26/6/19

سید احمد حسین امجد حیدرآبادی :شخصیت اور شاعری مضمون نگار: خدیجہ زبیر احمد



سید احمد حسین امجد حیدرآبادی

شخصیت اور شاعری


خدیجہ زبیر احمد 

شخصیت

رب العالمین نے اس رنگ و نور کی دنیا میں ہنستی مسکراتی خوشی اور غم کو سمیٹے ایک عظیم ہستی کا وجود رکھا ہے جس کا کوئی نعم البدل کہیں بھی نہیں ہے۔ وہ سراپا محبت اور شفقت ہے۔ بے غرض اور بے لوث ممتا کا خزانہ ہے۔ ایسی ہی ایک پیاری ماں صوفیہ بی بی تھیں جن کے شوہر کا نام صوفی سید رحیم علی یا (سید رحیم حسین) تھا۔ یہ صوفی رحیم علی کی چوتھی بیوی تھیں۔ تینوں بیویاں اور ان سے کوئی بیس اولاد ہوئی تھیں جبکہ سب کی وفات ہوگئی۔ صوفیہ بی بی کے بھی دو یا تین نومولود بچوں کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے کے بعد اس ننھے وجود نے ماں کی گود میں کھل کر انھیں خوش کیا۔ قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ سید احمد حسین صرف چالیس دن کے تھے کہ فجر کی نمازسے واپسی پر فالج کے شدید حملے سے سید رحیم علی کی وفات ہوگئی۔
ماں نے غربت اورتنگ دستی کے باوجود پوری لگن اور بلند حوصلے کے ساتھ پرورش کی وہ خود پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر ان کی شدید دلی خواہش تھی کہ وہ بیٹے کو اعلیٰ تعلیم اور تربیت دیں۔
کتاب کھول کر وہ ہر حرف پر بھرپور اعتماد کے ساتھ انگلی رکھا کرتیں کہ بیٹے کو طویل عرصے تک پتہ ہی نہ چلا کہ اماں کو تو پڑھنا لکھنا آتا ہی نہ تھا۔سید احمد حسین بے حد ذہین تھے مگر شرارت میں دل لگا رہتا۔ کبھی کتاب اِدھر اُدھر چھپا دی۔ کبھی پالتو بکری کو اوراق گھاس کے ساتھ کھلا دیے۔ کبھی بیماری کا بہانہ کرکے بستر میں گھس گئے۔ غرض یوں ہی وہ آٹھویں جماعت میں آگئے۔
بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ نئے دوست بھی بن گئے۔ ان ہی دوست احباب کے ساتھ زیادہ وقت گزرنے لگا۔ گلیوں میں گھومنا پھرنا بھی محبوب مشغلہ بن گیا۔ رات دیر ہوتی تو کسی نہ کسی دوست کے گھر سوجایا کرتے۔ اماں فکرمند رات بھر جاگ کر بیٹے کی سلامتی، بہتری کے لیے دعا گو ہوتیں۔ خدا کے حضور ہمیشہ سید احمد حسین کو اچھا اور نیک انسان بنانے کی دعا کیا کرتیں۔
پھر ایک بار یوں ہوا کہ سید احمد حسین شام سے کسی دوستوں کی محفل میں مگن تھے اور رات گئے تھک کر وہیں سو گئے، رات کے آخری پہر کوئی تین بجے گیٹ پر کوئی آہستہ دستک اور سید احمد حسین کو آواز بھی دے رہاتھا۔ خدا کا کرنا دیکھیے آواز پر احمد حسین کی آنکھ کھل گئی، پریشان ہوکر گیٹ پر آگئے۔ انھوں نے دیکھا کہ چادر میں لپٹی ان کی والدہ محترمہ کھڑی ہیں۔
تعجب سے پوچھا: اماں اس طرح آدھی رات کو تم یہاں کیوں آگئی ہو؟
ماں کی ممتا، ماں کی بے لوث محبت تو دیکھیے وہ کہنے لگیں۔ بیٹا شام کو رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا ہے۔ آج پہلی سحری ہے۔ صبح تم کو پتہ چلتا، تم تو بغیر سحری روزہ رکھ لیتے یہ میں کیسے برداشت کرتی۔ بس یہ تمھارے لیے کھانا لے کر آئی ہوں۔ سید احمد حسین شرم و غیرت سے نڈھال ہوگئے۔ اماں سے لپٹ کر خوب ہی روئے۔ اپنی نادان حرکتوں کی معافی مانگی اور پھر وعدہ کیا یوں کبھی بھی گھر سے باہر نہیں رہوں گا!!
یہ واقعہ زندگی کے راستے کو تبدیل کرنے کا بہترین موڑ تھا۔ سید احمد حسین کی پیدائش حیدرآباد دکن میں 1303ھ میں ہوئی ہے۔ والد کا نام سید رحیم علی یا سید رحیم حسین ہے جن کا تعلق اورنگ آباد یا میرٹھ سے تھا جس کا علم خود سید احمد حسین کو بھی نہیں تھا۔ والدہ حیدرآباد کی تھیں۔
قریبی رشتے دار کوئی نہ تھا۔ صوفیہ بی بی نے تنہا چالیس دن کے یتیم معصوم کی بے مثال پرورش کی ہے۔
سید احمد حسین گھر سے بستہ لے کر مدرسہ روانہ ہوئے مگر مدرسہ کے بجائے پارک میں باغوں میں اِدھر اُدھر دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرکے شام کو گھر واپس آتے۔ محبت کی ماری اماں کو آخر ایک دن پتہ چل گیا۔ مارپیٹ سے بھی ہاتھ روک لیا مگر دعا کے لیے ہمیشہ ہاتھ پھیلائے رہیں۔ ایک دن پالکی میں سوار کوئی امیر گزر رہے تھے۔ پالکی کے ساتھ ایک آدمی دوڑ رہا تھا۔ ماں نے یہ نظارہ انھیں بتایا اور پوچھا بتاؤ تم کو کون پسند ہے؟؟ جھٹ سے انھوں نے جواب دیا ”پالکی سوار“ ماں نے کہا۔ ایسی زندگی تو بغیر علم کے کسی کو نصیب نہیں ہوسکتی۔ تم جو چاہو تمھارا اختیار ہے۔ اس بات سے وہ سہم گئے اور اسی وقت آوارہ گردی سے توبہ کی ۔ اس واقعے کے ساتھ یہ اشعار بھی انھوں نے تحریر کیے ہیں
دل پہ لگی جا کے ہتھوڑے کی طرح
کہنے کو ظاہر میں وہ اک بات تھی
کردیا دم بھر میں اِدھر سے اُدھر
بات تھی یا کوئی کرامات تھی
کلمۂ توحید بھی اک بات تھی
حلق کو جو زیر و زبر کرگئی
رکھ دیا سرکش نے دل بھی سجدے میں سر
بات تھی سچ دل میں اثر کرگئی
مدرسہ نظامیہ اور مدرسہ دارالعلوم میں اپنی تعلیم کی تکمیل کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی کے امتحان منشی فاضل میں کامیابی حاصل کی۔ پھر محترم استاد فلسفہ سید نادر الدین کے شاگرد رشید رہے۔ یوں تعلیم مکمل ہوئی۔
چودہ سال کی عمر سے سید احمد حسین نے شاعری کی ابتدا کی۔ کچھ عرصہ حبیب کستوری اور حضرت ترکی کو اپنا بتایا کرتے۔ حضرت امجد فطری شاعر تھے انھیں پھر کسی استاد کی ضرورت نہ رہی۔
شاعری
عبادت گزار، نیک اور غم زدہ ماں کی بے پناہ دعائیں اور خدا کے فضل و کرم سے سید احمد حسین امجد کو راہ سیدھی مل گئی۔ احسن طریقے سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اٹھارہ برس کی عمر میں شادی بھی ہوگئی۔ ملازمت کے لیے چند ماہ شہر بنگلور میں گزارے اور زندگی کے چند تلخ اور چند بہترین تجربے بھی حاصل ہوئے۔ پھر واپس حیدرآباد آئے تو مدرسہ دارالعلوم میں بہترین اور ہر دلعزیز استاد کا درجہ مل گیا۔
شاعری کی ابتدا پندرہ برس کی عمر سے یوں ہوئی کہ مدرسہ نظامیہ کے کتب خانہ میں دیوان ناسخ پڑھنے کو مل گیا۔ اس کو وہ بار بار پڑھتے رہے اور متاثر ہوتے رہے اور پھر پہلا شعر یہ کہہ دیا
نہیں غم گرچہ دشمن ہوگیا ہے آسماں اپنا
مگر یارب نہ ہو، نامہرباں وہ مہرباں اپنا
یوں اشعار لکھنے کی راہ مل گئی۔ انھوں نے اپنا کلام پہلے حبیب کستوری کو بتایا۔ پھر ترکی سے اصلاح بھی لی مگر خداداد صلاحیت بے پناہ تھی۔ رباعیات امجد کا حصہ اوّل طالب علمی کے دور میں شائع ہوئی اور مقبول عام کا درجہ مل گیا۔
مولانا الطاف حسین حالی نے جب ان رباعیات کا مطالعہ کیا تو بے اختیار کلام امجد کی توصیف و تعریف کی۔ علامہ اقبال نے بھی کلام امجد کو بے حد سراہا اور دل کھول کر مدح سرائی کی۔ عرض یہ کہ کلامِ امجد کی ہر طرف شہرت پھیل چکی تھی۔ جب لوگ نوعمر سید احمد حسین امجد کو دیکھتے تو حیران رہ جاتے کہ اس نوجوان کی یہ لاجواب باکمال شاعری ہے۔ تعریف بے پناہ ہونے لگی۔
زندگی پرسکون تھی کہ وہ ہولناک حادثہ پیش آیا۔ ستمبر 1908 طغیانی اود موسیٰ۔ ہزاروں جانوں کی اندوہ ناک تباہی بے شمار گھروں کے نام و نشان مٹ گئے اور حضرت امجد نے پیاری ماں، بیوی اور ننھی سی بیٹی کو شوریدہ سر دریا کی بے رحم لہروں میں غرق ہوتے ہوئے بے بسی کے ساتھ دیکھا۔
اس عظیم تباہی کی جو نثر اور نظم انھوں نے لکھی ہے اگر کوئی پڑھ لے تو قاری بھی اس سیلاب کے ساتھ ڈوبنے لگتا ہے۔ آج تو ہم TV پر ایسی بھیانک تباہی کے بے شمار دل شکستہ مناظر دیکھ کر غم زدہ ہوجاتے ہیں۔ سو برس پرانی اس اندوہناک تباہی کی داستانِ الم چاہے جتنی دفعہ اس کو پڑھیے یوں لگتا ہے کہ آپ بھی اس سیلاب کے ساتھ رواں ہیں اور جانے انجانے آنسوؤں کا سیلاب آنکھوں سے رواں ہوجاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم بھی وہیں موجود تھے۔ اس دردناک تباہی میں حضرت امجد کی جان بچ گئی اور اس کی تفصیل پڑھنے کے لائق ہے کہ ماں بیوی اور بیٹی کو نظروں کے سامنے ظالم لہروں میں ڈوبتے ہوئے دیکھا تو لمحے بھر کو انھیں خیال آیا کہ نہ جانے میری لاش کسی کنارے جا لگے اور جیب میں پاکٹ تھی جس میں روپے تھے انھوں نے شدید نفرت کے ساتھ دریا کی سرکش لہروں کے ساتھ اچھال دی اور کہتے ہیں کہ بچانے والے پروردگار نے اس لمحے ان خوفناک اور تیز و تند بہنے والی لہروں سے حضرت امجد کو اچھال کر کمزور اور سست رفتار بہنے والے دھار میں ڈال دیا جو کہ وکٹوریہ ہسپتال کی دیواروں سے ٹکرا کر گزر رہی تھی۔ ہسپتال کی بیمار خواتین نے وہاں کئی قیمتی جانیں بچائیں۔ ان کے الفاظ اس لمحے کے لیے یوں ہیں ”دریا نے روپیہ لے کر جان چھوڑ دی خدا کرے ملک الموت جان لے کر ایمان چھوڑ دے...!“
اس تباہی کے طویل مرثیہ کے یہ اشعار ان کے شدید دکھ درد کے ترجمان ہیں  
کس وقت دلِ غم زدہ مغموم نہیں
رونے دھونے کی کس گھڑی دھوم نہیں
قبر مادر تو خیر بن ہی نہ سکی
لیکن گور پدر بھی معلوم نہیں
شہر حیدرآباد کی ایک مشہور ہستی سید محمد صابر حسینی اور ان کے تمام افراد خاندان نے ہر طریقے سے انھیں اس غم کو برداشت کرنے کے لیے سہارا دیا۔ ان کے استاد گرامی سید نادرالدین نے ہاتھ سر پر رکھا او رپھر چند سال بعد اپنی بڑی صاحبزادی محترمہ جمال النساء(جن کی عمر تیرہ برس تھی) سے عقد کروایا۔
سید نادرالدین ایک بلند پایہ عالم و بزرگ تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت پر بطور خاص توجہ دی تھی اور وہ بھی ایک اعلیٰ صفات کی مالک تھیں۔ شادی کے بعد حضرت امجد نے اس نیک ہستی کو نیا نام سلمیٰ دیا۔ اس شادی کے ایک سال بعد ہی محترم سید نادرالدین کی وفات ہوگئی پھر سلمیٰ کی والدہ اور چار بہنوں کی تمام تر ذمے داری حضرت امجد کی تھی جو انھوں نے خدا کے سہارے بخوبی انجام دی۔
یوں تو حضرت امجد پندرہ سال کی عمر سے شاعری کررہے تھے اور عزت بھی حاصل ہوگئی تھی۔ سیلاب اود موسیٰ میں ابتدائی کلام دریا کی لہروں میں غرق ہوگیا مگر حضرت امجد کہتے ہیں کہ وہ کلام سارا کا سارا غزلیات پر مشتمل تھا جن کے غرق ہونے کا انھیں افسوس نہیں۔
حضرت امجد کے کلام میں صوفیانہ رنگ اور زندگی میں جو تبدیلی آئی وہ محترمہ جمال النساءسلمیٰ سے شادی کے بعد شروع ہوئی۔ محترمہ سلمیٰ ایک مکمل پارسا نیک اور خدا کی برگزیدہ ہستی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔
حضرت امجد اپنی بے رونق اور اداس زندگی میں یوں سوچا کرتے
اس نام کی زندگی میں کچھ جان تو ہو
گر بن نہ سکے فرشتہ انسان تو ہو
نیکی نہ ہوئی نہ ہو، بدی بھی تو نہ کر
صوفی نہ ہوا  نہ ہو، مسلمان تو ہو
اور زندگی کے دشوار اور کٹھن راستہ کا ساتھی جب خدا نے سلمیٰ کے روپ میں انھیں عطا کیا تو حضرت امجد کی زندگی میں انقلاب آگیا۔
ایک عالم بے خودی ایک انجانی کیفیت میں وہ رباعی کہنے لگے۔ یہ خدا کا بیش بہا عطیہ الہامی شاعری سے انھیں نوازا گیا۔ سب سے پہلی رباعی یہ ہے
ہر ذرّے پہ فضل کبریا ہوتا ہے
ایک چشم زدن میں کیا سے کیا ہوتا ہے
اصنام دبی زبان سے یہ کہتے ہیں
وہ چاہے تو پتھر بھی خدا ہوتا ہے
(ان ربک لذو فضل علی الناس ولکن اکثرہم لایشکرون)
وہ اپنی الہامی شاعری کو استاد محترم سید نادر علی کی دعاؤں کا اثر بتاتے ہیں اور سلمیٰ کے لیے یوں کہتے ہیں خدا اور اس کے رسول کی محبت کے آثار سلمیٰ کے ہر انداز و اطوار سے ظاہر ہونے لگے، سلمیٰ کی گفتگو ہر بات، ہر مسئلہ پر ایسی حیرت خوب ہوتی کہ وہ خود حیران رہ جاتے۔ مزید یوں کہتے ہیں ہم سلمیٰ کو اکسا اکسا کر پوچھا کرتے کہ وہ مسئلہ چاہے مادیت ہو یا روحانیت بہترین جواب دلائل کے ساتھ مل جاتا۔
جمال النساءسلمیٰ سے دو بچے اس عالم میں پیدا ہوئے مگر جلد ہی فوت ہوگئے اور جب تیسری مرتبہ حاملہ ہوئیں تو یہ دونوں کا حج و زیارت کا بلاوا آگیا۔ سفرنامہ حج بھی اور وہاں کے واقعات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حج سے واپسی کے تقریباً دو ماہ بعد ایک حسین و جمیل بیٹے کی پیدائش ہوئی مگر تقدیر کے رنگ بھی نرالے ہیں وہ ننھا معصوم صرف چند روز کے لیے اس دنیا کی رونق لیے آیا تھا۔ بچہ کی وفات کے صرف چند روز بعد 22 ربیع الاوّل 1347 کو نوجوان سلمیٰ بھی اپنے رب کے حضور لبیک اللہم لبیک کہتی ہوئی اس دنیا سے 33 سال کی عمرمیں رخصت ہوئیں۔ وہ حضرت امجد صاحب کہا کرتی تھیں۔ وفات سلمیٰ پر وہ کہتے ہیں 
تونے بے موت مجھ کو مارا
مرنے والے ترا بھلا ہو
دل ہو گیا خون، خون پانی
اب دیکھیے آگے اور کیا ہو
تم اور مجھے چھوڑ دو غضب ہے
ناخن اور گوشت سے جدا ہو
میری نظروں سے چھپ گئے کیوں
کب میں نے کہا کہ تم خدا ہو
اور پھر یوں بھی کہا ہے کہ ہزار داستان ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ اس کی روح دنیوی آلائشوں سے پاک ہوکر وسیع کائنات کی ہم وسعت ہوگی۔ وہ سیاہ خاک دان سے نکل کر ایک روشن اور پرنور ستارہ بن گئی جس کے گرد نور حاصل کرنے کو سیارے چکر لگاتے ہیں۔
کافی سال بعد دوست احباب کے اصرار پر حضرت امجد نے تیسری شادی کی اور کہتے ہیں کہ عادات و اطوار نہ سہی مگر اس خاتون کی شکل و صورت جمال النساءسلمیٰ سے بے حد مشابہت رکھتی ہے۔
رباعیات امجد کے تین حصے ہیں۔ اردو اور فارسی۔ انھیں بے مثال کلام پر حکیم الشعرا، صاحب رباعیات اور شہنشاہِ رباعیات کے خطابات ملے۔ ساری کی ساری رباعیات الہامی ہیں اور قرآنی آیات کی ترجمان ہیں  
اَلَیسَ اللّٰہُ بِکاف عبدہ
ہر چیز مسبب سبب سے مانگو
منت سے خوشامد سے ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو
بندے ہو اگر رب کے تو رب سے مانگو
اَعطٰی کُلُّ شَیءٍخُلَقہ ثُمَّ ھُدٰی
پابند خیال میری تقریر رہی
آزادی پہ بھی پاؤں میں زنجیر رہی
تھا جتنا خدا کا حکم کوششیں کر لی
تدبیر بھی وابستہ تقدیر رہی
اَشہَدُ اَنَّ مُحَمد رسولَ اللّٰہ
طیبہ ہی کو اب کعبہ مقصد کہیے
دہلیز نبی کو سنگ اسود کہیے
گر حمد خدا کا حق ادا کرنا ہے
دل سے اک بار یا محمد کہیے
اللّٰہُ اکبر اللّٰہُ اَکبَرُ
ہر محفل سے بحالِ خستہ نکلا
ہر بزمِ طرب سے دل شکستہ نکلا
منزل ہی نہیں یہاں مسافر کے لیے
سمجھا تھا جسے مقام رستہ نکلا
مَا خَلقت ہٰذا بَاطِلا
اس جسم کی کیچلی میں اک ناگ بھی ہے
آوازِ شکستہ دل میں اک راگ بھی ہے
بے کار نہیں بنا ہے اک تنکا بھی
خاموش دیاسلائی میں آگ بھی ہے
لَا تَاسَو علی کُافاتکُم
ہر چیز کا کھونا بھی بڑی دولت ہے
بے فکری سے سونا بھی بڑی دولت ہے
افلاس نے سخت موت آساں کردی
دولت کا نہ ہونا بھی بڑی دولت ہے
ہُوَاللَّطِیف الخَبیر
کیا جانیے وہ نور تھا یا سایا تھا
شعلہ سا کسی نے دل میں بھڑکایا تھا
آیا کس وقت یہ تو معلوم نہیں
جاتے ہوئے کہتا ہے کہ میں آیا تھا
اِلٰی رَبِّک مُنتَہاہا
تقدیر سے کیا گلہ خدا کی مرضی
جو کچھ بھی ہوا، ہوا خدا کی مرضی
امجد! ہر بات میں کہاں تک کیوں کیوں
ہر کیوں کی ہے انتہا خدا کی مرضی
شاعری
ہر مرتبہ آئینۂ دل دھلتا ہے
کانٹا کانٹا نگاہ میں تُلتا ہے
میں شاعری کو مراقبہ کیوں نہ کروں
ہر فکر میں بابِ معرفت کھلتا ہے
موت
عزت مطلوب ہو تو مر جائے گا
راحت مطلوب ہو تو مرجائے گا
اس مردہ پرست دور میں اے امجد
شہرت مطلوب ہو تو مرجائے گا
دعائے امجد
لو تجھ سے لگائے میرا ملنے والا
عالم کو بھلائے میرا ملنا والا
مولا میرے ہر دوست کو اپنا کرلے
مجھ سے مل جائے میرا ملنے والا
یہ مختصراً انتخاب ’رباعیاتِ امجد‘ سے میں نے تحریر کیا ہے۔
ریاض امجد، حصہ اول اور دوم خرقہ امجد:
یہ حمد و نعت اور تصوف پر نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے ہر ایک شعر اپنی مثال آپ ہے۔
خرقہ امجد بھی تصوفانہ کلام ہے جس کو علامہ اقبال نے بے حد سراہا ہے۔
رباعیات امجد کے بعد چند حمد اور نعت کے اشعار پڑھیے
یوں تو کیا کیا نظر نہیں آتا
کوئی تم سا نظر نہیں آتا
جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں
دینے والا نظر نہیں آتا
زیر سایہ ہوں ان کے میں امجد
جن کا سایہ نظر نہیں آتا

کس چیز کی کمی ہے مولا تری گلی میں
دنیا تری گلی میں عقبیٰ تری گلی میں
موت اور حیات میری دونوں ترے لیے ہیں
مرنا تری گلی میں جینا تری گلی میں
امجد کو آج تک ہم ادنیٰ سمجھ رہے تھے
لیکن مقام اس کا دیکھا تری گلی میں

دوری سے تری تھک کر جی اپنا نہ ہاروں گا
افلاک کی چوٹی سے تاروں کو اتاروں گا
بگڑی ہوئی قسمت کو رو رو کے سنواروں گا
سو مرتبہ چیخوں گا سو بار پکاروں گا
دے اے مرے مولا دے دے اے میرے داتا دے
حضرت امجد کی لاجواب الہامی شاعری پر میری یہ تحریر نہایت مختصر ہے کہ ایک وسیع دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ رباعیات اور کچھ کلام میں نے ان کی کتابوں سے دیکھ کر لکھا ہے اور کچھ اشعار میرے ذہن کے اوراق پر نقش تھے جس طرح یہ الہامی شاعری بلند پایہ و بے مثال ہے اسی طرح نثرنگاری بھی نہایت متاثر کن اور دلکش انداز تحریر کا مجموعہ ہے۔
(ماخذ: ساحل یو کے، اکتوبر 2013)

Khadija Zubair Ahmed
2 Apple Craft, Cox Green
Maidenhead, Berkshire
SL6 3HD UK



ماہنامہ اردو دنیا،مئی 2019



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں