11/4/19

نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کی عکاسی مضمون نگار: امتیاز احمد علیمی



نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کی عکاسی
امتیاز احمد علیمی
اردو ادب کے شعری منظرنامے پر نظیر اکبر آبادی کی بے نظیری اپنی جگہ مسلم ہے،یہ اور بات کہ نظیر کی شاعری ان کے ہم عصروں کو راس نہیں آئی انھیں عوامی اور بازاری شاعر سے زیادہ نہیں گردانا۔جبکہ نظیر کے حوالے سے یہ بات سب پر عیاں ہے کہ وہ زود گو اور برجستہ شاعر تھا۔ اسے شاعری میں اعلیٰ اور اسفل، معیاری اور غیر معیاری بول چال کی ادائیگی پر کامل عبور حاصل تھا وہ چاہتے تو پیچیدہ اور مبہم شاعری کرسکتے تھے،مفرس اور معرب زبان کا استعمال کرسکتے تھے،بعض مقامات پر نمونے کے طور پر اس کا اظہار بھی ہوا ہے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اس سے انحراف کیا۔ نظیر کی شاعری میں تصنعات کا دور دور تک گزر نہیں ہے ان کی شاعری ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی مکمل آئینہ دار ہے اس میں ہر طرح کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔واقعات نگاری، جذبات نگاری، جزئیات نگاری، سراپا نگاری، شخصی مرقعے، مذہبیات، اخلاقیات، عشقیہ، طنزیہ، شہر آشوب، کیا نہیں ہے! ہندوستانی تہذیب وثقافت کے جتنے پہلو آپ تلاش کرنا چاہیں وہ سب نظیر کی شاعری میں موجود ہیں، لہوو لعب،عیش وعشرت،سیر و تفریح، رنج و غم،حزن و ملال یا دل و دماغ کی بولتی تصویریں ہوں یا امیری، غریبی، مفلسی،لاچاری اورمجبوری کی داستانیں ہوں، معاشیات و اقتصادیات کے مسائل ہوں یا ہندوستانی موسمیات کا تذکرہ ہویا کچھ اور، سبھی اپنے تلازمات اور جزئیات کے ساتھ موجود ہیں،اس لیے کہا جاتا ہے نظیر اردو کا وہ واحد شاعر ہے جس نے اپنی شاعری کا مواد عربوں یا ایرانیوں سے مستعار لینے کے بجائے ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے لیا اور اپنے آس پاس کی عوامی زندگی،عوامی طرز بود و باش،ملکی و مقامی ماحول اور اس کی روایات کو شاعری کے قالب میں ڈھال کر ایک ایسے لب و لہجے کی بنیاد ڈالی جس کی نظیر پوری اردو شاعری میں مشکل سے ملے گی،عوامی لہجے میں عوامی زندگی کے مسائل ان کے داخلی و خارجی جذبات و احساسات،ان کے دکھ درد،ان کی مفلسی و فقیری،بے بسی و لاچاری اور سکھ دکھ میں برابر شریک ہو کر ان کا بھر پور اظہار کیا۔ یہی نہیں بلکہ نظیر نے اپنے آپ کو سماج کے اندر جذب کر کے اپنی انفرادیت کو ایک اجتماعی چیز بنا دیا،اس لیے ان کی شاعری میں زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں بچا جو موجود نہ ہو، نظیر نے زندگی کی تمام تصویریں چاہے وہ معیشت کی ہوں یا معاشرت کی،تہذیبی قدریں ہوں یا سماجی قدریں، مذہبی معاملات ہوں یا ملکی صورت حال، داخلی و خارجی احساسات ہوں یا تاثرات،امیر وغریب، شاہ وگدا، زاہد و رند،ہندو ومسلمان یا کوئی اور، نظیر نے سب کی تفریح کا سامان مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اس عہد کی تہذیبی اور سماجی صورت حال کا نقشہ جس طنزیہ پیرائے میں کھینچا ہے وہ اس عہد کے دوسرے شعرا میں نہیں ملتا۔ زبان سے نکلے ہوئے ہر فقرے میں ذاتی تجربہ اور گہرا مشاہدہ ہوتا ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر فیلن کی اس رائے سے اتفاق کیا جا سکتا ہے جو اس نے نظیر اور ان کی شاعر ی کے حوالے سے دی ہے وہ ہے :
’’نہایت وسیع معنوں میں وہ اعلیٰ درجہ کا آزاد،اعلیٰ درجہ کا موجد،اعلیٰ درجہ کا حکیم،اور اعلیٰ درجہ کا حکیم دوست تھا۔اس کی ذکاوت کی رنگا رنگی ان مضامین رنگا رنگ سے ظاہر ہو تی ہے جن پر اس نے طبع آزمائی کی،جس قسم کے شاعرانہ خیالات اس نے ان معمولی چیزوں سے پیدا کیے ہیں جن پر اور ہندوستانی شاعروں نے لکھنا یا تو کسر شان سمجھا یا ان کو لکھنے کی قابلیت ہی نہ تھی۔انھیں کو ہندوستانی محققین نا واقفیت سے اس بات کا نہایت یقینی ثبوت خیال کرتے ہیں کہ وہ کوئی شاعر نہ تھا۔یہ حضرت فرماتے ہیں ’’اس نے اس قسم کی مبتذل چیزوں پر لکھا ہے۔ آٹا، دال، مکھی مچھر ‘‘اس کی طبیعت کی رنگا رنگی اور اس کی تخییل کی قوت علاوہ بریں اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے ایک ہی چیز کی مختلف نظموں میں مختلف پہلو سے مختلف تصویریں دکھائی ہیں۔ اس کا دیوان خاصا تصویروں کا ایوان ہے،جس میں ہندوستان کے رہنے والوں کے کھیل تماشے، عیش و تفریح،رنج و غم،دل ودماغ سب کی بولتی چالتی تصویریں نظر آسکتی ہیں۔‘‘ (ص46، کلیات نظیر،نظیر اکبر آبادی، مقدمہ از عبد المومن الفاروقی،کتابی دنیا،نئی دہلی ایڈیشن 2003 )
جس رنگ کی شاعری نظیر نے پیش کی ہے آج کے شعرا کے لیے ہی نہیں، بلکہ ہر دور کے شعرا کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔آج کے شعرا کے یہاں نظیر کی سی شاعری کا امکان بہت کم نظر آتا ہے کیونکہ نظیر نے جس موضوع پر بھی نظم کہی ہے ان موضوعات پر اتنی تفصیل اور شرح وبسط کے سا تھ نظمیں کسی اور شاعر کے یہاں نظر نہیں آتیں، مثال میں نظیر کی وہ نظمیں پیش کی جا سکتی ہیں جو اس نے موسم برسات کے حوالے سے کہی ہیں ان نظموں میں 23 بندوں پر مشتمل ’برسات کا تماشا‘ 74بندوں پر مشتمل ’برسات کی بہاریں‘16 بندوں پر مشتمل ’برسات اور پھسلن‘ 11 بندوں پر مشتمل ’برسات کی امس‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ یہ ساری نظمیں مخمس میں ہیں۔ ان کے مطالعے سے برسات کے حوالے سے شاید ہی کوئی پہلو بچا ہو جو بیان سے رہ گیا ہو۔نظم ’برسات کی بہاریں‘ میں نظیر نے اپنی قوت متخیلہ کو بروئے کار لاتے ہوئے برسات میں ہونے والے ہر عمل اور ہر منظر کی عکاسی اس طرح کی ہے کہ اس کی پوری تصویرآنکھوں کے آگے پھر جاتی ہے۔ اس میں کھیتوں میں سبزہ اور ہریالی، پھول پتے، کانٹے، بدلیاں، پھوار، تیتر، بٹیر، فاختہ، قمریاں، پپیہے، بگلے، ہُدہُد، مینڈھک کے اچھلنے، موروں کے ناچنے اور جھولا جھولنے سے لے کر گیت گانے تک ہر چیز کو انتہائی فنکاری سے پیش کیا ہے۔ وہ ہندوستان کے دریا،پہاڑ اور مناظر قدرت سے صرف خیالی طور پر لطف اندوز نہیں ہوتے اور نہ ہی خیالی بہاروں کا سماں باندھتے ہیں بلکہ وہ ہندوستان کی برسات کی بہاریں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس کو نظم کرتے ہیں جس میں تشبیہات واستعارات اور اس کی مثالیں خالص ہندوستانی ہیں اس نظم سے صرف دو بند ملاحظہ کیجیے:
ہیں اس ہوا میں کیا کیابرسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریں
ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں 
151151
بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں
جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں 
نظیر کی اس طرح کی نظمیں خالص مشرقی مزاج کی نظمیں ہیں جوشاعر کے خالص ہندوستانی ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں ایسی نظموں میں مناظر فطرت کی دلفریبیاں، سوسائٹی اور معاشرے کے مشاغل،موسم کے تغیر سے روز مرہ کی زندگی میں رو نما ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں کا سچا مرقع نظر آتا ہے۔نظیر نے اپنی شاعری میں جن حقائق کا ذکر کیا ہے وہ حقائق ہمارے تجربات کا حصہ ہیں وہ ماورائی یا تخیلاتی نہیں ہیں بلکہ ان سب کا تعلق زمینی حقائق سے ہے جہاں ہم اپنے شب و روز گزارتے ہیں۔ وہ سب ہمارے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں یہی نظیر کی شاعری کی انفرادیت بھی ہے اور اس کی شناخت بھی، کہ وہ شاعری کو صرف تخیلاتی،تصوراتی، یا ماورائی نہیں گردانتے بلکہ یہ تصور دیا کہ شاعری کا تعلق زمینی حقائق سے ہے اور زمینی حقائق کے بیان میں نظیر کو اولیت کا درجہ دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایسی چیزوں کا ذکر کرتے ہیں جو ہماری روز مرہ کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں مثلاً جب وہ نظم ’بنجارا‘ میں یہ کہتے ہیں:
کیا شکر مصری،قند گری،کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے
کیا راکھ منقا،سونٹھ،مرچ،کیا کیسر لونگ سپاری ہے
تو ہمیں کوئی حیرانی نہیں ہوتی کیونکہ ہم ان اشیا کے ناموں سے اچھی طرح واقف ہیں اور ہم ان سے مانوس بھی ہیں۔یہی نہیں بلکہ اس نظم کو نظیر نے تمثیل بناکر دنیا کی بے ثباتی اور نا پائداری کو انتہائی سلاست و سادگی اور روانی سے پیش کیا اور در پردہ اس بات کا اظہار کیاہے کہ دنیا کی رنگینی،جاہ و حشمت،مال و متاع،دولت و ثروت، عزت و شوکت، ٹھاٹ باٹ اور اپنے پرائے سب کچھ فانی ہیں۔ یہ بظاہر ایک عام سی نظم ہے لیکن نظیر نے اس میں اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کیا ہے جس میں تصوف اور معرفت کو بھی تلاش کیا جا سکتا ہے اس میں دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ بہت لطیف پیرائے میں کھینچا ہے یہ پوری نظم ایک واعظانہ اور ناصحانہ انداز کی ہے جس میں تمثیل کے لیے بنجارے اور اس کی زندگی کے تلازمے کا استعمال کیا گیا ہے، معنوی اعتبار سے یہ ایک بلند پایہ نظم ہے یہ بند ملاحظہ ہو:
ٹک حرص و ہو ا کو چھوڑ میاں،مت دیس بدیس پھرے مارا
قزّاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ 
کیا بدھیا، بھینسا، بیل، شترکیا گوئی پلّا سر بھارا
کیا گیہوں، چانول، موٹھ مٹر،کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لادچلے گا بنجارا
نظیر کی شاعری اس عہد کے لیے ایک نئی قوت اور نیا امکان لے کر ابھری اور وہ یہ تھا کہ نظیر نے ہمارے کلاسکی شعرا کے بندھے ٹکے موضوعات اور اسالیب سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کی جس کی نظیر کے باغی ذہن نے ان روایات سے انحراف کیا اور ایسے ایسے موضوعات پر شاعری کی جن پر ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان موضوعات پر اتنی اچھی اور موزوں شاعری کی جا سکتی ہے۔ تل کے لڈو،سنگترا، نارنگی، خربوزے، پنکھا، پنکھیا، کورا برتن، ککڑی، تربوز، بٹوا، حنا، مہندی، مکھی اور مچھرجیسے موضوعات پر بھی اچھی اور موزوں شاعری نظیر نے کر کے دکھائی ہے اور پوری سچائی اور حقیقت پسندی کے ساتھ اس کا اظہار کرکے تمام اصناف سخن میں اپنی انفرادیت اور ہمہ گیریت کا لوہا منوایا، اور فارسی شاعری کے تصورات، مفروضات، اور روایات و اسالیب کی جگہ خالص ہندوستانی تصورات اور روایات کو ایک نئے اسلوب میں ڈھالااور اپنی شاعری کا مواد اپنے ملک اور معاشرے سے لیا،دور ازکار تشبیہات و استعارات اور رموز و علائم کی جگہ معلوم اور مانوس صنائع بدائع کو جگہ دی اور ایسی شاعری کی جو ہمارے ملک کی پیدا وار معلوم ہوتی ہے۔ جس چیز یا جس واقعے کا ذکر کرتے ہیں وہ اس کی ہو بہو تصویر کھینچ دیتے ہیں مثلاً مسدس میں’آگرے کی تیراکی‘ کا یہ بندملاحظہ ہو:
جب پیرنے کی رت میں دلدار پیرتے ہیں
عاشق بھی ساتھ ان کے غمخوار پیرتے ہیں
بھولے سیانے نادان ہشیار پیرتے ہیں
پیر و جوان لڑکے عیّار پیرتے ہیں
ادنیٰ غریب و مفلس زردار پیرتے ہیں
اس آگرے میں کیا کیا اے یار پیرتے ہیں
اس نظم کے ذریعے نظیر نے شہرآگرہ کے مشہور ومعروف مقامات کا ذکر کرنے کے ساتھ دریا کی مختلف کیفیتوں،پانی کی مختلف ہیئتوں کو بھی بیان کیا ہے۔یہ مقامی رنگ و آہنگ سے آمیز ایک مصورانہ نظم ہے نظیر نے اس نظم میں آگرے میں دریا کے کنارے جو خاص خاص اور مشہور مقامات تھے جن کا تعلق تیراکوں سے تھا ان کا ذکر کرکے ایک تاریخی اور تہذیبی دستاویز فراہم کی ہے۔ یہا ں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے نظیر کی جتنی بھی نظمیں ہیں خواہ ان کا تعلق مناظر قدرت سے ہو یا اخلاقیات اور فلسفے سے، ظریفانہ نظمیں ہوں یا مذہبی معتقدات سے متعلق،یا ہندو مسلم شخصیات اور تقریبات سے متعلق ہوں جب تک اس کی مکمل قرأت نہیں کی جائے گی تب تک اس سے بہت زیادہ لطف اندوز نہیں ہوا جا سکتا اور نہ ہی اس کے فنی، فکری اور لسانی پہلوؤں کو کسی ایک مضمون میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ بہر کیف ان باتوں سے قطع نظر نظیر نے اپنی شاعری میں عوامی رنگ اور سماج کے دبے کچلے اور نچلے طبقے کے لوگوں کی زندگی کے مسائل کو تلاش کر کے پیش کیا ہے جن میں ہندوستانی عناصر کی جھلکیاں حد درجہ نمایاں ہیں۔اس حوالے سے سید محمدمحمود رضوی مخمور اکبرآبادی کی یہ رائے بھی قابل توجہ ہے جو انھوں نے ’روح نظیر ‘ کے مقدمے میں نظیر کی شخصیت اور اس کی شاعری کے سلسلے میں دی ہے:
’’وہ (نظیر) ہندوؤں کی معاشرت کے بھی اتنے ہی بڑے ماہر ہیں جتنے مسلمانوں کے،بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ ہندو شعرا میں ایسے بہت کم نکلیں گے جو ہندو معاشرت دانی میں نظیر کا مقابلہ کر سکیں۔ان کی نگاہ کی وسعت انھیں ہر طبقے کی حالت سے بخوبی واقف رکھتی ہے کچھ ہندو مسلمانوں ہی پر منحصر نہیں ہندوستان کی ہر قوم کی معاشرت کا ان کو یکساں علم و تجربہ ہے۔امرا کے طریقِ زندگی، ان کے روز مرہ کے مشاغل، ان کی دلچسپیوں اور تفریحوں کے اسباب، متوسط طبقے کی طرز معاشرت، غربا کے عادات واطوار،عام شہریوں کے لہو ولعب،شہر کے مختلف پیشہ وروں کے چال چلن، ہنود کے تیوہار، مسلم اور ہندو خواتین کے رسم و رواج،خانگی زندگی کی کیفیت، صوفی اور فقرا کے خصائل، آزادوں اور بد معاشوں، تماش بینوں کی بد وضعی، پھکڑوں کی عریانی، میلے ٹھیلوں کی رنگ رلیاں، ان کے علاوہ اور بہت سی باتیں، غرض معاشرت کے جتنے کوائف ہیں سب کا کچھ نہ کچھ ذکر ان کے یہاں موجود ہے۔‘‘ (روح نظیر، از مخمور اکبر آبادی، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، دوسرا ایڈیشن، 2003، ص17) 
نظیر کی شاعری کا زمانہ وہ ہے جب ہندوستان کی ہندو مسلم دونوں قومیں با ہم متحد تھیں۔ ہندو مسلمانوں کے اور مسلمان ہندوؤں کے مختلف تہواروں، میلوں، ٹھیلوں، تماشوں، اور ایک دوسرے کی سماجی رسموں میں زندہ دلی کے ساتھ شرکت کرتے تھے،ایسے ہی ماحول میں نظیر کی شاعری پروان چڑھی اور یہی ماحول، یہی کیفیت، اور یہی رنگ و آہنگ نظیر کی شاعری پر چھایا رہا،اسی لیے نظیر کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی شاعری یک رخی ہونے کے بجائے کثیر الجہات ہے اور اس کی کثیر الجہتی یہ ہے کہ اس نے اگر ایک طرف مسلمانوں کے تہواروں میں عید اور شب برات پر نظمیں کہی ہیں تو دوسری طرف ہندوؤں کے تہواروں میں ہولی، دیوالی، بسنت اور راکھی پر بھی اظہار خیال کیا ہے، اس نے جہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ، مدح پنجتن، اور حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃاللہ علیہ سے متعلق اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے تو وہیں اہل ہنود کی مقدس ہستیوں میں شری کرشن، گرونانک، کنھیا جی کی راس، جنم کنھیا جی، ہَر کی تعریف میں، درگا جی کے درشن، بھیرو جی کی تعریف، مہا دیو کا بیاہ، اور بلدیو جی پر بھی خوبصورت نظمیں کہی ہیں۔ اسی لیے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے اس کے کلام سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور اسے اپنا شاعر تسلیم کرلیا۔ اس طرح نظیر کے کلام میں قدیم ہندو طرز معاشرت، ہندو دیومالا،ہندو رسم و رواج،ہندو فلسفہ،اور ہندو نجوم وغیرہ کا پایاجانا اس بات پر دال ہے کہ نظیر بلا شبہ ان سے واقف تھے کیونکہ با ر با ر ان کے کلام میں اس کے حوالے ملتے ہیں مثلاً اس نے کرشن کنھیا کی جن متعدد صفات کو گنوایا ہے وہ ذیل کے بند سے واضح ہوتا ہے:
پھر آیا واں اک وقت ایسا جو آئے گرب میں من موہن
گوپال منوہر مرلی دھر سیکشن کشورن کنول نین
گھنشیام مراری بنواری گردھاری سندر سیام برن
پربھوناتھ بہاری کان الا سُکھدائی جگ کے دکھ بھنجن
جب ساعت پر گھٹ ہونے کی واں آئی کٹ دھریّا کی 
اب آگے بات جنم کی ہے جے بولو کشن کنھیا کی
اس طرح کشن کنھیا کے متعدداوصاف گنانے کے بعدجب وہ مسلم پیشوا اور رہنما حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے روضے پر حاضری دیتا ہے تو ان کی مدح سرائی میں اس طرح رطب اللسان ہوتا ہے کہ ایک ایک شعر ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف میں عقیدت و ستائش کا ایک بحر ذخار نظر آتا ہے:
ہیں دوجہاں کے سلطاں حضرت سلیم چشتی 
عالم کے دین و ایماں حضرت سلیم چشتی 
سر دفتر مسلماں حضرت سلیم چشتی 
مقبول خاص یزداں حضرت سلیم چشتی 
سردار ملک و عرفاں حضرت سلیم چشتی 
نظیر نے تہواروں کا ذکر بھی انتہائی موثر انداز میں کیا ہے ہندو تہواروں میں ہولی،دیوالی،بسنت اورراکھی کا ذکر اور مسلم تہواروں میں عید،بقرعید،اور شب برأت کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جن میں ہندو تہوار خالص ہندوستانی ہیں۔ ہولی پر اتنی نظمیں شایدہی کسی ہندو شاعر نے کہی ہوں۔یہ ایسا تہوار ہے جو پورے ہندوستان میں علاقائی رسم و رواج کے مطابق منایا جاتا ہے۔ ان تمام نظموں میں ’ہولی کی بہاریں‘ زیادہ بہتر ہے اس لیے کہ مترنم بحروں میں موسم اور ہولی کے جملہ متعلقات کی ایسی مصوری کی گئی ہے کہ اس کو پڑھ کر نظیر کی شخصیت اور اس کی فنی مہارت کا قائل ہونا پڑتا ہے:
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
خم شیشے جام جھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
محبوب نشے میں چھکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
151151
ہو ناچ رنگیلی پریوں کا بیٹھے ہوں گلرو رنگ بھرے 
کچھ بھیگی تانیں ہولی کی کچھ ناز و ادا کے ڈھنگ بھرے 
دل بھولے دیکھ بہاروں کو اور کانوں میں آہنگ بھرے
کچھ طبلے کھڑکیں رنگ بھرے کچھ عیش کے دم منھ چنگ بھرے
کچھ گھنگرو تال چھنکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اس کے علاوہ اہل اسلام کی نظر میں ’شب برأت‘ کی اہمیت کیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے اس میں کون سے اعمال کیے جاتے ہیں عقیدے اور عقیدت دونوں سے ہم سبھی واقف ہیں، لیکن اس کی اہمیت اور افادیت نظیر کی زبانی سنیے:
کیونکر کرے نہ اپنی نموداری شب برأت
چلپک چپاتی حلوے سے ہے بھاری شب برأت
زندوں کی ہے زباں کی مزیداری شب برأت
مردوں کی روح کی ہے مددگاری شب برأت
لگتی ہے سب کے دل کو غرض پیاری شب برأت

عالم کے بیچ جس گھڑی آتی ہے شب برأت
کیا کیا ظہور نور دکھاتی ہے شب برأت
روشن ہیں دل جنھوں کے عبادت کے نور سے
ان کو تمام رات جگاتی ہے شب برأت
خالق کی بندگی کرو اور نیکیوں کے دم 
یہ بات ہر کسی کو سناتی ہے شب برأت
مذکورہ بالا نظموں کے مطالعے کے بعد یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ نظیر کی شاعری میں حقیقتاً ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اپنے تمام آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ نظیر نے ہندوستانی تہذیب کی باریک بینی کے ساتھ مشاہدہ کیا اور اسے اپنی شاعری میں اس طر ح بیان کیا کہ قاری کے سامنے ہندوستانی تہذیب و معاشرت اور اس کے تمام متعلقات از خود روشن ہو جاتے ہیں۔ تہذیبی سطح پر دیکھا جائے تو اصل ہندوستان نظیر کی شاعری میں ہی بستا ہے۔ اس نے اپنی شاعری کے ذریعے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا ایک ایسا آئینہ پیش کر دیا ہے جو رہتی دنیا تک ان کی شاعری کے پڑھنے والوں کو اپنے دور کی حقیقت سے روشناس کراتی رہے گی۔میں اپنی گفتگو کا اختتام مجنوں گورکھپوری کے ان الفاظ پر کرتا ہوں :
’’نظیر خالص ہندوستانی شاعر تھے،ہندوستان کی زندگی،ہندوستان کے رسوم و روایات ان کی شاعری کے لازمی عناصر ہیں۔ وہ اپنے گرد وپیش کے عام واقعات کے ساتھ سچی موانست رکھتے ہیں اور انھیں سے اپنی شاعری کے لیے مواد حاصل کرتے ہیں۔ نظیر اردو کے پہلے شاعر ہیں جن کا کلام پڑھ کر ہندوستان کے حالات کی عام معاشرت اور یہاں کے رسم و رواج کے متعلق معلومات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔‘‘ (نظیر شناسی،مرتبین مرزا اکبر علی بیگ، محمد علی اثر،ناشر،ادارہ شعر و حکمت،حیدر آباد،1987، ص 111)

Imtiyaz Ahmad Aleemi
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia, New Delhi - 110025
ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر2016




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں