12/4/19

ڈراما ’انارکلی‘ پر مبنی فلمیں مضمون نگار: اشفاق احمد عمر


ڈراما ’انارکلی‘ پر مبنی فلمیں
اشفاق احمد عمر
ڈراما ’انارکلی‘ تاج کا شاہکار ہے اور جسے ڈرامے کی دنیا میں سنگ میل کی حیثیت دی گئی ہے۔ علامہ اقبال یہ کہتے ہیں کہ ’انارکلی‘کی زبان میں روانی اور اندازِ بیان میں دلفریبی پائی جاتی ہے۔پریم چند انار کلی کے سلسلے سے یہ کہتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ’’ مجھے جتنی کشش ’انارکلی‘ میں ہوئی وہ اور کسی ڈرامے میں نہیں ہوئی۔‘‘ محمود الٰہی تو اس حد تک کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ :’’ امانت سے لے کر آغا حشر تک ڈراما ایک بھی ایسا کردار نہ پیدا کر سکا جس میں ہمیشہ رہنے والی قدریں ہوں۔ تاج نے ایک ایسے کردار کی تخلیق کی ہے جس پر کبھی زوال نہ آئے گا انار کلی سے بڑھ کر آج تک اردو ڈرامے کو کوئی کردار نہ ملا۔‘‘ تاج کا ڈراما ’انارکلی‘ پلاٹ، کردار، مکالمہ، زبان و بیان، پیش کش ہر اعتبار سے لافانی ہے تبھی تو آج تک اس ڈرامے پر زوال نہ آسکا اور آغا حشر کاشمیری کو یہ کہنا پڑا کہ : میں سمجھتا تھا حشر کے بعد ڈراما ختم ہوجائے گا لیکن اردو ڈرامے کے بہار کے دن تاج کے ڈرامہ ’انارکلی‘ سے آرہے ہیں۔
انارکلی کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ ڈراما ایک فرضی داستان پر مبنی ہے۔ جس بات کااعتراف اس ڈرامے کے مصنف سید امتیاز علی تاج ( 13اکتوبر 1900۔ 19 اپریل 1970) نے ڈرامہ انارکلی کے دیباچے میں کیا ہے۔ مصنف کے اس طرح بے باکانہ اعتراف کے باوجود ڈراما اگریوں شہرت و مقبولیت حاصل کرلے اور قاری کے ذہن و دماغ اور آنکھوں کے سامنے مغلیہ عہد کی 400 سالہ تاریخ کو رکھ دے تو یقیناًاس بات کو کہا جاسکتا ہے کہ تاج نے اس ڈرامے میں روح پھونکی ہے جو آج بھی تمام ناظرین و سامعین کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ اصل میں تاج نے یہ ڈرامہ اس وقت لکھا جب وہ 1922 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کر رہے تھے۔تاج کو ڈرامہ سے بڑی دلچسپی تھی اسی کے باعث وہ کالج کے ہر پروگرام میں اپنی موجودگی درج کرواتے اور ڈرامہ نگاری کے فن سے روشناس ہوتے۔ڈرامہ انار کلی اسی کالج کا ثمرہ ہے جو انھیں تحفے میں ملا۔تاج نے یہ ڈرامہ 1922 میں لکھا لیکن اپنے بزرگوں کے مشورے سے اس ڈرامے کو 1932 میں منظر عام پر لائے۔ اس وقت انار کلی ڈرامے کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ تاج کی زندگی میں یہ ڈرامہ تقریباً 9 بار شائع ہوا۔ اس واقعہ کا ذکر ڈاکٹر سلیم اختر کچھ اس انداز میں کرتے ہیں:
’’انار کلی شائع ہوئی تو ہاتھوں ہاتھ لی گئی،اس لیے مدیر نیرنگ خیال نے اپنے تبصرے میں لکھا ’’پہلا ایڈیشن مہینوں نہیں دنوں میں ختم ہوتا نظر آتا ہے،اس لیے خریدنے والے جلدی کریں، ورنہ دوسرے ایڈیشن کا انتظار کرنا پڑے گا۔انارکلی پہلی بار 1932، دوسری بار 1934، تیسری بار 1937، چوتھی بار 1940، پانچویں بار 1941، چھٹی بار 1956، ساتویں بار 1960، آٹھویں بار 1961 اور تاج کی زندگی میں آخری اشاعت یعنی نویں بار 1963، تک لگاتار شائع ہوتی رہی اور ان کی اہمیت و افادیت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔‘‘
تاج نے ڈرامہ ’انار کلی‘ میں اس بات کا برجستہ اعتراف کیا ہے کہ اس کہانی کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ تاج کا فن تھا کہ انھوں نے اس ڈرامے میں ایسی کشش، ایسی جاذبیت، اور دلآویزی پیدا کردی کہ یہ ڈراما بہ ذاتِ خود ڈراما نگاری کی دنیا میں ایک تاریخ بن بیٹھا۔شاید اسی لیے پروفیسر محمود الٰہی کو یہ کہنا پڑا:
’’جس کی نظر میں اتنی گہرائی اور دور بینی ہو کہ وہ ماضی بعید کے معاشرے کو ہمارے سامنے لا کر رکھ دے۔ جس کے قلم میں اتنا جادو ہو کہ وہ فکر و جذبہ پر چھا جائے۔ اگر وہ حال کے مسائل کو چھوتا تو اس صنف ادب کا حالی اور پریم چند ہوتا۔ تاج سے ہمیں ڈرامے کا فن ملا، ادب و بلاغت کا سر چشمہ ملا،لیکن اپنی زندگی کا کوئی نغمہ، شادی یا نوحہ غم نہ ملا۔تاج کے ساتھ ساتھ یا تاج کے بعد چند ڈراما نگار وں نے ہمارے مسائل سے بھی بحث کی تو وہ تاج کے فن اور معیار زبان و ادب تک نہ پہنچ سکے۔تاج کی انفرادیت بہر حال مسلم ہے اور اس مرحوم صنف کے مورخ اور نقاد کو انارکلی مایوس نہ ہونے دے گی ۔‘‘
تاج کی شخصیت اس تراشیدہ ہیرے کی مانند ہے جس کے کئی روشن اور تابناک پہلو ہوتے ہیں۔پروفیسر محمود الٰہی کی تاج سے متعلق تمام تر توقعات بالکل درست ہیں۔ تاج نے پوری زندگی کبھی قلم ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ بہت کم عمر میں (راوی، کہکشاں، تہذیب نسواں، پھول) جیسے رسالوں کی ادارت کے فرائض بھی بخوبی انجام دیے۔ ان کی ادبی کار کردگی کا دائرہ بہت وسیع ہے انھیں چند جملوں میں سمیٹنا مشکل امر ہے۔اس لیے تاج کی شخصیت سے متعلق پھر کبھی بات کریں گے۔ایسا نہیں ہے کہ صرف تاج نے انار کلی ڈراما لکھا ہو یا پھر اس کردار کا سہارا لے کر اسے بے مثال بنا دیا بلکہ اس کے ساتھ ہی فوق کا ناول ’انارکلی‘ بھی آیا اور ٹیگور نے اپنا ’افسانہ انارکلی‘ کے نام لکھا۔ یہ سلسلہ یہیں بند نہیں ہوتابلکہ ’’ٹیگور اور فوق کے علاوہ محمد عباس علی انجم ترابی نے 1958 میں ڈراما انارکلی لکھا، عباس علی عباس دہلوی نے بھی انارکلی کے عنوان سے ایک ڈراما لکھا، شری کھتری لال کانپوری نے بھی انارکلی پیش کیا۔ ساغر نظامی نے انارکلی کو منظوم صورت دی۔
ان تمام حضرات کی خامہ فرسائی کے باوجودانار کلی کا کردار وہ کردار نہ بن سکا جسے تاج نے شاہکار بنا دیا۔ جب بھی ہم انارکلی کا نام لیتے ہیں تو ہمارے ذہن و دماغ میں امتیاز علی تاج کا شاہکار ڈراما انارکلی ابھر کر چلا آتا ہے اور اپنے ساتھ پوری مغل داستان، اکبر، سلیم، اور دل آرام کی چالوں کا منظر لے آتا ہے۔ تاج نے انارکلی لکھتے وقت اسے فن کے تقاضوں پر ماپا اور اس میں ڈوب کر لکھا۔ اسی لیے انارکلی کا مطالعہ کرتے وقت ڈرامے کی ہر سطر سے سلیقہ اور ریاضت و محنت کا شہد ٹپکتا نظر آتا ہے۔ اس کی زبان کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی ہے۔ اور اسے نثر میں شاعری کہا جاسکتا ہے۔ اس کے مناظر و مکالمے میں نرم دریا کی سی روانی اور ایک بہاؤ پایا جاتا ہے۔ جس کو پڑھ کر قاری کے ذہن و دماغ پر ایک ایسا تاثر قائم ہوتا ہے جو محبت اور انتقام کا نام ہے۔ لیکن بہت کچھ سوچ کر بے حدافسوس ہوتا ہے کہ یہ ڈراما اتنا اثر انداز اور شاہکار ہونے کے باوجود اس وقت کے ڈرامائی اسٹیج پر پیش کیوں نہ ہوسکا؟۔ 
اس بات کو تاج نے اپنے دیباچے میں واضح کیا ہے کہ اس وقت کی ڈراما کمپنی کی جو شرطیں تھیں وہ مجھے منظور نہ تھیں۔ بہتر ہوا کہ تاج نے اس وقت اسے اسٹیج نہ کیا اور نہ ہی ان کے مشوروں کو اپنایا ورنہ شاید اس کی شکل ہی کچھ اور ہوجاتی۔
لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی نظرآتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس ڈرامے کے لیے جو چیزیں اسٹیج پر درکار رہی ہوں وہ نہ مل سکی ہوں؟ جس کے باعث تھیٹریکل کمپنیوں نے اسے لینے سے منع کیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ڈراما انارکلی کے لیے جس اسٹیج کی ضرورت تھی وہ فلم کا پردہ ہی تھا۔ اس لیے اس ڈرامے کی مقبولیت، کشش اور کہانی میں ایک انوکھا واقعہ دیکھ کر اس نام کو کئی بار فلمی پردے پر لایا گیا۔ اور الگ الگ طریقے سے انار کلی نام سے فلمیں پیش کی گئیں۔تاج کے ڈرامے انارکلی پر کئی زبانوں میں فلمیں بنیں۔جن کے نام: انارکلی 1928، خاموش فلم، لوَ اینڈ مغل پرنس 1928،خاموش فلم، انارکلی 1935 ( پہلی بولتی فلم ہندی،اردو زبان کے ساتھ)، انارکلی 1953(ہندی،اردو زبان )، انارکلی 1955 ( تیلگو زبان)، انارکلی 1958 (اردو)، مغل اعظم 1960 (اردو، ہندی)، انارکلی 1966( ملیالم زبان) اور اکبر سلیم اور انارکلی 9مئی 1979( تیلگو زبان)، خاص طور پر دلچسپی سے پر ہیں۔ہم ان فلموں سے متعلق کچھ تحقیقی، تنقیدی، تاثراتی اور تجزیاتی گفتگو کریں گے۔
ڈراما انارکلی پر مبنی اس سے میل کھاتی ہوئی سب سے پہلی فلم 1928 میں ’انارکلی‘ کے نام سے بنائی گئی۔ جسے فلمی دنیا نے خاموش فلم کے طور پر پیش کیا تھا۔ اور اس فلم کے ڈائرکٹر آر ایس چودھری(8جون 1903 وارانسی،اتر پردیش: 22اگست 1972 ممبئی) جو ضلع وارانسی، اترپردیش کے رہنے والے تھے۔ انارکلی کے کردار کو روبی میئر؍ سلوچنا (Sulochna/Ruby Mayer) (1907 پونے: 9اپریل 1983)، نے بہ حسن خوبی انجام دیا۔اور دنشا بیلی موریا (1904کرِکی)نے بھی اہم رول پلے کیا۔
فلم Black and White پیش کی گئی تھی اس فلم میں جو کچھ خاص کام کرنے والے لوگ تھے ان میں ڈی بلّی موریا اور پٹی جلّو بھی تھے۔ اس فلم کا انگریزی نام (Monuments of Tears) مونو مینٹس آف ٹیئرس تھا۔
یہ بات تھوڑا چونکانے والی ہے کہ 1928 میں اس کہانی پر مبنی ایک اور فلم لَو آف مغل پرنس(Love of Mughal Prince)کے نام سے پردہ سیمیں پر آتی ہے۔ جسے چارو رائے(6 ستمبر1890برہم پور:28ستمبر 1971) اور پرفل رائے(۱؍جنوری 1892 کستیا، بنگال) منظر عام پر لائے۔ یہ ایک خاموش فلم تھی۔ اس فلم کو لکھنے والوں میں حکیم احمد شجاع اور امتیا زعلی تاج (13اکتوبر 1900: 19 اپریل 1970) کا نام قابل ذکر ہے۔ اس فلم میں انارکلی کے کردار کو ’سیتا دیوی ‘ (1912: 1983) نے ادا کیا اور شہزادہ سلیم کے کردار کو ’ساون سنگھ‘ نے پیش کیا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ فلم کے ڈائرکٹر چارو رائے اور فلم لکھنے والے امتیاز علی تاج نے اس فلم میں بطور اداکار کام کیا۔ اس فلم کو ’انارکلی‘ اور راج محل نی رمانی کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔
اس فلم کے کچھ اہم کردار چارو رائے، مایہ دیوی (1فروری 1967)، راج کماری، شکنتلا ٹمبے (Shakuntala Tembe) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس فلم کی سنیماٹوگرافی (Cinematography)وی بی جوشی صاحب نے کی تھی۔
یہ سلسلہ ا بھی رکتا اور تھمتا نہیں بلکہ 1935 میں انارکلی کی کہانی پر مبنی ایک اور فلم آتی ہے اس فلم کے ڈائرکٹر ’آر ایس چودھری‘ (8جون 1903 وارانسی، اتر پردیش: 22اگست 1972 ممبئی) تھے اور اداکار کے روپ میں (روبی میئر) ’سلوچنا‘ (1907پونے: 9اپریل 1983) تھیں۔ یہ انارکلی کی کہانی پر بننے والی سب سے پہلی بولتی فلم تھی جسے ہندی،اردو زبان کا پیراہن عطا کرکے ناظرین وسامعین کے سپرد کیا گیا تھا۔
اب تک ڈراما انارکلی پر بننے والی سب سے اہم فلم 1953میں انارکلی کے نام سے آتی ہے۔ جس کے ڈائرکٹر نند لال جسونت لال (15مارچ 1907: 1961) ہیں۔ فلم کے کہانی کار ناصر حسین (3فروری 1931، بھوپال: 13مارچ 2002) تھے اور مکالمے کو حسن بخشنے کے لیے رمیش سہگل کا سہارا لینا پڑا اور اسے لوگوں کے دل میں اتارنے یعنی گانے کے لیے سی رام چندرجی (12جنوری 1918: 5جنوری 1982) نے اپنا تعاون دیا۔
فلم کے خاص اداکاروں میں: بینا رائے (انارکلی)، پردیپ کمار(شہزادہ سلیم)، مبارک(شہنشاہ جلال الدین محمداکبر) سلوچنا؍روبی مےئر(مہارانی جودھا)، پرویز (منموہن کرشن)، ایس ایل پوری (راجہ مان سنگھ) کلدیپ کور (گلنار)، اور نورجہاں (انار کلی کی ماں) نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔فلم میں جان ڈالنے یا یوں کہہ لیجیے کہ اسے ایک نیا حسن اور زندگی عطا کرنے کے لیے فلم کے گیتوں کے لیے لتامنگیشکر، گیتادت،فرید پور،بنگلہ دیش) اور ہیمنت کمار(بنارس) کا انتخاب کیا گیا جنھوں نے فلم کو فلمی دنیا کی اعلیٰ بلندیوں تک پہنچایا۔
انارکلی فلم کے لیے شروعات میں میوزک ڈائرکٹر کی خدمات(وسنت پرکاش)انجام دے رہے تھے اور گیتا دت کی آواز میں ایک نغمہ (آجانِ وفا آ۔۔۔) Record ہوچکا تھا۔ لیکن شاید خدا کو کچھ اور منظور تھا۔ اسی درمیان وسنت پرکاش جی کی اچانک موت ہوجانے کے باعث ان کے کاموں کے لیے سی رام چندر جی کو چنا گیا۔ انھوں نے اپنا کام بطریق احسن ادا کیا۔ اور فلم نے فلمی دنیا کی اعلیٰ بلندیوں کو چھوا۔ اس فلم میں جو نغمے گائے گئے ان کی کل تعداد تقریباً 12 ہے۔فلم انارکلی کے سارے گانے آج بھی لوگوں کے ذہن و دماغ پر ماضی کی دھندلی یادوں کی دستک دے رہے ہیں۔ ملاحظہ کریں نغموں کے بول:
.1 اے باد صبا آہستہ چل یہاں سوئی ہوئی ہے انار کلی،آنکھوں میں جلوے سلیم کے لیے کھوئی ہوئی ہے انار کلی(گلوکار۔ہیمنت کمار)
.2 یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہو گیا،پیار ہی میں کھو گیا۔یہ زندگی اسی کی ہے.(گلوکار۔لتا منگیشکر)
.3 وفا کی لاج رہ جائے۔کہ آ جا! تیرے آنے سے۔ محبت کی نظر نیچی نہ ہو جائے زمانے سے۔آ جانِ وفا آ (گلوکار۔گیتا دت)
.4 آجا۔اب تو آجا۔میری قسمت کے خریدار اب تو آجا۔نیلام ہو رہی ہے میری چاہت سرِ بازار۔اب تو آ جا (گلوکار۔لتا منگیشکر)
.5 دل کی لگی ہے کیا؟یہ کبھی دل لگا کے دیکھ۔آنسو بہا کے دیکھ کبھی مسکرا کے دیکھ۔پروانہ جل رہا ہے مگر جل رہا ہے کیوں؟یہ راز جاننا ہے تو خود کو جلا کے دیکھ(گلوکار۔لتا منگیشکر)
.6 دُعا کر غم دل خدا سے دُعا کر۔وفاؤں کا مجبور دامن بچھا کر۔ دعا کر غم دل خدا سے دعا کر(گلوکار۔لتا منگیشکر)
.7 جا گ درد عشق جاگ۔جا گ درد عشق جاگ۔دل کو بے قرار کر۔چھیڑ کے آنسوؤں کا راگ (گلوکار۔لتا منگیشکر)
.8 اس انتظار شوق کو جلوؤں کی آس ہے۔اک شمع جل رہی ہے۔سو وہ بھی اداس ہے(گلوکار۔لتا منگیشکر)
.9 زندگی پیار کی دو چار گھڑی ہوتی ہے۔چاہے تھوڑی بھی ہو یہ عمربڑی ہوتی ہے(گلوکار۔ہیمنت کمار)
.10 محبت میں ایسے قدم ڈگمگائے۔زمانہ یہ سمجھا کہ ہم پی کے آئے۔پی کے آئے(گلوکار۔لتا منگیشکر)
.11 زندگی بے بسی ہے۔بے کسی کا ساتھ ہے۔ایک ہم ہیں اس قفس میں۔یا خدا کی ذات ہے۔او آسمان والے شکوہ ہے زندگی کا(گلوکار۔لتا منگیشکر)
.12 جو دل یہاں نہ مل سکے۔ملیں گے اس جہان میں۔ کھلیں گے حسرتوں کے پھول...اسے مزار مت کہو ہے محل یہ پیار کا(گلوکار۔لتا منگیشکر)
ابھی تک جو فلمیں بن رہی تھیں وہ خاموش یا ہندی اردو زبانوں پر منحصر تھیں۔ اب انارکلی کی کہانی کا دائرہ اور بھی وسیع ہوتا گیا اور اس نے 1955 میں اس کہانی پر منحصر ایک فلم تیلگو زبان میں پیش کردی۔اس فلم کے ڈائرکٹر ’ویدانتم راگھاویا(1919:1971)‘تھے۔ اس فلم میں انارکلی کے کردار کو ’انجلی دیوی‘ (24اگست 1947: 13جنوری2014) نے ادا کیا ساتھ ہی سلیم کے کردار کو ’اَکی نینی ناگیشور راؤ ‘(20ستمبر 1923 :22 جنوری 2014) نے ادا کیا۔اور شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے کردار کو ’ایس وی رنگا راؤ‘ (3جولائی 1918: 18 جولائی 1974) نے ادا کیا۔ سنیما ٹوگرافی کے کارنامے کو ’کمل گھوس‘ اور میوزک ’پی آدی نارائن راؤ جی‘(پیدائش 1915: انتقال 25جنوری 1991) نے انجام دیے۔اس فلم میں جو گانے گائے گئے وہ ہماری سمجھ سے تو پرے ہیں پھر بھی ہم انھیں Informationکے لیے یہاں درج کیے دیتے ہیں :
(1) او انار کلی۔۔ انار کلی، انارکلی (گلوکار۔ گھنٹا سالا Ghantasala) (2) جیوی تمے سبا لمو (گلوکار: جّکیِJikki) (3) کنیندھا الیودونیلاون اولی نی (گلوکار: جّکیِJikki، گھنٹا سالاGhantasala) (4) نان کنڈا سگاما سگاما (گلوکار: جّکیِJikki) (5) راجہ سیکھارا این میل مودی سییا لاگ (گلوکار: جّکیِJikki، گھنٹا سالا Ghantasala) (6) اونال ننی اویے رائی مرنددھین (گلوکار: جّکیِJikki) (7) کادھالےئن جوڈی (گلوکار: جّکیِJikki) (8) اندھا نال تھانی دھابا (گلوکار: پی سوشیلا P.sushila) (9) آنندھام... نانم کوڈِھن (گلوکار: جّکیِJikki) (10) سیپائی انبے نی وارا یو (گلوکار: جّکیِJikki) (11) پارتھا نیلے مودیوو کننا ڈین این ویدھی (گلوکار: جّکیِJikki)
اس کہانی پر مبنی فلم بننے کا سلسلہ ابھی تک تو صرف ہندوستان ہی میں فروغ پارہا تھا۔ پاکستان میں بھی تاج کے ڈرامے انارکلی پر مبنی ایک فلم ’انار کلی‘ کے عنوان سے 6جون 1958 میں آگئی جسے’انور کمال پاشا‘(23 فروری 1925 لاہور: 13اکتوبر 1987) نے ڈائرکٹ کیا۔
اس فلم میں انارکلی کا کردار’نورجہاں‘نے ادا کیا، شہزادہ سلیم کا کردار ’سودھیر‘ (1922: 19جنوری 1997) نے اور ’محمد افضل‘ (1جنوری 1922 لاہور، پنجاب: 1جنوری 1984) نے جلال الدین محمد اکبر کا کردار ادا کیا۔ ان سب کے علاوہ ثریا کا کردار ’شمیم آرا‘ (پیدائش 1942) نے پیش کیا، بہار کا کردار’راگنی‘ (1925: 27؍ فروری 2007) نے ادا کیا، اور جو دھا کے کردار کو ’زبیدہ‘ (1911: 21ستمبر1988) نے انجام دیا ساتھ ہی کامیڈین کا رول ظریف (1938: 30 اکتوبر 1960) نے بہ حسن و خوبی انجام دیا۔ ان کے علاوہ فلم میں اجمل اور فضل حق نے بھی اہم رول پلے کیا۔اس فلم کے ڈائرکٹر انور کمال پاشا پاکستان کے مشہور پروڈیوسر اور ڈائرکٹر رہے ہیں۔ اس فلم کے علاوہ انھوں نے متعدد کامیاب فلمیں بنائی ہیں۔ جس میں وطن 1960، غلام1953، رات کی بات 1954، سرفروش 1956، گمراہ 1959، لیلا مجنوں 1956، چن ماہی 1956، انتقام 1955، قاتل 1955، سیکریٹس آف دا نائٹ1954، گمنام1954، دل بر 1951، گبھرو 1950، دو آنسو 1950، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے 11 فلموں کو پروڈیوس بھی کیا اور ایک فلم ’دل بر 1951‘ میں اداکار کی حیثیت سے نظر بھی آئے۔فلم انار کلی میں Music راشد اختر (15فروری 1919 امرتسر، پنجاب: 18دسمبر 1967 لاہور، پاکستان) اور عنایت حسین (1923 لاہور، پنجاب: 25مارچ 1993 لاہور)نے دی تھی اور Playback Singer کے کام کو نور جہاں (21ستمبر 1926: 23 د سمبر 2000 کراچی، پاکستان) نے ادا کیا۔ جو پلے بیک سنگرکی شکل میں منظر عام پر آئی۔
اگر اس بات کا اعتراف کیا جائے تو یہ بات سچ ہے کہ اب تک انارکلی کہانی یاڈراما پر مبنی جتنی بھی فلمیں بنیں، ان تمام فلموں میں وہ بات نہ آسکی جو تاج کے ڈراماانارکلی پر مبنی فلم مغل اعظم میں آئی جسے فلمی دنیا میں سنگ میل کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ یہ فلم 5اگست 1960 کو ممبئی کے مراٹھا مندر سنیما حال میں لگائی گئی جس کو دیکھنے کے لیے عوام نے کئی راتیں جاگ کر گزاریں۔ اس فلم کے ڈائرکٹر کے آصف ’کریم الدین آصف‘ (14جون 1924 اٹاوہ: 9 مارچ 1971 ممبئی)تھے۔ جنھوں نے ڈراما انارکلی کو ایک نئی زندگی فراہم کردی۔ اس فلم میں موسیقی نوشاد (25دسمبر1919 لکھنؤ: 5مئی 2006) نے دی۔شکیل بدایونی (13اگست 1916 بدایوں:20 اپریل 1970) نے اس کے نغمے لکھے اور اسے گانے کے لیے فلمی دنیا کے ستاروں کو زمین پر آنا پڑا جن میں بڑے غلام علی خاں (2اپریل 1902 لاہور: 23 اپریل 1968 حیدر آباد)، محمد رفیع (24دسمبر1924 امرتسر: 13جولائی 1980 ممبئی)، شمشاد بیگم (14اپریل 1919 امرتسر: 23 اپریل 2013 ممبئی)، لتا منگیشکر (28ستمبر 1929اندور) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
فلم کو زبان عطا کرنے یعنی ان کے مکالمے لکھنے والوں میں امان اللہ خان، کمال امروہی(سید امیر حیدر کمال نقوی، 17جنوری 1918: 11فروری 1993 ممبئی)، احسان رضوی، اور وجاہت مرزا(مرزا وجاہت حسین چنگیزی، 20اپریل 1908سیتاپور: 4اگست 1990 کراچی) تھے اور شہنشاہ اکبر کا کردار ’پرتھوی راج کپور‘ (3 نومبر، 1906 پشاور: 29مئی 1972 ممبئی) نے ادا کیا، شہزادہ سلیم کا کردار’یوسف خان عرف دلیپ کمار‘ (11دسمبر 1922 پشاور، پاکستان ) نے ادا کیا۔ انارکلی کا کردار ’ممتاز جہاں دہلوی عرف مدھوبالا‘ (14فروری 1933 دہلی: 2فروری 1969 ممبئی ) نے بحسن خوبی ادا کیا۔ ان کے علاوہ مہارانی جودھا کا کردار ’درگاکھوٹے‘ (14 جنوری 1905 ممبئی: 22 دسمبر 1991 ممبئی) بہار کا کردار ’نگار سلطانہ‘ (21جون 1932انتقال 21 اپریل 2000 ممبئی) درجن سنگھ، (اجیت، حامد علی خان) سلیم کا بے تکلف دوست اور رازدار، 27 جنوری 1922، گولکنڈہ، حیدرآباد انتقال 21اکتوبر 1998 حیدر آباد، سنگرآش کا کردار ’کمار‘ (سید علی حسن (23 ستمبر1903 لکھنؤ:1982) اور ثریا کا کردار’شیلا دلایا‘ نے بڑے ہی فنکارانہ ڈھنگ سے ادا کیا۔ یہ کردار اس زمانے کی فلموں میں آسانی سے کام نہیں کرتے تھے اس کے لیے کے آصف نے بڑی محنت اور لگن سے کام لیا اور تمام اداکاروں سے سفارش کی تب جاکر یہ فلم منظرعام پر آئی۔ اس فلم میں سلیم کے بچپن کا کردار جس میں شیخو کہہ کر اکبر مخاطب کرتا ہے وہ کردار ’جلال آغا‘ (1926: 5مئی 1995)نے پیش کیا،تان سین (سریندر ناتھ شرما) 11نومبر 1910 گرداس پور، پنجاب؍ انتقال 1987 ممبئی، کلاسیک گانا گانے والا ایک فرد، وزیر حق، اور کنیزیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس فلم کا انگریزی نام "The Emperor of Mughals"اور "The Great Mughal"ہے۔ اس فلم کے نغمے اور کچھ غزلیں اس طرح ہیں :
.1 سبھ دن آیو، سبھ دن آیو۔ صاحب عالم جگ اُجیارو، سبھ دن آیو (گلوکار: استاد بڑے غلام علی خاں)
.2 موہے پنگھٹ پہ نند لال چھیڑ گئیورے، موری ناجک کلئیا مروڑ گئیو رے (گلوکار: لتا منگیشکر اور ساتھی)
.3 تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے، ہاں جی ہم بھی دیکھیں گے (گلوکار: لتا منگیشکر، شمشاد بیگم اور ساتھی گلوکارائیں)
.4 اے عشق یہ سب دنیا والے،بے کار کی باتیں کرتے ہیں۔پائل کے غموں کا علم نہیں،جھنکار کی باتیں کرتے ہیں(گلوکار۔لتا منگیشکر)
(یہ نغمہ بلیک اینڈ وہائٹ فلم میں موجود ہے،رنگین فلم میں سے حذف کر دیا گیا ہے۔)
.5 پریم جوگن بن کے، سندری پیا اور چلی،ساجن سوں جونین ملے تو من کی پیاس بجھی(گلوکار۔استاد بڑے غلام علی خاں) 
.6 محبت کی چھوٹی کہانی پہ روئے،بڑی چوٹ کھائے جوانی پہ روئے۔(گلوکار۔لتا منگیشکر)
.7 ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی...ہمیں کاش،کہانی ہماری حقیقت نہ ہوتی(گلوکار۔لتا منگیشکر)
(یہ نغمہ بلیک اینڈ وہائٹ فلم میں موجود ہے،رنگین فلم میں سے حذف کر دیا گیا ہے۔)
.8 انسان کسی سے دنیا میں اک بار محبت کرتا ہے۔اس درد کو لے کر جیتا ہے اس درد کو لے کر مرتا ہے۔پیار کیا تو ڈرنا کیا(گلوکار۔لتا منگیشکر)
.9 اے میرے مشکل کشا،فریاد ہے، فریاد ہے، آپ کے ہوتے ہوئے دنیا میری برباد ہے۔ (گلوکار:لتا منگیشکر)
.10 وفا کی راہ میں عاشق کی عید ہوتی ہے۔ خوشی مناؤ محبت شہید ہوتی ہے(محمد رفیع اور ساتھی)
.11 یہ دل کی لگی کم کیا ہوگی،یہ عشق بھلا کم کیا ہوگا،جب رات ہے ایسی متوالی،پھر صبح کا عالم کیا ہوگا(گلوکار۔لتا منگیشکر، ساتھی گلوکارائیں)
غزل: ماہ رو مہ جبیں انار کلی،دل ربا دل نشیں انار کلی،ہو یہ معلوم تم کو بعد سلام،غم فرقت سے دل ہے بے آرام (مدھوبالہ’انار کلی‘)
غزل: دل می رو د زدستم صاحب دلاں خدارا،دردا کہ رازِ پنہاں خواہد شد آشکارا(انار کلی فال پڑھتی ہے۔دیوان حافظ)
فلم مغل اعظم کے خالق کریم الدین آصف نے اپنی پوری زندگی میں تقریباً 3 یا4 فلمیں بنائیں لیکن فلم مغل اعظم انھیں زندہ و جاوید رکھنے کے لیے کافی ہے۔جو آج بھی ناظرین کے دلوں میں ویسے ہی جگہ بنائے ہوئے ہے جس طرح 1960 میں تھی۔
فلم مغل اعظم کے بعد ایک اور فلم ڈراما انارکلی پر مبنی ملیالم زبان میں 27اگست 1966 میں منظرعام پر آئی۔ اس فلم کے ڈائرکٹر ’کنچاکو‘Kunchako (پیدائش 1912: 15جون 1976 مدراس،تمل ناڈو) ہیں۔اور کہانی کار کے طور پر ’ ویکم چندر شیکھرن نیر‘ (1920:12اپریل 2005) قابل ذکر ہیں۔ اداکاروں میں انارکلی کا کردار ’کے۔ آر۔ وجیا‘ (پیدائش1948)، شہنشاہ اکبر کا کردار ’ستین، مانویل ستھیانیشان ندر‘(9نومبر1912: 15جون 1971)، سلیم کا کردار ’پریم نذیر‘ (16دسمبر 1926: 16جنوری 1989)، جو دھا کا کردار ’امبیکا سکومرن‘ (ندارد)، تان سین کا کردار ’ ڈاکٹر کے جے یسوداس‘ (10جنوری 1940)نے بہ حسن و خوبی نبھایا۔ ’مان سنگھ ‘(11ستمبر 1922: 19 اکتوبر 1986) کا کردار کوٹر اککاراسری دھرن نیر نے کیا۔ ’راج سری‘ کُسُما کماری (پیدائش 1945)نے گلنار کا رول پلے کیا۔ انار کلی کی ماں کا رول ’پھیلومینا‘ (1926: 2جنوری 2006) نے ادا کیا۔ ان کے علاوہ ادور بھاسی (کریم)، ایس پی پللائی (قاسم)، منا وَلن جوسیفھ نے غلام تاجر کا کردار ادا کیا اور ایل پی آر ورما (درباری گائک) نے بھی اپنے کرداروں کو جی جان سے نبھایا اور فلم کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ موسیقی ’محمد صابربابو راج‘ (9مارچ 1921: 7 اکتوبر 1978) کی تھی۔ پریم نذیر کا نام ملیالم سنیما کی تاریخ میں ایک بڑا نام ہے۔ انھوں نے تقریباً 55سے زائد فلموں میں کام کیا ہے۔
اس فلم کے بعد ایک اور فلم جو ’اکبر، سلیم، انارکلی‘ کے عنوان سے منظر عام پر آتی ہے وہ 9مئی 1979 میں تیلگو زبان کا لباس عطا کیے ہوئے ہے۔ (نوٹ۔ Internet پر اسی فلم کے منظر عام پر آنے کا سال 1978 بھی دکھایا جاتا ہے ) اس فلم کے ڈائرکٹر ’ ترا کا راماراؤنند عمری‘ تھے۔ میوزک کے لیے سی رام چندر جی کی خدمت لی گئی اس فلم میں شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کا کردار خود ڈائرکٹر نے نبھایا ہے۔ اور سلیم کے کردار کو ان کے بیٹے ’بال کرشن‘ (10جون 1960) نے پیش کیا ہے۔ انارکلی کے کردار کو’دیپا‘ اصل نام انی میری نے پیش کیا۔ ساتھ ہی کچھ اہم کرداروں میں جمنا،اور گومڈی بھی ہیں جنھوں نے اپنے رول کو بہ حسن و خوبی انجام دیا۔
اس فلم میں کل آٹھ گانے پیش کیے گئے ان گانوں کے پہلے مکھڑے کو یہاں درج کیے دیتا ہوں۔ تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں: تھارلین ٹھگا،تھانے میلی موسوگو،مدنا موہانو دے، رےئی آگی پونی،سی پئے سی پئے، ویلا ایری گینا دورا انٹے، کالو سوکنّا، پری مسٹ ٹپانٹارا،وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
’ ترا کا راماراؤنند عمری‘ کو ’این ٹی راؤ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 28مئی 1923 کو آندھراپردیش کے کرشن، ضلع میں پیدا ہوئے اور18جنوری 1996 کو اس دنیا سے سدا کے لیے چلے گئے۔ موصوف نے اپنی زندگی میں تقریباََ 254 سے زائد فلموں میں بہ حیثیت اداکار، ڈائرکٹر، پروڈیوسر،کارنامے انجام دیے۔ زیادہ سے زیادہ فلمیں بہت کامیاب رہیں۔جن میں تیلگو،ہندی اور تمل فلمیں خاص طور سے شامل ہیں۔ 
مختصر یہ کہ ڈرامہ انار کلی پر مبنی جتنی بھی فلمیں آج تک بنی ان میں ’مغل اعظم‘ 1960 (کریم الدین آصف) اور’انار کلی‘ 1953 (نند لال جسونت لال) ہر لحاظ سے قابل ذکر ہیں۔ اگر ہمیں ان 9 فلموں میں صرف ایک فلم کا انتخاب کرنے کو کہا جائے تو وہ مغل اعظم 1960 ہے جو ڈرامہ نگاری اور سنیما کے لیے بالکل Perfectنظر آتی ہے۔فلم مغل اعظم میں بھی تقریباً تاج کے ڈراما انارکلی کی ہی کہانی کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ لیکن کے آصف کی ذہانت کا مرید ہونا پڑتا ہے کہ انھوں کچھ ایسے زندہ کردار کا اضافہ کیا جو فلمی دنیا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی کام اورفلم بنانے والے نہ کر سکے۔ سب نے ڈرامہ انار کلی میں کچھ حذف واضافہ کر کے اسے پیش کر دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی انار کلی کا ذکر آتا ہے تو ہمارے ذہن میں ڈرامہ’ انار کلی‘ کے ساتھ فلم’مغل اعظم‘ ہی آتی ہے۔فلم مغل اعظم کا پلاٹ حقیقتاً نہایت ہی مربوط اور گٹھاہوا ہے۔چاہے وہ پلاٹ ہو، مکالمہ نگاری ہو، پیش کش ہو، کردار نگاری ہو، زبان ہو یا سیٹ، ہر لحاظ سے فلم مغل اعظم،ڈراما انارکلی سے قریب اورکامیاب نظرآتی ہے۔
کتابیات:
* امتیاز تحقیق و تنقید: ڈاکٹر سلیم ملک، بک ہوم لاہور، پاکستان 2004
امتیاز علی تاج: ڈراما انار کلی’ مقدمہ: پروفیسرمحمود الٰہی‘ لکھنؤ 2003
پروفیسر عبدالسلام: فن ڈراما نگاری اور انار کلی، پاکستان 1961
سید امتیاز علی تاج(زندگی اور فن): ڈاکٹر محمد سلیم ملک، پاکستان2003
انیس امروہوی، پس پردہ (فلمی مضامین)، تخلیق کار پبلشرز، دہلی2010
انیل زنکار،مغل اعظم (Legent as epic)،Harper Collins,India،2013
پریم پال اشک، فلم شناسی، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دہلی1992
پریم پال اشک: ہمارا سنیما،قومی اردو کونسل،دہلی2010
پریم پال اشک : ہندوستانی سنیما کے پچاس سال، مورڈن پبلشنگ ہاؤس،دہلی 2000
ڈاکٹر الف انصاری: ہندوستانی فلم کا آغاز و ارتقا، (دو جلدوں میں) عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی2013
سہیل اختر: نسرین منی کبیر، فلم مغل اعظم اسکرپٹ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس،دہلی2007
سازیہ رشید: انڈین سینما تاریخ کے آئینہ میں، (صد سالہ تاریخ) پین اینڈ پیپر پبلی کیشنز،لاہور، 2011
ہندوستان کے عظیم موسیقار : شمبھو ناتھ مشرا: مترجم:رئیس مرزا، پبلی کیشنز ڈویژن،دہلی،اکتوبر 1996
* ایس مسعود سراج: (اردو ڈرامہ اور انار کلی)، نیا دور، لکھنؤ، نومبر1982
نجم الحسن انجم ادیب: مضمون: انارکلی ارباب علم کی نظر میں، شیرازہ، کشمیر، جنوری 1990
شیرازہ’ماہانہ‘: محمد یوسف ٹینگ، جنوری1990، سرینگر، کشمیر
ڈاکٹر وحید قریشی: صحیفہ، تاج نمبر، پاکستان، شمارہ 53، اکتوبر 1970
* فلم مغل اعظم: ڈائرکٹر، کریم الدین آصف، ڈی وی ڈی، کلر، شیمارو،نئی دہلی
فلم انار کلی: ڈائرکٹر،نند لال جسونت لال، سی ڈی بلیک اینڈ وہائٹ، الٹرا ویڈیو سی ڈی، نئی دہلی
فلموں سے متعلق تمام تر تفصیلات Internet IMDbسے بھی حاصل کی گئیں ہیں

Ashfaque Ahmad Umar, 
Dept of Urdu, JNU, New Delhi - 110067
Mob.: 9795617086
Email.: ashfaq.2013@gmail.com

ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں