سلیم احمد کی غزل: روایت سے درایت تک
سالیم سلیم
سلیم احمد ایک ممتاز شاعر ہیں
جنھوں نے غزلیں بھی کہیں ہیں اور نظمیں بھی،تنقیدیں بھی لکھی ہیں اورریڈیو ڈرامے
بھی،اخباروں میں کالم بھی لکھے۔ ان کی شناخت اردو ادب میں بحیثیت نظم گو مسلم ہے،
جبکہ ان کی غزل کو حالی کی طرح ہی اردو کے بہت سے معتبر ناقدین نے ذرا کم آنکا ہے۔
اس میں ناقدین کی کچھ غلطی بھی نہیں کہ سلیم احمد کی ذات اور ان کی تخلیقات کا سحر
ہی کچھ اس نوع کا ہے کہ ان کی غزل اور نظم کے مابین ایک قسم کی ادبی، لسانی اور
محسوساتی رسہ کشی نظر آتی ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو سلیم احمد اردو شاعری کے
اس قافلے میں شریک ہیں جس کے یہاں نظم اور غزل دونوں اپنے تمام تر شدید احساس کے
ساتھ موجود ہے اس کے باوجود ابھی تک انھیں خاطر خواہ وہ مقام نہیں مل سکا،جس کے وہ
حقدار تھے۔ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سلیم احمد کے یہاں اردو غزل کے تینوں
ادوار کا بھرپور پرتو نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں میر،نظیر،مصحفی،
سودا،جرات،غالب، مومن، آتش، حسرت، جگر، فراق، اصغر، یگانہ اور اقبال سب کے سب نظر
آتے ہیں۔ اپنے گزشتہ دو ادوار کی جھلک تو سلیم احمد کی غزل کا خاصہ ہے ہی،بڑی بات
یہ ہے کہ اردو غزل کا تیسرا دور خود انہوں نے ایک مختلف رنگ سخن سے شروع کیا۔ یہی
وجہ ہے کہ ان کی غزل میں تینوں ادوار پوری آب و تاب سے روشن نظر آتے ہیں۔
سلیم احمد کی غزل اردو میں
غزلیہ شاعری کا ایک بالکل ہی جدا نقطۂ عروج ہے۔ان کے پورے غزلیہ سفر کی داستان از اول تا آخر ان کے چاروں شعری
مجموعوں میں موجود ان کی غزلیہ شاعری سے رقم ہوتی نظر آتی ہے۔ سلیم کے چار شعری
مجموعے یعنی،بیاض، اکائی،چراغ نیم شب اور بازیافت ان کی غزلیہ شاعری کے بتدریج
عروج کا مرقومہ ہیں۔ان کی غزل نے بڑی تیز رفتاری سے اپنی منازل طے کی ہیں، اس لیے
ان کی غزل میں روایت سے درایت تک نئی دانش کا گزر ہوا ہے۔ پھر کلاسیکی مطالعہ اور
اس سے کشید کی ہوئی بصیرت سے انہوں نے اردو غزل میں جہاں سے اپنا سفر شروع کیا تھا
وہاں سے اگر دیکھنا شروع کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے یہاں شروع دن سے گزشتہ کو
جدید سے پیوست کرنے کی سعی نظر آتی ہے۔ وہ اپنی تاریخ سے ڈرے ہوئے یا اس سے خفا
نہیں، نہ ہی ان کے یہاں کسی طرح کا احساس کمتری ہے، ان کی آواز ہر طرح سے اردو کے
غزلیہ مزاج سے ہم آہنگ رہی ہے اور اس میں نئی بوقلمونی پیدا کرنے میں کوشاں رہے
ہیں۔ سلیم احمد کے وہ چاروں شعری مجموعے جن کا اوپر ذکر ہوا ان کا بغور مطالعہ کیا
جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے یہاں پرانے کا کوئی تصور نہیں،وہ پرانے پن سے بھی
کچھ نئی کونپلیں نکالنا چاہتے ہیں جس سے نئی غزل کو تازہ ہوا میسر ہو۔ قدیم سے
انھیں ایک طرح کی چڑ ہے،اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ کلاسیکی قدروں کے قائل
نہیں۔وہ تو قدیم کو بھی قدیم تصور نہ کرتے ہوئے اس کی اہمیت کو بہ سرو چشم تسلیم
کرتے ہیں اور مصحفی جیسے شعرا جن کو اردو کے ناقدین کا ایک بڑا حلقہ غزل کی تاریخ
میں میر جیسی حیثیت دینے پرغیر آمادہ نظر آتا ہے ان کو سلیم احمد نے اپنے تخلیقی
عمل سے ہدف بنایا ہے، اور اردو میں مصحفی کے طرز سخن میں ان سے تقریبا ً دو سو برس
بعد شعر کہے ہیں۔ یہ سلیم احمد کے مزاج کی کجی تھی کہ ان کو جو بہتر اور درست
معلوم ہوتا تھا وہ اسے ببانگ دہل کیا کرتے تھے، لہذا انہوں نے اپنے نظر انداز کیے
گئے پیش رووں سے بھی خاطر خواہ استفادہ کیا اور اس میں کسی قسم کی جھجھک محسوس
نہیں کی۔ یہ سلیم احمد کے اہم تخلیق کار ہونے کی ایک نشانی ہے۔
سلیم
احمد اپنے کلاسک میں پوری طرح سے غرق تھے اور ان کو غزل کی پوری روایت کا ادراک
بھی تھا، یہ بات ان کی غزل کے مسلسل مطالعے سے ان کے قاری پر عیاں ہوتی ہے کہ وہ
ایک منفرد لہجے کی تلاش میں سر گرداں ہیں، اسی لیے کبھی کلاسکیت میں پناہ تلاش
کرتے ہیں تو کبھی نو کلاسکیت میں، کبھی نئی شاعری کی طرف آتے ہیں تو کبھی عبوری
دور کے مزاج کو اپنا مطمح نظر بناتے ہیں۔ ایک سچا غزل گو یا یوں کہا جائے کہ بڑا
تخلیق کار اسی طرح اپنی راہیں تلاش کرتا اور بناتا ہے، سلیم احمد نے بھی اپنے کچے
پن سے اپنے نئے مزاج کی جانب سفر کیا ہے۔ اس سفر میں انھیں ٹھوکریں بھی لگی ہیں اوروہ
ان ٹھوکروں سے سنورے بھی ہیں۔ انھوں نے میر، غالب پر اپنا سفر ختم نہیں کیا، نہ ہی
انہوں نے اپنے سفر میں کہیں رک کر سانس لینے کی کوشش کی ہے۔ فراق اور یگانہ سے
متاثر ہونے کا قدم ہی ان کی غزل میں ایک نئے اسلوب کو تلاش کرنے کی ایک مستحکم
دلیل ہے۔۔ سلیم احمد غزل میں مقلد تو ہیں لیکن ان کو کلیتاً مقلد محض نہیں کہا جا
سکتا ان کے یہاں شاعری کی جو رمق کلاسیکی تقلید سے پیدا ہوئی ہے وہ سیکڑوں طرح کے
مجتہدین سے افضل نظر آتی ہے۔ سلیم احمد نے اپنی شاعری پڑھوانے پر قاری کو مجبور
کیا ہے اور یہ اختیار اس وقت تک کسی غزل گو کے یہاں پیدا نہیں ہوتا جب تک وہ نت
نئے تجربے نہ کرے، اگر سلیم احمد اپنے مجموعے کے سر ورق پر یہ نہ لکھتے کہ:
”گزارش ہے کہ میں نے یہ کتاب ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے
لیے نہیں لکھی ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے والے سے میں جسمانی ہی نہیں نفسیاتی بلوغت کا
بھی مطالبہ کرتا ہوں“۔
تو ایک قاری کو ان کی شاعری
میں موجود ان نئی داستانوں کا علم نہیں ہوتا جو روایت سے اجتناب کا اعلان کرتی
ہیں۔ ماں، بہن اور بیٹی کا لفظ اس معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سلیم احمد اپنی
شاعری کے لیے بالکل نئے قاری کی تلاش میں ہیں جو ان کی روایتی لفظیات کو بھی نئے
انداز میں دیکھنے کی کوشش کرے، ان کا یہ کہنا کہ وہ اپنے قاری سے نفسیاتی بلوغت کا
مطالبہ کر رہے ہیں، دراصل اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ اردو میں غزل کا بالغ نظری کے
ساتھ مطالعہ کرنے والا قاری عنقا ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سلیم احمد ایک صاف گو اور سچے
انسان تھے، اس لیے وہ ادب میں بھی اپنی اسی شخصیت کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ ان کی
نظموں اور غزلوں میں ان کی سچائی کا معیار پوری تابناکی کے ساتھ روشن ہوا ہے، ایسے
میں اس نفسیات کے مارے لوگ جو گل و بلبل کے ترانے گانے کو اور شاعری میں ایک نظر
سے دنیا کو دیکھنے کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، سلیم احمد کے نشانے پر ہیں، وہ ان سے
فرار چاہتے ہیں۔ ان کی غزل کا بغور مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے
اردو میں ایک نئے ڈکشن کا عمل دخل اسی وجہ سے چاہا کہ روایتی قاری جو غزل کی صحت
کو نقصان پہنچا رہا ہے وہ ہمیشہ کے لیے اردو غزل کے دائرۂ علم اور دائرۂ عمل سے باہر
ہوجائے۔ ان کے الگ الگ مجموعوں میں ان کا الگ الگ رنگ سخن ان کے اسی شعوری تجربے
سے پیدا ہو ا ہے جس کے پیش نظر وہ غزل میں نئے جہانوں کو آباد کر رہے ہیں۔ سلیم
احمداپنے اسلوب کے تعین میں یہاں بھی کھرے اترتے ہیں، جس میں وہ اپنے تجربے کے
پہلے قدم پر ہیں، ان کے پہلے مجموعے سے یہ چند ایک شعر ملاحظہ کیجیے
بس بہت ہے یہ اعتراف سلیم
وقنا ربنا عذاب النار
——
سنگ در چھوڑ کے اب راہ پہ آ
بیٹھے ہیں
جیسے آئے گا یہاں سے بھی
اٹھانے کوئی
——
الفاظ پر نہ جا کہ بیاں گو نیا
نہیں
یہ ماجرا وہ ہے جو کسی نے سنا
نہیں
——
تو بد گماں سہی پہ کبھی مل
سلیم سے
یہ امر واقعہ ہے کہ دل کا برا
نہیں
——
گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں
کے آنسو
پاؤں
رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی ہوتی ہے
——
عجب جی لگ گیا ہے ان دنوں اس
دشت ویراں میں
سندیسے بھیجتا ہے شہر جاناں ہم
نہیں جاتے
——
ہائے کس منزل پہ آ کر راز یہ
دل پر کھلا
حسن کی سرشاریاں بھی عشق سے
غافل نہ تھیں
——
دل خوں گشتہ نے اب رنگ بھرے
ہیں کیا کیا
ورنہ کیا رکھا تھا اے گل تری
رعنائی میں
——
آکے اب جنگل میں یہ عقدہ کھلا
بھیڑیے پڑھتے نہیں ہیں فلسفہ
ان اشعار میں ماقبل اہم شاعروں
کے اپنے رویے علامت کے طور پر آئے ہیں سلیم احمد کے لیے یہی رویے اہمیت اختیار کر
لیتے ہیں جو معاشرتی بے قدری کا شکار ہیں۔
سلیم احمد نے ان قدری رویوں کو
ان شاعروں کے حوالے سے جانا اور اپنایا۔یہی بات ان شاعروں سے ان کے قلبی تعلق کی
بنیاد بھی ہے۔اور اب جب وہ اپنی زندگی میں ان قدری رویوں کی شکست اور گرد وپیش میں
اقدار بے حسی اور لا تعلقی کو فروغ پاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے اشعار میں زہر
خند پیدا ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔میر و غالب سے ہوتے ہوئے فراق و یگانہ تک سلیم
احمد کی شاعری کے وہ سر چشمے ہیں جہاں سے انھوں نے فیض اٹھایا ہے۔اور اپنی پیاس
بجھائی ہے۔
سلیم احمد کی غزلوں میں قاری
کو ایک نقطۂ نظر بھی ملے گا۔یہ نقطۂ نظر نظریہ سے نہیں بلکہ تجربہ سے ماخوذ ہے۔ان کا یہی تو کمال ہے کہ روز مرہ
زندگی کے گھسے پٹے موضوعات کو بھی شعر بناتے ہیں۔اور ایسے موقع پر مروج طرز اظہار
سے گریز کی جسارت بھی کرتے ہیں۔ان کی مشہور غزل
دل حسن کو دان دے رہا ہوں
گاہک کو دکان دے رہا ہوں
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
رکھوں جو لحاظ مصلحت کا
کیا کوئی بیان دے رہا ہوں
اس مشہور غزل کے قاری بخوبی
اندازہ لگا سکتا ہے کہ سلیم احمد نے مختلف النوع مشاہدے کو ملا کر تجربے کے احاطے
کو وسیع تر کر دیا ہے۔ یہ بات قدیم کلاسیکی شعرا کے یہاں عام ہے،مگر سلیم احمد کا
اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے اس عمل میں اپنے عہد کی روشنی کو بھی شامل کر لیا ہے۔ جو
زبان استعمال کی ہے،وہ روزمرہ سے قریب ہے۔
مختلف النوع تجربات کو ایک
وحدت میں پرو دینا ہی شاعری کا اعلی منصب ہو سکتا ہے،سلیم احمد نے سنجیدہ اور غیر
سنجیدہ،کے اشتراک و امتزاج سے ایک نئی بصیرت کا اظہار کیا ہے۔اس سے سلیم احمد کی
غزل ایک نئی آگہی کی حامل بنتی ہے۔سلیم احمد کی طبیعت کا ایک روشن پہلو رومانویت
بھی ہے مگر وہ اپنے شعروں میں اس پر کلاسکیت کا خول چڑھا دیتے ہیں۔ان کی اپنی ذات
سے جنگ آزمائی کی بنیاد بھی یہی ہے۔ان کی شاعری میں آشوب ذات،احساس تنہائی، آئیڈیل
اور موجود صورتِ حال سے پیدا ہونے والی مایوسی، یہ تمام چیزیں ان کے رومانی مزاج
کی دین ہیں
مدت سے خدا بھی نہیں آیا مرے
دل میں
بچوں کی طرح بھول گیا راستہ
گھر کا
——
سبب یہ ہے مری بڑھتی ہوئی
اداسی کا
میں شام ہی سے نئے دن کے
انتظار میں تھا
——
اک بگولے کی طرح مجھ کو لیے
پھرتی ہے
جانے کیا شے ہے جو بیتاب مری
خاک میں ہے
رومانی ناآسودگی،تنہائی،احساس
زیاں،ناامیدی کے باوصف سلیم احمد کی غزل انھیں معروضیت اور زندگی کے حقیقی ادراک
کی طرف بھی لے جاتی ہے۔
اس گفتگو سے سلیم احمد کے ذہنی
ارتقا کا احساس بخوبی ہوتا ہے،جس کا اوپر تذکرہ ہو چکا ہے۔ جمیل جالبی کی رائے کے
پیش نظر بھی یہاں ہمیں سلیم احمد اپنے ایک مختلف اور منفرد لب و لہجے کو قائم کرتے
نظر آتے ہےں۔ سلیم احمد کی ایک بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ انھیں غزل کہنے کے لیے
تیسرا دور نصیب ہوا جس عہد میں دنیا ایک بڑے تجرباتی مسائل سے نبرد آزما تھی، جہاں
زندگی نئے لباس پہن رہی تھی اور پوری دنیا ایک نئے منظر نامے کے استقبال میں باہیں
پھیلائے کھڑی تھی۔ سلیم احمد کو اگر ہم تاریخی نوعیت سے سو برس بھی پیچھے کی طرف
دھکیل دیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سلیم احمد اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ یہ ایک
بہت بڑی اور زندہ حقیقت ہے کہ سلیم احمد کو سلیم احمد بنانے میں روشن خیالی کے
پورے نظام نے ایک اہم رول ادا کیا ہے، حالاں کہ ہم اس روشن خیالی سے شعوری طور پر
مابعد جدیدیت کے عہد میں واقف ہوئے ہیں، لیکن اگر ہم ذرا سا منطقی اور تاریخی نگاہ
سے دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ یورپ اور امریکہ کے نئے ترقیاتی نظام نے کس طرح
دنیا بھر کے تخلیقی نظام کو متاثر کیا ہے۔ سلیم احمد کی غزل دنیا کی انھیں تخلیقات
میں شامل ہے جو جدید دنیا سے آنکھیں ملا کر منظر نامے پر ابھر رہی تھیں۔ ایسے میں
اگر سلیم احمد جیسا ذہن اردو غزل کو مل جاتا ہے اور اس میں ایک نئے اسلوب کی بنا
پڑتی ہے تو ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔
D-232,
Flat No 4
Abul
Fazal Enclave, Okhla
New
Delhi - 110025
ماہنامہ اردو دنیا،جون 2019
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں