2/9/19

اردو کی ابتدائی خواتین ناول نگار مضمون نگار: زلفی حسیب




اردو کی ابتدائی خواتین ناول نگار

زلفی حسیب 



اردو ناول نگاری کی ابتدا سے ہی مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین ناول نگاروں نے بھی اس میدان میں اپنے قلم کے جوہر دکھانے شروع کیے اور چند اہم موضوعات کو اپنے ناول کا حصہ بنایا جن میں بیشتر سماج کی ضرورت و اصلاح کی غرض سے لکھے گئے تھے۔ انھوں نے زندگی کے مسائل پر سنجیدگی سے لکھا اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔ ابتدائی دور کی خواتین کے یہاں ہمیں نذیر احمد اور راشد الخیری کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں بلکہ بیشتر خواتین نے ان دونوں ناول نگاروں کی تقلید میں ناول لکھے کیونکہ نذیر احمد نے ناول لکھنے کا آغاز کیا اور اپنا پہلا ناول (مراة العروس 1869) لکھا تو وہ لڑکیوں کی فلاح و بہبود اور ان کی تعلیم و تربیت کے متعلق ہی تھا اور اس کے بعد ان کی بے شمار تخلیقات لڑکیوں کی تعلیم اور ان کی خانگی زندگی کے متعلق ہی ہیں۔
یہ خواتین ناول نگار نذیر احمد اور راشدالخیری سے متاثر ہونے کے علاوہ رومانی تحریک سے بھی زیادہ متاثر تھیں۔ دراصل ان خواتین نے جس عہد میں لکھنا شروع کیا اس دور میں پریم چند کی حقیقت نگاری اور سجاد حیدر یلدرم کی رومان نگاری کی تحریک اپنے شباب پر تھی اور اس وقت کا ہر ادیب شعوری یا غیرشعوری طور پر انھیں دو تحریکوں سے متاثر ہوکر اپنی تخلیقات پیش کررہا تھا لیکن یہ ابتدائی خواتین ناول نگار پریم چند کی حقیقت نگاری کے برعکس سجاد حیدر یلدرم کی رومان نگاری سے زیادہ متاثر نظر آتی ہیں۔ بلکہ اس وقت کی جتنی بھی خواتین لکھ رہی تھیں ان پر رومانی تحریک کا زیادہ اثر دیکھنے کو ملتا ہے جنھوں نے رومانی تحریک کے زیراثر عورتوں کے مسائل کو سمجھ کر تعلیم نسواں اور حقوقِ نسواں کی حمایت میں اپنی مختلف تحریروں اور اپنے ناولوں کو پیش کیا۔ ان خواتین کے زیادہ تر ناول تعلیم نسواں اور اصلاح معاشرہ کی غرض سے لکھے گئے ہیں۔ عورتیں جس ماحول میں زندگی گزار رہی تھیں وہ ظاہر ہے نئے تہذیب و تمدن کے اعتبار سے بہت پیچھے تھا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ان کے لیے محال تھا۔ وہ گھر کی چہار دیواری، مذہبی رسم و رواج اور پردہ کی سخت پابندیوں میں جکڑی ہوئی تھیں۔
ان خواتین ناول نگاروں میں رشیدة النسا، صغرا ہمایوں، اکبری بیگم، نذرسجاد،حمیدہ سلطان مخفی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ رشیدة النساءاردو کی پہلی خاتون ناول نگار ہیں۔ ان کا مشاہدہ بہت وسیع تھا۔ انھوں نے لوگوں کو لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ کیا۔ جہالت اور جاہلانہ رسم و رواج کو ترک کرنے کی کوشش کی۔ وہ مولوی نذیر احمد سے متاثر تھیں۔
رشید ة النساءکا پہلا ناول ’اصلاح النسائ‘ (1881) ہے۔ اس ناول میں انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت اور جاہلانہ رسم و رواج کی مخالف کی ہے۔ ’اصلاح النساء ‘کی کہانی بہت طویل ہے۔ اس میں متوسط مسلم گھرانوں کی معاشرتی زندگی پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ اندازِ بیان دلکش اور زبان نہایت صاف سلیس، عام فہم اور روزمرہ کے محاوروں سے پر ہے۔ اس میں انھوں نے اس وقت کے ہندوستانی معاشرے کی بڑی حقیقی تصویرکشی کی ہے۔ خصوصاً مسلم معاشرہ کے روشن اور تاریک دونوں پہلووؤں کی وضاحت کی ہے۔
اپنے مقصد، تعلیم نسواں کی تکمیل کے لیے انھوں نے ’اصلاح النساء ‘میں اشرف النساءکو اپنا مثالی کردار بنا کر پیش کیا ہے جس کے سانچے میں وہ تمام لڑکیوں کو ڈھالنا چاہتی ہیں اسی کے ساتھ انھوں نے جاہلانہ رسم و رواج کے غلط نتائج و نقصانات کی بھی عکاسی کی ہے۔ اپنے اس ناول کے ذریعے انھوں نے تعلیم نسواں کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی ہے تاکہ مسلم خواتین جاہلانہ رسم و رواج اور ناخواندگی کو چھوڑ کر تعلیم کی طرف متوجہ ہوں تاکہ ان کی شخصیت کی تعمیر ہو اور معاشرہ ترقی کی طرف گامزن ہوسکے۔ اگرچہ اس دور میں بیشتر خواتین نے نذیر احمد اور راشدالخیری سے متاثر ہوکر لکھا لیکن بہت سی ایسی خواتین بھی ہیں جو ان دونوں حضرات کے اثر سے آزاد نظر آتی ہیں کیونکہ یہ دونوں ناول نگار مذہبی تعلیم اور امور خانہ داری کی اہمیت پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ان کے یہاں لڑکیوں کے لیے مغربی و اعلیٰ تعلیم کا کوئی تصور نہیں لیکن بیشتر خواتین ناول نگار نے لڑکیوں کے لیے نہ صرف مغربی تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا بلکہ پردہ کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کیا وہ دینی تعلیم کو لازمی قرار دیتی ہیں تو مغربی و جدید تعلیم بھی ان کے لیے اتنی ہی اہم ہے۔ نیلم فرزانہ لکھتی ہیں:
چند خواتین ناول نگار ایسی ہیں جنھوں نے خواتین کے لیے ایک نئی زندگی کا خواب دیکھا۔ نئی تعلیم و تہذیب سے بہرہ ور ہونا ان کا بھی حق ہے۔ ان کی ہیروئن کا اگر گھر کے اندر استحصال ہوتا ہے تو وہ اپنی زندگی بہتر بنانے کی خاطر گھر سے باہر نکل کر جدوجہد کرسکتی ہے۔ ان کے یہاں مغربی تعلیم و تہذیب کے بہتر عناصر کو انگیز کرنے کی جرأت ملتی ہے۔ ان کی ہیروئن پیانو بھی بجاتی ہے اور نماز بھی پڑھتی ہے۔ انگریزی تعلیم بھی حاصل کرتی ہے اور امورِ خانہ داری میں بھی طاق ہے اور غلط قسم کے مشرقی اور مغربی دونوں ہی طریقوں سے احتراز برتنے کی تلقین کرتی ہے۔“ 1
صغرا ہمایوں بھی ابتدائی خواتین ناول نگار میں سے ہیں۔ انھوں نے تقریباً 14 ناول لکھے۔ تحریر النساء،موہنی،مشیر نسواں،زہرہ اورسرگزشت ہاجرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ انھیں ’سرتاجِ خواتین ہند‘ کا خطاب بھی ملا کیونکہ انھوں نے ہندوستانی خواتین کی زبوں حالی اور پسماندگی کا بغور مطالعہ کیا اور انھوں نے مختلف ممالک کی سیر کرکے ہندوستانی خواتین کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی بے شمار کوششیں کیں مختلف مقامات پر تقریریں اور انجمنیں بھی قائم کیں اور مردوں کو بھی عورتوں کی پسماندگی کی طرف متوجہ کرکے اسے دور کرنے کی تجویزیں پیش کیں۔
انھوں نے اپنا ناول ’مشیر نسواں‘ (1906) اصلاحی غرض سے لکھا۔ وہ عورتوں کو جدید تعلیم کی اہمیت سے واقف کرانا چاہتی تھیں اور جدید تعلیم کو خواتین کے لیے ضروری سمجھتی تھیں۔ انھوں نے اپنے ناول مشیر نسواں میں سماجی، تہذیبی اور تعلیمی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ ناول کے اہم کردار رقیہ اور زہرہ ہیں۔ جو مسلمانوں کے اعلیٰ متوسط طبقہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس پورے ناول میں عورتوں کی زبوں حالی پر توجہ دلائی گئی ہے جس کی اصلاح کی۔ انھوں نے حتی الامکان کوشش کی ہے لیکن صغرا ہمایوں لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کے خلاف آواز آتی ہیں اور لڑکیوں کے لیے ایک الگ اسکول کی حمایت کرتی ہیں۔
ان کا دوسرا ناول ’سرگزشت ہاجرہ‘ (1929) ہے۔ اس ناول میں بھی انھوں نے اعلیٰ تعلیم اور مذہبی تعلیم دونوں کی ضرورت و اہمیت کی وضاحت پیش کی ہے۔ ان کے سبھی ناولوں میں تعلیم نسواں اور ان کی تربیت پر زور دیا گیا ہے۔ سرگزشت ہاجرہ میں انھوں نے روزمرہ کے معمول اور زندگی کے شب و روز کا کچھ اس طرح ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
صبح کے چھ بجے اٹھتی ہوں، نماز سے فارغ ہوکر سورہ یٰسین ضرور پڑھتی ہوں، باورچی کے پاس سودے کے پیسے بھجوا دیتی ہوں۔ ماما و مغلانی مل کر اناج نکالتیں، میں سامنے کھڑی رہتی، نو بجے ہمارے یہاں ناشتہ ہوتا، ناشتے سے فارغ ہوکر وہ اور ہم باغ میں ٹہلتے، مالی کو بتلاتے یہ درخت یہاں لگاؤ، وہ گملا وہاں رکھو۔ اس کے بعد میں باورچی خانہ میں جاتی، دیکھ بھال لیتی، گیارہ بجے میز پر کھانا آجاتا، کھاکر وہ کچہری جاتے۔ تھوڑی دیر کے لیے میں اپنی والدہ کے پاس چلی جاتی۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہن سے دل بہلاتی۔ پانچ بجے میں اپنے گھر واپس آجاتی۔وہ بھی آجاتے۔ چائے پینے کے بعد وہ باہر چلے جاتے۔ میں اندر اخبار یا کتاب پڑھتی جب شام ہوتی وہ یہ کہہ کر چلے جاتے کہ فلاں دوست کے ہاں دعوت ہے۔ میں نماز پڑھ کر کتاب پڑھتی یا کبھی سوجاتی ہوں ورنہ ان کے آنے تک جاگتی۔“2
اکبری بیگم بھی اہم ناول نگار ہیں۔ ’گلدستہ محبت‘ ان کا پہلا ناول ہے لیکن اب یہ ناول نایاب ہے۔ ان کا دوسرا ناول ’گودڑ کا لال‘ (1907) ہے۔ یہ ناول بھی اصلاح معاشرت کی غرض سے تصنیف ہوا ہے۔ ان کا یہ ناول عورتوں میں کافی مقبول رہا ہے اور تو اور لڑکیوں کے جہیز میں بھی دیا جانے لگا ان دونوں ناولوں میں انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں کے ابتدائی معاشرے کی تصویرکشی ملتی ہے لیکن اس میں صغرا ہمایوں کے نظریہ کے برعکس مخلوط تعلیم کی حمایت اور پردہ کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے اور جدید تعلیم کو لڑکیوں کے لیے ضروری قرار دے کر اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔
طیبہ بیگم نے بھی ناول لکھے۔ ان کے دو ناول ’حشمت النساءاور انور بیگم‘ کافی مشہور ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ناول بھی انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی معاشرے کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ تعلیم نسواں ان کا اہم موضوع ہے۔ اس کے علاوہ ان میں نئی اور پرانی تہذیب کی کشمکش بھی ملتی ہے۔
نذر سجاد نے انیسویں صدی کی آخری اور بیسویں صدی کی ابتدا میں ناول نگاری کا آغازکیا۔ ناول سے پہلے انھوں نے متعدد مختصر افسانے اور مضامین بھی لکھے۔ پہلے پہل انھوں نے مضمون نگاری سے اپنی ادبی تخلیقات کا آغاز کیا۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے پیش نظر ہی شمس العلما ممتاز علی نے 1910 میں ہفتہ وار اخبار ’پھول‘ کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ نذر سجاد پہلے بنت نذر الباقر کے نام سے مضمون لکھتی تھیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی بہت سی کہانیاں لکھیں جن میں سلیم کی کہانی، دکھ بھری کہانی، پھولوں کا ہار، سچی رضیہ اور ا س کی بکری وغیرہ شامل ہیں۔ نذر سجاد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی خواہش مند تھیں۔ جہاں بدلتے ہوئے سماج کے ساتھ زندگی جینے کا سلیقہ ہو۔ چونکہ اس وقت سماج میں ہر طرف تبدیلی کا دور دورہ تھا۔ صدیوں کا مشرقی نظام ٹوٹ رہا تھا اور مغرب کے زیراثر بہت سی چیزوں کو اخذ کیا جارہا تھا اس لیے نذر سجاد چاہتی تھیں کہ بدلتے ہوئے سماج اور معاشرے کے ساتھ عورت کو بھی اسی طرح زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو جہاں وہ معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکے لیکن وہ اسی وقت معاشرے کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرسکتی ہے جبکہ وہ مشرقی و مغربی دونوں طرح کی تعلیم سے آراستہ ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے تقریباً سبھی ناولوں کا موضوع تعلیم نسواں ہے جو ان کا اصل مقصد تھا اور جس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے ناول تخلیق کیے۔ ان ناولوں میں انھوں نے تعلیم نسواں پر زور دینے کے علاوہ سماج میں پھیلی ہوئی جاہلانہ رسم و رواج کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کرکے ان کے نقصانات سے آگاہ کیا ہے لیکن یہ رسمیں بھی نذر سجاد تعلیم کے ذریعے ہی ترک کرنا چاہتی تھیں کیونکہ جب خواتین تعلیم حاصل کریں گی تو وہ ان جاہلانہ رسم و رواج کو بھی ترک کردیں گی لہٰذا ان سب برائیوں اور معاشرتی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے لڑکیوں کا تعلیم یافتہ ہونا نہایت ضروری ہے۔
نذرسجاد نے کئی اہم ناول لکھے جن میں’اختر النساءبیگم (1910)،جاں باز(1919)،آہ مظلومہ (1914)،ثریا(1940)،نجمہ(1939)،حرماں نصیب،مذہب اور عشق (1935) قابل ذکر ہیں۔ یہ تمام ناول انھوں نے اصلاح معاشرہ کی غرض سے لکھے اور ناخواندگی، دوسری شادی،عورتوں پر ہونے والے مظالم اور معاشرہ میں رائج فرسودہ رسم و رواج کو اپنے ناولوں کا موضوع بنا کر ان کی نشاندہی کی اور ان کی اصلاح کی طرف سماج کی بھی توجہ مبذول کرائی۔
ان خواتین کے علاوہ محمد بیگم ہیں،جنھوں نے تین ناول لکھے۔ صفیہ بیگم ’آج کل اور شریف بیٹی‘،حسن بیگم کا ناول’روشنگ بیگم‘(1920)،طیبہ بیگم کا’انوری بیگم‘،عباسی بیگم کا ناول’زہرہ بیگم‘ (1935)، ضیا بانو کے تین ناول فغانِ اشرف، فریب اشرف، انجامِ زندگی، حمیدہ سلطان کا ’ثروت آرا بیگم‘ (1942)، بیگم شہنواز کا ’حسن آرا‘، اور ظفر آرا بیگم کا ’اختری بیگم‘ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ان تمام خواتین نے اپنے زمانے کی عورتوں کی زبوں حالی، پسماندگی اور ناخواندگی کا بغور مطالعہ کرکے عورتوں کی معاشرتی حالت کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور اپنی تصانیف بھی خواتین کی اصلاح کی غرض سے لکھیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے معاشرے میں پھیلے غلط رسم و رواج کی طرف بھی توجہ دلائی اور اپنے ماحول اور اپنے سماج کی حقیقی تصویریں پیش کیں۔
علاوہ ازیں ان سب کے یہاں زبان و بیان کی سادگی اور شائستگی نظر آتی ہے۔ کہیں بھی رنگیں بیانی اور لفاظی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ البتہ ان تمام خواتین کے یہاں مشترکہ موضوعات ضرور نظر آتے ہیں کیونکہ ان سب کا منصب اس وقت کے سماج اور معاشرے کی زبوں حالی اور جاہلانہ رسم و رواج کو ختم کرکے خواتین کو تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ کرنا تھا اس وجہ سے ان خواتین کی تخلیقات میں موضوعات کی وسعت اور ناول کے فنی لوازمات کی پابندگی نظر نہیں آئے گی بلکہ ان ابتدائی ناول نگاروں سے ناول کے فنی لوازمات و معروضیات کی توقع بھی نہیں کرنی چاہیے۔
ان خواتین کے ناولوں کے کردار معاشرتی اور اخلاقی الجھنوں میں گرفتار رہتے ہیں۔ ان ناولوں کے بیشتر کرداروں کا تعلق عورتوں کی شخصی زندگی اور اس کی اس حیثیت و وقار سے ہے جو اسے اس وقت کے معاشرے میں حاصل تھی۔ اسی لیے خواتین ناول نگاروں نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم کے بغیر نہ تو عورتوں کو سماجی وقار مل سکتا ہے اور نہ ہی تعلیم کے بغیر ان کی خانگی زندگی کامیاب ہوسکتی ہے۔ انھوں نے پڑھنے لکھنے اور خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کو معاشرتی زندگی کی کامیابی بتایا ہے اور عورتوں کو بہترین زندگی گزارنے کاایک ایسا راستہ بتایا جس پر چل کر انھیں کامیابی حاصل ہو۔ ان سب کا ماننا تھا کہ ایک عورت تعلیم حاصل کرکے ہی اپنی دشوار زندگی کو آسان بنا سکتی ہے کیونکہ عورتوں کے تمام مسئلوں کی جڑ تعلیم سے دوری ہے اگر انھیں تعلیم سے آراستہ کردیا جائے تو وہ اپنے ماحول سے خود کو ہم آہنگ کرسکتی ہیں اس لیے کہ بغیر تعلیم کے انھیں نئے ماحول اور نئے ساتھیوں میں ڈھلنے میں پریشانی ہوتی ہے۔
ان ناولوں میں ہمیں مختلف طرح کے کردار نظر آتے ہیں۔ ایک طرف وہ کردار ہیں جو اپنی پرانی مشرقی اقدار کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں جو مشرق اور مغرب کے بیچ تذبذب میں نظر آتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو بنا کسی کشمکش کے مغربی اقدار بلا تامل اپنا لیتے ہیں اور کچھ ایسے کردار ہیں جو مغربی نظام کی اچھائیوں کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انھیں اپنی مشرقی اقدار کا بھی پاس و لحاظ ہے اسی لیے وہ دونوں کی اچھائیوں کو اپناتے ہیں اور میانہ روی اختیار کرکے بیچ کا راستہ نکالتے ہیں۔ ان خواتین کے یہاں بیشتر کردار ایسے نظر آتے ہیں جو مغربی و مشرقی امتزاج سے خود کو ترقی یافتہ سماج میں ڈھالنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور ایسے کردار زیادہ کامیاب اور آئیڈیل بھی نظر آتے ہیں جو مشرقی اور مغربی امتزاج سے ابھر کر جنم لیتے ہیں اور خود کو اپنے ماحول اور عہد سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب و اقدار کا بھی پورا پورا لحاظ رکھتے ہیں۔
خواتین کے ناولوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں وہ نظام دیکھنے کو ملتا ہے جس کی تہذیب اس وقت مٹتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ بیشتر خواتین ناول نگاروں کے یہاں متوسط مسلم گھروں  کا ماحول نظر آتا ہے جن کی زندگی میں ایک طرف ماضی کی مٹتی ہوئی تہذیب و قدر کا ماتم ہے تو دوسری طرف آنے والے نئے نظام کا عکس۔ اس منظر میں خواتین کو چونکہ گھر کی چہار دیواری میں رہ کر دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا لہٰذا اس کی پیش کش میں ان کی نظر گہری رہی ہے۔ فاطمہ بیگم سے لے کر نذر سجاد تک سب نے اس کو پیش کرنے میں مہارت کا ثبوت دیا ہے۔
ان ناولوں میں ہمیں اس عہد کے رسم و رواج کی تصویرکشی بھی مل جاتی ہے۔ ہندوستانی مسلم گھرانوں کے رسم و رواج کو شادی بیاہ کی رسومات کا بھی بخوبی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ ان خواتین نے ہر قسم کے رسم و رواج کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ بچے کی پیدائش سے لے کر شادی بیاہ اور قضا و موت کی تمام رسموں کو تفصیل کے ساتھ اپنی تخلیقات میں پیش ہے۔ وقار عظیم لکھتے ہیں:
ہماری معاشرتی زندگی میں ان رسموں کی جو اہمیت ہے اسے ان ناول نگار خواتین نے پوری طرح محسوس کیا ہے اور ان کی تفصیلیں بیان کرتے وقت پورے فنی خلوص اور انہماک سے کام لیا ہے۔ کبھی کبھی وہ ان ناولوں میں ان رسوم کو ترک کرنے کی طالب و خواہاں نظر آتی ہیں اور بعض اوقات انھیں اپنے مقصد میں کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے لیکن اس بات سے قطع نظر کہ ان رسوم میں کیا کیا اچھائیاں اور برائیاں ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں ان کا ترک معاشرہ کے لیے مفید ہے یا مضمر، ان کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت مسلم ہے اور ان کے پیچھے اس قوم کے خیالات و جذبات اور اس سے بھی زیادہ نظریہ حیات کا جو گہرا پرتو ہے وہ انھیں تاریخ کا ایک بیش بہا سرمایہ بناتا ہے اور یہ بیش بہا سرمایہ ہمیں عورتوں کی بدولت ملا ہے جو خواہ فن کے بڑے کامیاب نمونے نہ ہوں لیکن زندگی کے موثر اور حسین و جمیل مرقعے ضرور ہیں۔3
ان خواتین نے تعلیم نسواں اور آزادی نسواں کو اپنا موضوع بنایا اور ان کے ناولوں کا مقصد سماجی زندگی کی حقیقتوں کو سامنے لانا خاص کر خواتین کی حالت کو بہتر بنانا اور ان کو جہالت، ناخواندگی اور زبوں حالی سے نکال کر آزادی اور مساوات کا حق دلانا ہے جس کے لیے انھوں نے تعلیم نسواں کو خاص اہمیت دی اور اپنے ناولوں میں بھی ایسے قصے کہانیاں پیش کیے جن میں لڑکیوں کے لیے مغربی و مشرقی تعلیم کو ضروری قرار دیا۔ اس کے باوجود خواتین کی ان اصلاحی کوششوں کو ناول کی تاریخ لکھنے والوں نے بہت سرسری طور پر بیان کیا ہے جس سے ان ابتدائی خواتین ناول نگاروں کی تخلیقات کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ ناقدین کی اس بے پرواہی کا گلہ قرة العین حیدر نے بھی کیا ہے جنھوں نے ابتدائی دور کی خواتین ’صغرا ہمایوں‘ سے لے کر ’نذر سجاد‘ تک لکھنے والیوں کو نظرانداز کیا اور ان کا صرف سرسری ذکر کرنے پر اتفاق کیا۔ قرة العین حیدر لکھتی ہیں:
ایک نامور ترقی پسند نقاد نے بہت ہی استہزائیہ انداز میں اماں اور دوسری خواتین ناول نگاروں کا تذکرہ یوں کیا ہے گویا وہ بہت حقیر صنف سے تعلق رکھتی تھیں اور ذہنی لحاظ سے بہت پسماندہ تھیں اور یہی ترقی پسند نقاد آزادی نسواں اور عورتوں کی ہمسری کا راگ الاپتے تھے..... ایک اور مشہور و معروف مارکسس نقاد نے نذر سجاد حیدر کے متعلق تحریر کیا کہ انھوں نے ناول لکھنے کی کوشش کی..... جملہ پورا نہیں کیا۔ اس احساس برتری اور بددماغی کا کوئی جواب نہیں۔ یعنی وہ صدیوں پرانی Fuedal مردانہ برتری کا رویہ ان کے یہاں برقرار تھا۔“4
علی عباس حسینی نے بھی اپنی کتاب ’اردو ناول کی تاریخ و تنقید‘ میں خواتین ناول نگار کا تذکرہ اس طرح کیا ہے کہ صرف ان ابتدائی خواتین ناول نگار کا نام گنوا دینا کافی سمجھا اور یہ کہہ کر اپنی بات ختم کردی ہے کہ خواتین نے بھی کچھ قصے اور ناول لکھے ہیں۔ وہ خواتین کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس اصلاحی دور میں جب مسلم خواتین کو تعلیم کی طرف راغب کیا جارہا تھا کچھ پڑھی لکھی عورتوں نے چھوٹے قصے اور ناول لکھے۔ ان کا مقصد لڑکیوں کو صحیح تعلیم دینا اور انتظام خانہ داری بتانا تھا۔ ان کی غرض حسن و عشق کی کہانی سنانا نہ تھی اور نہ جنسیات، اقتصادیات و سیاسیات کے مسائل سے بحث ان کا مقصد تھا۔ یہ سب کی سب کتابیں مولانا نذیر کی تقلید میں لکھی گئی ہیں۔“5
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ علی عباس حسینی نے ان خواتین کی محنت و کوشش کوصرف چار سطروں میں بیان کردینا ضروری سمجھا۔ جب کہ ابتدائی دور کی ان خواتین نے نہ صرف تعلیم نسواں کی ہی طرف لوگوں کو متوجہ کیا بلکہ ان خواتین نے سماج میں پھیلی بہت سی برائیوں کو ختم کرنے اور عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف بھی آواز اٹھائی، آزادی نسواں اور تعلیم نسواں کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ سماجی اصلاح میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مولوی نذیر کے قصوں کی تقلید سے آگے بڑھ کر بہت سے اہم ناول لکھے۔ لڑکیوں کے لیے نہ صرف مذہبی تعلیم اور امورخانہ داری کی تعلیم کا بلکہ جدید و اعلی مغربی تعلیم کی بھی حمایت کی۔ اس کے باوجود بیشتر نقادوں نے ان کے مختصراً ذکر پر اکتفا کیا ہے۔
یوسف سرمست نے اپنی کتاب ’بیسویں صدی میں اردو ناول‘ میں ان خواتین ناول نگاروں کے ناولوں اور قصوں کی وضاحت کی ہے لیکن سب سے زیادہ اہم بات جو یوسف سرمست نے لکھی ہے وہ یہ کہ انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ کچھ خواتین ناول نگاروں نے ضرور نذیر احمد اور راشدالخیری کی اتباع میں ناول لکھے جن کا موضوع تعلیم نسواں اور مذہبی تعلیم ہے لیکن کچھ خواتین نے نذیر احمد اور راشدالخیری کے اثر سے آزاد ہوکر بھی بہت سے ناول تخلیق کیے۔ یوسف سرمست لکھتے ہیں:
بہت سے ناول ایسے ہیں جو نذیر احمد اور راشدالخیری کی تقلید اور ان کے اثر سے صاف طور پر باہر نظر آتے ہیں۔ اس لیے ناولوں کی مصنفہ اپنی انفرادیت بھی رکھتی ہیں۔ نذیر احمد مغربی تہذیب کے ساتھ مذہبی احکام کی بجا آوری کو ناممکن سمجھتے تھے۔ راشد الخیری کے ہاں تو مغربی تہذیب کا اختیار کرنا گویا مذہب ہی سے نہیں بلکہ اخلاق سے بھی بیگانہ ہوجانے کا نام ہے لیکن اس کے برخلاف ایسی تمام خواتین ناول نگار جو نذیر احمد اور راشدالخیری کے اثر سے باہر ہیں۔ نہ صرف مغربی تہذیب کے ساتھ مذہبی احکام کی بجا آوری کو ممکن سمجھتی ہیں بلکہ اس کو مستحسن قرار دیتی ہیں۔ اس لیے وہ مغربی تہذیب کے ساتھ مشرقی قدروں کو بھی اپنانے پرزور دیتی ہیں۔“ 6
بہرحال یوسف سرمست نے کچھ حد تک خواتین کے ناولوں اور ان کے قصوں کی مختصراً وضاحت کی ہے۔ اس کے علاوہ وقار عظیم نے بھی اپنی کتاب ’داستان سے افسانے تک‘ میں ان ابتدائی خواتین کے ناولوں کا کچھ حد تک ذکر کیا ہے۔ اس کے برخلاف ڈاکٹر نیلم فرزانہ نے اپنی کتاب ’اردو ادب کی اہم خواتین ناول نگار‘ میں وضاحت کے ساتھ ان خواتین کی اصلاحی کوششوں اور ان کی ادبی تخلیقات کا ذکر کیا اور اردو ادب میں ان کے مقام و مرتبہ کی اہمیت کو بھی تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے۔
حواشی
1۔           ڈاکٹر نیلم فرزانہ: اردو ادب کی اہم خواتین ناول نگار، نئی دہلی، براؤن بک پبلی کیشنز، 2014، ص 17
2۔           صغرا ہمایوں: سرگزشت ہاجرہ بحوالہ وقار عظیم، داستان سے افسانہ تک، دہلی، طاہر بک ایجنسی، 1972، ص 122
3۔           وقار عظیم: داستان سے ناول تک، دہلی، طاہر بک ایجنسی، 1972، ص 132
4۔           قرة العین حیدر: کار جہاں دراز ہے، دہلی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 2003، ص 279
5۔           علی عباس حسینی: اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، لکھنؤ، انڈین بک ڈپو2000، ص 342/355
6۔           یوسف سرمست: بیسویں صدی میں اردو ناول، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، ص 178/179


Zulfi Haseeb
Room No: 47, Shipra Hostel JNU
New Delhi - 110067
Mob.: 9968431550



 ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے






1 تبصرہ:

  1. کیا ماہنامہ اردو دنیا وائی کیٹگری میگزین ہے؟
    پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے لئے اس میں مقالہ شائع کروایا جا سکتا ہے؟

    جواب دیںحذف کریں