25/7/19

اوزون کو درپیش خطرہ مضمون نگار: عظیم اقبال


اوزون کو درپیش خطرہ
عظیم اقبال


اوزون کیا ہے؟
اوزون وہ پرت ہے جو آفتاب کی بالا بنفشی (Ultra Violet) شعاعوں کو زمین تک آنے سے پہلے 97 سے 99 فی صد تک جذب کرلیتی ہے۔ یہ پرت زمین سے اوپر 30 سے 40 کیلومیٹر تک پر واقع ہے۔
اوزون کی مزید تفصیل
اس کے متعلق بتایا گیا ہے:
"A blue gaseous allotrope of Oxygen No, Derived or formed naturally from diatomic oxygen by electric discharge or exposure to ultra violet radiation."

تشکیل
ظاہر ہے یہ آکسیجن کی ایک شکل ہے جس کی تشکیل سابقہ بنفشی شعاعوں کی تابکاری سے ہوتی ہے۔
کھوج
اوزون گیس کی پرت کی کھوج فرانسیسی ماہرِ طبیعیات ’چارلس فیبری‘ اور ’ہیزن بن‘ نے کی تھی۔ اس کے اوصاف کے متعلق تفصیلی تفتیش برطانوی سائنس داں، جو موسموں کا مطالعہ کررہے تھے، جی، ایم، بی، ڈالسیف کے ذریعے ہوئی۔ اس کے لیے انھوں نے ایک ’اسپیکٹو فوٹو میٹر‘ تیار کی۔اس کی مدد سے زمین کے اوپر واقع اوزون پرت کے فاصلے کی پیمائش ہوسکتی ہے۔
نیٹ ورک کی تیاری
اس فاصلے کی پیمائش اور اوزون کی آگہی کے لیے ڈالسیف نے 1928 سے 1958 کے درمیان ساری دنیا میں اوزون کی شناخت اور پیمائش کے لیے پورا نیٹ ورک (Network) یا ڈھانچہ تیار کیا۔ وہ آج تک عمل پیرا ہے۔ ڈابسن نے دنیا کے مختلف مقامات پر اوزون کی پیمائش کے مستقر (Station) قائم کےے تھے، جو اوزون کی موجودگی کی پیمائش کرتے ہیں اور اس کے حجم کو ڈالسیف پوائنٹ کی شکل میں بتاتے ہیں۔
ڈابسن پوائنٹ
اوزون کے حجم کا یہ یونٹ نام ڈابسن کے اعزاز میں رکھا گیا تھا۔ اوزون کی فوٹو کیمیکل میکانزم کو 1930 میں برطانوی ماہر طبیعیات، سڈنی جیپ مین کی تلاش سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کی تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ آکسیجن کی اعلیٰ شکل (ایلوٹروپ) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گیس میں آکسیجن کے ہی جوہر ہوتے ہیں، لیکن ان کی تعداد اور انصرام آکسیجن سے مختلف ہوتی ہے۔ آکسیجن کے ایک جوہر میں دو ماتحت جوہر ہوتے ہیں، جبکہ اوزون میں آکسیجن کے تین ماتحت جوہر ہوتے ہیں۔

انصرام
یہ جوہر ایک مثلث کی شکل میں منظم ہوتے ہیں۔ کرۂ ارض کی اوپری پرتوں میں اس کی تشکیل آفتاب سے آنے والی بالا بنفشی روشنی کے آکسیجن پر ردعمل سے ہوتا ہے۔ یہ اوزون پرت آفتاب سے آنے والی بالا بنفشی شعاعوں کو جذب کرلیتی ہے۔

شعاعو ں کا رنگ
آفتاب کی بے رنگ روشنی میں سات رنگ کی شعاعیں نہاں ہوتی ہیں۔ بیگن، جامن، نیلی، سبز، زرد، نارنجی اور سرخ— ان سات رنگوں میں بیگن رنگ کی آمیزش سب سے کم ہوتی ہے۔ بیگنی رنگ کی شعاعوں کی ویولینتھ (Wave Length) سب سے کم ہوتی ہے۔

بالا بنفشی شعاعیں
بالا بنفشئی شعاعوں میں بہت زیادہ توانائی ہوتی ہے۔ ان شعاعوں کی زیادہ مقدار کے رابطے میں آنے سے جسم کی جلد جھلس جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں ان سے جلد کا سرطان (Cancer) بھی ہوسکتا ہے۔ آفتاب کی شعاعوں میں ان شعاعوں کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ لیکن کرۂ ارض کے بالائی حصے میں موجود اوزون گیس کی پرت انھیں جذب کرلیتی ہے۔ اس سے زمین تک ان کی بہت کم مقدار آپاتی ہے۔ کم مقدار میں ان کے آنے سے کچھ فائدہ بھی ہے۔ اس سے کچھ جراثیم (Bacteria) فوت ہوجاتے ہیں۔ پھر انھیں کے وسیلے سے جلد میں موجود سادہ وٹامن ڈی میں بدل جاتا ہے۔

آنکھوں کو ضیاع
بالا بنفشئی شعاعیں آنکھوں کے لیے بہت مضر ہیں۔ ان کے اثر سے محفوظ رہنے کے لیے رنگین شیشے کا چشمہ لگانا ضروری ہے۔

اوزون کو خطرہ
اوزون کی پرت کو جن بنیادی اشیا سے خطرہ ہے، وہ ہیں نائٹرک، آکسائڈ، ٹائٹرس آکسائڈ، ہائلڈروکسل، ایٹامک کلورین اور ایٹامک برومائن۔ اگرچہ یہ اشیا قدرتی شکل میں زمین پر موجود ہیں، تاہم حال کے دنوں میں انسان کے ذریعے تیار شدہ ’آرگے نوہیلوزرین‘ کے کمپاؤنڈ بڑی تعداد میں تیار ہونے کے سبب اوزون کی پرت کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ ان اشیا کے ایک جوہر میں ایک لاکھ اوزون جوہروں کو برباد کرنے کی صلاحیت ہوتی۔

اثرات
اوزون کے جوہروں کے برباد ہونے سے اس میں بالا بنفشی شعاعوں کو جذب کرنے کی صلاحیت گھٹ جاتی ہے۔ نتیجتاً غیر جذب شدہ خطرناک بالا بنفشی شعاعیں راست زمین پر آتی ہیں۔
زمین کے شمالی قطب میں اوزون کی چھتری سو فی صد دہے (Decade) کی در سے کم ہورہی ہے۔ اس طرح شمالی قطبین کے اوپر یہ 5 فی صد  کی در سے کم ہورہی ہے۔ وہاں یہ اتنی کم ہوگئی ہے کہ اس میں بڑے، بڑے سوراخ ہوگئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے ذریعے نائٹرس آکسائڈ کی سب سے زیادہ پیداوار کے نتیجے میں اوزون پرت کو کافی نقصان ہوا ہے۔

ممانعت
اسپرے (Spray) میں استعمال ہونے والی گیس، اوزون کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ لہٰذا 1978 میں امریکہ، کناڈا، ناروے نے ہواملی ہون اسپرے، پر پابندی لگا دی، کیونکہ اوزون کو نقصان اس سے ہوتا ہے۔ پھر بھی پرفیوم اور دوسرے اسپرے کے چلن کو روکا نہیں جاسکتا۔ یوروپ کے ممالک نے اس ممانعت کو قبول نہیں کیا تو اقوام متحدہ نے کلورو فلوروکاربن گیسوں کا استعمال بند نہیں کیا۔

تشویش
آخرکار 1985 میں انٹارکٹک کے خطے کے اوپر اوزون میں ایک بڑا سوراخ بن گیا، جو بالابنفشی شعاعوں کے زمین پر پہنچنے میں بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ نتیجتاً 1995 میں عالمی سطح پر سی، ایف سی کے استعمال پر پابندی لگانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کے درمیان ایک مفاہمت ہوگئی۔ تقریباً پونے دو سو ممالک اس مفاہمت پر دستخط کرچکے ہیں لیکن امریکہ نے اس کے استعمال پر پابندی نہیں عائد کی ہے۔

عزیز دوستو!
قرآنِ کریم میں قدرت کے عوامل کا جائزہ لینے کی بڑی تاکید ہے۔ جس قدر ان عوامل پر نگاہ ڈالیں گے، خدا کی عظمت کے قائل ہوں گے۔ آئیے یہ عہدکریں کہ قدرت کے عوامل سے چھیڑچھاڑ سے حتی الامکان گریز کریں گے!
Azim Iqbal
Adabistan
Ganj No 1
Bettiah - 845438 (Bihar)


ماہنامہ اردو دنیا،جولائی 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




1 تبصرہ:

  1. اچھا مضمون ہے۔ایسے ہی کارآمد مضامین کی اردو ادب کو بہت ضرورت ہے۔ کیونکہ ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے۔ معاشیات سماجیات سائنس وغیرہ ایسے پہلو ہیں جو زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ادب میں ان سب کو سامنے لایا جانا چاہیے۔ اردو ایک بہت ہی پُراثر زبان ہے اور یہ ہماری اپنی بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے اس طرح کے مضامین کو اپنی زبان میں ہی اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ اور یہ آج کا بہت ہی سنجیدہ موضوع ہے جس کا پھیلایا جانا ضروری ہے۔ اور اردو پر لگے اس الزام کو بھی ہٹانے میں مدد ملے گی کہ اردو ادب میں مبالغہ آرائی اور تنقید اور تحقیق صرف افسانوں اور اور ناول پر آ کر ٹھہر گئی ہیں۔ اردو ادب میں بھی تبدیلی لائی جائے اور اسے بھی وہاں کھڑا کر دیا جائے جہاں دوسری زبانیں کھڑی ہیں۔وہیں جہاں سر سید چھوڑ گیے تھے۔

    نصرت انصاری
    سہارن پور

    جواب دیںحذف کریں