30/7/19

’جنگ نامۂ کابل‘ (قلمی) ’تاریخ افغانستان‘ (مطبوعہ) مضمون نگار: علی عباس



’جنگ نامۂ  کابل‘ (قلمی)
’تاریخ افغانستان‘ (مطبوعہ)


علی عباس



اردو ادب میں سفرنامے کی روایت اور اس کے آغاز سے متعلق زیادہ تر محققوں نے اردو کا پہلا (نثری) سفرنامہ تاریخ یوسفی/ عجائبات فرنگ (مطبوعہ 1847 عیسوی)، مصنف یوسف کمبل پوش کو قرار دیا ہے جبکہ ’عجائبات فرنگ‘ سے قبل اب تک جس (نثری) سفرنامے کا ذکر کیا گیا ہے وہ ’تاریخ افغانستان‘ از سید فدا حسین بخاری الحیدری ہے۔ اس سفرنامے پر اب تک کسی نے تفصیلی بحث نہیں کی ہے، البتہ اس کے ایک دو اقتباسات کو بنیاد بنا کر ہمارے محققوں نے اسے اردو کا پہلا سفرنامہ قرار دینے کی کوشش ضرور کی ہے۔ مرزا حامد بیگ نے اپنی کتاب ’اردو سفرنامے کی مختصر تاریخ‘ میں ’اردو کا پہلا سفرنامہ نگار کون؟‘ کے ذیل میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا:
تاریخ افغانستان، از سید فدا حسین کا زمانۂ تصنیف و طباعت 1839 عیسوی ہے اور ’تاریخ یوسفی‘ از یوسف کمبل پوش کا زمانۂ تصنیف لگ بھگ 1846 عیسوی اور سنہ طباعت 1847 عیسوی۔ یوں زمانۂ تصنیف اور سنہ طباعت کے اعتبار سے ’تاریخ افغانستان‘ کو ’تاریخ یوسفی‘ پر پانچ تا چھ برس کا زمانی تفوق اصل ہے یعنی سنین کے مطابق اردو کا پہلا سفرنامہ نگار سید فدا حسین عرف نبی بخش ہی قرار پاتا ہے اور اردو کا پہلا سفرنامہ ’تاریخ افغانستان‘ ہے نہ کہ ’تاریخ یوسفی‘ المعروف ’عجائبات فرنگ‘ 1
پروفیسر خالد محمود کے بقول:
اندرونِ ملک ’تاریخ افغانستان‘ ہی پہلا باقاعدہ سفرنامہ کہے جانے کا مستحق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ’تاریخ یوسفی‘ کے سامنے ’تاریخ افغانستان‘ کا چراغ نہیں جلا اور وہ ایک جنگی وقائع نگار کی خام و ثقیل نثر کا نمونہ بن کر رہ گیا۔ یہ سفرنامہ ’تاریخ افغانستان‘ کے نام سے 1852 میں تحریر ہوا۔“2
مرزا حامد بیگ نے تاریخ افغانستان کی تصنیف و طباعت کا زمانہ 1839 عیسوی3 تحریر کیا ہے۔ جب کہ پروفیسر خالد محمود نے اس کی تحریر کا زمانہ 1852 عیسوی 4 لکھا ہے۔ راقم نے اس سلسلے میں ان دو بڑے محققوں یعنی پروفیسر خالد محمود اور مرزا حامد بیگ سے براہِ راست رابطہ کیا، انھوں نے اس سفرنامے سے متعلق اپنی معلومات سے آگاہ کیا اور ذکر کےے گئے سفرنامے کی عدم دستیابی پر اظہار افسوس بھی کیا۔ خیر! سعی بسیار کے بعد پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ کی اے۔ سی (امرچند) جوشی لائبریری کے شعبۂ مخطوطات میں ایک قلمی نسخہ راقم الحروف کو دستیاب ہوا، جس کے سرور ق پر ’جنگ نامۂ کابل‘ 3 نومبر 1838 عیسوی مطابق 15 شعبان 1255 ہجری، از سید فدا حسین تحریر تھا۔ ذہن میں اب بھی ایک سوال تھا کہ کیا یہ وہی سفرنامہ ہے جس کی مجھے تلاش تھی یا کوئی اور ، کیونکہ سید فدا حسین عرف نبی بخش تو وہی ہے مگر سفرنامے کا نام وہ نہیں ہے جس کا ذکر ہمارے محققوں نے کیا ہے یعنی ’تاریخ افغانستان‘۔ مگر جب مرزا حامد بیگ کی کتاب میں درج ’تاریخ افغانستان‘ کے اقتباسات سے دستیاب شدہ نسخے کی عبارتوں کا تقابل کیا تو کافی حد تک عبارتیں ایک جیسی ملیں، جس سے اس بات کے پختہ ثبوت فراہم ہونے لگے کہ دونو ں کتابیں ایک ہی ہیں، البتہ عبارتوں میں پائے جانے والے کچھ اختلافات نے راقم الحروف کے ذہن میں یہ سوال پیدا کردیا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی نسخے سے نقل کی گئی عبارتوں میں اس قدر اختلافات پائے جائیں، ممکن ہے اس کا کوئی اور بھی قلمی یا مطبوعہ نسخہ موجود ہو، جس کا نام اور عبارتیں وہی ہوں جس کا ذکر مرزا حامد بیگ نے کیا ہے اور پھر ’تاریخ افغانستان‘ نامی سفرنامے کی تلاش شروع کی۔ ایک عرصے کی مشقت کے بعد ذکر کےے گئے کتب خانے کے ریئربک سیکشن میں اورینٹل کالج میگزین، لاہو رکی فائلوں میں دبی ایک سیاہ جلد میں لپٹی ہوئی مختصر سی کتاب نظر آئی جس کی اوپری سطح پر ایک پرچی چسپاں تھی جس پر تحریر تھا: ”تاریخ افغانستان‘ از سید فدا حسین عرف نبی بخش حیدری البخاری‘ اس کے صفحہ اول پر ذیل کی عبارت درج تھی جس سے اس کے مطابع اور سنہ طباعت کاعلم ہوتا ہے، ملاحظہ کریں:
تاریخ افغانستان، سید محمد خان بہادر کے چھاپہ خانہ کے لیتھو گرافک پریس میں شہر محرم الحرام 1259 ہجری مطابق ماہ فروری 1843 عیسوی کو سید عبدالغفو رکے اہتمام سے دلی میں چھپی، کاتب الحروف سید بو علی رضوی عفی عنہ۔“ (تاریخ افغانستان، سرورق)
اس کے بعد کے صفحوں پر وہی عبارتیں نظر آئیں جن کے اقتباسات کو مرزا حامد بیگ نے اپنی کتاب ’اردو سفرناموں کی مختصر تاریخ‘ میں نقل کیا ہے۔ ممکن ہے یہی نسخہ ان کے سامنے رہا ہو۔ مگر انھوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس سفرنامے کو کس مطبع نے زیور طباعت سے آراستہ کیا۔ بہرحال! یہ ثابت ہوگیا کہ سفرنامہ ’تاریخ افغانستان‘ 1843 عیسوی میں شائع ہوا، نہ کہ 1839 یا 1852 عیسوی میں۔
جنگ نامہ کابل ‘ کا قلمی نسخہ چوراسی صفحات کو محیط، ہر صفحہ پندرہ سطروں اور ہر سطر تقریباً چودہ تا پندرہ الفاظ پر مشتمل ہے۔ اسی طرح اس کے مطبوعہ نسخے ’تاریخ افغانستان‘ میں کل 97 صفحات ہیں اور ہر صفحے پر پندرہ سطریں اور ہر سطر میں بارہ تا پندرہ الفاظ موجود ہیں۔
اب آتے ہیں ’جنگ نامہ کابل معروف بہ تاریخ افغانستان‘ کی جانب اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کا مصنف کون ہے اور اس کے سفر کا مقصد کیا تھا، تاکہ سفرنامے میں بیان کیے گئے واقعات و کوائف کو بخوبی سمجھا جاسکے اور یہ بھی معلوم کیا جاسکے کہ اس سفرنامے کے وجود میں آنے کا بنیادی سبب کیا تھا۔ ذکر کے گئے سفرنامہ سے چند باتیں سامنے آتی ہیں:
1۔        نام: سید فدا حسین، عرف نبی بخش بخاری الحیدری
2۔        وطن: شاہجہاں آباد (دہلی)، گویا یہی اس کا مولد و منشا بھی ہوگا۔
3۔        اس نے روزگار کے سبب انگریزی فوج ترک سواروں میں جمعداری کے عہدے پر ملازمت اختیار کی۔
4۔        انگریزی حکومت نے شاہ شجاع الملک کو کابل کے تخت حکومت پر بٹھانے کے لیے ایک جنگی مہم کا آغاز کیا تھا۔
5۔        سید فدا حسین کا فوجی رسالہ بھی اس مہم کے لیے میرٹھ چھانی سے کابل کے لیے روانہ ہوا۔
6۔        سفر کا آغاز: نومبرکی تیسری تاریخ 1838 عیسوی، مطابق 15 شعبان، 1255 ہجری، قلمی نسخے کے مطابق اور 3 ماہ نومبر 1839 عیسوی، مطابق 25 شعبان 1255 ہجری، مطبوعہ نسخے کے مطابق۔ آخرالذکر تاریخ ہجری اور عیسوی کلینڈر کے مطابق صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ مطبوعہ نسخے کی تاریخوں کو ایک دوسرے سے بدل کر دیکھا گیا تو دونوں مہینے کی وہی تاریخیں سامنے آتی ہیں جن کا ذکر مطبوعہ نسخے میں کیا گیا ہے۔
7۔        لارڈ آک لنڈ (گورنر جنرل، ہند) کی معیت میں رجمنٹ سولہ (16)، سات (7) لعل کرتی، تین رسالہ، بائیس پلٹن اور چھ توپخانہ اور چار رسالہ میجر سکندر برنس کی معیت میں کابل بھیجے گئے۔
8۔        فیروز پور پہنچنے پر مہاراجہ رنجیت سنگھ (والی لاہور) موت: 27 جون 1839) اور ان کے فرزند کھڑک سنگھ نے بیس ہزار فوج کے ساتھ انگریزی لشکر کا استقبال کیا اور فوج کے ہر سپاہی کو ایک ایک روپیہ بطور انعام کے دیا۔ (ص 3)
9۔        اور مہاراجہ رنجیت سنگھ راس گھوڑے مع ساز طلا اور ایک زنجیر فیل مع عماری مغرق طلائی لارڈ صاحب بہادر کو دیے(ص 3)
10۔     12 نومبر 1840 عیسوی کو کابل سے انگریزی فوجوں کی واپسی ہوئی۔
11۔     سفرنامہ لکھنے کا مقصد فدا حسین کی زبانی ملاحظہ کیجیے: ”وقتِ رخصت بڑے بھائی صاحب نے اس خاکسار کو خدائے کریم کے سپرد کرکے فرمایا کہ اگر خدا حافظ حقیقی تم کو اپنے فضل میں محفوظ رکھے اور زندگی وفا کرے، لازم ہے کہ احوال اس ملک کا جو کہ بچشم خود دیکھو اس کو لکھ کر واسطے دیکھنے میرے کے لانا۔ چنانچہ اس عاجز نے بموجب ارشاد حاجی حسین علی خان صاحب برادر ممدوح کے کچھ تھوڑا سا حال اس سفر کا لکھا ہے۔“ 5
قدیم سفرناموں کی طرز پر لکھے گئے اس سفرنامے میں بھی مختلف شہروں کے حالات و کوائف اور وہاں کے باشندوں کی بود و باش کو بیان کرنے کے علاوہ جنگی مہم جوئی سے بھی پوری طرح واقف کرایا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ جنگ اس دور کی مشہور جنگ تھی، جس کا ذکر ہندوستان اور افغانستان کی تاریخوں میں خصوصیت سے کیا گیا ہے لیکن جن تفصیلات کا بیان زیربحث سفرنامے میں کیا گیا ہے، ان کا عشر عشیر بھی تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتا۔ ایسا اس لیے کہا جارہا ہے کہ اسی دور کی تاریخ ’حیات افغانی‘ مطبوعہ 1867 عیسوی میں محمد حیات خان نے اس جنگی مہم کو فقط تاریخی واقعے کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ جبکہ ’جنگ نامہ کابل‘ کے مصنف نے اپنے اس سفرنامے میں نہ صرف تاریخ و جغرافیہ اور انگریزوں اور افغانوں کے درمیان معرکہ آرائیوں کا بیان کیا ہے بلکہ ان مقامات اور ان صورت حال کی منظرکشی بھی کی ہے جن مقامات سے وہ گزرا ہے یا جو حالات اس پر گزرے ہیں۔ یہاں پر ’حیاتِ افغانی اور سفرنامہ ’جنگ نامۂ کابل‘ سے ایک ہی واقعے کے اقتباس کو پیش کیا جاسکتا ہے اور سمجھا جاسکتا ہے کہ تاریخ اور سفرنامے میں کسی بھی واقعے کے بیان کی تفصیلات کس طور پر بیان کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیں ایک منظر تاریخ کے آئینے میں:
”22 فروری 1839 عیسوی کو انیس ہزار تین سو پچاس سپاہی نے اور چھ ہزار فوج شاہ شجاع نے مقام سیوان سے براستہ درّہ بولاں قندھار کی طرف کوچ کیا اور بسبب کمی پانی بہت سی تکلیف اٹھا کر چہارم ماہ مئی 1839 عیسوی کو قندھار میں پہنچے۔“ 6
اب اسی واقعے کو ’جنگ نامہ کابل‘ کے منظرنامے پر دیکھیے:
پانی نہر کا جو مردمانِ نواب (بہاول خان) نے بند کردیا تھا اس واسطے لشکر پر بہت تکلیف شدید گزری بلکہ پانی کیچڑ کا ملا ہوا بدبو پیا اور اس میں مزبلہ جانوروں کا بھی تھا۔ دردِ شکم اٹھا دست جاری ہوئے اور دو دن ایک رات وہ بھی میسر نہ آیا تو آدمی اور جانور لشکر کے قریب ہلاکت کے پہنچے اور ماہی بے آب کی مانند تڑپنے لگے۔ اس وقت ایک بھیدی کو بہت سا انعام دے کر شام کو ایک جمعدار، دو حوالہ دار، دو نایک اور بیس سپاہی اور تیس تائیس رسالہ کے، واسطے کاٹنے بندِ آب کے بھیجے۔ قدرت خدا کی سے وہ وہاں پہنچے اور پانی کاٹ دیا۔ آدھی رات کے وقت لشکر کے پاس پانی زندگانی پہنچا، تن بے آب میں جان آگئی۔“ 7
اس سفرنامے کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ جنگی مہموں کے باوجود اس میں سید فداحسین نے جن حالات و واقعات سے قارئین کو روشناس کرانا چاہا ہے اس میں کسی قسم کا سقم نہیں آنے دیا بلکہ اس سفرنامے میں انیسویں صدی کے چوتھے دہے کے ہندوستان و افغانستان کے مختلف شہروں، قصبوں اور گاؤں کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے جس میں قدیم عمارتوں کے آثار و احوال، مساجد، خانقاہیں، زیارت گاہیں، مقابر، محلات، قلعوں کی تفصیلات، بازاروں اور دوکانوں کے نقشے، عجائباتِ کائنات، معجزات، وبائی امراض، باغات، نہریں، چشمے، قوموں کے خصائص اور خصائل، قوموں کے رسم و رواج، ملبوسات، دولت مندی اور افلاس، صفائی اور گندگی کی تصویریں، مختلف جگہوں کے باشندوں کے عقائد، زبان اور ان کے معاشرتی نظام وغیرہ کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ اس سفرنامے کا مصنف سید فدا حسین انگریزی فوج کا ایک سپاہی تھا لیکن باوجو داس کے اس نے اپنے سفرنامہ میں انگریز حکمرانوں کی چالاکیاں اور عیاریاں بھی دبے لفظوں میں بیان کی ہیں، ساتھ ہی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے نوابوں اور راجاؤں کی انگریز نوازیاں بھی دکھائی ہیں۔ کابل و قندھار کی طرف بڑھتی ہوئی انگریزی فوجوں کا گزر جن ریاستوں سے ہوتا، وہاں کے امرا و رؤسا جس طرح پلکیں بچھا کر ان کا استقبال کرتے وہ بھی دید کے قابل ہے۔
بہرحال آئیے دیکھتے ہیں کہ ’جنگ نامہ کابل‘ سفرنامے کے اسلوب، فن اور تکنیک کے لحاظ سے سفرنامے کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ یوسف کمبل پوش کے سفرنامے ’عجائبات فرنگ‘ کی طرز پر ’جنگ نامہ کابل‘ کا آغاز بھی حمدِ باری تعالی سے ہوتا ہے۔ اس کے اسلوب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فدا حسین کو زبان پر کس قدر قدرت حاصل تھی یا ”تعلیمی استعداد کم ہونے کے باعث زبان و بیان پر اسے بہت زیادہ قابو نہیں رہتا۔“ ملاحظہ کیجیے ”جنگ نامہ کابل“ کے ابتدائیے کا یہ اقتباس:
حمدِ بے حد جناب پروردگار عالم میں واجب ہے کہ اس نے ہژدہ ہزار عالم کو اپنی قدرت کاملہ ایک حرف کن کے ساتھ پیدا کیا اور انسان کو خطاب اشرف المخلوقات عطا کیا اوراس میں سے انبیا اوراولیا کو برگزیدہ کرکے حالات آسمانی اور راز دوجہانی پر آگاہ کیا اور ہزاروں نعمت اور راحت سے بہراندوز کرایا اورانواع طرح کی مصیبت اور بلا میں بعضوں کو مبتلا کیا اور بعضوں کو عوض اس مصیبت کے توفیق صبر و شکر رفیق اس کے کی کہ درجاتِ عالیات ان کے فردوس اعلیٰ میں پہنچائے۔“ 8
مطبوعہ نسخے (مسمیٰ بہ ’تاریخ افغانستان‘) میں، ذیل کی عبارت کا اضافہ ہے:
اور ہزاروں درودِ نامحدود اوپر رسولِ مقبول علیہ الصلوٰہ والسلام اور اصحاب کرام اور ائمہ معصومین اور تابعین علیہم الرحمت والرضوان پر 
ہوا نازل جو اس کے حق میں لولاک
گیا معراج کو وہ صاحب ادراک
کہ اس نے چراغ ہدایت کو روشن کرکے گمراہانِ بادیہ ضلالت کو راہِ ایمان دکھلائی اور شفاعت ہم گنہگاروں کی اپنی شفاعت پر موقوف فرمائی۔ امابعد۔ 9
فدا حسین نے اپنے سفرنامے میں جس طرح حالات و واقعات اور مختلف کیفیات کی منظرکشی اور جزئیات نگاری کی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگرچہ وہ ایک انگریزی حکومت کا سپاہی تھا، لیکن باوجود اس کے اس کی نگاہیں ایک ماہر سیاح کی طرح پیش آنے والے واقعات و حالات کو دیکھ رہی تھیں اور ایک حساس انسان کی مانند ان واقعات و حالات سے لطف اندوز یا غمگین بھی ہوئی جاتی تھیں۔ اس نے جس خوبصورتی سے مختلف ملکوں اور شہروں کے حالات و کوائف، وہاں کے باشندوں کی رسم و رواج اور ان کی بود و باش کو بیان کیا ہے وہ دیکھنے کے قابل ہیں۔ ملاحظہ کریں چند اقتباسات:
بہاول پور کو دیکھا کہ شہر خوب اور بازار مرغوب۔ جملہ اشیا پارچہ وغیرہ میوہ تر خشک ہر وقت ارزاں موجود اور باغات کی سرسبز و شادابی کی کچھ تعریف نہیں ہوسکتی لیکن لشکر کے شتربانوں نے ہزاروں درخت میوہ دارازراہِ بدذاتی کاٹ کر تباہ کردیے۔ دو مقام بہاولپور میں کرکے روانہ احمدپور کے کہ چالیس 40 کوس بہاولپور سے ہے دیکھا کہ وہ شہر نہایت حوش اسلوب کہ تعریف اس کی درمیان احاطہ قلم نہیں سماتی اور اندر شہر کے ایک مسجد اور ایک کنواں پختہ بہت صاف اور اچھا کہ بیچ ہندوستان کے ایسی جگہ کم دیکھی۔ لائق عبادت کے جو کوئی دیکھتا ہے دل اس کا وہاں سے جدا ہونے کو نہیں چاہتا۔“ 10
شکارپور کے عوام، وہاں کے مکانات اور زبانِ ہندوستانی کا ذکر یوں کیا ہے:
وقت پہنچنے شکار پور کے دیکھا کہ شہرشکار پور نہایت خوب بااسلوب آباد، رعیت سب آسودہ اور مہاجن مال داراور قوم بہت اشراف اس میں رہتی ہیں بازار دلچسپ مکانات دل پسند اور دلکشا عوتیں حسین اور آدمی وہاں کے زبان ہندوستانی بولتے ہیں۔“ 11
شہر کابل جنت نشان کی رونقیں ملاحظہ کیجیے:
دیکھنے سے شہر کابل کے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بہشت دوسرا اوپر زمین کے بنایا ہے۔ چار بازار پختہ بہت تحفہ چھتہ پٹا ہوا اور باغات بے نہایت اندر اور باہر شہر کے بہت آبادی، سرسبزی شادابی اور پانی کی افراط بدرجہ کمال، ایک طرف شاہ باغ بہت بڑا اور ایک طرف روضہ جناب سید الشہدا شاہ مرداں۔“ 12
قندھار کا ذکر کرتے ہوئے وہاں کے باشندوں کے عقائد اور مقامات مقدسہ کے احوال پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں:
شہر نہایت اچھا اور آبادی بہت مگر مرد و زن نہایت کثیف میلے کپڑے، رنگ کے گورے، نقشہ بدزشت، خومردم آزار، ودغاباز، مگر دومولوی صاحب فاضل اور عالم ایک کا نام مولوی محمد عبداللہ، دوسرے محمد طاہر کہ ہر جمعہ کو مجلس سید الشہدا ان کے ہاں ہوتی ہے... ایک خانقاہ احمد شاہ درانی کی بہت خوب روضة بنا ہوا موافق مقبرہ کے اور ایک مسجد اسی خانقاہ میں بہت اچھی اور چار دروازہ شہر کے ہیں اور قلعہ اوپر پہاڑ کے ہے کہ قومِ عاد نے بنایا تھا اور نیچے قلعے کے تمام زیارات ہیں اولیاءاللہ کی اور قلعے میں چار سرنگ بنی ہیں“ 13
فدا حسین نے اپنے سفرنامے میں جو کچھ بیان کیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ سب کچھ اپنے بڑے بھائی کی فرمائش پر کیا ہے تاکہ جن شہروں اور علاقوں سے اس کا گزر ہوا ہے اس کاآنکھوں دیکھا حال اپنے بھائی کو بتا سکے، اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ کہا جاسکتا ہے کہ آج سے تقریباً دو سو سال پہلے کے جن شہروں کے حالات و واقعات کا نقشہ اس سفرنامے میں کھینچا گیا ہے ان سے اس زمانے کے مختلف شہروں، قصبوں اور گاؤں میں بسنے والی قوموں اور قبیلوں کے معاشرتی اور سماجی نظام کی صورت حال سامنے آجاتی ہے۔ فدا حسین نے ان قوموں سے تعلق رکھنے والی تمام تر ضروری معلومات اپنے قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے جن سے پڑھنے والوں کو کسی بھی نئے ملک، نئے شہر اور وہاں کے باشندوں کے احوال و کوائف سے پوری طرح واقفیت ہوجائے۔ مثال کے طور پر قوم قزلباش جو اس وقت کابل کے جوار میں بستی تھی جس کے چار محلے تھے، ہر محلے کا ایک سردار تھا، ان کے سماجی اور معاشرتی نظام سے واقف کراتے ہوئے سید فدا حسین لکھتے ہیں:
چاروں محلہ ایک صلاح اور ایک بات رکھتے ہیں طاقت کسی کی نہیں کہ اندرونِ محلہ بے اجازت جاوے۔ بازار اور سب لوازمہ ان کا جدا ہے، ان محلوں میں عمل شاہ یا انگریز کا نہیں بہت سا بندوبست ہے۔ پانچ تلنگی لشکر سے ہمارے روبرو محلہ چندول میں ازراہِ حرامزادہ گی دیکھنے کو گئے تھے، ان کو جان سے مار کر نہر میں ڈال دیا... کوئی آدمی محتاج اور فقیر نہیں اور ہر ایک گھر میں بہت تحفہ خانہ باغ اور نہر پانی کی جاری اور مکانات دلچسپ کہ نام گرمی کا اور دھوپ کا نہیں ہوتا۔ قوم قزلباش مغل کے غلام خانہ اور پارسیاں مشہور ہیں۔ بول چال ان کی فارسی اور اکثروں کی ترکی اور سبیل نیاز حضرت امام حسینؑ کا رسم اور ایک امام باڑہ بہت تحفہ اور علم حضرت عباس کا بیچ مراد خانی کے اور ایک امام باڑہ اور مسجد عالی چندول میں اور پنجشنبہ کو مجلس اور کتاب ہوتی ہے اور ماتم آٹھویں دن ایسا ہوتا ہے کہ بیاں سے باہر ہے اور زیارات بے شمار ہیں۔“ 14
اسی طرح بت بامیان کی وجہ تسمیہ اور وہاں کے جَو کی خصوصیات کے بارے میں رقم طراز ہیں:
بت بامیان کہ کابل سے سوکوس ہے وہ شہر بہت بڑا طرف بلخ کے کہ کھیتی جو کی وہاں ہوتی ہے اور جو وہاں کی گیہوں سے خوب ہے کہ خوشہ میں اس کے بھوسی نہیں ہوتی اور بت بامیان اس کو اس واسطے کہتے ہیں کہ بیچ شہر کے تین بت بلند کہ قد ہر ایک کا چار سو ہاتھ اونچا۔“ 15
چاری گار کی خوبصورتی اور وہاں کے پھلوں کے اوصاف کا ذکر یوں کرتے ہیں:
تیسرے دن داخل مقام چاری گار ہوئے۔ وہ مقام بسبب افراط آبشار و نہر خوشگوار اور میوہ گونا گوں ایک بہشت کا نمونہ ہے انگور مانند لیموں اور سب چکوترہ (ایک قسم کا درختی پھل جو خربوز سے بڑا ہوتا ہے، جس کا وزن تقریباً آدھا کیلو ہوتا ہے) کے برابر خربوزہ اور سردہ نارنج چار سیر کا اورارزاں۔ سرداس قدر کہ پھانک (قاش) کھانے کی طاقت نہیں ہوتی گویا دانت گرپڑیں گے اور زرد شفتالو اور ناشپاتی انار ترنج ہر ایک خوب۔“ 16
کہا جاسکتا ہے کہ اردو سفرناموں میں یوں تو مختلف ملکوں اور شہروں کے تاریخی، جغرافیائی اور تہذیبی حالات کی عکاسی کی جاتی ہے، جس کے سبب ہمارے سفرنامے معلومات کا ایک اہم سرچشمہ بھی قرار دیے جاتے ہیں لیکن ان قدیم سفرناموں سے لسانی ارتقا کا بھی علم ہوتا ہے۔ لسانی ارتقا کے اعتبار سے اگر جنگ نامہ کابل/ تاریخ افغانستان کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے ذریعے انیسویں صدی کے چوتھے دہے میں اردو زبان کی بڑھتی ہوئی ترقی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس زمانے تک عوام و خواص کی علمی زبان اگرچہ فارسی تھی، لیکن عام بول چال کی زبان میں اردو کا چلن کافی تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ سید فدا حسین نے جسے ’ہندوستانی‘ زبان کہا ہے وہ دراصل یہی اردو ہے جو اس وقت ہندوستان کے مختلف شہروں میں بولی جانے والی عام زبان تھی۔ سفرنامہ نگار نے اپنے اس سفرنامے میں جس طرز کی انشا اور املا کا استعمال کیا ہے وہ اس دور کی انشا اور املا کے عین مطابق کہے جاسکتے ہیں۔ اس دور کی نمایاں لسانی خصوصیات کے پیش نظر مذکورہ سفرنامے کی انشا اور املا پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں:
الف:      یائے معروف اور یائے مجہول میں فرق نہ ہونا جیسے: ”دو دن اور ایک رات گزری پانی نہ ملا سپاہی گھبرا گئی وقت دوپہر کی صاحب نی توپوں کو درابیوں پر رکھااور سپاہی اور سواروں سی کھچوا کی اوپر پہاڑ کی کہ راہ میں بایل (حائل) تھا جانی کا قصد کیا۔“ 17
ب:       دو یا زیادہ الفاظ کو ملا کر لکھنا جیسے: علیخان، بھائیصاحب، جسوقت، بولچال، محمد خانکی، دیکہکر (دیکھ کر)، باغمیں باغ میں) وغیرہ۔
ج:        ہائے مخلوط کی بجائے ہائے کہنی دار کا عمومی استعمال جیسے: گہوڑے، (گھوڑے)، بہر (بھر)، کہڑی (کھڑی)، تہا (تھا)، دیکہنے (دیکھنے)، رکہنا (رکھنا)، دہوپ (دھوپ) وغیرہ۔
د:         املا کی قدیم طرز جواب متروک ہوچکی ہے۔ مثلاً : باروت (بارود)، اوس (اُس)، دیرہ (ڈیرہ)، ہایل (حائل) اور ’گ‘ کو ’ک‘ کی صورت لکھنا۔ وغیرہ۔
ہ:          جملے کی نحوی ساخت میں بھی آج کی بہ نسبت اس دور کی تحریروں میں کافی فرق ملتا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیں: ”اور جوڑی قاصدوں کی آئی زبانی ان کی معلوم ہوا کہ قندھار سے ایک پلٹن بادشاہی اور پانچ سو سوار کرسٹن صاحب کی ہندوستانی اور چھ ضرب توپ قلات کی طرف کہ چالیس کوس طرف کابل کے ہے آتے تھے۔“ 18
آئیے آخر میں فدا حسین کے سفرنامے سے واپسی کے حالات کو ایک نظر دیکھ لیتے ہیں:
بعد تھوڑے دن کے کرنال میں ا ٓئے اور بخوبی تمام آرام کیا داخل چھاونی کے ہوئے اور یہ عاجز وہاں سے رخصت ہوکر انگلسی لے کر بخیریت تمام شاہجہاں آباد میں آیا اور زیارات بزرگوں کی کرکے مغفرت اپنی کی دعا مانگی۔ غرض بیچ خدمت جمیع سامعانِ کتاب کے یہ ہے کہ ساٹھ ہزار فوج تیس ہزار بنگال حاطہ کی اور تیس ہزار بنبئی حاطہ کی لڑائی پر گئی تھی، سب ماری گئی۔ سات ہزار آدمی وہاں سے بچ کر زندہ آئے اور باقی وہیں مدفون ہوئے۔“ 19
واضح ہو کہ اس سفرنامے میں تقریباً ایک سو پچاس اشخاص، تیس سے زیادہ مقامات، تیس سے زائد جنگی اصطلاحات اور دس ندیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ دوست محمد خان، اس کے بھائیوں اور اس کے ساتھیوں کی جانبازی کے ساتھ افغانستان کی مختلف قومو ںاور قبیلوں کی بہادری اور ان کی جانبازی کو خصوصیت سے پیش کیا گیا ہے جو انگریزی فوجوں کے مقابلے میں سامنے آئے تھے، جن میں سے بہت سوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان کی بازی لگائی تو کچھ مقابلے کی تاب نہ لاکر راستے سے ہٹ گئے۔ دوست محمد خان چونکہ اس وقت شاہ شجاع الملک درّانی کو تخت حکومت سے ہٹا کرخود کابل و قندھار کا بادشاہ بن بیٹھا تھا، اسی شاہ شجاع الملک جس سے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کوہِ نورہیرا حاصل کیا تھا، کی انگریزوں نے اپنے مفاد کے لیے حمایت کرتے ہوئے اسے کابل و قندھار کا دوبارہ بادشاہ بنانے کی خاطر اس جنگی مہم کا آغاز کیا تھا، تاکہ ان کے زیرنگیں حکومت کا دائرہ کابل و قندھار تک بڑھ جائے، جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ انھیں انگریزوں سے جنگ کرتے ہوئے دوست محمد خان نے بھی آخر میں کود کر انگریزوں کے حوالے کردیا۔ اس پورے واقعے کی تفصیل بھی ذکر کیے گئے سفرنامے ’جنگ نامہ کابل‘ (قلمی) اور ’تاریخ افغانستان‘ (مطبوعہ) میں موجود ہے۔
سفرنامہ ’جنگ نامہ کابل‘ کے اسلوب اور پیش کیے گئے جنگی، سماجی، تاریخی اور تہذیبی حالات و کوائف سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگرچہ مصنف کو زبان اور طرزِ بیان پر اتنی قدرت نہیں جتنی کہ یوسف کمبل پوش کو ہے، پھر بھی زمانی تفوق اور لسانی ارتقا کے نقطۂ نظر اور سفرنامے کی تکنیک اور اس کے فنی لوازم کے پیش نظر اسے اردو کا پہلا نثری سفرنامہ قراردیا جاسکتا ہے۔
حوالے:
1۔        اردو سفرناموں کی مختصر تاریخ: مرزا حامد بیگ، ص 53، لاہور 1999
2۔        اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ: پروفیسر خالد محمود، ص 107، این سی پی یو ایل 2011
3۔        اردو سفرناموں کی مختصر تاریخ: مرزا حامد بیگ، ص 53، لاہور 1999
4۔        اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ، ص 107
5۔        جنگ نامۂ کابل (قلمی نسخہ): سید فدا حسین، عرف نبی بخش، ص 2، 1840 عیسوی
6۔        حیات افغان: محمد حیات خان، ص 79، مطبوعہ 1867 عیسوی۔
7۔        جنگ نامۂ کابل (قلمی نسخہ): سید فدا حسین، عرف نبی بخش، ص 16، 1840 عیسوی
8۔        ایضاً، ص 1
9۔        جنگ نامۂ کابل (قلمی نسخہ): سید فدا حسین، عرف نبی بخش، ص 3-4، 1840 عیسوی
10۔     ایضاً، ص 5
11۔     ایضاً، ص 9
12۔     ایضاً، ص 31
13۔     ایضاً، ص 19,20
14۔     ایضاً، ص 33
15۔     ایضاً، ص 34-35
16۔     ایضاً، ص 5 65
17۔     ایضاً، ص 52
18۔     ایضاً، ص 57
19۔     ایضاً، ص 83
نوٹ: یہ مقالہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے بین الاقوامی سمینار (12 تا 14 مارچ 2019) میں پڑھا جاچکا ہے۔
Dr. Ali Abbas
Asst. Prof. Dept of Urdu
Punjab University
Chandigarh - 160014
Mob.: 09988371214




ماہنامہ اردو دنیا،جولائی 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




1 تبصرہ:

  1. Shukriya NCPUL, juld hi ek tafseeli muqaddima aor farhang o hawaashi ke sath dono nuskhon ka taqabuli mutalye ke sath ye safarnama shaye hoga.

    جواب دیںحذف کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...