15/5/19

اشعارِ غالب سے ماخوذ عنوانات مضمون نگار: عسکری صفدر




اشعارِ غالب سے ماخوذ عنوانات
عسکری صفدر



مرزا غالب کی شاعرانہ عظمت کا دائرہ مشرق سے مغرب تک ہے۔ ان کے اشعار ہمہ جہتی معنویت رکھتے ہیں اور یہ اشعار ہر دل کی آواز بن جاتے ہیں۔ کلامِ غالب پر اتنا کچھ لکھا جانے کے باوجود آئے دن نئے نئے پہلو سامنے آتے جارہے ہیں۔ معروف ادیب و محقق فاروقی ارگلی لکھتے ہیں: ”غالب نے اپنی بات کہنے کے لیے رمزیت، ایمائیت، تشبیہات، استعارات، تراکیب اور لفظ و معنی کا ایسا طلسم تخلیق کیا، جس کی سحرانگیزی نے پوری دنیا کو مسحور کردیا ہے۔ ایک بے جان لفظ بھی غالب کے شعر میں آکر بولنے لگتا ہے۔
(وارداتِ غالب ص 7، فرید بک ڈپو نئی دہلی 2014)
غالب نے مروجہ الفاظ کو روایت کے تنگ دائرے سے اٹھا کر نئے معنوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نئی طرز ادا سے اپنے اسلوب کو پیش کیا۔ ان کے کلام کی ہمہ گیری اور افکار ان کے وقت سے آگے تھے۔ انھوں نے شاعری اور نثر کو نئی راہ پر گامزن کیا۔ اس طرح غالب کے اثرات آنے والے اردو ادیبوں اور شاعروں پر نہایت دیرپا اور گہرے ثابت ہوئے۔
غالب سے اپنی شعری کاوشوں میں بعد میں آنے والے بہت سے شعرا نے استفادہ کیا ہے۔ اسی طرح غالب کے اشعار سے نئے الفاظ اور نئی تراکیب کو شاعروں، ادیبوں اور فکشن نگاروں نے اپنی کتابوں کے عنوانات کے لیے طرہ امتیاز قرار دیتے ہوئے استعمال کیا۔ کلام غالب کی معنویت اور مقبولیت کا یہ بھی ایک نمایاں پہلو ہے۔
ذیل میں ان ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں کے نام ہیں اور ساتھ ہی وہ شعریا مصرعے بھی دےے گئے ہیں جن سے عنوانات اخذ کےے گئے ہیں۔
علامہ اقبال (1877-1938) نے اپنے شعری مجموعے کا عنوان ’بال جبریل‘ (1935) غالب کے اس شعر سے اخذ کیا 
تیرا انداز سخن شانۂ زلف الہام
تیری رفتار قلم جنبش بال جبریل
اس کے بعد مشہور ادیب و ماہر تعلیم مولانا حبیب الرحمن شروانی (1867-1950) نے جو اپنے آخری دور میں اپنے ایک رسالے کا عنوان ’نقش وفا‘ رکھا جو غالب کے اس شعر سے لیا گیا 
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
اسی طرح مشہور شاعر جعفر علی خاں اثر (1885-1967) نے اپنی رباعیات کے مجموعے کا عنوان ’لالہ و گل‘ غالب کے اس شعر سے لیا۔ مشہور ادیب ابوسفیان اصلاحی نے بھی اپنے خاکوں کے مجموعے کا عنوان ’لالہ و گل‘ ہی رکھا
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
رشید احمد صدیقی (1894-1977) نے اپنی دو کتابوں کے عنوان ’آشفتہ بیانی میری‘ اور ’گنج ہائے گراں مایہ‘ غالب کے ان اشعار سے منتخب کیے
کیا بیاں کرکے مرا  روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
آنند نرائن ملا (1901-1997) نے اپنے شعری مجموعے ’جوئے شیر‘ کا عنوان اور عبدالحمید عدم نے بھی اپنے شعری مجموعے کا عنوان ’جوئے شیر‘ غالب کے اس مصرعے سے رکھا
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
لاہور (پاکستان) کے ادیب و صحافی مولانا صلاح الدین احمد (1902-1964) نے اپنے مجموعہ مقالات کا عنوان ’صریرخامہ‘ غالب کے اس شعر سے اخذ کیا
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
اسی مصرعے سے محقق و ادیبہ ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی نے اپنی کتاب کا عنوان ’نوائے سروش‘ منتخب کیا۔
ادیب و مورخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (1903-1981) نے اپنی کتاب کا عنوان ’صید زبوں‘ منتخب کیا۔ مشہور ادیب و نقاد مجنوں گورکھپوری (1904-1988) نے بھی اپنے ناول کا عنوان ’صید زبوں‘ غالب کے اسی شعر سے لیا  
خیال مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے
مرے دام تمنا میں ہے اک صید زبوں وہ بھی
اس کے علاوہ مجنوں گورکھپوری نے ناول کے بعد اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے کا نام ’غزل سرا‘ اس مشہور شعر سے اخذ کیا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا
نامور محقق و ماہر غالبیات مالک رام (1906-1993) نے یوں تو غالب پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن اس کتاب ’تذکرۂ ماہ و سال‘ کا عنوان غالب کے اس شعر سے رکھا
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فکشن نگار اور ناقد اختر اورینوی (1910-1977) نے اپنے ناول ’حسرت تعمیر‘ اور ناول و افسانہ نگار میرزا ادیب (پ 1914) نے اپنے افسانوی مجموعے کا عنوان ’حسرت تعمیر‘ اور اکرام بریلوی (پاکستان) نے اپنے ناول کا عنوان ’حسرت تعمیر‘ غالب کے اس شعر سے لیا 
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے
عبدالحمید عدم (1910-1981) نے اپنے اور دو شعری مجموعوں ’زلف پریشاں‘ اور ’دہان زخم‘ کے عنوان غالب کے ان اشعار سے منتخب کےے
نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں

جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی
مشہور طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور (1910-1977) نے اپنے دو مجموعوں کے عنوان ’بال و پر‘ اور ’سنگ و خشت‘ غالب کے ان اشعار سے لیے
بال و پر دوچار دکھلا کر کہا صیاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
لداخ کے مشہور ادیب و فکشن نگار عبدالمغنی شیخ نے بھی اپنے ناول ’دل ہی تو ہے‘ کا عنوان مندرجہ بالا شعر سے اخذ کیا۔
برصغیر کے عظیم شاعر فیض احمد فیض (1911-1984) نے اپنے دو شعری مجموعوں ’نقش فریادی‘ اور ’دست تہہ سنگ‘ کے عنوان ان اشعار سے منتخب کیے
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

مجبوری و دعوےٰ گرفتاری الفت
دست تہہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے
مندرجہ بالا اشعار کے پہلے مصرعے ’نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا‘ سے شاعر و طنز و مزاح نگار فرقت کاکوروی (1914-1978) نے اپنے مجموعہ کا عنوان ’شوخیِ تحریر‘ اخذ کیا اور دوسرے مصرعے ’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا‘ سے عصمت چغتائی (1915-1991) نے اپنی کتاب کا ’کاغذی ہے پیرہن‘ عنوان رکھا۔ اسی طرح مشہو رشاعر و نقاد خلیل الرحمن اعظمی (1927-1978) نے اپنے شعری مجموعے کا عنوان ’کاغذی پیرہن‘ منتخب کیا اور معروف محقق و ادیبہ ڈاکٹر رشید موسوی (پ: 1935) نے طنز و مزاح کے اپنے مجموعے کا عنوان ’کاغذی ہے پیرہن‘ ہی رکھا۔ ان کے علاوہ شاعر رحیم رامش (پ: 1952 ) نے اپنے شعری مجموعے کو ’کاغذی پیرہن‘ نام دیا۔
شہرۂ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو (1912-1955) نے اپنے افسانوی مجموعوں کے عنوان ’لذتِ سنگ‘ اور ’نمرود کی خدائی‘ غالب کے ان اشعار سے اخذ کےے
سر کھجاتا ہے جہاں زخم سر اچھا ہوجائے
لذت سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
ان کے علاوہ جن ادیبوں اور شاعروں نے مرزا غالب کے اشعار سے عنوان اخذ کیے وہ حسب ذیل ہیں:
ادیب و ناول نگار صالحہ عابد حسین (1913-1973) ’قطرے سے گہر ہونے تک (ناول)
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک
شاعر، طنز و مزاح نگار فرقت کاکوروی (1914-1978) ’کف گل فروش‘ (مزاحیہ مضامین)
یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغباں و کف گل فروش
مشہور شاعر سعید شہیدی (پ 1914) ’کف گل فروش‘ (شعری مجموعہ)
معروف ادیب، فکشن نگار، صحافی و فلمساز خواجہ احمد عباس (1914-1987) ’کہتے ہیں جس کو عشق‘ (افسانوی مجموعہ)
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
مشہورادیب و طنز و مزاح نگار وجاہت علی سندیلوی (پ 1916) ’حیف ان چار گرہ‘ (انشائیے)
حیف اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
ماہر اقبالیات شورش کاشمیری (1917-1975) ’بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل‘ (خودنوشت سوانح)
بوئے گل، نالۂ دل، دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
ادیب و فکشن نگار کشمیری لال ذاکر (1919-2016) ’تجھے ہم ولی سمجھتے‘ (افسانوی مجموعہ)
یہ مسائلِ تصوف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا
شاعر سیف الدین سیف (1922-1983) ’خم کاکل‘ (شعری مجموعہ)
تو اور آرائشِ خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
مشہور دانشور نقاد، ڈرامہ نگار ڈاکٹر محمد حسن (1926-2010) ’عرض ہنر‘ (مضامین)
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسد
کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں
ادیب و نقاد منظر شہاب (1927-2016) ’اور پھر بیاں اپنا‘ (مضامین)
دانشور و نقاد ڈاکٹر انور سدید (1928-2016) ’ذکر اس پری وش کا‘ (انشائیے)
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر جو تھا رازداں اپنا
شہرۂ آفاق ناول نگار ابن صفی (1928-1980) ’دست قضا‘ (ناول)
چھوڑا مہ نخشب کی طرح دست قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
ادیب و شاعر حبیب جالب (1928-1993) ’گوشے میں قفس کے‘ (شعری مجموعہ)، ’گنبد بے در‘ (شعری مجموعہ)
معروف افسانہ نگار دلیپ سنگھ ’گوشے میں قفس کے‘ (افسانوی مجموعہ)
نے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

ان کی امت میں ہوں میں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالب! گنبد بے در کھلا
معروف ادیب و نقاد ڈاکٹر اسلم پرویز (1932-2017) ’گنجینۂ معنی کا طلسم‘ (مطالعۂ غالب)
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
مشہور شاعر و صحافی زبیر رضوی (1935-2016) ’تماشا مرے آگے‘ (اسٹیج ڈرامے)
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
طنز و مزاح نگار ادیبہ پروفیسر حبیب ضیا (پ 1935) ’گویم مشکل‘ (مزاحیہ مضامین)
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل و گرنہ گویم مشکل
شہرۂ آفاق طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین (پ 1936) ’ہوئے ہم دوست جس کے‘ (خاکے)
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
معروف ادیب و اسلامی اسکالر پروفیسر اخترالواسع ’کچھ اور چاہےے وسعت‘ (مضامین)
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہےے وسعت مرے بیاں کے لیے
مشہور فکشن نگار عبدالصمد(پ1952)’شکست کی آواز‘ (ناول)
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
ناول نگار فضل احمد کریم فضلی ’خون جگر ہونے تک‘ (ناول)
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگرہونے تک
مشہور ناول نگار و شاعرہ رضیہ فصیح احمد (آدم ایوارڈ یافتہ) ’آبلہ پا‘ (ناول) پاکستان
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادیِ پرخار میں آوے
ناول نگار نشاط پیکر ’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے‘ (ناول) پاکستان
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی سحر ہونے تک
افسانہ نگار صابر بدر جعفری ’اندوہ وفا‘ (افسانوی مجموعہ) پاکستان
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
صادق الخیری خاکہ نگار ’گنجینہ گوہر کھلا‘ (خاکے) پاکستان
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یارب! یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا
معروف ادیب عبدالقوی ضیا علیگ ’وہ آئیں گھر میں ہمارے‘ (خاکے) پاکستان
وہ آئیں گھر میں ہمارے، خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
ان کے علاوہ بھی کئی مصنّفین نے اپنی کتابوں کے عنوان غالب کے اشعار سے منتخب کیے، جو اس مختصر سے مضمون میں نہ آسکے۔ غالب وہ خوش قسمت شاعر ہیں جن کے اشعار سے بے شمار قلمکاروں نے استفادہ کیا۔ ان کے علاوہ علامہ اقبال دوسرے ایسے شاعر ہیں جن کے اشعار سے بھی بہت سی کتابوں کے عنوان رکھے گئے۔

Dr. Askari Safdar
Flat No: 202, United Residency
Noor Khan Bazar
Hyderabad - 500024 (Telangana)
Mob: 9848640915



ماہنامہ اردو دنیا،مئی 2019



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. بہت معلوماتی مضمون ہے۔ پڑھ کر مسرت ہوئی۔ میں ڈاکٹر عسکری صفدر کا شکر گزار ہوں جن کی کاوش سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔
    اعقر
    رضوان احمد خان ژرف

    جواب دیںحذف کریں

تازہ اشاعت

حیات قدیمہ اور عصر ماقبل تاریخ، ماخذ: قدیم ہندوستان کی ثقافت و تہذیب تاریخی پس منظر میں، مصنف: ڈی ڈی کوسمبی، مترجم: بالمکند عرش ملسیانی

  اردو دنیا، نومبر 2024 عہد زریں قدیم ترین اور خالص فطری زندگی کو جو ایک طرح کی حالتِ تکمیل نصیب تھی اس سے انسان کے انحطاط و محرومیت کی ...