20/6/19

خواجہ حسن ثانی نظامی کی اردو خدمات: عبدالرحمن


خواجہ حسن ثانی نظامی کا تعلق درگاہ حضرت نظام الدین اولیا ؒ ، نئی دہلی سے ہے ،ان کے والد کا نام خواجہ حسن نظامی اور والدہ کا نام خواجہ بانو تھا۔ وہ اپنے ایک سوانحی مضمون میں لکھتے ہیں”میری پرورش، اپنے بزرگوں کی طرح، سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءمحبوب الٰہی کے نمک اور لقموں سے، انہی کی دیوار کے سائے میں ہوئی۔ زندگی حضرت امیر خسرو کے ایسے جوار میں گزری کہ جو پھول اور عطر وہاں چڑھتا اس کی خوشبو ہمارے حصے میں آتی۔ حضرت خواجہ حسن نظامی اور حضرت خواجہ بانو جیسے ماں باپ ملے۔

خواجہ حسن ثانی نظامی ہندوستان میں سلسلہ ٔ چشتیہ نظامیہ کے چشم وچراغ تھے۔ شجرۂ نسب سینتیس(37) نسل پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اڑتیسویںنسل میں آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ اردو کے تئیں ان کی  خدمات  کو اردو زبان  وادبی کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اردو زبان کے فروغ میں سلسلۂ چشتیہ کا ذکر کیے بغیر اس کی تاریخ نا مکمل ہوگی۔اردو زبان سےآپ کا رشتہ موروثی ہے۔ آپ اپنے والدبزرگوار خواجہ حسن نظامی کی طرح تصنیف و تالیف پر بہت زیادہ توجہ تو نہ دے سکے؛لیکن سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی کے روح پرور ملفوظات پرمبنی خواجہ امیر حسن علی سنجری دہلوی کی کتاب ’فوائد الفواد‘ کا اردو ترجمہ اوردرگاہ حضرت نظام الدین اولیا سے ماہانہ شائع ہونے والے مجلہ ’منادی‘ کی ادارت ؛یسے اہم کارنامے ہیں جن کی بدولت  انھیں اردو کے بہی خواہوں میں شامل کیے جانے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے۔  مشہورانشا پردازخواجہ حسن نظامی صاحب کی حیات وخدمات پر مبنی سمینار میں پڑھے گئے مقالات کی ترتیب ہے جس کی وجہ سے آپ کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔

حضرت خواجہ حسن نظامی کی وفات کے بعدآپ درگاہ حضرت نظام الدین کے متولی اورسجادہ نشین ہوئے اوردرگاہ حضرت نظام الدین اولیاسے ماہانہ شائع ہونے والے رسالہ’منادی‘ کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی اور اس کے ذریعے زبان اردو کی قولی اور عملی آبیاری کی۔ آپ نے اس مجلے کے ادارتی صفحات میں زبان اردو اور اس کے متعلقات کوبھی جگہ دی، جب کہ اس رسالے کا اصل مقصد مسلک صوفیہ کی تشہیر وتبلیغ اور اس کے متعلق اٹھنے والے سوالات کا دفاع ہے۔ لیکن خواجہ صاحب نے اپنے اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خانقاہوں کی بیٹی ’زبانِ اردو‘کی پرورش میں کسی قسم کا دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ بلکہ اس رسالے کی ادارت کے ذریعے وہ سارے فرائض سر انجام دیے جس کی ایک مدیر سے توقع کی جاسکتی ہے۔کسی بھی اخبار یارسالے کا ایک مخصوص منہج فکر، مقصد اور زاویہ نگاہ ہوتا ہے، جو اس کے اجرا کا باعث ہوتا ہے۔ عموماً ان میں سب سے بڑا مقصد عوام اور بعض صورتوں میں خواص کی مِلّی، قومی، سیاسی، مذہبی اور علمی مسائل پر رہنمائی ہوتی ہے۔‘ موصوف کی ادارت میں نکلنے والے اس رسالے کا بھی یہی حال تھا،اس کااول مقصدصوفی تحریک اور عقیدۂ صوفیہ کا فروغ اور ترویج تھا۔لیکن اردو زبان میں ہونے کی وجہ سے زبان اردو کواس سے ایک عملی پلیٹ فارم میسر تھا جہاں سے اسے لہلہانے کا موقع ملا ۔

خواجہ حسن ثانی نظامی کے نام اداریوںاور مضامین کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ انھوں نے اپنے رسالے کے ذریعے اردو کے مسائل کو عوام تک پہنچانے اور ازسرنو اسے زندگی بخشنے کی جدوجہدکی۔ اس رسالے میں انھوں نے محض خانقاہی مسائل یا مسلکی بحث وتکرار ہی نہیں بلکہ قومی ، ملی مسائل کے ساتھ ساتھ زبانِ اردو کے مسائل کوبھی موضوع بحث بنایاہے،جس کا ہونا ضروری بھی تھا کیوں کہ خسرو کے تبرکات کی حفاظت کی ذمے داری دوسروں کی بنسبت ان پر زیادہ عائد ہوتی تھی اور روح خسرو کی توقعات بھی ان سے زیادہ تھیں جسے خواجہ ثانی نظامی نے بحسن خوبی انجام دیاہے۔ذیل میں زبان ِاردوکے مسائل پر مبنی ان کے چند اداریوں کے عناوین اور ان کے مرکزی خیال ملاحظہ ہوں:

اردو کا جادو

فروری 1958 کا اداریہ ’ اردو کا جادو‘ کے نام سے لکھا جس کے عنوان سے ہی واضح ہے کی اردو نے کسی کو اپنا گرویدہ بنالیا ہوگا اور حقیقت بھی یہی ہے، کہ آندھراپردیش کے کسی وزیر نے اردو زبان کو بطور علاقائی زبان تسلیم کےے جانے کی بات کی تھی اور اس کے علاوہ دوسری ریاستوں میں بھی اسے ثانوی زبان کا درجہ دینے کا چرچہ عام تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

اندھرا کے ایک وزیر نے اس قسم کا بیان دیا ہے، جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ وہاں اردو کو علاقائی زبان کی حیثیت سے تسلیم کرلیا جائے گا، اسی طرح دوسرے علاقوں میں بھی امید افزا اطلاعات آرہی ہیں۔یہ چیز ہماری حکومت، ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لیے بڑی نیک فال ہے۔

اس مضمون میں بڑے مختصر اور بلیغ انداز میں خواجہ حسن ثانی نظامی صاحب نے زبان اردو کی وکالت کی ہے اور صاف ستھرے الفاظ میں واضح کیا ہے کہ حکومت نے آزادی کے بعد سے اب تک ہماری مشترکہ زبان اردو کے ساتھ حسد کی وجہ سے ناانصافی اور سوتیلابرتاؤکیا تھا، تاکہ صوفیوں اور خانقاہوں میں پلنے بڑھنے والی زبان کی شیرینی اور مٹھاس کو ختم کیا جا سکے، اور اس کا گلا گھونٹا جاسکے ، جس کی بنیاد سراسر ناانصافی پر مبنی تھی۔ لیکن زبان خسرو کی شیرینی نے حکومت آندھراپردیش کو اس کا قانونی حق دینے پر مجبور کردیا۔

آکاش کی اردو وانی

جنوری 1958 کے شمارے میں ’آکاش کی اردو وانی‘ نام سے اداریہ لکھاجس میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے چینل ’آکاش وانی ‘سے اردو سروس کی ازسر نو شروعات پر آل انڈیا ریڈیو کے اردو پروڈیوسرساغر نظامی،موجودہ حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے اس عمل کی تحسین بھی کی ہے۔جس سے زبان اردو سے ان کی والہانہ ہمدردی اور محبت کا بین ثبوت ملتا ہے۔

اردو کانفرنس

جنوری 1958 ہی کے شمارے میں ’اردو کانفرنس‘ کے نام سے ایک مختصرمضمون لکھ کرخواجہ موصوف نے انجمن ترقی اردو ہند کے ذریعے منعقد کی جانے والی’اردو کانفرنس دہلی‘ کی حمایت کرتے ہوئے عوام الناس کے ایک بڑے طبقے کوحکومت سے اردو کا قانونی حق مانگنے اوراس کی ترویج کے لیے خود عملی اور ذاتی طور پر انتظام کرنے کی طرف رغبت دلائی ہے۔وہ لکھتے ہیں:

یہ بات صحیح ہے کہ حق چھپائے نہیں چھپتا۔ لیکن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں کے لیے حق ذرا کم ہی ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اردو کے لیے کوئی مطالبہ کرتے وقت حکومت سے زیادہ زور اپنے اوپر دینا چاہیے۔ ہمیں خود پرائیویٹ طورپر اردو کی بقا اور ترویج کے انتظامات کرنے چاہئیں اور وقتا فوقتا حکومت کے سامنے پرامن طور پر اپنے مطالبات پیش کرتے رہنے چاہیے۔ اگر صرف حکومت کے سامنے ہی فریاد یا ایجی ٹیشن ہوتی رہی تو اس کا اول تویہ نتیجہ نکلے گا کہ حکومت ہماری کوئی بات نہیں سنے گی..... دوسری طرف اس قسم کے تعصب اور ضدکے دوبالا ہوجانے کا اندیشہ ہے، جس نے اردو کو اور ملک وقوم کو اب تک بہت نقصان پہنچایا.....اس لیے میری گذارش یہ ہے کہ اس اہم موقع پر جبکہ سارے ہندوستان والے ہندوستان کے دل دلی میں جمع ہوں گے۔ محض حکومت سے مطالبہ کرنے ہی کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس چیزکا بھی جائزہ لیاجائے کہ خود ہم نے اپنے طورپر اب تک اردو کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔ اس وقت کیا کرنا چاہےے اور ہم کیا کیا کرسکتے ہیں ..... خدا حکومت کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ ہم جیسے حق شناس شہریوں اور اردو جیسی مشترکہ زبان کی قدر کرنی سیکھ لے۔

اردو کے تین ستون گرگئے

اردو کے تین ستون گر گئے‘یہ اداریہ فروری 1957 کے شمارے کا ہے، جس میں خواجہ حسن ثانی نظامی صاحب نے ڈاکٹر رام بابو سکسینہ، پنڈت ہری چند اختر اور ڈاکٹر سعید احمد بریلوی کی تعزیت میں اظہار خیال کیا ہے۔جن میں رام بابو سکسنہ اور پنڈت ہری چند کا تعلق اردو دنیا سے اورڈاکٹر سعید احمد بریلوی کا تعلق ادب اور سیاست سے تھا۔ وہ لکھتے ہیں :

اردو کے پاس نوجوان حمایتیوں کی کمی نہیں ہے ، لیکن ان نوجوانوں میں علم و ادب اور قدیم و جدید روایات کی وہ سمائی نہیں ہے جو اس کے معَمّر مدد گاروں اور سرپرستوںکو اللہ نے عطا فرمائی ہے، اس لیے پرانے لوگوں کا جلدی جلدی رخصت ہونا اردو کے لیے موجودہ نازک دور میں واقعی بہت نقصان اور صدمے کا باعث ہے۔

ظاہر ہے کہ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ اور پنڈت ہری چند اختر سے خواجہ صاحب کا رشتہ زبانِ اردوکے بہی خواہی کا ہے،جس کا انھوں نے اظہار بھی کیاہے۔ اس کے علاوہ خواجہ حسن ثانی نظامی صاحب نے مجلہ ”منادی‘ میں شائع ہونے والے اپنے دیگرمضامین کے ذریعے زبان اردو کی ترویج کو عملی جامہ پہنایا اور اپنے پیروں اور مرشدوں کے طریقے کواختیار کرتے ہوئے اپنے خیالات وعقائد کی تبلیغ اردو اور عوامی زبان ہی میں جاری رکھی جس سے زبان اردو کو مستقل تقویت ملتی رہی۔

 

Abdur Rahman

E-18, 2nd Floor Shaheen Bagh, Jamia Nagar,
New Delhi – 110025

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں