11/4/19

اردو ہائیکو: فن و تکنیک مضمون نگار: سہیل ارشد


اردو ہائیکو: فن و تکنیک

ہندوستان میں جاپانی شاعری کو سب سے پہلے بنگلہ کے نوبل انعام یافتہ شاعر رابندرناتھ ٹیگور نے متعارف کرایا۔ انھوں نے 1919 میں اپنے سفرنامے ’جاپان جاتری ‘ میں جاپان کی تہذیب و ثقافت کا ذکر کرتے ہوئے اس کی مقبول شعری صنف ہائیکو کا تذکرہ کیا اور دو جاپانی ہائیکو نظموں کا آزاد ترجمہ پیش کیا۔وہ ہائیکو تھے:
کہنہ تالاب/مینڈک کی جست سے /پانی کی آواز
151151
ویران خستہ شاخ پر/کوا آکر بیٹھ گیا
جاڑے کی شام
اس تذکرے کے بعد ہندوستانی زبانوں میں ہائیکو کے تراجم پیش کیے جانے لگے۔ کچھ شعرا نے طبع زاد ہائیکو بھی لکھے۔گجراتی شاعر جھینا بھائی دیسائی اسنیہہ رشمی نے سب سے پہلے ہندوستان میں طبع زاد ہائیکو لکھے ۔ہندی کے عظیم شاعر اگیّ نے ہائیکو گوئی کو سنجیدگی سے اپنایا۔ا س کے بعد دھیرے دھیرے یہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی مقبول ہونے لگی۔ پنجابی، بنگلہ اور بھوجپوری میں بھی ہائیکو لکھے جانے لگے۔
اردو میں ہائیکوکو ماہنامہ’ساقی‘ دلی نے متعارف کرایا۔ 1936 میں شاہد احمد دہلوی نے ماہنامہ’ساقی‘ کا جاپان نمبر شائع کیا جس میں دو جاپانی ہائیکو کا ترجمہ پیش کیاگیاتھا۔ اس شمارے کے ذریعے اردو شاعروں کو ہائیکو سے واقفیت ہوئی۔ بہرحال۔ دو تراجم آزاد تھے اورہائیکو کی خصوصیات اور تکنیک کی کوئی جان کاری نہیں دی گئی تھی اس لیے اردو کے شعرا نے اسے سہ سطری نظم سمجھا اور ہائیکو کے نام پر سہ سطری نظمیں لکھی جانے لگیں۔حمایت علی شاعر نے اپنے مضمون ’کچھ ہائیکو کے بارے میں‘ (ہائیکو انٹرنیشنل، اکتوبر 2000) میں میراجی کا ایک ترجمہ شدہ ہائیکو نقل کیا:
ہرکارہ سیاں لایا/جوہی کے پھولوں کی ڈالی 
اور سندیسہ بھول گیا
پاکستان میں ہائیکو کے تئیں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیاگیا۔ کئی اردو شعرا نے سنجیدگی سے ہائیکو کو اپنایا مگر چونکہ وہ ہائیکو گوئی کی صحیح تکنیک، ہئیت اور خصوصیات سے واقف نہیں تھے (اور اب بھی بہت سے شعرا واقف نہیں ہیں) اس لیے انھوں نے سہ سطری نظمیں لکھیں۔ اردو کے کئی معیاری رسائل نے ان نظموں کو ہائیکو سمجھ کر شائع کیا جبکہ وہ صحیح معنوں میں ہائیکو نہیں تھے۔ اس ضمن میں قاضی سلیم، آفاق احمد صدیقی، محمد امین وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں جنھوں نے غلط بحراور وزن میں ہائیکو لکھے ۔ نیز ان کے ہائیکو میں ہائیکو کی تکنیک اور خصوصیات کو بھی نہیں برتاگیاتھا اس لیے ان کی نظمیں سہ سطری نظمیں ہیں۔ انھیں ہائیکو نہیں کہاجاسکتا۔ محمد امین نے تو 1980 میں ’ہائیکو‘ کا مجموعہ بھی شائع کیا اور اس کا دوسرا ایڈیشن بھی اگلے سال لے آئے ۔مگر ان کے مجموعے کو رد کردیاگیا۔
اس دوران پاکستان کے کئی ادبا و شعرا کو جاپان کی یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کے مواقع ملے۔ انھوں نے وہاں ہائیکو کی مقبولیت سے متاثر ہوکر پاکستان میں بھی اس صنف کی اشاعت کی کوشش شروع کردی۔ اس سلسلے میں جناب ابوجعفر کشفی اور جاپانی سفارت خانے کے ایک اہل کار سی جے یو اتاکا کی کوششیں اہم ہیں۔ان کی کوششوں سے1983 میں کراچی میں واقع جاپانی ثقافتی مرکز کے زیر اہتمام ایک ہائیکو مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس سلسلے میں سی جے یو اتاکا اور جعفر کشفی نے اردو کے شاعروں سے ملاقات کی اور انھیں مشاعرے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ اس مشاعرے میں اردو کے شاعروں نے سہ سطری نظمیں پڑھیں۔ حمایت علی شاعر جو ثلاثی کے موجد ہیں انھوں نے اس مشاعرے میں اپنی ثلاثیاں پڑھ دیں۔مگر اگلے سال شعرا کو سختی سے ہدایت کردی گئی کہ صرف 5-7-5 سلیبل میں ہی ہائیکو لکھ کر لائیں ورنہ زحمت نہ فرمائیں۔ لہٰذا، 1984 سے پاکستان میں شعرا نے اسی سترہ سلیبل میں ہائیکو لکھنا شروع کیا۔ چونکہ جاپانی میں سلیبل کا تصور انگریزی اور اردو کے سلیبل کے تصور سے جدا ہے، اس لیے علامہ فرمان فتح پوری اور دیگر مقتدر شعرا اور نقادوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ہائیکو کے لیے ارد و کے ایک سبب کو ایک سلیبل مان لیاجائے اور اس طرح سترہ سبب میں ہائیکو لکھے جائیں۔ لہٰذا، شعرا نے اسی سترہ سبب میں ہائیکو تخلیق کرنا شروع کردیا۔ بہرحال، ابھی بھی بہت سے شعرا نے اس بحراوروزن سے بے زاری کا اظہار کیا اور مختلف طوالت کی تین سطروں میں ہائیکو کے نام پر سہ سطری نظمیں کہتے رہے ۔ اور یہ نظمیں ہائیکو کے نام سے مقتدر ادبی رسائل میں شائع ہوتی رہیں۔
چند نظمیں جو ہائیکو کے نام پر مقتدر رسائل میں شائع ہوئیں پیش ہیں:
چھوٹے چھوٹے ہرے ہرے پتے 
اور کچھ بیر اس کی بیری کے
میرے آنگن میں آکے گرتے ہیں 
(اکرم عتیق، ادب لطیف)
نہ جانے کب بپھر جاتے ہیں دریا
مری زرخیز مٹی ساتھ لے کر
سمندر میں اترجاتے ہیں دریا 
( سلیم کوثر، اوراق خاص نمبر1984)
برف گرتی ہے جب چٹانوں پر 
اور وادی میں رات ہوتی ہے
ایک کٹیا میں دیپ جلتاہے 
( بشیر سیفی اوراق خاص نمبر1984)
ننھے ہاتھ میں قلم /آڑی ترچھی لائینیں سلیٹ پر
نرم و نازک انگلیاں 
(خالد اقبال یاسر، ادب لطیف اپریل 2004)
دوست یہی چاہیں /میں بھی منافق ہوجاؤں
میری الگ راہیں 
(نسیم سحر، ادب لطیف 55 سالہ نمبر)
حالانکہ 5-7-5 سبب کی قید ہائیکو گوئی کے لیے واحد قید یا شرط نہیں ہے مگر ہائیکو کے لیے بنیادی شرط یہی ہے اور اس شرط کو قبول کرکے اردو کے ہائیکوگو شعرا نے درست وزن میں ہائیکو لکھنے کی سمت ایک قدم بڑھایاتھا مگر اب بھی کچھ شعرا نے اپنے ذہنی میلان کی وجہ سے سترہ سبب کی شرط کو نہیں اپنایا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ صرف سترہ سلیبل میں کوئی بامعنی نظم کہنا اگر ممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے ۔ اس لیے وہ اس بات کی وکالت کرنے لگے کہ اردومیں ہائیکو گوئی کے لیے سترہ سلیبل کی شرط کو لازمی نہ قرار دیاجائے ۔
پاکستان میں جاپانی قونصل خانے کے زیر اہتمام یہ ہائیکو مشاعرہ ایک سالانہ تقریب میں تبدیل ہوگیا ۔ اس مشاعرے نے پاکستان میں ہائیکوگو شاعر وں کی ایک کھیپ پیداکردی ۔ 
پاکستان میں محمد امین کے علاہ بھی کئی شعرا کے ہائیکو کے مجموعے شائع ہوئے۔ ان میں سے چند شعرا کے نام ہیں آفتاب مضطر، شبہ طراز، ثروت سلطانہ ثروت، رونق حیات وغیرہ۔پاکستان میں ہائیکو پر پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا جاچکاہے۔
ہندوستان میں بھی شعرا نے ہائیکو گوئی میں دلچسپی دکھائی حالانکہ وہ بھی ہائیکو کی خصوصیات، بحر اور تکنیک سے واقف نہیں تھے۔ انھوں نے بھی سہ سطری نظمیں ہائیکو کے نام پر لکھیں۔ا س سلسلے میں علیم صبانویدی نے ہائیکو گوئی کو سنجیدگی سے اپنایا اور ہائیکو کے کئی مجموعے شائع کیے ۔ انھوں نے 1986, 1987 اور 1989 میں تسلسل کے ساتھ تین ہائیکو مجموعے ترسیلے، شعاع شرق اور تشدید کے نام سے دیے ۔ان کے یہ ہائیکو بھی ہائیکو کی تعریف پر پورے نہیں اترتے۔ ان کے علاوہ ہندوستان میں اردو کے اس ارتقائی سفر میں مظہر امام، بلراج کومل، کرامت علی کرامت، شان الحق حقی، ساحل احمد، کرشن موہن، نیناجوگن، ششی بھوشن گپتا، سرشار بلندشہری، کاوش پرتاپ گڈھی، چراغ جے پوری، ڈاکٹر ولی چشتی، ڈاکٹر عبید ساحل، ڈاکٹر پرویز پیکر، ڈاکٹر ارشد کمال وغیرہ نے ہائیکوکی صنف میں طبع آزمائی کی ۔ مگر ان کے ہائیکو وزن و بحر اور دیگر تکنیکی و معنوی خصوصیات سے عاری ہونے کی وجہ سے ہائیکو نہیں کہلاسکتے۔ 
1995 میں ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی نے ہندوپاک کے ہائیکو گو شاعروں کے ہائیکو کا ایک انتخاب شائع کیا ۔ اس انتخاب میں شامل شعرا کے نام ہیں: اختر شمار، انور مسعود، سیدہ حنا، ارمان نجمی، خاور اعجاز، بلراج کومل، ماجدالباقری، مظہر امام، ناوک حمزہ پوری، علیم صبانویدی، نسیم سحر، ساحل احمد، بشیر سیفی، شارق جمال، راغب مرادآبادی، اداجعفری، مناظر عاشق ہرگانوی، کاوش پرتاپ گڈھی، اقبال حیدر، کرشن موہن، کرامت علی کرامت، شبنم رومانی، حمید الماس، محمد امین، محسن بھوپالی، شان الحق حقی، نصیر احمد ناصر۔
اس انتخاب میں شامل ہائیکو میں چند کو چھوڑکر تمام ہائیکومیں 5-7-5 کی پابندی نہیں کی گئی ہے۔حالانکہ صرف سترہ سلیبل کی پابندی کے باوجود سہ سطری نظموں کو ہائیکو نہیں کہاجاسکتامگر 1995 تک آکر بھی ہندوستان کے ہائیکوگو شاعراس بنیادی شرط سے لاعلم تھے، ڈاکٹر کرامت علی کرامت کے استثنا کے ساتھ۔
بعد کے زمانے میں چند اور شعرا نے ہائیکو کے مجموعے شائع کیے جیسے مجیب نشتر اور حنیف کیفی ہیں۔ 
بہرحال، گذشتہ چند برسوں میں ہندوستان اور پاکستان میں 5-7-5 سلیبل کے وزن کو متفقہ طور پر جاپانی ہائیکو کے قریب ترین قراردیاگیاہے۔ اور شعرا اسی وزن پر ہائیکو لکھ رہے ہیں۔ چونکہ اردو کا عروضی نظام سلیبل شماری پر نہیں بلکہ افاعیل پر مبنی بحروں پر قائم ہے اس لیے اردو شعرا نے سہولت کے لیے ہائیکو کی ایک بحر بھی ایجاد کرلی ہے۔ وہ بحر ہے 
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فع
اس بحر کی کچھ خامیاں ہیں جس کی وجہ سے اردو ہائیکو ایک بے لوچ اور میکانیکی صنف بن گئی ہے۔نیز اردو ہائیکو نگارشاعروں کو ہائیکو کو اس صنف کی دوسری اہم شرائط، اصول و خصوصیات کا بھی علم نہیں ہے۔یہ تمام تکنیکی، معنوی و فلسفیانہ خصوصیات کا ایک مکمل نظام ہے جو ہائیکو کو عالمی شعری ادب میں ایک ممتاز مقام عطاکرتاہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے چند اردو کے نقاد، شاعر اور استاذ جاپان میں رہ چکے ہیں اور جاپانی زبان بھی جانتے ہیں مگر انھوں نے اردو شعرا کے حلقے کو ہائیکو کی تمام تکنیکی و معنوی خصوصیات سے آگاہ کرنے میں ناکام رہے اور آج تک ناکام ہیں جس کی وجہ سے ہائیکو گوئی کا فن اردو میں ابتدائی مرحلے میں ہے اوراردو کے زیادہ تر ہائیکو تک بندی اور بچکانہ شعریت تک ہی محدود ہیں۔
اردو ہائیکو کی بحر
جاپانی ہائیکو سترہ صوتی ارکان پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان ارکان کو جاپانی اصطلاح میں مورا یا آن کہا جاتا ہے۔ مورا کا تصور انگریزی کے سلیبل کے تصور سے مختلف ہے۔ انگریزی میں کم از کم ایک واویل پر مشتمل لفظ کو ایک سلیبل کہتے ہیں۔جبکہ جاپانی میں ایک متحرک یا ساکن حرف کو ایک مورا یا آن کہتے ہیں۔جاپانی زبان یک صوتی ہے۔ اس میں عام طور پر سلیبل یا مورا یک صوتی ہوتے ہیں جبکہ انگریزی کے ایک سلیبل میں دو یا تین حرف کی آوازیں ہوسکتی ہیں۔ اردو میں سلیبل کی دو قسمیں ہیں۔ (الف ) دوحرفی یعنی سبب اورسہ حرفی یعنی وتد ۔
اردو میں سبب یک صوتی بھی ہوتے ہیں اور دو صوتی بھی۔ مثال کے طور پر جا، سو، کو، بھی، نے وغیرہ یک صوتی سبب یا لفظ ہیں جبکہ فن، نل، پر، اب، خط وغیرہ دو صوتی سبب یا لفظ ہیں ۔ جاپانی مورا یک صوتی ہیں۔ اس میں صرف ایک استثنا ہے۔کچھ سلیبل یا دوصوتی ارکان ’ن ‘ کی آواز پر ختم ہوتے ہیں اور ان میں ن ساکن ہوتاہے۔ پھر بھی اس ساکن ’ن‘ کو بھی ایک مورا گنتے ہیں۔ بقیہ تمام مورا پانچ واویل ساؤنڈ پر ختم ہوتے ہیں ۔
جاپانی ہائیکو کی چند مثالیں پیش ہیں جن سے مورا کے تصور کو سمجھنے میں مدد ملے گی:
باشو کا مشہور ہائیکو ہے 
فورو ا کے یا 
کاوا زو تو بی کو مو
می زو نو اوتو
اب اس کی تقطیع پیش ہے
فو ۔ رو ۔ اِ ۔کے ۔ یا 5 مورا
کا ۔ وا ۔ زو ۔ تو ۔ بی ۔ کو ۔ مو 7 مورا
می ۔ زو ۔ نو ۔ او ۔ تو 5 مورا 
(اس ہائیکو کا ترجمہ : کہنہ تالاب۔مینڈک کی جست سے ۔پانی کی آواز)
مندرجہ بالا ہائیکو میں تمام سلیبل یا مورا یک حرفی ہیں یعنی ان کا پہلا حرف متحرک اور دوسرا حرف، حرف علت ہے جو ساکن ہے۔ اس طرح سارے ’سبب ‘ یک حرفی ہیں اور ہر یک صوتی’ سبب‘ کو ایک مورا ماناگیاہے۔
اسی طرح جاپانی کے اور عظیم شاعر مساؤکا شکی کا ہائیکو ہے:
ہاکا ہارا یا/ہاکا ہی کو کو شی تے
کو سا شی گے رو
اس ہائیکو کی تقطیع پیش ہے
ہا ۔ کا ۔ ہا ۔ را ۔ یا 5 مورا 
ہا ۔ کا ۔ ہی ۔ کو ۔ کو ۔ شی ۔ تے 7مورا 
کو ۔ سا ۔ شی ۔ گے ۔ رو 5 مورا 
اس ہائیکو میں بھی تمام ’سبب ‘ یک صوتی ہیں کیونکہ ان کا پہلا حرف متحرک اور دوسرا حرف، حرف علت ہے اس لیے اس کی آواز پہلے حر ف میں ضم ہوگئی ہے۔
(اس ہائیکو کا ترجمہ : قبروں کا میدان۔ قبریں زمین سے لگی ہوئی ۔ گھا س بلند)
جاپانی زبان میں صرف ایک حرف ہے جس کی آواز ساکن ہوتی ہے اور وہ ہے ’ن ‘ کی آواز۔کئی الفاظ ہیں جس کا آخری حرف یا آواز ’ن‘ کی ہوتی ہے اور یہ ن ساکن ہوتاہے۔مگر اس ساکن ن کی آواز کو بھی ایک مورا یا سلیبل مانا جاتاہے ۔ اسے نظر انداز نہیں کیاجاتا۔ اس سے جاپانی کے صوتی نظام کی نزاکت یا حساسیت ظاہر ہوتی ہے۔
ایک ہائیکو پیش ہے جس میں ’ن ‘ کی ساکن آواز موجود ہے
رنگو کو او تے /بو تن نو ما ئے نی /شی نن کانا

رِ ن ۔ گو ۔ کو ۔ او ۔ تے 
بو ۔ تن ۔ نو ۔ ما ۔ ئے ۔ نی 
شی ۔ نن ۔ کانا
اس ہائیکو میں ’ن‘ ساکن دو موقعوں پر آیا ہے ۔ مگر دونوں موقعوں پر اسے ایک مورا تسلیم کیاگیاہے۔پہلے مصرعے میں یہ نون غنہ ہے اس لیے اسے ایک مورا شمار نہیں کیاگیا۔ دوسرے اور تیسرے مصرعے میں ن ساکن ہے اس لیے اسے ایک مورا تسلیم کیاگیاہے۔
مندرجہ بالا مثالوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جاپانی زبان میں ایک حرف کی آواز کو ایک مورا تسلیم کرتے ہیں خواہ وہ متحرک ہو یا ساکن ۔بہرحال، ایسے سلیبل بہت کم ہیں اور استثنائی ہیں جو دو صوتی ہیں۔عام طور پر جاپانی سلیبل یک صوتی ہوتے ہیں۔لہٰذا، اگر ہم جاپانی کی طرح ہر متحرک اور ساکن حرف کو ایک سلیبل یا مورا مانیں تو پھر اردو کے مصرعے بہت مختصر ہوجائیں گے اور ترسیل کا مسئلہ درپیش ہوگا۔اس لیے لسانی تقاضوں کے تحت اردو کے یک صوتی اور دو صوتی دونوں طرح کے سبب کو ایک سلیبل مان لیاجائے ۔ یہ کلیہ اردو ہائیکو میں پہلے سے مروج ہے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ متحرک اور ساکن حرف کو بھی ایک مورا تسلیم کیا جائے ۔ اردو کے نقادوں نے 5-7-5 سبب کی ترتیب کو اردو ہائیکو کی بحر کی سند عطا کی ہے اور کچھ لوگوں نے فعلن فعلن فع ۔ فعلن فعلن فعلن فع۔ فعلن فعلن فع کو ہائیکو کی بحر قرار دیاہے۔مگر اس بحر کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نے ہائیکو کو سترہ سبب کی شاعری بنا کر رکھ دیاہے۔جب ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور دیگر شعرا نے 5-7-5 سبب کو اردو کی بحر قرار دیا تو انھوں نے اس امر کو نظر انداز کردیا کہ کسی بھی جملے میں صرف سبب پر مبنی الفاظ نہیں ہوتے ہیں بلکہ کچھ جملے وتد پر بھی مشتمل ہوتے ہیں یا ایک ساکن یا متحرک حرف کی آواز بھی ہوتی ہے۔ اس وقت ساکن یا متحرک حرف کے متعلق کوئی کلیہ یا قانون نہیں بنایاگیا ۔ لہٰذا، اردو کے شعرا نے یہ سمجھ لیا کہ ہائیکو میں صرف سبب آنے چاہئیں۔ وتد کے متعلق یا وتد میں موجود ساکن یا متحرک حرف کے متعلق کوئی کلیہ نہ ہونے کی وجہ سے شعرا نے وتد کو بھی ایک سلیبل شمار کرنا شروع کیا جبکہ وتد میں ایک سبب اور ایک ساکن یا متحرک حرف ہوتاہے۔ اس طرح مصرعے طویل ہوجاتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ کسی مصرعے میں صرف وتد آجائیں تو مصرعے بہت طویل ہوجائیں گے۔ 
سرد رات خوف ناک نا گ سی 
جاپانی کا نازک اور حساس صوتی نظام ایک وتد کو جس میں تین حروف ہوتے ہیں ایک مورا قبول کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔اس بے اصولی کا نتیجہ یہ ہے کہ شعرا اپنے اپنے صواب دید کے مطابق ہائیکو کہہ رہے ۔ وہ وتد کو بھی ایک سلیبل مانتے ہیں اور صرف سبب کو بھی۔ کچھ شعرا ایک حرف کو ایک سلیبل مانتے ہیں جیسے کرامت علی کرامت صاحب کیونکہ وہ جاپانی کے مورا کے تصور کو آغاز ہی میں سمجھنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ناوک حمزہ پوری بھی اسی کلیے پر عمل کرتے ہیں۔ مگر زیادہ تر شعرا ہائیکو کو سترہ سبب کی نظم سمجھتے ہیں اور شعوری طو رپر ایسے الفاظ لاتے ہیں جن میں صرف سبب ہوں، متحرک یا ساکن حرف نہ ہو۔ ایسے ہائیکو کو پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتاہے کہ تین ڈبوں کی کوئی ٹرین کھٹ کھٹ کرتی نظر کے سامنے سے گزرگئی ہو۔اس کے علاوہ شعرا شعوری یا غیر شعوری طور پر صرف آخر میں وتد لاتے ہیں جس کا آخر ی حرف ساکن ہوتاہے جیسے بہار، جام، خواب وغیرہ۔ جبکہ یہ ضروری نہیں کہ مصرعے کے آخر میں کوئی سہ حرفی لفظ ہی آئے:
مت کر اچھا کام/ہوجائے گا دنیا میں 
مجھ سا تو بدنام
لہٰذا، اردو کے ہائیکوکے لیے یہ کلیہ جاپانی ہائیکو کے مورا کے اصول کے قریب تر ہوگا کہ ایک سبب کو تو ایک سلیبل یا رکن مانا جائے مگر اس کے ساتھ وتد میں موجود ایک حرف کی متحرک یا ساکن آواز کو بھی ایک صوتی رکن تسلیم کیا جائے۔ عام طور سے ہائیکو کے مصرعے کا آخری لفظ اگر سہ حرفی ہو جسیے جام وغیرہ تو اس کے آخری ساکن حرف کو شمارنہیں کرتے ۔ اس معاملے میں یہ رعایت برتی جاسکتی ہے کہ شاعر اگر آخری حرف کو شمار کرنا چاہے تو کرے نہ کرنا چاہے تو نہ کرے ۔ غزل میں بھی تسبیغ کا اصول ہے۔ مگر سطر کے درمیانی حصے میں ہر سبب کے علاوہ ہر متحرک یا ساکن حرف کو شمار میں لاناجاپانی مورا کے اصول کے مطابق ہوگا۔ غزل میں بھی ہم مصرعے کے درمیان اصوات کو نظر انداز نہیں کرسکتے تو پھر ہائیکو میں کیسے کرسکتے ہیں۔
اس بحث سے یہ نتیجہ سامنے آتاہے کہ سترہ سلیبل کی جو بحر شعرا نے ایجاد کی ہے وہ صرف اسی صورت میں قابل عمل ہے جب تمام سترہ سلیبل سبب پر مبنی ہوں۔ یعنی یہ بحر ہر طرح کے مصرعوں پر مبنی ہائیکو کے لیے نہیں ہے۔ اگر مصرعوں میں وتد یا صرف وہ الفاظ ہوں جو سبب ہوں مگر ان کا دوسرا حرف گر جائے جیسے نہ، کہ، وہ، یہ، تو، ایسی صورت میں اس بحر کو کھینچ تان کرہی لاگو کیا جاسکتا ہے۔
جاپانی زبا ن میں شاعری کے لیے بحر کا تصور نہیں ہے ۔ جاپانی اصناف میں مصرعوں کی طوالت مورا کی تعداد پر منحصر ہوتی ہے۔انگریزی میں بھی میٹرکا تصورہے مگر انگریزی کے شعرا نے ہائیکو کے لیے کوئی میٹر ایجاد نہیں کی۔ وہ 5-7-5 سلیبل کی پابندی کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ انگریزی شعرا کا ایک طبقہ یہ اعتراف کرتاہے کہ انگریزی کے کچھ سلیبل بہت طویل ہوتے ہیں اس لیے کبھی کبھی سترہ سلیبل کا ہائیکو بہت طویل ہوجاتاہے اور اختصار کی صفت مجروح ہوتی ہے۔ لہٰذا، و ہ بارہ سلیبل کے ہائیکو کہتے ہیں جو کہ ان کے مطابق جاپانی کے سترہ مورا کے قریب تر ہوتاہے۔اس لیے ہائیکو کے لیے کوئی بحر ایجاد کرنا یا کسی مروجہ بحر کے استعمال پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔صرف سبب، متحرک یا ساکن حرف کو ایک مورا تسلیم کرتے ہوئے ہائیکو تخلیق کرنا ہی جاپانی ہائیکو گوئی کے اصول کے مطابق ہوگا۔چونکہ اردو اور جاپانی کی لسانی ساخت بالکل مختلف ہے اس لیے اس سلسلے میں انگریزی کی طرح لوچ دار رویہ اپنانا ہوگا۔ یعنی مصرعوں میں سلیبل کی تعداد کو زبردستی ملحوظ رکھنا ضروری نہ ہو۔ اگر پہلے مصرعے میں چار سلیبل ہی میں مفہوم پورا ہوجاتاہے تو بلا ضرورت ایک مورا نہ بڑھایاجائے ۔اس سلسلے میں محسن بھوپالی کا ایک ہائیکو کا تجزیہ پیش ہے۔
دور کونج کی ڈار/اوجھل ہوتے ہوتے بھی 
کہہ گئی جیون راز
اس ہائیکو کو انھوں نے فعلن فعلن فع کی بحر کے مطابق کہنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے غیر ضروری الفاظ لانے پڑے ہیں ۔ نیز پہلا مصرع طویل ہوگیاہے۔ جبکہ جاپانی میں صرف اتنے ہی الفاظ لائے جاتے ہیں جو معنی کی ترسیل کے لیے کافی ہوتے ہیں بلکہ کچھ گنجائش قاری کی ذہنی ریاضت کے لیے بھی رکھی جاتی ہے۔ اس ہائیکو کو اگر اس طرح کہتے تو زیادہ بہترہوتا
کونج کی ڈار/اوجھل ہوکر کہہ گئی /راز حیات
محسن بھوپالی کے ہائیکو کے آخری مصرعے میں جیون ر از کی ترکیب غیر فصیح ہے اور صر ف اس لیے لائی گئی ہے کہ اردو کے شعرا یہ سمجھتے ہیں کہ ہائیکو صرف سبب کی شاعری ہے اس لیے حیات کی جگہ جیون بحر کے مطابق بیٹھتا ہے۔ لفظ ’دور‘ بھی غیر ضروری ہے۔’اوجھل ہوگئی‘سے مفہوم مکمل ہوجاتا ہے۔ ’راز حیات‘ میں پانچ مورا ہیں۔ اگر ’رازحیات‘ کے بجائے ’رازہستی‘ لکھیں تو صرف چارمورا ہوں گے ۔ اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر چار مورا میں مفہوم مکمل ہوسکتاہے تو ضروری نہیں کہ سترہ کی تعداد مکمل کرنے کے لیے پانچ مورا لائے جائیں۔ہاں، شعری حسن کے تقاضے کے مطابق شاعر دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرسکتاہے۔جاپانی ہائیکو نگاری کا اصول ہے کہ مورا کی تعداد سترہ یا اس سے کم ہو۔ اس لیے اگر سولہ یا پندرہ میں مفہوم کی تر سیل ہوجاتی ہے تو سترہ کی تعداد پوری کرنے کے لیے غیر ضروری الفاظ یا سبب لانا ممنوع ہے۔ اس لیے جب ہم مروجہ بحر فعلن فعلن فع کے مطابق ہائیکو کہنے کی کوشش کرتے ہیں تو صرف بحر کے مصرعے مکمل کرنے کے لیے الفاظ کی فضول خرچی کرتے ہیں اور اکثر ایسا قافیہ ملانے کے چکر میں کرنا پڑتاہے۔جبکہ جاپانی میں سارا زور موضوع کی ترسیل یا منظر کی تصویر کشی پر صرف کیا جاتاہے۔
ہائیکو کی تکنیکی خصوصیات 
ہائیکو کی تکنیکی خصوصیات میں مورا کی تعداد کے علاوہ موسمی لفظ اور کرے جی اہم ہیں۔ ان دونوں کے بغیر کوئی بھی سہ سطری نظم ہائیکو نہیں کہلاسکتی۔
موسمی لفظ یا کِگو ہائیکو کا اہم ترین جز و ہے۔اس کے بغیر کسی نظم کو ہائیکو تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔ہائیکو اور سین ریو میں فرق کگو کا ہی ہے۔اسے محور لفظ بھی کہتے ہیں۔
فطرت کے ساتھ ساتھ موسم بھی جاپانی شاعری کا جزولاینفک رہاہے۔ آٹھویں اور نویں صدی میں جاپانی شاعری کے جو دو مجموعے مان یوشو اور کوکن شو ترتیب دیے گئے ان میں موسم پر کئی باب مخصوص تھے۔خاص طور پر جن اصناف میں شعرا اشتراک کرتے ہیں ان میں موسم کا حوالہ ایک ضروری حصہ ہوتاہے۔ بہرحال، کگو کی اصطلاح 1908 ہی میں وضع کی گئی۔کگو وہ الفاظ ہیں جو کسی خاص موسم کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے بہار، خزاں، برسات، گرمی وغرہ۔ ان کے علاوہ وہ الفاظ یا مظاہر فطرت بھی کگو کی حیثیت سے استعمال ہوسکتے ہیں جو کسی خاص موسم سے منسوب یا مخصوص ہیں اور ان کا ذکر یا دیدار کسی خاص موسم کی طرف توجہ مبذول کردیتا ہے۔ جیسے خشک پتا، خزان کا پتہ دیتاہے، کوٹ جاڑے کی علامت ہے، کوئل موسم بہار کی آمد کا پتہ دیتی ہے بارش یا سیلاب یا بونداباندی موسم باراں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور خشک سالی یا پسینہ گرمی کی طرف اشارہ کرتاہے۔اسی طرح سیکڑوں ثقافتی، مذہبی یا فطری مظاہر ہیں جو کسی خاص موسم سے منسوب ہیں۔ لہٰذا، ہائیکو میں براہ راست کسی موسم کا ذکر ہوتاہے یا پھر کسی خاص موسم سے منسوب کوئی مظہر کا ذکر ہوتاہے۔ اکثر ایک کہنہ مشق ہائی جِن (ہائیکو گو شاعر) اپنے موضوع ہی میں موسمی لفظ کو پرو دیتا ہے کہ وہ ہائیکو کا ایک اٹوٹ حصہ بن جاتاہے اور اسے ہائیکو کے موضوع سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔ مثال کے طور پر باشو کا مشہور ہائیکو :
کہنہ تالاب/مینڈک کی جست سے /پانی کی آواز
اس ہائیکو میں مینڈک بہار کگو یا موسمی لفظ ہے۔ جاپان میں مینڈک موسم بہار کی علامت ہے۔اس میں مینڈک ہائیکو کے موضوع میں پیوست ہے اس لیے عام قاری جو ہائیکو کی اس خصوصیت (کگو)سے واقف نہ ہو وہ یہ نہیں سمجھ سکتاکہ شاعر نے کس خوبی سے ہائیکو میں موسمی لفظ اور ہائیکو کے اصل موضوع کوایک ساتھ پرودیاہے ۔مینڈک برصغیر ہندوپاک میں برسات کی علامت ہوگا۔
ایک اہم نکتہ جس سے اردو کے شاعر ناواقف ہیں وہ یہ ہے کہ کگو کا لزوم ہائیکو میں اس لیے ہے کہ اس میں تازہ مشاہدے یا موجودہ لمحے کے کسی تجربے کے بیان کو یقینی بنایا جاسکے۔ ماضی کے واقعات یا تجربے یا وہ واقعات جو حسب معمول ہوتے ہیں ہائیکو کا موضوع نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا، ہائیکو میں تازہ مشاہدے کے بیان کو یقینی بنانے کے لیے موسمی لفظ کی شرط رکھی گئی ہے تاکہ شاعر پچھلی گرمی کا واقعہ اس برسات میں نہ بیان کرے جیسا کہ اردو شاعری خصوصاً غزل میں ہوتاہے۔ہائیکو میں اسی موسم کا ذکر لازمی ہے جس موسم کا مشاہد ہ شاعر کررہا ہے۔ ہائیکو ڈرائنگ کی تصوراتی شاعری نہیں ہے۔نیز، موسم گرما میں لکھے جانے والے ہائیکو میں موسم سرما کا کگو نہیں ہوسکتا کیونکہ اس سے ظاہر ہوگا کہ شاعر نے موسمی لفظ کو صرف رسمی طور پر استعمال کیاہے اس میں تازگی نہیں ہے۔موسمی لفظ کا مقصد ہی ہائیکو کو تازگی بخشناہے۔اگر ہائیکو موسم خزاں میں تخلیق کیاگیاہے تو اس میں موسم خزاں کا کگو ہی لازمی ہے۔
چند مثالیں :
موسم بہار کا دن ۔۔
نقوش پا کی لمبی قطار
ساحلی ریت پر (شکی)
اس ہائیکو میں براہ راست موسم بہار کا ذکر ہے لیکن رسمی طور پر نہیں ۔شاعر نے اس میں قاری کے لیے غوروفکر کا سامان چھوڑدیاہے۔ یعنی جہاں سے شاعر نے ہائیکو کو چھوڑاہے وہاں سے قاری کا کام شروع ہوتاہے۔دراصل شاعر موسم بہار میں نقوش پا کی لمبی قطار دیکھ رہاہے۔ ووہ سوچ رہا ہے کہ خزاں کے موسم میں اس سے قبل کتنے لوگ اس ساحل سے گذرے ہیں تب جاکر اسے موسم بہار دیکھنا نصیب ہواہے:
بوڑھا شخص /جو کی بالیاں کاٹتاہے
اس کا جسم ہنسوے سا
اس میں کسی موسم کا براہ راست ذکر نہیں ہے۔مگر جو کی بالیاں کاٹنے کا ایک خاص موسم ہوتاہے۔ لہٰذا، جو کی بالیاں کاٹنے میں کگو پوشیدہ ہے۔
زرد پتے /پیڑ کے بکھرتے ہوئے
احساسات ہیں (کوجی ؔ )
’زرد پتے ‘ خزاں کگوہے
طوفانی ہوا اڑالائی ہے
کافی پتے 
آگ جلانے کے لیے 
(ریوکان)
اکثر ہائیکو کی اس خصوصیت نے یعنی موسمی لفظ کو ہائیکو کے موضوع میں فنکارانہ چابکدستی سے پیوست کردینا کہ موسمی لفظ کگو ہائیکو سے غائب معلوم ہو اردو کے بڑے نقادوں کو دھوکے میں ڈال دیاہے۔مثال کے طور پر ڈاکٹر عنوان چشتی اپنی کتاب ’اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے ‘ میں لکھتے ہیں:
’’فضل حق قریشی نے ایک ہائیکو کا آزاد ترجمہ کیاہے:
چاول کے ایک پورے کی پال
جھک گئی ہے بوجھ سے کیوں کہ 
ایک مکوڑا اس پر آبیٹھا ہے
اس ترجمے میں خارجی خصوصیات تو کجا بعض دوسری خصوصیات بھی موجود نہیں ہیں۔ اس ترجمے میں نظم کے پس منظر کے طور پر موسم، منظر اور فطرت نہیں ہے۔کوئی مخصوص لفظ بھی نہیں ہے کہ ہائیکو میں یہ تمام چیزیں ضروری ہیں۔‘‘
یہاں دھان کی بالیاں ظاہر ہے کسی خاص موسم کی طرف اشارہ کررہی ہیں یعنی دھان کی بالیاں کگو ہیں۔ایک مکوڑا اس پر آکر بیٹھ گیاہے۔ پھر بھی عنوان چشتی صاحب کہتے ہیں کہ اس میں موسم، منظر اور فطرت نہیں ہے۔
کرِے جی 
ایک روایتی اور کامیاب ہائیکو کی تخلیق کے لیے جو اصو ل وشرائط وضع کیے گئے ہیں ان میں سے ایک کرے جی بھی ہے۔اسے کٹنگ ورڈ بھی کہاجاتاہے۔یہ وہ الفاظ ہیں جو تین سطری ہائیکو کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ ہائیکو ایک سپاٹ جملہ نہ معلوم ہو۔اس کے علاہ یہ الفاظ ہائیکو میں اتار جڑھاؤ اور ڈرامائی کیفیت پیدا کرتے ہیں، احساس کی نزاکت اور تحیر کا عنصر ڈالتے ہیں۔جاپانی زبان میں کرے جی اٹھارہ ہیں ۔ ان کا اردو یا انگریزی متبادل نہیں ہے۔مگر اردو میں علامت اوقاف، حرف فجائیہ یا حرف ندا کرے جی کی حیثیت سے استعمال ہوسکتے ہیں۔کرے جی ہائیکو کو ساختیاتی سہارا دیتے ہیں کیونکہ ان کے بغیر ہائیکو تین سطروں کا ایک سپاٹ بیان یا خبر بن جائیگا۔کرے جی ہائیکو کے کسی بھی سطر میں آسکتے ہیں اور ایک ہائیکو میں ایک ہی کرے جی ہوناچاہیے۔ کلاسیکی شعرا کے یہاں کبھی کبھی ضرورتاً دو یا تین کرے جی آگئے ہیں مگر وہ بے حد استثنائی حالت میں ضرورت شعری کے تحت ہی آئے ہیں۔ایک سے زیادہ کرے جی ہائیکو کا نقص ہے۔ کچھ کرے جی ہیں :
یا، کانا، کیری، کا، رامو وغیرہ
مثال کے طور پر باشو کا یہ ہائیکو
فو رو ا کے یا
اس مصرعے میں یا کرے جی ہے ۔ فورو اکے کا معنی کہنہ تالاب ۔ اس لیے فورو اکے سے جملہ مکمل ہوجاتا ہے۔ مگر کرے جی ’یا ‘ کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ اس مصرعے کا دوسرے مصرعے سے کوئی نحوی تعلق نہیں ہے۔ مصرع اپنے آپ میں مکمل ہے:
اس کا دوسرا اور تیسرا مصرع
مینڈک کی جست سے
پانی کی آواز
دوسرا مصرع تیسرے مصرعے سے مربوط ہے اس لیے دوسرے مصرعے میں کرے جی ’یا ‘ نہیں لایاجاسکتاہے۔
اکثر تیسرے مصرعے میں کرے جی ’کانا‘ لایا جاتا ہے ۔ جب جملہ مکمل ہوتاہے مگر شاعر چاہتاہے کہ قاری کی توجہ پھر سے ابتدائی مصرعے کی طرف مبذول کی جائے ۔
کرے جی سے اردو کے ہائیکو نگار شعرا اب تک لاعلم رہے اور ان کی کسی بھی تحریر میں اس سے قبل اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔
ہائیکو کی جمالیات 
جاپانی جمالیات کے دو تصورات وابی اور سابی ہیں جو زین بدھ ازم کے اثر سے ہائیکو کا حصہ بن گئے ہیں۔ سابی سے مراد وہ حسن ہے جو فطری بے ترتیبی اور دنیا کی بے ثباتی اور غیر مکمل ہونے کے احساس میں ہے۔ وابی سے مراد وہ فطری حسن ہے جوعمر رسیدگی، کہنگی اور خستگی میں مضمر ہے۔جاپانی جمالیات میں چہرے کی جھریاں، ہوا کے جھونکوں سے الجھے ہوئے بال، فطرت کا حسن اور سکوت، موسم گزیدگی کی وجہ سے کپڑوں کا دھندلاتارنگ، باغ کے سرسبز فرش پر بکھرے ہوئے خشک پتے، راستے کے کنارے فطری بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے چھوٹے بڑے پتھر، جوتے کی کہنگی اور خستگی اور اس پرموسم کے سرد و گرم کا اثر، مکانوں کی دیواروں پر موسم اور کہنگی کے نشان، سادہ اور فطری طرز زندگی، فقر اور خلوت نشینی وغیرہ وابی اور سابی کے تصورات کے مظہر ہیں ۔ اس لحاظ سے جاپانی جمالیات مغربی جمالیات سے یکسر مختلف ہے جہاں دنیا اور اشیا میں رکھ رکھاؤ، مصنوعی زیب وزینت، میک اپ اور چیزوں میں پرفیکشن کی توقع جمالیاتی احساس کے تقاضے ہیں۔وابی اور سابی کے تصور کو بہتر طور پر واضح کرنے کے لیے جاپان کے کلاسیکی شاعر اور بودھ سادھو رِکیو کی زندگی سے دو واقعات پیش ہیں۔
ایک دفعہ رکیو کے ایک شاگرد نے باغ کو بکھرے ہوئے خشک پتوں سے بالکل صاف کردیا۔ اس پر رکیو نے شاگرد سے اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور اس سے کہا کہ اسے سابی کا علم نہیں ہے۔اس کے بعد انھوں نے درخت کی ایک شاخ کو ہلایا جس سے کچھ پتے گر کر زمین پر بکھر گئے۔ ایک دوسرے موقع پر جب ایک ٹی ماسٹر ( چائے کی تقریب میں چائے پیش کرنے والا شخص) نے اسے ایک خوب صورت اور قیمتی چائے دانی سے چائے پیش کی تو اس نے اس چائے دانی کی کوئی تعریف نہیں کی۔ اس پر ٹی ماسٹر نے مایوس ہوکر چائے دانی کو پھینک دیا جس سے وہ ٹوٹ گئی۔ مگر بعد میں اسے اٹھا کر گوند سے جوڑ دیا گیا۔ ایک دوسرے موقع پر جب اسی چائے دانی سے رکیو کو چائے پیش کی گئی تو انھوں نے اسے دیکھ کر کہا’’ہاں اب یہ وابی کا نمونہ بن گئی ہے۔‘‘
وابی سابی کا یہ جمالیاتی تصور شاعری کے علاوہ جاپان کے دوسرے فنون میں بھی داخل ہوگیا۔ خاص طور پراس تصور نے جاپانی فیشن کی دنیا میں بھی اثر ڈالا۔ جہاں لباس میں کہنگی، خستگی اور موسم گزیدگی کو مصنوعی طور سے اس طرح پیش کیاجاتاہے کہ ان پر اصل کا گمان ہو۔فیشن میں وابی سابی کایہ رجحان مغربی فیشن پر بھی اثر انداز ہوا۔ جینز پینٹ میں پھٹے ہوئے یا گھسے ہوئے حصے ہونے کا تاثر مصنوعی طور پر پیداکرنے کا رجحان دراصل مغرب میں جاپانی کے وابی سابی کے تحت ہی آیاہے۔ یہ مغرب کا اوریجنل فیشن نہیں ہے۔ہندوستانی فلمی گیت کا ر شیلندر نے ستر کی دہائی میں جب فلم شری چار سو بیس کا گانا ’میرا جوتا ہے جاپانی‘لکھا تھا تو دراصل انھوں نے جاپانی جمالیات سے اپنی واقفیت کا اظہار کیاتھا۔ ’’میرا جوتاہے جاپانی ‘‘سے مراد راجکپور کا امپورٹڈ، قیمتی اور پالش سے چم چم کرتا جوتا نہیں تھا بلکہ کہنگی، خستگی اور موسم گزیدگی یعنی وابی اور سابی کے ’حسن ‘ سے مملو جوتاتھا ۔ہوسکتاہے کہ راجکپور کا پورا گٹ اپ ہی وابی سابی کے تصور پر وضع کیاگیاہو اور راج کپور ہی نے ’’جوتاہے جاپانی ‘‘ کا تھیم شیلند ر کو دیاہو۔ بہرحال، یہ حقیقت ہے کہ جاپانی جمالیات نے مغربی اور مشرقی جمالیات کو کسی نہ کسی طرح متاثر ضرور کیا۔

Sohail Arshad
Mirza Ghalib Street, Raja Bandh 
P.O. Raniganj-713347 (WB)
Mob.: 9339373391


ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر2016



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں