29/7/19

اڑیسہ میں اردو زبان کی ترقی و ترویج میں درپیش مسائل اور ان کا حل! مضمون نگارـ شاذیہ تمکین


اڑیسہ میں اردو زبان کی ترقی و ترویج میں درپیش مسائل 
اور ان کا حل!


شاذیہ تمکین

ہندوستان کے مشرقی ساحلی علاقے میں تقریباًپانچ سو کیلومیٹر کے رقبے میں اڑیسہ آباد ہے۔جس کے مشرق میں بنگال کی کھاڑی، شمال مشرق میں مغربی بنگال، شمال میں جھاڑکھنڈ، مغرب اور شمال مغرب میں چھتیس گڑھ اور جنوب اور جنوب مغرب میں آندھرا پردیش واقع ہے۔
اڑیسہ کی مجموعی آبادی شہروں اور دیہاتوں میں بسنے والوں پر محیط ہے۔ 1اپریل1936 کو بہار سے الگ ہونے کے بعد اڑیسہ کو ایک خود مختار صوبہ کی حیثیت ملی۔ 2011 میں اس ریاست کا نام اُڑیسہ(Orissa) سے اڈیشہ(Odisha)کر دیا گیااور یہاں کی سرکاری زبان اڑیا سے اڈیا ہو گئی، جس کا تعلق اردو کی طرح نو ہند آریا ئی خاندان سے ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ اردو کا تعلق شور سینی پراکرت سے ہے اور اُڑیا کا تعلق ماگدھی اپ بھرنش سے ہے۔بقول حفیظ اللہ نیولپوری:
دونوں (اُڑیا اور اردو) اس انڈک زبان سے نکلی ہیں جسے قدیم آریہ بولتے تھے۔اس طرح اڑیا اور اردو میں لسانیاتی اختلاف کے باوجود مزاج کی یکسانیت کا پایا جانا فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنیادی گرامر کے علاوہ بہت سے ضرب الامثال جو اردو میں مستعمل ہیں ان کا ہو بہو عکس اُڑیا کے ضرب الامثال میں پایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اُڑیا کی روزمرہ زبان میں اردو کے بہت سارے الفاظ اس طرح داخل ہو گئے ہیں کہ ان کے مترادفات کا اڑیا زبان میں پایا جانا مشکل ہے.... اس قبیل کے تقریباًدو ہزار الفاظ اُڑیا زبان کا لازمی جز بن چکے ہیں۔  
(اڑیسہ میں اُردو: ڈاکٹر حفیظ اللہ نیولپوری، ص57)
اردو زبان ایک جدید ہند آریائی زبان ہے جو دہلی اور اس کے گرد و نواح میں پیدا ہوئی۔یہ ایک مخلوط زبان ہے جس میں مختلف زبانوں کے الفاظ داخل ہوتے رہے ہیں۔جیسے عربی ، فارسی، پرتگالی، تلگو، تامل، گجراتی، اڑیا، پنجابی اور انگریزی۔ اسی طرح اڑیہ زبان نے بھی عربی فارسی، اردو، ہندی، انگریزی، پنجابی، بنگالی وغیرہ جیسے الفاظ سے اپنادامن وسیع کیا۔ حفیظ اللہ نیولپوری نے بہت سارے ایسے اردو، عربی، فارسی، پشتو ترکی الفاظ کی مثالیں پیش کی ہیں جو ہوبہو بغیر کسی ردوبدل کے اڑیا زبان میں شامل کر لیے گئے ہیں۔ ونود کاننگو نے اپنی تصنیف ’گیان منڈل‘ اڑیا انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ اردو کے پانچ ہزار الفاظ اڑیا زبان کے روزمرہ کی بولی میں مستعمل ہیں۔یہاں تک کہ اڑیسہ کے رسم و رواج، وضع قطع، خورد و نوش اور طرزِ معاشرت میں قدم قدم پر اردو کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔عبدالحلیم حلیم کا ایک شعر اڑیسہ کے لیے 
اے اڑیسہ اے دیارِ شاہدِ اڑیہ زباں
تیرے طول و عرض میں اردو بھی ہے جلوہ فشاں
یہاں کی بول چال کی اردو میں اڑیا الفاظ کثیر تعداد میں استعمال کیے جاتے ہیں۔اس کی ایک فہرست حفیظ اللہ نیولپوری نے اپنی کتاب ’اُڑیسہ میں اردو‘ میں درج کی ہے۔ لیکن وہاں کے اردو ادیبوں پر اڑیا کا اثر اتنا گہرا نہیں پڑا ہے، بقول حفیظ اللہ نیولپوری ”جس کا سبب غالباً یہ ہے کہ اڑیسہ کے قدیم اردو ادیبوں میں فارسی کا ذوق و شوق بہت گہرا تھا۔
اڑیسہ میں اردو تعلیمی نظام پر نظر ڈالی جائے تو آزادی سے پہلے یہاں کا تعلیمی نظام بہار سے ملحق تھا۔ مدرسہ شمس الہدی بورڈ پٹنہ سے یہاں کے صرف دو مدرسے منظور شدہ تھے۔(1) مدرسہ سلطانیہ بخشی بازار کٹک، جس کا قیام 1910 میں عمل میں آیا تھا۔ (2) مدرسہ نعمانیہ، بھدرک اور1931 میں دارالہدیٰ، چمپوا کا قیام عمل میں آیا۔ آزادی کے بعد بہت سارے مدارس اسلامیہ قائم کیے گئے۔ مئی 1822 میں ریورینڈم ویلیم باپٹن انگلش میڈیم اسکول کا قیام عمل میں آیا، جو 1850 تک ایم ای اسکول کی حیثیت سے برقرار رہا اور 1851 میں یہی اسکول راونشا کا لجیٹ ہائی اسکول اور اب صرف راونشا کالجیٹ اسکول کے نام سے موسوم ہے۔اس میں تقریباً 1902 میںاردو فارسی تعلیم کا آغاز ہوا جو ہنوز جاری ہے۔ 1913 میں قائم شدہ مسلم سیمنری اسکول کٹک میں ہے۔ اس اسکول میں مقامی زبان اڑیا اور سنسکرت کے علاوہ اردو اور فارسی ذریعۂ تعلیم کا بندوبست رہا ہے۔ان کے علاوہ حاجی محمود اردو گرلس ہائی اسکول بھدرک، این۔سی ہائی اسکول بھدرک، ضلع ہائی اسکول بھدرک، اردو گرلس ہائی اسکول اڑیہ بازار کٹک، ضلع اسکول سنبل پور، ضلع اسکول بالا سور، حاجی نصیر الدین ہائی اسکول سنہٹ بالاسور وغیرہ اُڑیسہ کے بیشتر ہائی اسکولوں میں اردو، فارسی کی تعلیم کا بندوبست ہے۔
عصرِ حاضر میں ایک سروے کے مطابق اڑیسہ میں کل 672 پرائمری اسکول ایسے ہیں جہاں اردو تعلیم کا انتظام ہے۔اورتقریباً 52 مڈل اسکول ایسے ہیں جہاں اردو تعلیم کا بندو بست ہے۔اردو مرکز سے اتنے دور واقع ہونے کے باوجود اُڑیسہ ہندوستان کا وہ ممتاز صوبہ ہے جہاں پرائمری سے لے کر کالج کی سطح تک اردو تعلیم کا معقول انتظام ہے۔آزادی کے بعد 1956 میں میاں جی ٹریننگ اسکول شہر بھدرک میں قائم ہوا تھا۔جو 1962 میں اردو سکنڈری ٹریننگ اسکول کی حیثیت سے کٹک منتقل ہوگیا۔یہاں فی الحال سی۔ٹی کے کورس میں اردو ذریعۂ تعلیم کا انتظام ہے۔بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی بار اُڑیسہ کے قدیم ترین تعلیمی ادارہ راونشا کالج کٹک، جو اب راونشا یونیور سٹی بن چکا ہے، میں ایک اردو فارسی ڈپارٹمنٹ قائم ہوا۔ برہم پور اور سمبل پور یونیورسٹی کے تحت کسی بھی کالج میں اردو تعلیم و تدریس کا انتظام نہیں ہے۔ صرف خانگی طور پر تیاری کرکے اردو کے پرچوں کا امتحان دیا جا سکتا ہے۔اتکل یونیور سٹی کے تحت چند کالجوں میں اردو تعلیم کا انتظام ہے، جہاں اردو بحیثیت مادری زبان پڑھائی جاتی ہے۔اور چند کالج ایسے بھی موجود ہیں جہاں بی۔اے میں اردو آنرس کا بھی انتظام ہے۔فقیر موہن یونیورسٹی کے تحت چند کالجوں میں بھی اردو مادری زبان اوراردو آنرس کے طور پر بھی پڑھائی جاتی ہے۔ بھدرک آٹو نامس کالج میں ایم۔ اے کی سطح پر ریگولر کورس کی حیثیت سے اردوکی تعلیم دی جاتی ہے۔ 2016 سے فقیر موہن یونیورسٹی میں بھی اردو میں ایم اے کی تعلیم کا انتظام عمل میں آیا ہے، جو اردو کے لیے ایک خوش آئند پہلو ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ اڑیسہ میں اردو زبان و ادب کی ترویج کے لیے اردو کے ادبی اور ثقافتی اداروں کا رول خاصا اہم ہے۔چند ایک مشہور اداروں کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔’بزمِ ادب‘ کو 1922 میں امجد نجمی نے کٹک میں قائم کیا۔ بزم سخن، بزم ظرافت، مائکا، نجمی اکادمی، فیضانِ ادب، سنگم لٹریری سوسائٹی، غالب اکادمی، بزمِ فیض و فراق، رضوانی ویلفیئر ایسوسی ایشن، بزم اخلاق، اردو لائبریری راور کیلا، ہندی اردو سنگم راجگانگ پور وغیرہ اداروں کے ذریعہ مشاعروں،کانفرنسوں اور سمینار نیز مختلف علمی و ادبی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ 7فروری 1987 کو اڑیسہ میں اردو اکادمی کا قیام عمل میں آیا۔ جس کو اڑیسہ کے اردو زبان و ادب کی ترقّی و ترویج کے باب میں ایک خوش آئند دور کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ اس اکا دمی کے توسط سے اکثر سمینار،مشاعرے اورادبی مذاکرے ہوا کرتے ہیں۔جس کے سبب اردو زبان کی تعلیم کو خاطر خواہ تقویت ملتی ہے۔
26 جولائی 1989 کو آل اڑیسہ اردو ٹیچرس ایسو سی ایشن (رجسٹرڈ)کے قیام کے بعد سے اردو تعلیم کی جدو جہد میں بہت حد تک پیش رفت ہوئی ہے۔سب سے زیادہ قابلِ ذکر کارنامہ یہ ہے کہ اڑیسہ اڈمنسٹر ٹیو سروس OES,OAS,OPSمیں اس کی کو ششوں سے اردو کو ایک سبجکٹ کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اڑیسہ میں اردو تعلیم کی صورتِ حال بہت حوصلہ افزا نظر آتی ہے۔اس کے باوجود یہاں اردو زبان کی بقا اور ترویج میں کئی ایک مسائل حائل نظر آتے ہیں۔یہاں اردو زبان کو جن اہم چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے چند باتوں کا ذکر یہاں ضروری سمجھتی ہوں۔ اُڑیسہ میں اکثر و بیشتر علاقوں میں اردو کو اپنی ماں جائی زبان یعنی گھر آنگن کی زبان سمجھنے کا عام رجحان موجود ہے۔جب کہ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے۔سرکاری سطح پر ہو یا غیر سرکاری ،یہاں کے مسلمانوں کی مادری زبان اردو رہی ہے(دستاویزی طور پر عملی طور سے نہیں)۔ چند ایک علاقے اس سے مستثنیٰ ہیں،کیونکہ وہاں مسلمانوں کی عام بول چال کی زبان بھی اڑیا ہے۔اپنی بولی جانے والی جس زبان کو یہاں اردو سمجھا جاتا ہے وہ دراصل ایک مخلوط زبان ہے وہ کوئی ایک زبان نہیں ہے، مختلف علاقوں میں مختلف طرح سے بولی جانے والی سوقیانہ زبانیں ہیں، جن پر مذکورہ علاقے کا اثر صاف جھلکتا ہے۔چاہے جس بھی علاقے کی کیوں نہ ہو اس پر ا ڑیا زبان کے اسما و افعال کا غلبہ موجود ہے۔ اُڑیا زبان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ جب تک جملوں میں کسی نر یا مادہ کا نام استعمال نہ کیا جائے تب تک اس بات کی وضاحت نہیں ہو پائے گی کہ متکلم یا مبتداءمذکر ہے یا مؤنث۔یعنی جب جملے میں اسم ِخاص کے بجائے ضمیر کا استعمال کیا گیا ہو تو تذکیر و تانیث کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ اس کے افعال، فاعل کے مذکر یامؤنث کے اعتبار سے استعمال میں نہیں لائے جاتے ہیں۔ اڑیسہ کے اکثر و بیشتر علاقوں میں، جہاں اردو بولی جاتی ہے، تذکیر و تانیث غیر حقیقی الفاظ کے استعمال میں اڑیا زبان کی اسی خاصیت کی مماثلت سے مذکر اور مؤنث دونوں اسما کے لیے فعل مذکّر ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔مثلاً
روٹی پک گیا۔(صحیح اردو:روٹی پک گئی)
لُنگی دھل گیا۔(صحیح اردو:لُنگی دھل گئی)
اس کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں اور خصوصاً اڑیا زبان کا ہی اثر ہے کہ صوتی اعتبار سے اردو بولنے والوں کا تلفظ درست نہیں ہے ، بولتے وقت ش، ق، غ، خ وغیرہ جیسے حروف کی درست ادائیگی کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے عموماً بڑے بزرگ بھی ’خدا‘ کو ’کھدا‘ اور ’شام‘ کو ’سام‘ہی بولتے ہیں۔لسانیاتی اعتبار سے اگر اُڑیسہ میں رائج اردو زبان(تقریباً ہر ایک کیلومیٹر کے زمینی فاصلے کے ساتھ ساتھ اس کا چولا بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے)کی تاریخ اور ارتقا کے ہمراہ صوتی اتار چڑھاؤ کا تجزیہ باریک بینی سے کیا جائے تو ایک مختصر سا مقالہ نہیں بلکہ ایک ضخیم کتاب تحریر کی جا سکتی ہے۔ بہرحال ایسی اردو بو لنے والے والدین کس حد تک اپنے بچوں کی اردو زبان کی تربیت میں راہیں ہموار کر سکتے ہیں یا ایسے اسا تذہ جو خود ہی اس مرض کے شکار ہیں یعنی جن کی بولیوں میں علاقائی اثر حاوی نظر آتا ہے وہ کہاں تک اردو زبان کی ترویج میں فعال و متحرک رول اد اکر سکتے ہیں، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
عصرِ حاضر میں اپنے آپ کو ہائی کلاس سوسائٹی کے حلقے میں شامل کرنے کے لیے اکثر والدین اچھے اور انگریزی میڈیم اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔اپر کلاس کے ممتاز لوگ انگریزی کو اپنے روزمرہ کی بول چا ل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی اس بات کی ترغیب دیتے ہیں۔ کیونکہ اچھی انگریزی بولنا اس ہائی کلاس سوسائٹی کے رتبے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔اس لیے مڈل کلاس اور لوئر کلاس طبقہ بھی اسی خواہش کے ساتھ زندگی کی جد و جہد میں لگارہتا ہے کہ انگریزی سیکھنا اور بولنا آج کے ہائی کلاس سماج میں ناگزیر ہے۔کسی بھی صورت میں پیسے کماکر انگریزی تعلیم و تربیت سے اپنے بچوں کو ہائی کلاس کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
اڑیسہ میں اکثر اعلیٰ تعلیم کے میدان میں اس بات کو اشد ضروری قرار دیا گیا ہے کہ سکنڈری امتحان میں 50 یا 100 نمبر کا ایک اڑیاپیپر ایم آئی ایل یا کلاسیکل پیپر کی حیثیت سے دیا جانا لازمی ہے۔مثال کے طور پر اگر آپ اڑیسہ حکومت کے ماتحت بی ایڈ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ سکنڈری سطح میں ایک اُڑیا پیپر 50 یا 100 نمبر کا رکھنا ہوگا۔ جن طلبا نے اردو یا فارسی لے کر اپنے سکنڈری امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے ان کو پھر سے 100 نمبر کے ایک اڑیا پیپر کا امتحان دینا پڑتا ہے۔اس لیے طلبا کا رجحان اردو کی طرف سے ہٹتا جا رہا ہے۔بی۔ ایڈ یٹریننگ کے لیے سرکاری سطح پر ایک اور قانون رائج ہے کہ سکنڈری سطح کے کوئی دو سبجکٹ بی۔اے تک پڑھے گئے ہوں۔ جن میں انگریزی، ریاضی، سائنس، اُڑیا، تاریخ، جغرافیہ وغیرہ شامل ہیں مگر اردو کے تئیں لا پرواہی برتتے ہوئے اسے اس زمرے سے خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ طلبا میں اردو کے تئیں دلچسپی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
اردو میں درسیات کی کتابیں مہیا نہ ہونے کے سبب اردو میڈیم کے طلبا اور اساتذہ دونوں کو بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اڑیسہ میں اردو ٹیچرس ٹریننگ کورس صرف کٹک میں ہی موجود ہے۔جہاں طالب علموں کو اردو میڈیم کی درسی کتابوں کی فراہمی کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔اردو میں کتابیں موجود نہ ہونے کے سبب طالب علموں کو ناچار اُڑیہ کتابوں سے ہی استفادہ کرنا پڑتا ہے۔ اس تلخ تجربے سے راقم الحروف کو بھی گزرنا پڑا ہے۔ اس پر مزید پریشانی یہ کہ پڑھانے والے اساتذہ میں بھی چند غیر اردو داں طبقے سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔پرائمری، سکنڈری اورٹیچرس ٹریننگ اسکول کے طلبا کے لیے درسیات کی کتابیں اردو میں چھاپنے کے لیے ٹیکسٹ بک بیورو اور بورڈ آف سیکنڈری ایجو کیشن کو سرکار نے آل اڑیسہ اردو ٹیچرس اسو سی ایشن کے مطالبے پر ہدایت دی ہے کہ اڑیسہ اردو اکاڈمی کے زیرِ نگرانی تمام درسیات کی کتابیں پرائمری سے لے کر سکنڈری سطح تک تدو ین کر کے شائع کرے، صرف پرائمری سطح پر یہ کام کچھ حد تک عمل میں لایاگیا ہے ورنہ کوئی خاطر خواہ کام انجام نہیں دیا گیاہے۔
اسٹیٹ بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن، اڑیسہ نے مولوی کے نصاب میں ہائی اسکول سرٹیفکٹ امتحان کے مساوی درسیات میں اردو عربی، فارسی، قرآن و حدیث کے علاوہ ریاضی، انگریزی، ہسٹری، جغرافیہ وغیرہ کو شامل کیا ہے۔لیکن ان سبجکٹ کے پڑھانے کے لیے اساتذہ کا تقرر مکمل طور پر عمل میں نہیں آیا ہے۔اور نہ ہی کسی مدرسہ میں سائنس Laboratory موجود ہے۔
اردو کی ترویج کے میدان میں اردو میڈیم اسکول کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔جہاں کہیں بھی اردو میڈیم اسکول موجود ہیں یا دینی مدارس میں لائق اور معقول اسا تذہ موجود نہیں ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں بھی اردو پڑھانے کے لیے ایسے اساتذہ کی تقرری عمل میں آرہی ہے، جن میں اکثر و بیشتر اردو زبان سے نابلد ہیں، اور ایسے اساتذہ کی بھی کمی نہیں ہے جو پرائمری سے لے کر کالج کی سطح تک اردو تعلیم میں بے حد لا پرواہی برتتے ہیں جس کی وجہ سے اردو زبان سے عام طلبا کی بے توجہی بڑھتی جارہی ہے۔
گذشتہ دنوں انٹر میڈیٹس کی سطح پر لیکچرر کی ایک پوسٹ نکالی گئی‘جبکہ پورے اڑیسہ میں بے شمار سرکاری اور ایڈیڈ کالج ایسے موجود ہیں کہ جہاں اردو پڑھانے کے لیے لیکچرر موجود نہیں ہیں۔
پرائمری، اپر پرائمری اور ہائی اسکول کی سطح تک کی اردو کے لیے ایک استادکا تقرر کیاجاتا ہے،جس کی وجہ سے ایک دن میں استاد کو پانچ پانچ سات سات کلاسس لینی پڑتی ہیں اور اس پرپڑھانے کے لیے مختلف طریقوں کا استعمال بھی کرناپڑتا ہے اور اسکول کے دیگر سرکاری کاموں کو بھی انجام دینا پڑتا ہے، جس کے سبب اساتذہ میں پڑھانے کی دلچسپی روز بروز گھٹتی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اساتذہ کی کمی کے سبب دو دو تین تین مختلف جماعتوں کے طلبا کو بیک وقت ایک ہی کمرے میں بٹھا کر ایک ہی استاد پڑھاتے ہیں‘یعنی پڑھاتے نہیں ہیں بچوں کو سنبھالتے ہیں۔
اس کے با وجود ثانوی اسکول سے اردو داں طلبا کی ایک کثیر تعداد ہر سال فراغت حاصل کرتی ہے مگر کالج کی سطح پر بہت کم ہی طلبا کا میلان اردو کی طرف رہتا ہے۔کیوں کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد اکثر طلبا تلاشِ معاش کا رُخ کر لیتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر اردو داں طبقہ معاشی بحران میں مبتلا رہتا ہے۔جو تھوڑے بہت معاشی اعتبار سے مضبوط ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کو کوئی ایسا کورس پڑھانا چاہتے ہیں جس میں مستقبل میں نوکری حاصل کرنے کے امکانات زیادہ ہوں، کہ بچے کو روزی کی تلاش میں در در کی خاک نہ چھاننی پڑے۔
شعرا، ادبا، اردو کے اساتذہ اور اہلِ اردو داں جو خود اردو میں شعر و شاعری کرتے ہیں اور اردو کی روزی کھاتے ہیں، اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم دینے والے اسکول اور کالجوں میں بھیجنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اردو کی تعلیم دلانا شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے سماج میں بھی ایک ایسی روایت قائم ہے کہ کسی کو اردو پڑھتے سن کر کمتر نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ طلبا کا رجحان اردو کی طرف سے ہٹتا جا رہا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں درپیش ان مسائل یا چیلنز کا کوئی حل موجودنہیں۔حل تو موجودہے مگراس کو عمل میں لانا اور اس پر مستحکم رہنا ضروری ہے۔ اڑیسہ جو اردوکی جائے پیدائش سے کوسوں دور آباد ہے جہاں معیاری زبان اپنی بگڑی ہوئی شکل میں موجود ہے، اس علاقے میں معیاری اردو زبان کی بحالی دشوارکن عمل ضرور ہے مگر کوئی کام انسان کے لیے نا ممکن نہیں۔ اردو کے پودے کو بھی صحیح طرح سے کھاد پانی ڈال کر اڑیسہ جیسےNon Urdu beltوالے علاقے میں تناور درخت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بس ایک مضبوط ارادے کی ضرورت ہے۔ذیل میں ان مسائل کو حل کرنے کے کچھ امکانات پیش کیے جا رہے ہیں:
ہندوستان کے تعلیمی نظام میں سہ لسانی فارمولہ رائج ہے۔جس کے تحت پرائمری سطح پر ہر طالب علم کے لیے تین زبانیں سیکھنا لازمی کردیا گیا ہے۔اول زبان کی حیثیت سے مادری یا علاقائی زبان،دوم زبان کی حیثیت سے کوئی ایک علاقائی زبان اور تیسری زبان کی حیثیت سے انگریزی زبان۔کسی بھی زبان کی تعلیم میں عام طور پر چار مہارتوں کا سیکھنا مراد لیا جا سکتا ہے۔ اسے LSRW کہتے ہیں۔یعنی Listening (سننا)، Speaking (بولنا)، Reading (پڑھنا)، Writing (لکھنا)۔ ایک بچے کی درس و تدریس کی ابتدا ماں کی گود سے ہی ہوجاتی ہے۔وہاں سے اس کے سننے پھر سمجھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔اگر والدین تعلیم یافتہ ہیں گھر کا ماحول بھی اردو والا ہے توبچہ خود بخود اردو والے ایک سازگار ماحول سے ہمکنار ہوتاہے۔تاریخ شاہد ہے کہ زبان کی ابتدا اور ارتقا میں عورت ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔ اس لیے اڑیسہ میں تعلیم نسواں پر زیادہ سے زیادہ زور دیا جانا چاہیے۔ پوری ریاست میں اردو کے لیے سازگار ماحول کی تعمیرکی شروعات ہمیں اپنے گھر کے آنگن سے کرنی ہوگی۔پروفیسر مسعود حسن یوں رقم طراز ہیں

©:

اردو کی لڑائی ہمیں دو محاذوں پر لڑنی ہوگی۔ سیاست کے میدان اور اپنے گھر کے آنگن میں۔ میں گھر کے آنگن کی لڑائی کو بنیادی سمجھتا ہوں“۔                
(اردوزبان:تاریخ،تشکیل،تقدیر‘ص32)
ایسے تعلیمی نظام کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے جس میں اردو ذریعۂ تعلیم رہے۔بہار، مہا راشٹر اور آندھرا پردیش وغیرہ ریاستوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایسے سرکاری اسکول موجود ہیں جہاں کا ذریعۂ تعلیم اردو ہے۔ اسی طرح اڑیسہ میں بھی اگر سرکار کی طرف سے ایسے اسکول قائم کیے جائیں تو متوسط طبقے کے بچے انگریزی میڈیم اسکول کا رخ نہ کریں، یا وہ والدین جو اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکول میں بھیجنے سے قاصر ہیں ان کے بچے مجبوراًاُڑیا میڈیم اسکول میں داخلہ نہ لیں۔پرائمری سطح پر مکتبوں اور مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپر پرائمری درجوں میں آکر ذریعۂ تعلیم اردو سے اڑیایاانگریزی ہو جاتاہے تو نئی زبان میں تعلیم حاصل کرنا اُن طلبا کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔اور آگے کی راہ دشوار گزار ہو جاتی ہے۔اور وہ وہیں تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔یہ بھی ایک وجہ ہے کہ Drop-Out طالب علموں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
جس طرح اردو زبان کو اپنے گھر آنگن کی لونڈی سمجھ کر کمتر نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ تو ہماری مادری زبان ہے اس میں تعلیم حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں، اور اس کو دیگر subjectsکے مقابلے ہیچ سمجھا جاتا ہے، اور اگر کوئی اردو میں B.AیاM.Aکر رہاہے تووہ خود بھی اردو کے طالب علم کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کرنے میںشرمندگی محسوس کرتا ہے، اردو زبان کے تئیں سماج میں پھیلے ہوئے اس ناسور کے فوری علاج کی ضرورت ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ کسی کو خالص اردو میں بات کرتے ہوئے دیکھ کریا سن کر بڑی حیرت سے تکنے لگتے ہیںاور تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ کہیں باہر سے آئی ہیں، اتنی اچھی اور میٹھی زبان بول رہی ہیں کاش ہم ایسا بول پاتے،مگر اسی میٹھی زبان کے ساتھ خود اتنا بے دردانہ سلوک روا رکھتے ہیں۔اگر اڑیسہ والے اڑیسہ میں اردو زبان کی خیر و بقا چاہتے ہیں تو اردو کے تئیں اپنے اس رویے کو بدلناہوگا۔
پہلے ہماری تدریس ’مضمون مرکز‘ (Subject Centered) ہوا کرتی تھی مگر اب پورے ہندوستان میں ’طفل مرکز‘ (Child Centered) ہے۔ زبان کی تعلیم میں ایک بچے کی نفسیات کو صحیح طرح سے سمجھ کر درس و تدریس کا کام انجام دینے کے لیے اساتذہ کو Child psychologyکا ماہر ہونا چا ہیے۔ اس لیے اساتذہ کے اکتسابی پروگراموں کو بڑے بڑے علم نفسیات کے ماہر اساتذہ کے ذریعہ ہی Conductکروایا جانا چاہیے کہ اساتذہ کی صحیح رہنمائی ہو پائے اور وہ طلبا کے لیے ایک بہتررہبر ثابت ہو پائیں۔اس کے علاوہ سرکاری سطح پر اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے کہ استاد کا کام تعلیم دینا ہے‘ اگر استاد کے ذریعے دیگر سرکاری کام یعنی مردم شماری کا Data اکٹھا کرنا،ووٹنگ(رائے دہی) کے وقت مختلف علاقوں میں ڈیوٹی بجا لانا وغیرہ جیسے کام کروائے گئے تو پھر تعلیمی نظام درہم برہم ہونا یقینی ہے۔
جس طرح ملک کی دیگر ریاستوں میں ہر سال چار ماہ کا اردو سرٹیفکیٹ کورس کا اہتمام ان افسران اور عملوں کو اردو زبان سکھانے کے لیے کیا جاتا ہے جو سرکاری محکموں، دفاتر اور زیر انتظام شعبوں میں کا م کرتے ہیں اور اردو زبان میں دلچسپی رکھتے ہیں، اسی طرح اڑیسہ میں بھی اگر خصوصا ًاردو بولنے والے طلبا کے والدین اور اردو سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایسے کورس کا اہتمام کیا جائے اور اردو زبان کے Expert کو تعلیم دینے کے لیے بلایا جائے تو شاید اردو کے لیے یہ ایک نیک فال ثابت ہوگا۔
اڑیسہ کے سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کو چاہیے کہ ایسا اردو داں طبقہ جس کی مادری زبان تو اردو ہے مگر اردو بولنے، لکھنے اور پڑھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں اردو زبان کی مطلوبہ مہارت اور لیاقت پیدا کرنے کے لیے ہر سال علاقائی سطح پر ایک اردو ریفریشر کورس یا ورک شاپ کا انعقاد کیا جائے۔
اڑیسہ میں کچھ ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو ہر سال مشاعرہ، مذاکرے اور سیمنار وغیرہ منعقد کرتی ہیں مگر اتنے پر ہی اردو تنظیموں کی فرض کی ادائیگی نہیں ہو جاتی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ طلبا میں تخلیقی قوت پیدا کرنے یا پوشیدہ قوت کے اظہار اور بیداری کے لیے مضمون نویسی، افسانہ نویسی، خوشنویسی کا مقابلہ وغیرہ کروایا جائے۔اردو کے صحیح تلفظ کی ادائیگی کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے، افسانہ خوانی، بیت بازی وغیرہ جیسے مقابلے کروائے جائیں۔ طلبا کی تنقیدی شعور کی بیداری کے لیے چھوٹی چھوٹی نظموں، غزلوں اور مختصر افسانوںپر تبصرہ، تجزیے وغیرہ پر مبنی مقابلے بھی کروائے جائیں کہ طالب علموں کے اندر متن فہمی کا شعور پیدا ہو۔
ہندوستان کی دیگر ریا ستوں میںاردو زبان کے فروغ و ارتقا کے میدان میں جتنے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، اس کے مقابلے اڑیسہ ایک پچھڑا ہوا علاقہ ہے۔چند علاقوں کے علاوہ دیگر علاقوںمیںاردو کی حالت بڑی خستہ ہے۔M.AاورB.A کی سطح کے امتحانات کے پرچوں میں’نذیراحمد ‘ کے بجائے’نظیر احمد‘،’کوشش‘ کے بجائے ’کوسس‘، ’صغریٰ‘ کے بجائے ’سگرا‘ جیسے بے شمار املے کی غلطیاں کرنے والے طالب علم کثیر تعداد میں موجودہیں۔ایسے طالب علم بھی موجود ہیں جنھیں لفظ کی تشکیل میں حروف کے استعمال کا صحیح طریقہ بھی معلوم نہیں ہے۔تحریر پر تقریر کا ہی اثر نمایاں نظر آتا ہے۔بچہ ایک لفظ کو جس تلفظ کے ساتھ بولتاہے تو لکھتے وقت اسی تلفظ کے سا تھ لکھتا بھی ہے۔وہ اگر ’باغیچہ‘ کو ’باگیچہ‘ بولتا ہے تواسے ’ باگیچہ‘ ہی لکھے گا۔
جہا ں مسائل پیدا ہو تے ہیں وہاں انھیں مسائل کے بین السطور میں اس کے حل کے اشارے بھی مل جاتے ہیں۔اڑیسہ میں اردو زبان کے فروغ وارتقا کے لیے مختلف وسائل اور امکانات موجود ہیں۔بس انھیں عمل میں لانے کی دیر ہے۔یہاں کے اردو داں طبقے کو فعال اور متحرک رہ کراردو زبان جو اپنا تہذیبی ورثہ ہے اس کی نگہبانی کرنی چاہیے۔اس زبان کی تر ویج و اشاعت اور اس کی بقا کے لیے ہمیشہ کوشاں رہنا چاہیے۔

Shazia Tamkeen C/o Dr. Shahnawaz Alam
156 Wasi Abad, Noorullah Road
Allahabad (Priyagraj) - 211003
Mob.: 8320380244, 7416761831



ماہنامہ اردو دنیا،جولائی 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

2 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت عمدہ ۔۔۔شاذیہ تمکین صاحبہ۔۔
    بڑی خوش آئند بات ہے کہ موجودہ اسکالر عمدہ موضوعات پر بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔اوراپنے آںے والے اسکالر احباب کو اس بات کی طرف راغب کررہے ہیں کہ اردو زبان میں نئے نئے عنوانات پر عمدہ مضامین لکھ کر اس زبان کو ثروت مند بنائیں۔۔۔۔
    بہت بہت مبارک۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں