22/7/19

غالب صدی کے بعد دیوانِ غالب کی قابل ذکر اشاعتیں مضمون نگار: شمس بدایونی



غالب صدی کے بعد 
دیوانِ غالب کی قابل ذکر اشاعتیں

شمس بدایونی

زندہ و فعال افراد کی طرح کتابیں بھی شہرت، مقبولیت اور عظمت کے معیار و درجات تک پہنچتی رہی ہیں۔ اردو شاعری میں یہ تینوں درجات ’دیوان غالب ‘کو حاصل ہوئے۔ اپنی اشاعت اول 1841 سے آج تک صدہا ایڈیشن اس کے چھپ کر شائع ہوچکے ہیں۔ تحقیق، ترتیب، تدوین اور انتخاب کے مراحل سے بھی یہ لگاتار گزرتا رہا ہے، ہزارہا صفحات پرمشتمل تحقیقی و تنقیدی بحثیں بھی اس پر موجود ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
15 فروری 1869 کو مرزا غالب کی وفات ہوئی۔ فروری 1969 میں ان کی صد سالہ برسی منائی گئی۔ اس موقعے پر غالب اور غالبیات کے حوالے سے قابل قدر سر مایہ سامنے آیا۔ اس سرماے کا بڑا حصہ دیوان غالب کے مطالعے پر مشتمل ہے۔صدی گزر گئی، ایسی کامیاب صدی جس میں غالب پر تحقیق و تنقید، تشریح و تعبیر کے ایسے اعلا [اصولی و عملی ]نمونے پیش کیے گئے جو اردو تحقیق و تنقید کے بھی مثالی نمونے قرار پائے۔ 1969 سے آج 2019 تک تقریباََ پچاس سال کی مدت میں دیوان غالب پر تحقیقات کا یہ سلسلہ بند نہیں ہوا۔ سطور ذیل میں انہی پچاس سال میں دیوان غالب کے حوالے سے کی جانے والی بعض تحقیقی کوششوں کا تعارف مقصود ہے۔ اس تعارف کو تین شقوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
        دیوان غالب کے خطی نسخوں کی باز یافت
        دیوان غالب و منتخبات کے عکسی ایڈیشن
        غالب کے دیوان اور انتخاب کی تاریخی تدوین
        دیوان غالب کے خطی نسخوں کی بازیافت: ہند و پاک میں غالب کے دیوان کے خطی نسخے بڑی تعداد میں معلوم و دستیاب ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ تدوین کے لحاظ سے کار آمد اور مفید مطلب جن خطی نسخوں کی غالب صدی کے دوران یا اس سے قبل تدوین ہوئی وہ گُم ہوگئے۔ میری مراد نسخۂ  حمیدیہ، نسخۂ  لاہور اور بیاض غالب بخط غالب سے ہے، لیکن گذشتہ پچاس سال کے دوران ان میں سے دو کی بازیافت ہوئی اور یہ اشاعت کے مراحل سے بھی گزرے۔ میرے پیش نظر جو نسخے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
1۔ دیوان غالب اردو نسخہ ٔ خدا بخش، تقدیم : فرخ جلالی۔ ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ، اشاعت اول 1996،صفحات:[8+78=]86
 خدابخش لائبریری پٹنہ میں رضا لائبریری رامپور کی طرح دیوان غالب کے متعدد قلمی نسخے موجود ہیں، لیکن زیر نظر نسخے کی کتابت [جس کا کال نمبر92 ہے] بقول قاضی عبد الودود[ف1984] 1857 سے پیشتر کی ہے۔ فرخ جلالی[2013] کی راے میں یہ کتابت 1840 کے آس پاس کی ہے۔یہی سبب بنا اس کو مرتب کرنے کا؛ لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس کے مقدمے اور حواشی کو آئندہ پر موقوف رکھا گیا۔ جبکہ سرورق پر تقدیم کے تحت فرخ جلالی کا نام مرقوم ہے۔اس طور یہ نسخہ چارسطری حرفے چند از عابد رضا بیدار اور دو تعارفی صفحے ازقلم فرخ جلالی کے ساتھ شائع کردیا گیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تعارف بھی مرتب کے کسی مضمون سے اخذ کرکے شامل کرلیا گیا ہے۔اس قیاس کی حسب ذیل وجوہ ہیں:
 اول یہ کہ اس نسخے کا تعارف نہیں کرایا گیا، صرف اس طرح کے قلمی نسخوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
 دوم اس تعارف کے پہلے صفحے پر، صفحہ نمبر 189 درج ہے۔
 سوم دوسرے صفحے پر یہ جملہ بھی ہے:میں نسخۂ عظیم آباد کو شائع کرانا چاہتا ہوں۔
اس طور ہم اس نسخے کو مدون کر نے کی وجوہ سے ناواقف رہے۔’ حرفے چند‘ میں عابد رضا بیدار نے لکھا ہے:
 دیوان غالب کے کئی قلمی نسخے خدا بخش لائبریری میں محفوظ ہیں۔ فرخ جلالی صاحب نے ان میں سے ایک کا خصوصی مطالعہ کر کے اس کی تدوین کی ہے اور اس پر تفصیلی حواشی لکھے ہیں۔ اس نسخے کا تعارف اور متن پیش کیا جارہا ہے، مقدمہ اور حواشی اگلی بار[ص:3] اور یہ مقدمہ و حواشی آج تک شائع نہیں ہوئے۔
 اس اشاعت کے شروع کے آٹھ صفحات:سرورق، کتابی کوائف، حرفے چند اور تعارف پر مشتمل ہیں۔ نسخے کا متن 78 صفحات کو محیط ہے، گویا خطی نسخہ78 صفحات پر مشتمل ہے۔
 نسخۂ خدا بخش، دیباچۂ غالب اور تقریظ نیّر سے عاری ہے، ترقیمہ بھی نہیں ہے۔ پہلا صفحہ ”رب یسِر بسم اللّٰہ الر حمن الرحیم و تمِم بالخیر“ کے بعد شروع ہوگیا ہے۔ فوری طور پر میں نے صفحۂ اول اور آخر کی عبارت کا طبع اول سے ملان کیا تو پہلی غزل کے بعد کا شعر  
جراحت تحفہ، الماس ارمغاں،داغِ جگر ہدیہ
مبارکباد! اسد غم خوارِجانِ درد مند آیا
نسخے میں نہیں پایا۔آخری صفحے پر بھی رباعیات کی ترتیب متداول دیوان کے مطابق نہیں۔آخری رباعی سے پیشتر تمام شد لکھا ہے۔میرا خیال ہے کہ تدوین کے نقطۂ نظر سے اس نسخے کی کوئی خاص اہمیت نہیں؛ ورنہ قاضی عبد الودود، امتیاز علی خاں عرشی اور مالک رام وغیرہ کی توجہ کا مرکز یہ ضرور بنا ہوتا۔ تاہم اس کی اشاعت کی اپنی اہمیت ہے۔
2-        دیوانِ غالب [نسخۂ خواجہ]ڈاکٹر سید معین الرحمن، مکتبۂ اعجاز، لاہور،1998، صفحات :352، بار اول
 دیوان غالب نسخۂ خواجہ، ڈاکٹر سید معین الرحمن، الوقار پبلی کیشنز،لاہور۔ اگست 2000 صفحات:236
بار دوم، ڈیلکس ایڈیشن۔ راقم الحروف کے پیش نظر یہی ایڈیشن ہے۔دراصل یہ نسخۂ لاہور ہے جو بقول عرشی 1852 کے آخر میں مرتب کیا گیا۔ یہ پنجاب یونیورسٹی پنجاب لائبریری کی ملکیت تھا۔ وہاں سے یہ غائب ہو گیا۔ کسی طرح یہ ڈاکٹر سید معین الرحمن[ف:2005] کے ہاتھ لگا اور انھوں اسے نسخۂ خواجہ کے نام سے مرتب کرکے شائع کردیا۔
جس طرح ’بیاض غالب بخط غالب ‘کی اشاعت کے بعد ماہرین غالب کے درمیان نسخے کی صحت و عدم صحت پر بحث برپا ہوئی تھی، اسی طرح اس نسخے کی اشاعت کے بعد بھی لاہور کے اخبارات ورسائل میں ایک طویل بحث چھڑ گئی۔ بحث کا موضوع تھا کہ یہ نسخۂ لاہور ہے، ماضی میں جس کا تعارف اردو کے بڑے محققین ڈاکٹر سید عبدللہ[ دیوان غالب کا ایک نادرقلمی نسخہ،مطبوعہ ماہنامہ ’ماہ نو ‘کراچی جولائی 1954] قاضی عبد الودود[ متفرقات،نقوش لاہور اکتوبر1958]امتیاز علی خاں عرشی [نسخہ ٔلاہورمشمولہ دیوان غالب نسخۂ عرشی، دہلی 1958]کراچکے ہیں۔جب کہ سید معین الرحمن کا دعویٰ تھا کہ یہ مخطوطہ ان کے ذاتی ذخیرۂ نوادر کا حصہ ہے۔ انھوں نے یہ پرانی کتابوں کے کسی بیوپاری سے خرید کر اپنے ذاتی ذخیرے میں شامل کیا تھا۔[حرفے چندص:10] ان کے دعوے کے رد میں جو چھوٹے بڑے رسائل اور جوابات شائع ہوئے وہ حسب ذیل ہیں:
        دیوان غالب نسخۂ خواجہ، تجزیۂ و تحسین، مرتبین: ڈاکٹر سید معراج نیر، اصغر ندیم، الوقار پبلی کیشنز لاہور، 2000، [یہ کتاب5 نومبر1999 کو ڈاکٹر معین الرحمن کی ستاون ویں سالگرہ پر پیش کی گئی تھی]
        دیوان غالب نسخۂ خواجہ اصل حقائق ڈاکٹر تحسین فراقی، بک وائز لاہور 2000، ص:82
        دیوان غالب نسخہ ٔ خواجہ یا نسخۂ  مسروقہ۔ایک جائزہ، سید قدرت نقوی، مکتبۂ تخلیق ادب کراچی2000 ص:48
        دیوان غالب نسخۂ خواجہ صحیح صورت حال، ڈاکٹر سید معین الرحمن، الوقار پبلی کیشنز لاہور، مئی 2000، ص:64
        دیوان غالب نسخۂ خواجہ اصل حقائق،ازڈاکٹر تحسین فراقی اور دیوان غالب نسخہ ٔخواجہ صحیح صورت حال از ڈاکٹر سید معین الرحمن،ایک تقابلی جائزہ، مولفہ ڈاکٹر عارف ثاقب، اظہار سنز لاہور، ستمبر 2000، ص:16
مذکورہ بالا تحریری بحث میں نسخہ خواجہ کو کتب خانۂ پنجاب یونیورسٹی کا گم شدہ نسخہ، نسخۂ لاہور قرار دیا گیا اور کتب خانے سے اس کے گم ہونے اور مرتب کے ذریعے اس کی اشاعت کو ان کی ادبی خیانت سے تعبیر کیا گیا۔
یہ نسخہ64 اوراق یعنی 128 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں 1548 اشعار ہیں۔ بشمول دیباچۂ غالب و تقریظ،غزلیات، قصائد، قطعات اوررباعیات پر مشتمل ہے۔ عرشی صاحب کی راے ہے کہ یہ نسخہ1852 کے نصف آخر میں مرتب کیا گیا۔ڈاکٹر سید معین الرحمن کی ترتیب سے یہ پہلی بار چھپ کر شائع ہوا۔
مرتب نے اسے انگریزی وا ردو ادبیات کے عالم پروفیسر خواجہ منظور حسین (ف1986) سے منسوب کرتے ہوئے ’نسخہ خواجہ‘ نام دیا(تعارف :16)وہ لکھتے ہیں: ”اس نسخے کی جدول چھ رنگ کی ہے۔ پہلے صفحے سے آخری صفحے تک مطلا اور مذہّب خوشنما بیل بوٹے، انتہائی دیدہ زیب باریک نفیس طلائی کام سے مزین“( تعارف :6) ۱ٓگے مزید لکھتے ہیں:”نسخہ خواجہ جو اپنے وقت میں بڑے مثالی اہتمام اور کاوش کے ساتھ تیار ہوا ہے اغلب ہے کہ نواب ضیا ءالدین احمد نیّر درخشاں یا کسی شہزادے کے ذخیرے کا گوہر گم گشتہ ہو“ (تعارف:19)لیکن پروفیسر حنیف نقوی کا خیال ہے:
میرے نزدیک ڈاکٹر سید معین الرحمن کا شائع کردہ یہ نسخہ وہ گم شدہ دیوان ہے جو غالب نے جانی بانکے لال رند وکیل بھرت پور کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے خاص اہتمام سے تیار کرایا تھا... یہ نسخہ 17 دسمبر 1852 کو بہ سبیل ڈاک رند کے نام روانہ کیا گیا تھا۔
(دیوان غالب تجزیہ و تحسین :39)
سید صاحب نے اس اشاعت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔شروع کے 44 صفحات متعدد عنوانات: حرفے چند،تقدیمات،مخطوطے کا تعارف وغیرہ پر مشتمل ہیں۔درمیان کے 128 صفحات مطلا اور مذہّب نسخے کے عکس اور آخر کے 64 صفحات بہ عنوان، اضافات مرتب : نسخے سے متعلق حواشی، دیباچۂ  غالب اور تقریظ دیوان غالب کا اردو ترجمہ، فہرست اشعار، اشاریے اور انگریزی میں نسخۂ  خواجہ کے تعارف وغیرہ پر مشتمل ہیں۔مکمل دیوان آرٹ پیپر پر شائع کیا گیا ہے۔ نسخے کی ہو بہو رنگین کاپی شائع کی گئی ہے۔میرا خیال ہے غالب صدی کے بعد اتنا خوبصورت نسخہ دیوان غالب کا ابھی تک شائع نہیں ہوا۔
3۔نسخۂ حمید یہ ڈیجیٹل کاپی: یہ نسخہ مرزا نے 1821 میں نقل کرایا جو 5 صفر 1237ھ/یکم نومبر 1821 کو مکمل ہوا اور ریاست بھوپال کے فوجدار محمد خاں(ف 1865) کی ذاتی ملکیت بنا۔ یہ نسخہ ان تک کب اور کس طرح پہنچا اس سلسلے میں ابھی تک کوئی مصدقہ شہادت دستیاب نہیں ہوسکی ہے۔ 1918 میں پہلی مرتبہ اہل علم کو اس کا پتہ چلا،اس وقت یہ نسخہ ریاست کے فرماں روا نواب حمید اللہ خاں (ف1960) کے ذاتی کتب خانے کا حصہ تھا۔ انہی دو شخصیتوں سے نسبت کے سبب اول: یہ نسخۂ بھوپال اور پھر نسخۂ حمیدیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ نسخہ مفتی محمد انوارالحق (ف1940) کی ترتیب سے پہلی بار ’دیوان غالب جدید‘ کے نام سے مفید عام پریس آگرہ سے چھپ کر 1921 میں شائع ہوا۔ اس نسخے میں وہی کلا م تھا جس کی بابت مرزا نے دیوان کے دیباچے میں لکھا تھا:
 ”شاعروں کے قدر شناس قارئین سے توقع ہے کہ وہ اُن پراگندہ ابیات کو جو اس دیوان سے خارج ہیں، عاصی کی تراوشِ قلم کا نتیجہ نہ سمجھیں اور ایسے اشعار کی تعریف و تعریض میں اس دیوان کے مرتب(غالب ) کو ممنون و ماخوذ نہ ٹھہرائیں“
لیکن مفتی صاحب نے اس میں متداول دیوان کا کلام بھی شامل کردیا۔ اس طور جملہ کلام گڈ مڈ ہوگیا۔کلام کی تاریخی ترتیب طے کرپانا مشکل ہوگئی بعد میں پروفیسر حمید احمد خاں(ف1974) نے اسے ازسر نو اصل کے مطابق مرتب کرکے 1969 میں مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع کیا۔
جنوری 1944 تک یہ نسخہ کتب خانۂ  حمیدیہ میں موجود تھا اور اس سے بعض بڑے محققین نے استفادہ کیا، لیکن بعد کے عرصے میں یہ وہاں سے گم ہوگیا۔ 2015 میں یہ ڈھاکہ کے جناب شہاب ستار کو لندن میں پرانی کتابوں کے ایک بیو پاری سے حاصل ہوا جس کی انھوں نے مہر افشاں فاروقی کی وساطت سے ڈیجیٹل کاپی تیار کی،اس کی ہندوستانی قیمت چھ ہزار روپے قرار پائی۔ پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے یہ کاپی خریدی جو اس وقت میرے پیش نظر ہے۔ظفر احمد صدیقی نے ایک مقالہ بہ عنوان ”نسخۂ  حمیدیہ دریافت،گم شدگی، بازیافت “بھی لکھا جو معارف مئی 2017 میں شائع ہوا۔ سطور ذیل میں اس ڈیجیٹل کاپی کا پہلی مرتبہ تعارف پیش کیا جارہا ہے:
11x8.50، انچ کا 281 صفحات (8+241+22) پر مشتمل ڈیجیٹل نسخہ اصل کے مطابق پیش کیا گیا ہے؛یعنی سائز کے لحاظ سے اوردستیاب نسخے کے کاغذ کے رنگ کو بھی(جو مٹ میلا ہوچکاہے) ہوبہو پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس نسخے پر صفحات نمبر کا اہتمام نہیں تھا،لہٰذا اس پر نمبر شمار بھی نہیں دیے گئے۔ ٹائیٹل پر فوجدار محمد خاں کی مہر، مرزا کا فوٹو،مہر افشاں فاروقی کا ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے سر نامہ یہ بنا گیا ہے:
مرزا اسداللہ خاں غالب کے اصل مخطوطۂ دیوان کی ڈیجیٹل شکل/ ’نسخۂ حمیدیہ‘/ حا فظ معین الدین خطاط نے 1821 میں رقم کیا / مع تعارف از مہر افشاں فاروقی۔ سر ورق پریہ اضافہ ملتا ہے ’غالب کے عہد شباب کا دیوان‘ اور مہر افشاں فاروقی کے نام کے نیچے درج ہے: ڈپارٹمنٹ آف مڈل ایسٹرن اینڈ ساؤتھ ایشیین لینگو یجز اینڈ کلچر، یونیورسٹی آف ورجینیا“[مہر افشاں فاروقی کے تعارف میں یہ لکھنا کافی ہوگا کہ وہ اردو کے معروف نقاد جناب شمس الرحمن فاروقی کی بیٹی ہیں]
 سر ورق کے بعد کے صفحے پر کتابی کوائف کی طرح کاپی رائٹ [2015 یعنی سالِ اشاعت]آئی ایس بی این نمبر وغیرہ کا اندراج ہے۔ تیسرا صفحہ انتساب کے لیے مخصوص ہے جو جناب شہاب ستار نے اپنے والد،اے ستار کے نام کیا ہے۔ اس پر تاریخ اکتوبر 2015 درج ہے۔ تاریخ کے نیچے ڈھاکہ لکھا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مخطوطہ 2015 یااس سے پہلے کے عرصے میں دستیاب ہواتھا اور اس پر کام قیام ڈھاکہ کے دوران شروع ہوگیا تھا۔اگلے تین صفحات پیش لفظ کے لیے مختص ہیں جو جناب شہاب ستار نے لکھا ہے اس پر بھی تاریخ اور جگہ کا اندراج حسب سابق ہے۔ آگے کے 12 صفحات مہر افشاں فاروقی کے مقدمے بہ عنوان”غالب کے 1821 کے دیوان کی تاریخ“[ مترجم ظفر سید ]شامل ہے۔ اس کے بعد 241 صفحات پر مشتمل عکس ہے آخر کے 22 صفحات میں نیا انگریزی سرورق،کتابی کوائف، انتساب، پیش لفظ، اور مقدمے کا انگریزی متن ہے۔
اس نسخے کی اشاعت سے بہت سے اختلافات ازخود حل ہوجائیں گے جیساکہ مہر افشاں فاروقی نے بھی اپنے مقدمے میں انتہائی عالمانہ انداز میں اس پر گفتگو کی ہے۔
دیوان غالب و منتخبات کے عکسی ایڈیشن:
غالب کی زندگی میں دیوان غالب کے پانچ ایڈیشن چھپ کر شائع ہوئے:
        دیوان غالب، سید المطابع دہلی، اکتوبر1841 تعداد اشعار1903
        دیوان غالب، مطبع دارالسلام دہلی ، مئی 1847، تعداد اشعار 1158
        دیوان غالب، مطبع احمدی دہلی ، جولائی 1861، تعداد اشعار1796
        دیوان غالب، مطبع نظامی کانپور، جون 1862، تعداد اشعار1802
5۔ دیوان غالب، مطبع مفید خلائق آگرہ، بعد ازجون 1863 ، تعداد اشعار1795
عام طور پر غالب کے متداول دیوان میں 1796 یا 1802، اشعار ملتے ہیں۔ یہ تمام اشعار 1855 تک کہے گئے اشعار سے انتخاب کیے گئے ہیں، اسی لیے ان دواوین کی اہمیت ہے، چونکہ ان دواوین کے نسخے کمیاب و نایاب ہیں، اس لیے ان کی عکسی اشاعتوں کی اہمیت محسوس کی گئی۔ کالی داس گپتا رضا (ف2001) کے ذاتی ذخیرۂ کتب میں کلام غالب کی جملہ اشاعتیں موجود تھیں، لہٰذا انھوں نے دو کی عکسی اشاعتیں اپنے پیش لفظ کے ساتھ چھپواکر شائع کردیں۔
1۔ دیوان غالب (عکسی) طبع اول، ناشر: ومل پبلی کیشنز بمبئی، 1986 ص:[16+110]=126
چھ صفحات پر مشتمل پیش لفظ میں کالی داس گپتا رضا نے اس دیوان سے متعلق جملہ تفصیلات سے مطلع کیا ہے۔ اس شاعت کا انتساب مالک رام[ف:1993] کے نام کیا گیا ہے۔
        دیوان غالب چوتھا ایڈیشن، مطبع نظامی کانپور، جون جولائی 1862 (عکسی) ومل پبلی کیشنز بمبئی، 1987 ص: [24+104]=128
انتساب ڈاکٹر گیان چند جین[2007] کے نام ہے۔پیش لفظ 19 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں غالب کے دیوان کی جملہ اشاعتوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔ دیوان کا متن 104 صفحات پر مشتمل ہے۔پیش لفظ میں مرتب نے لکھا ہے:
”ان میں پہلا ایڈیش اور چوتھا ایڈیشن نہایت اہم ہیں۔ پہلا اس لیے کہ یہ نہایت کمیاب ہے۔(ظاہر ہے کہ اس میں سب ایڈیشنوں سے کم شعر ہیں)نیز یہ غالب کی مطبوعہ اردو شاعری کے سفر میں پہلا قدم ہے؛ اور چوتھا اس لیے کہ اس میں سب ایڈیشنوں سے زیادہ شعر ہیں اور اس کی بنیاد تیسرے ایڈیشن کا وہ نسخہ ہے جو خود غالب نے اپنے قلم سے درست اور نظر ثانی کرکے اشاعت کے لیے دیا تھا“(ص:16)
آگے مزید لکھتے ہیں:
” اس ایڈیشن میں وہ تمام (1796)اشعارلیے گئے ہیں جو تیسرے ایڈیشن میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ چھ شعروں کا اضافہ بھی کردیا...اس طرح اس ایڈیشن کے کل اشعار1802 ہو گئے اور غالب کا یہی کلام متداول ہے(ص:16)
 عکسی اشاعت کے مطالعے سے پتہ چلا کہ طبع اول بنا جدول شائع ہوا تھا اس اشاعت میں جدول کا اہتمام ملتا ہے۔ اس کے علاوہ غزلیات پرنمبر شمار بھی دیے گئے ہیں۔نیّر کی تقریظ اس میں شامل نہیں ہے آخری صفحے پر ”خاتمة الطبع“ کے عنوان سے مطبع نظامی کانپور کے مالک محمد عبد الرحمن کا ایک نوٹ ہے اور خواجہ طالب حسین طالب کا ایک تاریخی قطعہ ہے۔ اس کے بعد مالک مطبع کے دستخط اور مہر ہے۔
        دیوان غالب مطبوعہ 1863(عکسی) مقدمہ حکیم سید ظل الرحمن، ناشر ابن سینا اکادمی علی گڑھ، اشاعت : 2016،ص:[22+146]=168
یہ غالب کی زندگی میں شائع ہونے والا آخری دیوان ہے۔ جو ان کی وفات سے چھ سال قبل 1863 میں مطبع مفید عام خلائق آگرہ سے 146 صفحات پر چھپ کر شائع ہوا تھا۔ یہ مع دیباچہ و تقریظ نیّر [فارسی] قطعات، مثنوی، قصائد، غزلیات اور رباعیات پر مشتمل ہے اشعار کی تعداد 1795 ہے۔ عرشی صاحب نے اس اشاعت کی بابت لکھا ہے:
اس نسخے کی یہ خصوصیت قابل بیان ہے کہ پوری کتاب میںکچھ مقامات کے سوا،یاے معروف و مجہول اور ہاے سادہ و مخلوط میں فرق کیا گیا ہے۔ شاید اس سے پہلے کسی مطبوعہ کتاب میں یہ التزام نہیں۔“
(دیوان غالب نسخہ ٔ عرشی،ص:144)
حکیم سید ظل الرحمن فانڈر ابن سینا اکادمی کے ذاتی ذخیرے میں یہ نسخہ موجود تھا۔ انھوں نے اول اس کا عکس سہ ماہی ’سورج‘ لاہور میں شائع کرایا [سالنامہ اکتوبر 2006] بعد ازاں ایک مقدمہ لکھ کر اس کا عکسی ایڈیشن اپنے ا دارے سے شائع کیا۔یہ دیوان 146 صفحات پر مشتمل ہے۔ شروع کے 22 صفحات کتابی کوائف اور مقدمے کے لیے وقف ہیں۔ اس ایڈیشن کا انتساب ریاض الرحمن خاں شروانی کے نام کیا گیا ہے۔
15 صفحات پر مشتمل مقدمے میں مرتب نے دیوانِ غالب کی جملہ اشاعتوں کا تعارف کراتے ہوئے اس عکسی ایڈیشن کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور اس امر سے بھی مطلع کیا کہ :
”اس کا عکس ’سورج‘ میں بہت صاف نہیں چھپا تھا۔ میں نے مسلم ایجوکیشنل پریس کے مالک شجاع الدین سے اس کی صفائی کا خاص خیال رکھنے کے لیے کہا۔ یہ ان کی تعریف کی بات ہے کہ انھوں نے پھیلی ہوئی سیاہی اور دھبوں کو جہاں تک ہو سکا دور کیا۔ بعض اشعار جو تجلید کی نذر ہوگئے تھے، اسی طرح جگہ جگہ جو حروف ٹوٹ گئے تھے اور چھاپے میں صاف نہیں آئے تھے انھیں بڑی محنت سے ابھارنے کی کوشش کی۔ 1841 اور1862 کی عکسی اشاعتوں میں بھی چھاپے کی صفائی اور اُڑے ہوئے حروف کے بنانے پر توجہ نہیں کی گئی تھی۔ (ص20)
حکیم صاحب کا یہ بیان بالکل درست ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر تصانیف غالب کے بیشتر عکس موجود ہیں۔ یہ دیوان صفائی اور درستگیِ الفاظ کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتا ہے۔اور کیوں نہ ہو کہ یہ ڈیجیٹل پرنٹنگ کے عہد میں چھپا ہے۔
3۔گل رعنا مع آشتی نامۂ غالب،مرتبہ سید قدرت نقوی، انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی، 1975، صفحات: [12+358+120]=490
اس نسخے پر حرفے چند جمیل الدین عالی [ف: 2015] نے لکھا ہے اور مقدمہ مرتب نے۔ یہ مرزا غالب کا اردو و فارسی کلام کا پہلا انتخاب ہے جو انھوں نے مولوی سراج الدین احمد کی فرمائش پر کیا تھا۔پیش نظر نسخے کی ترتیب کے وقت ’گل رعنا‘ کے پانچ مخطوطے معلوم اور چار دستیاب تھے۔[1] نسخۂ حسرت موہانی [2]نسخۂ بلگرامی [3]نسخۂ خواجہ [4] نسخۂ سُویدا [5]نسخۂ وصی احمدیعنی زیر نظر مخطوطہ۔ نسخۂ حسرت عدم دستیاب ہے۔ دوسرا مالک رام کی ترتیب سے علمی مجلس دہلی سے1969 میں شائع ہوا۔ تیسرے اور چوتھے نسخے کی روشنی میں سید وزیر الحسن عابدی نے[ف: 1979] متن مرتب کیا جسے ادارۂ تحقیقات پاکستان لاہور نے 1970 میں شائع کیا۔ پانچواں نسخہ سید وصی احمد بلگرامی [1976]کی ملکیت تھا جسے مشفق خواجہ [ف:2005] نے حاصل کر کے سید قدرت نقوی(ف2000)سے مرتب کرایا۔ اس میں غالب کا اردو کلام کا انتخاب شامل ہے،جس میں 454 شعر ہیں۔ مالک رام کے یہاں یہ تعداد 455 اور عابدی کے یہاں 477 ہے۔ یہ اشاعت مالک رام اور عابدی صاحب کی اشاعتوں سے اس لحاظ سے وقیع ہے کہ اس میں گل رعنا کے مخطوطۂ پنجم کا عکس بھی شامل کردیا گیا ہے۔
اس مخطوطے کا سائز20x30/16 تھا۔ جلد بندی کے بعد کچھ فرق واقع ہوگیا۔کل اوراق62 یعنی 104 صفحات ہیں۔ صفحات شماری بعد میں کی گئی ہے۔ اردو اشعار کا اندراج صفحہ 8 سے صفحہ50 کو محیط ہے۔کلام دو کالم میں بغیر جدول ترچھا انداز اختیار کرتے ہوئے خوبصورت پیراے میں لکھا گیاہے۔ اس مخطوطے کا عکس بہت صاف اور واضح ہے۔
        غالب کے دیوان اور انتخاب کی تاریخی تدوین:
اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو دیوان غالب کی تاریخی تدوین مولانا عرشی نے اپنی مرتبہ اشاعتوں 1958، اور 1982 نسخۂ عرشی میں کردی تھی،لیکن یہ عنوان بند یا ابواب بند تھی یعنی نسخۂ عرشی کو انھوں نے تین حصوں میں تقسیم کیا تھا: گنجینۂ معنی، نواے سروش، یادگار نالہ پہلے عنوان کے تحت صرف نسخۂ حمیدیہ و شیرانی کے اشعار جمع کیے، دوسرے کے تحت دیوان متداول کے اور تیسرے کے تحت وہ اشعار دیے جو نسخوں کے متن میں نہیں بلکہ حاشیوں، خطوط، بیاضوں یا خاتمے سے لیے گئے۔ کلام کی تاریخوں کا اندراج کلام کے ساتھ نہ کرکے حواشی میں کیا۔کالی داس گپتا رضا نے اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس پورے دیوان کو تاریخی ترتیب میں سلسلہ وارمرتب کردیا۔ یہ ایک نوعیت کا علاحدہ کام تصور کیا گیا اور پسند کیا گیا۔ اس سلسلے کے ان کے مرتبہ نسخے کے جو ایڈیشن شائع ہوئے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
        دیوان غالب کامل (تاریخی ترتیب سے) کالی داس گپتا رضا، ساکار پبلی کیشنز بمبئی، بار اول 15 فروری 1988، صفحات:400
اس دیوان کا انتساب مرتب نے اپنی اہلیہ ساوتری کالی داس گپتا کے نام کیا ہے۔ شروع میں طویل مقدمہ ہے [ص:11 تا 109] متن میں 4209 شعر پیش کیے گئے ہیں۔ ترتیب گیارہ ادوار میں کی گئی ہے۔ پہلا دور 1807 تا 1812 اور گیارہواں دور1863 تا 1867 ہے۔آخر میں اشاریے[فہرست اشعار،اشخاص، کتب ورسائل مقامات] دیے گئے ہیں۔ انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی نے 1990 میں اسے پاکستان سے شائع کیا۔
        طبع دوم ہمارے پیش نظر نہیں۔،لیکن یہ ہندوستان میں 1990 میں اور پاکستان میں1994 میں طبع ہوا تھا۔ رضا نے طبع سوم میں لکھا ہے:”اگرچہ دوسرے ایڈیشن میں بھی ردو بدل کیا گیا تھا مگر وہ کچھ ایسا نمایاں نہ تھا۔ (ص:9)
3۔ دیوان غالب کامل نسخۂ  گپتارضا(تاریخی ترتیب سے) کالی داس گپتا رضا، ساکار پبلی کیشنز بمبئی، 15 فروری 1995،(ترمیم و اضافوں کے ساتھ) صفحات:564
اس کی ترتیب بھی ماقبل کے ایڈیشن کے مطابق ہے، البتہ اس میں مرتب نے خاصے اضافے کیے ہیں۔ طبع اول میں اختلاف نسخ کو محض اس لیے واضح نہیں کیا گیا تھا کہ یہ کام بہ طریق احسن، عرشی صاحب انجام دے چکے تھے۔املا اور روایت اشعار بھی پیشتر نسخۂ  عرشی کے مطابق تھے،لیکن اس اشاعت میں انھوں نے اپنے طور پر ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ عرشی صاحب کا اعتراف قدم قدم پر کیا ہے، لیکن درجۂ اول کے 19 مآخذ میں سے 8 مآخذ سے استفادہ بتوسط نسخۂ عرشی ہی کیا ہے۔ اس ایڈیشن کا مقدمہ113 صفحات کو محیط ہے۔ مقدمے میں انھوں نے ترتیب سے متعلق سارے اہم مسائل پر گفتگو کی ہے اور حتی الوسع اسے حتمی شکل دینے کی سعی کی ہے۔مقدمہ ہی میں توقیت کا اضافہ کیا ہے۔ مقدمہ میں اختیار کردہ عنوانات سے اس اشاعت کی اہمیت کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
کلام غالب کی تاریخی ترتیب کیوں، تعارف، غالب کا اولین اردو منظوم کلام،عمدۂ منتخبہ میں ذکر غالب، حرف نا معتبر، غالب کے بعض غیر متداول اشعار کا زمانۂ فکر، غالب کے کچھ ہنگامی مصرعے اور اشعار،دیوان غالب طبع اول،غالب کی زندگی میں دیوان غالب کی اشاعت، (دیباچہ،تقریظ، خاتمة الطبع اور تعداد اشعار) توقیت غالب۔
مقدمے کے بعد دیوان غالب کا متن حسب سابق گیارہ ادوار میں نقل کردیا گیا ہے۔طبع اول میں پہلے دور کا آغاز1807 سے کیا تھا۔ اس شاعت میں اس سنہ کو حذف کرکے ڈیش لگادیے گئے ہیں۔آخر میں فہرست اشعار بہ لحاظ سال فکر اور بہ لحاظ حروف تہجی (قافیہ و ردیف) کا اضافہ کیا ہے۔ اشاریۂ اشخاص، کتب، مقامات کے علاوہ غالب کی چار تصویریں بھی دی ہیں۔ اس اشاعت کا پاکستانی ایڈیشن انجمن ترقی اردو کراچی نے1996۔ 1997 میں شائع کیا جس پر جمیل الدین عالی کا پیش لفظ ہے۔ انجمن نے اس کا چوتھا ایڈیشن 2012 میں بھی شائع کیا ہے۔
        انتخاب کلام غالب، مسعود حسین، سر سید بک ڈپو علی گڑھ اول1991، صفحات:224
غالب کے کلام کے متعدد انتخاب ہند و پاک میں شائع ہوچکے ہیں لیکن یہ انتخاب پروفیسر مسعود حسین خاں (ف2010)ماہر لسانیات کی تراوش فکر کا نتیجہ ہے۔ اس کا انتساب انھوں نے اپنے چچا اور غالب شناس ڈاکٹر یوسف حسین خاں(ف1979) کے نام کیا ہے۔ شروع میں ’ پیش کلام‘ کے عنوان سے سات صفحے پر مشتمل ایک دیباچہ ہے جس میں انھوں نے اس انتخاب کو مرتب کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
”غالب کے مکمل مجموعۂ  کلام کی تدوین کا کام توامتیاز علی عرشی مرحوم اور کالی داس گپتا رضا اپنے اپنے انداز میں انجام دے چکے ہیں۔’تاریخ وار مکمل انتخاب‘ کا بیڑا راقم السطور نے اٹھا لیا۔اس عمل میں غالب کے دیوان کی ضخامت تقریباََ وہی رہی جو متداول دیوان کی ہے۔
ہر چند اس انتخاب کی تاریخی ترتیب کا دعوادوار(نسخۂ عرشی کے انداز پر) یا تاریخ وار(کالی داس گپتا رضا کے اہتمام کے مطابق) کہیں نہیں کیا ہے، اس لیے کہ ان دونوں گراں قدر تالیفوں کی موجودگی میں یہ محض ایک تکراری عمل ہوتا؛ تاہم غالب شناس دیکھیں گے کہ اس انتخاب میں بھی غالب کا کل کلام تاریخی ترتیب کے ساتھ ردیف وار پیش کیا گیا ہے۔ قصائد، قطعات اور رباعیات کی ترتیب میں تاریخی التزام قائم رکھا گیا ہے، اس طرح کہ ایک نظر میں غالب کے ذہنی ارتقا کی ترسیم کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ “(ص:6,7)
 راقم الحروف کا خیال ہے کہ ایک ماہر لسانیات اور ناقد ادب کے قلم سے کیا گیا انتخاب غالب کے فکر وفن کی ارتقائی صورت کو سمجھنے کا یقینا ایک بہتر وسیلہ بنے گا،لیکن کلام کے ساتھ سال فکر کا اندراج نہ کرنے سے یہ مقصد کیوں کر حل ہو سکتا ہے، میں نہیں سمجھ سکا۔البتہ مرزا خلیل بیگ کی کتاب ’مسعود حسین خاں احوال و آثار‘ (دہلی 2015) کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے جامعہ اردو علی گڑھ کے ادیب کامل کے طلبہ کے لیے یہ انتخاب کیا تھا (ص:144)لیکن دیباچے میں اس طرح کا کوئی ذکر نہیں،بلکہ دیباچے میں جس طرح غالب کے قلمی مخطوطوں کا ذکر کیا ہے اس سے اس انتخاب کی حیثیت تحقیقی ہوجاتی ہے نہ کہ تدریسی۔ واللہ اعلم
دیوان غالب سے متعلق یہ ہیں وہ چندتحقیقی کارگزاریاں جن میں سے ہر ایک مستقل جائزے کی حامل ہے۔ پچھلے پچاس سال کے دوران ہند و پاک میں دیوانِ غالب کے درجن بھر سادہ ایڈیشن بھی شائع ہوئے ہیں جن کے مرتبین یا ان کو شائع کرنے والے ادارے ادب میں خاص اہمیت رکھتے ہیں،ان کا تعارف پھر کبھی۔ اس مختصر مقالے کو دیوان غالب کی چند قابل ذکر اور اپنی نوعیت کی جدا اشاعتوں کے تعارف تک محدود رکھا گیا۔

Dr. Shams Badauni
58, News Azad Param Colony, Izzat Nagar
Bareilly - 243122 (UP)
Mob.: 09837092245



ماہنامہ اردو دنیا،جولائی 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں