18/7/19

فضائی آلودگی مضمون نگار: حمید ادیبی ناندوروی



فضائی آلودگی


 حمید ادیبی ناندوروی


ہر جاندار کے لیے صاف ہوا کی سخت ضرورت ہے کیونکہ زندگی کا انحصار ہوا پر ہے۔ اگر سانس کے ذریعے جسم میں صاف ہوا کی بجائے خراب ہوا داخل ہو تو زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ آج کل پوری دنیا فضائی آلودگی کا شکار ہے۔ اس لیے ہر ملک میں فضا کو خوشگوار بنانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں تاکہ وہاں کے شہری اچھے اور صحت مند رہیں۔ ہندوستان میں بھی ماحول کو صاف اور صحت مند رکھنے کی کوشش ہورہی ہے۔
فضائی آلودگی نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ اس سے کئی امراض لاحق ہوکر انسانی زندگی کی ہلاکت کا پیشہ خیمہ ثابت ہورہے ہیں۔ اس سے لاحق ہونے والے امراض میں دمہ، کھانسی، زکام، پھیپھڑوں کا سرطان، جگرکی کمزوری اور جگر پر سوجن وغیرہ شامل ہیں۔ فضائی آلودگی سے بچاؤکے لیے گرد و پیش میں صاف صفائی کرنا اور اسے برقرار رکھنا زیادہ سے زیادہ پیڑ لگانا، سیر کرنا، روزانہ آٹھ دس نیم کے پتے کھانا اور روزانہ دو تین لیٹر پانی پینا ضروری ہے۔
گذشتہ دنوں فضائی آلودگی دارالسلطنت دہلی میں ایک قہر بن کر آئی تھی۔ اس کے تدارک کے لیے تدبیریں کی گئیں۔ سب سے پہلے تو شہریوں نے منہ اور ناک پر کپڑا لگایا تاکہ ہوا میں موجود صحت پر اثرانداز ہونے والی کثافت سانس کے ذریعے جسم میں داخل نہ ہونے پائے۔ وہاں کی حکومت نے بھی کافی کوشش کی تاکہ وہاں کی آب و ہوا جلد یا بدیر آلودگی سے پاک ہوجائے۔
ذرائع ابلاغ کے بموجب ملک میں صاف ہوا کے لیے مہاراشٹر دوسرے نمبر پر ہے مگر پھر بھی مہاراشٹر میں 2017 میں فضائی آلودگی کے سبب ایک لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ پوری ریاست اور خاص طور سے ضلع چندرپور فضائی آلودگی کے سبب ہوا کے معیار کے سلسلے میں سب سے خراب مانا گیا۔
چھ دسمبر 2018 کو ہندوستان کی فضائی آلودگی کا جائزہ لینے پر دی لین سیٹ پلینٹری ہیلتھ (The Lancet Planatary Health) یعنی کرۂ ارض پر صحت کے اعتبار سے ہوا کا معیار ناپنے والے ادارے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ہندوستانی آبادی کا لگ بھگ ستر فیصدی حصہ معیاری ہوا کے تحفظی حدود کی سطح (Level) سے اوپر بیرونی فضائی آلودگی کا شکار ہوتا ہے جبکہ شمالی ہند کی ریاستیں اس سے بھی زیادہ بلند سطح پر متاثر ہوتی ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کے موضوع پر منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مختلف ماہرین ماحولیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وزارتِ صحت اور خاندانی بہبو دکے متعلقہ محکمے کے سکریٹری پروفیسر بلرام بھارگوا نے کہا کہ ریاست میں اندرونی اور بیرونی فضائی آلودگی کے اثرات کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔ اس ضمن میں ماحولیاتی صحت برقرار رکھنے والے محکمے کی ڈائرکٹر پروفیسر کلپنا بال کرشنن Prof. Kalpana Balkrishana نے کہا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے پاس عالمی اور ہندوستان کی ریاستوں میں فضائی آلودگی کے سبب قبل از وقت واقع ہونے والی اموات اور امراض کے بڑھتے شواہد موجود ہیں۔
تمام ماہرین کی آرا سے پتہ چلا کہ 265 مائکرون کی سائز کے اجزا پر مشتمل آلودگی سانس کے ذریعے انسان کے جسم کے اندر داخل ہوکر پھیپھڑوں کو بڑا نقصان پہنچاتی ہے اور اس سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
گذشتہ برس ریاست مہاراشٹر میں صرف ماحولیاتی آلودگی کے سبب کم ازکم 62,677 اموات واقع ہوئیں یعنی کل اموات میں سے ساٹھ فیصدی اموات فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوئیں۔ یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب مہاراشٹر کا یہ حال ہے تو دوسری ریاستوں کا کیا حال ہوگا۔ ظاہر ہے کہ وہاں بھی کئی ہلاکتیں ہوئی ہوں گی۔ یعنی فضائی آلودگی کے سبب ملک بھر میں کروڑوں افراد جاق بحق ہوجاتے ہیں جو کہ ایک تشویشناک امر ہے اور اس کا تدارک ضروری ہے۔
میڈیکل سائنس کے کل ہندادارے All India Institute of Medical کے ڈائرکٹر جناب رندیپ گلیریا Randeep Galeria نے بتایا کہ موسم سرما میں فضائی آلودگی اپنے شباب پر ہونے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے ساری دنیا واقف ہے مگرایسا سمجھا جارہا ہے کہ خاص طور سے شمالی ہند میں یہ معاملہ اب سال بھر کی پریشانی والا بن گیا۔ فضائی آلودگی سے انسان کی صحت متاثر ہوتی ہے کہ یہ تو صحیح ہے مگر انسان کو موسمی ہواؤں سے ہونے والی بیماری سے زیادہ فضائی آلودگی متاثر کرتی ہے اور وقت بہ وقت بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ جناب گلیریا نے مزید کہا کہ فضائی آلودگی آج پھیپھڑوں کی متعدد بیماریاںپھیلا کر ایک خطرناک شکل اختیار کرگئی ہے۔ پھیپھڑے کے سرطان کے لیے تو یہ زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے۔ دنیا کی آبادی کے لیے یہ اٹھارہ فیصدی ہے، مگر صرف ہندوستان کے لیے چھبیس فیصدی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے یہاں صحت کے نقصان ہونے سے قبل از وقت موت واقع ہوجاتی ہے۔ ذہن نشیں رہے کہ تحقیق کی فضائی آلودگی کے اسباب کا اب تک کوئی سراغ نہیں لگ سکا۔ مگر محققین کا دعویٰ ہے کہ کوئلہ جلنے سے اٹھنے والا دھواں، کارخانے اور فیکٹری سے نکلنے والی زہریلی کیمیائی گیس، سڑک و راستے کی کثیف دھول مٹی، نالیوں سے گندی اور بدبودار ہوا، کھیتوں میں بے کار پودوں کو جلانے سے اٹھنے والا دھواں، سڑک پر دوڑتی موٹر گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی پیدا کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ستر سال سے کم عمر والے افراد کو فضائی آلودگی کے اثرات زیادہ جھیلنے پڑتے ہیں اور وہ موت کے گھاٹ آسانی سے اتر جاتے ہیں کیونکہ جن افراد کی اموات واقع ہوئی ہیں، ان میں ستر سال سے کم عمر والے افراد کی تعداد نصف ہے۔ جائزہ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اب تمباکو نوشی سے ہونے والے امراض سے بھی زیادہ امراض فضائی آلودگی کے سبب رونما ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ سے تنفسی مرض، سانس کم پڑنا یا پھول جانا، حرکت قلب بند پڑنا، فالج، ذیابیطس اور پھیپھڑے کا سرطان وغیرہ جیسے امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔
مرکزی وزارتِ صحت کے ماتحتی خدمت انجام دینے والے محکمے کے ڈائرکٹر جنرل جناب ایس۔ وینکٹیش کہتے ہیں کہ وہ کئی ایک لائحۂ عمل مرتب کرنے والے ہیں، جو عوام میں بیداری پیدا کریں گے کہ کس طرح ماحول کی آلودگی پر قابو پایا جاسکتا ہے او راس سے بچاؤ کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ عوام کی صحت پر اثرانداز نہ ہوسکے۔
سینہ تحقیقاتی ادارہ (Chest Research Foundation) کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سندیپ سالوی نے کہا ہے کہ اب مہاراشٹر میں ہونے والی اموات میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ عوام میں فضائی آلودگی کے سلسلے میں بیداری نہیں ہے۔ عوام نہیں جانتے کہ فضائی آلودگی انسان کی صحت پر کس قدر بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے تو عوام ضرور فضائی آلودگی کے بارے میں پیش بندی سے کام لیں گے۔ اس لیے ہم تلقین کرتے ہیں کہ لوگ فضائی آلودگی سے نہ صرف تحفظ کی تدابیر اختیار کریں، بلکہ اسے پیدا بھی نہ کریں کیونکہ پیش بندی علاج سے بہتر ہے۔
انسان کے مختلف افعال کے نتیجے میں بے کار مادّے پیدا ہوتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں انسان کئی اشیا استعمال کرتا ہے۔ یہ اشیا کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ بے کار ہوتی ہیں اور کچھ دوبارہ استعمال کے قابل ہوتی ہیں۔ بے کار اشیا یا مادّوں کی نکاسی کرنی پڑتی ہے۔ اگر نکاسی مناسب طریقے سے نہیں کی گئی تو بیکار چیزیں یا مادّے پانی، زمین اور ہوا میں گھل مل کر فضائی آلودگی پیدا کرتے ہیں۔ یہ بات معاشی ترقی، خوشگوار ماحول اور حفظانِ صحت کے نقطۂ نظر سے سنگین مسئلہ ہی نہیں، فطرتی (Natural) اور انسانی مسکن کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔ اس لیے فطرتی خوشگوار اور صحت مند زندگی کا تقاضا ہے کہ تازہ اور صاف ہوا کا ہمیشہ خیال رکھا جائے۔ خراب ہوا یعنی فضائی آلودگی سے ماحول کو پاک رکھنا ہم سب کی ذمے داری بھی ہے۔
ماحولیات کے تئیں بیداری کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی اچھی صحت کا دار و مدار صاف ہوا پر ہے اور ہوا میں آلودگی اس کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اگر ہوا صاف اور بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی گئی تو ایک دن ایسا آئے گا، جب انسان صاف ہوا کے لیے ترسے گا اور دھیرے دھیرے اس کا وجود ختم ہوجائے گا۔ فضائی آلودگی اسی وقت ختم ہوگی جب حکومت اور ذمے دار ادارے کمر بستہ ہوکر اس کا مقابلہ ایک چیلنج کی صورت میں کریں گے۔
Hameed Adeebi Nandorvi
Gulshan-e-Urdu, Room Nom: 27
Bangri Wala Chaal, Quraish Nagar
Kurla (w)
Mumbai - 456001 (MS)




ماہنامہ اردو دنیا،جولائی 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں