2/5/19

شجاع خاور اور ’دوسرا شجر‘ مضمون نگار: عمیر منظر



شجاع خاور اور ’دوسرا شجر‘
عمیر منظر

آزادی کے بعد شعر و ادب کے منظرنامے پر فکری اور فنی دونوں سطح پر نہ صرف بہت سی تبدیلیاں ہوئیں بلکہ ہیئت کے نئے تجربے بھی کیے گئے۔ جدیدیت نے نئے افکار و خیالات کو تقویت بخشی اور فنی تجربوں کے لیے مہمیز کا کام بھی کیا۔ اس تناظر میں جہاں نئی نظم کو فروغ ملا وہیں اسلوب بیان اور ہیئت کے نت نئے تجربے کیے گئے۔ اس ضمن میں طویل نظموں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان طویل نظموں میں تجربے اور طریقہئ اظہار دونوں میں نیاپن ہے۔ 1960 کے بعد طویل نظم نگاروں کی فہرست میں عمیق حنفی، کمارپاشی، شجاع خاور اور زبیررضوی کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
شجاع خاو رکی وفات (21 جنوری 2012) کو دو سال ہوچکے ہیں۔ ’دوسرا شجر‘ شجاع الدین ساجد/ شجاع خاور (1948-2012) کی اولین تخلیقی کاوش ہے۔ یہ ایک طویل رزمیہ ہے جس کا اسلوب فارسی آمیز ہے نیز اس نظم پر اقبال کے اثرات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ خدا سے مکالمہ اردو کی شعری روایت میں کوئی نئی چیز نہیں، میر، غالب اور اقبال کے یہاں تو پوری قوت کے ساتھ خدا سے مکالمہ ہے۔ یہ مکالمہ کہیں اپنی بے بسی کا اظہار ہے تو کہیں اس وسیع و عریض کائنات میں انسان کی حیثیت کے بیان پر مشتمل ہے۔ انسان کا وجود کیا معنی رکھتا ہے اس احساس نے فن کاروں کو خدا سے مکالمہ کے لیے مہمیز کیا۔ ان مکالموں میں فکر اور فن کاری دونوں کے بہت عمدہ نمونے موجود ہے۔ البتہ ن م راشد، میراجی اور جوش ملیح آبادی بسااوقات اس سطح سے بہت نیچے آگئے اور مکالمہ کے بجائے ان کے یہاں اظہار کی وہ سطح در آئی جس سے انکار اور عام انسانوں جیسے برتاؤ کا معاملہ نظر آنے لگا۔ شجاع خاور کی یہ نظم گرچہ انہی حوالوں سے ترتیب پاتی ہے لیکن انہوں نے فن اور بیان کی ایک خاص سطح قائم رکھنے کی ضرور کوشش کی ہے۔ ماضی، تہذیبی اور مذہبی اسطور اور داستانوی کرداروں سے طویل نظم نے زندگی کے بہت سے پہلو حاصل کیے ہیں اور یہی ان کا بنیادی محرک رہا ہے لیکن اس کے باوجود فن کار کا اپنا آپ بھی ان نظموں میں شامل ہے۔ اسی چیز نے ان نظموں کو تخلیقی وقار عطا کیا ہے۔
شجاع خاور کی طویل رزمیہ نظم ’دوسرا شجر‘ 644 مصرعوں پر مشتمل ہے جس میں نظم کی تینوں ہیئتوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ نظم دراصل انسان کی بے چارگی اور حرماں نصیبی کی داستان بھی کہی جاسکتی ہے۔ کیونکہ نظم جن بنیادوں پر قائم ہے اور خدا سے جس طرح کلام کیا جارہا ہے اس کا لازمی نتیجہ محرومی اور محزونی ہی ہے۔ نظم میں آدم اور خالق کائنات کا مکالمہ فنی قدر و قیمت کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔
نظم کا آغاز زوال آدم کے واقعہ سے ہوتا ہے۔ لیکن فن کار نے اسے زوال کا نام نہیں دیا ہے بلکہ اسے تخلیق کی ایک دوسری دنیا سے تعبیر کیا ہے جہاں خود انسان اس مثالی دنیا اور اس کی جنت تعمیر کرے گا:
آگہی وہ مری قلوپطرہ
کبھی جس کے در شبستاں سے
میں نے پردہ اٹھا کے دیکھا تھا
اور میرے خدا نے جنت سے
مجھے باہر نکال پھینکا تھا
میری معصومیت کی یہ لغزش
سرکشی کا گناہ ہو جیسے
یہ وضاحت ضروری ہے کہ زوال آدم دانہئ گندم کھانے کی وجہ سے ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو منع کیا تھا مگر شیطان نے انھیں بہکا دیا اور آدم و حوا غلطی کربیٹھے مگر فوراً ہی اس کا احساس ہوا اور وہ خدا سے معافی مانگنے لگے۔ قرآن میں اس واقعہ کا ذکر اس طرح ہے:
”اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو بافراغت کھاؤ پیو، لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالم ہوجاؤ گے لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا ہی دیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمھارے لیے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“ (البقرۃ: 35-37)
لیکن اس نظم کا مرکزی خیال اسلامی عقیدے کے بجائے مسیحی روایت سے مستعار ہے۔ انجیل میں اس درخت کو شجر آگہی قرار دیا گیا ہے اور اسی مسیحی روایت کو شجاع خاور نے نظم کا بنیادی خیال بنایا اور اسی لیے وہ غم نہیں کرتا بلکہ امکانات کی بشارت دیتا ہے۔ وہ جنت سے نکالے جانے کا ماتم نہیں کرتا بلکہ خود ایک بہشت کی تعمیر کا خواب دیکھتا ہے:
جنت گم شدہ کا غم کیوں ہو
میں نے بھی اک بہشت ڈھالی ہے
خواب زاروں کی بات کیا معنی
میری جنت ہے چشم وا کی طرح   (30 تا 33)
اسے وہ اپنی فتح مندی کا نشان تصور کرتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک دونوں جنت ہی ہیں بس فرق فاصلے کا ہے۔ یہ لغزش جس نے اسے جنت سے نکلنے پر مجبور کیا اس کے نزدیک قابل تعریف ہے۔ داستانوی کردار قلوپطرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صبح کو اپنے ہم بستر کو قتل کروا دیتی تھی۔ یہاں انسان کے لیے آگہی کی خاطر قلوپطرہ کی رفاقت کو تلمیح کا رنگ دیا گیا ہے۔
نظم کا دوسرا حصہ خدا اور بندے کے درمیان خود کلامی کو پیش کررہا ہے۔ آدمی کے دعووں کو بیان کرتا ہے۔ اس میں غصہ اور حقارت ہے۔ یعنی (آدمی) ہر قید سے آزاد ہونا چاہتا ہے:
ہر قید سے/ہر روایت سے/قید زماں سے
حدود و مکاں سے/ہر اک خوف سے
ہر عقیدے سے/اور خود ہمارے تصور سے
پھر خدا کہتا ہے کہ ہماری خدائی کو ہرگز یہ گوارا نہیں ہے کیونکہ آدمی تو ہمارا بنایا ہوا ہے۔ پھر خدا کہتا ہے:
ہم کبھی بھول سکتے نہیں
آدمی جو ہمارا گنہگار ہے
ایک مجرم تھا یہ
ہم نے اپنی خود آثار قدرت کے گنج گراں مایہ
پھر بھی دیے تھے اسے
آج خود اک بہشت کبیر اس نے تعمیر کرلی ہے
کیا یہ بہشت کبیر اس کا زنداں نہیں؟
انسان آگہی کے ہم آغوش ہونے پر جس قدر فخر کررہا ہے یہی اس کی تباہی کا سبب بھی بنے گی یعنی یہ آگہی جرم بھی ہے اور جرم کی تعزیر بھی ہے۔ (267)
نظم کے اگلے حصے میں انسان کی خودکلامی کو ایک بار پھر دکھایا گیا ہے۔ یہاں اجتماعیت کی مختلف شکلیں ہیں۔ انسانی ترقیات اور علوم کی فراوانی نے اک نئی دنیا دریافت کی ہے جہاں اس نے سمندروں کو تسخیر کیا، پہاڑوں کے جگر کاٹ چکا ہے اور اب اسے یہ احساس ہوچلا ہے کہ میں کتنا قوی، کتنا ذکی اور کتنا بڑا ہوں لیکن ایک مرحلے پریہی چیزیں اس کی تباہی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ البتہ یہاں فن کار نے جو تصویر پیش کی ہے وہ کسی ایک زمانے یا عہد کی نہیں بلکہ اس میں تاریخ کا پورا تسلسل ہے۔ انسانی ترقی اور اس کی تمدنی تاریخ کا اجتماعی احساس ان مصرعوں میں ظاہر ہوا ہے۔ وہ اپنی بنائی ہوئی صلیبوں سے مصلوب ہوا اور پہاڑوں میں جوئے شیر لانے والا تیشہ بھی اسے غارت کرتا ہے۔ یہی خود اعتمادی انسان کو آگے چل کر نہ صرف بغاوت اور سرکشی کا سبب بنتی ہے بلکہ وہ یہ بھی کہتا ہے:
میں اپنی  پرستش کا خدا ڈھونڈ رہا ہوں
میں اپنا خدا اپنا خدا اپنا خدا ہوں
                                          (467)
اس کے بعد خدا کی دوبارہ خودکلامی شروع ہوتی ہے۔ اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
نہیں نہیں میں خدائے کل ہوں
نہیں کسی نے مری خدائی کی تمکنت کو
نزار و نالاں
نہیں کیا ہے
کسی نے بھی شرمسار اب تک نہیں کیا ہے
اس خودکلامی میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ آدمی کی یہ ترقی اس کی تباہی کا سبب بنے گی۔ بہشت اوّلین سے تو صرف انسان کو نکالا گیا تھا مگر ز مین پر اس کے اعمال کے سبب اسے جنت ارضی نہ صرف چھوڑنی پڑے گی بلکہ یہاں کا سب کچھ تباہ و برباد ہوجائے گا:
بس اب وہی لمحہ آرہا ہے
کہ رفعتوں کا ہی پیر پھسلے
اسی بلندی کے نقطہئ ارتفاع سے
آدمی گرے اور اپنے ملبے میں دب کے رہ جائے
——
یہی گھڑی ہے
کہ آدمی کے قدآور اثبات کی نفی ہو
کہ اس کا سویا ہوا تلون بھی جاگ جائے
یہی گھڑی ہے
کہ ہم زمیں کی ادھوری جنت کو
حسن تکمیل سے نوازیں
بلندیوں کا یہ نقطہئ ارتفاع خود
اس ادھوری جنت کا شجر ممنوعہ بن کے رہ جائے
(541 تا 548)
نظم کے مختلف مراحل میں ایک مرحلہ وہ بھی آتا ہے جب انسان علم و سائنس اور مدنی تمدن کے عروج کو شجر آگہی کے سرخ پھولوں کا سبب سمجھتا ہے مگر اندیشہ شجر آگہی کے ان کالے پھلوں کا ہے جسے اگر چکھ لیا تو جنت ارضی برباد ہوجائے گی۔ سرخ پھول کو ایٹمی دریافت کہا جاسکتا ہے مگر کالا پھل ایٹمی توانائی کا منفی استعمال ہے جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ انسان کی تخریب کاری ہی بہشت سے نکلنے کا سبب بنی تھی جس کے کچھ کچھ اندیشے جنت ارضی میں بھی ظاہر ہونے لگے ہیں۔ البتہ انسانی جبلت کی تلون مزاجی اسے کبھی ایک حال پر قائم نہیں رکھتی، نئے نئے تجربے اور اس سے حاصل ہونے والی مسرت رنج انسانی خمیر کا ناگزیر حصہ ہیں اسی لیے جنت ارضی کی مستقل آسائش اور دنیاوی ترقی جو کہ اس کے معمول کا حصہ بن گئی تھی وہ اس کیفیت سے نکلنے کا خواہش مند نظر آتا ہے۔ اسی لیے وہ اس عارضی ابدیت کو بدلنے کا خواہاں نظر آتا ہے اور اسے اک شکل مختلف کی تلاش ہے:
وہ اس بہشت کی تخریب کے دھماکے ہوں
کہ اُس زمین کی ناداریوں کے ویرانے
کسی بھی طور کوئی شکل مختلف تو ملے
(622 تا 624)
نظم کا اختتام مایوس کن ہے۔ آدمی کی خودکلامی کا یہ آخری حصہ اضطراب اور بے چینی کا اظہار ہے۔ اس نے جس آزادی اور جوش کے ساتھ آغاز کیا تھا اختتام ایک ایسی منزل کی نشاندہی کررہی ہے جس میں حیرانی اور تذبذب کا عنصر نمایاں ہے۔ انسان کی فعالیت اور اس کا جنون یہاں عنقا ہے۔ وہ جس تبدیلی کا خواہش مند تھا وہ پوری نہ ہوسکی اور آدمی ابھی تک ایٹمی توانائی کی تباہی کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ نظم کا آخری مصرعہ ہیں:
خیال گاہ مقدس میں
یہ ایک چھوٹا خیال
یہ ایک خدشہئ ناپاک و ناخلف
کہاں سے آیا یہ منحوس وسوسہ
کہ اس سجی ہوئی جنت کے خون سے آگے
وہاں ادھر
کسی شے کا اگر
نشان ہی نہ ملا
نئی زمین نئی دنیا اگر ملی ہی نہیں!
شجاع خاور کی اس نظم کی جہاں پذیرائی ہوئی وہیں اس پر سوال بھی قائم ہوئے۔ نظم کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس میں مکالمہ کے بجائے مقابلے کی نوعیت در آئی ہے۔ نظم میں مختلف ہیئتوں اور بحور کا استعمال ضرور کیا گیا ہے مگر مجموعی طور پر اس سے نظم کو بہت زیادہ تقویت نہیں ملتی۔ بقول انور صدیقی:
”نظم دوسرا شجر میں مختلف بندوں میں مختلف بحریں استعمال کی گئی ہیں۔ یہ تکنیک کچھ زیادہ نئی  نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی بہت سے شاعر کامیابی کے ساتھ اسے برت چکے ہیں۔ یہ تکنیک اس وقت اور بھی کارگر ہوجاتی جب بحر کی ان تبدیلیوں کا مطالبہ جذبے کی لہروں میں تبدیل کرتی۔“  (دوسرا شجر، ص 30)
دوسرا شجر پر تبصرہ کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی نے لکھا تھا کہ ”اس شاعری میں ظاہری طمطراق ہے۔“ 
(شب خون اگست 1972، ص 45)
جب کہ محمد حسن نے لکھا تھا کہ ”اس میں کسی حد تک شکوہ جواب شکوہ کا اندازہ پایا جاتا ہے۔“
شجاع خاور کی یہ پہلی تخلیق ہے۔ انھیں اس سے جذباتی لگاؤ بھی تھا مگر ان کا یہ شعری تجربہ ان کی آئندہ تخلیقی زندگی کو راس نہیں آیا بلکہ اس تجربے کی نوعیت صرف تجربے تک ہی محدود رہی۔ فن کار خود اپنے تجربے سے بہت کچھ سیکھتا اور فائدہ اٹھاتا ہے مگر شجاع خاور کی تخلیقی زندگی میں ’دوسرا شجر‘ ماضی کا حصہ بن کر رہ گیا۔ انھوں نے غزلوں میں آزادانہ روی اور بے تکلف پن کے جس سلسلے کی بنیاد ڈالی ہے۔ ’دوسرا شجر‘ کو پڑھنے والا مشکل سے ہی یقین کرے گا کہ یہ بھی شجاع خاور کی تخلیقی زندگی کا حصہ ہے۔





Dr. Omair Manzar,
Asst. Prof. 
Dept of Urdu,
 Maulana Azad National Urdu University, 
Lucknow Campus, Lucknow (UP)

ماہنامہ اردو دنیا،جنوری 2014





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں