جاں
نثار اختر-فنی اور فکری جہتیں
عارف حسین جونپوری
جاں نثار اختر (پ 14 فروری
1914 م 9 اگست 1976) ترقی پسند تحریک سے منسلک اہم شاعر ہیں۔ جاں نثار اختر کا
خاندانی پس منظر علمی اور سماجی اعتبار سے بہت اہم رہا ہے۔ اُن کے والد مضطر
خیرآبادی ایک مشہور شاعر گزرے ہیں، وہ گوالیار میں بحیثیت ملازم مقیم رہے جہاں جاں
نثار اخترکی ولادت ہوئی اور ابتدائی تعلیم کی تکمیل بھی۔ ان کے اجداد میں مولانا
فضل حق خیرآبادی جیسی اہم شخصیت بھی ہے جنھوں نے جہاں ایک طرف دیوان غالب کی ترتیب
و تدوین کی وہیں 1857 کی پہلی جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا۔ ایسا سماجی اعتبار
سے تسلیم کیا جاتا ہے کہ کسی بھی شخص کی شخصیت کی تشکیل میں اس کا خاندانی پس
منظر، عہد، اس کے قیام کی جگہیں اور اس کے اردگرد کی شخصیتیں اپنا کردار ادا کرتی
ہیں۔ جاں نثار اختر اس لحاظ سے تو خوش نصیب رہے کہ انھیں ایک شاندار ادبی وراثت
ملی۔ اس سے بھی بڑی بات یہ کہ انھیں صفیہ جیسی رفیقۂ حیات ملی جو مجاز کی بہن اور علی گڑھ کی پروردہ تھیں جن نے ان کے ادبی کام
اور شاعری کو نہ صرف سراہا بلکہ وہ ان کے تخیلات کا مرکز اور شاعری کی محرک بھی
رہیں۔ صفیہ بیوی ہونے کے باوجود اُن کی محبوبہ بنی رہیں جن کی ناوقت موت نے جاں
نثار اختر کی شعری دنیا میں حزن و ملال کی آمیزش کی جس سے ’خاک دل‘ اور ’حسین آگ‘،
’خاموش آواز‘ جیسی لافانی نظموں کا ظہور ہوا۔ صفیہ کی محبت میں ان کی شاعری
میںرومانیت در آئی، جس نے ان کو ترقی پسند تحریک اور ان کے عہد کے شعرا میں ممتاز
کیا۔ جاں نثار اختر نے صفیہ کے خطوط ’زیرلب‘ اور ’حرف آشنا‘ شائع کیے جو اردو زبان
کی خطوط نگاری کی تاریخ میں بہت اہم ہیں اور جس سے بہت کچھ ادبی سماجی سروکار اور
اس عہد کی نیرنگیوں سے پردہ اٹھتا ہے نیز ان دونوں زن و شو کے درمیان محبت کی
مختلف کیفیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو ہمارے سماج میں کم نظر آتی ہے ان کے درمیان
ملازمت اور دیگر مسائل کی وجہ سے دوری بھی رہی، ہجر کے کرب کی یہ آشنائی صفیہ کے
خطوط اور جاں نثار اختر کی شاعری کے لیے فال نیک ثابت ہوئی جن سے اُن دونوں کو اور
ان کی تخلیقات کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ علی گڑھ کے پروردہ جاں نثار اپنے کاندھے پر
شاندار علمی اور ادبی میراث لیے ہوئے تھے تو دوسری طرف صفیہ بھی خاندانی اعتبار سے
اودھ کے ایک باوقار خانوادے کی فرد اور علی گڑھ کی بیٹی اور مجاز کی بہن اس طرح ان
پر عظمت منظر اور پس منظر میں اگر جاں نثار کی دل چھولینے والی آواز وجود میں آئی،
جس میں بھوپال اور گوالیار کی ادبی مہک اور لکھنؤ کی دلنوازی بھی موجود ہے تو کوئی
جائے تحیر نہیں ہے۔
جاں نثار اختر کا مزاج بنیادی
اعتبار سے رومانی ہے۔ وہ عشقیہ سرمستیوں کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری واردات حسن و
عشق کا فرضی نہیں سچا اظہار ہے۔ یوں بھی ان کے کلام کے سرسری مطالعے سے یہ اندازہ
ہوتا ہے کہ وہ مجاز سے زیادہ متاثر ہیں اور کبھی کبھی فیض سے بھی، مگر وہ مجاز
جیسا والہانہ پن اور ہجر کی تڑپ اپنی شاعری میں نہیں پیدا کرسکے۔ وہ ہو بھی نہیں
سکتی تھی کہ بقول اقبال:
ہجر ہے لذت طلب وصل ہے مرگ
آرزو
یا یہ کہ:
حسرت مچل رہی ہے تو ہے کامیاب
دل
حسرت نکل گئی تو ہے ناکامیاب
دل
مجاز کی لذت طلب، شکست آرزو
کوئی کہاں سے لائے گا۔ جذبی، مجاز اور جاں نثار اختر کی شعری تثلیث بھی بنانے کی
کوشش ہوئی اور ان تینوں شاعروں کا نمائندہ انتخاب بھی شائع کیا گیا۔ مگر ان تینوں
شاعروں کے افکار و محسوسات میں جو دوریاں ہیں وہ ان کو ایک صف میں بیٹھنے نہیں
دیتی۔
پروفیسر احتشام حسین نے لکھا
ہے کہ ”اختر طالب علمی کے دور میں بڑی دلفریب رومانی نظمیں لکھتے تھے۔ دوسرے نئے
شعرا کی مانند وہ بھی انقلاب کی طرف آئے... وہ ترقی پسند شعرا میں ایک بلند مقام
رکھتے ہیں مگر کچھ لوگوں کو ان میں اس زور
کی کمی نظر آتی ہے جو سیاسی مسائل پر لکھنے کے لیے ضروری ہے۔“
احتشام حسین کی یہ بات تو صحیح
ہے کہ انقلابی نظموں میں جاں نثار اختر کے یہاں زور کی کمی ہے اور یہ کمی بھی ان
کی گہری رومانیت کی وجہ سے ہے ترقی پسندوں نے جو رومان اور انقلاب کا سنگم پیدا
کیا اُس میں غوطہ لگا کر صحیح سالم نکل جانا سب کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس میں فیض
اور مجاز بہت کامیاب رہے۔ کیفی اعظمی نے بھی جدید انداز میں رومانی کیفیتوں کی بھی
مصوری کی اور انقلاب کے دھارے ان کی شاعری میں رواں دواں رہے۔ خلیل الرحمن اعظمی،
جن کی ’ترقی پسند تحریک‘ پر مستقل کتاب ہے، نے جاں نثار اختر کی شاعری پر زیادہ
بحث کی ہے۔ انھوں نے ان کی متعد د انقلابی نظموں پر جوش کے اثر کی نشاندہی کی ہے
اسی طرح کبھی وہ جذبی کے زیراثر آجاتے ہیں اور کبھی سردار جعفری کے اور کبھی مجاز
کے۔ اختر شیرانی کی رومانی نظمیں بھی اس وقت اکثر شعرا کو متاثر کررہی تھیں اس سے
جاں نثر اختر اچھوتے نہیں ہیں۔ آخر میں اعظمی صاحب کا یہ قول ہے کہ جہاں تک شعر کے
ظاہری سانچے کا تعلق ہے ان کے یہاں کوئی عیب نہیں لیکن ان کی نظموں میں شاعر کا
انفرادی رنگ بہت کم جھلکتا ہے۔ ان کے بقول ان کی کامیاب نظمیں وہی ہیں جو صفیہ
اخترکی وفات پر لکھی گئی ہے۔ ان میں ’خاک دل‘ اور ’خاموش آواز جیسی نظمیں ہی جاں
نثار اختر کے سرمایے میں ان کی انفرادیت کی نشانِ راہ ہیں۔“
ڈاکٹر وزیر آغاز نے ’اردو
شاعری کے مزاج‘میں جاں نثاراختر کی نظم ’کون سا گیت سنو گی انجم‘ رومان سے انقلاب
کی طرف آنے کے ترقی پسندوں کی ذہنی روش کی عکاسی کے لیے پیش کیا ہے مگر یہ نظم بھی
وزیر آغا نے ساحر کی ’میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ کو‘ یا فیض کی ’مجھ سے پہلی
سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ کی صف میں رکھا ہے ظاہرسی بات ہے کہ جاں نثار اختر کی
نظم۔ فیض اور ساحر کی نظموں کے درمیان بے رونق لگے گی۔
اب جب کہ ترقی پسند تحریک کا
غلغلہ ختم ہوچکا ہے۔ رومانی رَو سے اردو شاعری یکسر مفقود ہوچکی ہے اور جاں نثار
اختر کی 100 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ سردار جعفری، فیض، مجاز، جذبی کی صدی
منائی جارہی ہے۔ سب کی شاعری سامنے ہے اور اُن کے عہد کے سیلاب کی سانسیں تھم سی
گئی ہیں اب ان کی کاوشات کا بغیر ہچک محاسبہ ہوسکتا ہے۔
جہاں تک جاں نثار اخترکی ادبی
اہمیت کا سوال ہے تو وہ ترقی پسند تحریک یا بیسیویں صدی کے شعری منظرنامے پر
نمایاں ہیں۔ ان کی فلمی دنیا سے وابستگی رہی اور تقریباً ڈیڑھ سو فلموں کے لیے
انھوں نے گیت لکھے۔ ان کے اکثر گیت بہت مشہور ہوئے جیسے ’یہ دل اور ان کی نگاہوں
کے سائے‘، ’اے دل ناداں‘، ’غریب جان کے ہم کو نہ تم مٹا دینا‘ وغیرہ۔ انھوں نے
’بہوبیگم‘ فلم بھی پروڈیوس کی جو اودھ کی تہذیب کی عکاسی ہے۔ وہ ملک راج آنند،
کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے شانہ بہ شانہ ترقی پسند تحریک سے
بھی جڑے رہے۔ اس گروپ کو بمبئی گروپ آف رائٹرس کے نام سے شہرت حاصل تھی۔ انھوں نے
ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے کنبے پر 300 سال کی بہترین اردو شاعری کا
انتحاب ’ہندوستان ہمارا‘ کے عنوان سے 2جلدوں میں ترتیب دیا جس کی محترمہ
اندراگاندھی نے رسم اجرا ادا کی۔ اس انتخاب سے ہندوستان کی محبت اور اس کی ثقافتی
اور تہذیبی قدروں کی عکاس شاعری کا انتخاب کیا گیا ہے ان کے مجموعہ ’خاکِ دل‘ پر
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی تفویض کیا گیا۔ شاعری ان کی تیسری پشت میں بھی جاری و
ساری ہے یعنی مشہور فلمی نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر اور سلیم اختران کے دونوں
بیٹے بھی شاعر ہیں۔ مشہور شاعر کیفی اعظمی کی بیٹی، سماجی اور سیاسی سروکار رکھنے
والی شبانہ اعظمی بھی بحیثیت ان کی بہو ان کی زندگی کی تاریخ میں شامل ہوچکی ہیں۔
انھو ں نے ایک بھرپور ادبی، شعری اور سماجی زندگی گزاری۔ شاعری کے حوالے سے بھی وہ
اردو کی ادبی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
ترقی پسند تحریک سے وابستہ شاعروں
نے زیادہ تر نظم کو وسیلۂ اظہار بنایا ہے۔ فیض نے نظمیں بھی کہی ہیں اور غزلیں
بھی اچھی تعداد میں لکھی ہیں۔ مجروح کی ترقی پسند غزل کو ترقی پسندوں کے غزلیہ
اثاثے میں ایک انفرادیت حاصل ہے۔ جاں نثار نے بھی اچھی تعداد میں غزلیں لکھی ہیں۔
ان کا ایک شعر ہے:
ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے،
غزل کا فن کیا
چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی
جائے
لیکن ان کا یہ شعر ان کی غزلیہ
شاعری پر صادق نہیں ہوتا بس یہ شعر شاعرانہ تعلی بن کر رہ جاتا ہے۔ لیکن ان کے
یہاں ایسے اشعار ہیں جو دامن دل کھینچتے ہیں:
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے
ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے
ہیں
یہ علم کا سودا یہ کتابیں یہ
رسالے
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے
لیے ہیں
ان کی رومانی شاعری بھی اپنی
الگ دلکشی رکھتی ہے:
یہ کس کا ڈھلک گیا ہے آنچل
تاروں کی نگاہ جھک گئی ہے
یہ کس کی مچل گئی ہیں زلفیں
جاتی ہوئی رات رک گئی ہے
شاعری شدت جذبات کا خوبصورت
اظہاریہ اگر ہو تو وہ دیرپا ثابت ہوتی ہے۔ جاں نثار اختر کی رومانیت کلاسیکی غزل
کی اردو روایت کا نئے انداز سے اظہار ہے۔ نئے انداز سے اظہار بھی اچھی بات ہے مگر
وہ فیض کی طرح ہو جس کی شاعری کی فضا دل و دماغ کو مسحور کرلیتی ہے۔
جاں نثار اختر نے اپنی شعری
تراکیب، استعارے اور لفظیات وضع نہیں کیے۔ انھوں نے ہیئت کے بھی تجربے نہیں کیے
صرف رومانی ذہن اور رومانیت شاعری کو مقبولیت نہیں عطا کرسکتی اس کا کچھ پس منظر
بھی ہونا چاہیے۔ ہاں لہجے کی روانی، سادگی اور سلاست یہ بتاتی ہے کہ ان کے دل میں
کوئی جذبہ ہے جو بار بار کروٹیں لیتا ہے مگر بیدار نہیں ہوپاتا۔ ایک انگارہ تو ہے
مگر شعلہ نہیں بن پاتا۔ ان کی گھر آنگن کی شاعری کی تعریف کرشن چندر نے بھی کی ہے
کہ فراق کی ’روپ‘ کی رباعیات میں نسوانی حسن کی منظرکشی سے پرے یہ ایسی عورت کی
تصویر کشی کی گئی ہے جو گھرآنگن میں کبھی سلائی کی مشین تو کبھی دیگر گھریلو کام
سے وابستہ ہے یقینا یہ ایک نئی بات ہوسکتی تھی لیکن سماجی اقدار بدلتی رہتی ہیں
اور آج تانیثیت (Feminism) کے دور میں جب مرد و زن کے حقوق برابر کیے جارہے ہیں۔
(مجاز پہلے ہی عورت کو آنچل کا پرچم بنانے کے لیے مہمیز کرچکے ہیں) ایسے میں یہ
رباعیات کسی تخلیقی رجحان کا باعث نہیں بن سکتی اور یہ فراق کی رباعیات کے برابر
رکھی جاسکتی ہے۔ ہاں زبان و بیان کے لحاظ سے ایک صاف ستھری منظرنگاری ہے۔ ان کے
کچھ اشعار جو زبان زَد ہیں اس طرح ہیں:
فسانہ بھی ان کا ترانہ بھی ان
کا
جوانی بھی ان کی زمانہ بھی ان
کا
رخوں کے چاند، لبوں کے گلاب
مانگے ہے
بدن کی پیاس، بدن کی شراب
مانگے ہے
زلفیں، سینہ ناف، کمر
ایک ندی میں کتنے بھنور
مجھ کو خود اپنی جوانی کی قسم
ہے کہ یہ عشق
اک جوانی کی شرارت کے سوا کچھ
بھی نہیں
اس مضمون میں کچھ ایسی بحث در
آئی ہے جس سے کسی کو یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ جاں نثار اختر کے مقام کو کم کرنے کی
کوشش کی گئی ہے ایسا نہیں کسی بھی شاعر کو اس کے عہد سے کچھ پہلے اور بعد کے شعرا
کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور یہ کہ اس کے فن اور فکر سے کتنے ذہنوں کی آبیاری
ہوئی۔ جاں نثار اختر کا اردو شاعری میں جو مقام ہے وہ واضح ہے وہ ایک صاف ستھرے
مزاج اور زبان کے شاعر ہیں۔
Mr. Arif Husain Jaunpuri,
Sahodarpur
West,
Near Kindder
Garten Academy,
Station Road,
Partapgarh - 230001 (UP)
ماہنامہ اردو دنیا،فروری 2014
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں