12/4/19

اردو شاعری میں نظیر اکبرآبادی کی انفرادیت و اہمیت مضمون نگار: محمد نعمان خاں


اردو شاعری میں نظیر اکبرآبادی کی انفرادیت و اہمیت
محمد نعمان خاں

امیرخسرو، قلی قطب شاہ اور ولی دکنی سے لے کر عصر حاضر تک بے شمار اردو شعرا نے مختلف شعری اصناف میں طبع آزمائی کرکے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا فنکارانہ اظہار کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قبول عام اور بقائے دوام کا شرف معدودِ چند شعرا کے حصے میں ہی آسکا ہے۔ اردو کے جو خوش نصیب شعرا مجتہدانہ انفراد و اختصاص کے مرتبے کو پہنچ سکے ہیں اُن میں ایک نام ولی محمد نظیر اکبرآبادی کا بھی ہے۔
نظیر اکبرآبادی کئی اعتبار سے منفرد و اہم شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے لسانی، فکری، فنی، تہذیبی، موضوعاتی لحاظ سے عام مروّجہ شاعرانہ روش سے اجتناب کرکے اپنی راہ خود تعمیر کی۔ ان کے اس مجتہدانہ عمل کے سبب اُنھیں باغی، روایت شکن، مبتذل، سطحی، چٹکلے باز، عوامی شاعر کہہ کر عرصہ دراز تک اُن کی شاعرانہ حیثیت اہمیت اور عظمت کو نظرانداز کیا جاتا رہا لیکن جن وجوہ و اسباب کے تحت انھیں معیاری شاعر تسلیم نہیں کیا گیا، وقت گزرنے کے ساتھ وہی تمام امور و عناصر اُن کی عظمت، انفرادیت اور اہم عوامی شاعر ہونے کا سبب بن گئے۔ نظیراکبرآبادی کی شاعرانہ عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اردو اور ہندی حلقوں میں نہ صرف یکساں طور پر مقبول ہیں بلکہ اسکولی تعلیم کی ابتدائی سطح سے دانش گاہوں کی اعلیٰ سطح تک کے نصابات میں ان کا کلام شامل نظر آتا ہے۔ 
نظیر اکبرآبادی زندگی کے شاعر ہیں، ہندوستان کے شاعر ہیں۔ انھوں نے مہد سے لحد تک روزمرہ زندگی کے چھوٹے، بڑے، اہم اور غیراہم قسم کے واقعات کو جس طرح حقیقی رنگ میں بیان کیا ہے اسی طرح اُس کی نظیر کسی اور اردو شاعر کے یہاں نظر نہیں آتی۔ زندگی کے ڈرامے میں نظیر کی حیثیت محض تماشہ بیں یا واقعہ نویس کی نہیں بلکہ حقیقی عملی کردار کی ہے۔ وہ اہم وصف جو اُنھیں دیگر اردو شعرا سے منفرد و ممتاز حیثیت عطا کرتا ہے وہ ان کی سادگی، سچائی، قلندرانہ انداز، انسان دوستی اور عوامی زندگی سے گہری وابستگی میں مضمر ہے۔ وہ ایسے پہلے منفرد اور اہم عوامی شاعر ہیں جن کے پورے کلام میں بلاامتیازِ مذہب و ملت ہندوستان کے عام آدمی یا عام انسان کا تصور اور اس کے متعلقہ مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ آل احمد سرور نے نظیر کی پوری شاعری کو ’آدمی نامہ‘ سے موسوم کیا ہے۔ نظیر خود ایک عام انسان تھے۔ ان کی تمام زندگی عام حالات میں، عوام الناس کے درمیان رہ کر بسر ہوئی۔ باوجود پیشکش کے اُمراء و سلاطین کے دربار سے وابستہ ہونا اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا ان کی عوام پسند، خوددار، دُرویشانہ طبیعت نے گوارا نہیں کیا۔ نظیرتوکّل پسند انسان تھے۔ انھوں نے دیگر اردو شعرا کی طرح نہ تو ناآسودگیوں اور محرومیوں کا رونا رویا اور نہ ہی نامساعد حالات کا شکوہ زبان پر آنے دیا۔ جیسے اور جو بھی حالات درپیش تھے انھوں نے صبروشکر و اطمینان کے ساتھ اُنھیں حالات میں گزر بسر کی اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے رہے۔ فارسی اور اردو شاعری کی مروّجہ روایت سے یہ پہلا انحراف ہے کہ جس میں انسانیت کے تئیں ایک ایسے وسیع المشرب، صلحِ کل، روادار، خوش فکر، بے باک فنکار کے مصورانہ تخیل اور بیانیہ ہنرمندی کی کارفرمائی نمایاں ہے جو ارضِ وطن کی محبت سے سرشار تھا اور جسے وطنِ عزیز کا ہر ذرّہ دیوتا نظر آتا تھا۔ جس کے نظامِ فکروفن میں عام آدمی کی زندگی اور اس کے عہد کا پورا سماجی، سیاسی، تہذیبی، مذہبی، تفریحی اور کاروباری منظرنامہ جلوہ گر نظر آتا ہے۔
نظیر کا انفراد و اختصاص یہ بھی ہے کہ وہ جس موضوع پر قلم اُٹھاتے تھے، اپنے مشاہدات، تجربات اور معلومات کو بروئے کار لاکر اُس سے متعلق تمام تر ضروری تفصیلات اور جزئیات کو حقیقی رنگ میں، سادگی کے ساتھ شعر کے پیکر میں ڈھال دیتے تھے اور اپنی منظرسازی، محاکات آفرینی واقعہ نگاری سے ایسی لفظی تصویر پیش کردیتے تھے جس میں حرکت و تموج، رنگ و آہنگ، صورت و صدا، حسیاتی اور لمسیاتی کیفیت کا جیتا جاگتا نمونہ پڑھنے والے کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
نظیر اکبرآبادی البیلی شخصیت اور ہمہ جہت صفات کے مالک تھے۔ ان کے کلام کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ محض ایک فطرت شناس، قادرالکلام شاعر ہی نہ تھے بلکہ اپنے عہد کے سچے مورّخ، سماجی مبصر، واقعہ نویس، مرقع نگار، طنزومزاح نگار، نفسیات و عمرانیات و لسانایت کے ماہر، ایک وسیع المعلومات انسان تھے۔ تخلیقی صلاحیتیں انھیں فطرت کی جانب سے ودیعت ہوئی تھیں چنانچہ ان کا انفراد یہ بھی ہے کہ انھوں نے نہ تو کسی استادِفن سے مشورۂ سخن کیا اور نہ ہی کبھی شاعرانہ تعلّی سے کام لیا۔ نظیر کی شاعری ہر طرح کے تصنع اور آورد سے عاری ہے۔ وہ تو دل کی کتاب کے قاری تھے۔ بقولِ خود :
سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیر دل کی کتاب
نظیر کی انفرادیت و اہمیت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انھوں نے بے ثباتی دنیا، اخلاقی اقدار کی پامالی، انسان کی ناقدری، موت کی حقیقت اور مذہبی رسوم کے ساتھ ساتھ زنانِ بازاری اور جنسی موضوعات پر بھی بے محابا، بے باکانہ نظمیں کہی ہیں۔ ان کے کلام میں بے ثباتیِ دنیا کا شدید احساس شامل ہونے کے باوجود، اداسی اور غم انگیزی کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موت کی حقیقت کے احساس نے اُنھیں ہر حال میں خوش اور مطمئن رہنے کا ہنر سکھادیا تھا اور اسی شعار کا مشورہ وہ اپنے قاری کو بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ نظم ’’تسلیم و رضا‘‘ کا یہ بند ملاحظہ کیجیے :
جو فقر میں پورے ہیں، وہ ہر حال میں خوش ہیں
ہر کام میں، ہر دام میں، ہر حال میں خوش ہیں
گر مال دیا یار نے تو مال میں خوش ہیں
بے زر جو کیا تو اِسی احوال میں خوش ہیں
اِفلاس میں، ادبار میں، اقبال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں
ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور تصوف دونوں موضوعات کی عکاسی کے سبب بھی نظیر متقدمین، متوسطین اور متاخرین اردو شعرا میں اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔ ان کے کلام میں اسلام کا صوفیانہ وجدان بھی ہے اور ہندو مذہب اور بھگتی کا گیان دھیان بھی۔
نظیر اردو کے وہ پہلے مسلم شاعر ہیں جنھوں نے قلندرانہ مزاج وماحول کے ساتھ ساتھ ہندو مذہبیات اور صنمیات پر بھی سب سے زیادہ نظمیں کہی ہیں۔
اردو شاعری طبقۂ اعلیٰ کی ترجمان اور عشقیہ جذبات کے اظہار سے عبارت تھی۔ نظیر نے اسے عوامی رنگ اور قلندرانہ مزاج عطا کرکے ایک ایسے رنگ و آہنگ سے ہم کنار کیا جو کسی بھی مذہب و مسلک سے بالاتر تھا۔ بقولِ اختر اورینوی :
’’نظیر کا سب سے زیادہ رچا ہوا رنگ قلندرانہ لطف اندوزی میں نظر آتا ہے۔۔۔ باہم اور بے ہم کی روح نظیر کے یہاں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ ۔۔۔ نظیر کے پاس اگر کوئی پیغام ہے تو وہ قلندری اور بے خودی کا ہے۔ ۔۔۔ وہ عامّۃ الناس کو صرف پیغام نہیں دیتا بلکہ وہ ان کی سطح پر اُترکر، ان کے ساتھ زندگی اور انسانیت کے تجربے کرتا ہے۔ وہ صرف واعظ نہیں ہے، اداکار بھی ہے۔ وہ رمزوکنائے کی زبان میں گفتگو نہیں کرتا بلکہ جنتا کی سیدھی سادی، صاف ستھری زبان میں نغمہ سرائی کرتا ہے‘‘۔ 
نظیر اکبرآبادی زودگو شاعر تھے۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ انھوں نے دو لاکھ سے زیادہ اشعار کہے ہیں۔ موضوعات کے تنوع اور لفظیات و مصطلحات کے استعمال کے اعتبار سے بھی نظیر کی انفرادیت و اہمیت مسلّم ہے۔ انھیں مختلف آٹھ زبانوں یعنی عربی، فارسی، برج بھاشا، پنجابی، مارواڑی، پوربی، ہندی اور اردو پر نہ صرف دسترس حاصل تھی بلکہ حسبِ ضرورت اُنھوں نے مذکورہ بالا تمام بولیوں اور زبانوں کے الفاظ کو اپنے کلام میں برجستہ طور پر استعمال کرکے مؤثر و بامعنی بنادیا ہے۔ نظیر کی شاعری مخصوص لفظیات کا خزانہ ہے۔ انھوں نے اپنا علاحدہ اسلوب اختیار کیا اور موضوع کی مناسبت سے کئی نئی لفظیات و مصطلحات وضع کرکے لسانی اعتبار سے بھی اردو شاعری کو ثروت مند بنادیا ہے۔
کلامِ نظیر کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے کلام میں عربی، فارسی لفظیات، مصطلحات اور تشبیہات کا استعمال کم سے کم کیا ہے۔
مقامی بولیوں کے الفاظ اور روزمرہ کو نظیر نے جتنا زیادہ اپنے کلام میں برتا ہے اس کی مثال کہیں اور نظر نہیں آتی۔ نظیر کا یہ لسانی رویہ محض نظم گوئی کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ غزل گوئی اور دیگر شعری اصناف میں بھی انھوں نے اسے برقرار رکھتے ہوئے اپنی مجتہدانہ انفرادیت اور جدت پسندی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ نظیر نے ابتدا ہی سے اس روش کو قائم رکھا چنانچہ میر کی موجودگی میں پہلی بار مشاعرے میں شریک ہوکر انھوں نھے جو غزل پڑھی، وہ بھی اسی رنگ و طرز کی حامل تھی۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے :

نظر پڑا اک بتِ پری وش، نرالی سج دھج نئی ادا کا
جو عمر دیکھو تو دس برس کی، پہ قہر آفت، غضب خدا کا
گلے لپٹنے میں یہ شتابی کہ جیسے بجلی کی اضطرابی
اِدھر جو چمکا، چمک چمک کر، اُدھر جو لپکا تو پھر جھپاکا
لڑاوے آنکھیں بہ بے حجابی کہ پھر پلک سے پلک نہ مارے
جو نظریں نیچے کرے تو گویا، کُھلا سراپا چمن حیا کا
جتاوے الفت، چڑھاوے ابرو، اِدھر لگاوٹ، اُدھر تغافل
کرے تبسم، جھڑک دے ہر دم، روشِ ہٹیلی، چلن دغا کا
نہ وہ سنبھالے کسی سے سنبھلے، نہ وہ منائے، منے کسی سے
جو قتلِ عاشق پہ آ کے مچلے، تو غیر کا پھر نہ آشنا کا
جو شکل دیکھو تو بھولی بھالی، جو باتیں سنیے تو میٹھی میٹھی
دل ایسا پتّھر کہ سر اڑا دے جو نام لیجے کبھی وفا کا
نظیرکی دیگر غزلوں کے اشعار میں بھی یہی انداز نمایاں ہے۔ 
غزل کا فن ایجاز و اختصار اور اشارے و کنائے سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزل میں نظم کی طرح تفصیل، تسلسل ، روانی اور جزئیات کی گنجائش نہیں لیکن نظیر اکبرآبادی نے اجتہاد سے کام لے کر اپنی غزلوں میں اس کلّیے کو بھی غلط ثابت کردیا ہے۔ نظیر نے نظموں کے علاوہ اکثر غزلوں میں بھی تسلسل اور فکری ارتقا کی نظیر پیش کی ہے۔ ان کی اس نوع کی غزلوں میں روایتی تہہ داری اور ایجاز کے بجائے وضاحت و صراحت سے کام لیا گیا ہے۔ ان کی بیشتر غزلیں ایسی ہیں جنھیں قافیہ بند اشعار کے بطور پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان کی بعض غزلیں جزئیات نگاری، سراپا نگاری اور مکالمہ طرازی کی مثالیں بھی پیش کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اُن کی مکالماتی غزل کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے :
کہا جو ہم نے ’’ہمیں در سے کیوں اُٹھاتے ہو؟‘‘
کہا کہ ’’اس لیے تم یاں جو غل مچاتے ہو‘‘
کہا ’’لڑاتے ہو کیوں ہم سے غیر کو ہر دم‘‘
کہا کہ ’’تم بھی تو ہم سے نگہ لڑاتے ہو‘‘
کہا جو حالِ دل اپنا تو اس نے ہنس ہنس کر
کہا ’’غلط ہے یہ باتیں جو تم بناتے ہو‘‘
کہا کہ ’’عرض کریں ہم پہ جو گذرتا ہے؟‘‘
کہا ’’خبر ہے ہمیں، کیوں زباں پہ لاتے ہو‘‘
کہا کہ ہم نہیں آنے کے یاں تو اُس نے نظیر
کہا کہ ’’سو چو تو کیا آپ سے تم آتے ہو؟‘‘
پیرایۂ نظم میں محبوب کا سراپا بیان کرنا اس قدر دشوار نہیں ہے جس قدر کہ غزل کے تنگ دامن میں نظیر نے اپنی محبوب ’موتی بیگم‘ کا سراپا غزل کی ہیئت میں اس طرح بیان کیا ہے:
بھرے ہیں اُس پری میں اب تو یارو سر بہ سر موتی
گلے میں، کان میں، نتھ میں، جدھر دیکھو، اُدھر موتی
وہ ہنستی ہے تو کھلتا ہے جواہر خانۂ قدرت
اِدھر لعل اور اُدھر نیلم، اُدھر مرجاں، اِدھر موتی
جو کہتا ہوں، ارے ظالم تو، اپنا نام تو بتلا
تو ہنس کر مجھ سے یوں کہتی ہے، وہ جادو نظر ’موتی‘
تبسم کی جھلک میں یوں جھمک جاتے ہیں دانت اُس کے
کسی کے یک بہ یک جس طور جاتے ہیں بکھر موتی
نظیر اس ریختے کو سن، وہ ہنس کر یوں لگی کہنے
اگر ہوتے تو میں دیتی تجھے اک تھال بھر موتی
موتی بیگم کا یہ دلکش سراپا جب ایک غزل میں پورا نہیں ہوتا تو نظیر اُسے اپنی دوسری غزل میں ایک خاص شوخی اور روانی کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں :
دکھاکر اک جھلک دل کو نہایت کر گیا بیکل
پری رو، تند خو، سرکش، ہٹیلا، چلبلا، چنچل
وہ عارض اور جبیں تاباں کہ ہوں دیکھ اُس کو شرمندہ
قمر، خورشید،زہرہ، شمع، شعلہ، مشتری، مشعل
کفوں میں، انگلیوں میں، لعلِ لب میں، چشمِ مے گوں میں
حنا آفت، ستم فندق، مسی جادو، فسوں کاجل
بدن پہ جامۂ زرکش، سراپا جس پہ زیب آور
کڑے، بُندے، چھڑے، چھلّے، انگوٹھی، نورتن، ہیکل
سراپا پُر فریب ایسا کہ ظاہر جس کی نظروں سے
شرارت، شوخی، عیاری، طرح، پُھرتی، دغا، چَھل بَل
نظیر اک عمر، عشرت ہو ملے ایسا پری پیکر
اگر اک آں، اگر اک دم، اگر اک چھن، اگر اک پل
کلام نظیر کا کمال یہ بھی ہے کہ نظیر نے موضوعات اور لفظیات میں ہی ہندوستانی طرز و رنگ کو قائم نہیں رکھا ہے بلکہ تشبیہات کے استعمال میں بھی یہی انداز روا رکھا گیا ہے۔ اس نوع کی کئی مثالیں ان کے کلام میں بکھری پڑی ہیں۔ نمونتاً دو شعر پیش کیے جاتے ہیں :
دیکھ کر کُرتی گلے میں سبز دھانی آپ کی
دھان کے بھی کھیت نے اب آن مانی آپ کی
یا:
یوں تو ہم تھے، یوں ہی کچھ مثلِ انار و مہتاب
جب ہمیں آگ دکھائی تو تماشا نکلا
اردو شاعری خصوصاً غزل میں محبوب کے لیے تذکیر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ نظیر کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے محبوب کے لیے تانیثی صیغہ استعمال کیا ہے۔ مثلاً :
کیا ہمیں لگتی ہے پیاری جب وہ کہتی ہے نظیر
ہے میاں کچھ اِن دنوں نا مہربانی آپ کی
نظیر کا انفراد یہ بھی ہے کہ انھوں نے نئی لفظیات، مصطلحات، تشبیہات ہی وضع نہیں کی ہیں بلکہ اردو شاعری کو ایک انوکھے اور منفرد اُسلوب سے بھی روشناس کرایا ہے۔ اس ضمن میں کلیم الدین احمد کی یہ رائے حرف بہ حرف صحیح ہے کہ:
’’نظیر کی ہمہ گیری نے اردو شاعری کو ایک نیا اسلوب اُس وقت دیا جب غزل گوئی شاعرانہ اظہار کی عالمانہ شکل تھی ۔۔۔ نظیر اکبرآبادی وہ واحد شاعر تھے جس نے وقت کے تقاضے کے پیشِ نظر نرالے ڈھنگ سے اپنے جگر کو خون کرکے، ہم عصر شعرا کے برعکس اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس نے دربار داری کا راستہ اپنانے سے انکار کردیا اور عام انسانوں کو خطاب کرنے کے واسطے سچائی، جوش اور حقیقت کی شمع روشن کی۔ اُس نے رسمی طریقوں سے جن کی تقلید اُس زمانے میں تخلیقی فنکار کررہے تھے، قطع تعلق کرلیا تھا‘‘۔ 
نظیر اکبرآبادی نے تمام مروّجہ شعری اصناف مخمس، مسدس، رباعی، قطعات، ترکیب بند، ترجیع بند، گرہ بند، قصیدہ، مثنوی اور غزل گوئی میں طبع آزمائی کی ہے لیکن بنیادی طور پر وہ نظم کے شاعر ہیں۔ مجنوں گورکھپوری اُنھیں اردو کا پہلا نظم نگار تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سب سے پہلی بات جو پہلی ہی نظر میں معلوم ہوجاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر قصائد ومثنویات کو نظم میں شمار نہ کیا جائے اور نظم کی اصطلاح کو جدید معنوں میں استعمال کیا جائے تو نظیر اکبرآبادی اردو کے پہلے نظم نگار ہیں۔‘‘
اردو نظم کے سفرِ ارتقا پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ اردو نظم نے نظیر سے گہرے اور دورس اثرات قبول کیے ہیں۔ اس ضمن میں بھی مجنوں گورکھپوری کی یہ رائے مبنی بر حقیقت ہے کہ:
’’بظاہر نظیر اکبرآبادی ہم کو اپنے تنہا رنگ کے تنہا شاعر نظر آتے ہیں، جن کی نہ کسی نے تعریف کی نہ تقلید۔ لیکن غائر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ نظیر اکبرآبادی کا اثر آئندہ نسلوں پر کتنی دور تک ہوا ہے اور نظم نگاری کی جو تحریک چلائی ہے اس میں کہیں شعوری اور کہیں غیر شعوری طور پر نظیر اکبرآبادی کے اثر پر کام کرتے رہے ہیں۔ حالی اور آزاد جو جدید نظم کے دو زبردست معمار ہیں، نظیر اکبرآبادی سے اثر قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
اسماعیل میرٹھی کی اسی بات کا اثر یہاں اور بھی واضح اور نمایاں ہے‘‘۔
کلامِ نظیر کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ تقلیدی اور ماورائی نہیں بلکہ اصلی اور ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ اس کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں۔ ان کی شاعری ایک بحرِ ذخار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے کلام کو استثناء کا درجہ حاصل ہے کہ وہ اپنی طرز کے خود ہی موجد تھے اور خاتم بھی۔
نظیر اکبرآبادی اردو شاعری میں قلندرانہ، عوامی اور جمہوری روایت کا آغاز کرنے والے پہلے تنہا مجتہد شاعر ہیں۔ میں اپنی بات کو مجنوں گورکھپوری کے اس خیال پر ختم کرتا ہوں:
’’نظیر کے کلام کے مطالعے سے پڑھنے والے پر جو مجموعی تاثر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ شخص اردو شاعری میں واقعیت اور جمہوریت کی بنیاد ڈالنے کی پہلی کوشش کررہا ہے۔ ۔۔۔ نظیر پہلے شاعر ہیں جن کو میں نے زمین پر کھڑا ہوکر زمین کی چیزوں سے متعلق بات کرتے پایا اور پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ شاعری کا تعلق روئے زمین سے بھی ہے۔‘‘

Mohammad Nauman Khan 
F-3, Goyal Hari Apartt., PNB Colony Idgah Hills 
Bhopal -462001 (MP)

ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں