15/4/19

اردو صحافت کا عصری منظرنامہ مضمون نگار: احمد اشفاق





اردو صحافت کا عصری منظرنامہ
احمد اشفاق
صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی کتاب یا رسالے کے ہوتے ہیں۔صحافت کسی خبر، حادثہ،کوئی اہم پیش رفت یا رونما ہونے والے کسی اہم واقعہ کو تحقیق اور تجزیہ کے ساتھ قارئین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے بشرطیکہ اس سارے کام میں نہایت ہی ایمانداری اور اخلاص کا عنصر موجود ہو، صحافت نام ہے لوگوں کی رہنمائی کا، صحافت نام ہے تبصروں کے ذریعے عوام الناس کو روشناس کرانے کا،صحافت عوامی معلومات، رائے عامہ اور تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے، صحافت انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن اور مظلوم و مجبور عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہے، صحافت کی قوت دراصل عوام کی قوت ہوتی ہے ، کسی تحریک، جماعت یا حکومت کی پالیسی کی کامیابی و ناکامی میں صحافت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے جس کا مشاہدہ ہم روز مرہ کی زندگی میں کرتے ہیں۔
صحافت کے موّرخین نے بادشاہی نوشتہ جات اور مفادِ عامہ کے اعلان ناموں کو صحافت کا اوّلین نمونہ مانتے ہوئے قبل مسیح عہد ہی سے صحافت کا آغاز تسلیم کیا ہے۔ اس اعتبار سے یونان، قدیم ہندوستان اور مصر میں تاریخی طور پر صحافت جیسی اوّلین شے کی تلاش کی جاتی ہے ہندستان میں صحافت کی تاریخ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعض اصحاب الراے ملازمین کی مرہونِ منّت رہی۔ ولیم بوٹس اور پھر جیمس آگسٹس ہکّی اس اعتبار سے محترم ہیں کہ انھوں نے ہندوستان میں صحافت کے موضوعات، مضامین اور مواد پر نہ صرف یہ کہ غور کیا بلکہ اس کے عملی نمونے ظاہر کرکے اٹھارھویں صدی کے اواخر میں باضابطہ اخباری نمونے بھی پیش کیے۔ انگریزی کے بعد بنگلہ اور فارسی کے اخبارات بھی فوراً انیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آگئے۔ ’جامِ جہاں نما‘ (1822) سے ’دہلی اردو اخبار‘ (1836) تک باضابطہ طور پر اردو صحافت نے خود کو واضح سماجی اورسیاسی نقطۂ نظر کے ساتھ جوڑلیا تھا۔ اس دوران انگریزی، بنگلہ، فارسی، گجراتی، اردو اور ہندی زبانوں کی صحافت نے اپناایک قومی منظر نامہ مرتب کرلیا۔ دیکھتے دیکھتے کلکتہ، مدراس، بمبئی اور دلّی سے باہر علاقائی صحافت کا آغاز بڑی سُرعت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ انگریزی حکومت کے پھیلنے اور متعدد سماجی و حکومتی جبرہی تھے جن کی وجہ سے ہندستان میں عموی طور پر علاقائی اور کثیر لسانی صحافت کا فروغ ممکن ہوا۔ 1857 سے کافی پہلے اگر علاقائی اور کثیر لسانی صحافت کا فروغ نہیں ہوا ہوتا تو یہ ممکن ہے کہ1857 کا انقلاب اور آزادی کی جنگ کا بہترین آغاز شاید ہی ہوپاتا۔ اردو اور ہندستانی صحافت کا یہُ رخ کم وبیش آج بھی اپنے واضح اور ہمہ گیر اثرات کے اعتبار سے قائم ہے اور انگریزی کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں اور جغرافیائی خطّوں کی صحافت خوب پھل پھول رہی ہے۔
ابتدا میں صحافت صرف خبروں پر مشتمل تھی مگر موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق صحافت میں تبصرے، تجزیے، تجاویز اور آراء شامل ہوتی ہیں، صحافت کی تمام اقسام میں واقعات اور مسائل کے متعلق جو حقائق و ثبوت حاصل کیے جاتے ہیں اسے قارئین کی ایک بڑی تعداد قبول کرتی ہے۔
صحافت جس ملک کی نمائندگی کرتی ہے قدرتی طور پر اس ملک کی ثقافت کا رنگ اس پر غالب آجاتا ہے اور وہ غیر ارادی طور پر اس کی تشہیر کرتی ہے، اخبارات کو اپنی ثقافت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔
صحافت کے ذریعے ایک صحافی قوم و ملت اور وطن کی خدمت کرتا ہے، صحافی سماج کا ایک اہم اور ذمے دار شخص ہوتا ہے اس کی بڑی اہم ذمے داریاں ہوتی ہیں مثلا حالات و واقعات کی صورت حال سے عوام کو غیر جانب دارانہ صداقت کے ساتھ آگاہ کرنا، عوام کی رائے ہموار کرنا اور اس کے احساسات کی بھرپور نمائندگی کرنا، عوام میں سیاسی و سماجی شعور پیدا کرتے ہوئے رائے عامہ کی تشکیل کرنا ساتھ ہی ضابطہ اخلاق کا پاس رکھنا۔
صحافت اب محدود تعداد کے قارئین سے نکل کر انتہائی وسعت اختیار کر چکی ہے اب اخبارات و رسائل کے ذریعے جو معلومات دی جاتی ہیں وہ ساری دنیا سے متعلق ہوتی ہیں اس لیے صحافت کی طاقت بھی اس کے حلقہ اثر کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے اور کروڑوں لوگوں کی رائے کو متاثر کرتی ہے جس سے اس کی ہمہ گیر قوت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
صحافت کی مختلف النوع ترقی کے باعث اب خبروں کا علم کتابوں، صحافیوں، تک محدود نہیں رہا زمانہ کے بدلنے کے ساتھ ساتھ صحافتی مواد کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی چلی گئی، صحافتی مواد کی اتنی افراط ہو گئی کہ اخبارات کے صفحات میں اضافہ ہوا صحافت کے ابتدائی دور میں اخبارات چھوٹے ہوتے تھے اور مواد کم اس وقت قارئین کی سہولت کے لیے مختلف حصوں کو نمایاں طور پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی مگر اب ہر چیز کو نمایاں طور پر پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔
ترسیل کے حوالے سے صحافت کی دو قسمیں ہیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا۔
پرنٹ میڈیا: پرنٹ میڈیا سے مراد طبع ہونے والے اخبارات و رسائل ہیں جیسے روزنامہ،سہ روزہ، ہفت روزہ اخبارات، سہ ماہی، ماہانہ، ششماہی اور سالانہ رسائل و جرائد اور ڈائجسٹ وغیرہ کیونکہ یہ سبھی طباعت کے مراحل سے گزر کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ہندوستان میں پرنٹ میڈیا کی روایت کافی قدیم ہے۔
الیکٹرونک میڈیا: الیکٹرونک میڈیا سے مراد وہ ابلاغ و ترسیل ہیں جو Electronic اور Electromechanical قوت کے استعمال سے چلتے ہیں اس میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے اخبارات و رسائل ہیں۔
آج الیکٹرونک میڈیا کا دائرہ کافی وسیع ہو گیا ہے لہذا اس دائرے میں عوامی رابطے کی ویب سائٹ جیسے گوگل، فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ شامل ہیں۔
صحافت دراصل کسی بھی زبان کے فروغ میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے کیونکہ عوام سے اس کا براہ راست رشتہ ہوتا ہے۔صحافت کا شاندار ماضی رہا ہے۔ پروفیسر ارتضی کریم اردودنیا کے اداریے میں لکھتے ہیں کہ:
’’ماضی میں صحافت کی ایک درخشاں اور زریں تاریخ رہی ہے۔صحافت نے جمہوری حقوق، مساوات، امن، سیکولرزم، اتحاد، یگانگت اور یک جہتی کے لیے جو کردار ادا کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں بھی صحافت کا بہت فعال انقلابی کردار رہا ہے۔ اردو صحافت نہ ہوتی تو شاید ہندوستان کی آزادی کا سورج دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ ماضی کے زیادہ تر صحافیوں نے فرنگیوں کے خلاف جو محاذ کھولا تھا اس کا ہندوستانی عوام کے شعور پر بہت گہرا اثر پڑا۔ آزادی اور انقلاب کے جذبے کو بیدار کرنے میں سب سے اہم رول اردو صحافت ہی کا رہا ہے۔‘‘
(ہماری بات: اداریہ، اردو دنیا، دسمبر 2015)
پروفیسر ارتضیٰ کریم نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ صداقت پر مبنی ہے۔ صحافت بالخصوص اردو صحافت نے جد و جہد آزادی میں جو کردار کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ آج صحافت کی ضرورت اور اہمیت کم یا ختم ہوگئی۔ آج بھی اردو صحافت اپنی ذمے داری بخوبی نبھا رہی ہے حالانکہ اردو صحافت کے بہت سے مسائل ہیں جن پر موجودہ تناظر میں سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندستان میں اردو صحافت کا ماضی کافی شاندار رہا ہے۔ سر سید احمد خاں کا ’تہذیب الاخلاق‘ محمد علی جوہر کا ’ہمدرد‘ اور مولانا آزاد کے اخبارات ’الہلال‘ اور ’البلاغ ‘کی زریں اور بے باک صحافت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ان اخبارات نے جو قومی اور ملی فریضہ انجام دیا ہے اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
صحافت کی تاریخ بہت قدیم اور تابناک ہے۔ انسانی مفاد اور تہذیب و ثقافت کی بقا کے لیے صحافیوں نے جس طرح کی قربانیاں دیں انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہندوستان میں صحافت کو دستور ہند کے چوتھے ستون کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ماضی اور حال کی صحافت کا اگر موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ صحافت خواہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک اپنی اصل پہچان کھوتی جارہی ہے۔چند صحافیوں کو چھوڑ کر بیشتر صحافیوں کی نظر میں صحافت نوکری اور آمدنی کے وسیلے سے بڑھ کر کچھ نہیں، بلکہ بعض صحافی ایسے بھی ہیں جنھوں نے صحافت کو بلیک میلنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔یہ نہایت افسوس ناک صورت حال ہے۔اردو صحافت کی موجودہ صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر صفدر امام قادری لکھتے ہیں:
’’ہندستان کی اردو صحافت روایت اور جدّت کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ روایت سے اسے ادبی شان اور سماجی جواب دہی کی پونجی حاصل ہوئی تھی۔ اس نے جفاکشی کے ساتھ بے باکی سیکھی تھی۔ لیکن ٹیکنالوجی اور کارپوریٹ لازمیت نے اردو صحافت کو ایک الگ زمین پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اب ادب اور ادبیت کی کون کہے، عام قواعد اور انشا کے کھلواڑ روزانہ صبح سے ہمارا امتحان لیتے ہیں۔ جلدی میں خبریں یا اُن پر تاثرات پیش کردینے کا جبر ہمیں روزانہ حقائق کی بھول اورمعیار کی پستی میں پہنچا رہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ رنگین اور روشن چھپائی نے ہم سے دھیرے دھیرے جتنا کچھ چھین لیا ہے، اس کی بھرپائی ابھی ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ بہار کے اردو اخبار اور ادبی رسائل کو سامنے رکھیں اور ہندی اور انگریزی جرائد سے ان کا موازنہ کریں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ حقیقی صحافت کے میدان میں ہماری جگہ کہاں ہے۔‘‘
اردو صحافت کے معیار کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری زبانوں کی صحافت کی طرح اردو صحافت کا معیار گرا ہے۔ موجودہ عہد کی صحافت کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اسے دو حصوں میں منقسم کرسکتے ہیں۔ پیشہ ورانہ صحافی اور دوسرا آزاد صحافی۔ پیشہ ور صحافی سے میری مراد وہ لوگ ہیں جو باضابطہ صحافت سے جڑے ہوئے ہیں جب کہ آزاد صحافی سے میری مراد ان لوگوں سے ہے جنھوں نے صحافت کو بطور پیشہ اختیار نہیں کیا ہے۔پیشہ ورصحافیوں کے ساتھ کئی قسم کے مسائل ہوتے ہیں مثلا انھیں اپنے مالکان کی ترجیحات کا خیال رکھنا پڑتا ہے ، دوسرے لفظوں میں ان کے ساتھ کچھ پابندیاں بھی ہوتی ہیں جب کہ آزاد صحافی کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جہاں تک صحافت کی موجودہ صورت حال کی بات ہے تو میں نے عرض کیا کہ صحافت کا معیار گرا ہے۔اگر اردو صحافت کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدا ہی سے اردو اخبارات کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ مثلا
.1 اخبارات کی مالیات: اخبار نکالنے کے لیے جذبے کے ساتھ ساتھ پیسوں کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔اخباروں کی اپنی ایک دنیا ہے اس میں اپنی شناخت بنانے اور معیاری صحافت کے لیے سب سے زیادہ ضرورت پیسوں کی ہوتی ہے۔ اخبار مالکان کو اگر مالی مسائل درپیش رہے تو ان کو اچھے اسٹاف کی کمی بھی جھیلنی پڑے گی خبر ایجنسیوں سے بھی خبر لینے میں دشواری ہوگی ، ایسا ہونے پر اچھی خبر کی امید نہیں کی جا سکتی۔
.2 تربیت یافتہ صحافی کی کمی:اردو صحافت کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ تربیت یافتہ صحافی کی کمی ہے۔یہ کافی افسوس ناک پہلو ہے کہ آج اردو میں صحافت کی طرف عموماً وہ لوگ آرہے ہیں جن کا داخلہ کہیں نہیں ہوتا یا نا تجربہ کار ی ان کو اچھی نوکری نہیں دلا پاتی۔ ایسے بہت سے اردو صحافی ہیں جنھیں خبر بھی بنانی نہیں آتی ان کی روٹی پریس ریلیز سے چلتی ہے۔ صحافتی اصول سے نا آشنائی کے سبب ان صحافیوں کے ذریعے لکھی ہوئی خبریں معیار اور استناد حاصل نہیں کر پاتیں۔فی زمانہ اردو اخبارات میں تربیت یافتہ افراد کا زبردست بحران ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے تو اس کا سیدھا سا جواب ہے اردو صحافیوں کو چوں کہ اچھی اجرت نہیں ملتی اس لیے اردو تعلیم یافتہ طبقہ اردو صحافت کو بحیثیت پیشہ اختیار کرنے کے لیے متوجہ نہیں ہوتا۔
.3 اچھے مترجم کا فقدان : جہاں تک مترجم کا تعلق ہے تو اس کا حال بھی برا ہے۔ماہر فن اس طرف رجوع نہیں کرتے کیونکہ انھیں دوسری جگہ اچھی تنخواہ مل جاتی ہے، ناتجربہ کار یا نا اہل لوگو ں کے مترجم دوسری زبان کے رموز و اوقاف سے نا واقف ہوتے ہیں جس سے انھیں دوسری زبان سے ترجمے کرنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔
.4 اخباری کاغذ اور سرکاری اشتہارات کی کمی :اخبار والوں کی آمدنی کا اصل وسیلہ سرکاری اشتہارات اور مراعات پر ملنے والے کاغذ ہوتے ہیں۔ یہ مر اعات جن اخبار والوں کو حاصل ہیں ان کی مالی حالت بہتر ہے،اردو اخبار والوں کو انھیں سرکاری اشتہار نہیں مل پاتے۔ اردو نیوز ایجنسی، نیوز سروس، ٹیلی پرنٹر، لیتھو طباعت کی بوسیدہ تکنیک،کالم نویسی، فیچرنگاری، رپورٹنگ پریس میں اداریہ نگاری وغیرہ کا حال بھی تشفی بخش نہیں ہے۔ حقانی القاسمی اردو صحافت کی موجودہ صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’صحافت میں اخلاقیات کی جگہ اب صارفیت نے لے لی ہے جس کی وجہ سے صحافت کا انسانی چہرہ مسخ ہوگیا ہے۔آزاد اور شفاف صحافتی قدروں کی خلاف ورزی عام ہوگئی ہے۔لوگ کہنے لگے ہیں کہ صحافت اب خبروں کی تجارت بن گئی ہے اور تجارتی مفادات کا تحفظ ہی صحافت کا مقصد اولیں بن گیا ہے۔
حقانی القاسمی کا خیال ہے کہ میڈیا اپنے بنیادی اغراض و مقاصد سے منحرف ہوتی جارہی ہے جو اچھی علامت نہیں ہے۔صحافت کا کام معاشرے کو بہتر بنانا ہے اور اگر ماضی کا مطالعہ کریں گے تو تاریخ کے صفحات پر ایسے کئی واقعات مل جائیں گے جن سے کہ صحافت کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوگا اور یہ بھی احساس ہوگا صحافت نے ماضی میں کس طرح دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے۔مگر اس حقیقت سے چشم پوشی ناممکن ہے کہ آج صحافت کا مزاج بدل گیا ہے ، الیکٹرونک میڈیا سے لے کرپرنٹ میڈیا تک خبروں کی جو سرخی بنائی جاتی ہے یا جس طرح کی خبروں کو ترجیح دی جاتی ہے اس سے نفرت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس میدان میں ایماندار لوگ اب نہیں رہے ایسے بہت سے صحافی آج بھی ہیں جن کے لیے حقیقت بیانی سے بڑھ کر کچھ نہیں وہ آج بھی اپنے قلم سے انقلاب برپا کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں مگر ایسے صحافیوں کی تعداد میں دن بہ دن کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔میڈیا مالکان کی نظر میں اخبار محض آمدنی کا ایک وسیلہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آج حقیقت کو مسخ کرنے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے۔ آج اخبار والوں نے اپنے اپنے نظریات، کسی خاص طبقے کی تبلیغ و تشہیر بلکہ کئی موقعوں پر دوسرے مذاہب اور طبقے کے لوگوں کی تذلیل کرنے کا کام بھی شروع کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صحافت سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ان تمام مسائل سے اردو صحافت بھی متاثر ہے۔معروف صحافی سہیل انجم صحافت کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگر ہم نیوز چینلز اور اخبارات کا تجزیہ کریں تو پائیں گے کہ دونوں جگہوں پر کچھ مثبت چیزیں ہیں تو کچھ منفی بھی ہیں۔ اگر صحافت کے پیشے سے وابستہ افراد ہماری سماجی اور سیاسی زندگی کے رگ و پے میں رچ بس گئے، کرپشن کو اجاگر کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں تو کہیں نہ کہیں وہ کچھ ایسا بھی کرجاتے ہیں جو انسانی زندگی اور معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔‘‘
(اردو اور عوامی ذرائع ابلاغ: مرتبین،محمد شاہد حسین، اظہار عثمانی، ص 43)
اردو عوام کا نظریہ: اردو اخبار کے متعلق عوام کو ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ اردو اخبارات معیاری نہیں ہوتے اوران میں اطلاعات ناقص ہوتی ہیں۔ بسا اوقات کچھ لوگ کہتے ہیں فلاں فلاں اخبارات میں ا ملا کی غلطی تھی۔فلاں میں یہ خبر غلط تھی۔یہ خبر پرانی تھی وغیرہ۔ یہ غلط فہمیاں ہیں۔ اس طرح کی چیزوں سے انگریزی اور ہندی اخبارات بھی بھرے پڑے ہیں مگر ہمارے اندر دوسرے کی چیزوں سے مرعوب ہونے کی عادت پڑگئی ہے۔
بہرحال اردو صحافت کے تعلق سے قطعی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، آج بھی کئی اخبار اور صحافی ایسے ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب لوگ اخبارو رسائل خرید کر نہ صرف پڑھیں بلکہ دوسروں کو یہ ترغیب بھی دیں کہ وہ کم از کم اردو کا دو اخبار ضرور خریدیں، ساتھ ہی ساتھ خبروں کو معیاری بنانے کے لیے مدیر سے رجوع بھی کریں۔ صحافت کے معیار کو بلند کرنے کی ذمے داری ہم قارئین پر بھی اتنی ہی واجب ہے جتنی کہ مالکان اور صحافیوں کی۔

Ahmad Ashfaque, 
P.O Box No: 4485, Doha, Qatar 
Email.: ahmadashfaque1969@gmail.com 


ماہنامہ اردو دنیا، نومبر2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں