6/12/19

اردو زبان کے فروغ میں مدارس کی اہمیت مضمون نگار: محمد صابر انصاری


اردو زبان کے فروغ میں مدارس کی اہمیت    
  محمد صابر انصاری


اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ اردو محض زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب بھی ہے۔ اردو زبان جو آج بھی تقریباً چار سو سال سے عوام میں مقبول و محبوب رہی اس کی سب سے بڑی وجہ اس کالسانی کردار ہے۔ اردو زبان کی شیرینی و حلاوت سے کون انکار کرسکتا ہے۔ اس کی آبیاری میں بادشاہانِ وقت، صوفیائے کرام کے علاوہ ادیبوں، فنکاروں اور شاعروں کا بھی کلیدی کردار رہا ہے۔ اس کی نشو و نما میں ابتدائی عہد سے ہی دینی مدارس نے بھی نمایاں فریضہ انجام دیا ہے۔ 
دارالعلوم دیوبند کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ، مظاہر العلوم سہارنپور، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ، جامعۃ الہدایہ جے پور اور جامعہ دارالسلام عمر آباد جیسے بڑے مدارس کی اردو زبان وادب کے حوالے سے بڑی اہم خدمات ہیں۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی، شیخ المحدثین حضرت مولانا محمد یعقوب ناناتوی، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری، حضرت مولانا عبیداللہ سندھی، شیخ التفسیر حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا محمد میاں منصور انصاری، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، علامہ حمیدالدین فراہی، حضرت علامہ سید سلیمان ندوی، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، حضرت مولانا محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی، حضرت مولانا محمد علی جوہر وغیرہ ایسی شخصیات ہیں جن کا تعلق مدارس سے ہے مگر اردو زبان و ادب سے بھی ان کا گہرا رشتہ رہا ہے۔
اردو زبان کی نشر و اشاعت میں مدارس اسلامیہ اور اس کے فیض یافتگان کا عظیم اور نمایاں کردار ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر شکیل احمد رقم طراز ہیں کہ:
”اردو کی قبولیت اور اثرپذیری کے صدیوں طویل ارتقائی سفر میں دربار، دبستان، خانقاہ اور بازار سبھی کچھ آئے لیکن جس گروہ اور جس اکائی نے اردو زبان و ادب کو بہت زیادہ فیض پہنچایا اور متاثر کیا وہ علمائے دین و مدارس و مکاتیب اسلامیہ ہیں۔“ 
(سہ ماہی دعوت حق، ص223، جون 2004، تا مئی 2005، خصوصی شمارہ، بہ حوالہ روزنامہ راشٹریہ سہارا، دہلی (دینی مدارس نمبر) 31 مارچ 2007، ص  69)
اردو کے عوام کے تعاون سے عوامی زبان بنانے کا شرف علمائے دین اور مدارس ہی کو حاصل ہے۔ اردو کی تعلیم میں مدارس سرفہرست ہیں، ان کی شناخت ہی اردو ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے ہوگئی ہے۔ غیراردو علاقوں کے طلبا بھی علوم دینیہ کے حصول کے لیے مدارس میں ا ٓتے ہیں اور نصابی ضرورتوں کے تحت اردو سے آشنا ہوکر خود میں تحریر و تقریر کی صلاحیت پیدا کرلیتے ہیں۔ یہ طلبا واپس اپنے علاقوں میں جاکر اردو زبان کے فروغ میں معاون ہوتے ہیں۔ بنگال، آسام، گجرات، اڑیسہ، تامل ناڈو اور کرناٹک جیسے صوبوں کے دور دراز علاقوں میں اردو زبان و ادب کی آبیاری کرتے ہیں۔ ہندوستان کے مدارس اسلامیہ خصوصاً دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور اور دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ، جامعہ اشرفیہ، جامعہ سلفیہ، جامعۃ الفلاح وغیرہ ہیں۔ ہندوستان کے مختلف صوبوں کے علاوہ مختلف ملکوں بالخصوص افریقی اور ایشیائی ممالک میں نیپال، بنگلہ دیش، برما، افغانستان، ایران، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملیشیا، یمن، لبنان اور افریقہ کے طلبا بڑی تعداد میں داخلہ لیتے ہیں اور یہاں ایک مدت گزار کر واپس اپنے ملکوں کو جاتے ہیں تو اپنے ساتھ عالمیت اور فضیلت  کی ڈگریوں کے ساتھ اردو کے ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے اردو زبان کی شد بد پیدا کرلیتے ہیں، جب کہ بعض طلبہ اردو لکھنے پڑھنے کی اچھی استعداد اپنے اندر پیدا کرلیتے ہیں اور اپنے ملکوں میں ہندوستانی وفود کی ترجمانی اور اردو کتابو ں کے ترجمہ کا کارنامہ انجام دیتے ہیں، گویا یہ فضلا اپنے ملکوں میں ہندوستان اور بالخصوص اردو زبان کے خاموش سفیر بن جاتے ہیں۔ اس طرح اردو کا دائرہ صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ مدارس اسلامیہ کے ذریعے اس کا دامن عالمی سطح پرپھیلا ہوا ہے۔ ہر جگہ اردو بولنے اور سمجھنے والے پائے جاتے ہیں۔ پروفیسر محمد سعود عالمی قاسمی ’اردو کے فروغ میں ملک و بیرون ملک کے مدارس کا کردار‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں:
”2003 میں ’عالمی نظام انصاف‘ کے کانفرنس، کولمبو میں راقم کی ملاقات مالدیپ کے جسٹس عبدالرشید صاحب سے ہوئی وہ اردو جانتے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ جمالیہ میں ہوئی تھی۔
2010 میں ترکی کی ایک کانفرنس میں راقم کی ملاقات جناب یوسف قراچہ سے ہوئی جو دارالعلوم ندوہ العلما لکھنؤ کے قدیم فضلا میں تھے اور ترکی میں تعلیمی و تدریسی فرائض انجام دینے کے ساتھ اردو کی دینی کتابوں کا ترکی میں ترجمہ کرچکے تھے۔ انھوں نے مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کی متعدد کتابوں کا ترکی میں ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔ اس طرح نہ صرف ہند اسلامی ثقافت بلکہ اردو زبان کی علمی خدمات انجام دی ہے۔ شہر استنبول کے اسلامی مرکز دارالحکمۃ میں بھی جانے کا اتفاق ہوا، یہاں متعدد ایسے فضلا سے ملاقات ہوئی جو ہندو پاک کے دینی مدرسوں سے فارغ تھے اور اردو زبان و ادب سے واقف تھے۔“
(عالمی سہارا، نئی دہلی (خصوصی شمارہ: مدارس اسلامیہ)، 14 جولائی 2012، ص 10)
علمائے کرام نے تصنیف و تالیف کے ذریعے اردو کی نشر و اشاعت میں جو حصہ لیا ہے اس حوالے سے مولانا سید محبوب صاحب رضوی رقم طراز ہیں کہ:
”اس کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے، اس کا فی الجملہ اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ صرف دارالعلوم دیوبند کے فضلا نے جو کتابیں لکھی ہیں ان کی تعداد تقریباً دس ہزار ہے۔ علمائے دارالعلوم دیوبند میں مولانا اشرف علی تھانوی کی چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ دارالمصنّفین اعظم گڑھ اور ندوۃ المصنّفین دہلی جیسے اداروں کے ذریعے اردو میں جس وقیع اور گراں قدر ذخیرے کا اضافہ ہوا ہے یہ سب مدارس اسلامیہ اور ان کے فضلائے کرام ہی کی دین ہے۔ سرسید مرحوم، علامہ شبلی اور خواجہ الطاف حسین حالی وغیرہ جنھیں اردو زبان کے اساطین کہا جاتا ہے، سب مدارس اسلامیہ ہی کے فیض یافتہ ہیں۔“
(عالمی سہارا، نئی دہلی (خصوصی شمارہ: مدارس اسلامیہ)، 14 جولائی 2012، ص 10، ص 15)
اردوادب کی تاریخ میں ایسے شاعروں اور ادیبوں کی فہرست لمبی ہے جن کا تعلیمی پس منظر صرف مدرسہ ہی رہا ہے۔ مثلاً اردو تنقید کی پہلی باضابطہ کتاب ’مقدمہ شعر و شاعری‘ کے مصنف مولانا الطاف حسین حالی (1915-1937) انھوں نے پوری تعلیم عربی مدرسے ہی میں حاصل کی تھی۔ دہلی کے قدیم مدرسہ حسین بخش کو ان کی مادرِ علمی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ گویا وہ بنیادی طور پر صرف مولوی تھے اور مولویت ہی ان کی شناخت تھی۔
علامہ شبلی نعمانی (1857-1914) جو بہ یک وقت شاعر و ادیب بھی ہیں اور ناقد، محقق، مؤرخ اور انشاپرداز بھی۔ انھوں نے ’شعرالعجم‘ اور ’موازنہئ انیس و دبیر‘ کے ذریعے تفہیمِ شعر کے جو اصول وضع کیے اور فنی سطح پر جو نظریات پیش کیے ہیں انھیں شعر و نقد کی دنیا میں بڑا اعتبار حاصل ہے۔ علامہ شبلی نعمانی کسی کالج یا یونیورسٹی کے نہیں بلکہ مدرسے ہی کے پروردہ وپرداختہ تھے۔ مولانا محمد فاروق چریاکوٹی کا نام ان کے اہم اساتذہ میں آتا ہے۔ ان کے تمام کارناموں کو مدرسوں ہی کے کھاتے میں ڈالا جائے گا۔
علامہ نیاز فتح پوری (1884-1968) اردو زبان و ادب کے ان علمائے ارباب قلم میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے اردو زبان و ادب کی آبیاری میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس کو بنانے اور سنوارنے میں وہ اپنے عہد کے شعرا و ادبا میں سب سے آگے رہے ہیں اور اس سلسلے کی تمام ناہمواریوں کو ختم کیا ہے۔ انھوں نے 1921 میں ’نگار‘ کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ جاری کیا تھا۔ اس کے ذریعے سے انھوں نے اردو کی بنیادوں کو اجاگر کیا اور فنی و لسانی سطح پر اس کی نوک و پلک درست کی اور اردو زبان و ادب کے خلاف رچی جانے والی سازشوں کو بے نقاب کرکے اس کی صحیح قدر و قیمت کو واضح کیا ہے۔ اپنے ان کارناموں کی وجہ سے اردو ادب کی تاریخ میں انھیں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے اردو کے متعدد قد آور شعرا و ادبا کی رہ نمائی کی ہے۔ انھیں صحیح سمت سفر دکھائی ہے۔ نیاز فتح پوری نے فتح پور کے قدیم مدرسہ اسلامیہ محلہ سید واڑہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے فن، شخصیت اور فنی و لسانی خدمات پر مقالے لکھے گئے ہیں۔ متعدد لوگوں نے ان پر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
جناب رشید حسن خان (1930-2006) شاہجہاں پور کے رہنے والے تھے اور وہیں کے مقامی مدرسہ بحرالعلوم سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اردو زبان کو بنانے اور سنوارنے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ اردو کی املا پر کتابیں لکھیں، رموز اوقاف پر مقالے  لکھے، محاورات اور روزمرہ پر مباحث شائع کیے۔ صحیح زبان کیسے لکھی جاتی ہے اور اس کے کیا اصول و ضوابط ہیں اس سلسلے میں ان کی متعدد کتابیں موجود ہیں اور بڑے بڑے سمیناروں میں اپنی فنی و لسانی معلومات کے جوہر دکھائے۔ ملک کی متعدد یونیورسٹیوں میں انھوں نے اردو زبان و ادب کی املا اور الفاظ کے صحیح و غلط استعمال پر لکچر دیے۔ بے شمار تحقیقی مقالوں کے ممتحن رہے اور خود ان پر بھی تحقیقات ہوئیں اور ڈگریاں حاصل کی گئیں۔ رشید حسن خاں نے اردو زبان کی آرائش و زیبائش اور اس کے فروغ و ارتقا کے لیے جو کچھ کیا ہے اسے اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ ان  کے سارے کارنامے علمی ولسانی فتوحات کا سہرا مدرسوں کے سر بندھے گا۔
ان کے علاوہ بہت سے ایسے نام ہیں جن کا تعلیمی پس منظر مدرسہ ہی ہے، جن کی فہرست کافی طویل ہے۔ مثلاً فخر مشرق  علامہ شفیق جونپوری، فیض احمد فیض، جناب اسرار حسن خان مجروح سلطان پوری، عامر عثمانی، فضا ابن فیضی وغیرہ ہیں۔ اردو کے اخبارات، رسائل اور کتابوں کو خریدنے اور پڑھنے والوں میں مدارس کے طلبا، اساتذہ اور متعلقین پیش پیش رہتے ہیں۔ ان اخبارات و رسائل کے قلم کاروں میں بھی مدرسوں کے فیض یافتہ حضرات اچھی تعداد میں ہوتے ہیں۔ ملک کے مختلف اطراف و اکناف کے مدارس سے جو ماہنامہ، دو ماہی اور سہ ماہی رسالے اور جرائد و مجلات شائع ہورہے ہیں وہ اپنے مشمولات اور پیش کش کے اعتبار سے معاصر ادبی علمی رسالوں سے کم تر نہیں ہیں۔ ان میں قلم کاروں کی بیش تر تعداد مدراس کے اساتذہ اور فضلا کی ہوتی ہے،  جو اردو زبان وادب کے فروغ میں ایک واضح تعاون ہے۔ بقول حقانی القاسمی:
”مدارس اشتعال انگیز صحافت پر نہیں بلکہ اعتدال پسند صحافت پر یقین رکھتے ہیں۔ اخوت و محبت کے جذبات کو بیدار کرنا اور مثالی معاشرے کی تشکیل کرنا ہی مدارس کے مجلات کا مقصد ہے اور اپنے اس مقصد میں یہ رسائل بہت حد تک کامیاب بھی ہیں۔ ضرورت ہے کہ مدارس کے مجلات کو بھی تحقیق کا موضوع بنایا جائے اور اس کے مشمولات کے حوالے سے گفتگو کرکے ان  غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے جو آج کے  ہندوستانی معاشرے میں عام ہیں۔“ (عالمی سہارا، نئی دہلی 14 جولائی 2012، ص 65)
خلاصہ کلام یہ کہ مدارس کے فیض یافتگان نے گیسوئے اردو کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے کارناموں کا ہر طبقے میں اعتراف کیا گیا ہے اور انھوں نے جو کچھ کیا ہے اسے درجہئ استناد حاصل ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے جو کچھ بھی پڑھا یا سیکھا ہے وہ عربی مدرسوں ہی میں پڑھا یا سیکھا ہے اور ان کا سارا علم مدارس عربیہ کی چہاردیواریوں ہی کا مرہون منت ہے۔ اگر ہم ان شعرا و ادبا کے نام گنوانے لگ جائیں جو شہرت تو کالج اور یونیورسٹیوں کے حوالے سے رکھتے ہیں لیکن ان کی بنیادی تعلیم مدارس عربیہ میں ہی ہوئی تو فہرست بہت لمبی ہوجائے گی۔ ان سب پرگفتگو کے لیے دفتر درکار ہے۔ نہ پوچھیے کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب مدرسوں میں پروان چڑھے ہیں۔

Mohd Sabir Ansari
S R F, Dept of Urdu
Ranchi University- 834008 (Jharkhand)
Mob: 7979735612

 ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں