9/8/19

اردو زبان و ادب کے مسائل (صوبۂ گجرات کے حوالے سے) مضمون نگار: عبد الرحمن فیصل

\


اردو زبان و ادب کے مسائل

(صوبۂ گجرات کے حوالے سے)


عبد الرحمن فیصل 
انسانی معاشرہ اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے لسان/زبان کا ایک نظام تشکیل دیتا ہے اور اسی کے ذریعہ اپنے جذبات و کیفیات و معمولات کا بیان کرتا ہے۔ گویا ایک انسانی معاشرہ میں سب سے پہلے زبان کا وجود ہوتا ہے یہاں زبان سے مراد وہ پہلی شکل ہے جسے بولی کہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ زبان اپنے ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی ادب کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بولی اور ادب کا ایک دوسرے سے لازمی رشتہ ہے۔
ہر معاشرے کی اپنی ایک زبان اور تہذیب ہوتی ہے۔ ادب ان دونوں کا مرکب اور مظہر ہے۔ چونکہ ادب انسان کے ذریعے تشکیل دیا جاتا ہے اور انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے اس طرح ادب ایک انسانی معاشرہ اور اس کی تہذیب کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ 
فن پارہ یعنی ادب صرف کسی ادیب یا شاعر کی داخلی کیفیات و تجربات کا بیان نہیں ہوتا بلکہ ساتھ ہی وہ اپنے عہد کے اجتماعی تجربات، نظام اقدار و تصورات اور عام انسانی معتقدات کا بھی مظہر ہوتا ہے۔
کسی بھی زبان کا وجود انسان کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے عمل میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر زبان کو پاسبانوں کا ساتھ اور حکومت کی سرپرستی حاصل ہو جائے تو وہ مخالفین کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی نشو و نما پاتی اور قوم کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ زمانے کے نئے تقاضے جتنے اردو کے لیے اہم ہیں اتنے ہی دوسری زبانوں کے لیے بھی اہم ہیں۔
جہاں تک گجرات میں اردو زبان و ادب کی موجودہ صورت حال کا تعلق ہے وہ تشویش ناک توہو سکتی ہے لیکن مایوس کن نہیں۔ عہد حاضر میں دنیا کے سو سے زائد ممالک میں کسی نہ کسی مقام پر کوئی نہ کوئی اردو بولنے، لکھنے اور پڑھنے والا موجود ہے۔ گویا اردو زبان کسی نہ کسی صورت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی اعراض نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھی زبان اُس وقت تک ہی زندہ رہ سکتی ہے، جب تک اُس کے بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے باقی ہوں۔
اس خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے صوبۂ گجرات پر نظر ڈالی جائے تو کیا اردو زبان کی صورتِ حال بہتر معلوم ہوتی ہے۔ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ زبانیں ہمیشہ اپنے بولنے والوں کے ذریعہ بقا حاصل کرتی ہیں اور ترقی کے منازل طے کرتی ہیں۔ 
صوبۂ گجرات کی مقامی بولی گجراتی ہے اور عالمی مقبولیت رکھنے والی انگریزی زبان حکومتوں و سرکاری دفتروں وغیرہ میں مستعمل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے حالات اور معاشرے میں اردو زبان کس طرح اپنا وجود قائم رکھے اور ترقی بھی کرتی رہے۔ ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ایسا نہیں ہے کہ ان کا حل ممکن نہیں۔
اردو کی کتابوں پر نظر ڈالی جائے تو ان کی اشاعت میں ہر سال بتدریج اضافے ہو رہے ہیں لیکن قارئین کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ مادہ پر ستی سے لے کر ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو، ٹی وی چینلز تک اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ چند مسئلوں پر روشنی ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
1۔ گجرات ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کا اگر ہم جائزہ لیں تو خود ہمارے اردو داں حضرات ادیب و شاعر کی ہی اولادیں نہ صرف اردو سے ناآشنا ہیں بلکہ انہیں اس زبان سے کچھ رغبت بھی نہیں ہے ہمیں اس قول کو ذہن نشین کر لینا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ” اصلاح کی شروعات خود اپنی ذات اور اپنے گھر سے کرنی چاہیے۔
2۔ اردو کا ایک مسئلہ تعلیم و تدریس کا ہے۔ میرے پاس پورے گجرات صوبے کا اعداد وشمار تو نہیں ہے لیکن جو کچھ اب تک دیکھا اور سنا ہے ایسے اسکولوں کی تعداد بہت کم ہے جن میں اردو زبان بحیثیت نصاب پرائمری سے لے کر سینئر سیکنڈری اسکول تک ہو۔ اس لیے تعلیم و تدریس کو اولین اہمیت دینا، خصوصاً ایسے معاشرے میں جہاں رابطے کی زبان مخصوص مقامی بولی ہو، ناگزیر ہو جاتا ہے۔اردو کی تعلیم کے سلسلے میں بڑودہ کے سلیمانی بوہرہ طیب جی کے اسکول محمڈن ایجوکیشنل سوسائٹی کی گراں قدر خدمات کا ذکریہاں ضروری ہے جو قابلِ مبارکباد تو ہے ہی لیکن دیگر صاحبان قوم جو ثروت مند ہیں ان کے لیے باعثِ عبرت بھی ہے۔ اس سوسائٹی کے چار اسکول ہیں اور چاروں میں اردو بحیثیت نصاب پرائمری درجہ سے لے کر سینئر سیکنڈری تک پڑھائی جاتی ہے۔پورے صوبۂ گجرات میں اردو کے اعلیٰ تعلیمی مراکز صرف تین ہیں بڑودہ کا مہاراجہ سیاجی راؤ یونیورسٹی، گجرات کالج اور گجرات یونیورسٹی۔ 
 اس سلسلے میں مدارس کو بھی پہل کرنی چاہیے اور اپنی نصابی کتابوں کی تدریس میں اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا چاہیے۔ مزید ایک مسئلہ کی جانب اور توجہ دلاتا چلوں کہ مدارس کو چاہیے کہ وہ ایک ایسا بورڈ بھی قائم کریں کہ ان کے یہاں سے فارغ طلبا کی سندیں گجرات حکومت کے سینئر سکنڈری کی سند کے مساوی ہوں، تاکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے طلبا براہِ راست یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ اس سلسلے میں گجرات اردو اکادمی کو بھی غور کرنا چاہیے اور ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
3۔        اردو زبان کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اسے مذہب کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ اردو ایک زبان ہے اور زبان عوام کی ملکیت ہوتی ہے کسی کی جاگیر نہیں۔ یہ نظریہ کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے، سراسر غلط ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان کی اس محبوب زبان کی نشوو نما میں ملک کے تمام مذاہب کے لوگ ہندو مسلم، سکھ عیسائی غرض کہ فرنگیوں نے بھی بلا امتیاز مذہب و ملت اس کی ترقی میں اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ یہ ہر اس فرد کی زبان ہے جو اسے اپناتا ہے۔ جس طرح اس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر جذب کر لینے کی صلاحیت ہے، اسی طرح اس نے نہ صرف مُحبّان اردو کو قبول کیا ہے بلکہ عزت بھی بخشی ہے۔ میرو غالب ہوں یا دیاشنکر نسیم و رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، سعادت حسن منٹو و قرةالعین حیدر ہوں یا کرشن چندر و راجیندر سنگھ بیدی، شمس الرحمن فاروقی ہوں یا گوپی چند نارنگ، ہر کسی نے اردو زبان و ادب کی خدمت کی ہے اور اردو نے بھی انھیں وہ عزت و وقار عطا کیا ہے جس کے وہ مستحق تھے۔ آلِ احمد سرورنے لکھا ہے کہ:
اردو کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ نہ تو یہ صرف ایک یا دو ریاستوں کی حدود میں مقید ہے نہ ایک مذہبی گروہ کے ماننے والوں میں۔ بلکہ خدا کے گھر کی طرح اس کی بہت سی ریاستوں میں بستیاں ہیں اور اس کے بولنے والے یا اس کے سمجھنے والے کشمیر سے کنیا کماری اور کلکتے سے کچھ تک پھیلے ہوئے ہیں۔“ 
(پہچان اور پرکھ، مکتبہ جامعہ نئی دہلی،2012، ص48)
4۔        اگر اردو زبان کو صرف بولی جانے والی زبان کے طور پر دیکھیں تو پورے ہندوستان میں رابطے کے طور پر تھوڑی بہت تفریق کے ساتھ اسی زبان کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ تقسیم برِّ صغیر کے بعد ہندوستان میں دیوناگری رسم الخط کو رائج کرنے کے لیے اردو، ہندی تنازعہ پیدا ہوا۔ رسم الخط صرف تحریری نشان نہیں ہوتا بلکہ ہر زبان کے رسم الخط کا اپنا ایک تہذیبی و ثقافتی پس منظر ہوتا ہے جو اپنے اندر آہنگ، لہجہ، ایک مخصوص تلفظ اور تہذیبی شناخت رکھتا ہے۔جو لوگ بھی اسے بدلنے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر بالکل منفی ہے۔ انھیں شاید اس کا فوری نقصان نظر نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ غیر اردو داں طبقہ جو اسے سراہتا ہے اور اس پر زور دیتا ہے کہ اس کا رسم الخط بدل کر اردو کے حلقے کو وسیع کیا جائے۔ یہ مفروضہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے جو اردو داں نصیب ہوں گے ان کا تلفظ جس طرز کا ہوگا یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ اس کی جھلک آج کل کے سمیناروں اور مشاعروں میں ہمیں نظر آ جاتی ہے۔
واضح رہے کہ غیر اردو داں طبقہ جو اس زبان کے الفاظ و محاورات سے متاثر ہیں، وہ اردو زبان کے دیگر لوازمات کے ساتھ ہی اس کا انداز اور درست تلفظ ہی ہے۔ جو صرف اردو رسم الخط ہی میں ممکن ہے۔ اردو کی شناخت اس کے اصل رسم الخط میں ہی پنہاں ہے کیونکہ اس کے ساتھ اس کا پورا ثقافتی پس منظر جڑا ہوا ہے۔
زبان و ادب کو فروغ دینے میں صحافت اور رسائل بھی اہم کردار نبھاتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں شاید ہی گجرات میں کوئی اردو اخبار نکلتا ہو۔ زبان کے فروغ میں اخبار ایک اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اخبار روز مرّہ ہونے والے واقعات و حادثات کا بیان ہوتا ہے جو انسان کی دلچسپی کا ایک بہترین وسیلہ ہے۔
 اسی طرح رسالہ کی اشاعت، ادبی ذوق اور ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ رسالہ نہ صرف تخلیقی اصناف کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے بلکہ اہلِ علم کے مضامین ہمارے لکھنے والوں کے نقطۂ نظر کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ ’سابرنامہ‘ گجرات اکادمی سے شائع ہونے والا ایک قدیم ادبی رسالہ ہے۔ اس کے علاوہ اس صوبے سے کوئی اور اردو رسالہ شائع ہوتا ہے اس کی اطلاع راقم کے پاس نہیں۔ جب وسائل ہی موجود نہ ہوں تو نتیجے کی امید بھی بے معنی ہے۔

 تاریخ شاہد ہے کہ گجرات کی بندرگاہیں تقریباً دو ہزار قبل مسیح سے لے کر اٹھارویں صدی تک تاجروں، صوفیائے کرام، علما و ادبا، ملکی و غیر ملکی حکمرانوں کی آماجگاہ بنی رہیں۔ درحقیقت اردو پندرہویں صدی کے نصف آخر میں ادبی شکل اختیارکر چکی تھی۔ کیوں کہ سولہویں صدی کی شروعات میں باقاعدہ تصانیف پائی جاتی ہیں۔ ابتدائی دور کے شعرا و علما میں شاہ باجن، قاضی محمود دریائی، شاہ علی الحسینی جیو گاؤں دھنی، خوب محمد چشتی اور محمد امین کے نام لیے جا سکتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی تصنیفات زیورِ طبع سے آراستہ ہوئیں۔ زیادہ تر محققین کا اس پر اتفاق بھی ہے کہ اردو زبان کو ادبی شکل سب سے پہلے صوبۂ گجرات میں ہی ملی۔ جن لوگوں نے اس روایت کو فروغ بخشا ان میں ولی گجراتی، عزلت سورتی، میاں سمجھو، میاں داد خاں سیاح و فدا جیسی شخصیتیں قابلِ ذکر ہیں۔
ادبی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو گجرات میں شعری و نثری ادب کے فروغ کا سلسلہ انیسویں صدی کے اواخر تک پروان چڑھتا رہا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز اور اس کے بعد گجرات میں اردو ادب کو قعرِ گمنامی نصیب ہوئی، یہ بات کس حد تک درست ہے بغیر تحقیق کے کوئی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ گجرات میں اردو ادب کے نام پر جو کچھ ہمارے سامنے آرہا ہے وہ صرف شاعری تک ہی محدود ہے۔ سخنوران گجرات (1981) اور گجرات میں اردو غزل (1995) کے مطالعے سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بیسویں صدی تک تو گجرات کے شعری ادب کو ایک حد تک وقیع کہا جا سکتا ہے کہ رحمت امروہوی، سرشار بلند شہری، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ محمد علوی، عادل منصوری، رشید افروز، جمال قریشی، خلش بڑودوی، ابہام رشید جیسے شعرا کا تعلق بھی اسی گجرات سے رہا ہے لیکن اکیسویں صدی میں گجرات کا شعری ادب کیسا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ کیونکہ اچھا ادب ہمیشہ ایک اچھے قاری کو ذہن میں رکھ کر لکھا جاتا ہے۔ جب عوام ہی اس کے اہل نہ ہوں تو بڑے ادب کی تخلیق بھی ناممکن ہے۔ اکیسویں صدی کے شعرا کے کچھ نام میرے سامنے ہیں جن کا مجموعہ کلام 2000 کے بعد شائع ہوا ہے۔ ان میں کچھ تو20ویں صدی کے ہی شعرا ہیں جو باحیات ہیں اورادب کی خدمت کر رہے ہیں مثلاً ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ جینت پرمار (پینسل اور دوسری نظمیں 2006، مانند 2008)، خلیل دھن تیجوی (مجموعہ دھیرے بول2005)، عباس دانا (موسم 2005، شیش محل 2009، جگنو 2014) وغیرہ، ان کے علاوہ عارف شیخ بڑودہ (عشرت2003، آفرین 2010)، انور بڑودوی (مجموعہ تجلیات انور2009)، ظہیرصبا قادری بڑودہ (مجموعہ سب رنگ2014)، عقیل شاطر(ابھی زندہ ہوں میں 2010)، شبیرہاشمی (لفظوں کا لہو2013)، شبنم انصاری (آئینۂ احساس 2018)، اکرم ناگنوی (اعتبار قلم 2013)، روشن خان گرگٹ (میٹھا لہجہ کڑوا سچ 2014) وغیرہ ہیں جن کے مجموعہ کلام اب تک شائع ہو چکے ہیں۔
شعری ادب کے مسائل کے تعلق سے دیکھیں تو مشاعرہ جسے ہمارے یہاں کبھی ادبی حیثیت حاصل تھی اور نئے شعرا کی تربیت گاہیں ہوا کرتی تھیں۔ آج اس کی صورت حال ادب کے سنجیدہ سامعین اور قارئین سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔اس غم کا احساس ہمارے بزرگوں نے جا بجا اپنی تحریروں میں کیا ہے۔ وارث علوی کا یہ بیان ملاحظہ کریں جس میں ان کا غصہ صاف نظر آتا ہے:
ادبی جلسوں میں سامعین کی تعداد آپ کو بتا دے گی کہ لوگوں کو ادب سے کتنی دلچسپی ہے۔ جم غفیر اگر آپ کو دیکھنا ہو تو مشاعروں میں جائیے مشاعروں نے شاعروں کی ایک ایسی نسل پیدا کی ہے جو صرف مشاعروں میں چہچہاتی ہے اور مشاعروں کے باہر کہیں نظر نہیں آتی۔ مشاعرہ باز شاعروں کو ادب، شاعری، زبان، فن اور زندگی کے مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ وہ جو صرف جاہل عوام کی مدح و ستائش پر جیتے ہیں اور جن کی ادبی عمر صرف مشاعروں کی چند جگمگاتی راتیں ہوتی ہیں وہ فی الحقیقت بورژوا سماج کی تفریحی منصوبہ بندی میں ادنیٰ دل لگی کے سامان سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔“ 
(اے پیارے لوگو، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دریا گنج، نئی دہلی، اکتوبر 1981، ص47-49)
اب تک میرے مطالعے میں شعرا کے علاوہ گجرات میں جو ادبی شخصیتیں نظر آئی ہیں جنھوں نے ادب کی دوسری اصناف میں اپنی خدمات انجام دی ہیں ان کا شمار انگلیوں پر کیا جا سکتا ہے۔ ان میں پروفیسر وارث علوی، سید ظہیر الدین مدنی اور بڑودہ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر انورظہیر انصاری کا نام قابلِ ذکر ہے۔اس کے علاوہ ایک اور نام ڈاکٹر محمد زبیر قریشی کا بھی لیا جا سکتا ہے۔ ہمارے لیے یہ حضرات اس لیے بھی اہم ہیں کہ انھوں نے ہمیں ادب فہمی کا سلیقہ سکھایا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایک اچھا ادیب، تخلیق کار یا شاعر بننے کے لیے اچھا ادب فہم ہونا ضروری ہے۔ ورنہ ادب کا جو حال ہوگا وہ ہماری نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔
گجرات کے ان بزرگوں کا ذکر کرنا بھی یہاں ضروری ہے جنھوں نے اردو ادب کی خدمت دیوانوں کی طرح کی ہے اور مزید ایسے لوگ ابھی زندہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے بزرگوں کے ادبی کارناموں کو منظرِ عام پر لانا چاہتے تھے۔اس تحریک میں ڈاکٹر سید ظہیرالدین مدنی، گجرات اکادمی کے سابق چیرمین مرحوم پروفیسر وارث علوی، احمدآباد کی پیر محمد شاہ لائبریری کے ڈائریکٹر پروفیسر محی الدین بومبے والا صاحب کے نام قابل ذکر ہیں۔
پروفیسر محی الدین بومبے والا نے اس لائبریری کے زیرِ اہتمام بہت سے ادبی سیمیناروں کا انعقاد کیا ہے اور متعدد کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ اس سلسلے میں گجرات اردو اکادمی نے جو پہل کی ہے وہ بھی قابل ستائش ہے۔ اکادمی نے نادر ونایاب مخطوطات کو کتابی شکل میں شائع کرکے اردو ادب کی روایت کو مستحکم کیا ہے۔ شبیر ہاشمی اور مولانا مظفر حسین کا ذکر بھی اس حوالے سے ضروری ہے کہ وہ گجرات اکادمی کے تعاون سے ادبی پروگراموں کا انعقاد کرکے لوگوں میں اس زبان و ادب کے تئیں دلچسپی پیدا کر رہے رہیں۔اس گفتگو کا اختتام اردو کے تابناک ماضی کی یاد میں، داغ کے اس شعر سے ہوتا ہے:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے 


Dr. Abdurrahman Faisal
Dept of Persian, Arabic and Urdu
The Maharaja Sayajirao University of Baroda
Pratapgunj
Vadodara- 390002 (Gujarat)


ماہنامہ اردو دنیا،جولائی 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں