12/4/19

اردو کی ابتدائی تعلیم مضمون نگار: بدر محمدی


اردو کی ابتدائی تعلیم
بدر محمدی
اردو ایک زندہ زبان ہے اس لیے کہ اس میں زندگی اور زندگی کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں اور اس لیے بھی کہ اردو زبان میں افراد کو زندہ رکھنے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے۔طرز معاشرت سے تعلق کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اردو ایک زبان ہی نہیں تہذیب بھی ہے۔ یہ میل جول اور ہم آہنگی کی زبان ہے۔ اردو کے الفاظ ہمارے احساسات و جذبات کی بہت خوب صورت ترجمانی کرتے ہیں۔ اردو میں دوسری زبانوں کے الفاظ اور غیر ملکی زبانوں کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے۔ اردو کا رشتہ ایک جانب دینی مدارس سے ہے تو دوسری طرف یہ زبان مشاعرے اورفلم سے بھی منسلک ہے۔
اردو کا مولد و مسکن ہندوستان ہے۔ یہ ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کی آئینہ دار ہے۔ تحریک آزادی کی لڑائی اردو میں ہی لڑی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کئی رہنماؤں کو تحریک آزادی کے دوران اردو سیکھنی پڑی تھی۔ لہٰذا اجداد کی وراثت کے تحفظ اور اپنے تشخص کی بقا کے لیے اردو سے ہماری وابستگی ضروری ہے۔ ہند اور بیرون ہند کی کئی یونیورسٹیوں میں اردو داخل نصاب ہے۔ کئی ایسے ادارے ہیں جہاں ابتدائی سے اعلیٰ درجے تک کی تعلیم اردو میں دی جاتی ہے۔ ملک کی ریاستی اردو اکیڈمیاں اس زبان کی اہمیت و افادیت پر دال ہیں۔ مقابلہ جاتی امتحانات میں اختیاری مضمون کی حیثیت سے اردو کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔ اردو پڑھ کر طلباء وطن سے دور وابستۂ روزگار ہو رہے ہیں۔
زبان اردو کی تمام تر افادیت کا تعلق اعلیٰ تعلیم سے ہے۔ ابتدائی تعلیم سے اس کا کوئی سروکار نہیں۔ لیکن اعلیٰ تعلیم بغیر ابتدائی تعلیم کے ممکن نہیں۔ ابتدائی تعلیم زینۂ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے مزید تعلیم کی اہلیت پیدا ہوتی ہے۔ بنیادی تعلیم صلاحیت کو جلا بخشتی ہے۔ مزید یہ کہ ابتدائی تعلیم سے ہی انسان کی صلاحیت پرکھی جاتی ہے۔ ابتدائی تعلیم بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اردو جیسی کارآمد زبان کے لیے تو یہ اور بھی اہم ہے۔ حصول علم بہترین مصروفیت ہے۔ یہ ایسا زیور ہے جس سے آراستہ ہو کر آدمی غیر معمولی جاذبیت کا مالک بن جاتا ہے۔
حصول تعلیم کے لیے کسی زبان کا جاننا ضروری ہے۔ کسی بھی زبان کی پختہ معلومات اس کے لکھنے پڑھنے کے ساتھ بولنے سے بھی ہے۔صحیح تلفظ کی ادائیگی ہر زبان کے لیے ضروری عمل ہے اور جو شخص اردو الفاظ کا تلفظ بخوبی ادا کرتا ہے اس کے لیے دوسری زبانوں کا تلفظ آسان ہوجاتا ہے۔ اس طرح اردو کی ابتدائی تعلیم کی اہمیت نہ صرف زبان کے لیے بلکہ دوسری زبانوں کے لیے بھی اہم ہو جاتی ہے۔اردو کی حیثیت مادری زبان کی بھی ہے۔ اور ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینا سود مند ہے۔ لہٰذا اردو ذریعۂ تعلیم کی اچھی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ہر نوعیت کے مضمون کے لیے ذریعۂ تعلیم بن سکتی ہے۔
ابتدائی تعلیم کی نسبت عام طور سے عمر کے ابتدائی حصے سے ہوتی ہے۔ اور عمر کا ابتدائی حصہ لہوو لعب میں گذرتا ہے۔ گھر کی خوشیاں، قصے کہانی، ہنسی مذاق اور کھیل کود سے الگ کر کے، بچوں کو پڑھائی کی طرف راغب کرنا آسان کام نہیں۔ اس عمر کی تعلیم مفت ہونے کے باوجود ایک مہنگا عمل ہے۔ کیونکہ ابتدائی عمر زندگی کے آغاز کی مدت ہوتی ہے۔ اس عمر میں آدمی تجربات زیست سے تہی دست ہوتا ہے۔ اور ناتجربہ کاری میں کسی سے کوئی کام کرانے کے لیے غیر معمولی تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تجربہ اساتذہ اور والدین دونوں کے لیے لازمی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو صرف اور صرف تعلیم کی راہ پر ڈالیں۔ انھیں کسی اور کام پر لگانے کی نہ سوچیں۔ بچوں کو اسکول بھیجنے کے ساتھ گھر پر بھی تعلیمی ماحول قائم رکھیں۔ اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود مکتب اول ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلباء کی سیرت سنوارنے میں دلچسپی دکھائیں۔ ان کی طبیعت کا میلان بچوں اور نوجوانوں کی تشکیل پارہی شخصیت کی طرف ہو۔ اعلیٰ تعلیم مختلف ذرائع سے ممکن ہے مثلاً کالج یونیورسٹی، فاصلاتی نظام تعلیم، کتب خانہ اور اخبارات و رسائل۔ مگر ابتدائی تعلیم معلم کے بغیر ممکن نہیں حتیٰ کہ ابتدائی تعلیم کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ معلمین ہی درکار ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے اساتذہ میں احساس ذمے داری، فرض شناسی، معاملہ فہمی، خوش اخلاقی، خندہ پیشانی، خلوص و ہمدردی، صبر و استقلال، خود اعتمادی، اصول و ضوابط کی پابندی، وضع کی سادگی، بے تعصبی اور مساوات کا سلوک جیسے عام اوصاف کے ساتھ علمی لیاقت، زبان دانی، تعلیمی تجربہ، مطالعے و مشاہدے کا شوق، بچوں کی نفسیات سے واقفیت، تدریسی صلاحیت، ذوق تربیت، موثر اندا زبیان، عام فہم سادہ سلیس زبان پر قدرت، جدید تعلیم اور نئے طریقوں پر عبور جیسے خصوصی اوصاف بھی ہونے چاہئیں تاکہ طلباء کے لیے وہ مرکز توجہ قرار پائیں۔
ابتدائی تعلیم میں بولنا، پڑھنا، لکھنا اور تحریر و تقریرکا سمجھنا شامل ہے۔ بولنے میں تلفظ کی صحیح ادائیگی، پڑھنے میں روانی اور لکھنے میں املا کی درستگی کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت اور مفہوم تک رسائی بھی لازمی ہے۔ بچوں کی نفسیات و فطرت، قدرت کا ایک حیرت انگیز راز ہے۔ بچوں میں جبلت تجسس اور نقالی کا وصف زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کے روزمرہ کی زندگی اور نصاب میں تال میل ہونا چاہیے۔ تاکہ انہماک کے ساتھ وہ شوق انگیز مضامین پڑھ سکیں۔ نصاب کے معاملے میں طلبا کی عمر، مدت طالب علمی، دل چسپی اور صلاحیت کا پاس رکھنا چاہیے۔یہ بھی ضروری ہے کہ نصاب بچوں کی نفسیات سے قریب تر ہو جس کا آزمودہ نمونہ برسوں سے عمل میں رہا ہے لیکن کچھ برسوں سے نصابی تجربات نے تجربات کے سوا کچھ نہیں کیا۔ان تجربات نے آسمانی خواب تو ضرور دکھائے لیکن زمینی تعبیر سے محروم ہی رکھا۔ الغرض اردو کی ابتدائی تعلیم کے لیے اچھے نصاب کا تعین ضروری ہے۔ ذخیرۂ الفاظ کی توسیع کے لیے لائبریری، کتب اور لغت کا استعمال تدریسی و امدادی ذرائع کے طور پر ہونا چاہیے کتاب با تصویر اور زبان سہل و دل نشیں ہونی چا ہیے۔ قواعد پر زور دیا جانا چاہیے تاکہ اس لحاظ سے زبان کا درست استعمال ہو۔ حصول تعلیم کے دورس نتائج سے آگاہی کے لیے امتحان کی اہمیت بتائی جانی چاہیے۔ ابتدائی تعلیم، اعلیٰ تعلیم کے مقابلے سستی ہونی چاہیے۔ تاکہ تمام بچوں کے پاؤں اسکول کی راہ میں اٹھ سکیں۔ 
بنیادی تعلیم کی بہتری کے بغیر اعلیٰ تعلیم کی حصولیابی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ابتدائی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی رہی ہے۔ اس توجہ کا حال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم بے توجہی کی شکارہو گئی ہے اور اعلیٰ تعلیم کے فقدان کا رونا رویا جارہا ہے۔لیکن اتنی ساری توجہ کے باوجود ابتدائی تعلیم کی صورت حال بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ اور کم و بیش یہی حال اردو کی ابتدائی تعلیم کا بھی ہے۔ زبان کا تعلق تہذیب سے ہونے کے باعث اس کی تعلیم کا انحصار ماحول پر ہوتا ہے۔ اردو کی تعلیم بھی ماحول سے متاثر ہے۔ ذریعۂ تعلیم میں اردو کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ اردو سیکھنے والے طلباء لکھنے پڑھنے اور بولنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔ ان میں تلخیص اور توضیح کی صلاحیت کم پائی جاتی ہے۔ مطالعے کا شوق بھی کم ہوتا ہے۔ طلبا کے سوالات سے استاد احتراز کرتے ہیں۔ ان کے اعتراضات کو گستاخی مانتے ہیں۔ اردو کی ابتدائی تعلیم میں ٹی۔ایل۔ایم یعنی تعلیمی وسائل سے ابھی بھی خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا جارہا ہے۔
کہتے ہیں کہ اردو مدارس کے درس و تدریس سے زندہ ہے مگر یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مدرسوں کی تعلیم سے بچے اسکولی تعلیم میں پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اور ان کی اردو دانی بھی متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا اردو کی ابتدائی تعلیم کے لیے ابتدائی اسکول کی سہولت زیادہ سے زیادہ پیدا کی جائے اور ان میں بڑے پیمانے پر داخلے کو یقینی بنایا جائے۔ بہرکیف بچوں کو اسکول میں پڑھنے کے سلسلے میں غریبی کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے۔ ٹھہراؤ کی خاطر انھیں اسکول میں مصروف کار رکھا جائے۔ ہر اسکول میں بنیادی سہولت کا پھیلاؤ لازمی بنایا جائے۔ اسکول کی اپنی عمارت ہو اور وہاں پینے کا پانی، بیت الخلا، بینچ، ڈیسک، کھیل کا میدان اور اساتذہ کی تعداد ،طلبا کی تعداد کے تناسب میں ہونا ضروری ہے۔ ہمہ گیر تعلیمی مہم کے تحت اردو کے بہت سے نئے اساتذہ کی تقرری عمل میں آئی ہے او ر مزید آنے والی ہے۔ جب بھی کوئی منصوبہ سامنے آتا ہے تو اردو دنیا اس سے امیدیں وابستہ کر لیتی ہے۔ اردو کی ابتدائی تعلیم بہتر ہونے کی توقع رکھنی چاہیے مگر اس کے ساتھ اردو کی ابتدائی تعلیم کے لیے موثر اقدام بھی ہونا چاہیے۔
درس گاہوں میں بچوں کے اردو سیکھنے اور ابتدائی درجوں میں اردو کو بطور ذریعۂ تعلیم اپنانے میں دلچسپی اور مواقع کی فراہمی پر ہی اس ملک میں اردو کے مستقبل کا انحصار ہے۔ سماج کا اعلیٰ طبقہ اردو سے دور ہے اور پست طبقہ تعلیم سے ہی نابلد ہے۔ متوسط طبقے کی اردو سے وابستگی برقرار رکھنے کے لیے خصوصی وظیفہ اور انعام کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ ابتدائی مرحلے میں بچوں کو اردو زبان کا پڑھنا لازمی بنایا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ اردو کی ابتدائی تعلیم میں بہر صورت بہتری لائی جائے۔اس کی ترویج و اشاعت کے سارے ممکن اقدامات کیے جائیں۔ اعلیٰ تعلیم کے استحکام کے لیے اردو کی ابتدائی تعلیم کا تحفظ اور فروغ ناگزیر ہے۔ اردو پڑھنے والوں کے تناسب میں اضافے کے لیے سب کچھ زمینی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے۔

Badr Mohammadi, 
AT - Chandpur Fatah, 
P.O.-Bariarpur - 843102, Distt - Vaishali (Bihar)
Cell - 9939311612
E-mail:badrmohammadi1963@gmail.com

ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر2016






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں