31/7/19

حالی کی تنقید کا اخلاقی پہلو مضمون نگار: آفتاب احمد آفاقی



حالی کی تنقید کا اخلاقی پہلو

آفتاب احمد آفاقی

اردو شعر و ادب کی تاریخ میں خواجہ الطاف حسین حالی اپنی مختلف الجہات شخصیت کی وجہ سے اپنے معاصرین میں ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ انھوں نے قوم کی روحانی، ادبی اور اخلاقی اصلاح میں جو نمایاں کردار ادا کیا اس کی حیثیت ایک علاحدہ باب کی ہے۔ ادبی سطح پرحالی نے پرانی شاعری کے نقائص اور جدید شاعری کے اصول، عقل، سمجھ اور قابلیت سے سمجھائے اور شاعرانہ تنقید کاایسا دستورالعمل مرتب کیا جس کا جواب اردو تو کیادوسری ہندوستانی زبانوں میں بھی مشکل سے ملے گا۔ وہ جدید اردو شاعری کے بانی اور سب سے بڑے محسن ہیں لیکن حالی کی بڑائی یہ ہے کہ اس ضمن میں ان کی تحریریں دیکھیں تو یہی خیال ہوتا ہے کہ جدید شاعری کے بانی فقط شمس العلما محمد حسین آزاد تھے۔
اردو شاعری کی کایا پلٹ کے علاوہ مولانا نے اردو نثر میں بیش بہا اضافہ کیاہے۔ اردو زبان میں اصنافی اور عملی تنقید کی بنیاد انھوں نے ڈالی۔ سیرت نگاری کانیا رنگ سب سے پہلے انھوں نے اختیار کیا۔ حیاتِ سعدی، حیاتِ جاوید اور اردو کی مقبول ترین سوانح عمری یادگارِ غالب انھی کے قلم سے نکلیں۔ ان سب باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اردو ادب کی حیاتِ تازہ میں جتنی کوششیں انھوں نے کی ہیں شاید ہی کسی نے کی ہو۔ لیکن بہ قول شیخ محمد اکرام” جب اردو ادب کے محسنوں کا ذکر آتا ہے تو حالی چپکے سے سرسید کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں کہ فادر آف لٹریچر تو وہ ہیں۔ قومی اصلاح کے معاملے میں، تو خیال ہوتا ہے کہ قوم کی اصلاح فقط سرسید نے کی اورقوم کی بیداری میں علی گڑھ کالج، تہذیب الاخلاق اور ایجوکیشنل کانفرنس کے علاوہ کسی اور چیز کو دخل نہیں۔
حالی کی تنقید نگاری پر اختلاف کی پوری گنجائش ہے لیکن ان کے پہلے باضابطہ نقاد ہونے میں کسی کو اعتراض نہیں۔ حالی نے پہلی بار شاعری کی حقیقت اور ماہیت کے ضمن میں اپنے خیالات منضبط طور پر پیش کیے اور شعروادب کے سماجی اورتہذیبی رشتوں کو واضح کیا، اس کے پہلو بہ پہلو ادبی تخلیق کے نفسی اور ذہنی عمل اور اس کی لسانی اور فنی بنیاد کی نشاندہی کی، جس کے بغیرادبی تنقید کے فن کا کوئی تصور قائم نہیں کیا جا سکتا۔ مقدمہ شعرو شاعری میں پہلی مرتبہ ادبی مطالعے کے ان پہلوں کی سا ئنٹفک انداز میں توضیح کی گئی اور شعرو ادب کی جانچ پرکھ کے با قاعدہ اصول وضع کیے گئے اور یہی وجہ ہے کہ اسے اردو میں تنقید کی اولین کوشش اور پہلی ’کتاب الاصول‘ قرار دجاتا ہے۔
مقدمہ شعرو شاعری میں حالی نے ادب کے افادی پہلو کو مقدم رکھا ہے اور ان کا اصل رجحان حقیقت نگاری کی طرف ہے اور وہ اس بنیادپرادبی تجربات میں اصلیت بہ الفاظ دیگر واقعیت کے اثر کو بنیادی اہمیت دیتے اور نیچرل شاعری کا تصور پیش کرکے اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ آلِ احمد سرور نے حالی کے مقدمے کو ان کی شاعری کے بنیادی افکار کی تشریح اور تنظیم قرار دیا ہے جو بڑی حد تک درست بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ مقدمہ شعرو شاعری اولاً دیوانِ حالی کے مقدمے کے طور پر شائع ہوا تھا اور پھر بعد میں حالی کی ایک مستقل تصنیف کی حیثیت سے منظرِ عام پر آیا۔ اس لحاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہو گا کہ حالی اپنی شاعری میں جن اصولوں پر کاربند رہے اور انھوں نے جن اصلاحی اور اخلاقی محرکات کے تحت نظمیں اور غزلیں لکھیں ان کی تنقید نگاری، اس کا پرتو کہی جائے گی۔امر واقعہ یہ ہے کہ نیچرل نظموں نے اردو شاعری میں ایک نئی روایت اور رجحان کا آغاز کیا، ان کے مقدمے نے جس میں نیچرل شاعری پر بڑی فکر انگیز بحث کی گئی ہے اس جہت سے اردو تنقید میں ایک قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔
حالی کی تنقید نگاری کا یہ امتیازی وصف ہے کہ انھوں نے اپنے نظر یۂ تنقید کی تشکیل مشرقی ادبی روایات کے ساتھ مغربی ادبی روایات سے بھی استفادہ کیا۔ ان کا مبلغِ علم خاصا وسیع تھا۔ وہ عربی، فارسی اور اردو پر دسترس رکھتے تھے ساتھ ہی انگریزی تنقید سے بھی ایک حد تک واقف تھے جس کی بنا پر وہ زیادہ صحیح ادبی نتائج تک پہنچ سکے اور اپنی کئی غلط فہمیوں کے باوجود ان کے خیالات اور آرا کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ان پر آج بھی بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ حالی کے فکر و شعور پر دو واضح اثرات کارفرما نظر آتے ہیں، ایک طرف سر سید کی شخصیت اور ان کی اصلاحی تحریک سے متاثر ہوئے دوسری طرف گورنمنٹ بک ڈپو پنجاب کی ملازمت کے دوران جب انھیں کرنل ہالرائیڈ اور کچھ دوسرے انگریزدوستوں کی صحبت نصیب ہوئی اور انگریزی کتابوں کے اردو ترجمے پر نظر ثانی کے کام پر مامور ہوئے۔ اس طرح انھیں انگریزی ادبیات سے کسی قدر واقفیت حاصل کرنے اور اس سے بالواسطہ طور پر اثر پذیر ہونے کا موقع ملا۔ سر سید کی قربت اور علی گڑھ تحریک ہی کا اثر ہے کہ حالی کے تصنیفی کارناموں میں اصلاحی پہلو غالب ہے اور ان کی اہم ترین تصنیف ’مقدمہ شعرو شاعری‘ میں بھی اصلاحی رجحان ہی نمایاں ہے۔
مقدمہ شعرو شاعر ی میں جن تصورات سے بحث کی گئی وہ شعر کی ماہیت ، منصب اور افادیت، شاعری اور سماج کے رشتے شعری اصناف کی اصلاح اور مطالعہ شعر میں زبان، اسلوب ِ بیان اور لفظیات کی اہمیت جیسے موضوعات پر محیط ہے۔جن پر بڑی خوبی اور صراحت کے ساتھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔
حالی بنیادی طور پر شاعری اور سماج یا دوسرے لفظوں میں ادب اور زندگی کے رشتے پر روشنی ڈالتے اور اس کے اخلاقی اور اصلاحی پہلو کو اصل اہمیت دیتے ہیں۔ وہ شعری اظہار میں سادگی اور اصلیت پر بطورِ خاص توجہ دیتے ہیں اور اسے ایک با مقصد اور با معنی عمل بنانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے تحت نیچرل شاعری کو سچّی، فطری اور صحت مند شاعری کا ماڈل بنا کر پیش کرتے اور باقاعدہ مثالیں دے کر اس کا واضح روپ متعین کرتے ہیں۔ حالی کے نیچرل شاعری کے تصور کو ان کے اخلاقی اور اصلاحی رویے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا جس پر اصلاً ان کے ادبی اور تنقیدی نظریے کی دیوار کھڑی ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کی حالی پہلے نقاد ہیں جنھوں نے اردو کی شعری اصناف، غزل، قصیدے اور مثنوی کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے فکری و فنی بنیادوں پر ان کا محاسبہ کیا۔نیز بعض اصلاحی باتیں بھی پیش کیں۔یہ مشورے ان کے نیچرل شاعری کے تصوّر ہی کو آگے بڑھاتے ہیں انھوں نے شاعری کو جس طرح جھوٹ اور مبالغے سے پاک رکھنے اور اس ضمن میں حقیقت اور راستی کے پہلو کو ملحوظ رکھنے پر زور دیا ہے وہ ان کے نیچرل شاعری کے تصوّر کا ہی فیضان ہے ،جسے وہ لفظاً و معناً یعنی فطرت اور عادت کے موافق ہونے سے تعبیر کرتے ہیں، ہم آہنگ ہو جاتا ہے اور اس کا اطلاق بہت کچھ اردو کی شعری اصناف پر ان کے تبصروں سے بھی ہوتا ہے جن میں ان کا اخلاقی اور اصلاحی جذبہ پوری شدت کے ساتھ نمایاں ہوا ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو مقدمہ شعرو شاعری میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ان میں ایک متعین نقطۂ نظر کی کار فرمائی اور نظم وترتیب کا احساس ہوتا ہے۔ جس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ مقدمہ کو اردو میں فنِ تنقید پر پہلی باضابطہ کتاب تصور کیا جاتا ہے۔جس میں کلیم الدین احمد کے الفاظ میں جزئیات سے قطع نظر کر کے شعر و شاعری کے بنیادی اصول سے بحث کی گئی ہے۔ یہاں حالی کے چند خیالات قابلِ توجہ ہیں:
شاعری کوئی اکتسابی چیز نہیں ہے بلکہ بعض طبیعتوں میں اس کی استعداد خدا داد ہوتی ہے۔ پس جو شخص اس عطیۂ الٰہی کو مقتضائے فطرت کے موافق کام میں لائے گا ممکن نہیں کہ سو سائٹی کو اس سے کچھ فائدہ نہ پہنچے۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
شعر کی تاثیر سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ سامعین کو اکثر اس سے حزن یا نشاط یا جوش یا افسردگی یا کم یا زیادہ ضرور پیدا ہوتی ہے اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس سے کام لیا جائے تو وہ کہاں تک فائدہ پہنچا سکتا ہے... یورپ میں۔ سوانگ اور نقالی نے اصلاح پا کر قوموں کو بے انتہا اخلاقی اور تمدنی فائدے پہنچائے ہیں تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ شعرا نے اپنی جادو بیانی سے لوگوں کے دلوں پر فتح نما یاں حاصل کی ہے۔۔۔ یورپ میں پولٹیکل مشکلات کے وقت قدیم پوئٹری کو قوم کی ترغیب و تحریص کا ایک زبردست آلہ سمجھتے رہے ہیں۔
شعر سے جس طرح نفسانی خوشیاں جذبات کو اشتعا لک ہوتی ہے، اس طرح روحانی خوشیاں بھی زندہ ہوتی ہیں اور انسان کی روحانی اور پاک خوشیوں کو اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ شعراگر چہ از روئے انصاف اس کو علمِ اخلاق کا نائب مناب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔
متذکرہ اقتباسات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حالی ادب کو افادیت کی میزان پر تولتے تھے اور اس باب میں ان کا نقطۂ نظر خالصتاً اصلاحی اور اخلاقی تھا۔ وہ لوگ جو ادب کو غیر ادبی معیاروں سے جانچنے کے قائل نہیں جنھیں ادب کو اخلاق کی عینک لگا کر دیکھنا گوارا نہیں حالی کے اس نقطۂ نظر پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ادب میں سماج، سیا ست اور اخلاق کی بحث چھیڑ کرحالی نے اردو تنقید کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی۔ اردو میں ناقدین کا ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہوا جو ادب اور صحافت میں فرق کرنے سے قاصر ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کا ایسا ہی خیال ہے۔ کلیم الدین احمد جنھوں نے حالی کے ادبی معروضات کو غلط ثابت کرنے پر پورا زور قلم صرف کردیا ہے ادب میں اخلاق کی بحث اٹھانا بے معنی سمجھتے ہیں اور اسے شعرو ادب کی ماہیت سے حالی کی ناواقفیت تصوّر کرتے ہیں۔
اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ حالی نے جو باتیں لکھیں ہیں ان میں کوئی غلطی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض مقامات پر ان سے غلطیاںسر زد ہوئی ہیں مثلاًملٹن کے حوالے سے شعر کے اساسی تصورات کی تو ضیح کے ضمن میں جو passionate sensuous, simple کاترجمہ (سادگی ،اصلیت اور جوش) کیا ہے اور اسے جن معنوں میں لیا ہے اس سے ان کی غلط فہمی عیاں ہو جاتی ہے۔اوّل توsensuousکا ترجمہ اصلیت درست نہیں۔دوم یہ کہ اس ضمن میں جس یوروپین نقاد کالرج کا حوالہ دیا ہے اس نے بھی من مانے ڈھنگ سے اس کی توضیح پیش کی ہے، جس پرحالی نے اعتبار کیا۔ بہ ا لفاظ دیگر یہاں حالی کے مغالطے کو دخل ہے ان کی نیک نیتی پر شک کی گنجائش نہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حالی نے ان الفاظ سے جو مفاہیم اخذ کیے ہیں وہی آج زیادہ معتبر سمجھے جاتے ہیں اور ان کے بنیادی تنقیدی افکار کا حکم رکھتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالی کے ضمن میں ہمارے ناقدین بڑے جارح واقع ہوئے ہیں۔ کلیم الدین احمد، احسن فاروقی، وحید قریشی وغیرہ ان میں پیش پیش رہے ہیں۔ لیکن آل احمد سرور اور وارث علوی جیسے معتبر ناقدین کی بھی کمی نہیں جنھوں نے بڑا ہی سنجیدہ، مثبت اور متوازن رویہّ اختیار کرتے ہوئے حالی کی ادبی قدرو قیمت متعین کی ہے۔آلِ احمد سرور کے نزدیک حالی کے ذہن میں اخلاق کا محدود تصوّر نہیں، مجموعی خیر کا تصور ہے اور شاعری کسی محدود، رسمی،اور وقتی اخلاق سے بلند ہے مگر بالآ خر اخلاقی ہوتی ہے جس کا احساس حالی رکھتے تھے زیادہ صحیح اور قابلِ قبول معلوم ہوتا ہے۔
وارث علوی کے نزدیک نفاست، شائستگی اور مہذب جیسے اعلی اقدار حالی کی شخصیت کا بنیادی وصف ہیں۔ علوی تنقید کو دریافت معنی، انکشاف اور جہانِ فکر کی سیاحی کا عمل تسلیم کرتے ہیں اور مقدمہ شعرو شاعری کو شائستہ متجسس ذہن کی سیاحت اور ادب کی دستاویز قرار دیتے ہیں۔میں اپنی بات وارث علوی کے ان خیالات پر ختم کرتا ہوں جن کی بنیاد پر حالی کی شخصیت اور تنقید ی اقدار مترشح ہوتے ہیں اورجن کی بنیاد پر آج بھی حالی کی اہمیت مسلّم کہی جائے گی۔
حالی کو صرف ادب اور شاعری میں ہی دلچسپی نہیں تھی۔ انھیں اپنی قوم، اپنے سماج، اپنی تاریخ اپنی روایت اور اپنی تہذیبی قدروں میں جو دلچسپی تھی اس کی آئینہ داری ان کی شاعری اور ان کی مختلف تصانیف کرتی ہیں۔یہ عرب وعجم و ہند کی صدیوں کی تہذیبی اور تمدنی روایتیں تھیں۔ جنھوں نے مل جل کر حالی کے ذہن کی تربیت کی تھی۔ تاریخی مجبوریوں کی بنا پر یہ ذہن مغرب کے تہذیبی سرچشموں سے بہت سیراب نہیں ہو سکا۔ لیکن ان کے سخت سے سخت نکتہ چیں بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مغربی ادب کے اپنے محدود علم سے حالی نے جو فائدہ اٹھایا اور اس سے جو کام نکالے اس کا عشرِ عشیر بھی ان لوگوں سے نہ بن پڑا، جو حالی سے زیادہ مغربی ادب سے واقف تھے اور جنھیں حالی سے کہیں زیادہ اس ادب سے فیض یاب ہونے کے مواقع حاصل تھے۔

Aftab Ahmad Afaqi.,
 Dept of Urdu, BHU, 
Varanasi - 221005 (UP)


ماہنامہ اردو دنیا،جنوری 2019


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں