2/7/19

حالی کی عشقیہ شاعری مضمون نگار: شہزاد انجم



حالی کی عشقیہ شاعری


 شہزاد انجم

خواجہ الطاف حسین حالی کا جب ذکر آتا ہے تو ایک ایسی شبیہہ آنکھوں کے سامنے ابھر آتی ہے جو بے شمار انسانی خوبیوں سے مزین و آراستہ ہے چنانچہ حالی کی شخصیت کے اَنگنت روشن پہلو آنکھوں کے سامنے جھلملانے لگتے ہیں۔اُن کی نیکی و دردمندی، انسان دوستی، انکساری و خاکساری، ایثار و قربانی اور سادگی و شرافت کے ایسے متعدد واقعات ہیں جو اُن کی پوری زندگی کوآئینے کی طرح واضح اور عیاں کرتے ہیں۔ اِسی لیے حالی کی عشقیہ شاعری کو پڑھ کر ہم تھوڑی دیر کے لیے اُلجھن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کہاں حالی، عالِم باعمل، نیک ذات اور نیک صفات اورکہاں اُن کے یہ اشعار
تُم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
اُلفت وہ راز ہے کہ چھُپایا نہ جائے گا
——
قیس ہو کوہکن ہو یا حالی
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں
——
آنے لگا جب اُس کی تمنّا میں کچھ مزا
کہتے ہیں لوگ جان کا اس میں زیاں ہے اب
——
کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت
ہم کو طاقت نہیں جُدائی کی
——
ملتے ہی اُس کے بھول گئیں کُلفتیں تمام
گویا ہمارے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا
——
جو دِل پہ گزرتی ہے کیا تجھ کو خبر ناصح
کچھ ہم سے سُنا ہوتا، پھر تُو نے کہا ہوتا

عشق سُنتے تھے جسے ہم، وہ یہی ہے شاید
خود بہ خود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا
——
بے قراری تھی سب اُمّیدِ ملاقات کے ساتھ
اب وہ اگلی سی درازی، شبِ ہجراں میں نہیں
اِن اشعار کو پڑھ کر ذہن میں ایک کُرید ہوتی ہے کہ کہیں حالی کا معشوق گوشت پوست کا تو نہیں۔ کیونکہ خود حالی اپنی شاعری میں کئی اشارے قائم کرتے ہیں۔ مثلاً اُن کے درج ذیل دو اشعار ملاحظہ ہوں:
لذّت ترے کلام میں آئی کہاں سے یہ
پوچھیں گے جا کے حالی جادوبیاں سے ہم
——
ٹپکتا ہے اشعار حالی سے حال
کہیں سادہ دِل، مبتلا ہوگیا
پہلے شعر میں حالی نے تعلّی سے کام لیا ہے، وہ اپنے کلام کی لذّت سے واقف ہیں اور اپنی جادو بیانی پر نازاں بھی ہیں جو ہمیں سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ کلام میں لذّت کہاں سے آئی؟ اس کا سبب کیا ہے، کیا کوئی معشوق پردۂ زنگاری میں ہے؟ دوسرا شعر بھی تھوڑی دیر کے لیے ہمیں اُلجھن میں ڈالتا ہے کہ کیا حالی نوجوانی کے ایاّم میں کسی پری رُخ سے آنکھیں تو نہیں لڑا بیٹھے تھے جس کا اقرار وہ اپنے اِس شعر میں نہایت ہی سادگی اور معصومیت کے ساتھ کررہے ہیں۔ جہاں تک پہلے شعر میں تعلّی اور روایتی خودستائی کی بات ہے تو اس تعلّی کی مزید مثالیں حالی کے یہاں دیکھی جاسکتی ہیں :
متاعِ بے بہا ہے شعر حالی
مری قیمت مری گفتار سے پوچھ

حالی کی سُن لو اور صدائیں جگر خراش
دل کش صدا سُنوگے نہ پھر اس صدا کے بعد

بزم سخن میں جی نہ لگا اپنا زینہار
شب انجمن میں حالیِ جادو بیاں نہ تھا
——
ایسی غزلیں سُنی نہ تھیں حالی
یہ نکالی کہاں سے تُم نے بیاض
تو پھر کیا یہ مان لیا جائے کہ حالی نے جب غزل کا یہ مقطع کہا تھا :

لذّت ترے کلام میں آئی کہاں سے یہ
                پوچھیں گے جا کے حالیِ جادو بیاں سے ہم
کیا یہ صرف اُن کے عہد کی روایتی شاعری کی ایک مثال ہے اور جب حالی پہلے دور سے دوسرے دور میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عشقیہ شاعری سے منحرف ہوجاتے ہیں اوراصلاحی رنگ اُن پر غالب ہوجاتا ہے مگر پھر یہ سوال بھی قائم ہوتا ہے کہ جب حالی اپنے پہلے دور کی شاعری کو ناپسند کرتے ہیں ، اسے فرسودہ اور روایتی سمجھتے تھے تو انھوں نے اپنی قدیم غزلوں کو جدید غزلوں کے ساتھ دیوان میں کیونکر شامل کیا؟ کیا شیفتہ اور غالب کی ذوق آفریں صحبت نے انھیں سچّا شاعر بننے پر مجبور کردیا تھا۔”یادگارِ حالی“ میں صالحہ عابد حسین رقم کرتی ہیں:
حالی لاکھ پاک باز سہی، شعر گوئی کے لیے رندِ شاہد باز بننا ضروری تھا۔ شاعری کی محفل میں داخلے کی شرط ہی یہ تھی کہ وہی پُرانا راگ الاپا جائے۔
(یادگارِ حالی، ص 134-35)
حالی خود لکھتے ہیں:
ایک مدت تک یہ حال رہا کہ عاشقانہ شعر کے سوا کوئی کلام پسند نہ آتا تھا بلکہ جس شعر میں یہ چاشنی موجود نہ ہوتی اس پر شعر کا اطلاق کرنے میں بھی مضائقہ ہوتا تھا۔ خود بھی جب یہ سودا اچھلا آنکھیں بند کیں اور اسی شارع عام پر پڑلیے جس پر راہگیروں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ قافلے کا ساتھ، راہ کی ہمواری اور رہ گزر کی فضا کو چھوڑ دوسرا راستہ اختیار کرنے کا خیال بھی نہ آیا....“                                
(دیباچہ دیوان حالی)
چنانچہ جیسی دلکش و دلآویز عشقیہ شاعری حالی نے کی اُس سے ہم سبھی واقف ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کچھ ہنسی کھیل سنبھلنا غمِ ہجراں میں نہیں
چاک دل میں ہے مرے جو کہ گریباں میں نہیں
——
اُس کے جاتے ہی یہ کیا ہوگئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
——

سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم
ہم بھی آخر کو جی چُرانے لگے
——
ہوتی نہیں قبول دُعا ترکِ عشق کی
دِل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
——
اُس نے اچھا ہی کیا حال نہ پوچھا دل کا
بھڑک اُٹھتا تو یہ شعلہ نہ دبایا جاتا
——
جی ڈھونڈھتا ہے بزمِ طرب میں اُنھیں مگر
وہ آئے انجمن میں، تو پھر انجمن کہاں
——
نیا ہے لیجے جب نام اُس کا
بہت وسعت ہے میری داستاں میں
                حالی کے اِن اشعار یا اس قسم کے دیگر اشعار پر کس کا پرتو ہے؟ کیا یہ اشعار محض رند شاہد باز بننے کے لیے اور شاعری کی محفل میں داخل ہونے کے لیے کہے گئے تھے؟ یہاں میں یہ واضح کردوں کہ درج بالا اشعار میں چند اشعار کا تعلق حالی کے دوسرے دور کی غزلوں سے بھی ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ حالی کے عہد میں عشقیہ شاعری کی بنیادیں نہایت مستحکم تھیں۔ وہ خود کو اس سے محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔ شاید اسی لیے اُنھیں چند روز جھوٹا عاشق بننا پڑا ۔ مسدّس کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
البتہ شاعری کی بدولت چند روز جھوٹا عاشق بننا پڑا۔ ایک خیالی معشوق کی چاہ میں برسوں دشتِ جنوں کی وہ خاک اڑائی کہ قیس و فرہاد کو گرد کردیا....“
                خیالی معشوق کی چاہت اور مذکورہ شارع عام پر چلنے کی ضرورت نے حالی کو اِس راہ کا مسافر بنادیا گویا یہ کہ یہ راستہ یا پھر یہ کہیں کہ شاعری حالی کے بنیادی مزاج کا حصّہ نہیں تھی۔ پھر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا یہ شاعری حالی کے دِل کی آواز نہیں؟ علاوہ ازیں حالی کے ان اشعار کا کیا کیا جائے؟
گو جوانی میں تھی کجرائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
——
ہوئے تم نہ سیدھے جوانی میں حالی
مگر اب مری جان ہونا پڑے گا
——
اپنی روداد تھی جو عشق کا کرتے تھے بیاں
جو غزل لکھتے تھے ہوتی تھی سراسر حالی
کیا حالی کے یہ اشعار اوراس طرح کے دوسرے عشقیہ اشعار محض دل لگی کے لیے ہیں یا کسی حقیقت سے ان کا کوئی واسطہ بھی ہے؟ یا پھر اساتذۂ شعر و سخن کی محفلوں اور نجی صحبتوں نے ان کی شاعری کو جِلا بخشی اور اُن کے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ اردو غزل کا عطر یا جوہر عشقیہ شاعری ہی ہے۔ اس کے بغیر وادیِ غزل میں شناخت قائم کرنا بے حد مشکل ہے۔ حالی کی عشقیہ شاعری اس کی عمدہ مثال ہے۔ حالی کی عشقیہ شاعری میں کافی وسعت ہے۔ عشقیہ شاعری کے تعلق سے فراق گورکھپوری اپنی کتاب ”اردو کی عشقیہ شاعری“ میں لکھتے ہیں:
عشقیہ شاعری کی داستان محض عارض و کاکُل قُرب و دوری، جورو کرم، وصل و ہجر، ذکر غم یا ذکر محبوب تک محدود رہے یہ ضروری نہیں۔ بلکہ پُرعظمت عشقیہ شاعری حسن و عشق کی واردات کو زندگی کے اور مسائل و مناظر کے Perspectiveیا نسبتوں کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ داخلیت و خارجیت، نفسیت و واقعیت، ارتکازو تنوع کالیداس، شیکسپیئر، گیٹے، دانتے کی آفاقی اور پُرعظمت و مکمل عشقیہ شاعری میں یکساں موجود ہیں۔ جب قومی زندگی میں ترقی و تعمیر کے عناصر کارفرما ہوتے ہیں تو ان کی جگمگاہٹ عشقیہ شاعری میں بھی مرکوز و محدود و سوز و گداز سے گزر کر بزمِ کائنات میں چراغاں کردیتی ہے۔ اُس وقت عشقیہ شاعری کے ہاتھوں میں گریبانِ ہستی آجاتا ہے۔ بلند عشقیہ شاعری محض عشقیہ شاعری نہیں ہوتی۔
(اردو کی عشقیہ شاعری : فراق گورکھپوری،ص 13-14)
فراق مزید لکھتے ہیں:
ہم اُسے سچّی عشقیہ شاعری نہیں کہتے جو ہمیں مٹاکر رکھ دے یا جو محبت و زندگی کے لیے حوصلہ شکن ہو، ہم اُسے حقیقی عشقیہ شاعری کہتے ہیں جو ہماری رگوں میں خون دوڑائے اور ہماری زندگی کو بھرپور بنادے۔
(اردو کی عشقیہ شاعری: فراق گورکھپوری ص 18)
حالی کی عشقیہ شاعری ہمیں حوصلہ بخشتی ہے اس سے نور چھن چھن کر زندگی میں جوش اور اُمنگ بھردیتا ہے۔ ایک طرب انگیز سرور میں سرشار ہوکر ہم تھوڑی دیر کے لیے خوشیوں کے باغ میں چہل قدمی کرنے لگتے ہیں۔ نہایت سنبھلی ہوئی، لطیف اور متوازن کیفیت ہمیں سرشارکر دیتی ہے مثلاَ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جاکر نظر کہاں
——
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھّی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں
——
قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح
لگادو آگ کوئی آشیاں میں
بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
حالی کے ان اشعار میں ایک خاص قسم کی سادگی ہے لیکن اس سادگی کے بطن میں جو خلوص وصداقت ہے وہ اِن اشعار کو رعنائی اور حُسن عطا کرتے ہیں۔ اُن کے ذاتی تجربات اور احساسات جب شعر کے قالب میں ڈھلتے ہیں تو شائستگی اور متانت، جذبات کی صداقت اور ایسے پاکیزہ خیالات کا احساس ہوتا ہے جن میں لطف و اثر بھی ہے اور سوز و گداز بھی،حُسنِ تغزل بھی ہے ، شائستگی بھی ہے اور لہجے کی دھیمی دھیمی لَے بھی۔
 حالی کس نازنین پر اور کب فدا ہوئے؟ ان کی عشقیہ شاعری کا سرچشمہ کہیں کوئی معشوق تو نہیں اس کی تلاش اب تک بے سود اور لاحاصل رہی ہے کیونکہ حالی کی پوری زندگی ایک مکمل آئینہ ہے۔ وہ تو شادی کے فوراً بعد پانی پت سے دہلی خاموشی سے آگئے تھے اور مذہب کی طرف حد درجہ راغب تھے۔غنیمت ہے کہ ایسے وقت میں اُن کی ملاقات شیفتہ و غالب سے ہوگئی جنھوں نے اُن کی ادبی زندگی کو ایک نیا رُخ عطا کیا اور وہ شعر کے حقیقی حُسن سے واقف بھی ہوئے جس کا اقرار حالی خود کرتے ہیں:
شیفتہ مبالغہ کو ناپسند کرتے تھے اور حقائق و واقعات کے بیان میں لُطف پیدا کرنا اور سیدھی سادی سچّی باتوں کو محض حسنِ بیان سے دلفریب بنانا اسی کو منتہائے کمال شاعری سمجھتے تھے۔ چھچھورے اور بازاری الفاظ و محاورات اور عامیانہ خیالات سے شیفتہ اور غالب دونوں متنفر تھے۔ اُن کے خیالات کا اثر مجھ پر بھی پڑنے لگا اورایک خاص قسم کا مذاق پیدا ہوگیا۔
(تذکرۂ حالی: اسماعیل پانی پتی)
اس کا اظہار حالی شعر میں یوں کرتے ہیں:
حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالب کا معتقد ہے، مقلد ہے میر کا
صالحہ عابد حسین ’یادگارِ غالب‘ میں رقم طراز ہیں:
فطری صلاحیت، میر اور سعدی جیسے شاعروں کے روحانی فیض اور غالب و شیفتہ جیسے صاحبِ ذوق شعرا کی صحبت اور تربیت کی بدولت حالی اِس میدان میں بڑی حد تک سنبھلے رہے۔ چنانچہ اُن کے اس دور کے کلام میں بھی نہ تو وہ عامیانہ اور گھٹیا مذاق نظر آتا ہے جس کی بنیاد سطحی عشق اور ہوا و ہوس کے جذبات پر رکھی جاتی ہے اور نہ معاملہ بندی اور کنگھی چوٹی کا وہ ذکر ہے جو اُس وقت بیشتر شاعروں کا موضوع تھا۔ وہ تخیل کی ان غیر قدرتی رفعتوں پر بھی نہیں اُڑتے جن سے شعر ایک گورکھ دھندا بن جاتا ہے۔ نہ دُور از کار تشبیہوں، مبہم استعاروں کا وہ جال بُنتے ہیں جس میں اُلجھ کر شعر کا مطلب خبط ہوجائے، انھوں نے اپنے روحانی استادوں اور زندہ استادوں سے اپنی طبیعت اور صلاحیت کے مطابق استفادہ کیا تھا۔ میر سے دردِ دل لیا اور درد سے تصوف کی چاشنی، غالب سے حسن تخیل، ندرتِ فکر اور شوخیِ گفتار سیکھی اور سعدی سے بیان کی سادگی اور معنی کی گہرائی اور شیفتہ سے سیدھی سچی باتوں کو محض حسنِ بیان سے دلفریب بنانے کا فن اور ان سب کی ترکیب سے حالی کی غزل کا ہیولیٰ تیار ہوا۔
(یادگارِ حالی ص134)
حالی جدید اردو غزل کے اہم شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کی شاعرانہ عظمت کا اقرار ناقدوں اور ادیبوں نے کیا ہے۔ اُن کے یہ اشعار حالی کی رنگیں بیانی اور جادو نوائی کے بیّن ثبوت ہیں۔ محبت کا صالح،نیک اور پاکیزہ جذبہ اُن کے سینے کے اندر بھی موجود ہے۔ وہ ان جذبات کا اظہار سادگی، متانت، خلوص اور کمالِ گویائی کے ساتھ کرتے ہیں:
حالی کو ہجر میں بھی جو دیکھا تو شادماں
تھا حوصلہ اُسی کا کہ اتنا صبور تھا
——
غمِ دل نے رُسوا کیا ہم کو آخر
بنائی بہت شادمانی کی صورت
——
کوئی دل سوز ہو تو کیجے بیاں
سرسری دل کی واردات نہیں
——
وقتِ رخصت تھا سخت حالی پر
ہم بھی بیٹھے تھے جب وہ جانے لگے
خواجہ الطاف حسین حالی نے بھلے ہی اپنے دوسرے دور کی شاعری میں قصّہ عشق بتاں سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہو اور کچھ دل سے اور کچھ آسماں سے ڈر کر سایۂ عشق بتاں سے بھی بھاگتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالی کی عشقیہ شاعری کا نقش خاصا گہرا، دلکش اور دلآویز ہے ۔ یہ اُن کی مخصوص شناخت ہے اور اس کے بغیر حالی کی شاعری کا ذکرنا مکمل اور ادھورا رہے گا۔
Prof. Shahzad Anjum.,
 Dept of Urdu, 
Jamia Millia Islamia,
 New Delhi - 110025

ماہنامہ اردو دنیا،جنوری 2015



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے





1 تبصرہ:

  1. بہت عمدہ مضمون ہے۔ آپ نے نہایت باریک بینی اور نکتہ سنجی کے ساتھ حالی کی عشقیہ شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ میرا یہی خیال ہے کہ حالی کی غزلوں کے اشعار یا عرف عام میں عشقیہ شاعری کو ان کی مدبرانہ شخصیت کے تناظر میں رسمی، وقتی یا غالب و شیفتہ کی اثر پذیری قرار دینا ان کی گرانقدر شاعری کی قدروقیمت گھٹانا ہوگا۔ کسی اور کی اثر پذیری کے نتیجے میں جو اشعار تحریر پاتے ہیں، ان میں اخلاص، تاثر، گرامی اور روانی کا فقدان ہوتا ہے جبکہ حالی کے اشعار اردو شاعری کے باب میں نہ صرف اہم اضافہ ہیں بلکہ اپنی منفرد شناخت بھی رکھتے ہیں۔ آپ کی تحریر حالی کی عشقیہ شاعری کی شناخت کے ذیل میں اہم کاوش ہے۔ مبارک باد!

    جواب دیںحذف کریں