23/7/19

اردو مرثیے کے نئے رنگ و روپ مضمون نگار: ارشاد نیازی



اردو مرثیے کے نئے رنگ و روپ

ارشاد نیازی

اردو مرثیے کے سلسلے میں کم سے کم دو باتیں ایسی ہیں، جنھیں نہایت یقین اور اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ مرثیہ ایسی صنف ہے جو اردو کی اپنی ایجاد ہے۔ دوسرے یہ کہ مرثیے نے اردو شاعری کے ساتھ اپنے ارتقا کی منزلیں طے کی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہیے کہ مرثیہ مذہبی شاعری ہونے اور ایک خاص فرقے کی عقیدت سے وابستگی کے باوجود اپنے ثبات کے لیے نہ صرف نئے زمانے کے مطالبات کو پیشِ نظر رکھا بلکہ زمانے کے رنگ وآہنگ کے مطابق شعری تجربے کی کئی کروٹیں بھی بدلیں اور ہیئت وتکنیک کے نِت نئے تجربات سے دوچار بھی ہوا۔ آج جب یہ کہا جاتا ہے کہ اب مرثیہ، مرثیہ نہ رہا تو اس انکار کے درون میں دراصل اس کی تغیر پذیری کا اعتراف ہے۔ مرثیہ اب جس معنوی صورت میں نمایاں تبدیلیوں کے ساتھ ہمیں نظر آتا ہے، اسے دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اردو مرثیہ واقعات کربلا سے متعلق مخصوص نظم کا نام ہے۔ اس لیے کہ ’اب مرثیہ نگار اس میں آہ وشیون اور مصائب ومظالم کی داستان بیان کرنے ‘کے ساتھ ساتھ زندگی کو ایک جاندار اور توانا عمل میں تبدیل کرنے اور حسینی کردار کی عظمت کو اجاگر کرنے کی سعی کررہے ہیں، جس کی وجہ سے بقول اسد اریب:
 ”مرثیہ اب جدید زندگی کی روشن علامتوں، نئے سیاسی وسماجی استعاروں اور دھنک کی خوش رنگ لہروں کا ایسا مرقع بن گیا ہے جو کہیں کہیں تو اردو نظم کے لیے قابلِ فخر ہے۔“ (اردو مرثیے کی سرگزشت ص4)
مرثیہ کو اوّلیت بخشنے میں جن مرثیہ نگاروں نے اہم کردار ادا کیا یا مرثیے کو زمانے کے تقاضوں سے جن شعرا نے ہم آہنگ کیا۔ ان پر بات کرنے سے قبل یہ ضرور ی معلوم ہوتا ہے کہ یہ جان لیں کہ مرثیہ ایک ایسی صنف ہے جسے لکھنے، پڑھنے، پڑھانے بلکہ سمجھنے کے لیے بھی اسلامی تاریخ سے واقفیت، کربلا کی تہذیبی روایات سے ارادت، اہلِ بیت سے محبت اور ہندوستانی رسم و رواج اور تہذیب وثقافت سے آگہی ضروری ہے۔ نیز انسان کے جذباتی فلسفہ کے ساتھ، کربلا کے کرداروں سے آشنائی بھی لازم ہے۔ یہی نہیں مرثیے کو پڑھنے اور پڑھانے والا اگر بنوامیّہ اور بنو ہاشم کی نفسیاتی چپقلش سے واقف نہیں ہے تو کر بلا سے انصاف نہیں کر سکتا۔ اہلِ بیت کے کرب کو نہیں جان سکتا۔ اس کے علاوہ بھی مرثیے کی تفہیم وتدریس کے لیے مرثیے کے عہد بہ عہد ارتقا اور بدلتے ہیئت وتکنیک کے ساتھ بنیادی موضوع کے علاوہ اضافی موضوعات پر پارکھی نظرلازم ہے۔ کربلا کے کرداروں سے واقفیت کے ساتھ صحیح قرأت ضروری ہے۔سب باتوں کی ایک بات، مرثیے کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اخلاصِ عمل اور حسنِ نیّت کی ضرورت ہے۔ اور بس !
عربی زبان کے اس لفظ ’رثا‘ نے مرنے والوں کے کتنے اوصاف بیان کیے اور مرنے والوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے، وہ اہلِ نظر جانیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ جب اس صنف کو شہدائے کربلا کا ساتھ ملا۔ اس نے زندوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ جینے کا حوصلہ بخش دیا۔ ظلم وجبر سے ٹکرانے کی قوت دے دی، حق بیانی اور جرأت ِ اظہار کی طاقت سونپ دی، صبر کا سلیقہ سکھلادیا اور باوقار زندگی جینے کا ہنر آگیا۔ اس لیے کہ
آزادیِ ضمیر کا پیغام ہے حسین
دنیا میں انقلاب کا اک نام ہے حسین
زندگی میں مرثیے کی جب اتنی اہمیت ہے تو ہمیں ضرور جاننا چاہیے کہ دکن میں پہلا مرثیہ کب، کہاں اور کس نے کہا ؟ اس سلسلے میں مختلف خیالات ملتے ہیں۔ کسی نے مراثی کی اولیت کا سہرا محمد قلی قطب شاہ کے سر باندھا،تو کسی نے نوری کو پہلا مرثیہ نگار مانا، نصیرالدین ہاشمی کے مطابق اشرف پہلے مرثیہ گو ہیں۔ اب جبکہ برہان الدین جانم کا مرثیہ دستیاب ہوچکا ہے، اس جھگڑے کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ دکن کے دوسرے مشہور مرثیہ گویوں میں، وجہی، غواصی، نصرتی، رستمی، نوری، مرزا، ہاشمی، ذوقی، بحری،کاظم،احمد وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ عادل شاہی اور قطب شاہی حکومتوں میں مرثیہ نگاروں کی جیسی قدرومنزلت تھی ویسی دوسری اصناف کے شاعروں کی نہ تھی۔ اس قدرومنزلت کے اپنے جواز و جزئیات ہیں۔ولی دکنی نے اس صنف کو نئے تجربوں سے نوازا۔
شمالی ہند میں باضابطہ مرثیہ گوئی کا آغاز اورنگ زیب کے انتقال کے بعد ہوا۔ اوّلین مرثیہ نگاروں میں صلاح، عاصی، یکرنگ، مکین، غمگین، فضلی اور میر تقی میر کے نام اہم ہیں۔ اس صنف کی ادبی حیثیت کا احساس سب سے پہلے سودا کو ہوا۔سودا نے ہیئت سے انحراف کیا اور مرثیے کو مسدس کی شکل دی۔ روایات کی صحت کا خیال رکھا۔ موضوع کو قدرے وسیع کیا اور اہلِ بیت کی عظمت ووقعت کا احساس دلایا۔ اس سے مرثیے کے فکروفن کے نئے دروازے وا ہوئے۔
نادر شاہ درّانی کے حملے سے لے کر 1857 کی ناکامی تک لوٹ کھسوٹ، قتل وغارت گری اور مصیبت وپریشانی کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ ان طویل سلسلوں میں مظلوم انسانیت کا کوئی سہارا ہے تو وہ کربلا اور مرثیہ ہے، جس نے جینے کا حوصلہ اور صبر کرنے کی تلقین عطا کی۔ کیونکہ جہاں ظلم ہے،وہیں کربلا ہے۔
ایسے میں دیکھا جائے تو دلّی کی فضا مرثیے کے لیے ناسازگار نہیں تھی۔ اس لےے مرثیے کو یہاں نمایاں فروغ حاصل نہ ہوسکا۔ اس کے برعکس لکھنؤ کی سیاسی وسماجی حالت اور تہذیبی مزاج اس صنف کو قبول کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی۔ اودھ کے ابتدائی عہد کے مرثیہ نگاروں میں نذر علی خاں گماں، مرزا منکوبیگ درخشاں، میر محمد علی صبر، شیخ حسن رضا اور نجات دہلوی وغیرہ مشہور ہیں۔ لیکن حیدری، سکندر، گدا، مقبل اور احسان ان تمام مرثیہ نگاروں میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے بعد مرثیہ کے دورِ تعمیر کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عہد میں خلیق، فصیح، دلگیراور ضمیرجیسے نامور مرثیہ نگار وں کے نام ملتے ہیں۔ دورِ تعمیر کے مرثیہ نگاروں نے صرف تجربے کیے جیسا کہ ان کے پیش رو کرچکے تھے۔ البتہ میر ضمیر نے اس میں قابلِ قدر اضافے کےے اور مرثیے کی ایک مخصوص ترتیب مقرر کی۔
اس کے بعد اس عہد کا آغاز ہوتا ہے جو اہلِ علم ودانش کے لیے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ میری مراد میرانیس اور مرزادبیر کے عہد سے ہے۔ یہ مرثیہ کے عروج کا عہد ہے۔ انیس ودبیر دونوں باکمال شاعر ہیں اور دونوں مرثیے اور رثائی ادب کا لافانی سرمایہ ہیں۔ اس عہد کا ایک اہم نام، میر عشق کا بھی ہے جن کے مرثیوں میں غزل کا آہنگ رچا بسا ہے۔
انیس ودبیر کے بعد مرثیہ گو شعراءکی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنی فنکاری، صنّاعی اور استادانہ مہارت تو دکھائی مگر تخلیقی حسن کے نمونے نہ پیش کر سکے اور نہ ہی کوئی اضافہ کر سکے۔ بیشتر مرثیہ نگار خاندانی روایات، تقلید اور تتبع کو ہی معراجِ فن سمجھتے رہے۔ یعنی وہی جدّ وآبا کے چلن پر چلتے رہے اور طرزِ کہن پر اڑے رہے۔ البتہ ان میں کچھ کو زیادہ مقبولیت ملی، کچھ کے حصے میں کم آئی۔کہیں انیس کا رنگ غالب رہا، تو کہیں دبیر کا رنگ شوخ نظر آیا۔ لیکن کوئی بھی انیس ودبیر کے فنّی معراج کی یافت نہ کرسکا۔ کوششیں اپنی سی جاری تھیں۔ جیسے ذکی بلگرامی نے سب سے پہلے ساقی نامہ کو مرثیہ کا حصہ بنایا۔ رشید، ادب اور مودّب نے بہاریہ مضامین کو مرثیہ سے وابستہ کیا۔ وحید نے مرثیہ میں ڈرامائی عناصر پرزور دیا۔ نفیس نے علمی فضا سے مرثیہ کی روح کو منوّر کیا اور خاندانِ عشق کے مرثیہ نگاروں نے غزل کے مضامین اور دلکشی کو برتا۔ مسلسل سلاموں کی شکل میں بھی مرثیہ کہہ کر جدّت پیدا کی گئی۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ 1920سے قبل تک مرثیہ نگار حضرات انیس ودبیر کے رنگِ سخن سے اپنے کو الگ نہ کرسکے۔
اس پورے عہد میں دو نام ایسے بھی ہیں جنھوں نے شعوری طور پر نئی ڈگر پر چلنے کی کوشش کی۔ ایک مرزا اوج اور دوسرے شاد عظیم آبادی۔ مرثیے کے روایتی حصار کو توڑنے اور اس کا رخ موڑنے میں اوج اور شاد کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں مرثیہ نگاروں نے علمی، اخلاقی، اصلاحی، قومی، فلسفیانہ اور نفسیاتی مضامین کو مرثیے میں کھپانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی عصری مسائل اور تعمیری مقاصد کے لیے مرثیے کے استعمال کا تصور پیش کیا۔ اوج نے تو قواعد کی پابندی اور معیار فن کو لازم قرار دیا۔
جدید مرثیے کا جو سفر مرزا اوج سے شروع ہواتھا جوش کا ’آوازہ  حق‘ اس سفر کا پہلا سنگ میل ہے۔ جوش کی انقلابی فکر نے مرثیے کو نئی فکر اور توانا زندگی بخشی اور مرثیے کی تاریخ ایک نئے موڑ سے آشنا ہوئی۔ جوش کے لیے کربلا ایک درس گاہ کی حیثیت رکھتی ہے اور امام حسین ؓ کی شخصیت انسانیت، حریت، انقلاب اور فکرونظر کی رہنما قوت۔ جوش کے مرثیوں کے کچھ مقاصد ہیں :وہ اس طرح کہ مقصدِ شہادت حسین کو اجاگر کرنا، ہمت تازہ کی تلقین اور باطل سے لڑنے کا ولولہ پیدا کرنا، حمایت ِ حق کے لیے تیار رہنا، حرّیت وسرفروشی کے جذبات ابھارنا، فرماں روایانِ دہر کو خاطر میں نہ لانا، سیاسی جبر کے سامنے سِپر اندازنہ ہونا وغیرہ۔ جوش اپنے مرثیوں کے ذریعے سرمایہ داری اور مادہ پرستی کے نظام کے خلاف بھی صف آرا ہونے کا جذبہ عوام میں پیدا کرنا چاہتے تھے ۔
مرثیے کو جدید دور میں آگے لے جانے والوں میں ایک نام نسیم امروہوی کا بھی ہے۔ نسیم خالصتاً مرثیہ کے شاعر ہیں جو قدیم وجدید کے تسلسل کی ایک مضبوط کڑی ہیں۔ اپنے مرثیوں میں عصری مسائل کی ترجمانی تو کرتے ہیں لیکن روایت کے احترام اور ’کلاسیکل فن کی شرطوں کے ساتھ ‘۔ حرّیت، انقلاب، جہد حیات، اجتہادِ فکر ونظر، عزم وعمل، علم ودانش، اتحادِ ملّت اور ہمہ گیر انسانیت کو اپنے مرثیے کا موضوع بنایا۔ نسیم نے مستقل موضوعات پر مکمل مرثیہ کی تصنیف کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔ ان کے خاص موضوعات اس طرح ہیں :علم وعمل، عقل وعشق، قرآن واہلِ بیت، علم کی عظمت، عورت کی اہمیت وغیرہ۔ اس سے دنیائے مرثیہ میں ایک نئی روایت کو استحکام حاصل ہوا۔
اے انقلاب مژدۂ علم وعمل ہے تو
رنگینیِ حیات کے گلشن کا پھل ہے تو
تعمیر کائنات نہ صرف آج کل ہے تو
آدم کو باغ خلد کا نعم البدل ہے تو
گردش بتارہی ہے یہ لیل ونہار کی
تو ہے دلیل ہستیِ پروردگار کی
(پیغام انقلاب)
شعورِ معرکہ ٔ جہد وارتقا ہے حسین
نشان عظمتِ حق، مثل مصطفی ہے حسین
بشر کے بھیس میں قرآنِ کبریا ہے حسین
قسم خدا کی عجب بندۂ خدا ہے حسین
عمل سے جیت لیا،عزم کی لڑائی کو
سر بریدہ سے سرکرلیا خدائی کو
مرثیے میں ملّت کی غیرت کو جگانے اور لفظوں سے حکومت کی بنیاد ہلانے کا عزم لے کر نجم آفندی دنیائے مرثیہ میں داخل ہوئے۔ انقلابی لہجہ، اصلاحی انداز،سائنسی دماغ اور غور وفکر کے عادی نجم آفندی نے اپنے عہد کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا۔
آرم اسٹرانگ جب چاند پر قدم رکھنے جارہا تھا تو پوری دنیا کی نظر اس پرتھی۔اس لیے کہ انسان ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے جارہا تھا اور دنیا ایک نئے دور میں داخل ہورہی تھی۔ قدیم تصورات ٹوٹ رہے تھے۔ ایک عجیب سی کشمکش اور ملے جلے تذبذب سے لوگ سرشار تھے۔ انسان اپنی فتح کی خوشیوں میں لہرا رہا تھا کہ نجم آفندی نے بدلتے وقت میں غم حسین کو اس انداز سے دیکھا
اہلِ زمیں کی آج ستاروں پہ ہے نظر
ممکن ہے کامیاب رہے چاند کا سفر
ہیں اپنی اپنی فکر میں ہر قوم کے بشر
مردانِ حق پرست کا جانا ہوا اگر
عباسِ نامور کا علم لے کے جائیں گے
ہم چاند پر حسین کا غم لے کے جائیں گے
یقینا اردو مرثیے کے لیے یہ انوکھا تجربہ تھا۔ جس سے اردو مرثیے کو ایک نئی روشنی ملی۔ مرثیہ نگاروں کو نئے اور شعری تجربے کی نئی راہ میسر آئی۔
جمیل مظہری کے مرثیوں میں زندگی کی ایک نئی رمق اورچمک موجود ہے۔ اس رمق کے درون میں شعور وآگہی، تاریخی وسیاسی بصیرت اور فلسفیانہ عنصر کا رفرما ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ’عرفانِ عشق‘ انھوں نے ترقی پسند تحریک اور مولانا آزاد کی تقاریر سے متاثر ہوکر لکھی تھی۔ اس مرثیے میں قوم کی کاہلی، بے حسی، بے عملی اورجہالت کو موضوع بنایا ہے۔ دراصل یہ قوم کی بے حسی پر غم واندوہ کا اظہار ہے۔
کب مسلمانوں نے دی دادِ تمنّا ئے حسین
تیرہ صدیوں میں نہ پورا ہوا منشائے حسیں
تھا جو سطحی سا اثر آپ کی قربانی کا
وہ بھی اب حالتِ تخفیف میں ہے ہائے حسین
نہ ملا کوئی خراج آپ کی مظلومی کو
آپ کو سجدہ سلام آپ کی محرومی کو
جمیل مظہری نے مرثیہ کا رشتہ قومی شاعری سے منسلک کیا۔ آزادی کا ہتھیار بنایا۔ اپنے مرثیوںمیں غزل کے ڈکشن کا اہتمام کیا۔ساتھ ہی ترقی پسند رجحانات ومیلانات کو مرثیہ کا حصّہ بنایا۔ مرثیہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ جمیل مظہری نے خیر کے بجائے شر کی تشریح وتعبیر پیش کی نیز جبر کی تاریخ کورقم کیا جو مرثیے کی روایت میں ایک نئی چیز تھی۔
حیف وہ قوم جو ہو ملّت شاہِ شہدا
وہ حکومت کی کنیزی میں ہو حیرت کی ہے جا
جس طرف دیکھےے ہے موت کا ایک سنّاٹا
نہ کوئی پیر تدبّر نہ کوئی جوانِ غوغا
جسم میں مدفن ِدل، مجلسیں گورستان ہیں
بستیان روح کی اک وادیِ خاموشاں ہیں
آل ِ رضا زرخیز ذہن اور عمیق فکر کے شاعر ہےں۔ ان کے مرثیوں میں تاریخی فکر نمایاں ہے۔آلِ رضا کے مرثیوں میں مقصدیت نمایاں ہے اور کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے مرثیوں کے ذریعہ یہ تعلیم دی ہے کہ عزت کے ساتھ ایک دن جینا، بے عزّتی کے ساتھ ہزاروں برس جینے سے بہتر ہے۔ ان کے مرثیوں میں انسان اور انسانیت کا اعلیٰ تصور ملتا ہے۔ ’انسانیت ہے طرّہ انساں کا امتیاز ‘
کتنا نازک تھا فریضہ جو بچا لائے حسین
تا بہ دل حلقۂ مذہب کو اٹھا لائے حسین
کلمہ رسم کے پھندے چھڑا لائے حسین
حق کو ناحق کی ملاوٹ سے بچا لائے حسین
نقل کو اصل حقیقت میں جو کھپنے نہ دیا
ڈھونگ اسلام مجازی کا پنپنے نہ دیا
آغا سکندر مہدی جدید مرثیہ نگاری کے آگے کے سفر پر گامزن تھے۔ اس سفر کے رختِ سفر میں ان کے ساتھ سائنسی معلومات وایجادات، سماجی اقدار کا ادراک اور وقت کے ساتھ ہورہی تبدیلیاں تھیں۔ آغا نے مرثیے کو ایک نئے باب سے آشنا کیا۔ وہ اس طرح کے چہرہ جو مرثیہ کا مقدمہ ہے اس میں تبدیلیاں کیں اور حمد ونعت، مناظر قدرت، نبوت اور وحدت جیسے موضوعات کو اس کا حصہ بنایا۔ مرثیے میں بین کے انداز کوبھی ایک نئے رُخ سے ہم آہنگ کیا یعنی یہ کہ امام حسین کی بے بسی، بے کسی اور مظلومیت کو ان کے صبر اور مقاصد کو اجاگر کر کے محفوظ کیا۔ آغا نے مرثیے کے عناصر توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت مقرر کیے۔
مجلس میں ذکرِ عظمتِ نوع بشر ہے آج
پیشِ نگاہ حسنِ طلوعِ سحر ہے آج
انساں کی زد میں گردشِ شمس وقمر ہے آج
تسخیر کائنات پہ سب کی نظر ہے آج
انسان پہنچ گیا ہے جو ماہِ مبین پر
رکھتا نہیں ہے فخر سے پاؤں زمین پر
 (مجلس میں ذکرِ عظمتِ نوع بشر ہے آج)
جدید مرثیے کے ان بنیاد گذاروں کے بعد مرثیے میں موضوع، ہیبت، ڈکشن اور فنّی سطح پر بڑی وسعت نظر آتی ہے۔ مرثیہ نگاروں نے فکرو نظر کے نئے آہنگ دیے۔ اس لیے کہ روحِ تہذیب کا سرچشمہ حسین ہیں۔ نامِ حسین صبر کی طاقت اور تخلیق ِ کائنات کے حسنِ ترتیب کا نام ہے اور اس تنظیم، ترتیب اور تحریک کو اصول کی کسوٹی کربلا سے ملتی ہے۔
سیاسی،سماجی، فکری تبدیلیاں اور آزادی کی چھٹپٹاہٹ تو پہلے سے بھی تھی۔ اس نسل کے مرثیہ نگاروں نے عالمی سیاست،بلند نصب العین اور آفاقی تصورات کو واقعات کربلا سے ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ شاید اسی لیے حسین ایک خاص فرقے، عقیدے یا جماعت کے رہبر نہیں بلکہ پوری انسانیت کے رہنما ہیں۔ دو ایک مثالیں ملاحظہ کریں۔
وہی خون آج بھی ہے رونقِ بازار ِ حیات
عزم نے جس کی بنائی تھی کل انسان کی بات
آبرو چہرۂ کونین کی ہے جس کا ثبات
جس کے ہاتھوں میں سجا آئینۂ ذات وصفات
روئے تہذیب کا ہر نقش سنوارا جس نے
زندگی ڈوبتی تھی پار اتارا جس نے
(جلوۂ تہذیب۔ڈاکٹر صفدر حسین)
ہر صبح اک پیامِ حقیقت نظام دے
بڑھ کر خراج گلشنِ دارالسلام دے
شب کی سیاہی نورِ سحر کو نہ پی سکے
مثلِ نسیم بندۂ آزاد جی سکے
 جھومر ہو عظمتوں کا جبین ِ حیات پر
انسان فخر کرسکے ذاتی صفات پر
(کربلا اور عصرِ حاضر)
اس کے بعد مرثیہ نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ اس سلسلے میں چند ایک نام اس طرح ہیں : امید فاضلی، وحید اختر، مہدی نظمی، منظر عباس نقوی، شمیم کرہانی، احسن رضوی دانا پوری، ناشر نقوی، آغا شاعر قزلباش، مرتضیٰ اطہر رضوی، علی سردار جعفری،ندیم امروہوی وغیرہ۔
اے خدا شرکے بگولے خون برسانے کوہیں
آدمی کی زندگی میں زلزلے آنے کوہیں
جوہری طاقت کے فتنے چہرہ دکھلانے کو ہیں
کہکشاں کی مانگ کے تارے بکھر جانے کوہیں
جنگ بازوں کی سواری پہنچی ہے افلاک پر
اب گھٹا برسے گی دود جوہری کی خاک پر
(مہدی نظمی )
لازم ہے کہ اس دور کے فرعونوں سے ٹکرائیں
واجب ہے کہ نمرودوں کے دوزخ سے گذر جائیں
مل جائے جو شدّادوں کی جنت بھی تو ٹھکرائیں
تخریب کو تعمیر کے آداب بھی سکھلائیں
ہر رنگ میں موجود یزیدانِ زماں ہیں
دنیا متلاشی ہے کہ شبیر کہاں ہےں
(وحید اختر )
مطلب پرستیوں میں ہے دنیا ئے رنگ وبو
دامانِ دیں کو آج ہے پھر حاجتِ رفو
قرآں شکستہ جسم ہے ایماں لہو لہو
خطرے میں پھر ہے دین محمد کی آبرو
اب سن بھی لے یہ درد میں ڈوبی صدا حسین
پھر عصر نو پکار رہا ہے کہ یا حسین
(ناشر نقوی)
چھایا ہوا ہے ذہنوں پہ شیطان آج بھی
انساں کا خوں بہاتا ہے انسان آج بھی
رائج ہے کفر وشرک کا فرمان آج بھی
ہے گرد میں اٹا ہوا فرمان آج بھی
فرعونیت زمانے پہ پھر چھارہی ہے آج
 تاریخ اپنے آپ کو دو ہرا رہی ہے آج
(ندیم امروہوی )
زمانۂ موجود میں مرثیہ سائنس، سیاست، سماج، تاریخ، عصری علوم، انسانی شعور، فلسفیانہ گرمی، صوفیانہ سادگی اور نفسیات کو اپنے رنگ وآہنگ میں گھلا ملا کر ایک نئے سانچے اور قالب میں ڈھل گیاہے۔ اس کی وجہ سے ہیئت میں بھی تبدیلی آئی ہے اور نئے موضوعات کی وجہ سے ڈکشن بھی بدل گیا ہے،لیکن کیا روایات اور عقائد سے وابستہ شاعری کے مضامین اور تہذیبی علامتوں میں تبدیلی کرنا آسان ہے ؟ کہنا چاہےے کہ یاکہنے کے لیے یہ باتیں ہیں یا کہنے میں یہ باتیں جو بظاہر آسان معلوم ہوتی ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ آسان نہیں ہے۔ کہاں مسائلِ دنیا اور کہاں مرثیے کے موضوعات اور ہیئت واسلوب ! لیکن داد دیجےے اہلِ بیت اور کربلا سے محبت کرنے والوں کو جنہوں نے بدلتی ہوئی دنیا کے معاملات اور جدید سے جدید تر ہوتی انسانی زندگی کو کہ انہوں کہیں نئے تجربے کےے، کہیں روایت سے بغاوت کی، تو کہیں انفرادیت کے اظہار نے جدّت کو نئی راہیں دکھلائیں۔ ان سعیِ پیہم سے مرثیے کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا۔ اس نئے چہرے کے رنگ وروپ میں ساری کائنات سمٹ آئی ہے۔
یہ سچ ہے کہ مرثیہ ہر زمانے کے اظہار کا وسیلہ بنا ہے۔ لیکن آج ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں تبدیلی کا ایک طوفان بپا ہے۔ اس صورتِ حال نے جس چیز کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، وہ زبان اور تہذیب ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مرثیے کی اساس ہر زمانے میں زبان اور تہذیب رہی ہے۔ کیا ایسے میں مرثیہ اظہار کا وسیلہ بنا رہے گا۔ ؟ جواب یہ ہونا چاہیے کہ دنیا میں جب تک حق وباطل کی کشمکش موجود ہے، مرثیہ گوئی کا جواز زندہ ہے۔ ایسے میں اس کو نئے نئے عنوانات اور موضوعات ملتے رہنا یقینی ہیں۔
ہر سمت ظلمِ شام کی ظلمت ہے آج بھی
بہتر معاشرے کی ضرورت ہے آج بھی
Irshad Neyazi
Dept of Urdu
Delhi University
Delhi - 110007



ماہنامہ اردو دنیا،جون 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں