31/7/19

حالی کی شخصیت خودنوشت اور مکاتیب کے آئینہ میں مضمون نگار: ثنا کوثر




حالی کی شخصیت خودنوشت اور مکاتیب کے آئینہ میں


 ثنا کوثر
اٹھارویں صدی اردو ادب کی ترقی کا دور ہے۔اس صدی میں کہانی، داستان، مثنوی، شہر آشوب اور غزل وغیرہ کا چلن عام تھا۔ انیسویں صدی نے اردو ادب کو دیگر تحریکات کے ذریعے نئی نئی صنفوں سے روشناس کرایا۔ داستان سے ناول اور ناول سے افسانہ وجود میں آیا۔ اسی طرح شاعری میں غزل کے موضوعات میں بھی تبدیلی آئی۔ مصرع طرح کے بر عکس موضوع کو توجہ دی گئی 1857 کے غدر سے محض سماجی انقلاب نہیں آیا بلکہ ادب میں بھی زبردست تبدیلی آئی۔ ادب برائے زندگی کے نعرے بلند کیے جانے لگے۔ حقیقت نگاری کو ادب میں شامل کرنا ضروری سمجھا گیا۔ قوم کے رہنما جنھوں نے معاشرے کی ترقی کے لیے ادب کو اہمیت دی اور اسی کے ذریعے اصلاحی مشن شروع کیے۔ سر سیّد احمد خاں، ڈپٹی نذیر احمد، علاّمہ شبلی نعمانی،مولوی ذکاءاﷲ، وقار الملک، محسن الملک اور خواجہ الطاف حسین حالی نے اردو شعرو ادب کی بیش بہا خدمتیں انجام دیں۔ جس کے اثرات آج بھی پوری طرح اردو ادب پر نمایاں ہیں۔
خواجہ الطاف حسین حالی کا شمار انیسویں صدی کی اہم شخصیات میں کیا جاتا ہے۔ حالی اردو تنقید کے بابا آدم، پہلے سوانح نگار، جدید شاعری کے علمبردار، شاعر، تاریخ نویس اور یہی نہیں انسان دوستی کی اہمیت سے بھی بہت مشہور ہیں، اردو ادب ان کی گرانبار نعمتوں کا احسان مند ہے۔ حالی کا زمانہ 1837 سے 1914 تک ہے ایک صدی مکمل ہونے کے باوجود ان کی شخصیت کے تمام پہلو کو یکجا نہیں کیا جاسکا ہے۔ لیکن آج بھی دیگر یونیوورسٹی میں تحقیقی کا م جاری و ساری ہے۔ یہ بات ہر کسی کے لیے قابل قدر ہوگی کہ وفات کے 100 برس بعد بھی ان کی شخصیت اس ستارے کی طرح ہے جس کا وجود سورج کے طلوع ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا۔ ہزاروں شاعر، نقاد اور سوانح نگار ہوئے لیکن حالی ہی ان کی ادبی فکر کی بنیاد بنے۔ مقدمہ شعر و شاعری (1893) ہو، مسدس حالی (1879) ہو یا ان کی سوانح ہوں اردو ادب کا کوئی بھی مصنف ان سے اچھوتا نہیں رہ سکتا۔ اس مضمون میں ہم حالی کی شخصیت کا جائزہ ان کی خودنوشت (’حالی کی کہانی خود ان کی زبانی‘ جو انھوں نے 1901 میں’ نواب عماد الملک بہادر‘ کو لکھ کرحیدرآباد بھیجی تھی جسے بعد میں دیوان حالی میں اور ترجمہ حالی کے عنوان سے مقالات حالی میں شامل کیا گیا)اور’مکاتیب حالی‘ سے لیں گے ۔
حالی سر سیّد کے جانشیں تھے اور ان کے تمام ارادوں، منصوبوں اور تحریکوں میں ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔ ایسا نہیں کہ سر سیّد مشہور تھے تبھی ان کے ساتھ رہتے ہوں بلکہ حالی اپنا قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتے تھے۔ کوئی بھی شخص تنہارہ کر انقلاب نہیں لا سکتا ان کے ارادوں کو سر سیّد کے خیالات نے جلا بخشی۔ مذہبی خیالات اور مغربی افکار میں حالی اور سر سیّد ایک تھے لیکن تعلیم نسواں کے سلسلے میں حالی، سر سیّد سے جدا نظر آتے ہیں۔
سر سیّد، ممتاز علی کو تعلیم نسواں کے متعلق ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
’’آپ کا ایک لمبا پرائیویٹ خط کئی دن سے میرے سامنے رکھا ہوا ہے میں اس کے جواب لکھنے کی فرصت ڈھونڈ رہا تھا۔ اس وقت اس کا جواب لکھتا ہوں۔ میری نہایت دلی آرزو ہے کہ عورت کو بھی نہایت عمدہ اور اعلی درجہ کی تعلیم دی جاوے۔ مگر موجودہ حالت میں کنواری عورتوں کو تعلیم دینا ان پر سخت ظلم کرنا اور ان کی تمام زندگی کو رنج و مصیبت میں مبتلا کر دینا ہے... یہ ہی باعث ہے کہ میں نے عورت کی تعلیم میں کچھ نہیں کیا۔“ 1
سر سیّد احمد خاں دوسرے خط میں، جو ممتاز علی نے ہفتہ وار اخبار’تہذیب النسواں‘کی اجازت کے لیے لکھا تھا، اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:
آپ چاہیں میرا مشورہ پسند نہ کریں مگر میں یہی کہوں گا کہ آپ عورتوں کے لیے اخبار جاری نہ کریں۔ آپ یقین کریں کہ آپ اسے جاری کرکے پچھتائیں گے اور تکلیف نقصان اور سخت بدنامی کے بعد بند کرنا پڑے گا... میری رائے میں اگر کوئی اخبار مستورات کے لیے جاری کیا جائے تو اس کا نام تہذیب النسواں ہونا چاہیے۔“ 2
حالی ابتدا سے ہی تعلیم نسواں کے بہت بڑے حامی تھے۔ ایسا نہیں کہ سرسیّد تعلیم نسواں کو ضروری نہ مانتے ہیں لیکن اس وقت حالات ایسے نہیں تھے کہ عورتوں کو تعلیم یافتہ کیا جائے اور مرد ذات کا بڑا حصّہ جو قوم کے آنے والے مستقبل تھے ان کو نظر انداز کیا جائے۔ اسی لیے سر سیّد پہلے لڑکوں کے لیے تعلیم کا پختہ انتظام کرنا چاہتے تھے۔ حالی بھی سر سیّد کی اس بات کو نظر انداز نہیں کرتے لیکن تعلیم نسواں کو ضروری مانتے ہیں۔منا جات بیوہ، چپ کی داد، مجالس النسا، اور بیٹیوں کی نسبت سے قطعات بھی لکھے جن میں انھوں نے عورتوں کی بدحالی کی تصویر کھینچی ہے اور اس کی وجہ تعلیم کا نہ ہونا مانا ہے۔ ’چپ کی داد‘ میں عورت کی تعلیم سے محرومیت کی درد ناک تصویر کھینچتے ہیں:
جب تک جیو تم علم و دانش سے رہو محروم یاں
آئی ہو جیسی بے خبر ویسی ہی جا بے خبر
تم اس طرح مجہول اور گم نام دنیا میں رہو
ہو تم کو دنیا کی نہ دنیا کو تمہاری ہو خبر
1870-71 میں حالی لاہور گئے اور انجمن پنجاب کے مشاعروں میں شرکت کرکے ان میں جان ڈال دی۔ آزاد سے زیادہ حالی کی نظمیں مشہور ہوئیں۔ بہت سے نقاد نے تو حالی کو ہی نظم جدید کی تحریک کا علمبر دار مانا ہے۔ لیکن حالی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ:
لاہور ہی میں کرنل ہالرائڈ ڈائرکٹر آف پبلک انسٹرکشن پنجاب کی ایما سے مولوی محمد حسین آزاد نے اپنے پرانے ارادے کو پورا کیا۔ یعنی 1874 میں ایک مشاعرہ کی بنیاد ڈالی۔ “ 3
 محمد حسین آزاد جن کی شخصیت سے کوئی بھی ناواقف نہیں ہے ،1880 میں جب انھوں نے آب حیات مرتب کی تب حالی سے ہی غالب کے ایک شعر  :
آہ کو چاہےے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
کے معنی پوچھے تھے حالی اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:
سر ہونے کے معنی جہاں تک میں نے سمجھے ہیں، کھلنے کے ہیں۔ والعلم عنداﷲ۔ شاید شاعر کی یہ مراد ہے کہ وصل کی تیاری کے وقت جو معشوقہ کی زلفیں سر گوندھنے کے لیے کھلتی ہیں دیکھیے وہ وقت کب آتا ہے۔ ظاہر ہے اس وقت عمر ختم ہو جائے گی۔ 4
آزاد نے آب حیات میں مومن خان مومن کا مکمل حال نہیں لکھااس بات پر بھی بہت سی تنقید یں کی گئیں اس کے متعلق بھی حالی نے آزاد کو ایک خط میں لکھا ہے کہ:
آپ لوگوں کی یاوہ سرائی پر کچھ التفات نہ کیجیے... اور اپنا کام کیے جایئے۔ نکتہ چینیوں کے خوف سے مفید کام بند نہیں کیے جا سکتے۔“ 5
اسی طرح آزاد نے حالی کو قواعد کے متعلق خط لکھا تھا جس میں چند سوالات کے جواب مانگے تھے۔ حالی نے بہت ہی ہمدردی کے ساتھ ان کے جواب دیے اور لسانیات کے ماہر آزاد کو قواعد کی جانکاری فراہم کی۔
یہ حالی کی انسان دوستی کی بہترین مثالیں ہیں کہ انھوں نے اپنے زیادہ تر معاصرین کی کتابوں پر تبصرے کیے ان کی مدد اور اصلاح کی لیکن ان ہی معاصرین نے حالی کو کبھی نہیں سراہا۔ وہ کبھی کسی سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔مولوی عبد الحق لکھتے ہیں کہ:
ہم عصروں اور ہم چشموں کی رقابت پرانی چیز ہے... مولانا اس چیز سے بری معلوم ہوتے ہیں۔ محمد حسین آزاد اور مولانا شبلی کی کتابوں پر کیسے اچھّے تبصرے لکھے ہیں اور جو باتیں قابل تعریف تھیں ان کی دل کھول کر داد دی ہے۔مگر ان بزرگوں میں سے کسی نے مولانا کی کسی کتاب کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔“ 6
شبلی کی تمام تصنیفات کو حالی نے سراہا اور ان کی کاپیاں دوسروں کو بھی بہم پہنچائی تاکہ لوگ ان کی تصنیف سے استفادہ کریں۔ ’ظفر علی خاں‘ اپنا رسالہ’دکن ریویو‘ نکالتے تھے ۔ اس میں بہت سے لوگوں کے پر چے شائع ہوتے، مولانا شبلی کی کتاب پر بھی تبصرہ کیا گیا تھاجس میں بہت نکتہ چینی سے کام لیا گیا۔جب حالی کی حیدرآباد میں ظفر علی خاں سے ملاقات ہوئی تب انھوں نے اس کے متعلق سنجیدگی کے ساتھ کہاکہ:
میں تنقید سے منع نہیں کرتا۔ تنقید بہت اچھی چیز ہے اور اگر آپ لوگ تنقید کریں گے تو ہماری اصلاح کیوں کر ہوگی۔ لیکن تنقید میں ذاتیات سے بحث کرنا یا ہنسی اڑانا منصب تنقید کے خلاف ہے۔‘‘
 شبلی نے حیات جاوید کو مکمل سوانح عمری نہیں مانا ہے اور اس کے متعلق ان کی رائے ہے کہ:
حیات جاوید سر سید کی ایک رخی تصویر ہے۔ انھوں نے اس کے انداز تحریر کو مدلّل مداحی قرار دیا ہے اور لکھاہے کہ حیات جاوید کو میں لائف نہیں بلکہ کتاب المناقب سمجھتا ہوں اور وہ بھی غیر مکمل۔“ 8
حالی نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا،نہ ہی کوئی بے جا تنقید کی ہے، بلکہ انھوں نے ہمیشہ ان لوگوں کو سراہا ہے جو ان پر تنقید کرتے تھے۔ حالی کے غزل کے متعلق جو خیالات ہیں اور وہ اس کو سنڈاس سے بد تر قرار دیتے ہیں لیکن وہ معیاری غز ل پر کبھی تنقید نہیں کرتے۔ 1980 کے ایک خط میں حالی، شبلی کے مجموعہ کلام ’دستہ گل‘ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
کوئی کیونکر مان سکتا ہے کہ یہ اس شخص کا کلام ہے جس نے سیرت النعمان، الفاروق اور سوانح عمری مولانا روم جیسی مقدس کتابیں لکھی ہیں ۔ غزلیں کا ہے کو ہیں شراب دو آتشہ ہے... خیالات کے لحاظ سے تو یہ غزلیں اس سے بہت زیادہ گرم ہیں... میرا ارادہ تھا کہ اپنا فارسی کلام نظم و نثر جو کچھ ہے اس کو بھی چھپوا کر شائع کر دوں مگر دستہ گل دیکھنے کے بعدمیری غزلیں خود میری نظر سے گر گئی۔ “ 9
حالی حسّاس شخصیت کے مالک تھے اور انسان دوستی کے بہت بڑے پیکر بھی۔ وہ کبھی مشہور نہیں ہونا چاہتے تھے ۔انھوں نے ہمیشہ اپنی تصنیف کو تالیف اور مرتبہ لکھا ہے۔ ان کی بہت سی مخالفتیں ہوئیں مگر ان میں برداشت کا مادّہ بہت زیادہ تھا۔ ان کی شفقت کی ایک مثال یہ کہ حسرت موہانی نے اپنے رسالے ’اردوئے معلی‘ میں حالی کے متعلق بہت کچھ غلط لکھا تھا جسے مولوی عبدالحق نے ’چند ہم عصر‘میں نقل کیا ہے:
علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی، نواب محسن الملک مرحوم کے اصرار پر مولانا حالی بھی اس میں شرکت کی غرض سے تشریف لائے... ایک صبح حسرت موہانی دو دوستوں کو ساتھ لیے ہوئے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اتنے میں سیّد صاحب (زین العابدین) موصوف نے بھی اپنے کمرے سے حسرت کو دیکھا۔ ان مرحوم میں لڑکپن کی شوخی ابھی باقی تھی، اپنے کتب خانہ میں گئے اور اردوئے معلی کے دو تین پرچے اٹھا لائے... اس کے بعد سید صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے ارے مولانا! یہ دیکھیے آپ کی نسبت کیا لکھا ہے؟ اور کچھ اس قسم کے الفاظ پڑھنا شروع کیے، سچ تو یہ ہے کہ حالی سے بڑھ کر مخرب زبان کوئی ہو نہیں سکتا اور وہ جتنی جلدی اپنے کو اردو کی خدمت سے روکیں اتنا ہی اچھا ہے۔ فرشتہ صفت حالی مکدّر نہیں ہوئے... کئی روز بعد ایک دوست نے حسرت سے پوچھاکہ حالی کے خلاف اب بھی کچھ لکھوگے؟جواب دیا جو کچھ لکھ چکا ہوں اسی کا ملال اب تک دل پر ہے۔ “ 10
حالی کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ ان کے مرنے کے بعد کوئی بھی ان کے کلام کو صحیح طرح سے تو کیا سر سری طور پر بھی مرتب نہیں کرے گا۔ اسی لیے انھوں نے آخر وقت تک اپنا زیادہ تر کلام مرتب کرکے شائع کرا دیا تھا۔ اصول فارسی جو انھوں نے فارسی طلبا کے لیے بہت امیدوں سے لکھی تھی اسے آج تک کسی نے شائع نہیں کرایا، اور ابتدائی تصانیف بھی ایک مرتبہ کے علاوہ دوسری مرتبہ شائع نہیں ہوئیں۔ حالی نے ان کا تذکرہ اپنے خط میں کیا ہے جو انھوں نے 15 اگست 1910میں مولانا ظفر علی خاں کے نام لکھا تھا:
اپنا کلام نظم و نثر اردو و فارسی وغیرہ مرتب کرنا چاہتا ہوں مگر نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ کسی سے امید نہیں کہ میرے بعد کوئی اس کو بوجوہ دلخواہ نہ سہی، سر سری طور پر ہی مرتب کر دے۔ “ 11
حالی کی اسی اخلاق پسندی نے ان کے تعلقات میں کبھی بھی فرق نہیں آنے دیا، انھوں نے ہر طور سے مذہب اور تہذیب میں اخلاق کو ترجیح دی۔ وہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے انھوں نے جس میدان میں بھی قدم رکھا اس میں اپنے نقوش قائم کیے۔ ادبی اعتبار سے حالی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ لیکن وہ اس میدان میں بھی انسانیت کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ اقبال بھی ا س کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
 مشہور زمانے میں ہے نام حالی
معمور مئے حق سے ہے جام حالی
حواشی اور کتابیات
.1 مکتوبات سر سیّد، مرتبہ شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی، مجلس ترقی اردو ادب لاہور 1969 ص380-81
.2 ایضاً ص 382
.3 مقالات حالی،ترجمہ حالی،حصّہ اوّل جامعہ پریس دہلی 1934 ص 267-68 .
4 مکاتیب حالی ،مرتبہ شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی، اردو مرکز لکھنو 1950 ص 17 .
5 مکاتیب حالی ،مرتبہ شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی، اردو مرکز لکھنو 1950 ص 18
.6 چند ہم عصر ، مولوی عبدالحق، انجمن پاکستان کراچی 1953 ص 157
.7 چند ہم عصر ، مولوی عبدالحق، انجمن پاکستان کراچی 1953 ص 159
.8 حیات جاوید تلخیص،مولانا الطاف حسین حالی، اعلی پریس دہلی 1977 ص 39
.9 مکاتیب حالی ،مرتبہ شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی، اردومرکز لکھنو 1950 ص 42
.10 چند ہم عصر، مولوی عبدالحق، انجمن پاکستان کراچی 1953 ص 159-60
Sana Kausar,
Research Scholar,
 Dept of Urdu,
 Aligarh Muslim University,
 Aligarh - 202002 (UP)

 ماہنامہ اردو دنیا،جنوری 2015


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...