11/4/19

مراٹھی اردو ترجموں میں قومی یکجہتی مضمون نگار: معین الدین عثمانی



مراٹھی اردو ترجموں میں قومی یکجہتی
معین الدین عثمانی
تخلیق اور ترجمہ دو الگ الگ اصناف ہیں، فنی اعتبار سے تخلیق کو ترجمے پر اولیت حاصل ہے مگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ترجمے کا فن بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔ حالانکہ اِسے ہمیشہ دوسرے درجے کی چیز سمجھ کر نظرانداز کیا گیاہے مگر ادبی تاریخ گواہ ہے بڑے سے بڑے فنکاروں نے بھی ایک وقفے کے لیے کیوں نہ سہی اِس جانب توجہ ضرور دی ہے۔ ترجمہ نگاری کا فن دو زبانوں، تہذیبوں، اور فکر و سوچ کے سمندروں کو باہم پیوست کرنے کا مشکل ترین کام ہے۔ بظاہر سہل اور آسان محسوس ہونے والا یہ فن تخلیق سے کسی درجہ کم محنت کا متقاضی نہیں ہوتا۔ فکر و خیال کے علاوہ اِس میں بھی انھیں لوازمات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے جو تخلیق کے مرحلے میں درپیش ہوتے ہیں بلکہ بعض مراحل میں تو یہ فن تخلیق سے بھی زیادہ دشوار کن مرحلوں سے گزرتا ہے مگر اردو کا یہ المیہ ہے کہ ترجمے کے ساتھ ہمیشہ سے سوتیلا سلوک ہوا ہے۔ بقول سلام بن رزاق:
’’ترجمے کو ہمیشہ دوسرے درجے کا ادب سمجھا گیاہے جبکہ یہ بات خاطر نشان رہنی چاہیے کہ ایک عمدہ ترجمہ ایک ناکام تخلیق سے بدرجہ بہتر ہوتا ہے۔‘‘
تخلیقی دور میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب عمدہ اور شاہ کار فن پارے کم یاب یا نایاب ہوجاتے ہیں ایسے انحطاط کے عالم میں تراجم ہی اس کی تلافی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تخلیقی عمل میں فنکار فکر و سوچ کو اپنی زبان کے دائرے میں وسعت دیتا ہے جبکہ ترجمہ نگاری کے عمل میں دوسرے فن کار کی فکر و سوچ کو اپنے ذہن کے دریچوں میں سجا کر زبان کے احاطے میں پیش کرنا ہوتاہے۔ اِس کے لیے دونوں زبانوں پر عبور لازمی ہے۔ ساتھ ہی دوسری زبان کی باریکیوں سے چابک دستی سے نپٹنے کا عمل بھی ترجمہ نگار کے بس میں ہونا ضروری ہے۔ اِس عرق ریزی میں مترجم مقدور بھر کوشش کرتا ہے اِس کے باوجود بھی بعض مرتبہ ایک سے دوسری شیشی میں عطر انڈیلنے کے اس عمل میں کچھ نہ کچھ حصہ پہلی شیشی میں باقی رہ جاتا ہے۔ یہاں اصل مصنف کے مدعا کو پالینا ہی خاص مقصد ہوتا ہے۔
ترجمہ نگاری کا یہ عمل عرصے سے جاری ہے۔ ہر زمانے میں ایک زبان کے ادب کو دوسری زبان کے ادب نے ترجمہ نگاری کے ذریعے مالامال کیاہے۔ زندہ زبان کی علامت یہ ہے کہ وہ دیگر زبانوں کی روایات کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ زبان کی وسعت میں ترجمہ نگاری کا رول بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ایسا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ جہاں تک مراٹھی زبان کا تعلق ہے بظاہر کھردری اور اکہری محسوس ہونے والی یہ زبان انگریزی زبان کی طرح وسیع اور پھیلی ہوئی زبان ہے۔ اگرچہ کہ اِس کے بولنے والوں کا حلقۂ ریاست مہاراشٹر تک ہی محدود لگتا ہے مگر اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ بھارت کی دیگر چند ریاستوں نیز دنیا کے کچھ ممالک میں اِس کے چاہنے والوں کا حلقہ دن بہ دن برھتا جارہا ہے۔ مہاراشٹر میں اِسے سرکاری حیثیت حاصل ہونے سے یہاں یہ پوری طرح سے اپنے برگ و بار نکال کر پروان چڑھ رہی ہے۔ اس کے بعد زیادہ بولی جانے والی زبان ریاست میں اردو ہی ہے۔ چونکہ ایک ہی ریاست میں مختلف زبانیں بولنے والے افراد باہم مخلوط ہوکر ہی زندگی گزارتے ہیں اِس بنا پر ایک دوسرے کی زبان سے متاثر ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ اردو مراٹھی کے ذخیرہ الفاظ کا جب ہم باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں تو بے شمارایسے الفاظ مل جاتے ہیں جو دونوں زبانوں میں یکساں طور پر استعمال ہوتے ہیں البتہ ادائیگی میں تھوڑا بہت فرق آجاتا ہے۔
کون سا لفظ کِس زبان میں پہلے رائج ہوا یہ سمجھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ سرکاری سطح پر مراٹھی کو پشت پناہی حاصل ہونے کی بنا پر ہر ایک کو اِس کی تعلیم ضروری قرار دی گئی ہے۔ اب ریاست میں جگہ جگہ آپ کو چند اردو داں ایسے ضرور مل جائیں گے جو مراٹھی اِس روانی سے پڑھتے لکھتے ہیں کہ ان پر اہلِ زبان ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ اردو داں حضرات کی مراٹھی کی جانب یہ توجہ خوش آئند اس لیے بھی ہے کہ ضرورتوں کی تکمیل میں یہ زبان اب ناگزیر ہوگئی ہے۔ دوسرے مراٹھی داں طبقے سے قربت کا ذریعہ بن کر لسانی اتحاد کے لیے بھی موثرکام انجام دے رہی ہے۔ جب دو تہذیبوں کے پروردہ افراد لسانی بنیاد پر قریب آتے ہیں تو ظاہر ہے کہ فرد ایک دوسرے کے ہی نہیں بلکہ دو طبقات کے خیالات وطرزِ فکر کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
ہمارا ملک بھارت مختلف تہذیبوں، روایتوں اور زبانوں کا گہوارہ ہے۔ لسانی اعتبار سے یہ ملک دوسرے ممالک سے مختلف ہے۔ یہاں ہر ریاست کے باشندوں کی زبان، پوشاک یہاں تک کہ کھانے پینے کے لوازمات میں بھی نمایاں فرق ہے۔ ایسی صورت میں دو زبانوں کے بولنے والے مختلف افراد ساتھ مل کر خیالات کا لین دین کرتے ہیں تو اِس ملک کی یکجہتی کو استحکام ہی ملتا ہے۔
بقول جناب سیدا مجد حسین151 قومی یکجہتی ہمارے ماضی کی وراثت ہے اور ہمارے مستقبل کی امانت ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے دکھ سکھ، خوشیاں اور غم مسرتیں اور مصیبتیں مشترکہ رہے ہیں ا ور کوئی بھی طاقت ہمیں مذہبی لسانی یا نسلی بنیاد پر تقسیم نہیں کرسکتی ہے۔ اس لیے کہ ہماری تہذیبی روایت ایک ہی رہی ہے۔ ہمارے میلے، تہوار، رسم و رواج، رقص، موسیقی اور سب سے بڑھ کر زندگی کے بارے میں ہمارا زاویہ نظر مشترکہ رہا ہے۔ ہماری ہندوستانی قومیت کی اساس یہی اشتراک ہے اور ہندوستانیت کا یہی احساس اقوام عالم میں ہماری شناخت اور پہچان ہے۔ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا:
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
ہماری ہستی یا ہمارا قومی تشخص آج اِسی قومی یک جہتی کی دین ہے۔ ہماری زبانیں، ہماری بولیاں، ہماری عبادتیں غرض کہ زندگی کے بہت سے گوشے ایک دوسرے سے الگ ہوسکتے ہیں لیکن یہ اختلاف نہیں ہماری تہذیبی رنگارنگی ہے۔ قومی یکجہتی کا سچا تصور اسی کثرت میں وحدت سے عبارت ہے۔
علی جواد زیدی کے مطابق ثقافوں کا امتیاز نشان زبان ہے اور بعض مفکرین نے اسے ملتوں کی بنیاد قرار دیا ہے۔ لیکن جاندار ترجموں نے اِس کا کردار بین الملکی بنا دیا ہے۔ کسی دور میں زبانوں نے ملتوں اور قوموں کی دیواریں کھڑی کی تھیں۔ ترجمے ان دیواروں کو گرا کر دلوں کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ اور ہم ایک دوسرے کی نبضوں کی دھمک خیالات کی فلک سیروں اور محسوسات کی بنیادی ہم آہنگی سے آشنا ہوتے ہیں یہ ہمارے مترجمین کا کارنامہ ہے۔
اردومراٹھی ترجموں کی روایت کافی پرانی ہے۔ اِس کی ابتداء کب اور کہاں ہوئی اِس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ ڈاکٹر یونس اگاسکر کے مطابق 1750 میں غالباً پہلی بار ترتاملّی مدراس کے ایک صوفی شاعر شاہ تراب چشتی نے مراٹھی کے سنت شاعر سحر رام داس کی طویل منظوم تخلیق ’مناچے اشلوک‘ کا من سمجھاون کے نام سے آزاد ترجمہ کیا اور بیجاپور کے وجودی تصوف کو اِس میں پرویا۔ لیکن یہ روایت اِس وقت پروان نہ چڑھ سکی۔ پھر 1893 میں انیسویں صدی کے مشہور مصلح اور پہلی مہاراشٹری خاتون ڈاکٹر آنندی بائی جوشی کی خودنوشت سوانح عمری کا اردو ترجمہ شائع ہوا جو مشہور شاعر احمد علی شوق کے قلم سے نکلا تھا۔ لیکن یہ سلسلہ بھی آگے نہ بڑھ سکا۔
جب ہم موجودہ صدی کے کام پر نظر ڈالتے ہیں تو قدرے اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔ ترجمے کا معاملہ دو طرفہ لین دین کا معاملہ ہوتا ہے۔ مراٹھی سے اردو میں تراجم کی بے شمار مثالیں ہمیں مل جاتی ہیں البتہ اردو سے مراٹھی میں تراجم کی مثالیں موجودہ دور میں خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اِس ضمن میں ڈاکٹر رفیق زکریا کا اقتباس قابل غور ہے۔
اِس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اردو والے اپنی زبان کو مراٹھی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں کوشاں رہیں۔ اس سلسلے میں جو بھی کام ہوا ہے وہ اتنا کم ہے کہ ہنوز اِس سے کہیں زیادہ قابلِ اعتنا کاموں کی گنجائش باقی ہے۔ اردو والوں نے مراٹھی ادب کی اچھی واقفیت حاصل کرکے اُسے اردو میں پیش کرنے کے سلسلے میں چند بکھری ہوئی کوششوں سے قطع نظر کوئی بڑی پیش قدمی یا ٹھوس اقدام نہیں کیا۔ اِس کے برعکس مراٹھی کے چند اردو داں عالم اور ادیب اپنے فرض سے غافل نہیں رہے اور وہ بڑی باقاعدگی سے اردو شہ پاروں کو مراٹھی ادب کی زینت بناتے رہے ہیں۔ ہمارے سامنے شری سیتو مادھو راؤ پگڑی، پروفیسر رادھی جوشی، ودیا دھر گوکھلے، گروناتھ دیوے کر، شری پاد جوشی اور دیوی سنگھ چوہان جیسے مصنّفین و مترجمین کے نام نمایاں ہیں۔
متذکرہ بالا ناموں کے علاوہ ایک نام گذشتہ دو دہائیوں میں اردو سے مراٹھی تراجم کے ضمن میں ان کے کام کے لحاظ سے کافی اہمیت اختیار کرگیا ہے اور وہ نام ہے شری رام پنڈت کا۔ افسوس ہے کہ اس کے علاوہ کوئی قابل ذکر نام بعد کے زمانے میں اُبھر کر سامنے نہیں آسکا ہے۔ رام پنڈت کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے ہندوستان کے ہی نہیں پاکستان کے بھی فنکاروں کی تخلیقات کو مراٹھی کے قالب میں ڈھالا ہے اور معاملہ صرف نثر کی حد تک محدود نہیں ہے منظوم تخلیقات بھی بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کرکے ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔
اردو اکادمی مہاراشٹر کا خصوصی شمارہ امکان کا حوالہ بھی اِس ضمن میں دیا جاسکتا ہے مگر چونکہ وہ مشترکہ افراد کی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ اِس لیے اکادمی کو ہی اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ اردو سے مراٹھی اور مراٹھی سے اردو میں ڈھالنے کا یہ عمل اکادمی کے ارباب کے ذریعے آج بھی جاری ہے جسے ستائش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔
ایک عرصہ قبل دیوالی نمبر کے طور پر سلام بن رزاق اور احباب کی کاوشوں سے آکھنٹ کے عنوان سے ایک خصوصی شمارہ ترتیب دیا گیا تھا جو اردو کی نمایاں کہانیوں کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا مگر افسوس کہ یہ سلسلہ بھی ایک سال سے زیادہ نہ چل سکا۔
جناب اکبر رحمانی نے معاصر روزنامہ لوک مت کے توسط سے اردو زبان و ادب نیز مسلمانوں کے عمومی مسائل کے سلسلے میں اپنے کالم ’اکبرنامہ‘ کے ذریعے بھی فضا کو ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔ بعد ازاں راقم الحروف نے مشرقی اور مغربی خاندیش کے فنکاروں کو مراٹھی حلقے میں متعارف کرانے کی غرض سے اسی روزنامے میں ’تعارف نامہ‘ کے نام سے ایک عرصے تک متعدد فنکاروں کو متعارف کروا کے اردو سے قریب لانے کی کوشش کی۔ افسوس کہ یہ سلسلہ بھی ڈیڑھ سال سے زیادہ نہ چل سکا۔ اس کے علاوہ قاضی سلیم کی شاعری کا مراٹھی ترجمہ بھی شائع ہوا۔
شری پاد جوشی کی اردو مراٹھی شبد کوش کے علاوہ پونہ کے شیخ عبداللہ نے مراٹھی داں افراد کے لیے ’اردو شکویا‘ نامی کتاب، تو ڈاکٹر عصمت جاوید نے اردو داں حضرات کے لیے مراٹھی آموز کے عنوان سے جو کتابیں ترتیب دی ہیں ان کی اہمیت مسلم ہے۔
1976 میں ڈاکٹر یونس اگاسکر کی تصنیف ’مراٹھی ادب کا مطالعہ‘ منظرعام پر آئی۔ اِس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اُس کے مندرجات سے لگایاجاسکتا ہے۔ مہاراشٹری تہذیب کی مراٹھی شاعری بشمول سنت کاویہ، پنڈت کاویہ، شاہیری کارویہ، سنت گیانیشور اور گیانیشوری، سنت تکارام اور ابھنگ وانی کے علاوہ قدیم مراٹھی نثر کی آبرو بکھر۔ جدید مراٹھی نثر کا مقدمہ الجیش، مراٹھی فکشن کا آغاز، مراٹھی کے ابتدائی ناولوں پر ایک نظر، مراٹھی اسٹیج اور ڈرامہ۔ مراٹھی لوک ناٹیہ دشا اوتار وغیرہ۔ درج بالا عنوانات مراٹھی سے واقفیت کے لیے بھی کافی ہیں۔ مسرت اِس بات پر بھی ہے کہ ڈاکٹر را۔ بھی۔ جوشی جیسے مراٹھی کے ادیب نے اِس کا مقدمہ قلم بند کیا ہے اور شنکر راؤ چوہان جیسے اردو داں سیاسی مفکر نے اِس کی حمایت میں لکھا ہے۔ سردار جعفری نے ان کے کام کو سراہتے ہوئے اِسے وقت کا دلکش نقطہ عروج قرار دیا ہے اور مراٹھی ادب کا کئی صدیوں پر حاوی مطالعہ بتلایا ہے۔
اِس کے علاوہ علاقہ کوکن ہی سے مرحوم شاعر جناب بدیع الزماں خاور کی تصنیف ’مہاراشٹر کی تہذیبی اور ادبی قدریں‘ بھی خاصی اہم کتاب ہے۔ اِس کے بیشتر مضامین کے مطالعے سے ہندو مسلم اتحاد کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ مثلاً شیخ محمد ایک عظیم مراٹھی شاعر، مراٹھی کے مسلم ادیب، ایسی تخلیقات ہیں جو اردو مراٹھی ادب کو قریب لانے کا موثر ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اہل اردو کو مراٹھی ادب پاروں، مراٹھی تاریخ و تہذیب سے روشناس کرانے کی خاور صاحب کی یہ کامیاب ترین کوشش ہے۔ اردو پڑھنے والوں میں ان کی تحریروں سے ایک ایسا حلقہ قائم ہوسکتا ہے جو محض ادبی چٹخاروں کے لیے وقف ہوکر نہ رہتے ہوئے عہد حاضر کی آگہی بخشنے والے نظامِ ادب سے عشق کرنے لگے گا۔ خاور مضمون کی معنویت میں اتنا سرشار ہوجاتے ہیں کہ ایک نیا اسلوبِ تحریر ابھرنے لگتا ہے۔ سلاست و ربط نے ان کی تحریر کو حسن نگاہ سے ہم کنار کردیاہے۔ بلاشبہ یہ تصنیف اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔
اِس کے بعد جو تصنیف تاثر اور معلومات کے اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر یحییٰ نشیط کی کتاب ’اردو مراٹھی کے تہذیبی رشتے‘ جو حال ہی میں منظرعام پر آئی ہے جس کاا نتساب ان نفوسِ قدسیہ کے نام ہے جنھوں نے اپنی روحانی تعلیمات کے ذریعے اتحاد و اتفاق اور امن و آشتی کو فروغ دیا۔ ساتھ ہی کتاب کے دیباچے میں وہ یوں رقم طراز ہیں ’’مہاراشٹر میں حسنِ خلق اور بھائی چارگی کے شجر سایہ دار کی گہری جڑیں ہیں جن سے قومی یک جہتی اور باہمی رواداری کو فروغ حاصل ہورہا ہے اور اس کے ثمرات سے اہل مہاراشٹر متمتع ہورہے ہیں۔
اتحاد و اتفاق و آپسی میل جول اور اشتراک و ارتباط کی بدولت یہاں کا ہندو کلچر، مسلم کلچر ایک دوسرے سے متاثر ہوتا رہا ہے اور ایک دوسرے کو متاثر کرتا رہا ہے۔ اِس پر مستزاد یہاں کی روحانی تعلیم ہے جس کے سوتے صوفی سنتوں کے اندرون سے پھوٹے۔ انھوں نے ظاہری رنگ ڈھنگ کو اجالنے کی بجائے باطن کو مجلی کیا اور نفس کا تزکیہ کرتے رہے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ظاہری اعتبار سے تو ہر آدمی کا مذہب الگ الگ ہوسکتا ہے۔
باطن میں البتہ اُس کی ایک ہی روح ہے۔ لہٰذا روح کے تصفیہ پر انھوں نے بڑا زور دیا۔ مٹھ اور خانقاہی تہذیب کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں کے گرو ہندو اور ہندوؤں کے مرشد مسلمان آپس میں ایسے خلط ملط دکھائی دینے لگے گویا یک جان دو قالب ہوں۔
مراٹھی ادب میں پواڑے اور اردومیں مرثیہ کا رواج تھا۔ مراٹھی میں مرثیہ کے اندازمیں روایتی لکھی گئی۔ روایتی کے چلن کو عام کرنے والوں میں عبداللہ ابالعل، کریم قاسم، جوہر شاہ بابا صاحب، فتح شاہ، غریب عبدل اور راجے بابو معروف ہیں۔ اسی طرح مسلمان شعرامیں شاہ علی قادر، مدح شاہ، لاڈن شاہ، لہری حیدر اور امر شیخ مشہور ہوئے۔ آگے چل کر غزل اور رباعی میں سریش بھٹ اور راجہ مہاجن نے اپنے فن کا لوہا منوایا۔ یہاں تک کہ نعت گوئی میں سریش بھٹ نے اپنی شاہکار تحریر کے ذریعے محمدؐ سے محبت کا ثبوت بھی فراہم کردیا ہے۔
ملاحظہ ہو:
اُجاڑ ویران، واڑونٹی کھڑاڑ نارا جھرا محمدؐ
جگات لیا دین دُکھینیانچا اکھیرچا آسرا محمدؐ
بھلے برے پاہیلے کِتی می کِتی کھرے ان کتیک کھوئے
بھلیات ماجھا بھلا محمدؐ کھریات ماجھا کھرا محمدؐ
رام پنڈت نے ترجمہ کے عنوان سے اردو کی منتخب کہانیاں پیش کی ہیں۔ حصہ اول میں ہندوستانی فنکاروں کو پیش کیا ہے جبکہ حصہ دوم میں پاکستانی فنکاروں کے شاہ کار پیش کرکے یک جہتی کی ایک نادر مثال قائم کی ہے۔ بانو قدسیہ کا ’دریا‘، اشفاق احمد کا ’دھنگر‘ (گڈریا)، انور سجاد کا ’سینڈریلا‘، اِس کے علاوہ مظہرالاسلام ’اے حمید‘، غلام عباس کا ’آنندی‘ سعادت حسن منٹو کا کھول دو‘، ممتاز مفتی کا ’’آپا‘، انتظار حسین کا ’نرناری‘ وغیرہ شامل ہیں۔ سعادت حسن منٹو کا ’کھول دو‘ فسادات کے موضوع پر لکھا ہوا شاہ کار افسانہ ہے جو انسانیت کی انتہا پر جاکر قاری کے دل میں گھر کرلیتا ہے۔ ’آنندی‘ بظاہر طوائفوں کے حالاتِ زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے مگر انسانی نقطۂ نظر سے ہمارے معاشرے کی کڑوی سچائی پیش کرکے ہر ایک کے دلوں کے تاروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ طوائف بظاہر ایک جسم فروش طبقے کی عکاسی کرتی ہے مگر یہاں مذہب نام کی تفریق ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ رام پنڈت نئی نسل کے فنکار ہیں انھوں نے مراٹھی تراجم کے ذریعے اردو مراٹھی قارئین کو قریب لانے کی جو سعی فرمائی ہے اُس کی نظیر بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
ناگپو رکے ڈاکٹر محمد اسداللہ نے تراجم کے میدان میں طنز و مزاح کے موضوع کاا نتخاب کیا ہے۔ ان کی پہلی پیش کش ’جمال ہم نشیں‘ میں مزاحیہ مضامین کے نیز ڈراموں کی شمولیت نے ایک نئے در کو وا کیا ہے۔ بعد ازاں مراٹھی کے معروف فنکار شری رمیش منتری کے طنزیہ مضامین کو ’دانت ہمارے ہونٹ تمھارے‘ کے عنوان سے یکجا کرکے اردو کے قالب میں ڈھالاہے۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور پہلا کارنامہ ہے۔ طنز کے نشتر معاشرے کے حالات زار پر ہلکے پھلکے اندازمیں وار کرتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے کی صورت حال دونوں طرف یکساں ہے۔ گاندھی جی بیسویں صدی میں اور سہیادری کی چوری، ایسے عنوانات ہیں جو بلا تفریق مذہب دونوں زبانوں کے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ موصوف نے انتساب بھی ان بے خبر لوگوں کے نام کیا ہے جو زبان و ادب پر ہنسنے کا جواز ڈھونڈتے ہیں۔
راقم الحروف کا مجموعہ ’صورتِ حال‘ مراٹھی کہانیوں کاا ردو انتخاب ہے۔ اِس میں مراٹھی کے معروف نام جیسے وجیا راجا دھکش، لکشمن لونڈھے، ساتیا وغیرہ شامل ہیں۔ وجیہ راجا دھکش کی ’سات سمندر‘ اور لکشمن لونڈھے کی ’بیمہ ایجنٹ‘ انسانی رشتوں کی داستان ہے۔تو نیل کنٹھ مہاجن کی ’عذاب گزیدہ‘ موجودہ صورت حال کی تصویر کا عمدہ نمونہ ہے۔ ساتیانے دو نسلوں کے درمیان واقع خلیج کی تصویر کشی کی ہے۔ چونکہ مسائل ہر دو زبانوں میں یکساں ہوتے ہیں اِس لحاظ سے جو تصویر ادب کے ذریعے ابھرتی ہے وہ ایک ہی کہانی پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔
متفرق نوعیت کا کام جو اِس میدان میں جاری ہے اُس میں کہانیوں کے باب میں نور پرکار، قاسم ندیم، وقار قادری، معین الدین جینابڑے، انجم عباسی وغیرہ کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ تنقید اور شاعری کے تحت ڈاکٹر عبدالستار دلوی، ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابندی، انیس چشتی، بانو سرتاج وغیرہ کے علاوہ دلت ادب میں یعقوب راہی کا دم غنیمت ہے۔
کلاسیکی ادب میں سجادی بیگم نے ’شیام چی آئی‘ کا ترجمہ بہت پہلے پیش کردیا ہے۔
آج ہمارا معاشرہ جس نہج پر جارہا ہے اس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ ہندوستانی تناظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو یہاں قدم قدم پر ایک دوسرے کی تہذیب سے عدم واقفیت کے سبب غلط فہمیوں کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں تراجم ہی دو تہذیبوں نیز دو دلوں کو جوڑنے کا کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ اگرچہ کہ یہ کام مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔
آخر میں اِس بات کی بھی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے ۔ زبانیں کسی فرد یا معاشرے کی میراث نہیں ہوا کرتیں۔ جو اِسے سیکھ لے وہ اُسے اپنا لیتی ہے۔ آزادی سے قبل اردو کا بول بالا تھا مگر بعد میں صورت حال یکسر بدل گئی۔ جس کے سبب اردو کا رشتہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود ہوگیا۔ اِس پر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ مہاراشٹر کے مسلمانوں نے شروع شروع میں مراٹھی کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ مگر اب کچھ حالات کے تحت اور کچھ ضروریات زندگی کے تحت سوچ و فکر کے دائرے رفتہ رفتہ تبدیل ہورہے ہیں۔ مسلم طبقہ مراٹھی سے اپنی انسیت کا اظہار کرنے لگاہے مگر مراٹھی داں اردو کی جانب کافی سست روی سے آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ آدان پردان کا یہ عمل دونوں سمتوں سے مناسب سطح پر اگر ہونے لگے تو وہ دن دور نہ ہوگا کہ بھارت پھر سے سونے کی چڑیا بن جائے۔
زبانیں انسانوں کی سہولت کے لیے وجود میں آیا کرتی ہیں۔ اور مسائل مشرق سے مغرب تک یکساں ہوتے ہیں۔ ہر زبان کا ادب اپنے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ تراجم کی کوششیں ہمیں مسائل کا ادراک کراکے ایک دوسرے کے غم میں شریک کرواتی ہیں۔ اِس لحاظ سے ایسی کاوشوں کو فروغ دینا ہی انسانیت کا اہم تقاضا اور وقت کی ضرورت ہے۔

Moinuddin Usmani
264, Shahu Nagar, Jalgaon - 425001 (MS)
Mob.: 09420390562

ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں