5/12/19

انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں مضمون نگار۔ بلال احمد ڈار

انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں 
بلال احمد ڈار
جب ہم انشائیہ کے ابتدائی نقوش تلاش کرتے ہیں تو ہماری تلاش فرانس کے ادیب مشیل دی مونتین پر ختم ہوجاتی ہے کیونکہ انھیں مغرب میں اس صنف کا موجد و بانی قراردیا گیا ہے۔ان کی انشائیہ نگاری کا سورج ہر دور میں چمکتا ہی رہا ہے اور ہر زمانے میں اسے پڑھنے والوں کا ایک حلقہ میسر آتا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انشائیہ میں مونتین کی اولیت کے باوجود اسے حتمی،مثالی یا حرفِ آخر قرار نہیں دیا گیا۔ زندگی کے آخری ایام میں دنیا کے ہنگاموں سے بالا تر ہو کر مونتین نے اپنے آپ کو پڑھنے لکھنے کے لیے وقف کردیا۔ فرصت کے ان ایام میں اس نے اپنی فہم و فراست اور قابلِ داد صلاحیتوں کی آزمائش کے لیے مختلف عنوانات پر غیر رسمی انداز میں قلم برداشتہ لکھنا شروع کیا۔ مونتین نے اس ذہنی آزمائش اور غیرمربوط خیالات کوEssai کا نام دیا۔
مونتین نے ایسیز کی پہلی جلد 1573 میں تیار کی۔ 1580 میں اس کے ایسیز کی دو جلدیں طبع ہوئیں۔ تین سال بعد ان کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا جس میں خاصے اضافے بھی کیے گئے تھے۔1603 میں جان فلوریو نے مونتین کی 1580 میں مطبوعہ دو جلدوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔اس کے بعد چارلس کارٹن نے 1685 میں مونتین کے ایسیز کا ترجمہ کیا۔اس طرح فرانسیسی ESSAIS  نے انگریزی ESSAY کی صورت اختیار کرلی۔ انگلستان میں ایک مشہور ادیب اور فلسفی فرانسس بیکن مونتین کے لکھے ہوئے ایسیز سے بے حد متاثر ہوا اور انھوں نے مونتین کے طرز نگارش پر خود بھی ایسیز لکھنا شروع کیے۔ بیکن اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک تھے لہٰذا انھوں نے بہت اچھے ایسیز لکھے۔1597 میں بیکن نے دس ایسیز پر مشتمل ایک کتاب  ESSAYکے نام سے طبع کی۔بیکن نے 1597 سے1625 تک 85 ایسیز قلمبند کیے۔بیکن کے ایسیز پڑھ کر ان کے قادر الکلام ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ ان کے ایسیز کی خاص بات اختصار پسندی ہے۔ بیکن نے اپنے بیان میں غیر ضروری مباحث کے بجائے دلیل وبرہان سے کام لیاہے۔ان کے جملے ترشے ہوئے اور سانچوں میں ڈھلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔بیکن اپنے ایسیز کو پریشان افکار Dispersed Meditation کہتا ہے لیکن بیکن کے ایسیز کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے یہ ایسیز خاص غوروخوض کے بعد ہی مضامین کی صورت میں لکھے ہیں۔ان کے انشائیوں سے علم و دانش کا جو سرچشمہ پھوٹا اسے نہ صرف عہد آفرین قرار دیا گیا بلکہ اس کے لیے ایک خاص اصطلاح Beccenian Wisdomبھی وضع کی گئی جو آج تک مستعمل ہے۔بیکن کے انشائیے طوالت کے اعتبار سے چھوٹے تھے لیکن ان میں دانش کا وسیع ذخیرہ موجود تھا۔بیکن نے مونتین سے انشائیہ کی ہیئت تو حاصل کرلی تھی مگر اپنے مضامین پر فرانسیسی مزاج کا اثرنہیں آنے دیا۔بیکن اور مونتین کے ایسیز کا تقابلی موازنہ کرتے ہوئے سید ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں:
انگریزی ادب میں مونٹین اور بیکن کا مقابلہ و موازنہ کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ مونٹین نے اپنے ایسیز آتشدان کے سامنے آرام کرسی پر لیٹے لیٹے لکھے ہیں اور بیکن نے بڑے غوروخوض کے بعد اپنے خیالات کو مرتب کرکے جیسے دفتر میں بیٹھ کر باقاعدگی سے لکھے ہیں۔ بیکن کے ایسیز اپنے اندازِ بیان اور اخلاق آموز ہونے کی وجہ سے خاصے مقبول ہوئے۔
(اردو ایسیز:ظہیر الدین مدنی،ص:1)
مونٹین کے ایسیز میں ادیب کی شخصیت اور ادیب کے جذبات و احساسات جلوہ گر ہیں جب کہ بیکن کے ایسیز معروضی نوعیت کے ہیں اور علمی ہونے کی وجہ سے فلسفیانہ رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔دونوں ادیب ایسّے نگاری میں الگ الگ اسلوب کے خالق ہیں۔متاخرین میں ایسّے نگاروں کی ایک بڑی تعداد ان ہی دو نمایاں اور نمائندہ اسالیب کا تتبع کرتی نظر آتی ہیں۔بیکن کے بعد انگریزی ایسّے نگاروں میں ابراہیم کاولے کو بہت ہی نمایاں مقام حاصل ہے۔انگریزی ایسّے کے ابتدائی دور کے ایسّے نگاروں میں سر تھامس اوور بری اور جان ارل وہ ایسّے نگار ہیں جنھوں نے تھیو فراسٹس کے طرز پر کردار نگاری کی ہے۔انگریزی اخبارات و جرائد نے بھی انگریزی ایسّے نگاری میں اہم خدمات انجام دی ہیں۔
اردو ادب میں لفظ انشائیہ انگریزی لفظ Essay کے معنوں میں ہی استعمال ہواہے۔انگریزی میں رسمی یا غیر رسمی،شخصی،سماجی،تنقیدی،سیاسی یا مذہبی وغیرہ ہر طرح کے مضامین کے لیے یہی لفظ استعمال ہوا ہے۔انگریزی ادب میں لائٹ ایسّے یا پرسنل ایسے یا آرٹیکل کو مجموعی طور پر ایسّے ہی کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔اردو میں پہلے پہل ایسّے کے لیے اردو زبان کا لفظ مضمون استعمال کیا جاتا تھا بعد میں اس لفظ کو اردو والوں نے متعدد معنوں میں استعمال کیا اور ہر قسم کے ادب پاروں مثلاً علمی، تنقیدی، سوانحی،رسمی یا غیر رسمی وغیرہ کے لیے لفظ  ’مضمون‘ کا استعمال کیا جانے لگا۔انگریزی لفظ ایسّے کی طرح اردو لفظ ’مضمون‘ بھی وسعت اور جامعیت کے اعتبار سے ہر طرح کے موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹنے لگا۔مضمون میں طنزیہ اور مزاحیہ ادب پارے بھی جگہ پا گئے۔علمی مقالوں، مذہبی اور سوانحی مقالوں،شخصیات کے خاکوں، مراسلوں، جلسوں اور جلوسوں کی رپورتاژ، روزنامچوں اور اداریوں کو مجموعی طور پر مضمون ہی کہا جاتا تھا۔لیکن یہ حالت زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔جوں ہی اردوزبان میں وسعت آئی اور اس میں مختلف ناموں کے تحت نئی اصناف نے جنم لینا شروع کیا اور بعض اصناف مغربی ادب کے زیر اثر اس میں پنپنے لگیں۔وقت گزرنے کے ساتھ اردو ادب میں بعض ایسے ادب پارے تخلیق کیے جانے لگے جو غیر رسمی انداز بیان اور ایک منفرد اسلوب کی بنا پر مراسلوں، مقالوں، کیفیہ، سوانحی مضامین، اداریہ، خاکہ، روزنامچہ وغیرہ سے بالکل مختلف نوعیت کے حامل تھے۔اس نوعیت کے مضامین کو لائٹ ایسّے، انشائے لطیف، لطیف پارہ، مضمون  لطیف،طیفیہ، مراقبہ، افکارِ پریشاں وغیرہ کا نام دیا جانے لگا۔ بعد میں لائٹ ایسّے یا انشائے لطیف جیسے مضامین کو ہی انشائیہ کا نام ملا اور اردو ادب میں انشائیہ ایک تناور درخت کی صورت میں ابھر کر پروان چڑھنے لگا۔دیگر اصناف کی طرح انشائیہ کو بھی ایک صنف کی حیثیت سے تسلیم کیا جانے لگا۔اردو میں آکر ایسّے نے پہلے مضمون کاچولا اختیار کیا اور مضمون کے ہی بطن سے انشائیہ نے جنم لیا۔انشائیہ ترقی کے مختلف مدارج طے کرتے کرتے اپنی تکنیک،ہیئت اور اسلوب کے اعتبار سے نثری ادب میں ایک الگ صنف کی حیثیت سے پہجانا جانے لگا۔سید محمد حسنین ’انشائیہ کی صنفی حیثیت کی یوں وضاحت کرتے ہیں:
انشائیہ مضمون کی ایک قسم ہے،بظاہر یہ خیال درست ہے۔پر یہ وہ مضمون نہیں جس میں مراسلہ کی خبر و خیر یت ملتی ہے یا مقالہ کی معلوماتی اور فکر انگیز روشنی،جس میں کیفیہ کی رقت خیزی ہو یا سوانح حیات کے تاریخ وار کارنامے،جس کی روئداد کی خشک کارروائیوں کا ذکر ہو یا روزنامچہ کے لخت لخت غیر متعلق بیانات،جس میں خاکہ کے رخ روشن کی تابانی نظر آئے یا رپورتاژ کی تاثراتی تفصیلات...مراسلہ، مقالہ، کیفیہ، سوانح حیات، روئداد، خاکہ اور رپورتاژ مضمون کی مختلف شکلیں ہیں،ایسی مخصوص شکلیں جنھیں ہم ’اصناف‘ (Genres)کا مرتبہ دیتے ہیں۔ ان مضمون نما شکلوں میں انشائیہ بھی تحریر کی ایک منفرد صورت ہے اور نثری ادب میں اس کا اپنا ایک صنفی مقام ہے۔“(انشائیہ اور انشائیے: سید محمدحسنین،ص:21)
لائٹ ایسّے، انشائے لطیف، مضمونِ پریشاں، کیفیہ وغیرہ کس طرح اور کب اردوادب میں انشائیہ کے نام سے موسوم ہوئے اور انشائیہ کی اصطلاح کو اردو ادب میں سب سے پہلے کس نے رائج کیا اس بارے میں حتمی فیصلہ بہت ہی مشکل ہے۔ سید محمد حسنین کا کہنا ہے کہ اردو میں سب سے پہلے ’انشائیہ‘ کو صنفی لحاظ سے متعارف کرانے کا سہرا ڈاکٹراختر اورینوی کے سر جاتا ہے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ1944 میں ’ترنگ‘ کے نام سے شائع ہوا۔اس میں سید اختر نے ’تعارف‘ کے زیر عنوان مقدمہ لکھا۔ فاضل مقدمہ نگار نے اس طرح کی تحریروں کو انشائیہ کا نام دیا۔ پروفیسر یوسف بلخی اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
یہ قول حقیقت پر مبنی نہیں کہ اردو میں انشائیہ کو صنفی لحاظ سے سب سے پہلے ڈاکٹر اختر اورینوی نے ادب میں روشناس کرایا۔بیسویں صدی کے ربع اول میں انشائیہ کے متعدد نمونے شائع ہوتے رہے جن میں خواجہ حسن نظامی کی سیپارہئ دل،نیاز فتحپوری کی ’نگارستان‘کے انشائیے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔نثری نمونوں کی چھان بین سے ان سے پیشتر بھی انشائیوں کے نمونے ملتے ہیں۔“ 
(اردو ز بان: انشائیہ نمبر،جلد 18مارچ اپریل 1983سرگودھا پاکستان، ص:8)
سید سجاد نقوی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ’انشائیہ‘ کی اصطلاح ڈاکٹر وزیر آغا نے تجویز کی۔پروفیسر جمیل آزر ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب’خیال پارے‘ کو انشائیوں کا پہلا مجموعہ قرار دیتے ہیں۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انشائیوں کے اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی اردو ادب میں اس صنف کی باقاعدہ تحریک کا آغاز ہوا۔ڈاکٹر وزیر آغا اردو انشائیہ کے سلسلہئ نسب کے بارے میں خود کیا رائے رکھتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
اختر اورینوی وہ پہلا ادیب تھا جس نے لوگوں کو شعوری طور پر لائٹ ایسّے کے مزاج سے آشنا کرنے کی کوشش کی۔ اختر اورینوی نے علی اکبر قاصد کے مضامین کے مجموعے کا جو دیباچہ تحریر کیا اس میں پہلی بار نہ صرف لائٹ ایسّے کے متقضیات کے بارے میں کھل کر لکھا بلکہ لائٹ ایسّے کے لیے انشائیہ کا لفظ بھی استعمال کیا مگر جن مضامین (یعنی علی اکبر قاصد کے مضا مین) پر اس نے لفظ ’انشائیہ‘ چسپاں کرنے کی کوشش کی وہ عام سے طنزیہ مزاحیہ مضامین تھے،جن کا انشائیہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اختر اورینوی انشائیہ کے مقتضیات کو پیش کرنے پر قادر تھا لیکن انشائیہ کو پہچاننے میں کامیاب نہ ہوا،اسی لیے اس کا تجویز کردہ لفظ ’انشائیہ‘ بھی اس زمانے میں مقبول نہ ہوسکا۔
(ماہنامہ ’شاعر‘  ممبئی، جلد44شمارہ:2، 1995ص:10)
وزیر آغا کا کہنا ہے کہ 1950سے1960 تک کے عرصے میں انھوں نے رسالہ ’ادب لطیف‘کے لیے بہت سارے پرسنل ایسّے تحریر کیے جنھیں ادب لطیف میں انشائے لطیف،لطیف پارہ،مضمون لطیف وغیرہ کے عنوان سے شائع کیا گیا۔پھر انھوں نے ’ادب لطیف‘ کے مدیر مرزا ادیب سے اس نوع کی تحریروں کے لیے ’انشائیہ‘ کا لفظ مختص کرنے کی تجویز پیش کی جس کو مرزا ادیب نے قبول کیا۔وزیر آغا نے ’انشائیہ‘ کا لفظ بھارت کے کسی رسالے سے لیا تھا۔وہ لکھتے ہیں:
انھیں دنوں ہندوستان میں فکاہی مضامین کے لیے بعض ادبا نے’انشائیہ‘کا لفظ استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔راقم الحروف نے ادبِ لطیف کی معاونت سے اس لفظ کو لائٹ ایسّے کے لیے استعمال کرنے کا آغاز کیا اور خوش قسمتی یہ ہوئی کہ نہ صرف اردو انشائیہ کی تحریک کامیاب ہوئی بلکہ اس کے ساتھ میں لفظ انشائیہ بھی مقبول ہوگیا۔
)18  ماہنامہ ”شاعر“  ممبئی، جلد44شمارہ:2، 1995ص:11)
ڈاکٹر سلیم اختر ِ،وزیر آغا کے اس خیال سے متفق نہیں ہیں کہ اردو ادب میں لفظ ’انشائیہ‘ کو پہلی بار رائج کرنے کا سہرا وزیر آغا کے سر جاتا ہے۔بقول ان کے کہ اردو ادب میں ’انشائیہ‘ کا لفظ بذاتِ خود خاصا پرانا ہے۔ان کے خیال میں محمد حسین آزادنے سب سے پہلے لفظ انشائیہ وضع کیا اور سب سے پہلا انشائیہ آزاد نے ہی لکھا ہے۔سلیم اختر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا سے پہلے بہت سارے ادیبوں نے اپنی تحریروں میں انشائیہ کا لفظ استعمال کیاہے۔مولانا شبلی نے ’موازنہئ انیس و دبیر‘ میں بلاغت کی بحث کے سلسلہ میں انشائیہ کا لفظ استعمال کیاہے۔
ان مباحث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی صنف ادب کووجود میں آنے سے پہلے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتاہے۔انشائیہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔انگریزی کے ایسّے نے اردو میں آکر ’مضمون‘ کی صورت اختیار کی۔مضمون نگاری کی کوکھ سے انشائیہ نے جنم لیا اور اب اردو ادب میں انشائیہ ایک تنومند درخت کی حیثیت سے اپنے قدوقامت اور منفرد خصوصیات کی بنا پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ 
اردو انشائیہ کی اصطلاح ایک مخصوص صنف ادب کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کا ایک خاص داخلی مزاج ہے۔اردو میں بلا شبہ انشائیہ انگریزی سے آیا لیکن کچھ محققین کے مطابق اردو انشائیہ بھی اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انگریزی انشائیہ۔جس دور میں Essayکو رواج دیا گیا، اردو میں بھی اسی طرح کے مضامین لکھے جارہے تھے۔اس لیے کسی نے انشائیہ نگاری کی روایت کوملا وجہی سے جوڑ دیا اور کسی نے سرسید سے اور کسی نے سجاد حیدر یلدرم سے۔ڈاکٹر انور سدید انشائیہ اردو ادب میں‘ لکھتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صنف کے کچھ نقوش بکھری ہوئی حالت میں قدیم اردو نثر میں بھی مل جاتے ہیں۔جاوید وششٹ نے اپنی کتاب’انشائیہ اور انشائیہ پچیسی‘میں ملا وجہی  کی کتاب’سب رس‘کو انشائیہ کا نقش اول قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ وجہی نے سب سے زیادہ انشائیے فطرت انسانی سے متعلق ہی لکھے ہیں:
اردو انشائیہ کی ابتدا قطب شاہی دربار کے تاریخی ادبی معرکہ سے ہوئی۔یہ معرکہ ملا وجہی اور ملا غواصی کے مابین کم و بیش تیس سال تک جاری رہا۔ملا وجہی کی طبع زاد مثنوی قطب شاہی سے اس امر کا آغاز ہوا۔سب رس اس کا نقطہ عروج بھی ہے اور خاتمہ بھی۔
(انشائیہ اور انشائیہ پچیسی:جاوید وششٹ، ص:157)
لطیف ساحل نے لکھا ہے:
 ”سب رس بنیادی طور پر داستان کی کتاب ہے لیکن مصنف اپنی علمی، فکری اور صوفیانہ اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے جابہ جا انشائیے لکھتا چلا جاتا ہے۔جن کا بنیادی داستان سے بظاہر کوئی مربوط تعلق دکھائی نہیں دیتا۔بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ان انشائیوں کو ’مضامین وجہی‘ قرار دیا ہے۔
(اردو انشائیہ کے ابتدائی نقوش: لطیف ساحل،ص33)
جاوید وششٹ نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اردو انشائیہ کوئی نئی کوشش نہیں بلکہ بہت قدیم ہے اور ملا وجہی پہلے انشائیہ نگار ہیں بہت زور صرف کیا لیکن ان کی بات کو اس لیے تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ملا وجہی کی یہ تحریریں جداگانہ حیثیت میں نہیں لہذا ملا وجہی کی تحریروں کو انشائیہ نہیں بلکہ انشائیہ نما کہنا چاہیے۔پروفیسر عبد القادر سروری بھی ان پر اعتراض کرتے ہیں اور ملا وجہی کی تحریروں کو صرف انشائیہ کے اولین نقوش قرار دیتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ملا وجہی کو اردو کا پہلا باقاعدہ انشائیہ نگار نہیں کہہ سکتے۔سب رس میں موضوعات کا تنوع سہی مگر یہ سب تحریریں انشائیہ کے چند عناصر کی حامل تو ہوسکتی ہے،مکمل انشائیہ نہیں کہلائے جاسکتے۔ملا وجہی کا دور وہی ہے جو عالمی ادب کے پہلے انشائیہ نگار مونتین اور انگریزی  Essayکے موجد بیکن کا ہے۔
اردو میں انشائیہ کے ابتدائی نقوش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وجہی کے ہاں ابتدائی نقوش ملتے ہیں لیکن درحقیقت تحقیق کے بعد اس بات کا پتہ چلا ہے کہ انشائیہ کے ابتدائی نقوش سرسید کے دور سے ملنا شروع ہوئے جس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس دور میں مغربی انشائیہ عروج پر تھا اور انگریزوں کے ساتھ ہی انشائیہ بھی مشرق میں آیا۔ خصوصاً جب سرسید نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا تو مغربی علوم سے واقفیت کی بنا پر اردو میں اس صنف کا آغاز ہوا لیکن درحقیقت ان کو انشائیہ سے زیادہ مضمون کہا جا سکتا ہے۔لیکن کچھ مضامین ایسے بھی لکھے گئے جن میں انشائی عناصر ضرور پائے جاتے تھے۔اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ابتدائی مضامین نہ ہوتے تو انشائیہ کے وجود میں آنے میں کافی تاخیر ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ سرسید کے دور کو انشائیہ کے حوالے سے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ سرسید پہلے انشائیہ نگار تھے یا نہیں البتہ مضمون نگار ضرور تھے۔اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان مضامین میں انشائیہ کے عناصر پہلی مرتبہ ضرور ملے لیکن بہت سے محققین نے سرسید کو ہی پہلا انشائیہ نگار تسلیم کیا ہے جن میں سید ظہیر الدین مدنی، ڈاکٹر وحید قریشی، نیاز فتح پوری، ڈاکٹر محمد زکریا، پروفیسر جمیل آزر، پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر سلیم اختر وغیرہ شامل ہیں۔ سرسید کے مضامین طبع زاد نہیں تھے بلکہ انھوں نے ایڈیسن اور اسٹیل کی تقلید میں مضمون نگاری کا باقاعدہ آغاز کیا اس لیے انہیں پہلا انشائیہ نگارماننے میں قباحت نہیں۔ سرسید کے دور میں مضامین کو ہی انشائیہ سمجھا جاتا تھا پھر بھی ان کے کچھ مضامین انشائیے کے زمرے میں آتے ہیں مثلاً’گزرا ہوا زمانہ‘، ’امید کی خوشی‘، ’سرابِ حیات‘ اور بحث و تکرار میں انشائی عناصر ملتے ہیں۔ان کے مضامین میں کہیں سنجیدگی پائی جاتی ہے تو کہیں طنزومزاح۔
جاوید وششٹ کی طرح دوسرے محققین بھی انشائیہ کو نو خیز نہیں مانتے۔خواجہ احمد فاروقی ماسٹر رام چندرکی تقدیمی حیثیت کو لائقِ احترام قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ ماسٹر رام چندر نے اردو مضمون یعنی ایسّے سے متعارف کروایا۔ماسٹر رام چندر قدیم دلی کالج کے نامور اساتذہ میں سے تھے۔خواجہ احمد فاروقی ان کو مضمون نگاری، ترجمہ، تاریخ اور سیرت نگاری میں چراغِ راہ تسلیم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقارخواجہ احمد فاروقی کی بات کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ماسٹر رام چندر ایک علمی مضمون نگار تھے لیکن ادبی مضمون نگار نہیں تھے۔ان کی نثر علمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے تجربے کر رہی تھی،اس لیے اس میں ادبی نوعیت کی تلاش عبث ہے۔
(مضامین رشید(مرتبہ) غلام حسین ذوالفقار، لاہور  1976)
اس قول سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ماسٹر رام چندر کے مضامین کی نوعیت تخلیقی نہیں تھی بلکہ وہ سائنسی عنوانات پر معلوماتی قسم کے مضامین تھے۔ان کے مضامین میں خود ان کی شخصیت کے خدوخال نہیں اُبھرتے جو انشائیہ کا خاص وصف ہے اس لیے وہ انشائیہ کے فطری مزاج کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکے۔بعض ناقدین مرزا غالب کے خطوط پر انشائیہ نگاری کا گمان کرتے ہیں جن میں وہ اپنے دوستوں سے محو کلام ہے اور تکلف کا کوئی پردہ ان کے درمیاں نہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس حوالے سے لکھتے ہیں:
بے تکلفانہ گفتگو کا پیرایہ،مجلسی زندگی کی یہ جزیات اور ماحول کے دلکش مرقع غالب کے بعض خطوط کو افسانے اور انشائیے کے قریب لے آتے ہیں۔“ 
)مضامین رشید(مرتبہ) غلام حسین ذوالفقار،لاہور 1976(
ایک انشائیہ نگار سے جس اسلوب کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ یقینا غالب کے ہاں موجود ہے۔اس کی نثر میں انشائی مزاج سے مطابقت ملتی ہے لیکن موضوع کی عدم موجودگی اورذات کے صرف نجی اور غیر ادبی گوشوں کی نقاب کشائی کی بنا پر انھیں انشائیہ نگار ثابت کرنے کے لیے تاریخی اسناد ہی کافی نہیں تخلیقی شواہد بھی ضروری ہیں۔ 
انشائیہ نگاری کا جو عمل انگریزی سے اردو میں آیا اس میں اگرچہ مضمون کی ہیئت توموجود تھی لیکن طرز بیان میں زمین و آسمان کا فرق تھا کیونکہ انشائیہ لکھنے کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیں ایک لمحے سے روک کر زندگی کے عام پہلوؤں کو پیش کرے جو ہماری نظروں کے گرفت میں آنے سے رہ گئے تھے یا یوں کہنا چاہیے کہ وہ ہمارے سامنے موجود ہی نہیں تھے۔ اس مقام پر ایک انشائیہ لکھنے والا ایک سیاح کو درحقیقت وہ دکھانا چاہتا ہے جو کچھ اس کے سامنے ہونے کے باوجود موجود نہیں ہوتا۔ اس پہلوکو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک انشائیہ لکھنے والا زندگی کے عام نظاروں کو ان تازہ پہلوؤں کو دیکھ لیتا ہے جو زندگی میں سطحی دلچسپی کے سبب ایک عام انسان کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔بلاشبہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ زندگی کی ان انوکھی اور تازہ کیفیات کا احساس دلانے کے لیے انشائیہ کا خالق کئی ایک طریقے اختیار کرنا جانتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ جیسے نثرنگار ایڈیسن اور اسٹیل کے تتبع میں انشائیہ نگاری کے قریب آجاتے ہیں مگر ایک سانس میں شرر سے امجد حسین تک سب کو وزیر آغا جیسا انشائیہ نگار بنا دینا انصاف نہیں اسی لیے ڈاکٹر انورسدید جیسے نقاد اس طرح کے غیر محتاط انداز میں گرفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
جن محققین نے انشائیہ کا سراغ قدیم نثر میں لگایا ہے انھوں نے جزو کو کل پر فوقیت دینے کی کاوش کی ہے اور اپنے فیصلے کی اساس انشائیہ کی نثری اور غیر مرتب صورتوں پر رکھی ہے۔مثال کے طور پر اسلوب کی روح پرور شگفتگی،میر امن کی باغ و بہار اور رجب علی بیگ سرور فسانہ عجائب میں بھی موجود ہے اور یہ انشائیہ کے مزاج کے ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔غیر رسمی انداز اور عدم تکمیل کی خوبی مرزا غالب کے خطوط میں بدرجہ اتم ملتی ہے۔چنانچہ اگر انشائیہ کے کچھ عناصر لاشعوری طور پر ان کی نثر میں درآئے ہیں تو یہ اس صنف کی منضبط اور باقاعدہ ابتدا کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ محض اتفاقی ہے۔
 )23  انشائیہ اردو ادب میں: انور سدید،ص: 80)
ملا وجہی سے لے کرمرزا غالب تک اردو نثر کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ انشائیہ کے کچھ عناصر محض اتفاقی ہیں مگر سرسید کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا۔سرسید اپنے مضامین میں انشائیے کے مزاج سے واقف کا ر نظر آتے ہیں۔انھوں نے ایڈیسن اور اسٹیل کی تقلید میں مضمون نگاری کی ہے۔ان کے بعض مضامین جدید انشائیہ کی تعریف سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں۔گزرا ہوا زمانہ،امید کی خوشی،سرابِ حیات،بحث و تکرار،خوشامد وغیرہ اسی نوعیت کی تحریریں ہیں۔انھوں نے ٹیٹلر اور سپکٹیٹر کی طرز پر تہذیب الاخلاق جاری کیا جس میں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اصلاحی کردار کا آغاز کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے انگریزی ایسّے میں فعال کردار ادا کرنے والے دیگر رسائل و جرائد سے بھی استفادہ کیا ہے۔سرسید کے ہاں مقصدیت پر زیادہ زور صرف ہوا ہے اور چونکہ وہ انشائیہ برائے ادب کی غرض سے نہیں بلکہ مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے لکھ رہے تھے لہذا وہ اس کی تمام شعریات کو ملحوظ بھی رکھتے لیکن بحث وتکرار جیسے مضامین میں وہ ایک باقاعدہ انشائیہ نگار نظر آتے ہیں اور اسی وجہ سے سید ظہیرالدین مدنی،ڈاکٹر وحید قریشی،نیاز فتح پوری،ڈاکٹر محمد زکریا،پروفیسر جمیل آزر،پروفیسر نظیر صدیقی اور ڈاکٹر سلیم اختر جیسے نقاد انہیں اردو انشائیہ کے بانی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انگریزی سے اردو انشائیہ نگاری کا جو سفر شروع ہوا اس میں سرسیدکی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انگریزی ایسّے کی طرز پر جدید انشائیے کے نقوش سرسید کے ہاں پوری طرح اجاگر ہوئے۔سرسید اردو کے پہلے ادیب تھے جنھوں نے انگریزی ایسّے کے بھرپور مطالعے کے بعد اردو میں اس صنف کو متعارف کرایا۔ ڈاکٹر سلیم اختر سرسید کے انشائی اسلوب کے ضمن میں لکھتے ہیں:
سرسید پہلے ادیب ہیں جنھوں نے انگریزی ایسّے کی بدیسی صنف کی قلم کو گلشنِ اردو میں لگایا۔انہوں نے انگریزی ایسّے کا مطالعہ کر رکھا تھا وہ اس کے مزاج داں بھی تھے۔انھوں نے طبع زاد لکھنے کے ساتھ ساتھ انگریزی ایسّے کے تراجم بھی کیے۔الغرض !اس نئی صنف سے وابستہ فنی اور اسلوبیاتی امکانات دریافت کرنے کی سعی کی۔“(انشائیہ کی بنیاد:ڈاکٹر سلیم اختر،ص:71)
سرسید انشائیہ برائے تفنن کے مقصد کے لیے نہیں لکھتے تھے، انھیں انشائیہ میں شخصیت کے اظہار،اسلوب کی لطافت اور اس نوع کے دیگر فنی مباحث سے دلچسپی نہ تھی۔انھوں نے انگلستان کے قیام کے دوران ایسے پڑھے تو اس پہلو سے متاثر ہوئے۔ان کی انشائیہ نگاری خدمت قوم کا ہی ایک انداز تھی۔ ان کے انشائیے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انشائیہ کے مزاج سے پوری طرح واقف کارتھے اور اگر انھوں نے انشائیہ لکھنا پسند کیا ہوتا تو وہ یقینا صاحب طرز انشائیہ نگار ہوتے۔
سرسید کے معاصرین میں ایک اہم نام محمد حسین آزاد کا ہے جو سرسید کے رفقا میں تو شامل نہیں تھے بلکہ ان کے دور سے ہی تعلق رکھتے تھے۔محمد حسین آزاد اس دور کے وہ نثرنگار تھے جو اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر اردو ادب میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔وہ نہ تو سرسید کی روکھی پھیکی نثر کو موزوں سمجھتے تھے اور نہ قدیم مقفیٰ نثر کے حق میں تھے۔ چنانچہ انھوں نے قدیم و جدید کے امتزاج سے ایک ایسا دلکش اسلوب اختیار کیا جو صرف انہی سے مخصوص ہے۔ ان کے اسلوب کی تعریف کرتے ہوئے مہدی افادی لکھتے ہیں:
جس طرح تاریخ میں فلسفہ کا رنگ سب سے پہلے شبلی نے چمکایا،اردو کو انشاپردازی کے درجہ پر جس نے پہنچایا وہ آزاد اور صرف آزاد ہیں۔سرسید سے معقولات الگ کرلیجیے تو کچھ نہیں رہتے۔نذیر احمد بغیر مذہب کے لقمہ نہیں توڑ  سکتے۔ شبلی سے تاریخ لے لیجیے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔حالی بھی جہاں تک نثر کا تعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ چل سکتے ہیں لیکن آقائے اردو یعنی پروفیسر آزاد صرف انشاپرداز ہیں جن کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں۔
)افاداتِ مہدی:مہدی افادی،شیخ مبارک علی تاجر کتب لاہور 1949، ص:213)
اردو کے کچھ انشاپرداز جن کے ہاں کسی نہ کسی صورت میں انشائیہ مل جاتا ہے ان میں مولوی ذکا ء اللہ، مہدی افادی، سجاد حیدر یلدرم، سجاد انصاری، خلیق دہلوی، خواجہ حسن نظامی قابل ذکر ہیں۔ ان میں مولوی ذکاء اللہ سرسید کے ساتھیوں میں سے تھے جب کہ بقیہ حضرات اس صدی کے ہیں جن کی مجموعی کاوشوں سے انشائیہ نگاری کے جس انداز نے فروغ پایا،اس پر پرسنل یا اس نوع کا کوئی لیبل نہیں لگایا جاسکتا لیکن نثر کے فروغ میں ان کی مساعی کی اہمیت کم نہیں کی جاسکتی۔
یوں تو اردو میں انشائیہ کی عمر سوا سو سال سے بھی زیادہ ہے لیکن بحیثیت ایک منفرد نثری صنف اردو انشائیہ اپنے تمام فنی محاسن کے ساتھ بیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔جب ڈاکٹر وزیرآغا نے اردو انشائیے کو بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کی پیدا وار قرار دے کر ایک نیا تنازعہ کھڑا کرکے بہت سے انشائیہ پڑھنے والے اس کے نوخیز ہونے پر حیرت کا اظہار کرنے لگے۔اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جدید انشائیہ کی طرف آزادی کے بعد خصوصی توجہ دی گئی۔ڈاکٹر انورسدید نصیر آغا کے مضمون ’بہار کی ایک شام‘ کو اردو کا پہلا مکمل انشائیہ مانتے ہیں اور اپنی کتاب ’انشائیہ اردو ادب‘میں فٹ نوٹ دے کر اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ نصیر آغا درحقیقت وزیر آغا کا ہی ہمزاد تھا اور وہ اس قلمی نام سے ادبی دنیا میں مختلف نوعیت کے مضامین لکھ رہے تھے۔اسی دور میں جب ڈاکٹر وزیر آغا نام لیے بغیر انشائی مضمون لکھنے میں مصروف تھے،ان کے معاصرین میں نظیر صدیقی اور مشکور حسین یاد بھی اپنے اسلوبیاتی فرق کے ساتھ اس صنف کی آبیاری کر رہے تھے۔ڈاکٹر وزیر آغا،مشکورحسین یاد اور نظیر صدیقی جس قسم کے مضامین لکھ رہے تھے انھیں اختر اورینوی کا اختراع کردہ نام انشائیہ ملنے میں کافی وقت صرف ہوا۔
پاکستان کے قیام کے تقریباً چودہ سال بعد ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’خیال پارے‘ منظر عام پرآیا اور اس مجموعے کو پاکستان میں انشائیہ نگاری کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے ہی انشائیہ کی اصطلاح کو متعارف کروایا اور اس صنف کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے متعدد مضامین سپرد قلم کیے۔ انھوں نے انشائیہ کو باقاعدہ ایک صنف کے طور پر متعارف کرواکر اس کی شناخت قائم کی اور اس کی انفرادیت کو ہر طرح سے نمایاں کیا۔ان کے انشائیوں کے چار مجموعے ’خیال پارے‘،’چوری سے یاری تک‘، ’دوسرا کنارہ‘ اور ’سمندر اگر میرے اندر گرے‘کے نام سے منظر عام آچکے ہیں بلکہ اب تو ان کے انشائیوں کا کلیات بھی ’پگڈنڈی سے روڈرولر تک‘کے نام سے شائع ہوچکا ہے جس میں ان کے یہ چاروں مجموعے شامل ہیں۔ڈاکٹر وزیر آغا،نظیر صدیقی اور مشکور حسین یاد کے بعد انشائیے کو اظہار کے منفرد وسیلے کے طور پر آزمایا گیا ہے اور رفتہ رفتہ انشائیہ لکھنا ایک شائستہ،سستہ اور شگفتہ عمل قرار پایا جس میں شرکت کے لیے بہت سے ادبا بے تاب نظر آنے لگے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس دور میں انشائیے کی تحریک پروان چڑھی تو بے جا نہ ہوگا۔مذکورہ تین انشائیہ نگاروں کے دوش بدوش ڈاکٹر داؤد رہبر، جاوید صدیقی، غلام علی چودھری حسین کاظمی، ممتاز مفتی، امجد حسین، جسٹس رستم کیانی کے نام کافی نمایاں نظر آتے ہیں۔اس کے بعد جو انشائیہ نگار اس کارواں میں شامل ہوئے ان میں مشتاق قمر، غلام جیلانی اصغر، اکبر حمیدی، سلیم آغا قزلباش کئی حیثیتوں سے اہم تصور کیے جاتے ہیں۔اسی طرح ہندوستان کے کچھ ادیب اس کی آبیاری میں دل و جان سے خدمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں رام لال نابھوی، احمد جمال پاشا،محمداسداللہ وغیرہ شامل ہیں۔
1975سے لے کر اب تک کے دور کو بجا طور پر اردو انشائیے کی مسلسل کامرانیوں کا دور قرار دیاجاسکتا ہے۔ اس کی مقبولیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک امتزاجی صنف نثر ہے جس میں شعر جیسا حسن موجود ہے۔آزادی کے بعد ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان میں انشائیہ نے ترقی کے منازل طے کیں۔جس وقت پاکستان میں انشائیہ کی تحریک اپنے شباب پر تھی اس وقت ہندوستان کے صرف تین انشائیہ نگار اس صنف کے تحت اپنی تحریریں سپرد قلم کر رہے تھے جس کا اعتراف ڈاکٹر وزیر آغا نے ان الفاظ میں کیا ہے :
پاکستان میں انشائیہ نگاری ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے جب کہ بھارت میں تا حال صرف تین انشائیہ نگار وں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے ان میں دو منجھے ہوئے ادیب ہیں یعنی احمد جمال پاشا اور رام لعل نابھوی لیکن تیسرا ایک نوجوان انشائیہ نگار محمد اسداللہ ہے۔“(پیش لفظ،بوڈھے کے رول میں:محمد اسداللہ)
احمد جمال پاشا کا نام اردو میں غیر افسانوی نثر کے حوالے سے محتاجِ تعارف نہیں۔احمد جمال پاشا نے جب ادبی دنیا میں قدم رکھا تو لوگ انگشت بدنداں ہوگئے۔ انھوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے ہی میں ’کپور ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘ جیسا کامیاب مضمون لکھ کر لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیاتھا۔مگر’ادب میں مارشل لا‘ اور’رستم امتحان کے میدان میں‘ لکھنے کے بعد ان کی ادبی حیثیت مسلم ہوگئی۔بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں احمد جمال پاشا کی تخلیقی صلاحیت اپنے شباب پر تھی۔ان کی  کافی تعداد میں کتابیں زیورطبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئیں۔  پاشا کے جو انشائیے ہندوستان و پاکستان کے متعدد رسائل میں شائع ہوتے رہے ان میں ’چیخنا‘،’کچھ تنقید کے بارے میں‘، ’بور‘، ’ہجرت‘، ’بے ترتیبی‘،  ’شور‘، ’اصولوں کی مخالفت میں‘،’چغلی کھانا‘،’تنہائی کی حمایت میں‘  اور ’کچھ بلیوں کے سلسلے میں‘وغیرہ مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسے مضامین بھی ملتے ہیں جو مضمون کے زمرے میں شامل ہیں لیکن وہ انشائیے سے قریب ہیں ان میں انشائیہ کی خصوصیات غالب ہیں۔ انھیں بھی انشائیہ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ان میں مونچھیں،نیا پیسہ،ٹائم ٹیبل، آنی جانی قیامت، ناپسندیدہ لوگ وغیرہ مضمون شامل ہیں۔ احمد جمال پاشا کو انشائیہ کے فن میں مہارت حاصل تھی۔ پاشا جب انشائیہ تخلیق کرتے تھے تو وہ کسی عام موضوع کو لے کر موضوع کا زاویہ بدل کر اس کے اندر چھپے ہوئے پہلوؤں کو اجاگر کرتے۔
رام لعل نابھوی کا نام بھی انشائیہ میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’آم کے آم‘منظر عام پر آیا جس میں اٹھارہ انشائیے شامل ہیں۔رام لعل موضوعات کے انتخاب میں کافی غورو فکر اور سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔انھوں نے مجرد کو جسم بناکر پیش کیا ہے بالخصوص ’انتظار‘ فیشن،مسئلہ،تنہائی وغیرہ کو انھوں نے بڑے فنکارانہ انداز میں مجسم کیا ہے۔اس کے بعد جو انشائیہ نگار نمودار ہوئے ان میں سید آوارہ،اندرجیت لال، حسنین عظیم آبادی، مجتبیٰ حسین، پروفیسرخورشید جہاں، یوسف ناظم وغیرہ شامل ہیں جنھوں نے اپنی تحریروں سے انشائیہ کے فروغ میں اہم رول ادا کیا۔ موجودہ دورمیں اس صنف کی آبیاری میں ادیبوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہیں جن میں کچھ ادیب دوچار انشائیے لکھ کر نام کما چکے ہیں اور کچھ انشائی مجموعے شائع کرکے اس صنف میں ہندوپاک میں شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ ڈاکٹرمحمد اسداللہ موجودہ دور کے وہ انشائیہ نگار ہیں جس کے انشائیے ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں شہرت کی دہلیز پار کر چکے ہیں۔ محمد اسداللہ انشائیے کے فن سے پوری طرح واقف نظر آتے ہیں۔ محمد اسد اللہ کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ  ’بوڈھے کے رول میں 1991 میں شائع ہوا جس میں ان کے مشہور ومعروف انشائیے ’انڈا‘،نیچر کی گود میں‘، ڈائری‘،  نافرمانی‘، بوڈھے کے رول میں‘، ٹائم پاس کرنا‘ عینک، دستخط وغیرہ شامل ہیں جو ان کے بیدار ذہنیت کا پتہ دیتے ہیں۔ 2015  میں ان کے انشائیوں اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا دوسرا مجموعہ ’ڈبل رول‘ شائع ہوا جس میں ان کے گیارہ انشائیے شامل ہیں۔اسی سال ان کی انشائیہ پر اور ایک کتاب ’انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں‘ منظر عام پر آئی جس میں انھوں نے انشائیہ کو ایک منفرد صنف ادب کے طور پر پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے طنزیہ و مزاحیہ مضمون اور انشائیے کے فرق کو بحسن و خوبی واضح کیا ہے۔
 2017 ہی میں ان کی انشائیہ نگاری پر ایک اور کتاب ’یہ ہے انشائیہ‘ شائع ہوئی جس میں انھوں نے کچھ انشائیہ نگاروں کے مضامین بھی شامل کیے ہیں جو انشائیہ کے فن اور تنقید پر مشتمل ہے جن میں وزیر آغا کا مضمون ’اردو انشائیہ کی کہانی‘، انور سدید کا مضمون  ’انشائیہ اور عصری آگاہی،مشکورحسین یاد کا مضمون ’انشائیہ بطور ایک اصطلاح ادب،ڈاکٹر سلیم ا ختر کا مضمون ’انشائیہ: مبادیات‘، رشید امجد کا مضمون ’کچھ انشائیہ کے بارے میں‘ شامل کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف انشائیہ نگاروں کے 26 انشائیوں کا انتخاب کیا ہے۔کتاب کے آخر میں مغربی انشائیوں کے تراجم اور مراٹھی زبان کے تراجم بھی شامل کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے ادیب ہیں جو اس صنف کی آبیاری،ترقی اور فروغ کے لیے تحریریں تخلیق کر رہے ہیں اور پہلے کے مقابلے میں موجودہ دور میں اس صنف کے تحت لکھنے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہاں کے ادیب اس صنف کو پاکستان کے دوش بدوش کھڑا کرنے کی کوشش میں دل و جان سے محنت کر رہے ہیں۔آج انشائیہ موضوعاتی،فکری اور معنوی لحاظ سے وسعت پذیر ہے اور اس کی اب تک کی رفتارسے پتہ چلتا ہے کہ اس کا مستقبل شاندار اور تابناک ہے۔نوجوان قلمکاروں کی رغبت اور دلچسپی اس صنف کے حوالے سے بڑ ھتی جارہی ہیں اور یو ں لگتا ہے کہ موجودہ صدی انشائیہ کے لیے مفید اور کارآمد ثابت ہوگی۔

Bilal Ahmad Dar
Research Scholar, Dept of Urdu
Maulana Azad National Urdu University (MANUU)
Hyderabad - 500032 (Telangana)
Mob: 7006566968



 ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں