8/5/19

اردو کے پہلے صاحب دیوان کی محبوبہ(تاریخ کی روشنی میں) مضمون نگار: سیدہ جعفر





اردو کے پہلے صاحب دیوان کی محبوبہ

(تاریخ کی روشنی میں)


سیدہ جعفر


اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ شرنگار رس اور جمالیاتی شعور کا فنکار تھا۔ محمد قلی کا کلام اس کے جمالیاتی ادراک کا مظہر ہے اس نے اپنے کلیات میں بارہ پیاریوں کا ذکر کیا ہے جو حسن و جمال کا پیکر تھیں۔ بعض مورخین اور مصنّفین نے بھاگ متی کو محمد قلی قطب شاہ کی عزیز ترین محبوبہ بتایا ہے۔ تاریخ کی روشنی میں اس حقیقت کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ بھاگ متی کا وجود تاریخ دکن میں ہمیشہ سے سوالیہ نشان بنا رہا ہے۔ مغل مورخین میں سب سے پہلے فیضی نے محمد قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کے افسانے کا ذکر کیا ہے۔ اور ’زیب داستاں‘ کے لےے اس میں بہت سے واقعات کا اضافہ کردیا ہے۔ فیضی شہنشاہ اکبر کے ریذیڈنٹ کی حیثیت سے احمد نگر اور برہان پور میں 1591 سے 1594 تک قیام پذیر رہا تھا۔ وہ اپنی تصنیف ’تباشیر الصبح‘1 کی ایک عرض داشت میں محمد قلی کے بارے میں رقمطراز ہے کہ اس نے اپنی محبوبہ بھاگ متی کے نام پر ایک شہر آباد کیا ہے۔ بھاگ متی احمد قلی (محمد قلی) کی ’معشوقہ قدیم’ ہے۔ 2
فیضی نے تلنگانہ کی سرزمین پر کبھی قدم نہیں رکھا تھا اس کا مندرجہ بالا بیان سلطنت قطب شاہی سے اس کی عدم واقفیت کا ترجمان ہے جس کی انتہا یہ ہے کہ اس نے قطب شاہی سلطنت کے سلطان وقت کا نام تک صحیح نہیں لکھا ہے۔ پروفیسر ہارون خاں شیروانی لکھتے ہیں کہ ”فیضی دکن کی سلطنتوں کو ذاتی طور پر ناپسند کرتا تھا۔“ 3
اور برہان پور میں وہ اس لےے شہنشاہ اکبر کا ریذیڈنٹ مقرر کیا گیا تھا کہ جنوبی ہند میں مغل سلطنت کی توسیع کے امکانات کا جائزہ لیتا رہے۔ فیضی بیجاپور، احمد نگر اور گولکنڈے کی حکومتوں کو آزاد اور خودمختار سیاسی اکائیاں تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا اس لےے وہ ان سلطنتو ںکو ’جاگیروں‘ کے نام سے موسوم کرتا اور ان کے حکمرانوں کو امیروں اور رئیسوں سے زیادہ وقعت کا حامل نہیں سمجھتا جس سے اس کے تحقیر آمیز روےے کا اظہار ہوتا ہے۔ بیرون سلطنت کے ایک اور مورخ نظام الدین احمد نے ’طبقات اکبر شاہی‘ (1594 مطابق 1002ھ) میں محمد قلی کے معاشقے کا ذکر کیا ہے۔ 4 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قطب شاہی سلطنت اور محمد قلی کے بارے میں اس کی معلومات ناکافی اور محدود تھیں۔ نظام الدین احمد نے محمد قلی کے عہد حکومت کے آغاز کا سنہ غلط تحریر کیا ہے اس نے محمد قلی کے افسانہ محبت میں خاصی رنگ آمیزی کی ہے اور بھاگ متی کے جلوس میں ’ہزار سواروں‘ کا اضافہ بھی اس کی ذہنی اختراع ہے۔ پروفیسر ڈاوسن فیضی کے تسامحات کی وجہ سے اس کو مورخ نہیں سمجھتا۔ ایک اور مغل مورخ خافی خان نے بھی بھاگ متی کی داستان عشق کی طرف اشارے کےے ہیں۔ خافی خاں ’منتخب اللباب‘ میں اعتراف کرتا ہے کہ اس نے ابوالقاسم فرشتہ کی ’تاریخ گلشن ابراہیمی‘ پر تکیہ کیا ہے۔ عبدالباقی نے ’ماثر رحیمی‘ (1025ھ) میں فرشتہ کی تاریخ سے معلومات اخذ کی ہیں۔ محمد قلی کے بارے میں اس کا بیان ہے کہ اس نے اپنی محبوبہ بھاگ متی کے نام پر ایک شہر آباد کیا ہے جس کا نام بھاگ نگر ہے۔ عبدالباقی لکھتا ہے کہ محمد قلی کی وفات کے بعد اس کا بھائی محمد امین تخت نشین ہوا حالانکہ محمد قلی کی وفات کے بعد اس کا بھتیجا اور داماد سلطان محمد قطب شاہ تخت نشین ہوا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہر حیدرآباد اور فرماں روائے شہر کے بارے میں عبدالباقی کی معلومات کتنی غلط اور گمراہ کن تھیں۔ عبدالباقی نے بھاگ متی کے لےے ’رقاصہ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ اس نے فرشتہ کی تاریخ پر اپنے بیانات کی بنیاد رکھی تھی۔ قطب شاہی دور سے متعلق خود فرشتہ کے بیانات قابل تصحیح ہیں وہ بھاگ متی کو ’فاحشہ کہنہ‘ بتاتے ہوئے لکھتا ہے کہ محمد قلی اس کی محبت میں گرفتار ہوگیا ہے 5۔
فرشتہ ایک ایسا مورخ ہے جس نے اکثر جگہ صحیح معلومات پر تخیل کی اونچی اڑانوں اور انشاپردازی کو ترجیح دی ہے اور تاریخ نویسی میں زبانی روایات (Oral Traditions) اور افواہوں کو بھی جگہ دی ہے۔ اپنے دیباچے میں مورخ نے افسوس ظاہر کیا ہے کہ قطب شاہی خاندان کے سلسلے میں اس کی معلومات تشنہ اور ناکافی ہیں۔ فرشتہ دراصل مورخِ بیجاپور ہے اس نے قطب شاہی عہد کے جو حالات قلمبند کےے ہیں وہ زیادہ تر سماعی ہیں۔
جب ہم فرشتہ کی ہم عصر تاریخوں پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس دور کی تاریخوں میں خواہ وہ احمد نگر میں لکھی گئی ہوں یا بیجاپور اور گولکنڈہ میں ہمیں کہیں بھاگ متی اور بھاگ نگر کا تذکرہ نظر نہیں آتا۔ ’برہان ماثر‘ 1038ھ مطابق 1620 میں لکھی گئی تھی جس میں گولکنڈہ کے حالات شرح و بسط کے ساتھ لکھے گئے ہیں لیکن کہیں بھاگ متی کا ذکر ہے نہ اس کے نام پر بسائے ہوئے شہر کا نام و نشان موجود ہے۔ ’تاریخ قطب شاہ‘ میں بانی سلطنت قطب شاہیہ سلطان محمد قلی قطب الملک سے لے کر 1025 ھ مطابق 1616 تک کے حالات درج ہیں اور حیدرآباد کی عمارتو ںاور آثار کا مفصل بیان موجود ہے لیکن یہ تاریخ بھی بھاگ متی اور بھاگ نگر کے ذکر سے خالی ہے اس کے برخلاف یہ ہمعصر مورخ محمد قلی کے آباد کےے ہوئے شہر کا نام حیدرآباد بتاتا ہے اور رقم طراز ہے:
بازار ہائے وسیع و چہار دہ ہزار دوکان در پیش ہر دوکان ایوان و حمامات، خانقاہ و مدرسہ، لنگر و مہمان خانہ... وہ جانب شمال مرکز دولت و مستقر سلطان قرار داد... و این شہر خجستہ راموسوم بہ حیدرآباد کردند۔“ 6
نظام شیرازی نے ’حدیقة السلاطین‘ 1054ھ مطابق 1644 میں مرتب کی تھی۔ نظام الدین نے ’حدیقة السلاطین‘ میں اور علی ابن طیقور بسطامی نے ’حدائق السلاطین فی کلام الخواقین‘ (1092ھ مطابق 1681) میں محمد قلی کے حالات بیان کےے ہیں لیکن ان تاریخوں میں بھاگ متی کا ذکر موجود نہیں اور ان میں بھاگ نگر کا نہیں شہر حیدرآباد کا حال درج کیا گیا ہے۔ علی ابن طیقور لکھتے ہیں:
شہرحیدرآباد مسکن ارباب علم و سواد و مامن اصحاب رشید و ارشاد است۔“ 7
رفیع الدین شیرازی نے اپنی مشہور تاریخ ’تذکرة الملوک‘ اسی سال مکمل کی تھی جس سال فرشتہ کی تاریخ پایہ تکمیل کو پہنچی تھی لیکن رفیع الدین شیرازی نے کہیں اس معاشقے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔8
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ہمعصر تاریخیں بعد کی لکھی ہوئی تاریخوں سے زیادہ مستند تصور کی جاتی ہیں اور مستند ہمعصر تاریخوں میں بھاگ متی کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اس افسانے کی ان مورخین نے نشان دہی کی جنھوں نے فرشتہ کی تاریخ کو اپنا ماخذ بنایا تھا اور بقول پروفیسر عبدالمجید صدیقی ’مقامی تاریخوں کی خاموشی اس روایت کی صداقت میں بہتیرے شبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔“ 9 مغل مورخین نے عمداً اسی رقعہ رنگین میں اضافے کےے، پھر آصفیہ مورخین میں سب سے پہلے ’حدیقة العالم‘ (1214 ھ مطابق 1799) کے مصنف نے دونوں نظریوں کو پیش کرتے ہوئے فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔ ماہ لقابائی چندا کی فرمائش پر جب حاجی غلام حسین نے تاریخ ’ماہ نامہ‘ مرتب کی تو اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی اور وہ منعم خان ہمدانی کے محاکموں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
خواجہ منعم خان ہمدانی در سوانح رکن مرقوم فرمودہ کہ بھاگ متی نام یاتری بود و سلطان محمد قلی قطب شاہ بروتعشق دارد این اصلح نیست۔“ 10
گلزار آصفیہ‘ میں غلام حسین جوہر لکھتے ہیں کہ جب ابراہیم قطب شاہ کو شہزادے محمد قلی کے بارے میں معلوم ہوا کہ بھاگ متی سے ملنے کے لےے اس نے متلاطم دریا میں گھوڑا ڈال دیا تھا تو بادشاہ نے موسیٰ ندی پر ایک پل بنوا دیا۔
پروفیسر عبدالمجید صدیقی اور دوسرے مورخین رکن اس بات پر متفق ہیں کہ محمد قلی کا سنہ ولادت 972ھ مطابق 1565 تھا اس پل کی تعمیر کے وقت شہزادے کی عمر بمشکل آٹھ سال قرار پاتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ محمد قلی ایک منچلا اور عاشق مزاج شہزادہ تھا لیکن ایک آٹھ سالہ لڑکے کا جذبہ عشق کے ہاتھو ںمجبور ہوکر دریا کی طوفان خیز موجوں سے گرم ستیز ہونا قرین قیاس نہیں معلوم ہوتا۔ ڈاکٹر زور ’کلیات محمد قلی قطب شاہ‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
محمد قلی عنفوان شباب ہی (یعنی چودہ سال کی عمر میں) بھاگ متی پر عاشق ہوا اور اس کی خاطر طغیانی رودِ موسیٰ میں اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ جب اس خطرناک جرأت کی خبر اس کے باپ ابراہیم کو ہوئی تو اس نے ندی پر پل بنوایا۔“ 11

پل کے اختتام تعمیر کے وقت شہزادے کی عمر چودہ سال تھی لیکن آغاز تعمیر کے وقت اس نے اپنی زندگی کے صرف آٹھ سال مکمل کےے تھے۔ پل کی تعمیر کی ابتدا اور اس کے پایہ تکمیل کو پہنچنے کے سنین سے متعلق ڈاکٹر زور کو اشتباہ ہوا ہے اور انھوں نے اس نکتے کی طرف توجہ نہیں کی۔ پل کی تعمیر کا آغاز سنہ 1573 میں ہوا تھا اور اس وقت شہزادہ محمد قلی کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ پل کی تکمیل 1578 میں ہوئی۔
ڈاکٹر زور نے یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ بھاگ متی چچلم کی رقاصہ تھی اس لےے شاعر نے دانستہ طور پر کلیات میں اس کے ذکر سے گریز کیا ہے۔ ڈاکٹر زور کا یہ بیان اس لےے قابل قبول نہیں معلوم ہوتا کہ محمد قلی نے اپنے کلیات میں جن محبوباو

¿ں کے حسن دل آرا کی تعریف کی ہے ان میں کوئی ’پاتر‘ ہے تو کوئی ’کسبن‘ اور وہ ان ہی الفاظ سے انھیں یاد کرتا ہے۔ بعض مورخین کا بیان ہے کہ بھاگ متی کو اپنے حرم میں داخل کرنے کے بعد محمد قلی نے اس کو ’حیدر محل‘ کا خطاب عطا کیا تھا اور اسی مناسبت سے شہر کا نام بھاگ نگر کے بجائے حیدر آباد رکھا تھا۔ اگر حیدرمحل اور بھاگ متی جسے وجہی کی مشتری سمجھ لیا گیا ہے ایک ہی محبوبہ کے دو نام ہیں تو اپنے کلیات میں محمد قلی ان کا علیحدہ علیحدہ ذکر نہیں کرتا اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ بھاگ متی ہی حیدر محل تھی تو پھر کلیات کی داخلی شہادتیں اس کی تردید کرتی ہیں اس لےے کہ محمد قلی نے اپنی بارہ مخصوص محبوباو

¿ں کو ’بارہ پیاریوں’ سے موسوم کیا ہے اور کہتا ہے:

نبی صدقے بارہ اماماں کرم سوں
کرو عیش جم بارہ پیاریاں سوں پیارے
مختصریہ کہ محمد قلی قطب شاہ کے کلیات میں ایک مصرعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ محمد قلی قطب شاہ کی محبوبہ بھاگ متی کو قطب مشتری بھی کہتے تھے۔ اور بھاگ متی کے نام پر بھاگ نگر آباد ہوا تھا اور بعد میں جب وہ حیدرمحل بنی تو اس شہر کا نام بدل کر حیدرآباد رکھا گیا۔ محمد قلی قطب اپنے شہر کو بھاگ نگر نہیں کہتا اس کے برخلاف جہاں کہیں بھی شہر کا ذکر آیا ہے شاعر نے شہر حیدر کے نام سے اس کی نشان دہی کی ہے:
رتن قطباکے ہیں نرمول نئیں کئیں شہر میں مول اس
لے کر آوں جو بکھرا ہوئے اس سا شہر حیدر میں
بریاں نظراں تھے اس کو اپسند اتارو
کہ حیدر نگر ان آننداں بھرا
غواصی نے بھی ’حیدرآباد‘ کی نشان دہی کی ہے اور شہر کا نام ’حیدرآباد ‘ بتایا ہے۔
بہرحال بھاگ متی کا وجود تاریخ میں ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ‘ ڈاکٹر زور کی گرانقدر تحقیقی کاوش ہے۔ انھوں نے پہلی بار ’سلسلہ یوسفیہ‘ کی جانب سے یہ کلیات شائع کیا تھا اس کے بعد راقمة الحروف کی کلیات محمدقلی قطب شاہ کے NCPUL سے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ میں نے یہ سوچا کہ محمد قلی قطب کے کلام کا مطالعہ ایک بدلے ہوئے زاوےے سے کرنا چاہےے۔ پہلے تو میں نے کلیات میں جو غزلیں سالار جنگ کے مخطوطے میں موجود ہیں لیکن ڈاکٹر زور کی نظر جن پر نہیں پڑی اپنے کلیات میں شامل کردےے ہیں۔ مجھے لندن کے برٹش میوزیم اور انڈیا آفس لائبریری میں محمد قلی قطب کے کلام کا کوئی نمونہ نہیں ملا۔ لندن کے ایک تاجر نوادرات کے ذخیرے سے محمد قلی قطب کی بارہ غزلیں دستیاب ہوئیں اس طرح کل چودہ تخلیقات کا میں نے اضافہ کیا ہے۔ محمد قلی کے جمالیاتی شعور کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ شرنگار رس اس کے کلام میں رواں دواں ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں ہندوی شعریات کا اثر نمایاں ہے۔ شاعر کے جمالیاتی وژن اور شعری حسیت میں ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب نفوذ کرگئی ہے۔ محمد قلی نے کام شاستر کی اصطلاحوں کی بڑی آزاد خیالی اور بیباکی کے ساتھ اپنے مطالب کی تشریح کے لےے استعمال کیا ہے۔ مثلاً عورتوں کی چار قسموں کا ذکر کام شاستر سے ماخوذ ہے۔ وہ ’پدمنی‘ اور چیتنی‘ کے حسن کو سراہتا ہے۔ محمد قلی نے ہندوستانی معاشرت، لباس، زیورات طرز فکر اور رسومات وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کی نشان دہی ضروری تھی۔ میں نے اس کی تحقیق پہلی بار کی ہے۔

حواشی
.1            تباشیر الصبح فیضی کے خطوط کا مجموعہ ہے جس کا دوسرا نام ’انشائےے فیضی‘ ہے۔
.2            فیضی: بتاشیر الصبح۔ مخطوطہ، کتب خانہ سالار جنگ، ص 31
.3            پروفیسر ہارون خان شروانی، ہسٹری آف دی قطب شاہی....
.4            نظام الدین احمد، طبقات اکبر شاہی، صفحہ 444
.5            ابوالقاسم فرشتہ: گلشن ابراہیمی، جلد دوم، ص 173
.6            مخطوطہ اسٹیٹ سنٹرل لائبریری حیدرآباد، ص 248
.7            مخطوطہ کتب خانہ سالار جنگ حیدرآباد ورق 114 الف
.8            مخطوطہ اسٹیٹ سنٹرل لائبریری، حیدر آباد........
.9            تاریخ گولکنڈہ، ص 217
.10          ماہ نامہ مخطوطہ کتب خانہ سالار جنگ، حیدر آباد ورق 35 ال
.11         ڈاکٹر زور: کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ، ص 83




Ms. Sayyada Jafar, 
9-1-24/1, Langer Nagar,
 Hyedrabad-500008 (AP)

ماہنامہ اردو دنیا،جنوری 2014





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں