6/5/19

اردو تحقیق میں مواد کی فراہمی: مسائل اور حل مضمون نگار: میر رحمت اللہ



اردو تحقیق میں مواد کی فراہمی: مسائل اور حل

میر رحمت اللہ
تحقیق میں سب سے پہلا اور اہم مرحلہ موضوع کاانتخاب ہوتاہے۔ موضوع کے انتخاب کے بارے میں یہ بات کافی مقبول ہے کہ آیا شریک حیات کا انتخاب مشکل ہے یا موضوع کا۔یہ بات اس لیے کہی جاتی ہے کیوں کہ موضوع کے انتخاب کے سلسلے میں کئی ایک باتوں کا دھیان رکھنااز حد ضروری ہوتا ہے۔ موضوع کے انتخاب کے وقت ایک ریسرچ اسکالر کو یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس موضوع کا انتخاب کیو ںکیا جارہا ہے؟ اس پر کام کرنے کی کتنی ضرورت ہے اور اس موضوع سے علم کے کس شعبے کو فائدہ پہنچے گا یا یہ کہ اس سے علم کا دائرہ کتنا وسیع ہوگا؟ اس کے علاوہ محقق کو یہ بھی دیکھنا ضروری ہوگا کہ کیا واقعی اس موضوع پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب اگر اس موضوع پر پہلے سے ہی کچھ کام ہوا ہے تو ایسی صورت میں اسے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سے نئے پہلو ہیں، جن پر مزید تحقیق کرنے کی گنجائش ہے۔
ایک بار موضوع کا انتخاب ہونے کے بعد محقق کو کوئی مفروضہ Hypothesis قائم کرنا پڑے گا۔ اگرچہ کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ ادبی تحقیق میں مفروضے کی ضرورت نہیں لیکن یہ بات حقیقت سے بے حد دور ہے کیونکہ تحقیق تو مفروضہ قائم کےے بغیر آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔ مفروضے کی غیر موجودگی میں محقق کا معاملہ ریگستان میں سفر کرنے والے اس مسافر کی طرح ہوگا، جس کو یہ نہیں معلوم کہ اس کی منزل کس سمت میں ہے۔
مذکورہ مراحل کے بعد مواد کی فراہمی کی منزل آتی ہے۔ تحقیق کسی بھی شعبے میں ہو مواد کے بغیر ممکن ہی نہیں بلکہ کئی ایک ماہرین کا مانناہے کہ تحقیق کی گاڑی مواد کے ایندھن کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور مواد ہی محقق کے غور و فکر کی بنیاد ہوتا ہے۔ پروفیسر عبدالستار دلوی کے مطابق:
خالص مواد کی شکل خام مال کی طرح ہوتی ہے۔ اسی خام ما ل سے تجزیہ ، درجہ بندی اور تحقیق کے ذریعہ نتائج اور عام اصول وضع کےے جاتے ہیں۔
(ادبی اور لسانی تحقیق ، ترتیب، پروفیسر عبدالستار دلوی، ص32)
مواد کی فراہمی تحقیق میں کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا سارا بار ایک ریسرچ اسکالر کو خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایک محقق کو خود سے ہی کنواں کھودنا پڑتاہے اور خود سے ہی اپنی پیاس بجھانی پڑتی ہے۔ادبی تحقیق چونکہ عملی کم او ر کتابی زیادہ ہوتی ہے، اس لیے ادبی تحقیق کا آغاز ان کتابوں کی تلاش سے ہی ہوتا ہے جو موضوع تحقیق سے متعلق ہوں۔ خلیق انجم نے اپنے ایک مضمون ’ادبی تحقیق اور حقائق‘ میں لکھا ہے کہ ایک محقق کو سب سے پہلے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ موضوع سے متعلق کیا مواد ہے؟ کہاں ہے؟ اور کیسے فراہم کیا جاسکتا ہے؟
(لسانی اور ادبی تحقیق، ترتیب پروفیسر عبدالستار دلوی، ص160)
 ایک ریسرچ اسکالرکو مواد کی فراہمی مےں احتیاط سے کام لینا ضروری ہے کیوں کہ مواد کی فراہمی میں اسے ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ محقق آنکھیں بند کر کے مواد کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ اس مرحلے پروہ یہی سوچتا ہے کہ کسی بھی طرح اسے اپنے موضوع سے متعلق ضروری و غیر ضروری مواد فراہم ہو جائے۔ آگے جاکر وہ جب مواد کو پرکھنے کے لیے بیٹھتا ہے تو غیر ضروری مواد میں اپنے آپ کو گھراپاتا ہے۔ اس لےے مواد کی فراہمی کی منزل سے بڑی ہوشیاری اور دانشمندی سے گزرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں پر رہنما کا فرض بنتا ہے کہ وہ نئے محقق کو بنیادی مواد کی فراہمی کے لیے اپنے مشوروں سے نوازے تاکہ وہ اس بحرِ بیکراں سے نبرد آزما ہو سکے۔
مواد کی فراہمی کے سلسلے میں محقق کو شہد کی مکھی سے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس طرح شہد کی مکھیاں مختلف پھولوں کارس چوس کر شہد بناتی ہیں ،اسی طرح ایک محقق کو بھی مختلف ماخذوں کو حاصل کر کے اپنی تحقیق کو بہترین بنانا پڑے گا تب جاکر وہ تحقیق کا حق ادا کر پائے گا۔
مواد کی فراہمی میں ایک محقق کو بڑے غور و فکر سے کام کرنا پڑتا ہے۔ اسے بنیادی مواد تک رسائی حاصل کرنا ضروری ہوتاہے۔ اکثر ریسرچ اسکالر ثانوی مآخذ سے مدد لے کر اپنی تحقیق کو مکمل کر لےتے ہیں، جس کی وجہ سے آگے چل کر انھیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ بنیادی ماخذوں کی غیر موجودگی میں اس کی تحقیق ناقص ہی رہتی ہے۔ ایسی صورت میں حاصل شدہ نتائج کی صحت پر شکوک و شبہات کی انگلی اٹھ سکتی ہے۔
تحقیق چونکہ کافی دشوار گزار کام ہے اس لیے اس مےںدلچسپی، دل جمعی ، لگن ومحنت کے ساتھ ساتھ خاطر خواہ وقت بھی چاہیے۔ ان تمام مراحل سے ہم تبھی نبرد آزما ہو سکتے ہےں جب ان کے لیے پہلے سے ہی ذہنی طور پر تیار ہوں۔ بعض ریسرچ اسکالر ابتدائی تین چار برس مواد اکٹھا کرنے میں ہی گز ار دےتے ہیں، اےسے مےں آخری برسوں میں انھیں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ریسرچ اسکالر کو چاہیے کہ جتنی جلد ہو سکے مواد کو اکٹھا کرکے، اس کی چھان پھٹک کا کام شروع کر دے۔جو لوگ واقعی تحقیق سے دلچسپی رکھتے ہیں، وہ کبھی کبھی اپناکھانا پینا بھی بھول جاتے ہیں۔اس ضمن میں گیان چند جین نے قاضی عبدالودود کے حوالے سے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ لکھتے ہیں:
تحقیق صرف وہی کر سکتا ہے جسے سوائے کھانے پینے او ر تحقیق کرنے کے دوسرا کام نہ ہو۔
(تحریریں،ڈاکٹرگیان چند جین، ص11)
ادبی تحقیق کے لیے مواد کی فراہمی کا سب سے بہترین ذریعہ لائبریریاں ہیں۔ لائبریریوں میں نہ صرف ادبی کتابیں موجود ہوتی ہیں بلکہ دنیا میں رائج الوقت علوم و فنون سے متعلق کتابیں بھی ہر وقت دستیاب رہتی ہیں جن سے ضرورت پڑنے پرنہ صرف محققین بلکہ عام قارئین بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔ محقق کو چونکہ اپنے موضوع سے متعلق مواد لائبریریوں سے ہی فراہم ہوتا ہے، اس لےے وہ زیادہ تر کتب خانوں سے ہی استفادہ کر تے ہیں۔
 اب اگر ہم ہندستان کے اردو کتب خانوں کاجائزہ لیں تو ہمےںمعلوم ہو گا کہ ہندوستان میں اردو کی بےشتر لائبریریاں بتدریج زوال پذیر ہیں۔ وہ چاہے ادارئہ ادبیات حیدر آباد ہو یا کشمیرکی مختلف لائبریریاں ۔ مواد کی تلاش کے دوران راقم نے اس بات کا از خود مشاہدہ کیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی لائبریریوں میںادب کی مایہ ناز کتابیں کس طرح گرد کی نذر ہو رہی ہےں؟ اس ضمن میں ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اردو داں طبقہ خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کے لیے ابھی تیار نظر نہیں آتا۔ جب تک اردو والے خود بیدار نہیں ہوں گے تب تک اردو ادب کے مایہ ناز ادبی ذخیرے کو محفوظ کرنے کی طرف کوئی پہل نہیں ہوگی اور نہ ہی نئی لائبریریوں کے قیام کی طرف پےش رفت ہو سکے گی۔ ہمارے اپنے شعبۂ اردو مےں ابھی تک کتب خانہ قائم نہیں ہو سکا ہے، جب کہ شعبے کو قائم ہوئے اےک زمانہ ہو چکا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اسی یونیورسٹی میں باقی تمام شعبوں میں ان کی اپنی ذاتی لائبریریاںموجودہےں چاہے وہ شعبۂ ہندی ہو یا شعبۂانگریزی۔ ایسی صورت میں شعبے کے ریسرچ اسکالروں سے عمدہ اور بہترین تحقیقی کام کا تقاضہ تو کیا جا سکتا ہے لےکن نتیجہ خاطر خواہ ہو ، اےسی امید نہیں کی جا سکتی۔پروفیسرعبدالستار دلوی نے اپنی کتاب ’ادبی تحقیق‘ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ تحقیقی عمل کی کامیابی اور تکمیل کا انحصار لائبریری کے مواد کی وسعت اور اس کی ہمہ گیری پر ہوتا ہے۔
ایک محقق کو مواد کے انتخاب کی مہارت بھی ضروری ہے تاکہ وہ غیر ضروری موادکو نظر انداز کرکے اپنے لےے مفید اور ضروری مواد ہی جمع کر سکے۔لائبریری میں کتابوں کو آسانی سے حاصل کرنے کے لیے کارڈپر کتابوں کی فہرست بنائی جاتی ہے۔ ہر کارڈ پر کتاب کا نام ، مصنف کا نام ، موضوع اور لائبریری کی الماری یا شلف کا مخصوص نمبر درج کیا جاتا ہے ۔ اس طرح سے محقق کارڈوں کو دیکھ کر اپنے مواد کی کتابیں آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ موجودہ زمانہ چونکہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے ۔ ایسی صورت میں اب کارڈ کی جگہ کمپیوٹر کا استعمال ہو رہا ہے۔ ایک لائبریری میں جتنی بھی کتابیں ہوتی ہیں ان کو کمپیوٹر میں ایک نظم و ضبط کے ساتھ درج کیا جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اپنی پسند کی کتاب کا نام ٹائپ کر آسانی سے تلاش کیاجا سکتاہے۔ اس طرح بھی ایک محقق آسانی سے کسی بھی لائبریری سے مواد کی تلاش اور فراہمی کو یقینی بنا سکتاہے۔ اس لیے اےسی صورت مےں اگر آج کا محقق کمپیوٹر سے نابلد ہے تو بھی مواد کی فراہمی میں اسے دشواری پےش آئے گی۔ عبدالستار دلوی نے اس ضمن میں لکھا ہے:
ایک محقق کو کتابوں کی فہرست اور ان کو رکھے جانے کے طریقۂ  کار سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے تاکہ مواد کی تلاش جلد اور مکمل انداز میں ہو سکے۔ اس کے علاوہ مواد کے انتخاب کی مہارت بھی ضروری ہے تاکہ وہ غیر ضروری مواد کو نظرانداز کر کے اپنے لیے مفید اور ضروری مواد ہی جمع کر سکے۔
(ادبی اور لسانی تحقیق، پروفیسر عبدالستار دلوی، ص 37)
ملک کی مختلف لائبریریوں میں اردو زبان و ادب کی کتابیںبکثرت ملتی ہیں۔ لیکن اردو کی کچھ بہترین لائبریریوں کو چھوڑ کر کسی بھی اہم لائبریری کواب تک کمپیوٹرایزڈ نہیں کیا گیا ہے ۔ اس لےے نئے ریسرچ اسکالروں کو مواد کی کتابیں ڈھونڈنے کے لیے وہ طریقے استعمال کرنا پڑتے ہیں جو ترقی یافتہ زبانوں میںتحقیق کرنے کے لیے آج سے بیس سال پہلے رائج تھے۔مواد کی فراہمی کی منزل کے دوران راقم نے اس حقیقت کا مشاہدہ کیا کہ حکومت نے آج تک کئی لائبریریوں کو کمپیوٹرازڈ کرنے کے لیے کمپیوٹروں کی فراہمی یقینی بنائی لیکن آج تک یہ کام اس لےے تکمیل کو نہیں پہنچ پایا کہ ان لائبریریوں کے منتظمین ان مشینوں کو استعمال کرنا نہیں جانتے ہیں۔
ادبی تحقیق کے لیے کتابوں کے علاوہ رسائل و جرائد بھی کافی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ کئی حضرات کا یہاںتک ماننا ہے کہ رسائل کی اہمیت کتابوں کے مقابلے میں زیادہ ہے کہ ان میں جدید معلومات ہوتی ہیں ۔ ڈاکٹر گیان چند جین رسائل کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تحقیق میں لکھنے سے کہیں زیادہ وقت مواد کی فراہمی میں صرف ہوتا ہے۔ اپنے موضوع سے متعلق نہ صرف تمام اردو کتابوں کو چھان مارنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ رسالوںمیں بھی اپنے کام کے مقالے کھوجنے چاہئیں۔ کیوں کہ ان میں بسا اوقات وہ بیش بہا نکتے مل جاتے ہیں جو ہنوز کتابی صورت میں نہیں آئے۔
تحریریں، ڈاکٹر گیان چند جین، ص 13)
 لائبریری میں عموماً کتابوں کے علاوہ رسائل کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے اور ان کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک الگ کمرہ بھی فراہم کیا جاتا ہے ۔ ملک کی تقریباً تمام لائبریریوں میں رسائل و جرائد کے لیے باضابطہ رجسٹریشن ہوتے ہیں۔ ایک نئے ریسرچ اسکالر کو اپنے موضوع کی بہت ساری تفصیلات رسائل میں بھی مل جاتی ہیں۔ رسائل کا استعمال کتابوں کے مقابلے میں قدرے مشکل ہوتا ہے کہ ان کے کارڈ نہیں بنائے جاتے۔ ایسے میں محقق کو خود ہی رسائل کی فہرست اور مضامین کی تلاش کرنی پڑتی ہیں۔ زبان و ادب کے کسی بھی شعبے میں کی جانے والی تحقیق کا زیادہ تر مواد کتابوں اور رسائل پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس لیے ایک ریسرچ اسکالر کو خود بھی ادبی رسائل و جرائد کی رجسٹریشن ہونی چاہیے تاکہ وہ ان میں آسانی سے اپنے کام کی چیزیں حاصل کر سکیں۔
مواد کی فراہمی میں انٹرویوز کی بھی خاصی اہمیت ہے۔ ایک نئے ریسر چ اسکالر کے لیے جب وہ کسی دور پر کام کر رہا ہو تو اسے متعلق مواد حاصل کرنے کے لیے ادیبوں، ناقدوں اور دانشوروں سے انٹرویوز کے ذریعے متعلقہ مواد سے متعلق اہم معلومات اکھٹا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن اکثراوقات ایسا ہوتا ہے کہ یو نیورسٹیوں کے اساتذہ بھی جو اس میدان میں ماہر ہوتے ہیں ، جس پر کام ہو رہا ہوتا ہے ،جب طلبہ ان سے انٹرویو کا وقت چاہتے ہیں تو وہ مصروفیات کا بہانہ بنا کر ٹال دیتے ہیںیا پھر وقت دیتے بھی ہیں تو خوش دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ حد تو یہ ہے کہ جتنی معلومات ان کے پاس ہوتی ہیں، انھیں بھی وہ بڑی کنجوسی سے پےش کرتے ہےں۔ اس طرح بھی بعض اوقات محققین کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سلسلے میں ، میری رائے ہے کہ ماہرین ادب کو بھی ریسرچ اسکالروں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ اردو ادب مےں بہترین تحقیقی کام ہو سکے اور نئے ریسرچ اسکالروں کو آپ کی مدد سے حوصلہ مل سکے جس سے نہ صرف مواد کی فراہمی میں آسانی ہو گی بلکہ ریسرچ اسکالر کا بہت سا وقت بھی بچے گا اور تحقیق کی دشوار گزار راہیں بھی آسان ہوں  گی۔

Meer Rehmatullah, 
PhD Scholar, Room No-205,
 Mens Hostel-E Annex. 
University of Hyderabad.
 Hyderabad-500046




ماہنامہ اردو دنیا،جنوری 2014






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں