8/5/19

اردو نعت گوئی اور غیرمسلم شعرا مضمون نگار: منیر حسین حرہ


 اردو نعت گوئی اور غیرمسلم شعرا
 منیر حسین حرہ 

مضمون کا آغا ز اس شعر سے کرتا ہوں:
کچھ عشق پےغمبر میں نہیں شرط مسلماں
ہیں کوثری ہندو بھی طلبگار محمدؒ
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں حضرت رسول اکرم کی سیرت و کردار کی ضیاپاشیا ں ہوئیں وہا ں وہا ں ہر مذہب اور ہر زبان سے تعلق رکھنے وا لے لوگوں کے دل منور ہوئے۔ اور ہر ایک نے رسول اکر م کی تعریف و توصیف کی اور تما م تہذیبوں اور زبان وادب میں صنف نعت کے فصیح وبلیغ نمونے تاریخ کے سامنے پیش کیے بلکہ انقلابات کائنات کے لیے نعت و منقبت کامیابی کا ایک ذریعہ رہے ہیں۔
ہندوستان میں جب اسلام کا ظہور ہوا تو عرب و عجم اور دیگر ممالک سے آئے بزرگان دین نے توحید اور رسالت کی جو تبلیغ کی اور حضرت رسول اکرم کی تعلیمات کا جو درس دیا وہ انھو ں نے شعر و سخن کی صورت میں بھی دیا ہے۔ اس طرح جب ہم ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں کی تمام زبانوں اور بولیوں میں بزرگان دین کی اخلاقی اور روحانی شاعری کا بیش قیمت ذخیرہ موجود ہے۔
جہاں مسلمانوں نے رسول اکرم کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت نچھاور کےے وہیں غیرمسلم شعرا نے بھی بغیر تفریق شان رسول بیان کی۔ فارسی ادب سے اردو میں جتنی بھی اصناف شامل ہوئی ہیں۔ ان تمام اصناف میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم شعرا نے بھی داد سخن وری دے کر اردو شاعری کو مالامال کردیا۔ ان اصناف میں غیرمسلم شعرا نے زیادہ تر حمد، نعت، منقبت، کربلائی مرثیہ میں اپنی عقیدت کا ثبوت پیش کیا۔ نعت ایک مخصوص صنف سخن ہے۔ اس کی کوئی شعری ہیئت مقرر نہیں ہے بلکہ کسی بھی ہیئت میں لکھی جاسکتی ہے۔ یعنی جب ہم نعت کی تعریف کرتے ہیں تو یوں کہتے ہیں کہ وہ نظم جو رسول اکرم کی تعریف میں کہی جائے نعت کہلاتی ہے۔
اردو شاعری میں نعت رسول بیان کرنا ایک محبوب اور روحانی مسرت حاصل کرنے کا موضوع رہا ہے۔ کسی ایک مذہب میں نہیں بلکہ جب ہم اردو شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو اس صنف میں غیرمسلم شعرا کی تعداد کہیں زیادہ ہی نظر آتی ہے جو رسول کو اپنا مانتے ہیں اور بارگاہ رسول میں سرخم کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اردو میں غیرمسلم شعرا کی نعت گوئی کا آغاز بدھ سنگھ قلندر سے ہوتا ہے۔ جو شمالی ہند میں ولی اورنگ آبادی سے پہلے تھا۔ مختلف تذکرہ نگاروں نے اپنے تذکروں میں ایسے غیرمسلم شعرا کا ذکر کیا جنھوں نے نعت کہی ہے۔ آج جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہندوستان کے نسبت پاکستان میں نعت گوئی پر زیادہ کام ہوا ہے۔ غیرمسلم شعرا جو نعت گوئی میں اہم ہیں ان میں کشن پرشاد مجروح، گردھاری لال طرز، شہو سنگھ ظہور، کبیر، تلسی داس، رحیم، لچھمی، نرائن شفیق، مہاراجہ کشن پرشاد شاد، دلورام کوثری، بالمکند عرش ملسیانی، ہری چند اختر، ہرگوپال تفتہ، منشی شنکر لال ساقی، قیس جالندھری، پنڈت رام پرتاب، رشی پٹیالوی، درگاسہائے سرور جہان آبادی، تلوک چند محروم، برج نرائن چکبست، دیاشنکر نسیم، ہری کشن کشور شرما، فراق گورکھپوری، جگن ناتھ آزاد، کالی داس گپتا رضا، رویندر جین، رگھوہند و راؤ جذب، راجیشور رؤ  اصغر، منوہر لال بہار، بہاری لال رمز، جگدیش، مہتہ درد، رتن ناتھ سرشار، نند کشور یکتا، بہاری لال صبا، چندن ٹونکی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
آج کی اگر بات کریں تو دور حاضر میں بھی اردو کے غیرمسلم شعرا نعت و منقبت کہے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔ یہی ایک ایسی صنف ہے جہاں غیرمسلم شاعر اپنی عقیدت سے مسلمان نظر آتا ہے اور انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ مسلمان کا حق کیا ہے اور غیرمسلم کا کیا۔
برجموہن دتاتریہ کیفی دہلوی ایک باکمال شاعر گزرے ہیں۔ جو نعت رسول کے بغیر اپنے تمام کلام کو ادھورا تصور کرتے ہیں۔ ایک نعت بطور نمونہ ملاحظہ ہو:
ہو شوق کیوں نہ نعت رسول دوسرا کا
مضموں ہو عیاں دل میں جو لولاک لما کا
تھی بعثت رسول خداوند کو منظور
تھا پھل وہ بشارت کا نتیجہ تھا دیں کا

پہنچا ہے کسی اوج سعادت پہ جہاں کو
پھر رتبہ ہو کم عرش سے کیوں غارِ حرا کا
معراج ہو مومن کی نہ کیوں اس کی زیارت
ہے خلد بریں روضہ پرنور کا خاکا
دے علم و یقیں کو مرے رفعت شہ عالم
نام اونچا ہے جس طرح صفا اور حرا کا
یوں روشنی ایمان کی دے دل میں کہ جیسے
بطحا سے ہوا جلوہ فگن نور خدا کا
ہے حامی و ناصر جو مرا شافع عالم
کیفی مجھے اب خوف ہے کیا روز جزا کا
کبیر نے رسول اکرم کی خدمت میں بیش بہا پھول برسائے ایک قطعہ ان کا مشہو رہے جس میں یہ کہا گیا کہ دنیا کے تمام الفاظ سے محمد کا عدد 92 حاصل ہوتا ہے:
عدد نکا لو ہر چیز سے چو گن کر لو دا ئے
دو ملا کر پنچ گن کر لو بیس کا بھاگ لگائے
باقی بچے کو نو گن کر لو دو ا س میں او د و ملا ئے
کہت کبیر سنو بھئی سا دھو نا م محمد آ ئے
چودھری دلورام کوثری نعت گوئی میں ایک بہترین شاعر مانے جاتے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے انھیں بہترین نعت گو شاعر تسلیم کیا ہے۔ نمونے کے بطور ایک نعت ملاحظہ ہو:
عظیم الشان ہے شان محمد
خدا ہے مرتبہ دان محمد
کتب خانے کیے منسوخ سارے
کتاب حق ہے قرآن محمد
شریعت اور طریقت اور حقیقت
یہ تینوں ہیں کنیزان محمد
فرشتے بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم ہیں
غلامان غلامان محمد
نبی کا نطق ہے نطق الٰہی
کلام حق ہے فرمان محمد
ابوبکرؓ و عمرؓ، عثمانؓ و حیدرؓ
یہی ہیں چار یاران محمد
علیؑ ان میں وصی مصطفی ہے
علیؑ ہے رنگ بستان محمد
علیؑ و فاطمہؑ شبیرؑ و شبیر
بسا ان سے گلستان محمد
خدا کا نور ہے نور پیمبر
خدا کی شان ہے نور محمد
بتاؤ  کوثری کیا شغل اپنا
میں ہوں ہر دم ثنا خواں محمد
تلوک چند محروم بھی ایک قابل قدر شاعر تھے۔ انھوں نے بھی صنف نعت کے بغیر اپنے کو مکمل نہیں پایا۔ کئی نعتیں کہی ہیں۔ بطور نمونہ ایک شعر ملاحظہ ہو:
مبارک پیشوا جس کی شفقت دوست دشمن پر
مبارک پیش رو جس کا سینہ صاف کینے سے
قیس جالندھری نے حضور پاک کی خدمت میں عقیدت کے گل برسائے ہیں ایک شعر ملاحظہ ہو:
حیات سادہ کے اسباق دے کے عالم کو
تکلفات کے پردے اٹھا دیے تونے
پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے بھی بہت سی نعتیں کہی ہیں:
سلام اس ذات اقدس پر سلام اس فخر دوراں پر
ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر
سلام اس پر جو آیا رحمة للعالمیں بن کر
پیام دوست بن کر صادق الوعد و امیں بن کر
سلام اس پر جلائی شمع عرفان جس نے سینوں میں
کیا حق کے لیے بے تاب سجدوں کو جبینوں میں
سلام اس پر بنایا جس نے دیوانوں کو فرزانہ
مئے حکمت کا چھلکا یاجہاں میں جس نے پیمانہ
بڑے چھوٹے میں جس نے اک اخوت کی بنا ڈالی
زمانے سے تمیز بندہ و آقا مٹا ڈالی
سلام اس پر فقیری میں نہاں تھی جس کی سلطانی
رہا زیر قدم جس کے شکوہ و فر خاقانی
سلام اس پر جو ہے آسودہ زیر گنبد خضرا
زمانہ آج بھی ہے جس کے در پر ناصیہ فرسا
سلام اس ذات اقدس پر حیات جاودانی کا
سلام آزاد کا آزاد کی رنگیں بیانی کا
مہاراجہ کشن پرشاد شاد راجہ ہری کرن کے فرزند اور راجا نریندر پرشاد، پیش کار کے نواسے تھے۔ راجانریندر پرشاد کی کوئی اولاد نہ تھی۔ ان کے انتقال پر کشن پرشاد ہی ان کے جانشین اور وارث ہوئے۔ میر محبوب علی خان آصف سا دس نے انھیں پیش کاری کی موروثی خدمت عطا کی۔ 1901 میں مدارالمہامی کے عہدے پر فائز کیے گئے۔ مہاراجہ اگرچہ ہندو تھے لیکن وہ تمام مذاہب کے بنیادی عقائد کو مانتے تھے۔ ان کی زندگی پر کسی خاص مذہب و مسلک کی چھاپ نہیں دکھائی دیتی تھی۔ وہ تمام مذاہب کو مقبول و محترم مانتے تھے۔ سر نظامت جنگ ریاست حیدرآباد کی یہ ایک ممتاز اور محترم شخصیت تھی۔ وہ ایک قابل قدر اڈمنسٹریٹر، ایک ممتاز دانشور، فلسفی، انگریزی اور اردو کے شاعر اور ادیب کی حیثیت سے بھی بڑی شہرت رکھتے تھے۔ انھوں نے نظم و نثر کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ صنف نعت میں بھی حضور اکرم کی شان میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا:
کان عرب سے نعل نکل کر تاج بنا سرداروں کا
نام محمد اپنا رکھ سلطان بنا سرداروں کا
باندھ کے سر پر سبز عمامہ کاندھے پہ رکھ کر کالی کملی
ساری خدائی اپنی کرلی، مختار بنا دلداروں کا
تیرا چرچا گھر گھر ہے، وہ جلوہ دل کے اندر ہے
ذکر ترا ہے لب پر جاری، دلدار بنا دلداروں کا
روپ ہے میرا رتی رتی، نور ہے تیرا پتی پتی
مہر و مہ کو تجھ سے رونق، نور بنا سیاروں کا
بوبکرؓ و عمرؓ عثمانؓ و علیؓ، چاروں تھے عناصر ملت کے
کثرت وحدت میں جیسے حال وہ تھا ان چاروں کا
کسب تجلی کرتے ہیں چاروں مہر نبوت سے
بخت رسا تھا برج شرف میں تیرے چاروں یاروں کا
بادہ ٔ عرفاں ملتی ہے ساقی کے میخانے سے
شاد مقدر فضل خدا سے جاگا اب میخواروں کا
ایک دوسری نعت میں اس طرح کہا ہے:
لازم ہے مجھ کو نغمہ سنجی رکھتا ہے یہ آرزو بھی
ممدوح کی مدح لکھ رہا ہوں مداح حبیب مصطفی ہوں
معراج میں حضور جو مدعوئے خدا تھے
خلوت تھی کوئی اور واں مہمان نہیں تھا
کافر نہ کہوں شاد کو ہے عارف و صوفی
شیدائے محمد ہے وہ شیدائے مدینہ
جگدیش مہتہ درد کو بھی حضور اکرم کے ساتھ بڑی عقیدت تھی۔ انھوں نے شان رسول اس طرح بیان کی ہے:
یا شاہ عرب غم سے عجب حال ہوا ہے
مرنے میں ہے کچھ لطف نہ جینے میں مزا ہے
بے کل ہوں جدائی سے ہے بے تاب مری جاں
بے علم ہوں کیوں حال سے یہ رنج سوا ہے
پیدل ہی میں گھبرا کے چلا آو ں مدینہ
پر تاب و تواں مجھ میں کہاں ایسا رہا ہے
خادم ہوں میں آپ کا تاخیر یہ کیسی
للہ بتا دو مجھے کیا مری خطا ہے؟
چندرپرکاش جو ہربجنوری کو حضرت سول اکرم کے ساتھ کافی عقیدت ہے چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمائےے:
میں کافر ہوکے بھی ایمان رکھتا ہوں محمد پر
کوئی انداز تو دیکھے مری کافر ادائی کا
نہیں ذکر محمد کے لےے تخصیص مذہب کی
یہ کس نے کہہ دیا آخر کہ مسلم کی زبان تک ہے
تخصیص کوئی مذہب و ملت کی نہیں ہے
اس رحمت عالم کی دعا سب کے لےے ہے
پنڈت ہری چند اختر نے رسول اکرم کو انسانیت کا سب سے بڑا ہادی مانا ہے۔ انھوں نے بہت سی نعتیں کہی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کردیا
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کردیا
آدمیت کا غرض ساماں مہیا کردیا
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
زندہ ہوجاتے ہیں جو مرتے ہیں اس کے نام
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کردیا
کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا دریتیم
اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کردیا
سات پردوں میں چھپا بیٹھا تھا حسن کائنات
اب کسی نے اس کو عالم آشکار کردیا
کہہ دیا لاتقنطوا! اختر کسی نے کان میں
اور دل کو سربسر محو تمنا کردیا
پنڈت بالمکند عرش ملسیانی نے صنف نعت میں ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ وہ ایک نعت گو شاعر نظر آتے ہیں۔ ان کی نعتوںکا مجموعہ ’آہنگ حجاز‘ شائع ہوچکا ہے۔ بطور نمونہ ایک شعر ملاحظہ ہو:
کہہ دل کا حال شاہ رسالت مآب سے
ہو بے نیاز ذکر عذاب و ثواب سے
کنور مہندر سنگھ بیدی سحر رسول اکرم کی محبت کو دل و روح کی تسکین سمجھتے ہیں اور اس محبت کو ہمیشہ کے لےے قائم رہنے کی خواہش میں چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ ہو:
تکمیل معرفت ہے محبت رسول کی
ہے بندگی خدا کی اطاعت رسول کی
اتنی سی آرزو ہے بس اے رب دوجہاں
دل میں رہے سحر کے محبت رسول کی
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلمانوں کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
فراق نے جو نعتیں کہی ہیں ان میں ایک نعت سے یہ شعر ملاحظہ ہوں:
معلوم ہے تم کو کچھ محمد کا مقام
وہ امت اسلام میں محدود نہیں
کالی داس گپتا رضا نے بھی صنف نعت میں بیش قیمت سرمایہ چھوڑا ہے۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں:
دوست اور دشمن پہ یکساں مہرباں تو ہی تو ہے
روزگار زیست میں جوئے رواں تو ہی تو ہے
بے قراروں کو تیرا آسرا بعد خدا
روح دل تو ہی تو ہے تسکین جاں تو ہی تو ہے
منشی روپ چند جناب رسول خدا کے اسم گرامی کا اعجاز اس طرح بیان کرتے ہیں:
آیا جو نام پاک محمد زبان پر
صل علیہ کا شور اٹھا آسمان پر
منشی درگاسہائے سرور جہان آبادی رسول خدا کی شان کی عظمت اس طرح بیان کرتے ہیں، ایک بند ملاحظہ ہو:
دل بے تاب کو سینے سے لگا لے آجا
کہ سنبھلتا نہیں کمبخت سنبھالے آجا
پاؤں ہیں طول شب غم نے نکالے آجا
خواب میں زلف کو مکھڑے سے لگا لے آجا
بے نقاب آج تو اے گیسووں والے آجا
جاوید وششٹ ایک اچھے شاعر ہیں۔ انھوں نے شان رسول میں اس طرح مدح سرائی کی چند اشعار درجہ ذیل ہیں:
اک برہمن ہند تجھے یار کرے ہے
چوٹی سے ہمالہ کی نمسکار کرے ہے
جو برہم کو جانے اسے کہتے ہیں برہمن
رحمت ہے دو عالم کے لےے تیری تجلی
تجھ پر ہی بھروسا یہ گنہگار کرے ہے
ہے اور ہی عالم میں ترا عاشق جاوید
تیری ہی محبت ہے جو سرشار کرے ہے
کرشن موہن نے کافی شاعری کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب محمد مصطفی تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ایک کردیتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
ایک ہوں کیوں کر نہ محمود و ایاز
ساغر وحدت ہے جام مصطفی
گلزار دہلوی نے بھی شان رسالت بیان کی ہے ایک شعر میں جناب رسول کی مبعوث رسالت بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
کذب اور کفر کو مٹانے کو
سرور کائنات آئے تھے
کرشن بہاری نور بھی اپنی عقیدت کا اظہار یوں بیاں کرتے ہیں:
یہ ربط نبوت اور وحدت ہر حال میں یکتا ہوتا ہے
جھکتی ہے جبیں کعبہ کی طرف اور دل میں مدینہ ہوتا ہے
بدھ پرکاش جو ہر روز محشر کے حساب و کتاب کو مانتے ہیں وہاں حضور اکرم کی عنایت کا ذکر کرتے ہیں:
جلائے گا کیا مجھ کو خورشید محشر
کہ بیٹھا ہوں زیر ردائے محمد
پنڈت مہابیر ایک اچھے شاعر گزرے ہیں یہ بھی قیامت کو روز حساب مانتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ رسول اکرم سے محبت رکھنے والوں کو جنت ملے گی فرماتے ہیں:
سامنے حق کے قیامت میں نہ عزت ہوتی
بیر اگر امت محمد میں نہ داخل ہوتا
ستیش چندر سکسینہ طالب دہلوی بھی محبت رسول اس طرح بیان کرتے ہیں:
حلقہ ہے مہ نو کا گریبان محمد
ہے مطلع انوار یہ دامان محبت
سالک رام سالک ایک اچھے شاعر گزرے ہیں وہ بھی دل کی آنکھ کھول کر کہتے ہیں:
کیوں کر نہ دل و جاں سے مجھے بھائے مدینہ
آنکھوں میں بسا ہے مرے مولائے مدینہ
سرمے کی طرح آنکھ میں سالک میں لگالوں
ہاتھ آئے اگر خاک در مولائے مدینہ
گر سرن لال ادیب نے بھی یہ محسوس کیا ہے کہ رسول اکرم کائنات میں پیار و محبت بانٹنے کے لےے آئے ہیں۔ انھوں نے اس طرح یاد کیا ہے:
آؤ   سب مل کر بیٹھیں پیار کی باتیں کریں
سرزمین یثرب و سرکار کی باتیں کریں
پریم کی گنگا بہائی جس نے ریگستان میں
روح تازہ پھونک دی مٹتے ہوئے ایمان میں
ایک جین شاعر رویندر جین بھی اپنی عقیدت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
آپ تکمیل مساوات امین و صادق
آپ ہیں افضل الانسان رسول اکرم
اس طرح اگر غیرمسلم نعت گو شعرا کی فہرست اور ان کا کلام ایک جگہ جمع کیا جائے تو اس کے لےے کافی وقت درکار ہے۔ کیونکہ ابھی بھی بہت سے شعرا گمنامی کے عالم میں ہیں اور کلام بھی ابھی تک نایاب ہے۔ کائنات میں صرف جناب رسول خدا کی شان و عظمت ہی ہے جس کو ہر مذہب اور ہر قوم کے لوگ بیان کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ آپ کی شان میں مدح سرائی کرنا باعث نجات مانتے ہیں۔ اس طرح غیرمسلم شعرا بھی رسول رحمت کی شان عظمت بیان کرنے میں کسی سے کم نہیں





Muneer Hussain Hurrah,
 Mallabuchan Magam - 193401


ماہنامہ اردو دنیا،جنوری 2014



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں