9/5/19

انتشار زمانہ کا نبّاض - جاںنثار اختر مضمون نگار: راشد انور راشد



انتشار زمانہ کا نبّاض - جاںنثار اختر

راشد انور راشد


ہرزندہ فن کار اپنے عہد کے انتشار کو اپنے فن پاروں میں پوری ایمان داری کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتاہے۔ اسی بنا پر وہ فن پارہ، ذاتی محسوسات کا ترجمان ہونے کے علاوہ مخصوص زندگی کا آئےنہ بن جاتاہے اور اس آئینے میں ہم بدلتے ہوئے عہد کی زندہ تصویریں دیکھتے ہیں اور بہت کچھ ہم فن کار کے باطن سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ فن کار کی ظاہری دنیا سے تو زمانہ واقف ہوتاہے، لیکن اس کی باطنی دنیا تک رسائی ہم اس کے فن پاروں کے توسط سے ہی حاصل کرپاتے ہیں۔ فن پارے کی ظاہری اور باطنی جہت بھی ہمیں سخت آزمائشوں میں مبتلا رکھتی ہے۔ جو فن پارہ ہمیں پہلی قرأت میں کچھ اور معلوم ہوتا ہے، اسی فن پارے کی دوسری اور تیسری قرأت سے ذہن ان نکات پر مرکوز ہونے لگتا ہے جس کی جانب ہم نے خود بھی سنجیدگی سے غورکرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ جاں نثاراختر کی غزلیہ شاعری کا مطالعہ کرنے کے دوران یہ باتیں ذہن پر مسلسل دستک دیتی ہیں۔اپنی غزلوں کے عمومی جائزے سے وہ ایک ایسے رومانی شاعرکی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جنھوں نے عشق کے انوکھے جذبات کو قدرے مختلف زاویے سے پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ مثال کے طورپر جب ان کے مشہور زمانہ اشعار پر ہماری نگاہ مرکوز ہوتی ہے تو رومانی شاعر والی امیج کو مزید تقویت ملتی ہے:
جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر
چپ چاپ سے سوجائے تو لگتاہے کہ تم ہو
اب بھی جیسے شانے پر تم ہاتھ مرے رکھ دیتی ہو
چلتے چلتے رک جاتا ہوں ساڑی کی دوکانوں پر
سوچو تو بڑی چیز ہے تہذیب بدن کی
ورنہ تو بدن آگ بجھانے کے لیے ہیں
یہ اور اس جیسے کئی اشعار جاں نثار اختر کی غزلوں میں جابہ جا بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ان اشعار کا مطالعہ کرنے پر پہلی نظر میں ایسا معلوم ہوتاہے کہ انھوں نے اپنے غزلیہ اشعار میں عشق کی مختلف کیفیتوں کو قدرے نکھرے ہوئے انداز میں برتاہے اور یہی انفرادی پیش کش جاں نثاراختر کی غزلوں کا خاصہ ہے۔ غزلوں کی پہلی قرأت کے بعد عشقیہ شاعر کی رائے ہی ذہن میں مستحکم ہوتی ہے، لیکن دوسری اور تیسری قرأت کے بعد ہمیں اپنی رائے میں تبدیلی کے لیے مجبور ہونا پڑتاہے۔ جاں نثارکی غزلوں کی سنجیدہ قرأت ہمارے حواس کو جھنجھوڑنے لگتی ہے اور پھر تو یہ شاعر ایک ایسے مضطرب ذہن کی نمائندگی کرنے لگتا ہے جو دوسروں سے کہیں زیادہ حساس ہے، جو چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی نظرانداز نہیں کرتا اور زندگی کے تئیں اپنے ردِعمل کو پوری شدت کے ساتھ اُجاگر کرنے کی کوشش کرتاہے۔ جاں نثار کی غزلوں میں ان کے اپنے عہد کا انتشار قدم قدم پر نمایاں ہوتاہے۔ وہ خاموش تماشائی کی مانند تمام چیزوں کو صرف رونما ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے بلکہ کسی بھی طرح حالات میں تبدیلی کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں ایسی کوئی صورت نظر آتی ہے جب وہ اپنی جدوجہد اور عملی کوششوں کے ذریعے صورت حال کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، وہاں اپنی جانب سے وہ کوئی کوتاہی نہیں برتتے۔ جہاں حالات ناگفتہ بہ ہوجاتے ہیں اور ہزار کوششوں کے باوجود توازن اور اعتدال کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، وہاں وہ ایسی ذہنی فضا کی تعمیر میں مصروف ہوجاتے ہیں جو ان حالات سے نبردآزما ہونے میں معاون ثابت ہوسکے۔ زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں کو دیکھ کر انھیں سخت تکلیف ہوتی ہے۔ انھیں محرومیوں اور مجبوریوں کی بنا پر وہ ہرلمحہ ذہنی اذیتوں سے دوچار ہوتے ہیں، لیکن یہ احساس انھیں کچھ حدتک ذہنی انتشار سے محفوظ رکھتا ہے کہ انھوں نے اپنی سطح پر زندگی کی جدوجہد میں کبھی تساہلی نہیں برتی۔ ساحل پر کھڑے رہ کر انھوں نے طوفان کا نظارہ نہیں کیا اور حالات کی موجوں میں ہرپل ڈوبتے اُبھرتے رہے۔ ان تمام کیفیات کو انھوں نے غزلیہ اشعار میں پوری شدت کے ساتھ نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ اس نوع کے اشعار کے ذریعے جو لہجہ وہ استعمال کرتے ہیں وہ غزل کے مانوس اور مروجہ لہجے سے قطعی مختلف ہوتاہے۔ پہلے جاں نثار کے ان اشعار پر غور کرتے چلیں جن میں غزل کے فن کی قدرے مختلف انداز میں پیش کرنے کی بات کہی گئی ہے:
ہم سے پوچھو کہ غزل کیاہے، غزل کا فن کیا
چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے
ہماری قدر کرو اے سخن کے متوالو
غزل کو کل نہ ملیں گے مزاج داں ہم سے
پہلے شعر میں جاں نثار نے غزل کے فن کو اپنے مخصوص انداز میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے کوئی تفصیل پیش نہیں کی۔ غزل کے اشعار یوں بھی تفصیل کا بوجھ برداشت نہیں کرپاتے۔ یہاں اشاریت اور ایمائیت کی بنا پر ہی تمام مرحلے سر کےے جاتے ہیں، لیکن اس شعر میں شاعر نے ایمائی لہجے میں دریا کو کوزے میں جس طرح سمویاہے، وہ ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیاہے۔ چندلفظوں میں کوئی آگ چھپا دینے کے عمل کو شاعر، غزل کے فن سے تعبیر کرتاہے۔ غور کریں تو یہ آگ صرف ان معنوں میں ہی ہمارے سامنے نہیں آتی جو جلانے کے عمل کے ذریعے ذہن میں ایک کوندے کی طرح لپکتی ہے۔ یہاں آگ کا تناظر وسعت اختیار کرلیتاہے اور محسوسات کے مختلف زاویے اس لفظ کے حصار میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جاں نثاراختر نے غالباً آگ کا استعارہ اپنے مخصوص لہجے اور غزل کے انفرادی انداز کی بناپر بھی استعمال کیاہے۔ انتشار زمانہ کے نباض کے طورپر جس طرح وہ غزلیہ اشعار کی مدد سے ہمارے سامنے آتے ہیں، وہ امیج دوسرے شاعروں سے انھیں علیٰحدہ کرتی ہے۔ وہ انتشار زمانہ کو اشعار کے قالب میں جس طرح ڈھالتے ہیں، اس سے لفظوں میں واقعی آگ کے چھپے ہونے کا اندازہ ہوتاہے۔ دوسرے شعر میں انھوں نے اپنی انفرادیت کو تسلیم کیے جانے پر اصرار کیاہے اور سخن کے متوالوں کے حضور میں قدر کیے جانے کا جواز اس طرح قائم کیا ہے کہ مستقبل میں غزل کو ہم جیسے مزاج داں نہیں ملیں گے۔ اس خیال کے پسِ پشت شاعر کا جو عندیہ کارفرما ہے، اسے واضح طورپر محسوس کیا جاسکتاہے۔ جاں نثاراختر کو خود بھی اس بات کا احساس تھاکہ انتشار زمانہ کا جو عکس انھوں نے اپنی غزلوں میں پیش کیاہے، اس کی نظیر آنے والے وقت میں مشکل سے ہی ملے گی۔ اسی بنا پر انھوں نے سخن شناسوں سے اپنی قدر کےے جانے پر زور دیاہے۔ یہاں اس بات کا احساس بھی شامل ہے کہ جو روش شاعر نے غزل میں اختیار کی ہے، ممکن ہے سردست لوگ اس کی اہمیت و افادیت سے اچھی طرح واقف نہ ہوں، لیکن مستقبل میں ایسا لمحہ ضرور آئے گا جب ان کے انفرادی لہجے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
جاں نثاراختر کی غزلوں میں انتشار زمانہ کا جائزہ لینے کے لیے اس حساس فرد کی زندگی کو بہ طور خاص ذہن نشیں رکھنا پڑتاہے جو ان کے ہم زاد کی طرح زندگی کے مختلف نشیب و فراز میں ہرلمحہ شامل ہے۔ یہ حساس فرد کبھی گاؤں کی پُرسکون فضا میں زندگی کے ایام گزارتا تھا، اور گاؤں کی آب و ہوا، مٹی، پھول، موسم، تمام چیزوں سے اسے ایک خاص قربت تھی، لیکن بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ جب زندگی کی آزمائشوں میں مسلسل اضافہ ہوتاگیا تو اسے گاؤں کی مٹی کو خیرباد کہنا پڑا۔ وہ حساس فرد زندگی کی چھوٹی بڑی خواہشوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا خواب سمیٹے شہر میں داخل ہوا تو اسے زندگی کا تضاد قدم قدم پر دیکھنے کو ملنے لگا۔ گاؤں اور شہر کی قدرے متضاد فضا نے اسے زندگی کے ایسے زاویوں سے واقف کرایا جس سے وہ اب تک انجان تھا۔ جلدہی وہ حساس فرد شہر کی اصلیت سے واقف ہوگیا۔ ذہن میں بسے ہوئے سارے خواب ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گئے اور شہر اپنی کریہہ صورت کے ساتھ نمودار ہوتا چلا گیا۔ پھر تو گاؤں اور شہر کی متضاد فضا نے ذہن کو اور پراگندہ کرنا شروع کردیا۔ گاؤں سے شہر کی مراجعت اور پھر شہر کی اصلیت کے بے نقاب ہونے کی تڑپ جس طرح اشعار میں اجاگرہوئی، وہ اپنی کہانی آپ کہتی ہے:
بیلا ہو کیتکی ہو کہ چمپا کہ چاندنی
ہرپھول سے قریب تھے ہم اپنے گاؤں میں
 شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارہ ہی نہ ہو
اب شہر میں جینے کے بھی اسباب رہے نا
وہ آگ لگی ہے کہ بجھائے سے بجھے نا
ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ بستے ہیں
کبھی کبھی کوئی چہرہ دکھائی دیتا ہے
ان الفاظ کے ذریعے حساس فرد کی کیفیت کو بہ طور خاص محسوس کیا جاسکتاہے۔ وہ شہر جو اس کے خوابوں کی آماجگاہ تھا اور اس کے ذہن میں بسنے والے بے شمار خوابوں کی تعبیریں اسی شہر سے ممکن تھیں، وہی شہر جب اپنی اصلیت میں سامنے آیا تو حساس فرد کی ذہنی اذیت ناقابلِ برداشت ہوتی گئی۔ حالات کی مجبوری کے تحت وہ وقت کا ایندھن تو بن گیا، لیکن اپنے وجود پر ہرلمحہ وہ شرمندگی محسوس کرتا رہا۔ شہر کی پریشان حال زندگی نے اسے کہیں کا نہ رکھا۔ اس کے باوجود شہر سے گاؤں کی مراجعت اس کے لیے ممکن نہ ہوسکی۔ حالات کے بھنور میں وہ اس طرح پھنستا چلا گیاکہ اس سے نجات کی کوئی سبیل باقی نہیں رہ گئی۔ چاہ کر بھی گاؤں واپس جانا اس کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔ مجبوراً شہر کے حبس زدہ ماحول میں رہ کر وہ گاؤںکو یادکرتا رہا۔ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنا چوں کہ اس کا مقدر بنتا چلا گیا، لہٰذا وہ زندگی کے بقیہ ایام کو شہر میں رہ کر ہی گزارتا گیا۔ شہرکا انتشار رفتہ رفتہ اس کے لہو میں سرایت کرتاگیا اور پھر وہ بھی شہر کی بے حس زندگی کا عادی ہونے لگا۔ شہر کی زندگی نے اسے قدم قدم پر آزمائشوں میں مبتلا کیا۔ کہیں ضمیر کی آواز پر اس نے لبیک کہنے کی کوشش کی تو اسے کربناک اذیتوں کا سامنا کرناپڑا۔ جب اس نے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کی تو زندگی کسی طرح قابلِ گوارہ تو ہوگئی، لیکن اس کے اندر کا انسان مرگیا۔ شہرکی انتشار زدہ ماحول میں وہ ایک زندہ لاش بن گیا اور حالات کی ستم ظریفیوں کو بڑی حسرتوں سے دیکھتا رہا۔ شہر کے مصنوعی زندگی کے عوض وہ اس تلخ حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوگیا کہ وہ تنِ تنہا نامساعد حالات کا رُخ کسی بھی طرح موڑ نہیں سکتا۔ اس لےے وہ حساس فرد عملی جدوجہد کی سطح پر متحرک دکھائی نہیں دیتا، لیکن ذہنی طورپر وہ اس انتشار کو کسی طرح قبول نہیں کرپاتا اور اس کے خیالوں میں بکھراؤکی مسلسل کیفیت واضح طورپر دکھائی دیتی ہے۔ شہرکی افراتفری کا حصہ بن کر ابتدا میں تو اسے انسانی خون کے ارزاں ہونے کا شدید احساس ہوا لیکن رفتہ رفتہ لاشوں کا اژدہام جب ہرموڑ پر دکھائی دینے لگا تو پھر لاشوں کی سوداگری معمولاتِ زندگی کا حصہ بن گئی۔ جاںنثاراختر نے انتشار زمانہ کی شدت کو واضح کرنے کے لیے اسی حساس فرد کی ذہنی کیفیات کو غزلیہ اشعار میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے متعدد اشعار میں ہرسمت بکھری ہوئی لاشوں کو کلیدی موضوع کے طورپر پیش کیاہے:
کس کی دہلیز پہ لے جاکے سجائیں اس کو
بیچ رستے میں کوئی لاش پڑی ہے یارو
میرے خوابوں میں کوئی لاش اُبھر آتی ہے
بند آنکھوں میں کئی تاج محل جلتے ہیں
لاکھ آوارہ سہی شہروں کے فٹ پاتھوں پہ ہم
لاش یہ کس کی لیے پھرتے ہیں ان ہاتھوں پہ ہم
کوئی اتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جاکے دفنا دے
انھیں سڑکوں پہ مرجائے گا انساں ہم نہ کہتے تھے
ظاہر ہے جب انتشار کا یہ سماں ہو تو وہاں انسان کا وجود شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتّے میں کیوں نہ تبدیل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جاںنثارکی غزلوں میں زندگی کا انتشار مختلف زاویوں سے اُجاگر ہوتاہے۔ خود زندگی کا تصور ان کی غزلیہ شاعری میں اپنے مروجہ مفاہیم تبدیل کرتا ہوا دکھائی دیتاہے۔ شہر کی بے تحاشہ بھاگتی دوڑتی خلقت کی روح ہرلمحہ مضطرب نظر آتی ہے۔ ایسی صورت میں خود زندگی ایک بددعا کی شکل میں نمودار ہونے لگتی ہے۔ انتشارکی زد میں آکر زندگی کی پیچیدگی میں مزید اضافہ ہونے لگتاہے۔ زندگی کی الجھنیں قدم قدم پر ہمارا امتحان لینے لگتی ہیں۔ بہت غوروخوض کرنے کے باوجود زندگی کی الجھنیں تفہیم کی گرفت سے باہر ہوتی ہیں۔ طرح طرح کے پیچیدہ سوالات ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ اپنی سطح پر انتشار سے متاثر زندگی ان سوالوں کاجواب دینے کی کوشش کرتی ہے، لیکن ان جوابات میں اتنی تاویلیں پوشیدہ ہوتی ہیں کہ ذہن بوکھلا جاتاہے اور یہ بات کسی طرح واضح نہیں ہوپاتی کہ زندگی کے متعدد سوالوں کا آخر کون سا جواب زیادہ معقول ہے۔ جاں نثاراخترنے زندگی سے متعلق مروجہ تصورات کو قدرے مختلف زاویوں سے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ زندگی کے تبدیل شدہ تصورات میں ہی خوابوں کا انتشار بھی شامل ہے۔ خواب آنکھوں میں جگمگاتے تو ہیں، لیکن حالات کی ستم ظریفی ان خوابوں کو خوش گوار تعبیروں سے نوازنے میں ناکام رہتی ہے۔ شاعر خوابوں کے حوالے سے ہرلمحہ فکرمند دکھائی دیتاہے۔ وہ خوابوں کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچانے کی ہرممکن کوشش کرتاہے، لیکن زندگی کے انتشار کو دیکھتے ہوئے وہ ان خوابوں کی سلامتی کے لےے زیادہ پریشان نظر آتاہے۔ اسے اندازہ ہے کہ دراصل خوابوں کے ذریعے ہی زندگی عذاب میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے اور اسی بناپر وہ انھیں جھٹک کر پھینکنے کا مشورہ بھی دیتاہے، لیکن اس تلخ حقیقت کے باوجود وہ خوابوں سے علیٰحدگی کا تصور نہیں کرپاتا اور پلکوں پر سلگتے ہوئے خوابوں کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ زندگی اور خواب کے حوالے سے انتشار کی مختلف کیفیات جاں نثاراختر کے اشعار میں یوں اُجاگر ہوتی ہیں:
ہرایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بددعا لگے ہے مجھے
سمجھ سکے تو سمجھ زندگی کی الجھن کو
سوال اتنے نہیں ہیں جواب جتنے ہیں
بے صرفہ زندگی کی تلافی نہیں ہے یہ
انساں کو تجھ سے پیار ہے، کافی نہیں ہے یہ
پتہ نہیں کہ مرے بعد اس پہ کیا گزری
میں چند خواب زمانے میں چھوڑ آیا تھا
اسی سبب سے ہیں شاید عذاب جتنے ہیں
جھٹک کے پھینک دو پلکوں پہ خواب جتنے ہیں
اب دل کے کہاں گرد وہ مہتاب رہے ہیں
پلکوں پہ سلگتے ہوئے کچھ خواب رہے ہیں
آنکھوں میں جو بھرلوگے تو کانٹوں سے چبھیں گے
کچھ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں
سوال یہ ہے کہ جاں نثاراختر اپنے اشعار میں زندگی اور خوابوں کے حوالے سے قدرے مختلف رویہ کیوں پیش کرتے ہیں۔ کیا زندگی میں محض منفی رویوں سے ہی ان کا واسطہ رہا، یا پھر غزل کے غنائی لہجے، موسیقیت اور ترنم کو نظرانداز کرتے ہوئے انھوں نے شعوری طورپر اپنی انفرادیت قائم کرنے کے لیے قدرے کھردرا لہجہ غزل کے لےے استعمال کیا۔ غور کرنے پر اندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی ہرممکن کوشش کی۔ حالات اگر ناسازگار ہیں اور انھیں تبدیل کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے تو ہم دل اور زبان سے اپنا احتجاج تو درج کرہی سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمارے خیالات ہی اس بات کا ثبوت پیش کریں گے کہ حالاتِ حاضرہ کا انتشار ہمیں کن ذہنی اذیتوں سے دوچار کررہا ہے۔ اپنے دوسرے ہم عصر شعرا کی مانند جاں نثاراختر بھی اپنے غزلیہ اشعار میں حسن و عشق کے انوکھے زاویوں کو بہ آسانی پیش کرسکتے تھے اور اپنے مجموعوں میں اس کے عمدہ نمونے انھوں نے پیش بھی کیے ہیں، لیکن چوں کہ ان کے اندر کا انسان ماحول کی بے حسی کے باوجود کسی طرح زندہ ہے، لہٰذا وہ حالاتِ حاضرہ سے کسی طرح مطمئن دکھائی نہیں دیتا۔ زمانے کے ساتھ چلنے کا اسے کوئی شوق نہیں اور کبھی بہ حالت ِمجبوری اسے زمانے کے ساتھ چلنا بھی پڑتاہے تو گرد ملامت کے سوا اور کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں آتا۔ حالات ایسے ہیں کہ ہرلمحہ ذہن و دل عجیب و غریب کیفیات کی زد میں آتاہے۔ دل کی پیاس نشۂ مے سے بھی نہیں بجھتی اورخرابات سے تشنگی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ شہرکے ہرگوشے سے اسے دھواں اُٹھتا دکھائی دیتا ہے۔ گھر تو خاک ہوجاتے ہیں، لیکن جلنے والوں کی آہیں نہیں جل پاتیں اور وہی آہیں کرب و اذیت میں مسلسل اضافے کا باعث ہوتی ہیں۔ اپنے نشیمن کے خاکستر ہوجانے پر انھیں زیادہ تکلیف نہیں ہوتی، لیکن یہ فکر انھیں زیادہ پریشان کرتی ہے کہ اب کس کا نشیمن آگ کی لپٹوں میں آئے گا۔ انھیں محسوس ہوتاہے کہ ساری دنیا میں غریبوں کا لہو پانی کی طرح بہہ رہاہے اور دنیا کے کسی بھی خطے پر لہو بہتا ہے تو انھیں یہی لگتا ہے کہ زمین کا ہرگوشہ ان کے لہو سے ہی تر ہوگیاہے۔ حالاتِ حاضرہ کے انتشار کو جاںنثار کے ان اشعار میں شدت کے ساتھ محسوس کیا جاسکتاہے:
جلنے والوں کی آہیں کہاں جل سکیں
اک دھواں ہے ابھی تک مکانوں کے بیچ
جل گیا اپنا نشیمن تو کوئی بات نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ اب آگ کدھر لگتی ہے
ساری دنیا میں غریبوں کا لہو بہتا ہے
ہرزمیں مجھ کو مرے خون سے تر لگتی ہے
مار ہی ڈالے جو بے موت، یہ دنیا وہ ہے
ہم جو زندہ ہیں تو جینے کا ہنر رکھتے ہیں
حالات کی ناسازگاری جب کسی طرح قابو میں نہیں آتی تو جاں نثاراختر کی غزلوں میں واضح ردِعمل دیکھنے کو ملتاہے۔ زندہ ضمیری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے وہ اپنے ردِعمل کو پوری شدت کے ساتھ نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق غمِ یار اور غمِ بہار ہی دنیا میں سب کچھ نہیں ہوتا، انسان کو غمِ جہاں سے بھی دل لگانے کی کوشش کرنی چاہےے۔ جب زمین ایک ہے تو پھر وہ تمام سمتوں اور حدود کی تقسیم کو بے معنی سمجھتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جہاں بھی روشنی کی کرن دکھائی دے، ہمیں روشنی کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر چہارسمت ظلمتوں کی بدلیاں چھارہی ہیں تو ایسی صورت میں ہمیں روح میں کھلی ہوئی چاندنی کا ساتھ دینا چاہیے۔ وہ اسی بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے دل نہیں بدلیں گے تو حالات بھی کسی طرح تبدیل نہیں ہوں گے اور اگر ہم نے اس مشکل مرحلے پر کامیابی حاصل کرلی تو دیکھتے ہی دیکھتے ہماری تقدیر بدل جائے گی، لیکن یہ تمام تصورات ذہن تک محدود رہتے ہیں اور عملی طورپر جب حالات کے بہتر ہونے کی سبیل پیدا نہیں ہوپاتی تو پھر جاں نثار کے یہاں ردِعمل کی شدت نمایاں ہونے لگتی ہے:
تمھارے جشن کو جشنِ فروزاں ہم نہیں کہتے
لہو کی گرم بوندوں کو چراغاں ہم نہیں کہتے
نہ بوئے گل مہکتی ہے نہ شاخِ گل لچکتی ہے
ابھی اپنے گلستاں کو گلستاں ہم نہیں کہتے
نظر لپٹی ہے شعلوں میں لہو تپتا ہے آنکھوں میں
اٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے
علاجِ چاک پیراہن ہوا تو اس طرح ہوگا
سیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے
ان اشعار میں ایک حساس شاعرکے ردِعمل کو واضح طورپر محسوس کیا جاسکتاہے، وہ اگر عملی طورپر ناسازگار حالات کا رُخ موڑنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو پوری ایمان داری کے ساتھ اپنا شدید ردِعمل ظاہر کرتاہے۔ یہ ردِعمل شاعر کے خاموش احتجاج کو بھی ظاہر کرتاہے۔ جاں نثاراختر اپنا ردِعمل جاری رکھتے ہوئے ہنگامہ خیزیوں کو اپنے اشعار میں نمایاں نہیں کرتے، بلکہ ایسا طریقہ اختیار کرتے ہیں جس کی بنا پر اس ردِعمل میں معنویت کی مختلف جہتیں شامل ہوجاتی ہیں۔ ایسی صورت میں جاںنثارکے غزلیہ اشعار میں طنزکی نشتریت ماحول کی سنگینیوں کو مزید اُجاگر کرتی ہے:
یہ ٹھیک ہے کہ ستاروں پہ گھوم آئے ہم
مگر کسے ہے سلیقہ زمیں پہ چلنے کا
جائےے بیٹھےے حکمرانوں کے بیچ
آپ کیوں آگئے ہم دوانوں کے بیچ
ارمان ہمیں ایک رہا ہو کہیں بھی
کیا جانے یہ دل کتنی چتاؤں میں جلاہے

مجموعی طورپر جاں نثاراختر کی غزلیہ شاعری ایک مضطرب ذہن کے انتشار کو پوری شدت کے ساتھ نمایاں کرتی ہے۔ اپنے دیگر ہم عصروں کے مقابلے ان کا شعری سرمایہ تشفی بخش نہیں لیکن حیرت ہوتی ہے کہ ان کے غزلیہ اشعار میں ایسے اشعار کی تعداد اچھی خاصی ہے جن میں انتشار زمانہ کا کرب پوری سچائی اور ایمان داری کے ساتھ اُجاگر کیا گیاہے۔ نظموں میں تو انتشار زمانہ کی مختلف کیفیات کو شاعروں نے سمیٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن غزلوں میں اس نوع کی مثالیں زیادہ دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ جاں نثاراختر نے اپنے بامعنی اشعار کے ذریعے اپنے عہد کے انتشار کو کامیابی کے ساتھ سمیٹا ہے۔ انھوں نے غزل کے مروجہ لہجے سے مختلف اپنا ایک منفرد لہجہ بھی وضع کیاہے جو مخصوص کیفیات کی ترجمانی میں پوری طرح کامیاب ہے۔


Rashid Anwar Rashid,
 Dept of Urdu,
 Aligarh Muslim University,
 Aligarh- 202002 (UP)
ماہنامہ اردو دنیا،فروری  2014



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں