9/5/19

گھر آنگن کا شاعر: جاں نثار اختر مضمون نگار: خدیجہ آئین



گھر آنگن کا شاعر: جاں نثار اختر

خدیجہ آئین


جاں نثاراخترکی شناخت اردو ادب میں ترقی پسند عہد کے ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے خاصی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ بات ہے بھی کچھ ایسی ہی، جاںنثاراختر 1936 سے 1976 تک اپنے آپ کو اس تحریک کی کشاکش سے آزاد نہ کرسکے۔ انھوں نے اخیرعمر تک اس تحریک کی حمایت کی ہے، لیکن یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان کی شاعری کسی مخصوص نظرےے کی مبلغ نہیں رہی ہے۔ ہاں ان کی بعض ابتدائی نظمیں اور غزلیں ضرور اس نعرے بازی کا شکار ہوئی ہیں لیکن ان کا بیشتر کلام اپنے لہجے کی نرمی، سوزوگداز اور گھلاوٹ کے سبب متاثرکن رہاہے۔ ایسا عام طورپر دیکھا گیاہے کہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ اکثر شعرا ایک مخصوص مدت کے بعد یا تو خاموش ہوگئے ہیں یا ایک ہی محور کے اردگرد اپنی شاعری کا تانا بانابنتے نظر آتے ہیں لیکن جاں نثاراختر ترقی پسند شعرا کی اس صف سے مبرّا ہیں۔ ان کے ہاں آخر آخر تک ارتقائی کیفیت، موضوعات کا تنوع، نفسیاتی بصیرت اور آفاقیت ایک خاص شان کے ساتھ موجود ہے۔ ان کی نظمیں خاکِ دل، خاموش آواز غزلوں کا مجموعہ ’پچھلے پہر‘ اور رباعیات و قطعات کو محیط ان کا مجموعہ ’گھرآنگن‘ وغیرہ اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ قادرالکلام ہمہ جہت و ہمہ گیر شاعر ہیں۔
جاں نثار اختر کا مجموعہ ’گھرآنگن‘ اپنے منفرد موضوع اور اندازِ بیان کے سبب اردو شعروادب میں خاص اہمیت کا متقاضی رہا ہے۔اس کی وساطت سے پہلی مرتبہ ازدواجی زندگی اور خاتون خانہ نے اردو شاعری میں خاص مقام حاصل کیا۔ یہ موضوع ہندی و سنسکرت شاعری میں تو ابتدا سے رائج تھا لیکن اردو شاعری کے لیے یہ نیا تھا جسے جاں نثار اختر نے اپنے مخصوص اندازِ فکر اور لب و لہجے سے ایک خاص رنگ عطا کردیا۔ اس ضمن میں کرشن چندر اپنے مضمون ’سہاگ کا جھومر‘ میں یوںرقم طراز ہیں:
عام طورپر شاعر و ادیبوں نے بیوی اور محبوبہ کو الگ الگ انفرادی حیثیت دی ہے۔ شاعروں نے بیوی کو تو سرے سے ہی نہیں گردانا۔ ناول نگار بھی اپنا ناول وہاں ختم کردیتے ہیں جہاںپر محبوبہ بیوی بن جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ اب قصے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ختم شد۔ اختر نے ’گھرآنگن‘ میں اس بات کو وہاں سے شروع کیا جہاں اکثر ناول نگار اور افسانہ نگار اسے ختم کردیتے ہیں، وہی اختر کے لیے ابتدا ہے۔ ازدواجی زندگی کے سکھ دکھ، باہمی رفاقت، پیار و محبت کا گہرا گداز جس سے اس دنیا کے کروڑوں گھر ایک خوب صورت زندگی سے جگمگاتے ہیں اورجنھیں اکثرو بیشتر شاعر و ادیب خاطر میں نہیں لاتے، نہ اسے شاعری میں جگہ دیتے ہیں۔ یہی اصل میں ’گھرآنگن‘ کا موضوع ہے جہاں میاںبیوی سکھ دکھ بانٹ کر جیتے ہیں۔
گویا ’گھرآنگن‘ کا موضوع ازدواجی زندگی کے سکھ دکھ کی دھوپ چھاؤں ہے.... 1947 میں منظرعام پر آیا۔ فراق کی رباعیوں کا مجموعہ ’روپ‘ بھی جمالیات اور سنگھاررس سے تعلق رکھتاہے۔ یہ رباعیاں سنسکرت اور کلاسیکی ہندی شعروادب سے متاثر ہیں، ان میں ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرزِمعاشرت کی مختلف جھلکیاں ہیں جنھیں فراق نے انتہائی دل آویز انداز میں پیش کیاہے۔ ان میں گھریلوزندگی اپنے تمام و کمال کے ساتھ موجود ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ’گھرآنگن‘ کا موضوع تقریباً وہی ہے جو ’روپ‘ کا ہے، لیکن ’روپ‘ کا کینوس زیادہ وسیع ہے، جب کہ ’گھرآنگن‘ کا کینوس محض گھر آنگن ہی تک محدودہے۔ ’گھرآنگن‘ میں موجود عورت شہر کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا طرزِزندگی بھی وہی ہے، وہ ہندوستانی ثقافت و معاشرت کی پروردہ ہے۔ وہ ہندو یا مسلمان نہیں، ہندوستانی ہے۔ جب کہ ’روپ‘ کی عورت ہندوستانی گاؤں کی ہندو معاشرت سے تعلق رکھتی ہے، لہٰذا اس کا طرزِزندگی بھی اسی نوعیت کا حامل ہے۔
گھرآنگن‘ میں جاں نثاراختر نے اردو شاعری کو نئے ابعاد سے روشناس کیاہے۔ اسے ارضیت کا حسن بخشاہے، دھرتی کا لمس دیاہے اور ہندوستانی تہذیب سے اس کا رشتہ استوار کیاہے گو ’روپ‘ میں بھی یہ عمل موجود ہے لیکن ’گھرآنگن‘ میں اس پر مزید صیقل ہے:
تو دیش کے مہکے ہوئے آنچل میں پلی
ہر سوچ ہے خوشبوؤں کے سانچے میں ڈھلی
ہاتھوں کو یہ جوڑنے کا دل کش انداز
ڈالی پہ کنول کی جس طرح بند کلی
——
دل کہتا ہے گوری کا وہ آئیں گے ضرور
کھڑکی سے پرے دیکھ رہی ہے کہیں دور
آتے انھیں دیکھ لے تو مانگ بھرے
چٹکی میں لےے بیٹھی ہے کب سے سندور
——
تیرے لےے بے تاب ہیں ارماں کیسے
در آ میرے سینے میں کسی دن ایسے
بھگوان کرشن کی سجل مورت میں
چپ چاپ سما گئی تھی میرا جیسے
گھرآنگن‘ کو جاں نثاراختر نے دو حصوں میں تقسیم کیاہے پہلا حصہ مرد کے مشاہدات پر مبنی ہے اور دوسرا عورت کے جذبات و احساسات کا ترجمان ہے۔ ’گھرآنگن‘ کی رباعیوں اور قطعات میں شاعر نے روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات جو بظاہر بہت معمولی ہیں لیکن حقیقتاً انھیں کے توسط سے زندگی میں سوزوگداز قائم ہے۔ انتہائی سلیقے سے نظم کیاہے:
ہرایک گھڑی شاق گزرتی ہوگی
سو طرح کے وہم کرکے مرتی ہوگی
گھر جانے کی جلدی تو نہیں مجھ کو مگر
وہ چائے پر انتظار کرتی ہوگی
——
جاتے ہوئے وہ پیارسے کہنا میرا
ہررات تو سپنوں میں نظر آئے گی
اور اس کا بڑے ناز سے اتنا کہنا
کیا میرے بنا نیند بھی آجائے گی
——
ٹھہرو میں ذرا آنچ کو کم کر آؤں
اتنی بھی بھلا کس لےے پی لی دیکھو
تم ہاتھ تو چھوڑو میں ابھی آتی ہوں
جل جائے نہ سگ پتے کی ہانڈی دیکھو
——
ہرچاندنی رات اس کے دل کو دھڑکائے
بھولے سے بھی کھڑکیوں کے پردے نہ ہٹائے
ڈرتی ہے کسی وقت کوئی شوخ کرن
چپکے سے نہ ان کے پاس آکر سو جائے
جاں نثاراختر کے ہاں حسن و عشق کے حسین پیکر ہیں، وہ حسن و عشق کے باہمی ربط کو بدن اور پیراہن کے رنگ اور خوشبو کے بجائے محبوب کے نازوانداز اور اطوار و افعال کے وسیلے سے مجسم کرتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ انسان نے صدیوں کا سفر طے کرکے تہذیب ِجسم حاصل کی ہے لہٰذا وہ اسے کسی قیمت پر ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے۔ ان کے ہاں جنسی تجربے کا ارتفاع اور اس کی طہارت ملتی ہے۔ انسانی فطرت اور جذبات کا ہمہ گیر شعور، روح اور جسم کا مربوط احساس ہے۔ وہ جنسی جذبات کو فحش اور عریاں نہیں بناتے بلکہ مہذب پیرایۂ بیان اختیار کرتے ہیں۔ ان کے ہاں احساس کی شدت ہرجگہ بیدار اور حسّی فضا ہرجگہ قائم ہے:
انساں تجھے کہتا تھا کبھی سیج کا پھول
صدیوں میں کھلی ہے صدیوں کی یہ پھول
جب تک ترے جذبات کی دولت نہ ملی
تہذیب کی دنیا نہ بنا پاتی اصول
——
ان کے آنے کی کل سے خبریں سن کے
پھرتی ہے نظر نظر میں سپنے بن کے
دھانی اگرکی، فالسئی انگوری
رکھے ہیں نہ جانے کےے دوپٹے جن کے
——
وہ آئے تو پھر رہا نہ دل پر قابو
دوڑی تو سنبھالے نہیںسنبھلا پلّو
کچھ کہہ نہ سکی تو تھرتھرانے لگے ہونٹ
پلکوں پہ لرز اُٹھے خوشی کے آنسو
——
آہٹ مرے قدموں کی سنی تو اس پل
سوتی ہوئی بن کے پڑگئی ہے چنچل
تلؤں  میں جو، جاکے گدگدایا میں نے
چہرے سے اُلٹ دیاہے ہنس کر آنچل
ان رباعیات و قطعات میں عشق کی سرمستی، محبوب کے حسن و جمال کی دل کشی اور کیف و سرور کی وہ ساری کیفیات اپنی تمام تر حسیّات کے ساتھ ساتھ جلوہ گر ہیں جو سنگھاررس کی شاعری کے لےے ضروری تصور کی جاتی ہیں۔ ’گھرآنگن‘ کی عورت ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے اور وہ مشرقی اندازِ فکر کی حامل ہے۔ وہ شوہرپرست ہے لیکن اس پرستش میں بھی اس کا اپنا وجود قائم ہے۔ اس کی اپنی سوچ ہے، اپنی فکرہے، وہ گرہستن ہے، پیسوں کو جوڑنا اور کفایت سے خرچ کرنا جانتی ہے، شوہر کی ہرپریشانی میں اس کے ساتھ ہے، حالات کو ہموار بنانے کا حوصلہ رکھتی ہے، ہرتنگی کو برداشت کرنے کی قوت رکھتی ہے، وہ گھر میں ہرطرح کی دقتوں کے باوجود گھر آئے مہمانوں سے خوش دلی سے ملتی ہے.... ’گھرآنگن‘کی عورت خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوب صورت ذہن بھی رکھتی ہے۔ وہ گھر چلانے کا سلیقہ بھی جانتی ہے اور شوہر کی محبت جیتنے کا ہنر بھی۔ اس مجموعے میں محبوب کے حسن کی تصویرکشی سے زیادہ اس کے جذبات و احساسات کی عکاسی موثرانداز میں کی گئی ہے۔ کئی رباعیات و قطعات میں شاعر نے باقاعدہ اس بات کا اعتراف اور اظہار کیاہے کہ محبوب کے ظاہری حسن سے زیادہ اسے اس کا باطنی حسن عزیزہے۔ محبوب کی مخصوص سوچ، اس کے بات کرنے کا انداز، اس کا سلیقہ، اس کا لہجہ، گھر کے مختلف کام کرنے کا طریقہ وغیرہ شاعر کے لےے کشش کا باعث ہے:
اب اس کو کفایت کہو یا اس کا شعور
عورت کا تو یہ گن ہے سدا سے مشہور
ہرطرح کی تنگی بھی اُٹھا لے گی مگر
چپ چاپ سے کچھ بچا کے رکھے گی ضرور
——
میں ان کا سکھی ہاتھ بٹا سکتی ہوں
حالات کو ہموار بنا سکتی ہوں
وہ بوجھ اٹھائیں گے اکیلے کب تک
میں خود بھی تو کچھ بوجھ اُٹھا سکتی ہوں
——
تو خود بھی حسین ہے مگر دنیا میں
ایسا بھی نہیں کوئی حسیں اور نہیں
پر اتنا مجھے یقیں ہے میرے گھرمیں
جو تجھ سے روشنی ہے کہیں اور نہیں
——
یہ تیرا سبھاؤ  یہ سلیقہ یہ سروپ
لہجے کی یہ چھاؤں، گرم جذبوں کی یہ دھوپ
سیتا بھی، شکنتلا بھی، رادھا بھی تو ہی
یُگ یُگ سے بدلتی چلی آئی ہے روپ
گھرآنگن‘ کی عورت جتنی نئی ہے اتنی پرانی بھی ہے، وہ کتابیں پڑھتی ہے، ستار بجاتی ہے، بجلی کا تنور لاکر خوش ہوتی ہے، چائے پر شوہر کا انتظار کرتی ہے لیکن وہی عورت ہاتھ کی دھلی ساڑی میں مطمئن اس پھول کو بالوں میں سجاکر نازاں بھی ہوتی ہے جس پر شوہر کے قدموں کی دھول کا اسے احساس ہے، جو شوہر کی جھوٹی تھالی میں کھانا کھاکر خوش ہوتی ہے۔ شوہر کے آنے کی خبر سن کر خود کو سنوارنے کے بجائے گھربار سجاتی ہے:
آنگن میں کھلے گلاب پر جا بیٹھی
ہلکی سی اُڑی تھی ان کے قدموں سے جودھول
گوری تھی کہ بالوں میں سجانے کے لےے
چپ چاپ سے جاکے توڑ لائی وہی پھول
——
وہ آئیں گے چادر تو بچھا دوں کوری
پردوں کی ذرا اور بھی کس دوں ڈوری
اپنے کو سنوارنے کی سدھ بدھ بھولے
گھر بار سجانے میں لگی ہے گوری
گھرآنگن‘ میں موجود محبوب نہ صرف مجسم شکل اختیار کرتاہے بلکہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ متحرک بھی نظر آتاہے۔ اس ضمن میں محاکات نگاری کے بھی اچھے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں بلکہ ان رباعیوں کو اگر Video Album کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ایک ایسا Video Album جس میں ایک ہندوستانی گھر کی مختلف متحرک جھلکیاں نظر آتی ہیں جو دل آویز بھی ہیں اور متاثر کن بھی:
وہ اون کے ڈالے ہوئے پھندنے گن کر
طے کرچکی سوئٹر کی رکھے کیا چوڑائی
اب جانے وہ کیا سوچ رہی ہے من میں
ہونٹوں میں دبائے ہوئے بننے کی سلائی
——
گاتی ہوئی ہاتھوں میں یہ سنگر کی مشین
قطروں سے پسینے کے شرابور جبین
مصروف کسی کام میں دیکھوں جو تجھے
تو اور بھی مجھ کو نظر آتی ہے حسین
گھرآنگن‘ میں جمالیاتی شعور کی پختگی، عشقیہ جذبات کی ترجمانی اور سنگھاررس کا حسن سبھی کچھ انتہائی سلیقے سے موجود ہے۔ یہ مجموعہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا بھرپور عکاس اور گنگاجمنی ہندوستانی معاشرے کا بہترین مظہرہے۔
اپنے اسلوب کے اعتبار سے بھی ’گھرآنگن‘ مخصوص و منفرد رنگ و آہنگ کا حامل ہے۔ جمال پسندی، احساسات و جذبات کی شدت، تہہ داری، جمالیاتی رچاؤ   بانکپن، بے پناہ قوتِ ارتکاز اور مشاہدہ کے ساتھ موجود ہے۔ ’گھرآنگن‘ میں ہندی لفظیات کی فضا زیادہ ارضی اور تہذیبی ہے۔ یہ لفظیات اردو ادب میں کثرت سے مستعمل تو نہیں لیکن اردو ادب ان سے مانوس ضرور ہے۔ ان لفظیات میں ہندوستانی فضا کی مہک ہے، لوک گیتوں کا سا رس ہے اور آلھارودل کی کھنک ہے۔ تشبیہات و استعارات کا استعمال کم ہے لیکن جہاں ہے وہاں روایتی اندازہی کارفرما ہے لیکن جاذبیت ہرجگہ بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ہندی ادب کی معروف تلمیحات کا استعمال بھی ملتا ہے لیکن یہ تلمیحات دورازقیاس نہیں  ہیں اور نہ ہی قاری کو ان تک رسائی حاصل کرنے میں اتنا وقت لگتاہے کہ رباعی اور قطعہ کا مفہوم متاثرہو:
ہربار تپسیا سے جیتا ہے انھیں
وہی مرے سوامی رہے میرے پتی
ان سے ہے مرا جنم جنم کا ناتا
اوما ہوں کبھی میں تو کبھی پاروتی
——
جب وہ نہیں آنکھوں سے تجھے کیا لینا
تاریک سے تیرے لےے دنیا ساری
دیکھے گی کسے پوچھ رہی ہے مجھ سے
خود مجھ میں چھپی ہوئی کوئی گندھاری
مختصر یہ کہ ’گھرآنگن‘ کی رباعیاں اور قطعات بلاکی ترسیلی قوت رکھتے ہیں، زبان عام فہم اور روانی حددرجہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہ رباعیاں اور قطعات مکمل اکائی کاروپ اختیار کرکے سامع کے ذہن و دل کو متاثر کرنے پر پوری طرح قادر ہیں۔

Khadeeja Aayeen,
 Dept of Urdu, 
Aligarh Muslim University,
 Aligarh - 202002 (UP)

ماہنامہ اردو دنیا،فروری  2014



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں