22/7/19

اردو ادب اور عالمی مسائل مضمون نگار: اسعد اللہ



اردو ادب اور عالمی مسائل

 اسعد اللہ

ایک طرف سائنس وٹکنالوجی نے جہاں وسائل زندگی میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے وہیں پرعالمی مسائل بڑھے بھی ہیں لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ دورحاضرکی تصویرکادوسرارخ یہ ہے کہ وسائل کی بہتات کے باوجودموجودہ دورکاانسان مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ اس وقت انسانی آبادی کا بیشتر حصہ انتہائی پیچیدہ قسم کے مسائل میں گرفتار ہے۔مغربی ممالک ہو ں یا مشرقی، ترقی یافتہ علاقے ہوں یا پسماندہ، انسانی آبادی الجھنوں کا شکار ہے۔عالمگیر نوعیت کے مسائل کا سامناساری دنیا کو ہے اورایسابھی نہیں ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی بلکہ دنیا بھر کے دانشوراور بے پناہ دماغی صلاحیتوں کے حامل مفکرین اور صف اول کے مدبرین بار بار سر جوڑ کربیٹھتے ہیں اورمسائل کے حل کے لیے عالمی کانفرنسوں اور سیمناروں کا انعقادعمل میں لا یا جاتا ہے۔ تانیثیت کے حوالے سے بھی بعض مسائل ایسے ہیں جن کے حل کے لیے اقوام متحدہ سمیت چوٹی کی انجمنوں میں باقاعدہ بیٹھکیں ہوئی ہیں مگر ”نشتند، خوردند اور برخاستند“کے سواکچھ حاصل نہیں ہوتا۔تانیثیت کے دیگر پہلووؤں پر گفتگو سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تانیثیت کیا ہے اس عقدہ پر کچھ بات ہوجائے۔
پروفیسر انور پا شا کے بقول ”تانیثیت بنیا دی طور پر عہد جدید کا ایک شعوری اور آئیڈیالو جیکل تصور ہے جس کے پیچھے بطور محرک عورت کے وہ اجتماعی تجربات کار فرماہیں جو اس نے مردوں کی بالادستی والے نظام واقدار میں مسلسل اور مختلف سطحوں پر امتیاز وتفریق اور استحصال ونا انصافی کی شکل میں حاصل کیے ہیں ۔
 (اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں: مرتبہ صالحہ صدیقی)
”تانیثیت Feminisim) دور جدید کی پیداوار ہے مگر مسائل کا وجود پہلے ہوتا ہے اور سمجھنے یا سمجھانے کے لیے بعد میں کچھ اصطلاحیں معرض وجود میں لا ئی جا تی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ نوخیز بچے کی پہلی تربیت اور اخلاقیات کاگہوارہ آغوش مادر ہی ہو تا ہے اچھی مائیں قوم کو معیار اور وقار کی رفعت میں ہمدوش ثریا کردیتی ہیں انھیں کے دم سے امیدوں کی فصل ہمیشہ شاداب رہتی ہے یہ دانہ دانہ جمع کرکے خرمن بنانے پر قادر ہیں تاکہ آنے والی نسلیں فروغ گلشن اور صوت ہزار کا موسم دیکھ سکیں۔اس کے بعد کہیں جاکر ارسطو ’کتاب الاخلاق‘ لکھتا ہے اور دنیا کی تمام اخلاقی گتھیوں کو فلسفیانہ انداز میں سمجھانے کی کوشش کرتا اور اسے کبھی مارکومینزم کی زبانی پیش کرتا ہے تو کبھی ڈینئیل کی اور آگے چل کر یہی اخلاقی مسئلہ نہ صرف ایتھنزکی ایک عورت کاترجمان ہو تا ہے بلکہ عالمی مسئلہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور ہمارے بڑے بڑے دانشوروں کو کہنا پڑتا ہے”موجودہ دور میں اخلاقی گراوٹ،قلت تغذیہ،جنگ وجدال،سرحدی لکیریں،ترقی پذیر ممالک کا ترقی یافتہ ممالک سے حسدوجلن،معاشرتی رسوم و رواج اور خود کو اعلیٰ جبکہ دوسروںکو ادنیٰ سمجھنا ہی اس دنیا کا سب سے بڑابگاڑ اور فساد ہے کیوں کہ والدین نے اپنا فرض منصبی اداکرناچھوڑدیا ہے اور اس کی عمدہ مثال نیوکلیئر فیملی سسٹم ہے جہاں ماں باپ دونوں کام کاج پر ہوتے ہیں اور ان کے بچوں کی پرورش و پرداخت کا کام گھر کے ملازمین کوانجام دینا پڑتا ہے۔مذکورہ بالا باتوں کا صرف اتنا مطلب ہے کہ اخلاقیات بھی عالمی مسائل کا ایک اہم حصہ رہا ہے ممکن ہے ہماری اس بات سے اختلاف ہولیکن اگر ہم یونیورسٹی سطح سے لے کر مدارس کی سطح تک دیکھیں تو آج کسی نہ کسی حیثیت سے اس اہم موضوع کو نصاب میں جگہ دی گئی ہے تاہم ہمیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ اگر اخلاقیات کو موضوع بنا کر جہاں مرد حضرات نے بہت سے ناول او راشعار قلم بند کیے ہیں وہیں پر اخلاقی پردے میں بہت سی کارآمد باتیں بھی عورتوں کی زبانی کہلوائی گئی ہیں جس سے نہ صرف ملک کے عوام کو فائدہ پہونچا بلکہ کئی ممالک کے لو گوں نے ایسی کتابوں کے تراجم اپنی اپنی زبانوں میں پیش کیں اور دنیا ان سے فائدہ بھی اٹھا رہی ہے۔
گوتم نیلمبر اور چمپک کی زبانی قرة العین حیدر نے اپنے لازوال ناول ’آگ کا دریا ‘ میں جن عالمی مسائل کا اظہار کیا ہے ان میں نہ صرف خانہ جنگی،رشتوں کے بنتے بگڑتے پیچ وخم،عورت کی مجبوری،سماج کی بے حیائی اور روسا کا اپنے ماتحتوں کو ہراساں کرنا،ان کی زندگی کو اجیرن بنادینا بلکہ طوائفوں کی حالت زار سے لے کر ذات پات کے بندھن تک کا احاطہ بخوبی کیا ہے،کہا جا تا ہے کہ دور کا ڈھول سہانا ہو تا ہے ہم سوچتے ہیں یہ مسائل صرف برصغیر تک محدود ہیں لیکن اگر عالمی ادب یا بین الاقوامی اخبارات پر ہماری نظر ہے تو ہم سب آئے دن یہ پڑھتے ہوں گے کہ یوروپین ممالک کے لٹریچر میں بھی کم وبیش وہی باتیں پیش کی گئی ہیں یا کی جا تی رہی ہیں جو برصغیر کے ممالک کو درپیش ہیں۔نوعتیں الگ الگ ہوسکتی ہیں۔اس سے انکار ناممکن ہے۔ ورجینا وولف کے ناولوںمیں تو خیر صراحتاً ان عالمی مسائل کا ذکر ہے جو موجودہ معاشرہ کو درپیش ہیں تاہم دیگر مرد قلمکاروں نے بھی عورتوں کے کردار میں سماجی برائیوں کو پیش کیا ہے مثال کے طور پرمیکسم گورکی کا ناول ’ماں‘ کو لیا جائے جب ڈسوزا کو اپنے ملک کے اندر چل رہے معاشی بحران اور گوروں کو کالوں پر فوقیت کے بارے میں معلوم ہو تا ہے تو وہ کہتی ہے ”ہائے کاش انسانیت کچھ عقل و شعور سے بھی کام لیتی کیا یہ انسان نہیں، انھیں جینے کا حق حاصل نہیں،خدا کی زمین تو بہت بڑی ہے کیا انھیں اس کی زمین کی رہنے کے لیے ان مجازی آقاؤں کی اجازت ضروری ہے ۔“ (ماں: میکسم گورکی (اردو ترجمہ)
راجندرسنگھ بیدی نے اپنے مختصر مگر جامع ناول ’ایک چادر میلی سی ‘میں جہاں فسادات اورمعاشرتی برائیوں کو پیش کیا ہے مثلا دیور کے ساتھ بھاوج کو بیاہ دینا، وہیں پر ایک ایسا مسئلہ بھی پیش آیا جسے عالمی مسئلہ کا درجہ حاصل ہے اور وہ ہے بھکمری چاہے وہ برصغیر کے ممالک ہوں یا پھر براعظم سے لے کر یوروپین ملکوں تک ہرجگہ اس بھکمری کے شکار افراد کی چیخ و پکار اور ان کی دل سوز آوازیں ہمارے کانوں تک پہونچتی ہیں ایسے میں نہ صرف اقوام متحدہ سے منسلک ادارے بلکہ ہر وہ تمام چھوٹی بڑی انجمنیں اس بھکمری سے بچنے کی تدابیر کے متعلق سوچتی رہتی ہیں اور اس کے لیے اپنے طور پر لائحہ عمل تیا ر کرتی ہیں بطور نمونہ مثال ملاحظہ ہو ”یہ پیٹ نہ ہوتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے کیا صرف ہمارے ہی ملک میں ایسا ہو تا ہے یا کہیں اور بھی ہماری طرح دنیا کی عورتیں بھوک سے پریشان ہو کر اس طرح کے قدم اٹھانے پر مجبور ہو تی ہیں ۔“(ایک چادر میلی سی: راجندر سنگھ بیدی)
حالانکہ اس سے پہلے منٹو بھوک پر بہت کچھ لکھ چکا ہے لیکن ہمیں اس مضمون میں تا نیثیت کے حوالے سے بات کرنی ہے اس لیے ہم منٹو کے قول ”بھوک سب سے بڑا مذہب ہے “اس پر کچھ تبصرہ نہیں کرنا چا ہیں گے۔جب کہ پریم چند کا شاہکار افسانہ ’کفن ‘ بھوک کی علامت بن چکا ہے جہاں ایک عورت دردِ زہ سے تڑپ رہی ہے تاہم اس کا شوہر اور سسر آلو سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے میں مگن ہیں۔اس افسانہ پر بہت بات ہو چکی ہے لیکن تانیثیت کے حوالے سے صرف اتنا عرض کرناچاہوں گا کہ درد زہ کا مسئلہ دنیا کی تمام عورتوں کے ساتھ یکساں ہے اور جب پریم چند بدھیا کی زبانی یہ مکالمہ ادا کرواتے ہیں ” دن دن بھر کام کرو اس پر بھی چین نہیں “ یہ مکالمہ اپنے آپ میں جاگیردارانہ اور تحکمانہ نظام کی پو ل کھو ل دیتا ہے کہ کس طرح سے پہلے گا ؤں کے چودھریوں نے کمزوروں اور مظلوموں کا استحصال کیا ہے۔یہ تنگ دستی اور مفلسی! ہے ہی ایسی چیز جو انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ یہ شعر ملاحظہ ہو
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
افسانہ ’کفن‘ کو اس شعر کے تناظرمیں دیکھا جائے تو معلوم ہوگاکہ اگر ان کے پاس دولت کی فراوانی نہ بھی ہو تی اگر گذربسر کا سامان بھی ہوتا تو بدھیا کی یہ حالت نہ ہوتی جو ہوئی۔ اور افسانہ پڑھنے کے بعد جو تاثر ہمارے ذہنوں میں ابھرتا ہے شاید اس کے علا وہ کچھ او ر ابھرتا۔
معروف تانیثی ادیبہ اور دانشور ورجینیا وولف نے "A room of ones own" میں جنسی بنیادوں پر عورت کو کمتر تصور کرنے اور اس کے ذہنی اور تخلیقی سطح پر پست ہونے کی دلیل کو رد کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور صرف کیاہے کہ عورت کی صلاحیتوںکو مرد اساس معاشرے نے نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ اس معاشرے اور نظام نے عورت کو اپنے مکمل اظہار کے لیے وہ مواقع ہی عطا نہیں کےے جن میں وہ پوری قوت اور اعتماد سے اپنے تخلیقی اور ادبی جو ہر کو نکھا ر سکتی تھی، لہٰذاورجینیا وولف نے اس کو متعصبانہ ذہنیت کا مظہر قرار دیا۔“
(انور پاشا، مشمولہ ’اردو ادب میں...“)
اس کی عمدہ مثال ہمارے ملک میں مل جائے گی مثلا بہت عرصہ تک ایسا رہا ہے کہ خواتین اگر کچھ لکھ رہی ہیں تو وہ اپنا نام نہیں ظاہر کرتی تھیں بلکہ بنت فلاں یا زوجہ فلاں کے نام سے ہی ان کی تحریریں شائع ہوا کرتی تھیں کمال کی بات تو یہ کہ بعض اہل قلم خواتین اسٹیج پر جاکر اپنی رائے کا اظہار تک نہیں کرسکتی تھیں لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔اس موضوع پر بھی بہت سے مباحثے ہوچکے ہیں مضمون کی طوالت کے پیش نظر بس اس بات پر اکتفا کر رہا ہوں کہ ایسی تمام خواتین کے بارے میں تفصیل سے جانکاری ڈاکٹر ناہید ظفر کی کتاب ’ہندوستانی مسلم خواتین 1947تک‘ کوملاحظہ کیا جا سکتاہے۔
عالمی مسائل کا اظہار اور تانیثی قلمکار:ہر ترقی یافتہ زبان کے قلمکاروں نے اس ضمن میں بہت سارے مضامین،مقالے،ناول اورکتابیں تحریر کی ہیں کبھی فکشن کا سہارا لے کر تو کبھی مذاہب کا سہارا لے کر تاہم اس مضمون میں اتنی گنجائش نہیں کہ ہر ایک پر تفصیلی گفتگو کی جاسکے لیکن یہاں ہم چند اہم ناموںکا ذکر کرنے کے بعد ان کی کتابوں اور مقالوں کے حوالے سے اپنی بات کو مدلل انداز میں پیش کر نا چا ہیں گے۔ ہندوستا نی تناظر میں دیکھا جا ئے تو ایک طرف قرة العین حیدر کا ناول ’آگ کا دریا‘ جہاں اس میں شعور کی رو کا استعمال کرتے ہوئے ڈھائی ہزار سالہ تاریخ اورعالمی مسائل کو کبھی گو تم کی زبانی تو کبھی چمپک کی زبانی پیش کر نے کی کامیا ب کوشش کی گئی ہے وہیں انتظار حسین نے اپنے ناول ’بستی‘ میں بھی اس کو پیش کیا ہے۔مثلاً کسی بھی ملک کے بٹوارے کی صورت میں کیا،کیا کچھ ہو سکتا ہے اور کس طرح کا رد عمل سامنے آتا ہے اس ناول میں انہوں نے کماحقہ پیش کیا ہے کہنے کو تو یہ ناول ایک خاص تناظر میں لکھا گیا ہے لیکن اگر ہم دیگر ممالک کے بٹوارے کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کیا وہاں بھی یہی صورت حال ہے جو ہندوستان اور پاکستا ن کے ساتھ تھی تو ہمیں جگہ،مقام او ر آب و ہوا کے فرق کے علاوہ بہت کچھ مشابہ نظر آئے گاچاہے آپ روس کو لے لیں یا پھر کوریا کے بٹوارے کو،بہت کچھ مشابہت ملے گی جس میں آج بھی وہاں کے عوام ایک دوسرے سے ملنے کے لیے ترستے ہیں بالکل اسی طرح سے جس طرح ہندوستان اور پاکستا ن کے وہ خانوادے جو ہجرت کر کے گئے تھے آج انھیں یہاںملاقات کی غرض سے آنے کے لیے کتنے پا پڑ بیلنے پڑتے ہیں بطور مثال یہ اقتباس ملاحظہ ہو جس میں جواد اورعشرت کے مابین ناول نگار مکالمہ کرتے ہوئے دکھاتا ہے جس میں عشرت جوادسے شہر کا درد سنا رہی ہے ”وہ جو اس شہرمیں ایک امی جمی تھی اچا نک ہی غا ئب ہو گئی۔ڈاکے،اغوا،قتل کی وا ردا تیں،بم دھما کے اچا نک نقاب پو ش نمودا ر ہوتے،بھرے با زا ر میں گو لیا ں چلا تے ایک یہاں گرا پڑا ہے دوسرا وہا ں تڑپ رہا ہے گرم جسم دیکھتے دیکھتے ٹھنڈے پڑ جاتے، بازار میں بھگدڑ مچ جاتی، پھر سنا ٹااور پھر اچا نک ٹا ئر جلنا شروع ہو جا تے ٹائروں کے جلتے جلتے کو ئی بس زد میں آجا تی اور منٹو ں میں جل کر خاکستر ہو جا تی دوکانیں کھلتے کھلتے پھر بند ہو جاتیں اور کرفیو لگ جا تاکرفیو آج یہاں کل وہا ں ۔“
(بستی: انتظار حسین)
مذکورہ بالا اقتباس پیش کرنے کا صرف یہی مقصد ہے کہ کسی ملک کا بٹوارہ صرف زمینی بٹوارہ نہیں بلکہ دو دلوں سے لے کر خاندانوں اور تہذیبوں تک کا بھی بٹوارہ ہوتا ہے اور آگے چل کر جب نئی نسل تیار ہو تی ہے تو وہ ایک دوسرے سے شکوہ کناں نظر آتی ہے۔ایسے نہ جا نے لوگ،کتنی مائیں،بہنیں اور لڑکیاں ہیں جو ہجرت نہیں کرنا چاہتی تھیں مباداوہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں سے دور نہ ہوجائیں لیکن ان کے شوہر کو ہجرت کرناتھی سوبصد مجبوری ہی سہی ان کو بھی جاناپڑا۔ ایسے حالات میں عشرت کی زبانی یہ مکالمہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ اسے یہ جگہ پسند نہیں ایک مشرقی لڑکی اپنے شوہر کی بات کو نظرانداز کرنا گناہ کبیرہ سمجھتی ہے۔یہ اور اس قبیل کے دیگر مسائل کا سامنا ان ممالک کو ضرور ہوتا ہے جو تقسیم کے مرض سے دوچار ہوتے ہیں۔ہمارے اردو ادب میں تو تقسیم کے سانحہ پر ایسے ایسے لازوال شاہکار تصنیف کیے گئے ہیں جن کی مثال تلاش کر نا مشکل نہیں۔کہنے کو تو پاکستان سے بنگلہ دیش بھی بنا، تاہم ان کے قلمکاروں نے اسے عالمی مسئلہ کی شکل نہ دے کر خانہ جنگی پر اپنے قلم کو مرکوز رکھا۔
تانیثت اور عالمی سماج کا مسئلہ: ایک سماج یا معاشرہ کم یا زیادہ کہیں نہ کہیں ابتدامیں بے ترتیبی کا شکا ر ہوسکتاہے لیکن اگر اس معاشرہ کے سمجھ دار افراد مل بیٹھ کرکوئی بہتر لائحہ عمل تیا ر کریں تو بہت حدتک کشاکش سے نمٹا جاسکتا ہے منٹو نے ایک اہم سماجی مسئلہ جسے بین لاقوامی مسئلہ کہنا زیادہ بہتر ہے وہ ہے عریانیت و فحاشیت، اس پر اتنا کچھ لکھ دیا کہ ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار ہو سکتا ہے۔ زمانہ ترقی کر رہا ہے قومیں آگے بڑھ رہیں تاہم عریانیت و فحاشیت دنیا کے نقشہ پر ایسے ہی ثبت ہے جیسے کہ پہلے تھا،حالات بدل گئے تو لوگوں نے عیاشی کے ذرائع میں بھی تبدیلی کر دی،نئے نئے طریقے ایجاد کر لیے اور نیا نیا نام تجویز کر لیا۔مثلا مجرا کی شکل موجودہ دور میں تبدیل ہوکر Dance Barیا Night Clubکی شکل اختیار کرچکی ہے اور ہمارے سماج کا نامور طبقہ ہی ان کلبوں کو زینت بخشتا ہے منٹو کہتا ہے ” ہمارے شہر کے معززین کو طوائفوں سے بہتر کو ن جان سکتا ہے “یا پھر منٹو کا ہی افسانہ ”بابوگوپی ناتھ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو ”رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار۔ یہی دوجگہیں جہا ں میرے دل کو سکو ن ملتا ہے ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکہ ہی دھوکہ ہے۔جو آدمی خود کو دھوکہ دینا چا ہے اس کے لیے ان سے اچھا مقام اور کیاہو سکتاہے،رنڈی کے کو ٹھے پر ماں باپ اپنی اولا دسے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوںمیں انسان اپنے خداسے ۔“
(بابو گوپی ناتھ: سعادت حسن منٹو)
 مذکورہ اقتباس بہت حد تک سچائی کاضامن ہے وہیں دوسری طر ف ہم آئے دن اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلا ں مٹھ سے اتنی لڑکیاں آزاد کرائی گئیں یا فلا ں آشرم اور مزار یا خانقاہوں میں اِس اِس طرح کی حرکتیں اجا گر کی گئی۔ دراصل منٹو کا یہ اقتباس ایک ایسی علامت ہے جس کا شکا ر آج پو ری دنیا ہے ایک طر ف اس طرح کے کاموں کی مذمت تو دوسری طرف پس پردہ اپنے مفاد میں یہ سارے کام رَوا رکھنا ہی اس عجیب دنیا کا عالمی مسئلہ ہے۔
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ دو ر میں تانیثیت کے حوالے سے جہاں بہت سارے عالمی مسائل کے حل کی کوششیں جا ری ہیں وہیں پر سماج کے کچھ عناصر ان کو عالمی مسئلہ نہ سمجھ کر کسی ایک ملک،ایک معاشرہ یا افراد سے جوڑ دیتے ہیں۔یہ بات ہمیں ہر حال میں یاد رکھنی چاہیے کہ ”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ “لیکن اگر ان رنگوں میں صرف مسائل ہی مسائل ہوں گے اور انھیں حل کر نے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو گی تو پھر کوئی مفید حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔
Mr. Asadullah 
C/o Mohd Mohsin
1444/45 Faiyaz Ganj
Azad Market
Old Delhi- 110006




ماہنامہ اردو دنیا،جولائی 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں