13/5/19

آفتاب تنقید کی تخلیقی ضیا: وارث علوی مضمون نگار: ترنم ریاض


آفتاب تنقید کی تخلیقی ضیا: وارث علوی
 ترنم ریاض

وارث علوی کے انتقال سے کچھ ہی روز پہلے ممبئی میں اُن کے فن و شخصیت پر منعقدہ سیمینار میں پڑھے گئے مضمون کے اہم اقتباس:

دنیا کا کوئی بھی ادب تنقید کے بغیر نامکمل ہے اور یہ بات زبانِ اردو پر بھی صادق آتی ہے۔ تنقید کی سپاٹ اور خشک سرزمین سے کبھی کبھی ایسے چشمے بھی پھوٹ پڑتے ہیں جو قاری کو تازگی اور شگفتگی بخشتے ہیں۔ اردو میں یہ کام پروفیسر وارث علوی نے کیا ہے۔ ان کے تخلیقی ضیاپاروں سے اردو ادب روشن اور منور ہے۔ ان کا ایک منفرد اور قیمتی contribution یہ ہے کہ انھوں نے اردو تنقید کو تخلیق کے مقام تک پہنچایا ہے۔ اکثر و بیشتر تنقید نگار تخلیق سے مکمل طور پر الگ ہوجاتے ہیں اور objectivity حاصل کرنے کی تگ و دو میں تنقید کو بے جان بنا دیتے ہیں۔ وارث علوی فن پاروں میں کسی ماہر غوطہ زن کی طرح ڈوب کر ابھرتے ہیں تو ان کے دونوں ہاتھ موتیوں سے بھرے ہوتے ہیں اور اس سارے عمل میں انھیں objectivity کا بھی برابر احساس رہتا ہے۔
اردو دنیا نے ایسی تخلیقی تنقید اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی اور اس کے بعد بھی شاید کبھی نہ دیکھے ۔ تنقید اگر فن ہے تو اس میں وارث علوی کی شخصیت کا پورا اظہار ہے اور یہ شخصیت مرکب ہے ایک بہت ہی منفرد حس مزاح سے، طنز سے اور مشکل مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرنے سے۔ وارث علوی نے تنقید کی خشکی میں تخئیل اور حس مزاح سے وہی رنگارنگی اور تازگی پیدا کی ہے جو ادب اور زندگی میں پائی جاتی ہے۔ ادب کو انھوں نے اپنی زندگی کا مرکزی مقام دیا ہے۔ ان کے یہاں تنقید میں تنوع بہت ہے۔ طنز بھی ہے اور مزاح بھی ہے، سادگی بھی ہے اور پرکاری بھی ہے۔ ان کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ انھوں نے تنقید کو readableبنایا۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجےے:
دنیا کی بڑی ناولیں جنگل کی طرح پھیلتی ہیں۔ ان میں آرٹی ناولوں کی تراش خراش اور چمن بندی نہیں بلکہ ان کا حسن پھیلتے ہوئے جنگلوں کا مہیب اور پراسرار حسن ہے۔ بیانیہ آرٹ کی حنابندی کا کام نہیں کرتا۔ استعاروں کے کنگن سے نہیں کھیلتا۔ علامتوں کے نگینے نہیں ٹانکتا۔ بلکہ آبشاروں کی طرح گرتا ہے زبان کا لاکھوں ٹن پانی گرجتا ہوا، نرم و نازک پھوار اڑاتا، دھنک کے رنگ بکھیرتا، وادی کو صاف و شفاف جھیلوں میں بدلتا، جنگل کی پرپیچ ندیوں کی مانند بہتا، تاریخ اور تمدن اور تہذیب کو اپنی باہوں میں لیتا ہوا ہمیں حیرت زدہ اور ششدر چھوڑ جاتا ہے۔ رزمیہ نظموں اور زمیہ ناولوں کا یہی اسلوب ہے۔
(شاعری اور افسانہ: بت خانہ چین، ص 460-61)
وارث علوی کی شخصیت کے الگ الگ نمایاں پہلو ہیں۔ تعریف کرنے پہ آئیں تو شاعرانہ لب و لہجہ، کھری بات کہنا ہو تو جملو ںکی کرشمہ سازی۔ ان کی تنقید خشک فلسفیانہ مباحث سے عبارت نہیں بلکہ وہ قاری کی ادبی دلچسپیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی ہے۔ اس لیے ان کی تحریریں کوئی دبستان نہیں بناتی بلکہ وہ ادب اور آرٹ کے مختلف متنوع پہلوؤں کا رنگارنگ مشاہدہ پیش کرتی ہیں۔ ان کی تنقید پر تخلیق کا گماں گزرتا ہے۔ ان کا اسلوب کچھ ملکوتی سا ہے کہ آمد کے کسی شعر مسلسل کی صورت نازل ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہ اقتباس دیکھیے:
ملارمے (فرانسیسی شاعر و نقاد) نے کہا ہے کہ شاعری خیالات سے نہیں، الفاظ سے کی جاتی ہے۔ شاید اسی لےے ایلیٹ نے یہ نہایت بصیرت افروز بات کہی کہ شاعری کا سماجی فنکشن یہ ہے کہ وہ زبان کو محفوظ رکھے۔ موضوع کی اہمیت سہی لیکن لوگ سونے کی بدصورت مورت پر پتھر کے خوبصورت مجسمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آرٹ اپنے میڈیم کا شدید ترین استعمال ہے۔ شاعری کا میڈیم زبان ہے جس طرح سنگیت کی آواز، مصوری کا رنگ اور سنگ تراشی کا سنگ، مصور سبزے کو محض ہراہی نہیں بلکہ نیلا، پیلا، سیاہ، سرخ، زریں اور سیمابی بھی بتاتا ہے اور اسی طرح رنگوں کے اس نظام کو درہم برہم کردیتا ہے جس سے ہم اپنی زندگی میں مانوس ہوتے ہیں۔ مغنی کا نغمہ ہوش ربا سنےے۔ آواز کبھی میگھ کی طرح برستی ہے، کبھی شعلے کی طرح سلگتی ہے، کبھی پراسرار جنگلوں کی گنگناہٹ، کبھی گھنی جھاڑیوں میں بہتی ہوئی ندی کا پرسکون ترنم اور کبھی پہاڑوں کے سناٹوں میں لرزتی کسی پرند کی پکار بنتی ہے۔ سنگ تراش کے ہاتھوں کا لمس پاکر پتھر کبھی پھول کی پنکھڑیاں بنتے ہیں، کبھی حریر اور پرنیاں، کبھی کنواری مریم کی معصومیت کبھی رقاصہ کی پرشوق شرارت۔ شاعری کا میڈیم زبان ہے اور ایلیٹ نے تو کہا ہے کہ نہایت ہی سرکش اور ضدی میڈیم ہے۔ الفاظ چوراہوں پر بھٹکتے ہیں، جگ بیتی میں پستے ہیں اور ان کے بدن سے پیش رو شاعروں کے اتنے احساسات چمٹے ہوتے ہیں کہ شاعر سوچتا ہے کہ ان سے اپنے منفرد احساس کی ترجمانی کا کام کیسے لے۔“ (کچھ بچا لایا ہوں، بت خانہ چین، آخر میں)
علم و ادب کی اس درافشانی میں میرے خیال سے پروفیسر علوی کے فطرتاً فن کار ہونے کے علاوہ کہ playwright بھی ہیں، مغربی ادب کا مطالعہ بھی کارفرما ہے۔ جو بھی تحریکیں آئیں ان سب سے انھیں واقفیت اور درک ہے۔ ان کی کتب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ڈبلیو ایچ وارڈن (W H Warden)، ٹی ایس ایلیٹ (T S Eliot)، میتھیو آرنلڈ (Methew Arnold) اور بہت سے دوسرے اہم ادبا کو براہِ راست ایک قاری کی طرح پڑھا ہے نہ کہ ترجموں کے ذریعے۔ ان ادیبوں پر تحریر شدہ تنقید سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ ان کے بارے میں ان کا اپنا وژن ہے اپنا تجزیہ ہے۔ وارث علوی کی تنقید میں نظریاتی اشتہار ملتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ اور باوقار سرمایہ ہے۔ ان کا ہر مضمون Quotable Writings کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اعلیٰ ادب ہر دور میں تخلیق ہوتا رہا ہے مگر اردو کا ہر قاری جانتا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں آپسی رنجشوں نے اس زبان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ نظریاتی چپقلشیں یا کچھ کچھ معاصرانہ چشمکیں، گو کہ ہمیں ذاتی طور پر پسند نہیں مگر، ہوا کرتی ہیں دنیا میں۔ مثال کے طور پر انگریزی ادب کے قارئین جانتے ہیں کہ برنارڈشا نے شیکسپیئر پر کس قدر تنقید کی ہے۔ یہاں تک کہ لیڈی میکبیتھ کے کردار میں انھیں کوئی کردار ہی نظر نہیں آتا یا جیسے اوتھیلو کی جادو بھری شاعرانہ زبان کو انھوں نے غیرضروری تک کہہ دیا مگر خود ان کے ڈراموں میں شیکسپیئر کے اسلوب کی جھلک پوشیدہ نہیں رہ پاتی۔ اس کے باوجود برنارڈشا نے ایک جگہ لکھا ہے:
"But i am bound to add that i pity the man who can not enjoy Shakespeare. He has outlasted thousands of able thinkers and will outlast a thousand more"
برنارڈشاہ بنیادی طور پر صحافی تھے۔ صحافت کی تخلیق سے رقابت کچھ سمجھ میں آسکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی مفصل جائزہ نہیں لیا گیا۔ لیکن انھوں نے کھلے دل سے شیکسپیئر کی عظمت کا اعتراف کیا۔ ہمارے یہاں تو عجب بات یہ ہے کہ وارث علوی کی تنقید پر کسی نے سیر حاصل لکھا ہی نہیں۔ جب کہ خود انھوں نے اپنے ہر معاصر نقاد کی ذرا سی بھی قابلِ توجہ تحریر کو نظر انداز نہیں کیا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اکثر ادب نواز صاحب اثر و رسوخ اس بات کا اعتراف بھی نہ کرسکے کہ انھوں نے پروفیسر علوی کے خامۂ فصیح بیان کے کراماتی خزینے سے ہر قاری کی طرح دانشوری کے موتی چنے ہیں۔ اس بات پر عام قاری حیران ہیں اور وارث علوی کے فن کو یعنی اعلیٰ آرٹ کو پسند کرنے والے پریشان بھی۔ شاید اس لےے کہ وارث علوی نے نظریاتی لڑائیاں بھی لڑیں اور وہ کسی ایک مسلک کے مرہون نہیں رہے۔
کسی زمانے میں پاپولر ادب اور خالص ادب جدا جدا زمروں میں آتا تھا اور یہ بات جب صادق آتی تھی جب پاپولر ادب میں ابنِ صفی اور کرشن چندر جیسے بڑے فنکار، قاری کی معلومات میں اضافہ اور تخلیقی تشنگی کی تشفی کے ساتھ ساتھ ذہنی اور علمی تربیت ایک اعلا درجے کے اینٹرٹینگ انداز میں کیا کرتے تھے اور اعلیٰ ادب کے قاری کو مسجع اور مقفیٰ، پرشنائزڈ اور عمربیائزڈ قسم کی زبان کا نشہ تھا یا مضبوط تہذیب کی پروردہ خالص بامحاورہ اردو سراہی جاتی تھی۔ اب یہ بات تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ پاپولر ادب کے نام پر آپ کو سطحی زبان نظر آئے گی اور ادب کہلانے والی غلط اردو میں تحریر کتابیں، جن میں آپ کوئی ادبی زاویہ تلاش کرتے کرتے تھک ہار کر رہ جائیں گے۔
اس تناظر میں وارث علوی ایک منارۂ نور کی حیثیت سے ابھر کر آتے ہیں۔ ان کی علمی، تخلیقی اور تنقیدی شعائیں اردو ادب کے ہر گوشے کو منور کرتی ہیں۔ انھوں نے تنقید کو ایسا معیار عطا کیا ہے کہ اردو ادب کے طالب علم اس اعلیٰ ادب سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے۔ وہ اپنے عالمانہ طرزِ بیاں سے ایک عجیب قسم کا aura پیدا کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں زبان و بیان کے لحاظ سے ایک حیرت آفریں ماحول ترتیب دیتی ہیں کہ ہر جملے کی کئی علمی جہتیں ہوتی ہیں اور ہر جہت میں ایک نیا زاویہ آپ کو نئے معنی سے روشناس کرتا ہے، ہر معنیٰ سے دانش و آگہی کے نئے سوتے پھوٹتے چلے جاتے ہیں جو آپ کے ذہن میں نئے سوالات اور نیا تجسس پیدا کرتے ہیں اور آپ مزید بے قرار ہونے کے لےے اور پڑھتے ہیں، اور یہ سلسلہ کسی طرح منقطع کرنے پر آپ کے ذہن و دل راضی ہوتے نظر نہیں آتے۔ اردو ادب میں ایسا علمِ وہبی کبھی پہلے نہیں دیکھا گیا۔ وارث علوی کی تنقیدی نگارشات ادب آرٹ، سیاست، سماجیات، تہذیب، تاریخ، انسانی نفسیات، کارپوریٹ ورلڈ اور دنیا بھر کے علوم کا سیر حاصل ذکر ایک منفرد انداز اور سحر اسلوب بیان کا مرکب ہے۔ قاری کا ذہن حیران و ششدر علم کے سمندر میں ڈوب کر گرد و پیش سے انجان اور بے خبر جانے کہاں تیرتا پھرتا ہے مگر کنارے کی طرح لوٹنے کو جی نہیں چاہتا اور اردو ادب کی تنقیدی دنیا میں جس طرح کی خیمہ بندیاں نظر آتی ہیں، وہ قابلِ افسوس ہیں اور مضحکہ خیز بھی۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہوں کی طرح تنقید اور تجزیہ نگاروں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وارث علوی کو بھی اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ بغیر کسی اشتعال انگیزی یا جذباتیت کے ایسی صورتِ حال پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے مخصوص طنز و مزاح کے اوزاروں (Tools) کا استعمال کرکے اپنے تاثرات تحریر کرتے ہیں۔ ایک مثال دیکھیے:
تو بات دراصل یہ ہوئی کہ ہم نے منٹو پر دو تین مضامین لکھے تو اعتراض ہوا کہ منٹو کی cult بنا رہے ہیں۔ اب دیکھیے انگریزی میں سومر سیٹ مام جیسے دوئم درجے کے ناول نگار پر کم ازکم آٹھ دس تنقیدیں تو میری نظر سے گزری ہیں۔ یہاں دو تین مضامین میں ہی cult بنانے کا خدشہ جاگ اٹھتا ہے۔ انیسیوں اور دبیریوں کی گروہ بندی سے ابھی تک ہم نجات نہیں پاسکے۔ منٹو کی تعریف کیجیے تو کرشن کے گوالے سمجھتے ہیں کہ استاد پر، در پردہ چوٹ کی گئی ہے۔ اب ہم نے ادب میں قلعی گر کا ہی دھندا شروع کیا ہے تو مضامین کا پیٹ پالنے کے لیے برتنوں کی ضرورت تو پڑے گی۔ منٹو پر لکھا تو کرشن چندر پر بھی لکھا۔ اب بیدی پر لکھیں گے۔ کرشن چندر نے فن کی دیکچی کا استعمال احتیاط سے نہیں کیا تو کچھ ٹھوکنا بجانا بھی پڑتا ہے۔ ہم پروہت توہیں نہیں کہ برتن کا استعمال عصری آگہی کا پرشاد بانٹنے کے لےے کریں۔“ (جمالیات اور اخلاقیات کی کشمکش، بت خانۂ چین)
اس پر یاد آیا کہ پروفیسر صاحب نے ’راجندر سنگھ بیدی: ایک مطالعہ‘ ہمیں بھی ارسال فرمائی تھی مگر اس پر ہمارا نام نہیں تھا۔ وہ کتاب باقر مہدی کے نام تھی۔ لکھا تھا:
پیارے باقر مہدی کے لیے، ان پرکیف دنوں کی یاد میں جب تم یہ کتاب لکھنے کے لےے اصرار کیا کرتے تھے۔“ وارث علوی احمد آباد، 30 جنوری 2006
ہمارے نام کی کتاب شمس الحق عثمانی صاحب کے پاس پہنچی تھی۔ اس میں کسی کی ہمارے لیے ایسی ہی کتاب لکھنے کی دعائیں تھیں۔ استاد محترم کی دعاؤں کے طفیل ہماری کتابوں کی پذیرائی ہوئی، دلچسپی سے پڑھی گئیں، تحقیق کا موضوع بنیں۔ مگر خیال آتا ہے کہ اگر اردو کی یہ صورتِ حال نہ ہوتی تو پروفیسر صاحب کی کتابیں اپنے صحیح مقامات پر ہی پہنچتیں کہ استاذی نے آٹوگراف کرکے جہاں کتب بھیجی تھیں وہاں کوئی اردو نہ جانتا ہوگا اور اگر جانتا بھی ہوگا تو اسے کتابیں ارسال کرنے کی اس تہذیب کے بارے میں علم نہ ہوگا اور اگر ہوگا بھی تو پرواہ نہ ہوگی۔ ہمارے خیال میں اردو ایک تہذیب کا بھی نام ہے۔ دراصل جہاں زبانیں کمزور ہونے سے اقدار پر اثر پڑتا ہے وہیں زبانوں کے تنزل سے مجروح اقدار کا بھی تعلق ہوتا ہے۔
مجھے اکثر و بیشتر یہ احساس ہوتا ہے کہ وارث علوی کی شخصیت کا ایک رنگ درویشانہ بھی ہے۔ ان کے مزاج میں ایک انکسار ہے۔ برصغیر کے اتنے اہم ادیب اور تنقید نگار ہونے کے باوجود وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نقاد کو ہر حال میں قاری رہنا چاہیے۔ جب ہی وہ ادب کی تنقید اور تجزیے کے ساتھ مکمل انصاف کرسکتا ہے۔ اس طرح کے assertion کے لیے جس بالغ النظری اور وسیع القلبی کی خصوصیات ہونی چاہئیں، وہ وارث علوی کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔
ذرا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
میں کہہ چکا ہوں کہ نقاد کی بڑی آزمائش تو یہی ہے کہ وہ اپنے اندر رہ رہے قاری کو مرنے نہ دے۔ قاری کے اعصاب زندہ ہوتے ہیں اور جھوٹ نہیں بولتے۔ تنقید جھوٹ بولتی ہے کیوں کہ تنقید نظریاتی اور گروہی پاسداریوں کے تحت یا اپنی عالمانہ نخوت اور بلند جبینی کی نمائش کی خاطر پرفریب بیانات دینے کے ہتھکنڈوں سے واقف ہوتی ہے۔ نقاد جب ایک خاص قسم کے ادب کا داعی بنتا ہے تو وہ ایک چرب زبان سیلزمین کی طرح اپنے برانڈ کی تعریف کرتا ہے۔ نقاد اور قاری کا رشتہ سیلزمین اور کنزیومر کے رشتے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ لکھنے والے بھی نقادوں کے دستِ نگر بن جاتے ہیں کہ ان ہی کی نگاہِ التفات سے ان کی بے جان تحریریں جنسِ گراں بن سکتی ہیں۔ ایک وقت وہ آتا ہے جب نقاد خود اپنی چرب زبانی اور طراری کا ایسا گرویدہ ہوجاتا ہے کہ نہ اسے قاری کی ضرورت رہتی ہے نہ فنکار کی۔ جنس بکے یا نہ بکے۔ افسانہ چلے یا نہ چلے، بہرصورت اس کا قلم چلتا رہتا ہے۔ خود کام تنقید کو ادب تک کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ بولتی رہتی ہے ادب کے حوالوں کے بغیر، ادیبوں کے ذکر کے بغیر، تاریخ، فلسفہ، تہذیب اور معاشرتی علوم کے متن کے بغیر۔ یہ تنقید ادب نہیں بولتی، صرف تنقید بولتی ہے اور ایک ایسی زبان میں جو صرف اس کا جارگن (Jargon) کہلاتی ہے۔“ (بت خانہ، چین 607)
وارث علوی کے اس غیرجانب دارانہ اور Objective Framework کے تحت نئے اور پرانے یا قدیم اور جدیدادیبوں اور تخلیق کاروں کی تقسیم معدوم ہوجاتی ہے۔ وہ واقعتاً ایک قاری کی طرح ادب کا مطالعہ کرتے ہیں اور جہاں انھیں اطمینان ہوتا ہے، وہ ان تخلیقات کو اپنی تنقید کا موضوع بناتے ہیں۔ ہم بھی نہایت انکساری سے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری چند کاوشیں پروفیسر صاحب کی تنقید کا موضوع بنیں۔
ہمیں مگر استادِ محترم وارث علوی سے شکوہ بھی ہے کہ :
 خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
اردو ادب کی ایک اہم اور نامور فکشن رائٹر قرة العین حیدر کے کام میں استاذی نے کچھ بہت دلچسپی نہیں دکھائی۔ آپ ہی کا خامۂ فن شناس اورتخلیقی ذہن قرة العین حیدر کی تحریروں کے ساتھ انصاف کرسکتا تھا۔
پارٹیشن کے بعد سے اہل اردو کے درمیان بے اطمینانی، بے یقینی اور عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔ اس کی طرف اس زبان کے علم برداروں نے توجہ نہیں کی۔ اردو کی بقا کے لیے مل جل کر کچھ کیا گیا ہوتا تو آج صورتِ حال جدا ہوتی۔
اس حکمتِ عملی کے برعکس یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
اقبال صدی کے موقعے پر ٹائمز آف انڈیا میں باقر نے اقبال کے خلاف کالم لکھا۔ میں دہلی میں ایک بین الاقوامی سیمینار میں تھا۔ بہت سے لوگ چیں بہ جبیں ہوئے۔ مجھے بھی اچھا نہیں لگا۔ باقر نے جو باتیں لکھی تھیں غلط نہیں تھیں لیکن صحافتی کالم میں چونکہ اقبال کے فن، فلسفے اور عظمت کے بیان کی گنجائش نہیں تھی اس لیے پورا کالم عیب جو اور منافقانہ بن گیا تھا۔ اُس وقت کمارپاشی اور ان کا حلقہ اقبال کے مقابلے میں میراجی کو پیش کررہا تھا۔ کسی سنجیدہ مضمون میں اقبال پر تنقید اور بات ہے اور وقتِ جشن جب کہ پورے ملک کی نظریں اس پر مرکوز ہوں، ان لوگوں کی نظر میں جو اردو نہیں جانتے اور پورے اقبال سے واقف نہیں، اسے رسوا کرنا مجھے بہت ناگوار گزرا۔ (باقرمہدی پر خصوصی اداریہ، اردو ادب)
پروفیسر وارث علوی کی سب سے بڑی طاقت ساری آدمیت کے لیے انسان کی طرح سوچنا ہے۔ ان کی قابلیت کا سہرا اسی انسانیت اور اسی راست بازی کے سر جاتا ہے۔ ملاحظہ کریں:
ایسی ہی تکلیف مجھے اس وقت پہنچی جب باقر نے سلمان رشدی کی حمایت میں بیان دیا۔ خیر میں کوئی مذہبی آدمی نہیں ہوں لیکن Blasphemy کسی بھی مذہب کی ہو میں پسند نہیں کرتا کیوں کہ اس میں لاکھوں کروڑوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ سلمان رشدی کی کتاب سے تو عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ لیکن کیا کتاب اس قدر طاقت ور تھی۔ بطورِ ناول اس کا مقام کیا ہے، میں تو اسے تھرڈریٹ ناول سمجھتا ہوں۔ سوائے مذہب کی تضحیک کے کیا تھا اس میں۔“ (باقر مہدی پر خصوصی اداریہ اردو ادب)
جاگتی، بولتی اور مکالمہ کرتی یہ زندہ تحریریں اردو زبان کے رہتے تک رہیں گی۔ خدا ان کے خالق کو صحت اور تندرستی سے نوازے۔ اس تحریر کو ہم اپنی ایک غزل کے مقطعے پر ختم کرتے ہیں کہ:
میں ہوں اور وارث علوی کی کتابیں
دریچے ذہن کے کھلنے لگے ہیں
Tarannum Riyaz,
 C-11, Jangpura Ext.
 New Delhi - 110014



ماہنامہ اردو دنیا،فروری  2014



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں