11/4/19

اعجاز حسین اعجاز: ایک شاعر مضمون نگار: سید علی حیدر



اعجاز حسین اعجاز: ایک شاعر
سید علی حیدر
ڈاکٹر اعجاز حسین، اعجاز اپنے وقت کے معروف اور ہر دلعزیز شاعر تھے۔ ان کے اشعار پر اکثر اساتذہ کے کلام کا دھوکا ہوتا ہے۔ اُن کی شاعری میں ایک طرف آتش کی مرصع سازی اور غزل کا بانکپن ہے تو دوسری جانب ناسخ کی تازہ گوئی و صنعت کاری کی جھلکیاں ہیں۔ اعجاز حسین کے کلام کا مجموعہ آج تک شائع نہ ہوسکا مگر جتنے اشعار لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہیں یا گھر میں بیاض کی زینت ہیں اُن سے اعجاز حسین کی شاعری میں نئی دنیا اور نئی فضا کا احساس ہوتا ہے۔ 
شعری محفلوں اور مجلسوں میں اُن کی آمد تازگی اور شگفتگی کا پیغام لاتی تھی اور انھیں مشاعروں میں وہی پرخلوص تعظیم و احترام اور مقبولیت حاصل ہوتی جو اس وقت کے کسی بڑے سے بڑے شاعر کو حاصل تھی چاہے وہ جوش ملیح آبادی ہوں یا فراق گورکھپوری یا کوئی اور۔
اعجاز حسین کو شعر و سخن کی دولت و راثت میں ملی تھی۔ اُن کے نانا میر سید حسین جنھوں نے ان کی پرورش کی تھی اپنے وقت کے الہ آباد کے معروف شاعروں میں تھے۔ فوق تخلص کرتے تھے اور معنوی سلسلے کے اعتبار سے دبستان آتش سے وابستہ تھے۔ شعر و شاعری کے چرچے برابر اُن کے گھر میں رہا کرتے جس نے اعجاز حسین کے شعری ذوق کی نمو کی اور مزاج و مذاق کی شاعرانہ تشکیل میں موثر کردار ادا کیا۔ کم عمری میں ہی شاعر اعجاز کا شعری ذوق نمایاں ہونے لگا۔
اردو میں شعر گوئی، شعر فہمی اور شاعر نوازی سماجی اور تہذیبی زندگی میں بلندیِ ذوق کی نشانی تصور کی جاتی تھی۔ فن شعر گوئی جاگیردارانہ سماج میں اشرافیہ کے لیے ناگزیر رہا۔ اعجاز حسین کی پرورش جاگیردارانہ معاشرے میں ہوئی جس کے اثرات ان کی نثر نگاری اور شاعری دونوں پر نمایاں ہوئے۔ 
اعجاز حسین کا شمار اپنے وقت کی بلند پایہ شخصیات میں ہوتا تھا۔ انھوں نے نہ صرف اپنی ادبی نگارشات بلکہ اپنے نامور شاگردو ں کی کثیر تعداد سے اردو ادب کی تاریخ میں اپنی غیرمعمولی شناخت بنائی۔ وہ اپنے زمانے کے نامور نقاد، معتبر ادبی مورخ، نکتہ رس سوانح نگار، اچھے صحافی، اعلیٰ درجے کے ڈرامانگار، کامیاب مترجم اور عمدہ ہردلعزیز شاعر تھے۔
اعجاز حسین اسی کے ساتھ ایک بے پایاں شفیق استاد بھی تھے اور بقول پروفیسر احتشام : ’’شاگرد عزیزوں سے بڑھ کر انھیں محبوب تھے۔‘‘ (میری دنیا: اعجاز حسین، آغاز احتشام حسین، ص 3)
جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ عظیم فن کار وہ ہے جس کی ہر تصنیف پچھلی سے بہتر ہو، اور جو اپنی بعد کی نسل کی پرورش کرے، اعجاز حسین اس قول پر پوری طرح کھرے اترتے ہیں۔ ان کی اہم تصانیف میں مختصر تاریخ ادب اردو (1934)، نئے ادبی رجحانات(1939)، اردو ادب آزادی کے بعد (1960)، اردو شاعری کا سماجی پس منظر (1968)، سب پچھلی تصنیف سے بہتر شمار ہوئیں اور ان کی بعد کی نسل کی پرورش میں احتشام حسین، ممتاز حسین، وقار عظیم، سید محمد عقیل، شمیم حنفی، فضیل جعفری جیسے نامور ادیب و ناقد اردو ادب کی آبرو قرار پائے اور اعجاز حسین کے عظیم فنکار ہونے پر مہر ثبت کی۔
اعجاز حسین نثر و شعر دونوں میں صاف، ستھری اور بہ آسانی سمجھ میںآنے والی سادہ زبان رکھتے ہیں۔ وہ حالی کی غزل گوئی پر اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حالی نے میر و غالب کے انداز بیان اور شیفتہ کی سادگی کو یکجا کردیا ہے۔‘‘ 
(میری دنیا : اعجاز حسین، آغاز: احتشام حسین، ص 3)
اعجاز حسین اعجاز کی غزل گوئی پر یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ انھوں نے حالی کی اِس خوبی کو اپنے یہاں بھی برتا ہے۔ اعجاز حسین کے کلام میں حسن تخیل، ندرتِ فکر، اور تجربات کی رنگارنگی میں رعنائیوں کی کہکشاں سمیٹ آئی ہے جس میں شگفتگی اور تازگی کے ساتھ زندگی آمیز حسن ہے۔ ملاحظہ ہو:
قبائے لالہ و گل میں جھلک رہی تھی خزاں
بھری بہار میں رویا کیے بہار کو ہم
151151
سنبھل سکے تو سنبھالو، امید کی کشتی
خدا کو دیکھ چکے، زورِ ناخدا معلوم
151151
صدائے اہل نظر ہے یہ دور ہستی میں
وہ سدِّ راہ ہیں، جن سے چلا نہیں جاتا
151151
ماضی ہے اِک خواب سنہرا، مستقبل صحرائے خیال
حال ہے وہ سنگین حقیقت، جو دنیا کہلاتی ہے
151151
سفر حیات بھی ختم ہے کہیں زندگی کا نشاں نہیں
ابھی اور مڑ کے، میں دیکھتا، میرے بس میں عمر رواں نہیں
اعجاز حسین الہ آباد یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر تھے۔ تدریسی ذمے داریاں دیگر مطالبات رکھتی ہیں۔ شاعر کے مزاج کی وارفتگی میں شوقِ بے پایاں کا مداوا ملتا ہے۔ اس کے برعکس درس و تدریس، استاد و شاگرد، اور تعلیم و تعلم کی دنیا ہی مختلف ہوتی ہے جہاں ہر طرح کی وارفتگی سے دامن بچائے رکھنا ہوتا ہے۔
اُن کے کلام کے مطالعے کے دوران اکثر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ اگر اعجاز صاحب صرف شاعر ہوتے تو کس دبستان شاعری سے وابستہ ہوتے؟ موجودہ صورتِ حال میں اُن کا کلام محفوظ نہیں رہ گیا ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں اشاعت کے لیے اپنا کلام جن کے سپرد کیا تھا وہ آج تک شائع نہیں کرسکے۔ اُن کے کلام کا وہ حصہ جو لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے اور جو شاگردوں اور احباب کے پاس دستیاب ہے اُسی سے شاعر اعجاز کی شاعرانہ حیثیت پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔
اعجاز حسین کے نانا فوق معنوی سلسلے کے اعتبار سے دبستان آتش سے وابستہ تھے لیکن اعجاز حسین اعجاز اپنے استاد شیخ مہدی حسن ناصری کی پیروی میں ناسخی تھے۔ ناسخ نے دہلی کے علی الرغم اردو غزل کی نئی روایت قائم کی تھی۔ اعجاز حسین کی شاعری میں آتش کا بانکپن، تصوف کی چاشنی اور مرصع سازی کے ساتھ ایک نئے پن کا احساس بھی ہوتا ہے۔ جہاں صحتِ زبان و بیان اور صنائع و بدائع کی خوبیاں انھیں ناسخ سے قریب کرتی ہیں۔ اعجاز حسین پر ترقی پسند تحریک کے اثرات بھی کام کرتے ہیں اس لیے کہ وہ تحریک کے بنیاد گزاروں میں بھی تھے۔ اسی لیے اعجاز حسین نے شاعری میں بھی ان نئے رویوں کو برتا اور اپنی بے پایاں تخلیقی قوت سے اپنے کلام میں نشتریت، والہانہ پن اور ابلاغ کی تہہ داریاں دکھائیں۔ پروفیسر سید محمد عقیل لکھتے ہیں:
’’اعجاز صاحب زندگی بھر ترقی پسند ادبی نظریے کے حامل رہے... بے حد لبرل اور آزاد منش انسان تھے۔ وہ اصلاً کلاسیکی مزاج کے ادیب تھے۔ یہی اُن کے زمانے کا مزاج ومذاق تھا۔‘‘ (قمر رئیس: ترقی پسند ادب کے معمار، جلد اوّل، ص 136)
اعجاز حسین کے کلام میں اس رویے کی قدم قدم پر نمائندگی ہے۔ اُن کے یہاں ترقی پسند اثرات کی تازہ کاری بھی ہے اور کلاسیکی مزاج کا سوز و گداز، شائستگی اور رچاؤ بھی، جہاں جذبے کی شدت میں دل کو چھو لینے کی کیفیت موجود ہے۔ ملاحظہ ہو:
غمِ دوراں پہنچ آیا، غمِ جاناں کے قریب
آخر آہی گیا ہالہ مہِ تاباں کے قریب
کشتیِ عمر بہی جاتی ہے اپنی رَو میں
کبھی ساحل کے قریب اور کبھی طوفاں کے قریب
151151
مری حیات کا افسانہ دیکھنے والو
کہیں کہیں سے یہ قصہ پڑھا نہیں جاتا
151151
ہم کو تم آواز دے لینا بشرطِ زندگی
ڈوبنے والو، جو بحر غم میں ساحل دیکھنا
151151
ہجومِ غم سے گھبرا کر کسی کا خودکشی کرنا
یہ دھبہ رہ گیا، دامانِ اربابِ محبت پر
151151
دل و جاں کے بدلے میں کیا ملا یہ سوال اہل ہوس نہ کر
یہ عشق عالمِ کیف ہے، یہ دیارِ سود و زیاں نہیں
نہ یہ بے ستوں ہے نہ طور ہے تری جلوہ گاہ ضرور ہے
تو مٹا کے دل کو بھی دیکھ لے کہ یہ مٹنے والا مکاں نہیں
اعجاز حسین کی شاعری کی ابتدا بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے تمام ہوتے ہوتے ہوئی۔ وہ زمانہ ملک کی آزادی کی لڑائی کے اہم موڑ کا تھا اور اسی زمانے میں ترکی،روس اور ایران ہر جگہ ملکی بیداری کی لہر دوڑ چکی تھی جس کے نمایاں اثرات ہندوستانی سماج پر اجاگر ہورہے تھے۔ 1916 میں ہوم رول کی آواز عام ہورہی تھی۔ 1918 میں جب جنگ ختم ہوئی اور انگریز سرکار نے وعدہ خلافی کرکے رولٹ ایکٹ نافذ کیا تو ملک میں گاندھی جی کی سربراہی میں عام بیداری کی لہر بہت تیز ہوگئی تھی ہر ذی علم نوجوان ملک کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے کے لیے بے حد محبت اور ہمدردی کا جذبہ رکھتا تھا۔ اعجاز حسین اس سے مستثنیٰ نہ تھے۔ اعجاز حسین کی شاعری کی ابتدا نظم نگاری سے ہوئی۔ سب سے پہلے نظم انھوں نے 1917 میں اپنی اٹھارہ برس کی عمر میں کہی اور وہ نظم گاندھی جی کی شان میں تھی۔ چکبست کی فریاد قوم (1914) کے بعد، اعجاز حسین کی یہ دوسری نظم گاندھی جی کی تہنیت میں اردو میں لکھی گئی۔ اکبر الہ آبادی کا گاندھی نامہ بھی اس کے بعد کی نظم ہے۔ حالانکہ ہندوستانی ملک و سماج میں گاندھی جی کو شہرت اور مقبولیت 1920 کے بعد سے ملنا شروع ہوئی تھی۔ یہ نظم اعجاز حسین کے فکر و نظر کی ترقی پسندیت کا نتیجہ تھی۔ اعجاز صاحب نے گاندھی جی کی شہادت 30 جنوری 1948 پر بھی ان کی تہنیت میں نظم لکھی جس کا عنوان ’بلندی و پستی‘ ہے۔ اس کے دو بند پیش ہیں:
کس نے غم خواریِ عالم کو عبادت سمجھا
کس نے بے زر کی حمایت کو ریاضت سمجھا
کس نے دشمن کی عداوت کو محبت سمجھا
کس نے حق گوئی کو پیغام سیاست سمجھا
گھِر کے طوفانوں میں یہ کون ہنسا کرتا تھا
جان دینے کے لیے کون مَرا کرتا تھا
151151
مدتوں جوہرِ تخلیق نے کروٹ لی تھی
آدمیت کو نئے روپ میں صورت دی تھی
سب یہ تدبیر پئے خلقت گاندھی جی تھی
جس کو قسمت میں لکھی قافلہ سالاری تھی
جس نے طوفانِ غلامی سے نکالی کشتی
ایسے ملاح کو اپنوں ہی نے گولی ماری
اعجاز حسین نے متعدد و متنوع موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی اکثر نظموں میں مظاہر فطرت کو موضوع بنایا گیا ہے اور بہت کامیاب نظمیں لکھی ہیں جیسے محسن منصوری، دہرادون، یا بہار کشمیر وغیرہ، سب بڑی دلپذیر تصویریں ہیں۔ ملاحظہ ہو:
جا کے منصوری پہ دیکھی حسنِ دولت کی بہار
دل، دماغ، آنکھیں، ابھی تک سب کے سب ہیں بے قرار
گیسوؤں کے پیچ و خم میں رہ گیا تار نظر
دیکھنے والے قیامت تک کر اس کا انتظار
کوہ منصوری نہ تھا گویا چراغ طور تھا
یا اُتر آیا تھا تارے لے کر چرخ آبدار
151151
بہار کیسی کہ جانِ بہار ہے کشمیر
ز فرق تا بہ قدم، اک نگار ہے کشمیر
قدم قدم پہ یہاں ہے شباب کا عالم
نہ پوچھیے دلِ خانہ خراب کا عالم
اعجاز حسین نے ہر موضوع پر نظمیں لکھی ہیں۔ ہمارا گھر، مسافر، راجاپور کے مناظر،قرضہ، قرض ماجد، مہاجن، مہمان وغیرہ۔ یہ ساری کی ساری نظمیں اپنے وقت کے ماہنامہ رسالہ ’شعاعِ اردو‘ الہ آباد، اور ’کارواں‘ الہ آباد میں بھی تواتر سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ نظم نگاری کے ضمن میں اعجاز حسین، نظیر سے قریب نظر آتے ہیں اور جیسے ان کے موضوعات عام و خاص سب ہوتے جاڑ، گرمی، برسات، ہولی،عید، مفلسی وغیرہ ویسے اعجاز حسین کے بھی موضوعات روزمرہ زندگی کے اور سامنے کے مسائل سے لیے گئے تھے۔ ایسے موضوعات میں اکثر خیال کی گہرائی اور تاثیر کی نشتریت کی کمی کا احساس ہوتا ہے مگر اعجاز حسین نے اس کو اپنے انداز بیان سے دلکش بنایا ہے۔ اعجاز حسین جس طرح خود سیدھے سادے انسان تھے ویسے ہی ان کی عظیم شاعری کے موضوعات اور زبان دونوں میں سادگی ہے مگر وہ سب زندگی سے ہم آہنگ ہیں اور یہ خوبی ایک نظمیہ شاعری کے لیے ضروری ہے۔ اس سے اس کو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ اعجاز حسین کا کلام اگر منصۂ شہود پر آگیا ہوتا تو اندازہ ہوتا کہ وہ ایک کامیاب اور مقبول شاعرو ں میں ہیں۔ خاص کر ان کی غزل اپنی ایک پہچان رکھتی ہے۔

Dr. Sayyed Ali Hyder,
221 Preetam Nagar 
Saleem Rai, Allahabad - 211011 (UP)

ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر2016





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں