27/6/19

ریاستِ جموں و کشمیر میں اردو صحافت مضمون نگار: عارفہ بشریٰ



ریاستِ جموں و کشمیر میں اردو صحافت


عارفہ بشریٰ

صحافت یا اخبار نویسی ایک قدیم فن اور پیشہ ہے۔ چھاپہ خانے کی ایجاد سے پہلے مختلف ممالک میں خبر رسانی کا کام سرکاری جاسوسوں اور کارندوں کے ذمے ہوا کرتا تھا، یا لوگ زبانی خبروں کو ایک دوسرے تک منتقل کرتے تھے۔ پریس کی ایجاد نے صحافت میں ایک زبردست انقلاب کی ابتدا کی اور اخبارنویسی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اخبار نویسی نے بہت جلد ثقافت کے اہم شعبے کا درجہ حاصل کیا، اخبارکے ذریعے آئے دن کے حالات و واقعات کی خبریں پیش ہونے لگیں۔ اس کے علاوہ اخبار کے مدیر یا ادارے کی طرف سے مختلف خبروں پر تبصرے شائع ہونے لگے، موجودہ صدی میں اخبار نویسی کو بے پناہ مقبولیت ملی۔رائے عامہ کو بنانے اور بگاڑنے ، حکومتوں کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنے، سماجی اور دینی معاملات کی تعمیر میں صحافت کے رول کو تسلیم کیا گیا، اب دنیا کے کسی کونے یا کسی پس ماندہ ملک سے نکلنے والے اخبار کی بھی ایک بین الاقوامی اہمیت تسلیم کی جانے لگی ہے کیونکہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے واقعات کی خبریں اخبار نویسوں تک پہنچتی ہیں اور وہ ان کو اپنے اخبار کے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے بعد اب ای میل نے خبروں کی پوری ترسیل کو ممکن بنا دیا ہے۔
کشمیر میں اردو صحافت کی تاریخ اردو زبان کی سرکاری سطح پر مروج ہونے سے پہلے سے منسلک ہے، کشمیر میں لوگ کشمیری زبان بولتے ہیں اور جموں میں لوگ ڈوگری زبان بولتے ہیں۔ ریاست میں اور بھی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لداخ میں لداخی زبان مروّج ہے، ریاست کے تینوں خطوں اور ریاست کے مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولنے والوں کے لیے اردو رابطے اور ترسیل کی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے انیسویں صدی کے آخری حصے میں ریاست میں اردو کی مقبولیت کے پیش نظر ڈوگرہ حکمرانوں نے اردو کو عدالتی زبان کا درجہ دیا تو ریاست میں اردو کی مقبولیت کا راستہ ہموار ہوگیا۔ 1879 میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔ اس سے پہلے ملک کے مختلف حصوں سے اردو بولنے والے اور اردو میں شاعری کرنے والے شعرا ریاست میں آتے تھے۔ خود ریاست کے پڑھے لکھے لوگ ملک کے مختلف حصوں میں جاتے اور باہمی تہذیبی اور لسانی روابط قائم ہوتے تھے۔ یہاں کے پڑھے لکھے لوگ اردو بولتے تھے اور جہاں تک ان پڑھ لوگوں کا تعلق ہے، ان میں وہ لوگ مثلاً مانجھی وغیرہ جن کا رابطہ سیاحوں سے رہتا تھا، وہ بھی ٹوٹی پھوٹی اردو سے کام چلاتے تھے۔ سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں ارد وکے رائج ہونے کے بعد اردو زبان تیزی سے پڑھے لکھے لوگوں میں مقبول ہونے لگی۔ اس زمانے میں کئی لوگوں نے ریاست میں اردو اخبار نکالنے کی کوششیں کیں، لیکن حکومت کی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے وہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں۔
1858 میں ریاست میں پریس کا آغاز ہوا۔ یہ احمدی پریس کہلاتا تھا۔ اس کے بعد سرکار نے ’وکرم ولاس‘ پریس قائم کیا لیکن کسی اردو اخبار کی اشاعت کی اجازت نہ دی گئی۔ تاہم خود مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد حکومت میں ’بدیابلاس‘ کے نام سے ایک اخبار جاری کیا گیا۔ یہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں چھپتا تھا اور تاریخی لحاظ سے یہ ریاست کا پہلا اخبار ہے۔ اسی دور میں ایک اور اخبار ’تحفۂ کشمیر‘ کے نام سے جاری ہوا، لیکن یہ دونوں اخبارات زیادہ دنوں تک نہ چل سکے۔
اسی دور میں سالک رام سالک نے اردو اخبار نکالنے کی جدوجہد کی لیکن وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ آخر میں وہ کشمیر سے ہجرت کرکے لاہور گئے اور وہاں سے ’خیر خواہ کشمیر‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کیا۔ سالگ رام کے بھائی پنڈت ہرگوپال کول خستہ نے اس اخبار کی سرپرستی کی۔ مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے عہد حکومت میں بھی اخبار نویسی پر پابندی جاری رہی۔ اس دوران کشمیر کے مشہور مورخ اور ادیب محمد دین فوق نے ریاست سے اردو اخبار نکالنے کی تگ و دو کی، مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو انھوں نے کئی عرض داشتیں دیں۔ لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ آخر میں وہ بھی دوسرے صحافیوں کی طرح لاہور میں صحافتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے پر مجبور ہوئے۔
بہرحال، اردو صحافت کے ابتدائی دور میں مندرجہ ذیل اخبارات ریاست سے شائع ہوتے رہے۔
.1        بدیابلاس 1842
.2         دھرم درپن 1873
.3         ڈوگرہ گزٹ 1911
ان کے علاوہ تحفۂ کشمیر 1876 اور جموں گزٹ 1884 میں شائع ہوئے۔ تحفۂ شمیر سری نگر سے شائع ہوتا رہا۔ لیکن یہ باقاعدہ اخبار نہ تھا، بلکہ اس میں گورنمنٹ کی کارکردگی کے بارے میں خبریں شائع ہوتی تھیں۔ جموں گزٹ بھی سری نگر سے نکلتا تھا ۔ یہ بھی سرکاری گزٹ تھا۔
ریاست میں اردو صحافت کا باقاعدہ آغاز 1944 میں ہوا۔ جب لالہ ملک راج صراف نے متواتر کوششوں کے بعد ’رنبیر‘ جاری کیا۔ ابتدا میں یہ ہفت روزہ تھا۔ اس اخبار کو حکومت نے بعض شرائط کے تحت منظرعام پر آنے کی اجازت دی۔ اسے ہدایت کی گئی کہ وہ سیاسی معاملات پر خاموش رہے گا اور صرف تعلیمی اور اقتصادی مسائل پر اظہارِ خیال کرے گا۔ ان پابندیوں کے باوجود اخبار نکلتا رہا اور عوام میں مقبولیت حاصل کرتا رہا۔ اس کے بعد جموں ہی سے ہفت روزہ ’پاسبان‘ نکلتا رہا، جسے معراج الدین احمد نکالتے تھے۔ یہ اخبار مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرتا تھا۔
بیسویں صدی کے ربع اوّل تک جن کشمیریوں نے وادی سے باہر رہ کر کشمیر کے بارے میں اخبارات شائع کیے اُن کی تفصیل درج ذیل ہیں:
.1        مراسلۂ کشمیر        1872
.2         اخبار عام 1881
.3         کشمیری پراگاش      1898
.4         پنجۂ فولاد             1911
.5         کشمیری گزٹ         1901
.6         کشمیر مخزن           1905
.7         گلشن کشمیر            1901
.8         کشمیر درپن           1898
.9         کشمیر میگزین         1906
.10      سفیر      1914
.11      صبح کشمیر   1914
.12      کشمیر      1924
یہ اخبارات ریاست کے باہر لاہور، امرتسر اور لکھنؤ سے شائع ہوتے تھے۔ زیادہ تر اخبار لاہور ہی سے چھپتے تھے۔ ان میں زیادہ تر کشمیریوں کی اقتصادی بدحالی، سیاسی بے چینی اور سماجی اونچ نیچ کے بارے میں خبریں اور تبصرے چھپتے تھے۔ چونکہ یہ اخبارات کشمیر سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے ریاست میں اردو صحافت کے تاریخی ارتقا میں ان کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
رنبیر‘ شائع ہونے کے بعد ریاست میں اخبارنویسی کی ضرورت کا احساس بڑھنے لگا۔ لیکن جاگیردارانہ نظام حکومت نے کسی اخبار کو نکالنے کی اجازت نہ دی۔ لالہ ملک رام صراف نے چونکہ ایک پریس بھی کھولا تھا، اس لیے وہ بچوں کے لیے ایک رسالہ ’رتن‘ بھی شائع کرتے تھے اور یہ رسالہ اردو صحافت کی مقبولیت میں اضافے کا باعث ہوا۔
1931 میں حکومت نے مڈلٹن کمیشن کی سفارش پر پریس ایکٹ میں تبدیلی کی۔ چنانچہ 1932 سے اخبارات کے اجرا سے پابندی ہٹا دی گئی اور تیزی سے اخبارات نکلنے لگے۔ یہاں تک کہ 1947 تک اخبارات کی تعداد 48 کو تجاوز کرگئی۔ سب سے پہلا اخبار پنڈت پریم ناتھ بزاز نے 1932 میں ’وتستا‘ کے نام سے جاری کیا۔ ’وتستا‘ سے پنڈت پریم ناتھ بزاز کی مدیرانہ صلاحیت کا اعتراف کیا جانے لگا۔ لوگ ذوق و شوق سے اس اخبار کو پڑھنے لگے۔ تین برسوں کے بعد پریم ناتھ بزاز نے شیخ محمد عبداللہ کی رفاقت میں ’ہمدرد‘ کے نام سری نگر سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری کیا۔ اس کی روزافزوں مقبولیت کو دیکھ کر جولائی 1943 سے اسے روزنامہ بنایا گیا۔ ’ہمدرد‘ کے ادارۂ حریر میں مولانا مسعودی بھی شامل ہوگئے۔ ’ہمدرد‘ خبروں کی تازگی، مضامین کی رنگارنگی اور گٹ اَپ سے ریاست میں اخبار نویسی کے اچھے معیار کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس اخبار میں ریاست کے نامور لکھنے والوں کی نظم و نثر کی نگارشات بھی چھپتی رہیں۔ قلمکاروں کے تعاون سے ’ہمدرد‘ نے ادبی ایڈیشن نکالے اور ریاستی ادب اور ثقافت کے فروغ کے امکانات روشن ہوگئے۔ ساتھ ہی نئے ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ ڈاکٹر برج پریمی لکھتے ہیں:
ادبی ایڈیشنوں سے دو فائدے ہوئے۔ اولاً یہ کہ کشمیر میں اردو کی ترویج و اشاعت میں اضافہ ہوا اور دوئم یہ کہ یہاں بھی لوگوں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا۔“ (جموں و کشمیر میں اردو صحافت، کشمیر کے مضامین، ص 193)
ہمدرد‘ کا یہ کارنامہ ناقابل فراموش ہے کہ اس نے ریاست میں سیاسی بیداری میں اہم حصہ ادا کیا۔ اس میں شخصی حکومت کا پردہ چاک کیا گیا۔ اپریل 1941 میں پریم ناتھ بزاز نے قانون، اسلحہ جات اور ہندی رسم الخط کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرکے شیخ محمد عبداللہ کے خیالات سے اختلاف کیا، نتیجے میں شیخ محمد عبداللہ ’ہمدرد‘ سے الگ ہوگئے۔ 1943 میں ’ہمدرد‘ نئی آب و تاب کے ساتھ چھپنے لگا، لیکن یہ بہت جلد سیاسی اختلافات کی بھینٹ چڑھ گیا اور 1950 میں ’ہمدرد‘ بند ہوگیا۔
اسی زمانے میں کشمیری پنڈتو ں کی جماعت ’یووک سبھا‘ نے اخبار ’مارتند‘ جاری کیا۔ اس کے ایڈیٹر پنڈت کشپ بندھو تھے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ ’مارتند‘ سے الگ ہوگئے اور انھوں نے ’کیسری‘ اور ’دیش‘ کی ادارت کی۔ ’مارتند‘ کی ادارت کے فرائض پنڈت گاشہ لال کول اور پنڈت پریم ناتھ کنہ نے ادا کیے۔ یہ اخبار صحافت کے تقاضوں کی تکمیل کرتا رہا۔ اس نے کئی خاص نمبر نکا لے۔ یہ اخبار پنڈت برادری کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تہذیب، بھائی چارہ اور سماجی یگانگت کی آئینہ داری کرتا رہا۔ اس اخبار سے پنڈت گنگا دھر دیہاتی بھی وابستہ ہوئے اور انھوں نے اس کے معیار کو مزید بلند کیا۔ یہ اخبارات مجموعی طور پرتعلیم کی ضرورت، لوگوں کی پسماندگی، جاگیرشاہی، عورتوں کی مظلومیت، جہیز کی لعنت، نوجوانوں کی بیکاری وغیرہ کے مسائل پر مضامین، تبصرے اور شذرات شائع کرتے رہے، 1932 سے 1947 تک ریاست میں اردو صحافت کا ایک بار آور دور تسلیم کیا جاتا ہے۔ ریاست کے مختلف حصوں مثلاً سری نگر، سوپور، جموں، میر پور سے اخبارات نکلتے رہے۔ ان اخبارات کی فائلوں پر ایک نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اخباروں میں خاصی دلچسپی لینے لگے تھے۔ اخبار نویس بھی اپنے فرائض تن دہی، فرض شناسی اور پیشہ ورانہ قابلیت سے انجام دیتے تھے، بعض اخبارات آزادانہ طور پر نکلتے تھے اور کئی اخبار بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی ترجمانی کا کام کرتے تھے۔ چنانچہ جہاں گیر (1932) انجمن تبلیغ الاسلام، اصلاح (1935) ذوالفقار (1935)، روشنی (1943) مختلف مذہبی جماعتوں کے نظریات کے ترجمان تھے، سیاسی جماعتوں میں ’رنبیر‘ (1933) مسلم کانفرنس، کشمیر گارڈین (1933) پنڈتوں، حقیقت (1936) مسلم کانفرنس خالد (1938)، نیشنل کانفرنس، خدمت (1939) نیشنل کانفرنس کے آرگن تھے۔ سری نگر ہی کی طرح جموں میں بھی کئی اخبارات شائع ہوئے۔ ان میں امر (1932)، شہد رام گپتا، آنند (1932) گردھاری لعل آنند، وطن (1934) سردار مہندر سنگھ، جمہورہ (1935) اللہ رکھا ساغر، چاند (1939) نرسنگھ داس نرگس، کشمیر سنسار، (1941) جتیندر دیو نکالتے تھے۔ میرپور سے راجہ محمد اکبر خان ’سچ‘ 1941 چودھری گیان چند، صداقت 1942 اور ہمت (1944) عبدالوہاب شائع کرتے رہے۔
حکومت جموں و کشمیر نے اخبارات کی مقبولیت کو دیکھ کر 1940 میں ’تعلیم جدید‘ کا ماہنامہ اجرا کیا۔ اس کے مدیر پیر زادہ غلام رسول تھے۔ اس رسالے میں ریاست کی تعلیمی پس ماندگی، اساتذہ کی تربیت، تعلیمی مقاصد وغیرہ کے موضوعات پر مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس رسالے کے علاوہ بچوں کے رسالے ’رتن‘ کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے علاوہ ماہنامہ ’پریم‘ اور ’فردوس‘ کو بھی خاصی مقبولیت ملی۔ نرسنگھ داس نرگس نے اقبال تمنائی اور گلزار احمد فدا کے ساتھ مل کر ’پریم‘ کو جاری کیا اور قیس شروانی فردوس کی ادارت کرتے رہے۔ اس طرح سے ریاست میں ادبی صحافت کو فروغ ملنے لگا۔ ادبی صحافت کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ ریاست میں ادبی سرگرمیوں کو بڑھاوا ملا۔ کئی شعرا اور نثر نگار سامنے آئے۔
مجموعی حیثیت سے اردو صحافت کا یہ پہلا دور تھا۔ اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ تسلی بخش نہیں تھا، جیسا کہ ڈاکٹر برج پریمی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے، درست ہے۔ جن حالات میں وادی میں اردو صحافت کی ابتدا ہوئی اور پھر مالی مشکلوں، ناخواندگی، پس ماندگی اور سیاسی محکومیت کے ہوتے ہوئے جس ہمت اور استقلال سے اخبار نویسوں نے اخبار نکالے اور پڑھنے والوں نے انھیں پسند کیا، اس کی بنا پر یہ صحافت کی اچھی شروعات قرار دی جاسکتی ہے۔ خاص کر اس حقیقت کے پیش نظر کہ حکومت ہر اخبار پر کڑی نظر رکھتی تھی اور اخبار کی طرف سے حق گوئی کی بنا پر عتاب کا شکار ہونا معمول کی بات تھی، البتہ یہ صحیح ہے کہ اس دور میں اخبار کی ترتیب و تہذیب، تذکرہ نگاری، خبروں کے انتخاب، سرخیوں کے جماؤ ایڈیٹوریل، مزاحیہ و طنزیہ کالم، کالم نگاری، اشتہارات وغیرہ میں سلیقہ اور آگہی نظر نہیں آتی، جو آج کے دور صحافت کا خاصہ ہے۔
1947 کے بعد ریاست عوامی حکومت برسراقتدار آگئی، چونکہ یہ دور اقتصادی بدحالی، سیاسی عدم استحکام، رسل و رسائل کے ذرائع کے فقدان، پاور سپلائی کی عدم فراہمی، نیوز پرنٹ کی قلت اور لیتھو کی مشکلوں کا دور تھا۔ اس لیے فوری طور پر اردو صحافت آگے نہ بڑھ سکی۔ ان دشواریوں کے باوجود کئی باصلاحیت لوگوں نے اخبار نویسی کو اپنا پیشہ بنایا اور اخبارات جاری ہونے لگے۔ 1948 میں ہفت روزہ ’جیوتی‘ جاری ہوا۔ محمد عمر بٹ نے 1948 میں اخبار ’اپ لفٹ‘ نکالا، لیکن یہ زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہ سکا۔ 1951 میں غلام رسول عرفانی اور بنسی نردوش نے سنسار جاری کیا۔ 1952 میں عزیز ہارون نے ہفت روزہ ’نئی لہر‘ جاری کیا۔ عزیز ہارون مارکسی نظریے کے حامی تھے۔ انھوں نے اپنے اخبار کو بھی کمیونسٹ خیالات کی تشہیر کا ذریعہ بنایا۔ 1951 میں کامریڈ نور محمد، عالم سرتاج اور رگھوناتھ وشنوی نے ہفت روزہ ’جمہور‘ شائع کیا۔ کمیونسٹ نظریے کا علمبردار ہفت روزہ ’مشعل‘ موتی لال مصری اور خواجہ غلام محمد صادق نے اجرا کیا۔ 1952 میں ہفت روزہ ’الحق‘ کشمیر پولیٹکل کانفرنس کا ترجمان بن گیا۔ اسے پیر عبدالاحد شائع کرتے رہے۔ 1952 ہی کو رشید تاثیر اور محمد یٰسین منظر نے ہفت روزہ ’فنکار‘ جاری کیا۔
اخبارات کے ساتھ ساتھ ان برسوں میں بعض معیاری ادبی ماہنامے بھی جاری ہوئے۔ ان میں کشمیری ماہنامہ ’گلریز‘ بدری ناتھ کوثر کا ’آزاد‘ محکمہ اطلاعات کا ’تعمیر‘ وید راہی کا ’سویرا‘ موہن یاور کا ’سنگم‘ اور محکمہ دیہات سدھار کا ’دیہات سدھار’ قابل ذکر ہیں۔ 1953 میں غلام رسول نے سری نگر سے ہفت روزہ ’ہمدرد‘ جاری کیا۔ 1971 میں یہ روزنامہ میں مبدل ہوگیا اور پوری بے باکی اور حق گوئی سے سیاسی اور سماجی مسائل پر اظہار خیال کرتا رہا۔ صوبہ جموں بھی 1947 کے بعد صحافت کے میدان میں آگے بڑھتا رہا۔ 1950 میں ایس، ایل رازدان نے ہفت روزہ ’شاردا‘ جاری کیا جو روزنامہ کی صورت میں زندہ ہے۔ ہرچرن سنگھ نے ہفت روزہ ’وقت‘ وید گپتا نے ہفت روزہ ’سویرا‘ ڈی سی دیوان نے ہفت روزہ ’شہر ڈگر‘ وید بھسین نے ہفت روزہ ’لوک راج‘ سرم دت شرما نے ہفت روزہ ’اجالا‘ 1952 میں موہن یاور نے ہفت روزہ ’رفتار‘ جاری کیا۔ ان میں کئی اخبار روزنامے بن گئے اور جموں میں خاصے مقبول ہیں۔
ریاست میں 1957 میں کلچرل اکادمی قائم ہوئی، اکادمی کے زیراہتمام ریاست کی مختلف زبانوں یعنی کشمیری، ڈوگرہ اور اردو میں رسالے جاری ہوئے۔ 1962 میں اکادمی نے اردو رسالہ ’شیرازہ‘ شائع کیا۔ جو اس وقت تک پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ اس کے متواتر خصوصی نمبر ادبی صحافت کو بلندیوں سے ہمکنار کرچکے ہیں۔ اس میں ریاست کے ادیبوں، نقادوں اور شاعروں کے علاوہ بیرون ریاست کے نامور قلمکاروں کی نگارشات شائع ہوتی ہیں۔ ’شیرازہ‘ نے ریاست میں اردو ادب کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اکادمی کی طرف سے ایک خبرنامہ اکادمی بھی گاہے گاہے شائع ہوتا رہا۔ محکمہ اطلاعات کے زیراہتمام ماہنامہ ’تعمیر‘ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ چھپتا رہا۔ ’تعمیر‘ نے کشمیری زبان اور ثقافت کی گراں قدر خدمت انجام دی ہیں۔ کئی سربرآوردہ شعرا مثلاً آزاد، مہجور سے متعلق خاص نمبر شائع کیے گئے۔ اس محکمے سے خبرنامہ ’مکتوب‘ بھی شائع ہوتا رہا۔
جموں میں صحافت کا عمل سرگرمی سے جاری رہا۔ 1954 میں گوجر برادری کا ترجمان ’نوائے قوم‘ جاری ہوا۔ اسی سال سردار رگھبیر سنگھ مکتا نے ہفت روزہ ’لوک سندیش‘ جاری کیا۔ 1955 میں روشن لال نے ہفت روزہ ’مساوات‘ اور اقبال نرگس نے ہفت روزہ ’خورشید‘ کااجرا کیا۔ 1956 میں لالہ آنند صراف نے ہفت روزہ ’حقیقت‘ متعارف کیا۔ اس کے بعد کئی اخبارات منظر عام پر آئے۔ ان میں وجے سمن کا ’چٹان‘ سردار اجیت سنگھ کا ’کشمیر ٹرانسپورٹ‘ بابو رام گپتا کا ’عمارت‘ اور پی ٹھاکر کا ’چناب‘ اور سردار تارا سنگھ کا ’امن‘ قابل ذکر ہیں۔
دسمبر 1963 میں موئے مبارک کو اپنی مقدس جگہ سے منتقلی کے بعد خواجہ غلام محمد صادق برسراقتدار آئے۔ انھوں نے فوراً پریس اور پلیٹ فارم سے تمام پابندیاں ختم کیں۔ انھوں نے 1964 میں حکومت ہند سے استدعا کی، کہ وہ ریاست میں پریس کے قوانین لاگو کرے۔ چنانچہ 1966 میں ریاست پر مرکزی پریس ایکٹ لاگو ہوا۔ اس کے نتیجے میں ریاست میں کئی لوگ اخبار نویسی کی جانب مائل ہوئے۔ 1964 کو ہفت روزہ’ محافظ‘ ہفت روزہ ’کارواں‘ ہفت روزہ ’آئینہ‘ اور ’میزان‘ جاری ہوئے۔ ان اخبارات میں ’آئینہ‘ تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرتا گیا۔ ’آئینہ‘ شمیم احمد شمیم کی ادارت میں نکلتا رہا۔ اس نے صحافت میں ا یک نیا معیار قائم کیا۔ شمیم احمد شمیم ایک بے باک اور حق پسند صحافی تھے۔ انھوں نے سیاسی بے ایمانیوں اور سماجی مسائل پر زور دار ایڈیٹوریل لکھے۔ ’آئینہ‘ کا ہر شمارہ سیاسی دنیا میں ہلچل پیدا کرتا تھا۔
اس کے بعد طاہر مضطر نے ہفت روزہ ’آہنگ‘ اور ’سلسبیل‘ غیاث الدین نے ’چنار‘ غلام محی الدین نے ’رہبر‘ عبدالستار رنجور نے ’ہمارا کشمیر‘ محمد فاروق رحمانی نے ہفت روزہ ’چٹان‘ قاری سیف الدین نے ’اذان‘ شفیع سمنانی نے ’زمیندار‘ صوفی غلام محمد نے ہفت روزہ ’نوائے کشمیر‘ نکالا۔ غلام نبی خیال کا ’اقبال‘ عبدالرحمن آزاد کا ’سرچشمۂ حیات‘ طاہر ہمدانی کا ’نیا دور‘ بلال نازکی کا ’الغفران‘ قابل ذکر ہیں۔
1967 میں ’سری نگر ٹائمز‘ کو صوفی غلام محمد نے جاری کیا۔ ’سری نگر ٹائمز‘ عوام میں بے حد مقبول ہے۔ اس میں بشیر احمد بشیر کا کارٹون شامل ہوتا ہے، جو سیاسی اور سماجی بے ضابطگیوں پر طنز کا کام کرتا ہے۔ 1970 کے بعد جو مشہور اخبار سامنے آئے ان میں ’انڈین ٹائمز‘، ’سری نگر ایکسپریس‘ اور مارننگ ٹائمز، کرم ویر، تقویم ، کوہستان، صداقت، انقلاب اور لالہ رخ قابل ذکر ہیں۔ جہاں تک ادبی ماہناموں کا تعلق ہے، اس میں کشمیری اور اردو میں نکلنے والا ماہنامہ گلریز، وکیل، جھرنا، کینواس، ادبیات، دھنک، العطش، ہما وغیرہ قابل ذکر ہیں، شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی سے خبرنامہ کے علاوہ رسالہ ادبیات، بازیافت اور نیا شعور شائع ہوتے رہے۔ کالجوں سے پرتاپ، لالہ رخ، زون اور پمپوش نکلتے رہے۔ اکادمی سے سال کی بہترین نگارشات کا انتخاب ہمارا ادب چھپتا رہا۔
گزشتہ تیس برسوں میں ریاست میں اردو صحافت نے حیران کن ترقی کی ہے اور متعدد روزنامے، ہفت روزہ اور ماہنامے معرض وجود میں آئے۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ریاست میں تعلیم کے پھیلاؤ نے لوگوں کو اخبار بینی کی طرف مائل کیا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ کئی نوجوانوں نے صحافت کو روزگار کا وسیلہ بنایا۔ چنانچہ اخبارات کی ایک کثیر تعدا د سامنے آنے لگی۔ ان میں اہم اخباروں کی تفصیل درج ذیل ہیں:
ہفت روزہ            پیام کشمیر محمد فاروق بڈھو
ہفت روزہ            نقشبند     ابوالقاسم
ہفت روزہ            کشمیر سماچار           نورمحمد
ہفت روزہ            کینواس   محمد یوسف
ہفت روزہ            سری نگرنیوز         معراج الدین
ہفت روزہ            تسکین    مقبول حسین کاظمی
ہفت روزہ            کوہ ہمالیہ  مدن سنگھ
ہفت روزہ            آواز جموں           موہن لال
ہفت روزہ            صدائے کشمیر        طاہر ہمدانی
ہفت روزہ            نیا ولولہ   محمد یوسف میر
ہفت روزہ            برگِ سبز شیخ غلام نبی
ہفت روزہ            دبستان   امداد ساقی
ہفت روزہ            سلطان الاولیا        مفتی جلال الدین
1980 کے بعد اخبارات کی اشاعت کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا۔ چنانچہ پتامبر ناتھ درفانی نے نئی نظر، نئے زاویے، شش ناگ، آتش چنار، تجلی، غلام نبی بلدیو، اپنا پرچم، سیف الدین سوز، دادی کی آواز، غلام نبی شیدا، کشمیر نما، غلام نبی لون آفاق، محمد یوسف قادری، ہفت روزہ ’چٹان‘ منظرعام پر آئے۔ ان کے علاوہ ماہنامہ توحید، سرکتا آنچل، اولیا، ظہور اسلام جیسے رسالے سامنے آئے۔ آج کل الصفا، ندائے مشرق، عقاب، آفاق، صبح کشمیر، سری نگر نیوز جیسے اخبارات صحافتی تقاضوں کو پورا کررہے ہیں۔
بہرحال کشمیر میں اردو صحافت اپنی کم عمری کے باوجود اپنے پھیلاؤاور رنگارنگی کا احساس دلاتی ہے۔ یوں تو انیسویں صدی کے اواخر سے ہی اردو صحافت کا آغاز ہوا ہے۔ لیکن دراصل باقاعدگی سے اس کی شروعات موجودہ صدی میں ہوتی ہے اور یہ برابر ملک میں اردو صحافت کے شانہ بہ شانہ پیش قدمی کررہی ہے، اور آج اردو صحافت اپنی اہمیت منوا چکی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اب اردو اخبار لیتھو سے نجات پاکر آفسیٹ پرچھپ رہے ہیں اور مدیروں کو ادارتی ذمے داریوں کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اخباروں میں اب رنگارنگ فیچرس، تبصرے، طنزیہ اور مزاحیہ کالم، نظمیں، ادب پارے نمایاں جگہ پاتے ہیں۔ اخباروں میں کارٹون بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ طباعت کی جدید سہولیات سے فائدہ اٹھا کر مدیران اخبارات اخباروں کے گٹ اَپ، سجاوٹ اور رنگارنگی میں اضافہ کررہے ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ اخبارات، ریاست میں تیزی سے ترقی کے منازل طے کریں گے۔ تاہم بعض ایسے امور بھی ہیں جو اخبارات کا معیار بلند کرنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک حد سے بڑھتی ہوئی کاروباریت بھی ہے۔ اخبار نویس زیادہ سے زیادہ اشتہارات چھاپنے کی فکر میں رہتے ہیں اور آج کل اخبار اشتہارات کا پلندہ ہوتے جارہے ہیں۔ تقریباً سارے روزنامے اشتہارات کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لینا چاہتے ہیں۔ اس سے اخبارات کا معیار گھٹتا جارہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اخبارات زیادہ سے زیادہ آئے دن کے سیاسی واقعات کی رپورٹنگ پر بھی ساری توجہ مبذول کرتے ہیں اور ملک یا ریاست کی قدیم ثقافتی میراث، ادبی روایات، مذہبی خیالات، سماجی ضروریات سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
اس طرح سے اخبارات اپنے فرائض منصبی سے کوتاہی برتنے کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ اس بات کی طرف بھی خاطرخواہ توجہ نہیں دی جارہی ہے کہ اخباروں کے صفحات کا ایک حصہ نئی نسلوں کے مسائل کے لیے وقف کیا جاتا۔ قوم کا سرمایہ اس کے نوجوان ہوتے ہیں۔ چنانچہ ماہرین تعلیم سیاست دانوں اور سماجی علوم کے ماہرین کے ساتھ ساتھ صحافیوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ قوم کے مستقبل یعنی نئی نسلوں کی ذہنی تربیت کی طرف توجہ دیں۔
کتابیات
.1        جموں و کشمیر میں اردو صحافت: صوفی محی الدین
.2         کشمیر میں اردو صحافت: رشید تاثیر (شیرازہ جلد 27، شمارہ5)
.3         جموں و کشمیر میں اردو صحافت: منظور احمد بابا (شیرازہ جلد 24، شمارہ 2)
.4         جموں و کشمیر میں اردو صحافت: ڈاکٹر برج پریمی (کشمیر کے مضامین)
.5         اردو صحافت اور عصری تقاضے: ڈاکٹر مصطفی کمال (فصیل)
.6         کشمیر میں اردو: ڈاکٹر عبدالقادر سروری (جلد 1، 2، 3)


Prof. Arifa Bushra 
(Dept. of Urdu)
( Kashmir University, (J&K)




ماہنامہ اردو دنیا،جنوری 2016



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں