18/7/19

1980 کے بعد کی اردو اور ہندی کہانیوں کا تقابلی مطالعہ مضمون نگار: محمد نہال افروز




1980 کے بعد کی اردو اور ہندی کہانیوں کا تقابلی مطالعہ
محمد نہال افروز

ہندوستان میں اردوافسانہ اور ہندی کہانی دونوں ہی کی ابتدا مغرب کی ایک صنف Short Story کے زیراثرہوئی۔ اردو اور ہندی کہانیوں کے ابتدائی نقوش کو اگر نظرانداز کر دیا جائے تو دونوں ہی زبانوں میں اس صنف کے موجد ہونے کا حق پریم چند کو حاصل ہے۔پریم چند سے پہلے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں جو بھی کہانیاں تھیں وہ دوسری زبانوں سے ترجمہ شدہ تھیں یا پھر جو طبع زاد کہانیاں لکھی بھی گئی تھیں وہ فنی نقطۂ نظر سے کافی کمزور تھیں۔ پریم چند نے پہلی باراپنے افسانوں میں دیہی زندگی کو موضوع بنایا،جس میں راجا مہاراجہ کے بجائے غریب ،مزدور، مظلوم، کسان اور بے بس انسانوں کو جگہ دی۔ یہ اردو اور ہندی دونوں زبان کے لیے ایک نیا موضوع تھا۔
پریم چند کے بعددو بڑے کہانی کار،اردو میں کرشن چندر اور ہندی میں جے شنکر پرساد کے نام سامنے آتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے افسانوی دور کا آغاز رومانوی افسانے سے کیا۔کرشن چندر نے اردو میں ’زندگی کے موڑ پر‘ اور ’ بالکونی‘ جیسی بہترین رومانی افسانے لکھے تو جے شنکر پرسادنے بھی ہندی میں ’آکاش دیپ‘ اور’بنجارا اور چوڑی والی‘ جیسی کامیاب رومانی کہانیاں لکھیں۔
 1936 کے آس پاس خالص حقیقت نگاری کا دور شروع ہوتا ہے۔اسی زمانے میں پریم چند نے مشہور افسانہ ’کفن‘ لکھا۔اس سے پہلے بھونیشور نے ایک کہانی ’بھیڑیے‘ لکھی،جس سے ہندی کی نئی کہانی کے امکانات کافی بڑھ گئے۔ اسی طرح عورتوں ،بوڑھوں اور بچوں کو موضوع بنا کر اردو میں راجندر سنگھ بیدی اور ہندی میں وشمبھر ناتھ شرما کوشک نے بہترین کہانیاں لکھی۔دونوں کہانی کار ایک ہی دور سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں نے اس وقت کے سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو بہت قریب سے دیکھا اور انھیں اپنی کہانیوں میں فنکارانہ طریقے سے پیش کیا۔بیدی نے بھولا،’گرم کوٹ، لاجونتی اور اپنے دکھ مجھے دے دو جیسے بہترین افسانے لکھے تو وشمبھر ناتھ شرماکوشک نے بھی ماتا کا ہردے، پرتی شودھ،کھویا بیٹا اورپھانسی جیسی مشہور کہانیاں قلمبند کیں۔اس کے بعد سعادت حسن منٹو اور بے چن شرما اُگرنے طوائف کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔اس ضمن میں منٹو کی کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، ہتک، بواور بے چن شرما اُگرکی ودھوا، بلاتکار، چاکلیٹ، چنگاریاں وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایسی کہانیاں ہیں، جو طوائف کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتی ہیں۔
آزادی کے بعد اردو اور ہندی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس دور میں تخلیق کاروں کی ایک لمبی فہرست ابھر کر سامنے آئی۔ان تخلیق کاروں میں بھی موضوعات کی یکسانیت پائی جاتی ہے۔احمد ندیم قاسمی اور یش پال کے ہم عصر کہانی کاروں نے اپنی کہانیوں میں دیہی مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی بدعنوانیوں کو بھی موضوع بنایا۔احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’جوتا‘ اعظم کریوی کا ’اقرار جرم‘ اوپیندر ناتھ اشک کا ’ناسور‘ یش پال کی کہانی ’دھرم یودھ‘وشنو پربھاکر کی ’دھرتی اب بھی گھوم رہی ہے‘ جیسے اور بہت سے افسانوں اور کہانیوں کے نام گنائے جا سکتے ہیں۔
اسی دور میں ہندوستان دوحصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ تقسیم کا اثر اردو اور ہندی کہانی کاروں پر یکساں پڑتا ہے۔ اس دور کے کہانی کاروں میں تقسیم کا درد اور ہجرت کا کرب نمایاں طورپر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اردو میں کرشن چندر کا افسانہ پیشاور ایکسپرس، راجندر سنگھ بیدی کا لاجونتی، منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ، عصمت چغتائی کا جڑیں، غلام عباس کا آنندی، خواجہ احمد عباس کا سردار جی، حیات اللہ انصاری کا شکر گزار آنکھیں، خدیجہ مستور کا اپنے آنگن سے دور اور ہندی میں اگیہ کی کہانی بدلا، بے چن شرما اگر کی ایشور دور ہے، موہن راکیش کی ملبے کا مالک، اپیندر ناتھ اشک کی چارہ کاٹنے کی مشین بھیشم ساہنی کی امرت سر آگیا ہے، وشنو پربھا کر کی میرا وطن کرشنا سوبتی کی سکہ بدل گیا، راجی سیٹھ کی باہری لوگ جیسی کہانیاں لکھی گئیں۔اس دور میں اردو اور ہندی کہانیاں ساتھ ساتھ چلتی نظرآتی ہیں۔
1955-60 کے قریب جدیدیت کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں اردو اور ہندی کہانیوں میں ایک نیا موڑ آتا ہے،جس میں کہانی کے موضوع پر زیادہ زور نہ دے کر فن پرپوری توانائی صرف کی جانے لگی۔جدیدیت میں سماج کی جگہ فرد کو اہمیت دی گئی۔اس دور کے افسانوں میں کردار بہت کم نظر آتے ہیں۔ افسانہ نگار اور کہانی کار واقعات کی جگہ محسوسات سے کام لینے لگے۔جدید یت کے دور کے افسانہ نگاروں نے بیانیہ کے ساتھ ساتھ ڈکشن پر زیادہ زور دیااور افسانے کو علامتی اور تجریدی انداز میں پیش کیا۔اس دو ر کی ہندی کہانی اردو افسانے سے الگ کھڑی نظر آتی ہے،کیونکہ ہندی کا ڈکشن بہت پاور فل نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہندی میں جدیدیت کے تحت لکھی گئی کہانیاں قاری پر اپنا اثر نہیں چھوڑ پائیں۔جدیدیت کا اثر ہندی کے واحد کہانی کار’نرمل ورما‘ کی کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ان کی کہانی ’پرندے‘ اس کی بہترین مثال ہے، جب کہ اردو میں جدیدیت کے تحت لکھنے والے کامیاب افسانہ نگاروں میں انتظار حسین، انور سجاد، سریندر پرکاش، بلراج مین را، دیوندر اسر،غیاث احمد گدی، نیر مسعود ،اقبال مجیدجیسے کئی تخلیق کاروں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ آگے چل کرہندی میں نرمل ورما کی طرز پر کملیشور، موہن راکیش، راجندر یادو وغیرہ نے لکھنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ یہیں سے اردو اور ہندی کہانیوں میں فنی سطح پر واضح فرق نظر آنے لگتا ہے اور اردو ہندی کہانیاں ایک دوسرے سے دورہوجاتی ہیں۔
اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ اردو اور ہندی کہانیوں میں ابتداسے 1980 تک موضوع کی سطح پر بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے،لیکن اس دور کی اردو اور ہندی کہانیوں میں فنی سطح پر نمایاں فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ اردو اور ہندی کہانی کا بنیادی فرق یہی ہے کہ اردو افسانے کا زور فن پر ہوتا ہے اور ہندی کہانی کا موضوع پر۔
مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر یہ ضروری تھا کہ اردو اور ہندی کہانیوں کا تقابلی تجزیہ کیا جائے،لیکن اس سے پہلے یہ جاننا بھی اہم ہے کہ خود تقابلی تجزیہ یا تقابلی مطالعہ کیا ہے؟
تقابلی مطالعہ دو ادب کے درمیان پائے جانے والے اشتراکات و افتراقات کا تجزیہ کرنے کا عمل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے ذریعے مختلف ادب کے موضوعات اور فن کی مماثلت یا تضا دکی نشاندہی بھی کی جاتی ہے۔آج کل عالمی سطح پر تقابلی مطالعہ کو کافی اہمیت دی جارہی ہے۔ اس کی ابتدا 1848 میں انگریزی کے مشہورومعروف شاعر ’میتھو آرنالڈ‘ نے اپنے ایک خط میں کی، جس میں انھوں نے ’Comparative Literature‘ لفظ کا استعمال کیا،جس کا اردومعنی تقابلی ادب ہے۔ آگے چل کر تقابلی ادب کے کئی اسکول قائم کیے گئے ،جس میں فرانس وجرمن اور امریکی اسکولوں کوکافی اہمیت حاصل رہی، جنھوں نے اپنے اپنے طور پر تقابلی ادب کی تعریف بیان کی ہے۔
تقابلی مطالعہ دو یا دو سے زائد زبانوں کی ادبیات، تہذیب وثقافت، سماج و سیاست، معیشت، مذہب وغیرہ کے ساتھ ساتھ ادبیات کی جمالیات اور خصوصیات کا بیرونی و باطنی سطح پر مطالعہ کرنا ہی تقابلی مطالعہ ہے، بشرطیکہ کہ ان دونوں ادب میں کوئی ایک یاایک سے زائد باتیں قدرے مشترک ہونی چاہیے، مثلاًدونوں ادب کی زبان ایک ہویاصنف ایک ہو، موضوع ایک ہو،تکنیک ایک ہو، دونوں کسی تحریک ورجحان کے زیر اثر تخلیق کیے گئے ہوں، دونوں کا ماخذ ایک ہو؛ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی تخلیقات کا باہم مطالعہ کرنا ہی تقابلی مطالعہ ہوگا۔انہیں باتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اردو اور ہندی کہانیوں کا تقابلی تجزیہ کیا گیا ہے۔
فرقہ وارانہ اور اقلیتی مسائل پر لکھی گئی اردو اور ہندی کہانیوں کا تقابلی مطالعہ کرنے سے بہت ساری مماثلتیں سامنے آتی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف اردو افسانوں کے موضوعات کا محور قتل و غارت گری،انسانی اقدار کی پامالی، اغوا، آبروریزی، قربانی کا جذبہ، دہشت گردی، حکومت پر عوام کا عدم تحفظ، لاقانونیت، علاقائیت، مذہبی ومسلکی تعصب اور نفسیاتی کشمکش جیسے مسائل ہیں، وہیں دوسری طرف ہندی میں بھی یہی سارے مسائل صرف لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
فرقہ وارانہ فسادات اور اقلیتی مسائل پر 1947 ہی سے اردو اور ہندی میںکہانیاں ملتی ہیں،لیکن 1980 کے بعدفرقہ وارانہ فسادات اور اقلیتی مسائل پر لکھی گئی اردو اور ہندی کہانیوںمیں ایک طرف اگر مماثلت نظر آتی ہے تو وہیں دوسری طرف ان کہانیوں میں نمایاں فرق بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
ایک طرف اردو میں 1984میں ہوئے سکھ فساد کو موضوع بناکرغضنفر نے افسانہ ’پہچان‘ لکھا تو دوسری طرف ہندی میں اس کو موضوع بناکر مردُلا گرگ نے کہانی’اگلی صبح‘ لکھی۔ ان دونوں کہانیوں میں فساد کے بعد سکھ قوم اپنی تہذیبی شناخت بچانے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔غضنفر کا کردار’بلونت‘ اپنی جان بچانے کے لیے اپنی پہچان بدل دیتا ہے اور اپنی داڑھی اور سر کے بال منڈوا دیتا ہے۔ اسی طرح مردُلا گرگ کی کہانی ’اگلی صبح‘ کے سکھ کر دار اپنی جان بچانے کے لیے اپنی پگڑی اتار کر سر اور داڑھی کے بال منڈوا دیتے ہیں۔
اسی طرح سلام بن رزاق کے افسانے ’چہرہ‘، حسین الحق کے افسانے ’نیو کی اینٹ‘ اور بیگ احساس کے افسانے ’آسمان بھی تماشائی‘ میں سانحہ بابری مسجد کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ساجد رشید کے افسانے ’ایک چھوٹا سا جہنم‘ میں ممبئی کا فرقہ وارانہ فساد، طارق چھتاری کے افسانے ’لکیر‘ میں ہندومسلم فرقہ وارانہ فساد اور مشرف عالم ذوقی کے افسانے ’احمد آباد 203 میل‘ میں گجرات کے فرقہ وارانہ فساد کو موضوع بنایا گیا ہے۔اسی طرح ہندی کہانیوں میں اصغر وجاہت کی کہانی’میں ہندو ہوں‘ بھی فرقہ وارانہ ذہنیت کو بنیاد بنا کر لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ راجی سیٹھ کی کہانی ’رکو انتظار حسین،عبدل بسم اللہ کی کہانی ’دنگائی‘، سوریہ بالا کی کہانی ’شہر کی سب سے درد ناک کہانی‘، انور سہیل کی کہانی’گیارہ ستمبر کے بعد‘ اور ناصرہ شرما کی کہانی ’سرحد کے اِس پار‘ میں فرقہ وارانہ فسادات بالخصوص ہندو مسلم فسادات کو موضوع بنایا گیا ہے۔
ان کہانیوں کا تقابلی مطالعہ کرنے سے ان کے درمیان تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ان کہانیوں میں جو ایک فرق دیکھنے کو ملتا ہے وہ افسانہ نگاروں اور کہانی کاروں کا ہے۔ ہندی میں فرقہ وارانہ مسائل پر لکھنے والے کہانی کار زیادہ تر مسلم ہیں اور ان کے کردار بھی مسلم ہیں۔ ان کہانیوں میں جوغیر مسلم کردار آئے بھی ہیں تووہ فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر نظر نہیں آتے۔اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ 1980کے بعد جو بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں،ان میں سب سے زیادہ متاثر مسلم قوم ہی ہوئی ہے۔
دلت مسائل پر لکھی گئی اردو اورہندی کہانیوں کا تقابل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں زبان کے کہانی کاروں نے بہت فنکاری کے ساتھ اپنی کہانیوں میں دلت مسائل کو پیش کیا ہے۔ان کہانیوں میں دلتوں کے اندر انسانیت کا جذبہ،ان کے روزگار کے مسائل،ان کی اپنی سماجی شناخت،محنت کے بدلے مزدوری کا مطالبہ،انتقام کا جذبہ،تعلیمی مسائل اور سماجی برابری کو بطور خاص موضوع بنایا گیا ہے۔
نورالحسنین کے افسانے ’بدذات‘ میں یہ دکھایاگیا ہے کہ دلت افراد کاکام مزدوری کرنا اور غلاظت صاف کرنا ہوتا ہے۔ انھیں انسانیت کی کوئی سمجھ نہیں ہوتی ہے۔جب کہ اس افسانے کے کردار’چمپا‘ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دلتوں کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے اور ان کے اندر بھی انسانیت ہوتی ہے۔ جب بھی انہیں موقع ملتا ہے۔ وہ اپنا سب کچھ دوسروں پر نچھاور کر دیتے ہیں۔اسی طرح ہندی کہانی کار اوم پرکاش والمیکی نے اپنی کہانی ’سلام‘ میں بھی دلت کردار کو انسانیت کا حامی بنا کر پیش کیا ہے۔
اس کے علاوہ طارق چھتاری کے افسانے ’دس بیگھے کھیت‘ میں دلتوں کے بنیادی مسائل روٹی ،کپڑا اور مکان کو موضوع بنایا گیا ہے۔سلام بن رزاق کے افسانے ’یک لویہ کا انگوٹھا‘ میں ہزراوں سال پہلے کی کہانی یک لویہ اور درونا چاریہ کو عہد حاضر کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ ہزاروں سال پہلے ہی کی طرح درونا چاریہ نے آج بھی اپنے شاگرد سے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا مانگا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سماج کے اعلیٰ طبقے کی سوچ ابھی وہی ہے، جب کہ یک لویہ انگوٹھا گرودکشنا میں دے کر شاگرد کا دھرم بھی نبھاتا ہے اور ڈاکٹری کا پیشہ اپنا کر ایک بڑا سرجن بھی بن کر دکھاتا ہے۔یعنی کہ آج کادلت سماج عہد حاضر میں برہمن وادی سماج سے زیادہ ذہین بھی ہے اور تعلیم یافتہ بھی۔ چونکہ یک لویہ درونا چاریہ سے بڑا سرجن بن چکا ہے۔
ذکیہ مشہدی کے افسانے ’گڑ روٹی‘ میں دلت اپنی مزدوری نہ ملنے پر احتجاج کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اقبال مجید کے افسانے ’آگ کے پاس بیٹھی عورت‘ میں دلت عورت سروڑوں سے انتقام لیتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔اسی طرح اسرار گاندھی کے افسانے ’وہ جو راستے میں کھوئی گئی‘ میں ایک دلت عورت ’کلبسیا‘ پر ٹھاکروں کے ظلم کو موضوع بنایا گیاہے۔ قمر جمالی کی کہانی ’جنگ‘ میں ایک دلت کردار ’چندن‘ کی جدوجہد کو موضوع بنایا گیا ہے۔ چندن ایک ہریجن ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے لکچرر کی نوکری کرتا ہے اور اعلیٰ ذات یعنی کہ پنڈت شاستری کی لڑکی کویتا سے شادی بھی کرتا ہے۔
اسی طرح ہندی میں جے پرکاش کردَم کی کہانی ’تلاش‘ کاکردار ’رام ویرسنگھ‘سروڑوں کے ظلم کو برداشت نہیں کرتا بلکہ ان کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔عبدل بسم اللہ کی کہانی ’کھال کھینچنے والے‘ میں ایک مجبور دلت کی بے بسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔اصغر وجاہت نے اپنی کہانی ’اُوسر میں ببول‘ میں ’سڑھکو‘اورمڑھکو‘ کے ذریعے دلتوں پر ہو رہے ظلم اور ان کا احتجاج دونوں کو دکھایا گیا ہے۔سوشیلا ٹاک بھورے کی کہانی ’سنگھرش‘ میں ایک دلت بچے کو کردار بنایا گیا ہے، جو خود کو دلت سماج سے اوپر اٹھانے کے لیے لگاتار سنگھرش کرتا رہتا ہے۔اسی طرح انور سہیل کی کہانی ’سن آف بدھّن‘میں بدھن پڑھ لکھ کر ایل۔ کمار بن جاتا ہے، لیکن اس کے نام سے بدھّن نکل نہیں پاتا ہے جب کہ وہ اپنے نام میں سے بدھّن کو ہٹانے کی بہت کوشش کرتا ہے۔ موہن داس نیمیش رائے کی کہانی ’اپنا گاؤں‘ میں بنیادی مسائل اسکول، اسپتال، سڑک وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس گاؤں کے دلت شہر جا کر تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تووہاں کے ٹھاکران پر ظلم کرتے ہیں اور انہیں تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتے۔ٹھاکروں کے ظلم سے دلت طبقے کے لوگ اس گاؤں سے نکل کر اپنا ایک الگ گاؤں بسا لیتے ہیں۔
دلت مسائل پر لکھی گئی اردو اور ہندی کہانیوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔1980کے بعد کا دلت کردار پہلے کی طرح سروڑوں کے ظلم کو برداشت نہیں کرتا ہے، بلکہ اپنے حق کے لیے لڑتا ہے اور اپنا حق نہ ملنے پر احتجاج کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اتنا ہی نہیں آج کا دلت تعلیم حاصل کر کے سماج کے Mainstreemمیں شامل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
نسائی مسائل پر لکھی گئی اردو اور ہندی کہانیوں میں بہت زیادہ فرق دیکھنے کو نہیں ملتا۔اور فرق ہوگا بھی نہیں، کیونکہ عورتوں کے تمام مسائل ایک جیسے ہی ہیں۔ زبان کے بدل جانے سے مسائل نہیں بدلتے ۔اردو اور ہندی کا تعلق جس معاشرے سے ہے، اس کے مسائل دونوں زبانوں کے تخلیق کاروں کے لیے یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ عورتوں کے سماجی اور معاشرتی مسائل پر اردو اور ہندی دونوں زبانوںمیں بہت ساری کہانیاں لکھی گئی ہیں۔
اردو افسانہ نگار ذکیہ مشہدی کے افسانے ’ایک تھکی ہوئی عورت‘ اورہندی کہانی کار مہرالنسا پرویزکی کہانی ’قیامت آگئی ہے‘ میںعورتوں کے ایک ایسے مسئلے کو موضوع بنایا گیا ہے، جس میں شادی سے پہلے مرد عورت کاپوری طرح سے خیال رکھتا ہوا نظر آرہاہے ،لیکن شادی کے بعد مرد کے پیار میں کمی آجاتی ہے۔اسی طرح نگار عظیم کے افسانے ’روشنی‘ اور مردُلا گرگ کی کہانی’وہ میں ہی تھی‘ میں یہ دکھایا گیا ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ اسرار گاندھی کے افسانے ’ایک جھوٹی کہانی کا سچ‘ اور راجی سیٹھ کی کہانی ’اپنے دائرے‘ میں جنسی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ شوہر بیوی کا رشتہ جنسی ضرورتوں کے لیے ہی بنتا ہے۔ترنم ریاض کی کہانی’ناخدا‘ اور ناصرہ شرما کی کہانی ’نئی حکومت ‘ میں اس بات پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ ایک لڑ کا اور لڑکی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ شادی سے پہلے دونوں میں بہت پیار ہوتا ہے، لیکن شادی کے بعد مرد کے پیار میں کمی آنے لگتی ہے۔ اسی طرح مشرف عالم ذوقی کے افسانے ’شاہی گلدان‘ اورعبدل بسم اللہ کی کہانی’طلاق کے بعد‘ میں عورتوں کے ایک بڑے مسئلے یعنی طلاق کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ابن کنول کے افسانے ’خواب‘ میں جنسی زیادتی اور سماج میں گھناؤنے جرائم جیسے مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ سدھا اروڑا کی کہانی ’رہو گی تم وہی‘ میں گھریلو عورت کے کئی مسائل کو بیان کیا گیاہے ۔گھر میں رہنے والی عورتیں اپنے شوہرکا ہر صورت میں خیال رکھتی ہےں، لیکن ان کا شوہر ان سے کبھی خوش نہیں رہتا۔اسے ان کے ہر کام میں خامی نظر آتی ہے۔ اسی طرح غزال ضیغم کے افسانے ’نیک پروین‘ اور سبھاش نیرو کی کہانی ’عورت ہونے کا گناہ‘ میں عورتوں کے کئی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کہانیوں میں ایک لڑکی کی پیدائش سے لے کر اس کی آخری عمر تک کے تمام مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ ایک لڑکی ، ایک عورت کس طرح اپنی پوری زندگی نیک بننے کی خواہش میں گزار دیتی ہے۔اس کی بہترین مثال یہ دو کہانیاں ہیں۔
اس طرح سے دیکھا جائے تو یہ کہانیاں عورت کی زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل کوبیان کرتی ہیں۔کہیں پر معصوم لڑکیاں ظلم و زیادتی کا شکار ہوتی ہیں ۔ کہیں پر عورتیں، عورتوں پر ظلم کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ کہیں بیٹاماں کی زندگی اجاڑ تا ہوا نظر آرہا ہے۔ کہیں عورتیں مرد کے عشق ومحبت پر بھروسہ کر کے ظلم کا شکار ہو رہی ہیں۔کہیں پر شوہر نے اپنی بیوی کو غلام بنا کر رکھا ہے۔ انھیں سارے مسائل کو موضوع بنا کر دور حاضر کے اردو اور ہندی کے کہانی کاروں نے بے شمار افسانے اور کہانیاں قلم بند کی ہیں۔
دیہی مسائل پر لکھی گئی اردو اور ہندی کی منتخب کہانیوں کا تجزیہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے تقریباً ستر سال بعد بھی ہندوستان کے دیہاتوں میں بجلی ،پانی، اسکول اسپتال وغیرہ کا معقول انتظام نہیں ہو پایا ہے۔ یعنی کہ ہندوستان کا دیہات آج بھی ان بنیادی چیزوں سے محروم ہے۔اردو افسانہ نگارشفق کے افسانے ’دیوار گریہ ‘ اورہندی کہانی کار رویندر کالیا کی کہانی ’چکیا نیم’ میں ایسی بستیوں کے بنیادی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے، جہاں آج بھی پانی، بجلی اور اسکول کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ایک طرف صنعتی ترقیاں آسمان چھو رہی ہیں اور دوسری طرف ان بستیوں میں ان کا ہلکا سا بھی اثر نہیں دکھائی دے رہا ہے۔اسی طرح غزال ضیغم کے افسانے ’اجیل پاک اندھیرا پاک‘ میں تعلیمی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس افسانے کا کردار چندنیا تعلیم سے بے بہرہ ہے اور اپنے شوہر کے آنے کا انتظار اجالے اور اندھیر ے کے سہارے کرتی ہے۔عبدل بسم اللہ کی کہانی ’گرام سدھار‘ میں ایسے گاؤںکو موضوع بنایا گیاہے ، جو ہندوستان کے نقشے ہی میں نہیں ہے۔ احمد رشید کے افسانے ’کرما‘ میں پنچایتی راج کو موضوع بنایا گیا ہے۔ابن کنول کے افسانے ’کنیا دان‘ میں توہم پرستی اور کسانوں کی بے بسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔قمر جمالی کے افسانے’ماٹی کا قرض‘ میں ایک گاؤں کے تنازعے کی داستان کو پیش کیا گیا ہے۔ اوم پرکاش والمیکی کی کہانی ’گئو ہتیا‘ میں زمینداری کے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ آج بھی گاؤں میں سرپنچ اور مکھیا غریبوں، مظلوموں اور اپنے نوکروں پر ظلم کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔گنگا پرساد وِمل کی کہانی ’بچہ‘ میں گاؤں میں رہنے والے امیر اور غریب کے بھید بھاؤ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سندیپ میل کی کہانی ’قسطوں کی موت‘ دیہی مسائل پر لکھی گئی بہترین کہانی ہے۔ اس گاؤں میں آج بھی تعلیم، بجلی پانی اور سڑک کا انتظام نہیں ہے اور لوگ توہم پرستی میں یقین رکھتے ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اردو افسانہ نگاروں نے گاؤں کے بنیادی مسائل کو پیش کیا ہے وہیں ہندی کہانی کاروں نے بھی انہیں مسائل کو زیادہ اہمیت دی ہے۔
شہری مسائل پرکہانی کے ابتدائی دور ہی سے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں کہانیاں لکھی جارہی ہیں۔ شہری مسائل پر لکھی گئی اردو اور ہندی کہانیوں کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں زبان کی کہانیوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔اردو افسانہ نگار ساجد رشید کے افسانے ’اوپر سے گرتا اندھیرا‘ میں بے حسی کو موضوع بنا یا گیا ہے۔ انجم عثمانی کے افسانے ’شہر گریہ کا مکیں‘ میں شہری بد عنوانیوں کو پیش کیا گیا ہے۔ترنم ریاض کے افسانے ’شہر‘ میںشہر کی اونچی اونچی عمارتوں میں رہنے کے مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔شفق کے افسانے’شہر ستم‘ میں شہر کے نئے مسائل اور اغوا جیسے گھناؤنے جرائم کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ابن کنول کے افسانے ’سویٹ ہوم‘ میں شہر میں کرائے پر رہنے والوں کے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔اسی طرح ہندی کہانی کاروں میں گویند مشر کی کہانی’سنندوں کی کھولی‘ میں ممبئی جیسے شہر میں رہائش کے مسئلے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ رویندر کالیا کی کہانی ’چال ‘ میں رہائشی مسئلے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مسئلے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ سدھا اروڑوا کی کہانی ’تیرہویں مالے سے زندگی‘ میں بھی اونچی بلڈنگ میں رہائش سے پیدا ہونے والے کئی مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔الکا پرمود کی کہانی’خوف‘ میں یہ دکھایا گیا ہے کہ شہر میں بے روزگاری کے سبب نوجوان کس طرح غلط راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ شہری مسائل پر لکھی گئی اردو اور ہندی کہانیوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔کیونکہ اردو اور ہندی کے کہانی کار اپنا موضوع اسی معاشرے سے منتخب کرتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ آج ہندی اور اردو کا تہذیبی مزاج مختلف ہے ،لیکن شہر میں رہنے والے عوام کے مسائل یکساں ہیں۔ اس لیے شہری مسائل پر لکھی گئی ان کہانیوں میں بہت واضح فرق نہیں ہے۔
فنی نقطۂ نظر سے اردو اور ہندی کہانیوں کا تقابلی مطالعہ کرنے سے واضح فرق محسوس ہوتا ہے۔ افسانے کا پہلا جزو پلاٹ ہوتا ہے۔ افسانے میں پلاٹ سے مراد واقعات کی منطقی و فنی ترتیب سے ہے۔ افسانے میں جو کچھ واقعات کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے، اس میں ترتیب کا خاص خیال رکھا جاتاہے۔ کہانی اسی ترتیب سے آگے بڑھتی ہے۔کہانی میں جو واقعات پیش کیے جائیں ان کی تنظیم اور ترتیب اس طرح سے ہو کہ اس میں دلچسپی کا عنصر پیدا ہوجائے۔ واقعات میں پہلے سے ترتیب قائم کر لی جائے تو کہانی کار اِدھر اُدھر بھٹکنے سے بچا رہتا ہے اور مرکزی خیال پر اس کی نظر ٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ اس طرح غیر ضروری تفصیلات کہانی میں رکاوٹ نہیں بن پاتی ہیں۔
اردو اور ہندی کہانیوں میں پلاٹ کی اہمیت مسلم ہے۔ کہانیوں میں پلاٹ مختلف قسم کے ہوتے ہیں،جن میں سادہ پلاٹ، مربوط پلاٹ، پیچیدہ پلاٹ،گتھا ہوا یا منظم پلاٹ اور مجہول پلاٹ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کہانیوں میں کئی اور قسم کے پلاٹ ہو تے ہیں، جن کا تعین کہانیوں کے موضوع اور پیش کش سے کیا جا سکتا ہے۔پلاٹ کے لحاظ سے اردو افسانے ہندی کہانیوں سے قدرے بہتر ہیں۔
کہانی میں کردارپلاٹ سے کم اہمیت نہیں رکھتے۔ کہانی میں جو واقعات پیش آتے ہیں وہ کردار وں کے سہارے ہی آگے بڑھتے ہیں۔ اس لیے کہانی میں کردار نگاری کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔کرداروں پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی جاتی ہے، لیکن کہانی کا کینوس محدود ہوتا ہے، اسی وجہ سے کہانی کارکردار کا مکمل رخ پیش نہیں کر سکتا۔ وہ کسی ایک زاویے سے روشنی ڈال کر اس کا کوئی ایک اہم پہلو اجاگر کرتا ہے۔
کرداروں کا جامد ہونا فطرتِ انسانی کے خلاف ہے۔ اچھاکردار وہی ہے جوحالات کے ساتھ تبدیل ہوتا رہے اور اس کا ارتقا جاری رہے۔ یہ بھی نہ ہو کہ کردار صرف خامیوں و خرابیوں کا مجموعہ ہو۔اسی کردار کو کامیاب کہا جاتا ہے جو دنیا وی کردار کی طرح حقیقی اور اصلی ہو۔ اردو اور ہندی کہانیوں میں کردار نگاری پر خاص توجہ دی گئی ہے۔
تکنیک نثری ادب کی کسی صنف کو مواد کے ذریعے ہیئت کی تشکیل میں لانے کا ہنر ہے۔ادبی تکنیکیں صنف کی مرضی کے مطابق تشکیل نہیں پاتی بلکہ کسی موضوع کے مواد کے مطابق تشکیل پاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی میں تکنیکی تنوع پایا جاتا ہے۔ بدلتے ہوئے رجحانات اور ادبی تحریکات کے حوالے سے کہانی کی تکنیک میں تبدیلی آتی ہے۔ ہر کہانی کی تکنیک مختلف ہوتی ہے جو موضوع اور مواد کے اعتبار سے اپنا رنگ پکڑتی ہے۔تکنیک دراصل ایک ذریعہ ہے، ایک وسیلہ ہے، جس کے ذریعے کہانی کار اپنا مقصد، اپنا نقطۂ نظر قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اردو افسانوں میں تکنیکی تنوع دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن ہندی میں تکنیکی تجربات بہت کم ہوئے ہیں۔ہندی میں فلیش فارورڈ اور بیانیہ تکنیک پر زیادہ کہانیاں لکھی گئی ہیں۔
کوئی بھی واقعہ بہرحال ایک خاص جگہ اور خاص وقت ہی میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس لیے تخلیق کار کہانی لکھنے کے لیے کینوس کے انتخاب میں زماں و مکاں کا خاص خیال رکھتا ہے۔میری فہم کے مطابق آفاقیت کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ موضوع کی اہمیت عالمی سطح پر یکساں ہو۔ دوسری یہ کہ وہ موضوع جو اپنے عہد کے بعد بھی باقی رہے،لیکن اس کا تعین ایک وقت گزرنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ اردو اورہندی دونوں زبانوں میں ایسے بہت سے موضوعات پر کہانیاں لکھی گئیں ہیں جن میں عالمی مسائل کا ذکر ہے اور ان موضوعات پر بھی قلم اٹھائے گئے ہیں،جن کی اہمیت ماضی میں بھی تھی اور آج بھی ہے۔
ہر فن کار کا کوئی نہ کو ئی نقطۂ نظر ہوتاہے۔ اس نقطۂ نظر کی پیش کش کے لیے فن کار اپنی تخلیق کو جنم دیتا ہے۔ مثلاً ترقی پسندوں کانقطۂ نظر یہ تھا کہ ادب کو معاشرتی تبدیلی کے لیے استعمال کیا جائے۔اس کے بر عکس کسی کا نقطۂ نظرتاریخی بھی ہو تا ہے،جو تاریخ کے حوالے سے اپنی تخلیق کو جنم دیتا ہے تاکہ سماج کو عظمت رفتہ کی یاد دلا کر اس میں ہمت و حوصلہ پیدا کیا جا سکے۔ ہر انسان اپنا نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ فنکارحساس ہونے کے ساتھ ساتھ مشاہدے کی وسعت سے مالا مال ہوتا ہے۔ فن کار کا کمال اس میں ہے کہ وہ اپنے نقطۂ نظر کو زیادہ نمایاں نہ ہونے دے،بلکہ فن کے دبیز پردے میں اپنے نقطۂ نظرکوملفوف کر کے پیش کرے۔بڑاکہانی کار وہی ہوتا ہے جو عنوان او رنقطۂ نظرکے مابین باریک سے باریک رشتے کو بھی اجاگر کردے۔
موجودہ دور کی بیشتر کہانیوں میں عنوان اور نقطۂ نظر میں رشتہ دیکھنے کو ملتاہے۔اس کے واضح اشارے 1980 کے بعد کی کہانیوں کے عنوانات اور موضوع کی باہمی مطابقت سے ملتے ہیں،لیکن موجودہ دور کی زیادہ تر کہانیوں میں چاہے وہ اردو کی ہوں یاہندی کی، دونوں زبانوں کی کہانیوں میں عنوان کا رشتہ کہانی کے کسی ایک واقعے سے رہتا ہے۔کہانی کے تمام واقعات ایک دوسرے واقعے سے مربوط ضرور ہوتے ہیں، لیکن پوری کہانی میں عنوان کا رشتہ کسی ایک ہی واقعے سے ہوتا ہے۔جب کہ ابتدائی دور کی اردو اور ہندی کہانیوں کے عنوان اور نقطہ ٔ نظر میں گہرا رشتہ دیکھنے کو ملتا ہے۔مثال کے طور پر اردو میں پریم چند کی کہانی’نجات‘، کرشن چندر کی ’کالو بھنگی‘، راجندر سنگھ بیدی کی ’اپنے دکھ مجھے دے دو‘ منٹو کی ’کھول دو‘اور ہندی میں چندر دھر شرما گلیری کی ’اس نے کہا تھا‘،جے شنکر پرشاد کی ’آکاش دیپ‘، بیچن شرما اُگر کی ’چنگاریاں‘، یشپال کی ’پردہ‘ وغیرہ پیش کی جا سکتی ہیں۔
لفظ کسی بھی ز بان کی میراث نہیں ہوتا۔ہر لفظ میں اتنی وسعت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی زبان میں استعمال ہو سکتا ہے۔ بشرط یہ کہ جو لفظ جس زبان میں استعمال کیا جا رہا ہے وہ اسی زبان کے قواعد اور اصول کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ چونکہ ہر زبان کی اپنا ایک مخصوص قواعد ہوتی ہے۔ اس لیے لفظ کے استعمال کے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم جس زبان میں کسی دوسری زبان کے لفظ کو استعما ل کر رہے ہیں اس زبان کے قاعدے کے مطابق استعمال کریں نہ کہ جس زبان کا لفظ ہے اس کے اصول و قواعد کے مطابق استعمال کریں۔
اردو میں تو یہ اصول پابندی کے ساتھ برتا گیا ہے، لیکن ہندی زبان میں ایسا نہیں ہے۔ ہندی کہانی کار ہمیشہ سے اردو زبان کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے آئے ہیں۔چونکہ اردو اور ہندی دونوں زبانیں ہندوستان ہی میں پیدا ہوئی ہیں اور دونوںہی لسانی و تہذیبی طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب بھی ہیں، لیکن دونوں زبان تلفظ،جنس اور املامیں بہت فرق ہے۔زبان کے لحاظ سے ہندی کہانی کاروں میں ایک اور کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہندی کہانی کار اردو الفاظ سے تو واقف نظر آتے ہیں، لیکن اردو لفظ کے محل استعمال سے واقف نظر نہیں آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہندی کے مشہور کہانی کار یشپال کی کہانی ’پردہ‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
ان شاءاللہ،چودھری صاحب کے کنبے میں بر کت ہوئی۔چودھری فضل قربان ریلوے میں کام کرتے تھے۔اللہ نے انہیں چار بیٹے اور تین بیٹیاں دیں۔“               
(یشپال،پردہ)
محولہ بالا اقتباس میں استعمال شدہ لفظ ’ان شاءاللہ‘ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ ان شاءاللہ ہمیشہ مستقبل کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں پر بات ماضی کی ہورہی ہے۔ یہ غلطی محل استعمال کے نہ جاننے کی وجہ سے ہوئی ہے۔اسی طرح جے پرکاش کردَم کی کہانی ’تلاش‘ کا اقتباس ملاحظہ ہو:
اوپر کی منزل پر دوکمرے،رسوئی،غسل خانہ اور شوچالیہ تھا۔“ (جے پرکاش کردَم،تلاش)
اس جملے میں پانچ الفاظ ہیں۔منزل، کمرہ، رسوئی، غسل خانہ اور شوچالیہ۔اس میں’منزل‘عربی زبان کا لفظ ہے اور اردو میں اپنی اصل صورت میں استعمال ہوتا ہے۔’کمرہ‘مقامی یعنی ہندوستانی زبان کا لفظ ہے،جو اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اپنی اصل صورت میں استعمال ہوتا ہے۔’رسوئی‘ خالص سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور ہندی میں بھی اسی صورت میں استعمال ہوتا ہے۔ ’غسل خانہ‘ فارسی زبان کامرکب لفظ ہے اور اردو میں اسی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے اور ’شوچالیہ‘ ہندی زبان کا لفظ ہے۔صاف لگ رہا ہے کہ کہانی کار الفاظ کے محل استعمال سے زیادہ واقف نہیں ہے۔جب کہ اردو میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر ذکیہ مشہدی کے افسانے ’گڑ روٹی‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
اوپر پوری منزل اس طرح اٹھانی تھی کہ دو دو کمروں اور ملحقہ غسل خانوں کے ساتھ ایسے مکمل یونٹ تیار ہو جائیں کہ دو کنبے آرام سے رہ سکیں۔بھابی باورچی خانے اورغسل خانے میں ٹائلز لگوانا چاہتی تھیں۔
(ذکیہ مشہدی،گڑ روٹی)
 اردو میں بھی زبان کے لحاظ سے کہیں کہیں کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔جب اردو افسانہ نگار ہندی تہذیب و ثقافت اور مذہب کا ذکر اپنی کہانیوں میں کرتا ہے تواس سے غلطی ہوتی ہے۔مثال کے طور پر طارق چھتاری کے افسانے ’لکیر‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
مندر میں جمع لوگ کیرتن ختم کر کے برت کھولنے کے لیے جل سے بھرے پیتل کے لوٹے میں لونگ، بتاشے اور پھول ڈالتے ہیں۔“ (طارق چھتاری،لکیر)
درج بالا اقتباس میںلفظ ’برت کھولنا‘ استعمال کیا گیا ہے،جب کہ صحیح لفظ ’برت توڑنا‘ ہے۔برت کھولا نہیں توڑا جاتا ہے۔ روزہ کھولاجاتا ہے۔دراصل افسانہ نگار نے یہاں پر ہندو تہذہب کو مسلم تہذیب سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کیاہے۔ اس نے برت کو روزہ تصور کر لیا ہے۔ اس لیے افسانہ نگار سے یہ غلطی ہوئی ہے۔
المختصر یہ کہ1980کے بعد کی ہندی کہانیاں موضوعاتی سطح پر بہت کامیاب ہیں۔ ان میں اردو افسانوں کے مقابلے میں زیادہ گہرائی و گیرائی ہے۔اس دور کی ہندی کہانیوں کا سماج سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ جب کہ اردو افسانوں میں موضوعات کا تنوع تو ہے،لیکن سماج سے اس کا رشتہ اتنا گہرا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو افسانے کو ابتدائی دور ہی میں پریم چند، کرشن چندر، منٹو،بیدی، عصمت اورقرةالعین حیدر جیسے بڑے افسانہ نگار مل گئے اور انہوں نے سماجی مسائل، سیاسی شعور اور عوام سے جڑے ہوئے تمام مسائل پر بے شمار کہانیاں لکھیں۔ہندی کہانی کے ابتدائی دورمیں اتنے بڑے کہانی کار نہیں ملے۔یہی وجہ ہے کہ 1980کے بعد ہندی کہانی کاروں کے پاس موضوعاتی سطح پر کافی گنجائش تھی اور انھوں نے اس پر بہترین کہانیاں تخلیق کی۔اس کے برعکس اردو افسانہ نگاروں نے موضوعات سے زیادہ فن پر توجہ دی اور پلاٹ، کردارنگاری،تکنیک اور زبان و بیان کی سطح پر خوب تجربے کیے ،جس سے اردو افسانے میں فنی سطح پر بہترین اضافہ ہوا۔ بقول اظہار احمد:
آج کی ہندی کہانی جہاں افسانویت، رومانیت، تکنیک اور لب و لہجہ کے اعتبار سے اردو سے کافی پیچھے ہے وہیں اپنی مقصدیت اور حق شناسی و حق پرستی میں اردو کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیکھی، تیز اور دھار دار نظر آتی ہے۔سماج سے اس کا رشتہ زیادہ گہرا اور وسیع ہے۔
(اظہار احمد،مشمولات:طارق چھتاری،جدید افسانہ اردوہندی،براؤن بکس پبلی کیشنز، دہلی، 2015،ص184 )
اظہار احمد کی باتوں سے اتفاق کیا جا سکتا ہے،لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ اردو افسانوں میں موضوعاتی تنوع نہیں ہے۔ 1980کے بعد اردو میں بہت سے نت نئے موضوعات پر افسانے لکھے گئے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہندی کہانیوں کے مقابلے میں اردو افسانوں میں اتنی گہرائی و گیرائی نہیں ہے، جتنی کہ ہندی کہانیوں میں ہے،لیکن فنی سطح پر ہندی کہانیاں اردو افسانوں سے بہت پیچھے ہیں۔
Md Nehal Afroz
Research Scholar, Dept of Urdu
Maulana Azad National Urdu University
Gachbowali,Hyderabad - 500032 (Tel)
Mob: 9032815440
Email:nehalmd6788@gmail.com









ماہنامہ اردو دنیا،جولائی 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. بہت بہت مبارک۔۔۔۔۔۔۔اردو اور ہندی کہانیوں کے مابین تقابل واقعتاً بہت عمدہ ہے۔۔۔۔اس کے لیے یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مضمون میں لطیف مثالوں کے ذریعہ راقم نے اسے مزید عمدگی بخشی ہے۔ مضمون پڑھ کر ایسا لگتاہے کہ راقم کی دونوں زبانوں پر اچھی گرفت ہے۔یہی وجہ ہے کہ تقابلی مطالعہ میں کافی عمدگی سے اپنی بات قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔امید کرتے ہیں کہ ایسے ہی مزید تحریریں ہم قارئین تک پہنچتی رہیں گی۔
    اللہ کرے زورقلم اور ہو زیادہ۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں