28/6/19

عصمت کا معتوب افسانہ’لحاف مضمون نگار: جاوید احمد مغل



عصمت کا معتوب افسانہ’لحاف
جاوید احمد مغل


عصمت چغتائی نے عورت کے جنسی و نفسیاتی مسائل پر کہیں واضح اور کہیں اشاراتی اسلوب میں متعدد افسانے لکھے ہیں۔ ان افسانوں میں ان شادی شدہ عورتوں کے مسائل کو اُبھا را گیا ہے جو ازدواجی زندگی کی چکی میں پستے پستے خاموشی سے دم توڑ دیتی ہیں اور اُن شوخ و طرار لڑکیوں کی تمنا ں کا بیان بھی ملتا ہے جو جنسی و نفسیاتی خواہشوںمیں اپنی زندگیاں تباہ کر لیتی ہیں اور سماج کے لیے بھی ایک مصیبت اور مسئلہ بن جا تی ہیں۔ اس سلسلے میں لحاف اور ہم سفر اہم افسانے ہیں۔
عصمت چغتا ئی کا افسانہ لحاف کسی سبب معاشرے میں تنہا رہ جانے والی عورت کی جنسی گھٹن اور اُس کے سدباب کے لیے اختیار کردہ راستے کا بیانیہ ہے۔ لحاف افسانہ کے مرکزی کردار بیگم جان کے حوالے سے مسلم گھرانوں کی خواتین کی شرافت اور اخلاقیات پر پڑے ہوئے اُس پردے کی علامت ہے جو اپنے اندر جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے غیر فطری وسیلوں کو چھپا ئے ہوئے ہے۔ عصمت نے ’لحاف‘ 1940کے آ س پاس اُس زمانے میں لکھا جب ڈاکٹر سگمنڈ فرائڈ کے نظریات جنس اور تحلیل ِ نفسی کے اثرات اُردو ادب پر بھی اپنا اثر قائم کر چکے تھے۔ یہی وہ زما نہ ہے جب عزیز احمد (ہوس)اور سعادت حسن منٹو (بو، دھواں اورٹھنڈا گوشت)جیسے جنسی افسانے لکھ رہے تھے۔ افسانہ ’لحاف ‘میں لحاف کے اندر کی جنسی سچائیوں کو بے حد فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار بیگم جان ایک ہم جنس پرست کردار کے طور پر سامنے آ تی ہیں جو اپنی جنسی خواہشات کی عدمِ تکمیل کی وجہ سے ہم جنسیت (Lesbianism) کی عادی ہو جا تی ہیں۔ اور اس کے لیے بیگم جان اپنی ملازمہ ربو کو استعمال کر تی ہیں۔ ان دونوں نسوانی کرداروں میں فاعل کون ہے اور مفعول کون؟ عصمت چغتائی اس حقیقت کو ’لحاف‘ کے اندر ہی چھپا ئے رکھتی ہیں۔ دراصل یہاں عصمت چغتائی نے ابہام سے کام لیا ہے۔ یہاں تک کہ عصمت نے ایک بار منٹو کے پو چھنے پر بھی یہ نہیں بتایا کہ لحاف کے اندر کیا ہورہا تھا۔
عصمت چغتائی کے مطابق انھوں نے ’ لحاف‘ علی گڑھ کی ایک عورت کی زندگی کے حقیقی واقعات کو دیکھ کر تحریر کیا۔ ایک ایسی تنہا عورت جِسے دنیا کی تمام تر آسائشیں میّسر تھیں لیکن اُس کی زندگی میں کمی صرف یہ تھی کہ وہ شوہر کی قربت سے محروم تھی۔ وہ کس قسم کی ذہنی اذیت میں مبتلا تھی عصمت نے افسانہ ’لحاف ‘ کے ذریعے یہی بات بتانے کی سعی کی ہے۔
افسانے کامرکزی کردار بیگم جان ہے جب افسانہ نگار نے اُسے دیکھا تھا تواُس کی عمر تقریباً چالیس بیالیس سا ل ہو گی۔ لیکن وہ اس عمر میں بھی بے حد حسین ملکہ معلوم ہوتی تھی۔ اُس کا رنگ سفید،جلد چکنی،، بال سیاہ، آنکھیں کالی،پلکیں موٹی موٹی، ابرو کمان جیسے اور ہونٹ ہر وقت سرخی سے رنگے رہتے تھے۔ عصمت چغتائی نے بیگم جان کے خدو خال کو ایک مصور کی طرح اُبھاراہے :
” اُن کے جسم کی جلد بھی سفید اور چکنی تھی، معلوم ہوتا تھا کسی نے کس کر ٹا نکے لگا دئیے ہوں۔ عموماً وہ اپنی پنڈلیاں کھجا نے کے لیے کھولتیں تو میں چپکے چپکے ان کی چمک دیکھا کر تی۔ ان کا قد بہت لمبا تھا اور پھر گو شت ہونے کی وجہ سے وہ بہت ہی لمبی چوڑی معلوم ہوتی تھیں۔ لیکن بہت متناسب اور ڈھلا ہوا جسم تھا۔ بڑے بڑے چکنے اور سفید ہاتھ اور سڈول کمر۔“
 ربّو(نوکرانی) سے پیٹھ کھجوانا بیگم جان کے لیے ضروریات ِ زندگی بن گیا تھا۔ جب دیکھو وہ بیگم جان کے سر،پاں یا جسم وغیرہ دبا یا ہی کر تی تھی۔اور جس دن بیگم جان نہاتی اُس روز دو گھنٹے پہلے ہی تیل اور خوشبودار ابٹنوں کی مالش کروانا شروع ہو جاتی تھی۔
عصمت چغتا ئی بچپن سے ہی بیگم جان پر فدا تھیں۔ بیگم جان بھی افسانہ نگار سے بے حد پیار کرتی تھی۔ ایک دن اتفاق سے عصمت کی ماں ایک ہفتہ کے لیے آگرہ جا تی ہیں اور اُنھیں بیگم جان کے پاس چھوڑ جاتی ہیں۔عصمت کو قدرتی طور پر بیگم جان کے کمرے میں سونے کاموقعہ ملتا ہے۔ رات کو دس گیارہ بجے تک افسانہ نگار اور بیگم جان ایک دوسرے سے باتیں کر تی رہتی ہیں پھر عصمت چغتائی سونے کے لیے پلنگ پر چلی جا تی ہیں اور بیگم جان (ہر دن کی طرح) ہی ربو سے پیٹھ کھجوا تی رہتی ہیں۔مصنفہ کی رات کو اچانک آنکھ کھلتی ہے اور اُنھیں ڈر سا محسوس ہونے لگتا ہے وہ کیا دیکھتی ہیں:
” کمرے میں گھپ اندھیرا، اور اس اندھیرے میں بیگم جان کا لحاف ایسے ہل رہا تھا جیسے اس میں ہا تھی بند ہو، ” بیگم جان.... “ میں نے ڈری ہوئی آواز نکالی، ہاتھی ہلنا بند ہو گیا، لحاف نیچے دب گیا۔
” کیا ہے ....سورہو.... “بیگم جان نے کہیں سے آواز دی۔
”ڈر لگ رہا ہے .... “ میں نے چوہے کی سی آواز سے کہا۔
”سو جا .... ڈر کی کیا بات ہے .... آیت الکرسی پڑھ لو۔“
” اچھا ....“ میں نے جلدی جلدی آیة الکرسی پڑھی۔ مگر یعلمومابین....پر ہر دفعہ آ خر اٹک گئی۔ حالانکہ مجھے اس وقت پوری آیت یاد ہے۔
”تمھارے پاس آ جا ں بیگم جان....“
”نہیں....بیٹی .... سو رہو....“ ذرا سختی سے کہا گیا۔
اور پھر دو آدمیوں کے کھسر پھر کرنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ ہائے رے یہ دوسرا کون ؟ میں اور بھی ڈری۔
”بیگم جان.... چوروور تو نہیں....“
”سوجا بیٹا .... کیسا چور.... “ربّو کی آواز آئی۔
میں جلدی سے لحاف میں منہ ڈال کر سوگئی“ 
مذکورہ با لا اقتباس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ جس وقت افسانہ نگارلحاف کے اندر بیگم کی پُر اسرار سر گرمی دیکھ رہی تھی اُس وقت اُن کا شعور اتنا پختہ نہیں تھا کہ وہ لحاف کے اندر کی سر گرمی کی حقیقت کو پوری طرح سمجھ پا تی۔ لیکن جب افسا نہ نگار اُن کے لحاف کوہاتھی کی طرح ہلتا دیکھ کر بیگم جان کو پکارتی ہیں تو یہاں عصمت بڑی فنکاری سے ایک آواز بیگم جان کی سنا تی ہیں جو اُن سے کہتی ہے، سو جا ڈر کی کیا بات ہے آیت الکرسی پڑھ لو اور دوسری آواز ربّو کی آ تی ہے و ہ بھی اُ سے سو جانے کی تاکید کر تی ہیں۔ لحاف کے اندر دو کرداروں کی موجودگی کا صوتی اشارہ کرکے عصمت قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
صبح ’لحاف‘ بالکل معصوم نظر آ تا ہے یعنی اُس میں کوئی حرکت دکھائی نہیں دیتی ہے اورعصمت کے ذہن سے بھی رات کے خوف کا نظارہ غائب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ رات کو ڈرنا، اُٹھ اُٹھ کر بھاگنا اور بڑبڑانا افسانہ نگار کے لیے عام بات تھی۔ وہ بچپن میں ایسا کیا کر تی تھی اور سب لوگ کہتے تھے کہ اسے بھوتوں کا سایہ ہے۔
ربّو ایک دن اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے گھر چلی جا تی ہے۔ بیگم جان کی مالش کر نے والا کوئی نہیں تھا اس لیے وہ سارا دن پریشان رہی۔ اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹتا رہا۔ بیگم جان کوکسی اور کا چھونا بھی پسند نہیں۔ اُس نے کھانا بھی نہیں کھا یا اور سارا دن اُداس رہی۔ ربو کو دوسرے دن آ نا تھا لیکن وہ دوسرے دن بھی نہیں آ ئی اور بیگم جا ن کا مزاج کافی چڑ چڑا ہو گیا۔ ربوّ کی غیر موجودگی میں عصمت کو بیگم جان کے پاس سونے کا اتفاق ہوتا ہے۔ پہلی رات کی طرح اس رات بھی دونوں کا فی دیر تک باتیں کرتی رہیں۔ پھر رفتہ رفتہ عصمت کو ڈرسا محسوس ہونے لگا۔ وہ لکھتی ہیں :
”میرا دل چاہا کسی طرح بھاگوں اور انھوں نے زور سے بھینچا۔میں مچل گئی۔ بیگم جان زور زور سے ہنسنے لگیں۔.... ان کی آنکھوں کے پپوٹے اور وزنی ہوگئے۔ اوپر کے ہونٹ پر سیاہی گھری ہوئی تھی۔باوجود سردی کے، پسینے کی ننھی بوندیں ناک پر چمک رہی تھیں.... کمرے میں اندھیرا گھٹ رہا تھا۔ مجھے ایک نا معلوم ڈر سے وحشت سی ہونے لگی۔بیگم جان کی گہری گہری آنکھیں۔ میں رونے لگی دل میں۔ وہ مجھے ایک مٹی کے کھلونے کی طرح بھینچ رہی تھیں۔ان کے گرم گرم جسم سے میرا دل بولانے لگا۔ مگر ان پر تو جیسے کوئی بھتنا سوار تھا اور میرے دماغ کایہ حال کہ نہ چیخا جائے اور نہ رو سکوں۔ تھوڑی دیر کے بعد پست ہو کر نڈھال لیٹ گئیں۔ ان کا چہرہ پھیکا اور بد رونق ہوگیا اورلمبی لمبی سانسیں لینے لگیں۔ میں سمجھی کہ اب مریں یہ، اوروہاں سے اُٹھ کر سر پٹ بھاگی باہر....!“ 
مذکورہ سطور میں عصمت چغتا ئی نے بیگم جان پر جنسی تسکین کے جذبے کے غلبے کو بیان کیا ہے۔ چونکہ اُس رات ربّو بیگم جان کے پاس مو جود نہیں تھی اس لیے بیگم جان افسانہ نگارکو ہی مفعول بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور آخر کار جب کسی حد تک اُن کے جنسی جذبہ کی تسکین ہو جا تی ہے تو وہ نڈھال ہو کر لیٹ جاتی ہیں۔ دراصل جنسی معاملات کا ایسا بیان لحاف سے پہلے کسی اور افسانہ نگار کے یہاں نہیں ملتا ہے۔ منٹو اور عزیز احمد نے بھی اس حد تک جنسی حقیقت نگاری سے پرہیز ہی کیا ہے۔ اور غالباً یہی چیز عصمت پر لحاف کی بنیاد پر مقدمے کا باعث بنی۔
سعاد ت حسن منٹو ”لحاف“ کے بارے میں لکھتے ہیں:
”ایک مہینہ پہلے جب کہ میں آل انڈیا ریڈیودہلی میں ملازم تھا ’ ادبِ لطیف‘ میں عصمت کا ’لحاف‘ شائع ہوا تھا۔ اسے پڑھ کر مجھے یاد ہے میں نے کرشن چندر سے کہا ”افسانہ تو بہت اچھا ہے لیکن آخری جملہ بہت ہی غیرصناعانہ ہے۔ احمد ندیم کی جگہ اگر میں ایڈ یٹر ہو تا تو اسے یقیناً حذف کر دیتا۔ چنانچہ جب افسانوں پر با تیں شروع ہوئیں تو میں نے عصمت سے کہا ”آپ کا افسانہ ’لحاف‘ مجھے بہت پسند آ یا .... لیکن مجھے تعجب ہے کہ اس افسانے کے آخر میں آپ نے بیکار جملہ لکھ دیا کہ ایک انچ اٹھے ہوئے لحاف میں میں نے کیا دیکھا۔ کوئی مجھے لاکھ روپیہ بھی دیدے تو میں کبھی نہیں بتا ں گی۔ “
عصمت نے کہا ” کیا عیب ہے اس جملے میں ؟“
میں جواب میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ مجھے عصمت کے چہرے پر وہی سمٹا ہوا حجاب نظر آ یا جو عام گھریلو لڑکیوں کے چہرے پر نا گفتنی شے کا نام سن کر نمودار ہوا کر تا ہے۔ مجھے سخت نا امیدی ہوئی۔ اس لیے کہ میں ’لحاف‘ کے تمام تر جزئیات کے متعلق اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ جب عصمت چلی گئی تو میں نے دل میں کہا ”یہ تو کمبخت بالکل عورت نکلی۔“
 اس افسانے میں عصمت چغتا ئی نے جس فنی مہارت اورنزاکت سے شریف گھرانوں کی جنسی بے راہ روی کو پیش کیا ہے وہ کسی مرد افسانہ نگار کے بس کی بات نہیں تھی۔ کرشن چندر نے اسی افسانہ ’ لحاف‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجموعہ ’چوٹیں ‘ کے دیبا چے میں لکھا تھا :
”عصمت کا نام آ تے ہی مرد افسانہ نگاروں کو دورے پڑ نے لگتے ہیں۔ شر مندہ ہو رہے ہیں آپ ہی آپ خفیف ہو تے جا رہے ہیں“
اسی طرح فنکار کشمیری لال ذاکر پر بھی افسانہ ’لحاف‘ کے مطالعے سے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔انھوں نے اپنے ایک مضمون ’ عصمت چغتائی : کہانی بولتی ہے ‘ میں لکھا ہے:
”لحاف اگر کسی مرد افسانہ نگار نے لکھی ہو تی تو وہ کہانی شاید پڑ ھنے والے کو اس طرح نہ جھنجھوڑتی۔ کہانی چونکہ ایک خاتون نے لکھی تھی اور وہ بھی اس مخصوص اسٹائل میں اور خوبصورت الفاظ میں۔ اس لیے اس کا اثر تو زیادہ ہو نا ہی تھا۔ لیکن اس کہانی کا مجھ پر بڑا عجیب و غریب اثر ہوا۔ میں نے کئی بر سوں تک سردیوں میں لحاف استعمال کر نا چھوڑ رکھا اور کمبلوں کو ہی استعمال کر تا رہا۔ “
کُلی طور پر افسانہ ”لحاف“ میں عصمت چغتائی نے ہمارے سماج میں پنپنے والے مسلۂ ہم جنسی کو موضوع بناکر معاشرے کی ایک ایسی بد ترین برائی سے پردہ ہٹایا ہے، جہاں بیگم جان اور ربّو جیسی ہزاروں عورتیں اس دلدل میں پِس رہی ہیں اور پھر عصمت نے ظاہری و خارجی عریانی سے دامن پچاتے ہوئے اپنی ساری فنکارانہ بصیرتیں دونوں خاتون کرداروں کی داخلی کیفیات پر صرف کی ہیں۔

Javed Ahmed Mughal
 C /O Dr.Mohd Reyaz Ahmed ,
 Deptt.of urdu
 University of Jammu 
- 180006, Mob:. 09419592453
Email: sahir.00139@gmail.com
ماہنامہ اردو دنیا،فروری 2016



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

2 تبصرے:

  1. پبلک ٹرانسپورٹ رکشوں بسوں اور ویکنوں میں ایل پی جی کا استعمال غیر قانونی ہے 15 اگست 2021 کو اکسپریس میں شائع ہوا

    جواب دیںحذف کریں