15/5/19

رسالوں کی دنیا مضمون نگار: سہیل انجم




رسالوں کی دنیا
سہیل انجم

ہندوستان میں ادبی رسائل کی ایک بھرپور تاریخ موجود ہے۔ یہاں صحافت کے آغاز کے ساتھ ہی اخباروں میں ادبی نگارشات بھی شائع ہونے لگیں۔ رفتہ رفتہ ادبی جریدوں نے جنم لیا اور انھی جریدوں کی گود میں ادب پارے پرورش پانے لگے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ملک کا کوئی بھی قابل ذکر شہر ایسا نہیں ہے جہاں سے رسالے شائع نہ ہوتے ہوں۔ ماضی کی خاک چھانیں تو نگار، شاہراہ، مخزن، ساقی اور اس نوع کے دیگر بہت سے رسائل نظر آئیں گے جنھوں نے اپنے عہد کو بڑی حد تک متاثر کیا اور ایک سے بڑھ کر ایک اچھے ادیب پیدا کیے۔ آگے چل کر ’بیسویں صدی‘ اور ’شب خون‘ جیسے رسالوں نے ایک طویل عرصے تک اہل ذوق افراد کی ذہنی آبیاری کی۔
لیکن آج پہلے کے مقابلے میں حالات بدل گئے ہیں۔ پہلے ذہنی تفریح کا ذریعہ صرف اخبارات و رسائل ہی ہوا کرتے تھے۔ مگر آج صورت حال میں انقلابی تبدیلی آگئی ہے۔ یہ انٹرنیٹ اور سائبر کا دور ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ یہ صارفیت کا بھی عہد ہے۔ بدلے ہوئے حالات نے جہاں بہت سی چیزیں بدل دی ہیں وہیں رسائل و جرائد پر بھی اثر پڑا ہے۔ اس عہد میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا آج بھی رسالوں کی وہی معنویت اور اہمیت ہے جو پہلے تھی اور اسی کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جو رسالے نکل رہے ہیں ان کا مستقبل کیا ہے؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو زمانہ خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سماجی ارتقا کی شہ رگ ہی کیوں نہ بن جائے رسائل اور بالخصوص ادبی رسائل کی اہمیت اور معنویت ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہ بات الگ ہے کہ ان کی تعداد اشاعت میں تخفیف ہو جائے لیکن بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادبی ذوق کی پرورش میں ان کا رول ہر دور میں مسلم رہے گا۔ کیونکہ انسان کے، مادی ضرورتوں کے حصار میں جکڑے رہنے کے باوجود اس کو ذہنی غذا کی بھی ضرورت ہوگی اور اس غذا کی فراہمی میں رسالے سب سے تیز اور مؤثر ذریعہ ہیں۔ جہاں تک مطبوعہ رسائل کی بات ہے تو انٹرنیٹ کے اس عہد میں ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن اس معاملے کو ہم دوسرے نظریے سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ رسائل نے اپنا قالب بدلنا شروع کر دیا ہے اور اب پرنٹ رسائل کے مقابلے میں نیٹ رسائل کی تعداد میں نسبتاً زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ گویا مطبوعہ شکل ڈیجٹل شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ تاہم اس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ مطبوعہ دور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ گو کہ تعلیم یافتہ طبقے کی انٹرنیٹ تک رسائی کا فیصد بڑھتا جا رہا ہے پھر بھی ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہیں گے جو ڈیجٹل کے مقابلے میں پرنٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ نیٹ ایڈیشن سے دلچسپی رکھنے والے بھی مطبوعہ ایڈیشن کو پسند کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ پرنٹ رسائل کا دور ختم ہو جائے گا زیادہ قرین حقیقت نہیں لگتا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس انقلاب آفریں دور میں بھی شائع ہونے والے رسالوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جن میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں شامل ہیں۔ سرکاری رسائل کی تعداد کم ہے اور نجی رسائل کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ سرکاری ادبی رسالوں میں آجکل، اردو دنیا، ایوان اردو، ہماری زبان،اردو ادب، فکر وتحقیق، کتاب نما، بچوں کی دنیا، امنگ (نئی دہلی)۔ نیا دور (لکھنؤ) زبان و ادب (پٹنہ) اورجمناتٹ (چنڈی گڑھ) شامل ہیں۔ غیر ادبی سرکاری رسالوں میں یوجنا، سائنس کی دنیا اور سینک سماچار نئی دہلی سے نکلتے ہیں۔ بیشتر سرکاری ادبی رسائل وجرائد ریاستی اردو اکیڈمیوں اور دوسرے سرکاری اداروں سے شائع ہوتے ہیں۔ جبکہ پرائیویٹ رسائل وجرائد کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد ڈیڑھ دو سو سے کم نہیں ہوگی۔ جن میں ذہن جدید، ادب ساز، جہان غالب، عالمی اردو ادب، بک ریویو، نئی کتاب، پیش رفت، رہنمائے تعلیم (دہلی)شاعر، اثبات، نیا ورق، تکبیر، اور تحریر نو (ممبئی)، اسباق (پونہ)، فنون (اورنگ آباد)، امکان، گلبن اور لاریب (لکھنؤ)، تمثیل نو اور جہان اردو (دربھنگہ)، انتخاب (گیا)، رنگ (دھنباد)، ثالث (مونگیر)، آمد (پٹنہ)، احساس (مالیگاؤں)، بزم ادب (علیگڑھ)، جوش بانی (الٰہ آباد)، مژگاں (کلکتہ)، انتساب (سرونج)، سر سبز (دھرم شا لا ہماچل پردےش)ترویج (کٹک) ،خوشبوکا سفر (حےدرا ٓباد) ،تمثیل (بھوپال)، اداکار (بنگلور)، نئی صدی (بنارس)، کہسار (بھاگلپور)، روزن (اڑیسہ)، ابجد (ارریا)، ادیب انٹر نیشنل (لدھیانہ)، دبستان (کڈپہ)، عالمی ادبی گزٹ (مؤناتھ بھنجن) اور صدا (جموںو کشمیر) قابل ذکر ہیں۔
 رسائل کی یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔ تاہم یہ تعداد اس حقیقت کے اظہار کے لیے کافی ہے کہ انٹرنیٹ کے اس دور میں بھی رسالوں اور جریدوں کی اہمیت باقی ہے اور آئندہ بھی باقی رہے گی۔ البتہ ادبی رسائل کے بارے میں بعض ادیبوں اور نقادوں کی رائیں بدل رہی ہیں۔ کچھ لوگ اس رائے کے حامی نظر آتے ہیں کہ موجودہ عہد میں جو کہ صارفیت کا عہد ہے مطبوعہ رسائل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے خیال میں مستقبل انٹرنیٹ کا ہے اس لیے وہی رسالہ زندہ رہے گا جس کی رگوں میں ’سائبر لہو‘ دوڑ رہا ہوگا۔ لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے۔ البتہ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر ادبی رسالوں کو بھی عہدِ صارفیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا جائے تو ان کی بقا کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ آج کے دور میں صارفیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو اس کے دوش بہ دوش چلے گا وہی کامیاب ہوگا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سے پرانے اور اچھے رسائل بند ہو گئے ہیں یا بند ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کے متوازی یہ بھی ایک سچائی ہے کہ بہت سے نئے نئے رسالے جنم بھی لے رہے ہیں۔ ہاں وہ رسالے ضرور بہت جلد دم توڑ دیتے ہیں جو یا تو سرمائے کی آکسیجن کے بغیر نکلتے ہیں یا جن کی سوچ فرسودہ ہوتی ہے اور جو زمانے کے تقاضے کے مطابق نئے نئے تجربات سے گزرنے سے خوف کھاتے ہیں۔ جو رسائل سماج کی بدلتی سوچ اور بدلتے معیار کو سامنے رکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی روش طے کرتے ہیں ان کے لیے بقا کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہے جتنا کہ منجمد اور فرسودہ سوچ والے رسائل کا ہے۔ جو رسائل ادب میں نئے نئے مباحث کے دروازے کھولتے ہیں اور نئے ادبی ڈسکورس سے قارئین کو متعارف کراتے ہیں وہ تادیر زندہ رہتے ہیں۔ آج ایسے بہت سے رسالے ہیں جو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینے کے لیے عالمی ادب کی نمائندہ تحریروں کو اپنے صفحات پر جگہ دے رہے ہیں اور اپنے قارئین کی ذہنی آبیاری کے لیے جدید انداز اختیار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے رسالے اپنی موت کے باوجود زندہ رہتے ہیں اور ایسے بھی بہت سے رسالے ہیں جو زندہ ہونے کے باوجود مردہ سمجھے جاتے ہیں۔ وہ رسالے بھی تادیر زندگی کی حرارت سے ہم آغوش رہتے ہیں جو نئے نئے مگر اچھے ادیبوں کی کھیپ تیار کرتے ہیں۔ آخر انھی رسائل کے صفحات پر کرشن چندر، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو اور دوسرے بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے اپنے بال و پر کھولے اور وہی صفحات ان کے لیے نئی دنیاؤں میں پرواز کرنے کے لانچنگ پیڈ ثابت ہوئے۔ آج اس قسم کے رسالے بھی بند ہونے کے باوجود زندہ ہیں اور وہ ادیب و شاعر بھی دنیا سے چلے جانے کے باوجود سماج کے ذہنوں میں اپنی زندگی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
 اس تعلق سے ماہنامہ ’رہنمائے تعلیم آف لاہور‘ کا ذکر ضروری ہے کہ اس نے 105سال کی عمر پائی۔ اسے سردار جگت سنگھ نے 1905 میں پاکستان کے پنڈی کھیپ سے شروع کیا تھا۔ یہ 1947تک لاہور سے نکلتا رہا۔ تقسیم وطن کے بعد سردار جگت سنگھ اپنے اہل خاندان کے ساتھ دہلی آگئے اور یہاں سے انھوں نے اسے 1947 سے نکالنا شروع کیا۔ 1962 میں ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے سردار ہر بھجن سنگھ تھاپر اسے نکالتے رہے۔ انھوں نے اس رسالے کی عمر ایک صدی سے اوپر پہنچا دی۔ وہ آخر وقت تک اس کے مدیر رہے۔ 2006میں ان کے انتقال کے تین مہینے بعد یہ رسالہ بند ہو گیا۔ البتہ اسی نام سے ملتا جلتا ایک دوسرا رسالہ ابو نعمان 2006سے نکال رہے ہیں۔ وہ رہنمائے تعلیم آف لاہور سے 1967سے وابستہ رہے ہیں۔ اس رسالے کی ایک شاندار روایت رہی ہے جس کا اعتراف اردو کے انتہائی جید قلمکاروں، شاعروں اور ادیبوں نے کیا ہے۔ جن میں علامہ اقبال ، صوفی غلام مصطفی تبسم،ناخدائے سخن نوح ناروی، جوش ملسیانی، ملا رموزی، عبد الرؤف عشرت، خواجہ حسن نظامی اور بیشتر وزرا، سیاستداں اور انگریزی روز نامہ مسلم آؤٹ لک لاہور، زمانہ کانپور، زمیندار لاہور، معارف اور دیگر بے شمار ادبا شعرا علما و فضلا شامل ہیں۔ اس پرچے نے چند بہت اچھے اور معیاری خصوصی شمارے شائع کیے تھے۔
مرکزی حکومت کے ادارے پبلی کیشن ڈویژن دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’آجکل‘ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پرچہ 72برسوں سے نکل رہا ہے اور اس سے جوش ملیح آبادی، معین احسن جذبی، جگن ناتھ آزاد اور دوسرے بہت سے قد آور ادیب و شاعر وابستہ رہے ہیں۔ اس نے بھی بہت سے خصوصی شمارے شائع کیے ہیں جو اردو ادب کی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ جن میں اقبال، میر، غالب، نظیر اکبرآبادی، مولانا آزاد، منٹو، جاں نثار اختر، غلام ربانی تاباں وغیرہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ 1857کی پہلی جنگ آزادی کی ڈیڑھ سو سالہ تقریب کی مناسبت سے خصوصی شمارہ اور ہندوستانی فلم انڈسٹری کے سو سال پورے ہونے پر خصوصی شمارہ قابل ذکر ہیں۔
حکومت اتر پردیش کے محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ لکھنؤ سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’نیا دور‘ کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔ یہ پرچہ کم و بیش 68برسوں سے نکل رہا ہے۔ اس نے بہت سے خصوصی شمارے شائع کیے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ جن میں نصف صدی نمبر، اودھ نمبر، منشی نولکشور نمبر، بہادر شاہ ظفر نمبر وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس نے فراق گورکھپوری، مسعود حسن، عبد الماجد دریابادی، مہاتما گاندھی، جمہوریت، اندرا گاندھی، فیض احمد فیض، قرة العین حیدر،مجاز وغیرہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ اردو صحافت نمبر بھی شائع کیا ہے۔ مذکورہ رسالوں نے اردو معاشرے کو ایسا معیاری ادب پیش کیا ہے اور آج بھی پیش کر رہے ہیں جو اس کے اعلا ذوق کو جلا بخشتے ہیں اور اسے تہذیبی و ثقافتی طور پر مالا مال کرتے ہیں۔
لیکن آج کے بدلتے ہوئے ماحول میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ قارئین کو کس قسم کی تخلیقات دی جائیں اور وہ کیسا ادب پسند کرتے ہیں۔ در اصل یہ سوال ان لوگوں کے سامنے زیادہ شدت سے کھڑا ہو رہا ہے جو عصری تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور جن کا وژن محدود ہے۔ جو مدیر حضرات قارئین کی نبض پہچانتے ہیں وہ ان کی پسند کا خیال اور لحاظ بھی رکھتے ہیں۔ لیکن ایسے بھی مدیر حضرات ہیں جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی پسند کی چیزیں پیش کرتے ہیں اور قارئین ان کو پسند بھی کرتے ہیں۔ ماضی میں ’جاسوسی دنیا‘ کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جسے خریدنے کے لیے قارئین لائن لگائے رہتے تھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مدیر حضرات میں اس کی صلاحیت ہو کہ وہ اپنی پسند کی چیزیں قاری کو پڑھوا سکیں۔ ظاہر ہے یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کی نہ صرف قومی ادب پر بلکہ عالمی ادب پر بھی گہری نظر ہو اور جو بدلتے ہوئے رجحانات و میلانات کو سامنے رکھ کر اور نئی نئی چیزوں کو سلیقے کے ساتھ پیش کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔
رسالوں میں مواد کے ساتھ ساتھ ترسیل اور مالی منافع کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج رسالوں اور جریدوں کے مالکوں اور مدیروں کے سامنے ترسیل کا مسئلہ نہیں ہے۔ آج پرچے بھیجنے کی بہت سی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں جن سے لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ البتہ مارکیٹنگ کا مسئلہ ہے۔ جو پرچے اس فن سے واقف ہیں وہ اپنی تعداد اشاعت میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے شائع ہونے والا بچوں کا رسالہ ’بچوں کی دنیا‘ ہے۔ اس کے آغاز پر اس کی تعداد اشاعت بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھی۔ لیکن چند مہینوں کے اندر ہی اس کے سرکولیشن میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ بعض شہروں میں اس رسالے کی ہزاروں ہزار کاپیاں فروخت ہو رہی ہیں۔ اس کا سہرا بلا شبہ کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر خواجہ اکرام الدین اور اس کے اعزازی مدیر جناب نصرت ظہیر کے سر جاتا ہے جنھوں نے اس کو اتنا خوبصورت، متنوع اور معیاری بنایا ہے کہ وہ آج کے انٹرنیٹ کے عہد میں بھی بچوں کی ذہنی آبیاری کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قومی کونسل کے مارکیٹنگ شعبے کو بھی اس کا کریڈٹ دینا ہوگا۔ اسی طرح ماہنامہ ’اردو دنیا‘ ہے جو اپنی خوبصورت چھپائی، کاغذ اور معیار کے لحاظ سے دوسرے رسائل سے کہیں آگے ہے۔ ان دونوں رسالوں کے سامنے نہ تو ترسیل کا مسئلہ ہے اور نہ ہی مارکیٹنگ کا۔ مارکیٹنگ کے مسائل سے دوسرے سرکاری پرچے زیادہ دوچار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں موجود بعض افراد اس سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اگر وہ ان پرچوں کو اپنا پرچہ تصور کر کے ان کو بیچنے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈھیں تو ان کے لیے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ جیسے کہ ’آجکل‘ ہے۔ وہ ایک بہت اچھا پرچہ ہے اور اس سے بڑے بڑے ادیب اور انتہائی سرکردہ شخصیات وابستہ رہی ہیں۔ اس کے قارئین کا حلقہ بھی اہل ذوق افراد پر مشتمل ہے۔ اس میں فروخت ہونے کے بھی امکانات بھی ہیں اور اس کا ذوق بھی ادبی ہے۔ لیکن اس کا سرکولیشن حوصلہ شکن ہے۔
پرائیویٹ رسالوں نے اپنی بقا کے لیے بدرجہ مجبوری ایک ایسا راستہ اختیار کر لیا ہے جو زیادہ لوگوں کو پسند نہیں۔ وہ راستہ ہے گوشے نکالنے کا۔ اس کا آغاز ’شاعر‘ جیسے تاریخی پرچے نے کیا جسے حضرت سیماب اکبرآبادی نے شروع کیا تھا۔ کسی بھی رسالے کو زندہ رکھنے کے لیے صرف تخلیق کار اور قارئین ہی کافی نہیں بلکہ خطیر سرمائے کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ سرمائے کے بغیر کوئی رسالہ نہ تو چھپ سکتا ہے اور نہ ہی قارئین کے پاس بھیجا جا سکتا ہے۔ تو پھر اس صورت میں جبکہ پرچے منافع بخش نہ رہ جائیں اور ان کے سروں پر امراءاور اہل خیر حضرات کے دست شفقت نہ ہوں تو پھر ان کے زندہ رہنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اب دوسرے نجی پرچوں نے بھی شاعر کی روش اختیا ر کر لی ہے اور اب وہ بھی گوشے نکالنے لگے ہیں۔ شروع میں تو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ دوسرے اور تیسرے درجے کے شعرا وادبا پر گوشے کیوں نکالے جا رہے ہیں۔ لیکن اب کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لوگ گوشے دیکھ کر خود بخود سمجھ جاتے ہیں کہ فلاں شاعر یا ادیب پر اتنے صفحات کیوں صرف کیے گئے۔ ہاں کچھ پرچے ایسے بھی ہیں جو گوشے تو نکالتے ہیں لیکن اس بارے میں معیار کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایسی سربرآوردہ شخصیات پر گوشے شائع کرتے ہیں جن کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ انھوں نے اس کے عوض پرچے کے اہتمام اور طباعت کی ذمے داری لی ہوگی۔ کیونکہ ان کو اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان کا قد ادب و شاعری میں اتنا بلند ہے کہ لوگ از خود ان پر مضامین شائع کر کے اپنے پرچوں کو وقیع اور معیاری بناتے ہیں۔ لیکن بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گوشوں کی اشاعت سے ان پرچوں نے اپنی بقا کا کسی نہ کسی طرح انتظام کر لیا ہے جن کے ایڈیٹر مالی اعتبار سے مستحکم نہیں ہیں۔ اسے پسند کیا جائے یا نہ کیا جائے۔
کچھ سیاسی پرچے بھی شائع ہوتے ہیں جن میں دہلی سے نکلنے والے ماہنامہ ’افکار ملی‘ اور ماہنامہ ’ملی اتحاد‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ افکار ملی 29برسوں سے اور ملی اتحاد 21برسوں سے نکل رہا ہے۔
اوپر بچوں کے رسالہ ’بچوں کی دنیا‘ کا ذکر آیا ہے لہٰذا چند باتیں بچوں کے رسالوں پر بھی گوش گزار کی جارہی ہیں۔ گوجراں والا پاکستان کے منشی محبوب عالم نے 1902میں ’بچوں کا اخبار‘ نام سے بچوں کا رسالہ شروع کیا تھا جسے ادب اطفال میں اولین رسالے کا شرف حاصل ہے۔ وہ دس سال نکلا۔ اس کے بعد مولوی ممتاز علی نے ’پھول‘ نکالا جو 48سال تک نکلنے کے بعد 1958میں بند ہوا۔ مکتبہ جامعہ کا رسالہ ’پیام تعلیم‘ بھی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ وہ 1926میں شروع ہوا اور اب تک نکل رہا ہے۔ شمع گروپ کا رسالہ ’کھلونا‘ بھی بہت مقبول پرچہ تھا۔ اس کے علاوہ نور رامپور، غنچہ بجنور، بچوں کا اچھا ساتھی سرکڑہ بجنور، کلیاں لکھنؤ، ٹافی، اسکول ٹائم اور گل بوٹے ممبئی، امنگ نئی دہلی جیسے رسالوں کی بھی اپنی تاریخ ہے۔ اس کے علاوہ بنگلور سے غبارہ اور حیدرآباد سے فنکار نکل رہے ہیں یہ بھی بچوں کے رسالے ہیں۔ اب ’بچوں کی دنیا‘ نے ادب اطفال میں ایک نیا باب جوڑا ہے اور امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ پرچہ اس سلسلے میں سنگ میل کا درجہ حاصل کرے گا۔
البتہ آج کل طنز و مزاح کے پرچے کم نکلتے ہیں۔ پہلے کئی رسالے نکلتے رہے ہیں لیکن اس وقت ہندوستان اور پاکستان سے طنز و مزاح کا واحد معیاری رسالہ ’شگوفہ‘ ہے جو حیدرآباد سے نکلتا ہے۔ اس میدان میں اس نے جو تاریخ مرتب کی ہے وہ کسی بھی پرچے کے لیے باعث فخر ہو سکتی ہے۔ یوں تو جب بھی طنز و مزاح کی بات آتی ہے تو لکھنؤ کے ’اودھ پنچ‘ کا نام لیے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ اس رسالے نے طنز و مزاح کی صنف کے فروغ میں جو نمایاں رول ادا کیا ہے اسے اردو دنیا کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ لیکن معیار، سلیقہ، تعداد اشاعت اور تسلسل اشاعت کے سلسلے میں ’شگوفہ‘ نے بھی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ یہاں تک کہ اس نے طنز و مزاح کے میدان میں اودھ پنچ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ رسالہ 47برسوں سے پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ اس کا ایک بھی شمارہ نہ تو ناغہ ہوا ہے اور نہ ہی ایک سے زائد شماروں پر مشتمل اس کا کوئی شمارہ نکلا ہے۔ اس کا سہرا بلا شبہ اس کے ایڈیٹر مصطفی کمال کے سر جاتا ہے جو تقریباً نصف صدی سے مسلسل اسے نکال رہے ہیں۔ کسی بھی ایڈیٹر کے لیے اتنی لمبی مدت تک کسی رسالے کی ادارت کی ذمے داری سنبھالنا بھی فخر کی بات ہے۔ اس رسالے کی اشاعتِ مسلسل اور اس کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ اس کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کا فن آتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس نے کبھی بھی معیار سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس میں طنز و مزاح کے اعلی نمونے شائع ہوتے ہیں چھچھورے اور مزاح کے نام پر بھانڈ پن والے مضامین نہیں۔ شگوفہ کے علاوہ بنگلور سے طنز و مزاح کا ایک رسالہ ’ظرافت‘ نکلتا ہے لیکن وہ ماہنامہ نہیں بلکہ سہ ماہی ہے۔
ادبی رسالوں کے مساوی ملک بھر سے مذہبی رسالے بھی بڑی تعداد میں شائع ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں مذہبی صحافت کا آغاز انیسویں صدی میں عقائد کے تصادم کے نتیجے میں ہوا تھا۔ رفتہ رفتہ مذہبی رسالوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور آج بیشتر بڑے اور متوسط دینی مدارس اپنا پرچہ نکالتے ہیں۔ متعدد دینی و مذہبی تنظیمیں بھی اپنا رسالہ نکالتی ہیں۔ اگر ہم مواد اور مضامین کے اعتبار سے ان رسالوں کی زمرہ بندی کریں تو انھیں علمی و تحقیقی، مذہبی و مسلکی، نیم مذہبی نیم سیاسی اور عوامی زمروں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ لیکن جو رسالے اور جریدے اس وقت شائع ہو رہے ہیں ان میں اول الذکر قسم کی تعداد بہت کم ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان کا مزاج علمی اورتحقیقی رکھا جائے گا تو وہ اپنے ’مقصد‘ میں ناکام رہیں گے۔ البتہ کچھ پرچے ایسے بھی ہیں جن میں علمی وتحقیقی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ’معارف‘ اعظم گڑھ، ’بحث و نظر‘دہلی اور ’تحقیقات اسلامی‘ علی گڑھ۔
 اس وقت جو مذہبی پرچے نکل رہے ہیں ان میں دہلی سے زندگی نو، التبیان،ماہ نور، جام نور، اللہ کی پکار، ذکریٰ، نوائے اسلام، الرسالہ، ہدیٰ اور ترجمان دارالعلوم قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ معارف اعظم گڑھ، محدث بنارس، اشرفیہ مبارکپور، ضیائے وجیہ رامپور، الفرقان ڈومریا گنج، استدراک دریاباد، فکر اسلامی بستی،اصلاح اور شعائے عمل لکھنؤ اتر پردیش۔ (اصلاح نے ایک صدی سے بھی زیادہ عمر پا لی ہے۔ اس کا صدی ایڈیشن 1999 میں شائع ہوا تھا اور یہ اب بھی نکل رہا ہے)۔ البلاغ صوت الحق ممبئی، سنی دعوت اسلامی اور صوت الحق مالیگاؤں مہاراشٹرا۔ پیام توحید کشن گنج، ندائے پاسدار پٹنہ اور سہ ماہی جام شہود بہار۔ الفیصل، ردائے حرم، ضیائے علم اور بطحا حیدرآباد۔ دین مبین بھوپال، دار السلام مالیر کوٹلہ پنجاب، ہدایت جے پور، مجلہ اہلحدیث شکراوہ ہریانہ، راہ اعتدال چنئی، صوت القرآن احمدآباد، الحیات، حکیم الامت، فکر و نظر، النور اور المصباح جموں و کشمیر قابل ذکر ہیں۔ ملک بھر سے نکلنے والے دینی رسائل کی تعداد دو سو سے زائد ہے۔ لیکن ان میں سے بیشتر پرچے غیر معیاری ہیں اور ان کا سرکولیشن بھی بہت کم ہے۔ ان پرچوں میں مسلکی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے اور کچھ رسالے تو ایسا لگتا ہے جیسے مناظرہ کر رہے ہوں۔ ان پرچوں کے غیرمعیاری ہونے کی کئی وجہیں ہیں جن میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے مدیر عام طور پر غیر صحافی ہوتے ہیں۔ مدارس میں تدریسی خدمات انجام دینے والوں میں سے کسی ایک کو اس کی ادارت کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے جو لشٹم فشٹم اسے نکالتا رہتا ہے۔ اسی لیے ایسے بہت سے رسالے پابندی کے ساتھ نکل بھی نہیں پاتے۔ کبھی کوئی شمارہ ناغہ ہو گیا تو کبھی زائد از ایک شماروں پر مشتمل شمارہ نکال دیا گیا۔ لیکن بہر حال معاشرے پر ان رسالوں کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کسی زمانے میں دیوبند سے نکلنے والے مولانا عامر عثمانی کا رسالہ ’تجلی‘ کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
 اسی طرح طبی رسائل بھی خاطر خواہ تعداد میں نکلتے ہیں۔ جن میں حکومتی ادارے این سی سی آر یو ایم سے نکلنے والا پرچہ ’جہان طب‘ بھی ہے۔ اس کے علاوہ دہلی ہی سے ’الشفا‘ اور ’مسائل دین و دنیا اور طب‘ الہ آباد سے ’نوائے طب و صحت‘ اور ہمدرد سے پندرہ روزہ ’ہمدرد‘ بھی شائع ہوتے ہیں۔ ان میں جہان طب غالباً سب سے پرانا رسالہ ہے۔ اس کے بعد الشفاکا نمبر آتا ہے۔ یہ دونوں پرچے کافی معیاری ہیں اور ان کا سرکولیشن بھی خاصا ہے۔ ان پرچوں کے علاوہ مختلف دوا ساز کمپنیاں بھی اپنے پرچے نکالتی ہیں جو ادویات کی تشہیر کے لیے وقف ہیں۔ ان پرچوں کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اس طرح پورے ملک سے خاصی تعداد میں ادبی، سیاسی، طبی اور مذہبی رسالے نکلتے ہیں۔ لیکن اردو آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ تعداد بہت کم ہے۔ ابھی مزید رسالوں کی گنجائش ہے۔ یا جو رسالے شائع ہو رہے ہیں ان کا سرکولیشن بڑھ سکتا ہے، ان کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اردو والوں کو سامنے آنا ہوگا۔ انھیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انھیں اردو سے محبت ہے اور وہ اردو کو چاہتے ہیں۔ ابھی تک ہم ایسا کوئی بھی ثبوت دینے سے قاصر ہیں۔ ہم اردو کو دوسری زبان بنانے اور اس کو اس کا جائز حق دینے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں اور اردو کے نام پر پروگرام بھی منعقد کرتے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ سب کچھ دکھاوا ہے ریاکاری ہے۔ ہمیں نہ تو اردو زبان سے کوئی لگاؤ ہے اور نہ ہی ہم اس کی قدر کرتے ہیں۔ ہم حکومتوں سے یہ مطالبہ تو کرتے ہیں کہ وہ اردو کو روزگار سے جوڑے لیکن ہم خود اس سلسلے میں کوئی کوشش کرنا نہیں چاہتے۔ یہ تو اردو زبان ہے جو اپنی سخت جانی کی وجہ سے زندہ ہے۔ ورنہ دوسروں کو کیا کہا جائے خود ہم اردو والوں نے اسے زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو کے اساتذہ ہوں یا اردو کے اخباروں میں کام کرنے والے لوگ ہوں، سب اردو کے مجرم ہیں۔ دہلی او راتر پردیش سمیت پورا شمالی ہند کسی زمانے میں اردو کا مرکز ہوا کرتا تھا لیکن آج اسی مرکز سے اردو کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکل رہا ہے اور وہ ہم ہی ہیں جو بڑھ چڑھ کر اس کو کاندھا دے رہے ہیں۔ اتر پردیش کو تو ہم نے اردو کی ایک وسیع قبرگاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں اور اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کم از کم اردو رسائل و جرائد خرید کر پڑھیں تاکہ نہ صرف یہ کہ وہ زندہ رہیں بلکہ ہماری اور آنے والی نسلوں کی ذہنی نشوونما میں بھرپور کردار بھی ادا کریں۔


Suhail Anjum, 
370/6A, Zakir Nagar, 
New Delhi-110025


ماہنامہ اردو دنیا،اپریل  2014



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں