9/7/19

احتجاج کی منفرد آواز: فیض مضمون نگار: دیوان حنان خان




احتجاج کی منفرد آواز: فیض
دیوان حنان خان


فیض کا شمار بیسویں صدی کے نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے۔ان کا تعلق ترقی پسند مکتب فکر سے تھا۔ وہ نہ صرف نظریاتی اعتبار سے ترقی پسند تھے بلکہ عملی طور پربھی انھوں نے اپنے ترقی پسند ہونے کا ثبوت دیا۔ایک شاعر، صحافی، ٹریڈ یونین لیڈر اور فوجی افسر کی حیثیت سے انھوں نے غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کے دکھ درد کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ ان کے مداوا کے لیے ہمیشہ کوشاں بھی رہے۔جس عہد میں انھوں نے شعر گوئی کی شروعات کی وہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں انقلابی تبدیلیوں کا زمانہ تھا۔ ہندوستان میں انگریزی حکومت کے خلاف آزادی کی جدوجہد پورے شدومد کے ساتھ جاری تھی۔مختلف افریقی ممالک میں بھی آزادی کی لہر چل رہی تھی۔پہلی عالمی جنگ گو کہ ختم ہو چکی تھی لیکن اس کے اثرات پوری دنیا میں نمایاں تھے۔دوسری عالمی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔1917 میں روس میں زار شاہی کا خاتمہ اور اشتراکی حکومت کا قیام اس دور کا ایک ایسا تاریخ ساز واقعہ تھا جس نے پوری دنیا کے کمزور اور غریب عوام کو ایک نیا جوش و جذبہ عطا کیا تھا اور وہ استعماری اور سامراجی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہو رہے تھے۔ فیض نے بھی کہا تھا:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول،یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
نظم ’بول‘ کے یہ اشعار دبے کچلے کمزور انسانوں کو صدیوں سے جاری ظلم و استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور اس کا خاتمہ کردینے کی دعوت دیتے ہیں:
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
 ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
فیض احمد فیض کے یہ اشعار ان کی شاعری میں احتجاج کی نوعیت کو بخوبی واضح کرتے ہیں۔ فیض کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے پوری دنیا کے مجبورومظلوم اور کمزور انسانوں کے دکھ درد کو اپنا سمجھا اور زندگی بھر اس کے خلاف اپنے قلم کے ذریعے برسر پیکار رہے۔ وہ صرف اپنی زباں بندی کے خلاف احتجاج نہیں کرتے بلکہ جہاں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے یا عوامی آواز کو دبانے کی کوشش ہورہی ہے، فیض اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔آزادی سے قبل کے دنوں میں جہاں انھوں نے انگریزی سامراج کی ظالمانہ اور استحصال پسندانہ پالیسیوں کو موضوع بنا یا وہیں آزادی کے بعدخود اپنے لوگوں نے عوام پر جو ظلم و جبر کیا اس پر بھی کھل کر لکھا۔ ان کی نظم ’صبحِ آزادی‘ اس کا بیّن ثبوت ہے۔ فیض نے آزادی کے بعد ملک میں ہونے والے فسادات،قتل و خوں ریزی،عورتوں کی بے حرمتی، حکمرانوں کی بے حسی اور مغربی سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے رہنے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ان کی نظموں اور غزلوں میں مزدوروں ،کسانوں اور محنت کشوں کے مسائل و مصائب،سرمایہ داروں کے ہاتھوں ان کے استحصال،دولت مندوں کی عیش پسندی، سماج میں موجود عدم مساوات، سیاسی لیڈروں کی عیاری و مکاری، مارشل لا،زبان و بیان اور تحریر و تقریر پر پابندی، ملک کی ابتر صورت حال،سقوط بنگلہ دیش کے علاوہ  بین الاقوامی مسائل مثلاً افریقی ممالک کی جدوجہد آزادی، فلسطینی عوام کی بے گھری وغیرہ پر بھی زبردست احتجاج ملتا ہے۔
اشفاق حسین فیض کی شاعری کے اس پہلو کے بارے میں لکھتے ہیں:
”اپنے دیس کے علاوہ جہاں کہیں بھی کوئی عوامی تحریک اٹھی ہے یا آزادی کی کوئی جنگ لڑی گئی ہے، فیض کا قلم ہمیشہ ان کی حمایت میں اٹھا ہے۔ ایران کے طالب علموں کی جدوجہد ہو یا ویت نامی اور فلسطینی عوام کے حقوق آزادی کی جنگ ہو، فیض نے اپنی شاعری کے ذریعے ان سب کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔اس لیے ان کی شاعری آزادی اور امن کی شاعری ہے۔“
(مطالعہَ فیض امریکہ و کینیڈا میں، ص 35)
فیض کی احتجاجی شاعری کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے خالد سہیل نے لکھاہے کہ
”فیض کو جب انفرادی، اجتماعی اور تاریخی عوامل کا شعور حاصل ہوا اور اس پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ لاکھوں انسان ظلم کی چکی میں پس رہے  ہیں تو کسی بھی حساس انسان اورشاعر کی طرح ا س کے دل میں بھی ظالموں کے خلاف غصے اور نفرت کا لاواابھرا اور اس کے اشعار میں بہنے لگا۔ اس نے استحصال کی چکی میں پسنے والے عوام کو نہ صرف عمل کی دعوت دی بلکہ جارحانہ عمل کی دعوت دی۔ اس نے جنگ کا اعلان کیااور انقلاب لانے کے ترانے گانے شروع کیے:
ہم نے مانا جنگ کڑی ہے
سر پھوٹیں گے خون بہے گا
خون میں غم بھی بہہ جائیں گے
ہم نہ رہیں غم بھی نہ رہے گا
(خالد سہیل: مضمون ’فیض شہر آزادی کا مسافر‘ مشمولہ’مطالعہ فیض: امریکہ و کینیڈا میں‘ ص 128)
فیض دراصل شاعر انسانیت تھے۔ جب کبھی انسانیت پر ضرب پڑی، جب کبھی کسی کمزور پر طاقتور کا ہاتھ اٹھا،کسی مزدور کا استحصال ہوا،کسی کسان کو فاقہ کشی کا شکار ہونا پڑا یاکسی کی حق تلفی ہو ئی، فیض کا دل مضطرب ہوا اور انھوں نے اس سماجی و سیاسی نظام کو بدلنے کے لیے اپنے اشعار کے ذریعے راے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔نظم ’رقیب سے‘ میں کہتے ہیں:
جب کبھی بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو  بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
نظم موضوع سخن میں وہ سوال کرتے ہیں:
ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے؟
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتاہے جوبن جن کا؟
  کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے؟
 فیض نے ’دست صبا‘ کے ابتدائیہ میں لکھا تھا:
            ”شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں، مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے۔ گردوپیش کے مضطرب قطروں میں زندگی کے دجلہ کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے، اسے دوسروں کو دکھانااس کی فنی دسترس پر، اس کے بہاو میں دخل انداز ہونااس کے شوق کی صلابت اور لہو کی حرارت پر۔
اور یہ تینوں کام مسلسل کاوش اور جدوجہد چاہتے ہیں۔“  آگے لکھتے ہیں:
”حیات انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا ادراک،اور اس جدوجہد میں حسب توفیق شرکت،زندگی کا تقاضا ہی نہیں فن کا بھی تقاضا ہے۔“(ابتدائیہ ’دست صبا‘)
انسانی زندگی کی اجتماعی جدوجہد اور اس میں حسب توفیق شرکت کا تقاضا ہی تھا کہ فیض نے عملی طور بھی ظلم وجبر اور استحصال کے خلاف جنگ میں نمایاں حصہ لیا اور حکمراں طبقے کی طرف سے معتوب قرار دیے گئے۔ ان کی زندگی کاخاصا وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرا۔ لیکن وہ اس سے بد دل نہیں ہوئے بلکہ اور شدومد کے ساتھ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کی مخالفت کی۔ جب انھیں راول پنڈی سازش کیس میں حکومت کا تختہ پلٹنے کے الزام میں گرفتا رکیا گیاتو فیض نے وہ مشہور زمانہ غزل کہی جس کا یہ شعر زباں زد عام ہے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
اس صورت حال پر فیض کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے:
 ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا خطائے نظر سے پہلے،عتاب ، جُرمِ سخن سے پہلے
نہیں رہی اب جنوں کی زنجیر پر وہ پہلی اجارہ داری
گرفت کرتے ہیں کرنے والے خرد پہ دیوانہ پن سے پہلے
دوران اسیری فیض نے ’نثار میں تیری گلیوں کے...‘ جیسی شاہکار نظم لکھی جس میں ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو گرفتار کیے جانے اور ظالموں، فسادیوں، سازش کرنے والوں اور مجرموں کو کھلی چھوٹ دینے پر چوٹ کی گئی ہے۔ نظم کے مندرجہ ذیل بند میں اس صورت حال کی عکاسی کی گئی ہے:
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے،جسم و جاں بچاکے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست وکشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
پاکستان میں زیادہ تر فوجی آمریت کا غلبہ رہا ہے۔ عوام کی منتخب کردہ حکومتیں معزول ہوتی رہیں اور زمام اقتدار فوج کے ہاتھوں میں رہی۔ ایسے میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کا قتل فطری تھا۔ بار بار ایمرجنسی کے نفاذ اور تحریر و تقریر پر پابندی پاکستانی عوام کا مقدر بنتی رہی۔فیض نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی۔خواہ ایوب خاں کا دور ہو یا یحیٰ خاں کایا جنرل ضیا ءالحق کا، ان کا قلم کبھی مصلحتوں کے تابع نہیں رہا۔ انھوں نے ہمیشہ عوامی جذبات و احساسات کی قدر پر زور دیا اور ناانصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ایوب خاں کے زمانے میں جب مارشل لا نافذ ہوا تو تمام مخالفین قید کر لیے گئے۔اس زمانے میں فیض نے اپنی نظم ’یہاں سے شہر کو دیکھو‘کہی۔ اس کے دو بند ملاحظہ کیجیے:
یہاں سے شہر کو دیکھو توحلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہرایک سمت فصیل
 ہر ایک راہگزر گردش اسیراں ہے
نہ سنگ میل، نہ منزل، نہ مخلصی کی سبیل

جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے سوال
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی
جو کوئی ہاتھ ہلائے تو وہم کو ہے سوال
کوئی چھنک کوئی جھنکار کیوں نہیں آئی
آمریت نے عوام پر جو ستم ڈھائے ان کی عکاسی ’لہو کا سراغ‘ اور ’ایک شہر آشوب کا آغاز‘ وغیرہ نظموں میں بھی کی گئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کو ختم کرکے جنرل ضیا ءالحق نے جب حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی تو فیض نے لکھا:
مرے دل مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
’ظالم‘ اور ’ہم تو مجبور وفا ہیں‘ وغیرہ نظموں کا موضوع بھی یہی ہے۔
شاعر اس صورت حال سے نالاں ہے اور اس کے خاتمے کا آرزو مند ہے۔اس لیے وہ عوام کو اٹھ کھڑے ہونے اور ظالموں کے تخت و تاج کو اچھالنے کا مشورہ دیتا ہے۔ ترانہ کے یہ چند اشعار اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں:
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو،وہ وقت قریب آپہنچاہے
جب تخت گرائے جائیں گے ،جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں ، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
اے ظلم کے مارو لب کھولو ،چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا،کچھ دور تو نالے جائیں گے
فیض کی نظم ’کتے‘ ایک زبردست استعاراتی نظم ہے جس میں عوام کو اپنی پریشانیوں اور مصائب کے خاتمے کے لیے بغاوت کا درس دیا گیا ہے۔ دیکھیے نظم کے آخری شعر میں فیض کس طرح اس مظلوم طبقے کو بیدار کر رہے ہیں:
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
مغربی پاکستان کی فوج نے 1971 میں آزادی کا مطالبہ کرنے والے نہتے بنگلہ دیشیوں (اس وقت کا مشرقی پاکستان) کے ساتھ جس ظلم و بربریت کا سلوک کیا، وہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا تھا۔ اس صورت حال پر فیض نے نظم ’ڈھاکہ سے واپسی ‘پر لکھی۔
اس نظم کے دو اشعار پیش ہیں:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
 فلسطینی عوام کی دربدری اور کرب ناک زندگی فیض کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ انھوں نے فلسطینیوں کی حالت زار پر کئی نظمیں کہیں جن میں’عشق اپنے مجرموں کو پا بجولاں لے چلا‘، ’فلسطینی بچے کے لیے لوری‘ اور ’فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے‘ اہم ہیں۔
فیض کی احتجاجی شاعری کی خوبی یہ ہے کہ اس میںچند مقامات کو چھوڑکر کہیں بھی ان کا لب ولہجہ اونچا نہیں ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی ان کی نظموں کی اس خصوصیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
”فیض کی شاعری میں دل گرفتگی اور ملال کا عنصر طمانیت اور سرخوشی کے احساس پر غالب ہے۔ ایسا شاید اسی لیے ہے کہ فیض اجتماعی آشوب کی عکاسی کے باوجود، بنیادی طور پر تخلیقی تنہائی کے تجربے سے بالعموم کنارہ کش نہیں ہوتے۔ ان کا احتجاج بھی، جس کے واسطے سے وہ انسانوں کے ایک گروہ کی ترجمانی کرتے ہیں اور صرف اپنی ہستی کے پابند نہیں رہ جاتے، بڑی حد تک ایک زیرلب،بلکہ ایک خاموش احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اونچی، کھلی ڈلی آواز میں بہت کم بات کرتے ہیں۔ جن نظموں میں ان کا آہنگ قدرے اونچا محسوس ہوتا ہے، مثال کے طور پر’آجا ایفریقہ‘ یا زندگی کے آخری دور کی نظم ’ہم دیکھیں گے ،لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے‘ تو اس نوع کی نظموں میں بھی اداسی کی ایک لہر جوشیلے جذبات کی ہم رکاب دکھائی دیتی ہے۔
نظم چاہے جتنی بلند آہنگ اور انقلابی ہو،آہستہ روی اور نرمی کا تا ثر برقرارہتا ہے۔نعرہ نغمے میں ڈھل جاتا ہے اور برہمی سرگوشی بن جاتی ہے۔(خیال کی مسافت، ص412)
فیض کی احتجاجی شاعری کی سب سے بڑی خوبی ان کی رجائیت پسندی ہے۔ وہ حالات سے مغموم ضرور ہیں لیکن مایوس نہیں ہیں۔ وہ ظلم و استحصال کے خاتمے اور امن عالم کے قیام کے لیے عمر بھر کوشاں رہے اور کبھی حالات کے سامنے سپر نہیں ڈالا۔ فیض کو اس بات کا اطمینان ہے کہ انھوں نے مقدور بھر ناانصافی اور ظلم کے خاتمے کے لیے جدوجہد کی اور ایک ایسی صبح کا خواب دیکھا جس میں عدل و انصاف ہو، امن و مساوات ہو اور خوشی اور آسودگی ہو۔ انھیں اس کا افسوس نہیں کہ وہ یہ روشن صبح نہ دیکھ سکے۔ انھیں پوری امید تھی کہ آنے والی نسلیں یہ روشن صبح ضرور دیکھیں گی۔انھی کے لفظوں میں:
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ ِ گلشن و صوت ہزار کا موسم
Dr. Deewan Hannan Khan,
 Associate Prof, 
Dept of Education in Languages, NCERT, 
New Delhi - 110017


ماہنامہ اردو دنیا،مئی 2014




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں