اردو زبان و ادب پر رابندرناتھ ٹیگور کے اثرات
عبد الرزاق زیادی
رابندر
ناتھ ٹیگور7مئی 1861کوکلکتے میں پیدا ہوئے اور علم و ادب کا ایک بیش بہاسر مایہ
چھوڑ کر 7اگست 1941کووفات پاگئے۔ہر بڑے فنکار کی طر ح ان کی تخلیقات کا بھی دائرہ
بہت وسیع ہے۔شاعری، گیت، کہانیاں، مصوری اورموسیقی کے علاوہ تعلیم و فلسفہ اور
سیاسیات میں بھی ا ن کی بہت سی یادگاریں ہیں۔رابندر ناتھ ٹیگور کی بنیادی شناخت
اگرچہ ایک بنگلہ ادیب و شاعر کی ہے اورا ن کے زیادہ ترعلمی و ادبی کارنامے اسی
زبان میں ہیں مگراس کے ساتھ ہی انھیں انگریزی زبان پر بھی مہارت حاصل تھی۔ان کی
انگریزی دانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی بیشتر
تخلیقات کا ترجمہ خود بنگلہ زبان سے انگریزی میں کیا اور ا پنے پیغام کو پوری دنیا
میں عام کیا۔ 1910 میں ان کی شہرہ آفاق تصنیف ’گیتانجلی‘شائع ہوئی۔اس کی اشاعت سے
قبل ٹیگور کی پہچان اگرچہ ایک خاص علاقے اور زبان تک محدود تھی مگر جب 1912 میں اس
کا ترجمہ The Song Offeringکے نام سے ہوا اور 1913 میں انھیں گراں قدر
انعام نوبل سے نوازا گیا تو راتوں رات ان کی شہرت و مقبولیت بلندیوں پر پہنچ گئی
اوردیکھتے ہی دیکھتے گیتانجلی کے علاوہ ان کی دیگر تخلیقات کے بھی ترجمے دنیا کی
متعدد زبانوںمیں ہو گئے۔آج تو صو رتِ حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں کم ہی
ایسی زندہ زبانیں ہوں گی جن میں ٹیگورکی تخلیقات ترجمے کی شکل میں موجود نہ ہوں یا
پھرخود ان پر کتابیں اور مقالات و مضا مین دستیاب نہ ہوں۔
دنیا
کی دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی ٹیگور کی تخلیقات کے متعدد ترجمے ہوئے۔ نیاز
فتح پوری کے عرض نغمہ سے لے کر اب تک ان کی بیشتر نظموں، گیتوں، ناولوں، افسانوں،
ڈراموں اور مقالات و مضامین کے ترجمے منظر عام پر آچکے ہیں۔ان کے مترجمین میں نیاز
فتح پوری( عرضِ نغمہ)، حامد حسن قادری(باغبان)، فراق گو رکھپوری(ایک سو ایک
نظمیں)، عبد العزیز خالد(گلِ نغمہ)،ایم۔ ضیا ءالدین (کلامِ ٹیگور) کے ساتھ ساتھ
عہدِ حاضر میں سہیل احمد فاروقی(گیتانجلی)، ایم علی (گورا) فہیم انور (میری یادیں)
وغیرہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں اور یہی وہ ترجمے ہیں جن کی وساطت سے عام
طور پر ٹیگو ر کی تحریروںکا رشتہ اردو ادب سے استوار کیا جاتا ہے اورآج اردو میں
ٹیگور کے فکروفن کے حوالے سے جتنی بھی تحریریں دیکھنے کو ملتی ہیں ان میں سے بیشتر
انھیں تراجم سے مستفاد ہیں۔ اردو زبان میں ٹیگور پر لکھنے والوں میں کم ہی ایسے
ادباءو مترجمین ہوں گے جنھوں نے براہِ راست بنگلہ زبان میں ٹیگور کی تخلیقات کا
مطالعہ ہو۔لیکن باوجود اس کے ان تراجم کی اہمیت وافادیت مسلم ہے۔انھیں کی دین ہے
کہ آج ہم ٹیگور سے روشناس ہو سکے۔
بہرحال
جب ہم ان ترجموں کی مدد سے ٹیگور کی تخلیقات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں ہمیں
ایک خاص قسم کا رنگ وآہنگ اور جذباتیت کا احساس ہوتا ہے۔ بقول فراق گورکھپوری کہ
’ان کی ہر نظم میں ہندوستان کی سرزمین اور ہندوستان کے قالب کو ہم سانس لیتے ہوئے
دیکھتے ہیں۔ان کی نظموں میں ہندوستان کی مٹی بول اٹھتی ہے۔ان کی نظموں میں
ہندوستان کے کھیتوں کی لہلہاہٹ ہے۔ یہاں کے دریاؤں کا ساز روانی ہے۔ یہاں کے
شبنمستان کی کھنک ہے۔ یہاں کے موسموں کے جلوے ہیں۔ یہاں کے دن اور رات کی آئینہ
داری ہے‘1۔ شاید ٹیگور کی یہی وہ تخلیقیت اورکمال فن ہے جس کی وجہ سے ان کے کلام
میں ایک ایسی کشش،اپنائیت اور انفرادیت پید ا ہوگئی ہے جس کی مثال دوسرے شعرا کے
یہاں شاید ہی نظر آتی ہو اور ان کی شاعری طبع زاد نہ ہو کر کے بھی طبع زاد معلوم
ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جتنی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہوئے ان تمام نے اس
سے اثرات قبول کیے۔ مخدوم محی الدین ٹیگور کے کلام کی اثر انگیزی کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”رابندر
ناتھ ٹیگور کی تحریرات نے دنیا کی اکثر زبانوں پر اثرات ڈالے ہیں۔ ہر جگہ ان کے
پرستار اور قدر دان موجود ہیں۔ لوگ ان کے کلام کو بڑے شوق سے پڑھتے اور سر آنکھوں
پر رکھتے ہیں، پھر اردو جو بنگالی کی ہم سایہ زبان ہے کیسے اس اثر سے بچ سکتی تھی،
چنانچہ اردو پر بھی ٹیگور کا اثر ہوا۔نیاز فتح پوری اردو کے پہلے انشا پر داز ہیں
جنھوں نے ایک بسیط مقدمہ کے ساتھ گیتانجلی کا اردو ترجمہ کر کے ٹیگور کو اردو سے
متعارف کرایا۔ گیتانجلی کا ترجمہ ہونا ہی تھا کہ ان کا دوسرا کلام بھی سرعت کے
ساتھ اردو میں منتقل ہوتا گیا۔ نظموں، افسانوں اور ڈراموں کے ترجمے اردو رسالوں
میں شائع ہو تے گئے، اب بھی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کوئی رسالہ ان کے ذکر سے
خالی نہیں رہتا۔ اس بے پناہ ترجمہ کا نتیجہ تھا کہ اردو میں ایسے نوجوان انشا پر
دازوں اور شاعروں کا گروہ پیدا ہوا جس نے ٹیگور کے رنگ میں لکھنا شروع کیا۔“2
ٹیگور
سے اثرات قبول کرنے والے اردو کے ادبا وشعرا میں پریم چند، جوش ملیح آبادی، پنڈت
بدری ناتھ، سدرشن، اعظم کریوی، دیوندر ستیارتھی، مجنوں گورکھپوری، سجاد ظہیر، اور
نیاز فتح پوری وغیرہ کے نام خاص طو رپر قابلِ ذکر ہیں۔انھوں نے باقاعدہ طور پر
ٹیگور کی تخلیقات کو پڑھا، سمجھا اور اپنے اپنے طور پر انھیں اپنے تخلیقی فن پاروں
میں برتا بھی۔ یہ سلسلہ قائم و دائم ہے۔ عصر حاضر میں انور قمر نے ’کابلی والا‘ کے
کردار کی تو سیع کرتے ہوئے ’کابلی والا کی واپسی‘ کے عنوان سے افسانہ لکھا جو بہت
ہی مقبول ہوا۔اس کے علاوہ اور بھی دیگر ایسے شعرا و ادباءہیں جو ٹیگور کے
سرچشمہءفکر و فن سے استفادہ کر تے ہوئے اپنے گلشن شعر وادب کو سیراب کر رہے ہیں۔
اس
طرح اردو ادب پر ٹیگور کے کئی اعتبار سے اثرات مرتب ہوئے اور اس کی وجہ شایدا ن کی
تخلیقیت اور اثر انگیزی ہی تھی۔ مگر اردو زبان و ادب پر ٹیگور کے اس حد تک اثرات
مرتب ہونے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ضروری طور پر کچھ سوالات پیدا ہوتے ہےں کہ کیا
اثر پذیری کا یہ عمل صرف اردو زبان وادب کے ساتھ ہی خاص تھا؟کیا صرف اردو کے
ادباءوشعرا ہی نے ٹیگور سے اثرات قبول کےے تھے؟ یا پھر اثر پذیری کی مثالیں ہمیں
خود ٹیگور کے یہاں بھی اسی طرح دیکھنے کو ملتی ہیں جس طر ح کہ ہمارے شعرا و فکشن
نگاروں کے یہاں موجود ہیں؟ کیونکہ عام طور پر جب دو قومیں یادو لوگ آپس میں ملتے
ہیں تو دانستہ و نادانستہ طور پر دونوں ہی ایک دوسرے سے اثرات قبول کرتے ہیں اور
ادب میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارا ادبی سر مایہ اس نوع کے
اثر و تاثیر کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ چنانچہ جب ہم ان سوالوں کا جواب تلاش کرتے
ہیں تو بادی النظر میں ان کا جواب نفی میں ہی ملتا ہے۔کیونکہ ٹیگور اردو زبان و
ادب سے نا واقف تھے۔ مگرجب ہم مزید غور وفکر سے کام لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ
اثر پذیری کا عمل خود ٹیگور کے یہاں بھی موجود تھا اور انھوں نے بھی عالمی ادب کے
ساتھ ساتھ خود اردو زبان و ادب سے اثرات قبول کیے تھے۔چونکہ ٹیگور جس زبان میں ادب
تخلیق کررہے تھے اس کی ادبی بے بضاعتی کا احساس انھیں اسی وقت ہو گیا تھا جب کہ
ابھی انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا سفربہت زیادہ طے بھی نہیں کیا تھا۔ بقول شمیم
طارق کہ :
” ٹیگور
کی عمر جب 30 سال تھی اسی وقت ان کو احساس ہو گیاتھا کہ بنگلہ زبان میں جو ادب
تخلیق ہو رہاہے، قارئین اس سے متاثر نہیں ہوتے کیونکہ نہ توآدرش اوراعلیٰ خیالات و
موضوعات کو قبول کرنے کی صلاحیت بھی دوسری ہندوستانی زبانوں سے زیادہ ہے اس لیے
ٹیگور کا اردو تخلیقات اور اردو ادب میں پیدا ہونے والے نئے رجحانات کی طرف متوجہ
ہونا یا کم از کم ان سے باخبر ہونا باعثِ حیرت نہیں ہے“۔3
شمیم
طارق کے اس اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگرچہ ٹیگور اردو زبان و اد ب سے
براہ راست واقف نہیں تھے مگر باوجود اس کے انھو ں نے اس سے اثرات قبول کیے تھے۔
کیونکہ موضوعات و خیالات کی سطح پر بنگلہ زبان و ادب کی جو صورتِ حال تھی اس سے وہ
واقف تھے او ردیگر ہندوستانی زبانوں اور بالخصوص اردو زبان و ادب سے اثرات قبول
کیے بغیر اس طرح کے افکارو خیالات کو پیش کرنا ناممکن سا تھا جیسا کہ انھوں نے
بنگلہ زبان میں پیش کیے ہیں۔
اس
کے علاوہ جب ہم ٹیگو رکے عہد کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دور بڑے
پیمانے پر تغیرات و تبدلات کا دور تھا اوراس میں سیاسی و سماجی معاملات و مسائل کے
ساتھ ساتھ علم و ادب میں بھی عالمی سطح پر تبدیلیاں اور تجربات ہو رہے تھے اور
دیگر ادباءو شعرا کی طرح ٹیگور کا بھی ان سے محفوظ رہ پانا نا ممکن تھا۔چنانچہ
عہدِ ٹیگور میں ہورہی تبدیلیوں اور اس کے اثرات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے شمیم
طارق اپنے ایک مضمون”ٹیگور کی فکرو آگہی “میں لکھتے ہیں:
”ٹیگور
جب 1861 میں پیدا ہوئے اس وقت سر سید (1817-1898)سائنسی فکر کی آبیاری کرنے کے
ساتھ روشن خیالی کو نئی تعبیر عطا کر رہے تھے۔ غالب (1797-1869)کلکتہ میں فرنگی
تہذیب اور فرنگی ایجادات کو خراجِ تحسین پیش کرکے دلی واپس آچکے تھے اور طبیعت کی
تمام افسر دگی کے باوجود اردو نثر کو شگفتگی عطا کر رہے تھے۔ حالی(1837-1914)24برس
کے تھے اور مسدس (1879)، حیات ِ سعدی(1886)مقدمہ شعر وشاعری (1983)یاد گار
غالب(1893)، حیات جاوید(1901)جیسی اہم علمی تنقیدی، تحقیقی اور سوانحی کتابوں کی
تمہید تیار ہو رہی تھی۔ مراة العروس (1869)، بنات النعش( 1873) توبة النصوح(1877)
اور ابن الوقت (1888)جیسے اصلاحی ناول لکھنے بلکہ اردو میں ناول نگاری کی بنیاد
ڈالنے والے ڈپٹی نذیر احمد (1836-1912) اور ادبی تذکرے کی روایت مستحکم کرنے کے
ساتھ ادبی تنقید کی مضبوط بنیاد استوار کرنے والے ’آبِ حیات‘ کے مصنف محمد حسین
آزاد (1830-1910) عمر کے25اور 31سال مکمل کر چکے تھے۔ منشی پریم چند نے ٹیگور کو
متاثر کرنے کے بجائے ان سے متاثر ہونے اور کہانی لکھنے کی تحریک پانے کا اعتراف
کیا ہے مگر جب وہ پیدا ہوئے (1880) تب تک ڈپٹی نذیر احمد کے تین ناول شائع ہو چکے
تھے۔لسان العصر اکبر الہ آبادی (1864-1921) بھی سن شعور کو پہنچ رہے تھے۔ مسلمانوں
کے اقبال گزشتہ کے حوالے سے اردو شاعری کو آفاقی اور اجتماعی شعور بخشنے والے
اقبال ( 1873-1938) کو پیدا ہونے میں ابھی 12یا 16 سال باقی تھے مگر اپنی علمی
تحریروں اور قومی نظموں کے ذریعے اقبال کی شاعری اولین نمونہ پیش کرنے اور ’ شعر
العجم‘ لکھ کر فارسی اور اردو شعریات کے رشتے کو مستحکم کرنے والے علامہ شبلی
(1857-1914) پیدا ہو چکے تھے یعنی جب ٹیگور پیدا ہوئے اس وقت اردو نظم و نثر نئے
موضوعات کے ساتھ نئے پیرایۂ بیان اور نئے تخلیقی تجربوں سے بھی گزر رہی تھی اور
اس تبدیلی کے اثرات ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ادب پر بھی مرتب ہو رہے تھے اس
لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ اردو ادب میں پیدا ہونے والے نئے رجحانات، مسائل و مباحث
اور تخلیقی سطح پر کیے جانے والے تجربوں سے ٹیگور واقف نہ رہے ہوں۔“4
ٹیگور
اردو زبان و ادب میں ہو رہی تبدیلیوں اور رجحانات و میلانات سے نہ صرف واقف تھے
بلکہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اردو کے شعرا وادباءکی تحریریں بھی ان کے مطالعے میں
تھیں۔ چونکہ اس وقت تک ترجمے کی روایت کافی عام ہو چکی تھی اورمغربی ادبیات کے
ساتھ ساتھ خود ہندوستان میں ہورہی تخلیقات کے ترجمے بھی بڑی تعداد میں سامنے آرہے
تھے۔اس لیے ان ترجموں کے توسط سے اردوشعرا و ادبا ءکی تخلیقات بھی ٹیگور کے مطالعے
میں آچکی تھیں۔نیز وہ فارسی کی شعری روایت سے بھی نہ صرف بخوبی واقف تھے بلکہ
حافظ، رومی،ا ور شیرازی کے افکار کی گونج ان کے کانوں میں بچپن سے ہی سنائی دے رہی
تھی۔ اس کا اعتراف ہمیں خود ٹیگور کے یہاں ملتا ہے جو انھوں نے جوش ملیح آبادی سے
ایک ملاقات کے دوران کیا تھا۔ جوش ملیح آبادی اپنی اس ملاقات کی روداد بیان کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
”غلغلہ
سنا کہ ٹیگو رآئے ہوئے ہیں۔ ان سے ملنے گیا۔ انھوں نے مجھ کو سرسے لے کر پاؤں تک
دیکھنے کے بعدانگریزی میں پوچھا:”کیا یہ بات سچ ہے کہ میں ایک نوجوا ن شاعر کے
چہرے کو دیکھ رہاہوں۔“میں نے سر جھا کر انگریزی میں جواب دیا :”شاید“۔ انھوں نے
میرانام پوچھا۔ جب میں نے اپنا تخلص بتایا۔انھوں نے میرا ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کیا
اور کہایہ عجیب اتفاق ہے کہ کل ہی سروجنی نائیڈو نے آپ کی ایک نظم”طلوعِ سحر “ کا
ترجمہ سنایاتھااور آج آپ سے ملاقات ہو گئی۔آپ کی نظم لاجواب ہے اور اس کے سننے کے
بعد میں آپ کو فرزند سحر گاہ کہہ سکتا ہوں۔اس کے بعد انھوں نے بتایا کہ میرے باپ
فارسی کے بڑے اسکالر تھے اور دیوانِ حافظ ان کے سرہانے رکھا رہتا تھا۔جب میں رخصت
ہونے لگا تو انھوں نے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ آپ شانتی نکیتن آکرکچھ روز کے لیے
میرے ساتھ رہیں اور حافظ کی اسپرٹ سے مجھ کو بخوبی آگاہ کریں؟میں نے بڑی خوشی کے
ساتھ ان کی دعوت قبول کر لی اور جگنو خدمت گار کو لے کر وہاں پہنچ گیا اور مطالعے
کے لیے بہت سی کتابیں بھی ساتھ لے لیں۔“5
مذکورہ
بالا اقتباس میں اگرچہ جوش کی خود ستائی نمایاں ہے مگر اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے
کہ ٹیگور بچپن سے ہی فارسی کی شعری روایت سے آشنا تھے۔نیز تراجم کی مدد سے وہ اس
بات سے بھی آگاہ تھے کہ اردو میں اس وقت کس قسم کا ادب تخلیق ہو رہا تھا۔
غرض
یہ کہ جس طرح ٹیگور کی تحریروںکا اثر اردو ادب پڑا،مختلف شعرا و ادبا نے ان سے
اثرات قبول کیے اوران کے نقشِ قدم پر چل کر اردو میں بھی مختلف نظمیں اور کہانیاں
لکھیں ٹھیک اسی طرح خود ٹیگور بھی بالواسطہ ہی سہی مگر اردو زبان وادب اور اس کی
شعری روایت سے بخوبی واقف تھے اور انھوں نے بھی اپنے عہد کے دیگر فنکاروں کی طرح
نہ صرف فکری و فنی سطح پر دیگر زبانوں اور بالخصوص اردو زبان و ادب سے اثرات قبول
کیے تھے بلکہ ان کو اپنے تجربات کا حصہ بھی بنایاتھا۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو
بنگلہ زبان کی بے بضاعتی کے باوجود شاید ٹیگور اس طرح کے عظیم اور غیر معمولی
تخلیقی کارنامے پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے جس طرح کہ انھوں نے پیش کیے اور
جن کی بدولت انھیں دنیا کامعزز ترین انعام نوبیل سے نوازا گیا۔
حواشی:
(1) رابندرناتھ
ٹیگور کی شاعری پر طائرانہ نظر، فراق گو رکھپوری، بحوالہ ٹیگور کی بازیافت، شہزاد
انجم( مرتب)ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ص51
(2) اردو
ادب پر ٹیگور کے اثرات، مخدوم محی الدین، بحوالہ رابندر ناتھ ٹیگور: فکر وفن،شہزاد
انجم(مرتب)مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی،ص545
(3) ٹیگو
ر کی فکر و آگہی، شمیم طارق، مشمولہ ٹیگور کی بازیافت، شہزاد انجم (مرتب)ایجو
کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ص95
(4) ایضا،
ص94
(5) یادوں
کی بارات،جوش ملیح آبادی، ص197-202
Abdur
Razzaque Zeyadi
Research
Scholar, Dept of Urdu
JNU,
New Delhi - 110067
Mob.:
9911589715
ماہنامہ اردو دنیا،مئی 2018
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں