ‘ ’نامرد ‘ وغیرہ کے مطالعے سے سامنے آجاتی ہے۔ ’بین ‘ میں پیش کیے گئے واقعہ سے اس حقیقت کا پردہ فاش ہو تا ہے کہ جنوں بھوتوں سے چھٹکارا دلانے کے نام پر مزاروں پر کیسے کیسے جرائم ہوتے ہیں۔ جس کی زد میں آکر رانو جیسی بے شمار دوشیزائیں و عصمت اورجان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔احمد ندیم کا یہ افسانہ آج کے موڈرن معاشرے میں بڑی معنویت کا حامل نظر آتا ہے۔بڑے بڑے موڈرن خاندان کی عورتیں اب بھی اس توہم پرستی کے چنگل سے آزاد نہیں ہو سکیں ہیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود دھوکے کا شکار ہو جاتی ہیں۔توہم پرستی اور جنسی الجھنوں پر مبنی افسانہ ’ماسی گل بانو‘بھی بہت دلچسپ اوراس نفسیاتی حقیقت کا عکاس ہے کہ جب صحیح وقت پر لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پاتی اور ان کی جنسی خواہشات تشنہ رہ جاتی ہیں تو وہ ایک طرح کے تشنج کا شکار ہو جاتی ہیں۔جسے کم پڑھے لکھے لوگ جن،آسیب کے اثرات سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔
عورتوں کے جنسی استحصال کی وہ صورت بھی موجود ہے جب خود ایک شوہر اپنی بیوی سے اصرار کرتا ہے کہ وہ غیر مرد کے ساتھ ایک رات گزار لے۔اس کی بہترین مثال’’ رئیس خانہ ‘‘کی مریاں ہے جسے اپنے شوہر فضلو کے کہنے پر غیر ملکی صاحب کے پاس جاناپڑتا ہے۔لیکن فضلو کی غربت اسے اس بات پر مجبو ر کرتی ہے اور غیر ملکی یوسف کی نیک نیتی کے بارے میں ان عورتوں کی گواہی جو اس کے ساتھ سو روپیوں کے عوض راتیں گزار چکی ہوتی ہیں۔ان کا یہ کہنا کہ وہ ہاتھ تک نہیں لگاتا صرف دیکھنے کے سو روپیے دیتا ہے۔لیکن بعد میں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ یوسف کی عیاری تھی وہ ایک سال پہلے ہی مریاں کے حسن پر فریفتہ ہو گیا تھا اسی لیے دوسرے سال کی چھٹیاں بھی وادی سون میں گزارنے آیا تھا۔اور اپنے جسم کی آگ بجھانے کے لیے فضلو کے سامنے شرافت کا ڈھونگ کر کے اسے اپنے قبیح فعل میں ساتھ کر لیتا ہے۔ فضلو اس کی چالاکیوں کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتا اور مریاں کے منع کرنے،رونے دھونے اور گالی گلوج کرنے کے باوجود اسے یوسف کے پاس رات میں جانے پر مجبور کرتا ہے۔مریاں شرط رکھتی ہے کہ اگر اس نے مجھے ہاتھ بھی لگایا تو میں تیرے پاس واپس نہیں آؤ ں گی،اس کے جواب میں فضلو کہتا ہے کہ خدا کی قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ وہ تمھیں صرف دیکھے گا۔لیکن میری بھی ایک شرط ہے اگر اس نے نہیں چھوا تو تم بھی وعدہ کرو کہ اس کے پاس جاتی رہو گی۔اس افسانے میں احمد ندیم قاسمی نے غربت کی لائی ہوئی ان درد ناک کیفیات کا بیان کیا ہے جو جسمانی کے بجائے جذباتی ہیں۔مریاں کے درد کے مقابلے مزدوری اوردھوپ میں جھلستی ہوئی عورتوں کا دکھ پھر بھی قابل برداشت ہوتا ہے۔کیوں کہ مریاں جسم کے ساتھ ساتھ روحانی طور پر زخمی ہو جاتی ہے۔اس کی گفتگو سے کچھ حد تک اس کے درد و کرب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
’’...مجھ پر یوں جھپٹا جیسے کتا گوشت پر جھپٹتا ہے،کرائے کی موٹر کا اس نے رات ہی انتظام کر لیا تھا اور وہ ابھی ابھی مجھے آخری بار بھنبھوڑ کر مو ٹر میں بیٹھ کر لاہور چلا گیا ہے اور تمھیں بخششیں دے گیا ہے سو روپیے کی اور ایک ایسی مریاں کی جو اب اس کمرے میں نہیں گھسے گی۔وہ نیچے وادی میں اتر جائے گی،وہ ادھر میدانوں میں چلی جائے گی،اور جب بھوک کے مارے اس کا پیٹ زخم بن جائے گا تو کپڑے اتار کر راستے میں بیٹھ جائے گی۔ننگے مردوں کو لوگ پتھر مارتے ہیں پر ننگی عورتوں کو بستر دیتے ہیں اور روٹی کھلاتے ہیں۔تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے۔‘‘
(سناٹا،احمد ندیم قاسمی،اساطیر لاہور 1988ص74)
اپنے شوہر کی بے روزگاری اور معاشی الجھنوں کی وجہ سے ’بدنام‘ کی نوراں بھی بدکاری کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ محلے کے نوجوان اس کامذاق اڑاتے ہیں پھبتیاں کستے ہیں۔لیکن افسانے کا واحد متکلم راوی کو نوراں کے بارے میں نازیبا جملے سن کر تکلیف ہوتی ہے اور وہ بچپن کی معصوم و شریف نوراں کو جو بالکل بکائن کی طرح نازک تھی یاد کرکے بہت افسوس کرتا ہے۔پھر اس کی معاشی بدحالی کا اندازہ جب ہو جاتا ہے تو واحد متکلم اس کی ساس کو روز ایک روپیہ دے کراسے عصمت فروشی سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔چند دنوں بعد وہی نو جوان چہ می گوئیاں کرنے لگتے ہیں کہ اب تو سرے سے ہی غائب ہو گئی مسجد کی محراب چومنے بھی نہیں آتی۔کیا معلوم اب کسے چومنے میں مصروف ہوگی۔جب واحد متکلم اس سے ملنے جاتا ہے تو زار و قطار رونے لگتی اور کہتی ہے چلے جاؤ یہاں سے ورنہ بدنام ہو جاؤ گے۔ وہ غربت کا رونا رونے کے بجائے اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتی ہے۔پوچھنے پر صرف اتنا کہتی ہے کہ تمھارے جسم سے بکائن کے پھو لوں کی خوشبو آرہی ہے۔افسانہ نگار نے اس لمحے کی عکاسی میں بڑی فنکاری سے کام لیا جب راوی نوراں سے ملنے جاتا ہے۔ایک مصور کی طرح اس منظر کی تصویر اتار دی ہے جس سے نوراں کی ساری کیفیت و مجبوریاں قاری پر اور متکلم راوی پر عیاں ہو جاتی ہیں۔کرشن چندراسی لیے احمد ندیم قاسمی کے قائل ہو کر لکھتے ہیں 
’’احمد ندیم قاسمی خالی خولی فوٹو گرافی سے کام نہیں لیتے بلکہ ایک چابکدست فنکار کی طرح اس مقا می رنگ کو اپنے افسانوں کا پس منظر بنا کر اس کے تانے بانے پر دیہاتی زندگی کے جاندار مرقعے تیار کرتے ہیں یہ ایسے مرقعے ہیں جن میں دیہاتی زندگی کو مختلف النوع پہلوؤں سے دیکھا گیا ہے۔دیہاتیوں کی سادہ لوحی اور ظالمانہ رسوم پرستی،محبت اور پیٹ کی پیکار،بھوک اور عزت کا تضاد،مردوں کی بربریت اور عورتوں کی غلامانہ ذہنیت،کو ہستانی دوشیزہ کا مثالی حسن،اور پھر اس مثالی حسن کی فروخت چند روپہلی ٹکلیوں کے عوض،وہ روپہلی ٹکلیاں جس سے لگان ادا ہو سکتا ہے زمین رہن ہونے سے بچ سکتی ہے اور زندگی اپنی تمام تر صعوبتوں اور مسرتوں کے ساتھ جاری رہ سکتی ہے۔کشمکش حیات اپنی بنیادی سچائی کے ساتھ ان افسانوں میں جلوہ گر ہے۔‘‘
(دیباچہ،کرشن چندر،بگولے،احمد ندیم،مکتبہ لاہور 1941،ص9) 
احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کو کسی تحریک یا مخصوص رجحان سے وابستہ کرنے کے بجائے مختلف زاویوں سے پڑھ کر تعین قدر کرنے کی ضرورت ہے جس طرح ان کے افسانوں میں عورت کی کردار نگاری پر موضوع قائم کر کے دلچسپ عناصر کی نشان دہی کی گئی ہے اسی طرح دوسرے موضوعات کو بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔غربت اور بھوک سے پیدا ہونے والی کشمکش اور جسم فروشی پر آمادہ کرنے والے محرکات کواحمد ندیم قاسمی نے ’طلائی مہر ‘میں بھی اجاگر کیا ہے۔ افسانہ ’ طلوع و غروب ‘کی نرگس محبت میں دھوکہ کھانے کی وجہ سے مختلف لڑکوں کے ہاتھوں کھلونا بنتی ہے۔شہر سے آیا ہوا غضنفر اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر حسین خواب دکھاتا ہے اور جب مر مریں بانہوں سے لطف اندوز ہو لیتا ہے تو اسے جھڑک کر پھر شہر واپس چلا جاتا ہے۔اس دھوکے کی وجہ سے نرگس کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں۔ اور وہ پرانی وفاداری کو ترک کر کے ہر روز ایک نئے شخص سے تعلق استوار کرنے لگتی ہے۔

Shahnaz Rahman,
Research Scholar,
 Dept. of Urdu, AMU,
 Aligarh- 202002 (UP)

ماہنامہ اردو دنیا، نومبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں