6/12/19

موجودہ نسل اور اردو تحقیق و تنقید کا معیار مضمون نگار:عاقل زیاد


موجودہ نسل اور اردو تحقیق و تنقید کا معیار
عاقل زیاد
اردو تحقیق وتنقید کے معیار پر جب بھی سوال اٹھتا ہے تو کتنے ہی دانشور اور اہل نظر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ محققین و ناقدین کی سہل پسندی نے ادب کے معیار کو مجروح کیا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج تحقیقی عمل سست ہے اور تنقید عروج پر ہے، آخر کیوں؟ نظم کہنے والے عنقا ہورہے ہیں اور غزلیہ شاعری پر بہار ہے۔ایسے میں یہ سوال اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کے سامنے حل طلب ہے کہ اردو کی ترقی و ترویج آخر کس طرح ممکن ہے؟ اس مسئلے پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ جب بھی اجتماعی سطح  پر  اردوکی بات چلی  تو محسوس ہوا کہ ملک میں کشمیر سے کنیا کماری تک اردو ہی سب سے عزیز ترین زبان ہے۔لیکن جب سنجیدگی سے بات کی جاتی ہے تو دانشور حضرات دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے ہیں اور باشعور افراد زبان کی زبوں حالی پرایک سرد سانس لے کر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔تازہ سروے پر اگر نگاہ ڈالیں تو اردو کی ریڈر شپ کا گراف گزشتہ دہائیوں کے مقابلے بہت نیچے پہنچ گیا ہے۔ ملک میں اردو بولنے والوں کی تعداد میں حیرت ناک حد تک کمی آئی ہے۔ 
پھر بھی عصر حاضرکے نامور ناقدین اور محققین کے بیسیوں مضامین ملک کے مختلف اخبار ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔مختلف عنوانات کے تحت روز نت نئے مضامین قارئین کے سامنے آتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بعض مضامین بہت عمدہ اور محنت سے لکھے گئے ہوتے ہیں اور ایک سچ یہ بھی ہے کہ ہمارے بیشتر مضمون نگاروں  یا مقالہ نویسوں کی ایسی ایک  لابی ہے جو ہر آن  ایک دوسرے کی پذیرائی سے ذاتی تسکین میں اپنی توانائی صرف کرنے میں مصروف ہے، لیکن حقیقت میں ان کی تصانیف یا ان کی تخلیقات کو واقعی اردو ادب میں کسی قدر اضافہ تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ دعوے کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ معاصر نثار یا مقالہ نگاروں کی ایک بڑی جماعت ہے جن کی تصانیف بطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ مگر سچائی سے دیکھا جائے تو ایسے لکھاڑیوں سے اردو زبان کا کتنا بھلا ہورہا ہے۔ اس معاملہ میں نثری تخلیقات ہوں یا شعری بہرحال سنجیدہ طبقے میں ایک قسم کی بیزاری دیکھی جارہی ہے۔ نثری تخلیقات کے مقابلے شاعری پر زور آزمائی دیکھ کر تو طبیعت اور بھی مکدر ہونے لگتی ہے۔ 
 ایک المیہ یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں کالجوں یا یونیورسٹیوں کے ذہین طلبا بھی اردو پڑھنے سے کتراتے ہیں، کیونکہ سنجیدہ حلقہ میں اب اکیڈمک ایجوکیشن کے رجحانات کم ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن اردو کے حوالے سے جب دیکھتے ہیں تو اس حقیقت سے فرار مشکل ہوجاتا ہے کہ جہاں نئی نسل اردو سے بھاگ رہی ہے وہیں ہمارے دانشور بھی اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ رہے ہیں۔ ان میں ایمانداری اور دیانتداری کا حد درجہ فقدان ہے جس کی وجہ سے اردو زبان وادب مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔دوسری جانب سہولت یافتہ گھرانوں کے ذہین طلبا مختلف جامعات میں اردو، عربی یا فارسی شعبوں میں جانے کے بجائے انگریزی، معاشیات، سماجیات یا اسی طرح دوسرے  مضامین  میں ہی دلچسپی لیتے ہیں، جبکہ زیادہ تر معاشی سطح پر عام طور سے کمزور طلباہی اردو سے شغف رکھتے ہیں۔ حیرت ہے کہ موجودہ نظام تعلیم میں ایسے طلبا کو بھی کئی طرح کی دشواریوں کا سامنا ہے۔ بڑی اور مایہ ناز یونیورسٹیوں کی بات کریں تو آج اردومیں پوسٹ گریجویٹ میں داخلہ لینا عام طلبا کے لیے بہت سہل نہیں ہے۔ طرہ یہ کہ یو جی سی یا دیگر ذرائع سے ملنے والی سہولتیں یونیورسٹی کے دوسرے شعبہ جات  کے مقابلے اردو پڑھنے والوں کو بہ مشکل دستیاب ہیں۔ اردو اساتذہ کو بھی دیکھیں تو ہر یونیورسٹی میں گروہ بندی ہے اور طلبا ان اساتذہ کے چکر میں ذہنی کشاکش میں مبتلا رہتے ہیں۔ساتھ ہی ملک کی مختلف جامعات میں اردو، عربی یا فارسی پڑھنے والے طلبا میں  اکثر احساس کمتری  ہے۔ ایسے میں اس بات کا بھی ملال ہے کہ جس نے اردو پڑھی، روٹی دال سے ذرا فرصت ملی توشعر و شاعری کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ گویا شعر گوئی ہی اردو کی اصل معراج ہے، حالانکہ سچائی تو یہ ہے کہ ایسے طلبا کو عروض وبلاغت تک کا علم نہیں ہوتا۔ تخلیقی ادب کی تو جیسے لٹیا ہی ڈوب رہی ہے۔ افسانہ نویسی کی صف میں بیسیوں نام ہیں لیکن ان میں دوچار ہی ہیں جنھیں بمشکل جینوئن تخلیق کار کہا جا سکتا ہے۔ ناول کا دور یوں بھی ختم ہونے کے درپے ہے۔ کیوں ہے، یہ ایک لمبی بحث ہے۔ اس میں ٹی وی چینلوں یا موبائل اور انٹر نیٹ سروسز کو الزام دینا گویا حقیقت سے فرار پانے کا عمل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ویسے ناول ہی نہیں لکھے جارہے کہ جن سے کسی نظریاتی استدلال کو استحکام ملے۔
 ایسے میں سوال ہے کہ اردو کی ترقی یا یوں کہیں کسی زبان کی ترقی کیوں کر ممکن ہے۔ظاہر ہے، جس زبان میں عوام کی دلچسپی زیادہ ہوگی یا جس کے قارئین زیادہ ہوں گے اسی زبان کو ترقی یافتہ کہہ سکتے ہیں، مگر اردو کے حوالے سے کوئی بھی جواب دینے سے پہلے اسے کئی زاویوں سے دیکھنا پڑے گا۔ یہاں قاری اور قلم کار کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔قلمکار ہی قاری ہے اور قاری ہی قلمکار ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اردو زبان وادب کا فروغ ایسے میں ایک خواب کی طرح ہی لگتا ہے۔ ہمارے اسلاف نے اردو کے لیے جو کچھ کیا آج ہم اسی دیرینہ اثاثہ سے استفادہ کرنے میں مشغول ہیں۔ تجزیاتی نظریے سے دیکھیں تو گذشتہ دہائی سے لے کر تا حال کوئی بھی قابل ذکر تخلیق سامنے نہیں  آئی اور نا ہی  ہمارے قدیم اثاثے میں  کوئی قابل قدر  اضافہ ہی درج ہوا۔ شعری مجموعے اور نثری نگارشات پر مبنی کتابیں آئے دن شائع ہوتی ہیں مگر انھیں دیکھ کر اردو کی زوال پذیری بخوبی سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ فن ترجمہ نگاری وقت پارینہ کا حصہ بن گیا ہے اور اس طرف سے بھی مایوسی ہی ہاتھ لگتی ہے۔ نئی تصانیف میں کاپی پیسٹ کے بڑھتے رجحانات نے ایک طرف تخلیقیت کا بیڑا ڈبویا ہے تو دوسری طرف تحقیق وتنقید کے معیار کو بھی  غارت کیا  ہے۔ حالانکہ ہمارے دانشور حضرات بہتر طور پر سب کچھ جانتے سمجھتے ہیں، پھر بھی ایک دوسرے کی پذیرائی میں آسمان وزمین کے قلابے ملانے میں لگے ہیں۔ 
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ عوامی سطح پر  اردو زبان کتنی موثر ہے۔اسے ایک الگ مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔  میرے خیال سے اردو  میں شائع ہونے والے اخبارات ورسائل پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ایک ریاست یا شہر سے نکلنے والے جتنے اخبارات منظر عام پر ہیں ان سے کئی  گنا زیادہ اخبارات حکومت کے دفاتر میں رجسٹرڈ ہیں جو کبھی دیکھے ہی نہیں گئے۔ اس طرح  اردو زبان کو نقصان پہنچانے میں  ان اخباروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ بعض دانشوروں کا نظریہ ہے کہ اردو میڈیا اس قدر کمزور ہے کہ وہ دوسری میڈیا کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہاں یہ بھی قابلِ غور ہے کہ جس زبان کی صحافتی خدمات  میں اپنی ایک عہد ساز تاریخ رہی ہے، آج اسی زبان میں جرنلزم مشکوک ہے۔ ظاہر ہے اس کے اسباب پر غور کریں تو پائیں گے کہ آج ایک اردو اخبار اپنے قاری کو ہی اطمینان دلانے میں لگا ہواہے۔ یعنی قاری کیا چاہتا ہے، اسے اس فکر سے نجات ہی نہیں ملتی۔ اس کے برعکس انگریزی،  ہندی یا دوسرے اخبارات  اپنے مزاج  و مقاصد کے حصول پر کاربند نظر آتے ہیں۔ چاہے زبان کی سطح پر ہو یا مذہبی یا نظریاتی سطح پر، لیکن اردو کے قاری کو مسجد، قبرستان اور قیامت کے موضوعات سے الگ فکر وفلسفہ میں جھانکنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔اس سلسلے میں ہمارے کچھ دانشور   حضرات مغربی میڈیا اور سرمایہ دارانہ نظام کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، ممکن ہے اس میں بھی کوئی صداقت چھپی ہوجو اردو دانشوروں کے آگے سب سے بڑا چیلینج ہوسکتا ہے۔لیکن یہ بھی سوال اہم ہے کہ میڈیا پر مغرب کی اجارہ داری آخر کیوں کر ختم ہوگی اور اس کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرناہوگی؟ ظاہر ہے، علمیت کے اظہار کے لیے  پبلسٹی  نہیں، بلکہ نظریاتی اظہار میں  علمیت کا مظاہرہ ضروری ہے۔  اس کے لیے جہاں مطبوعات کو معیاری بنانے کی ضرورت ہے وہیں اخباروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قارئین کو باذوق بنانے میں معاون رول ادا کرے۔
تنقیدی سرمائے پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جلد سے جلد پروفیسری کے حصول کے لیے کم از کم ایک دو تصانیف کی لازمیت نے تنقید کو تقلید اور اردو میں نقل نویسی کو فروغ دینے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ غنیمت ہے کہ موضوعات کی تنگی نے نظیر  و اکبر جیسے شاعروں کو ادب کے معماروں میں شامل کرلیا اور انشائیہ جیسے لائٹ ایسسے کو قبولیت مل گئی۔ اس سے الگ  آج جس طرح ماہر غالبیات، اقبالیات و میریات کی ہوا چلی ہے، تقریباً ہر دوسری یونیورسٹی میں کم سے کم ایسے ماہرین مل ہی جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں حالی و شبلی کے نظریات میں تضاد ڈھونڈنے یا میر وغالب اور اقبال شناسی  میں نت نئے نکتے تلاش کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ کوئی شاہکار تخلیق وضع کی  جائے، لیکن سوال ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے نہ صرف مشاہدات و مکاشفات، بلکہ گہرے مطالعے کی بھی ضرورت ہے اور ان سب چیزوں کے لیے ایک مدت بھی درکار ہوگی۔ میڈیا پر سرمایہ داری کے غلبے کا انٹر نیٹ کی مدد سے کس طرح دفع کیا جاسکتا ہے،اس نکتے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ یقینا اس کام میں فکری وسعت اور پوٹینشلیٹی کی ضرورت ہے۔ اردو زبان کی خستہ حالی پر توجہ دیں تو اردو میں موضوعاتی یا نظریاتی تصور کو استحکام دینا نسبتاً زیادہ اہم ہے، تاکہ اردو میں نظریاتی ڈھانچے کو فروغ حاصل ہو۔ ہمارے دانشوروں کواس کے لیے تنظیمی طریقہ کار پر سوچنا ہوگا۔ فن ترجمہ نگاری کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا۔ آج اردو کے تمام شعبہ جات تقریباً بند ہوتے جارہے ہیں، اور اگر زندہ ہے تو وہ ادب اور صرف ادب۔ وہ بھی اس درجہ قابل رحم کہ غیر اردوداں طبقہ کی اس جانب کبھی تو جہ ہی نہیں جاتی۔
صورتحال یہ ہے کہ شعر و ادب سے الگ دیگر مضامین کے حوالے سے اردو اپنی پہچان کھوتی جارہی ہے۔ میرا خیال ہے ہر سنجیدہ قاری آج اس کمی کو شدت سے محسوس کررہا ہے۔ ایسے میں لازمی طور پر اردو تحقیق وتنقید کے شعبے میں بہتری کے لیے موجودہ دانشوروں کو گروپ ازم سے اوپر اٹھ کر کام کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی  متعدد جامعات میں زیر تعلیم اردو ریسرچ اسکالروں کوبھی ان کے کام اور اس کی اہمیت سے متعلق  احساس دلانا ہوگا، تاکہ تحقیق ہو یا تنقید،  ہر صورت میں اس کے اصول وضوابط کا پاس و لحاظ رکھا جائے۔ مضامین کا انتخاب بہت چھان پھٹک کر کیا جائے اور مقالے کی تکمیل میں سو فیصد پرفیکشن لائی  جائے۔  ظاہر ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب اساتذہ اس تاریخ ساز کارنامہ کو  انجام دینے میں دلچسپی لیں گے۔ اس کے برعکس آج ہو یہ رہا ہے کہ تحقیق کے لیے موضوعات کے انتخاب میں مواد کی فراہمی کی سہولت پر زیادہ توجہ   دی جاتی  ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ لوگوں کی خدمات پر عنوانات تفویض کیے جاتے ہیں اور تنقید کی تنقید لکھی جارہی ہے۔ اردو تحقیق وتنقید کے معیار میں تنزلی اس لیے بھی دیکھی جارہی ہے کہ تحقیق کے نام پر تذکرہ اور تنقید کے نام پر تنقیص پیش کرکے ہمارے دانشور کریڈٹ لینے میں سرگرم ہیں۔کوئی نام لیے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی تصانیف کے انبار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نئی نسل کچھ امید افزا کارنامہ انجام دینے پر آمادہ ہے، مگر جب ان کی کاوشوں پر نگاہ جاتی ہے تو زبان سے محض کلمہ تاسف ہی نکلتا ہے۔ ان سے قطع نظر مایوسی کفر ہے کہ ہماری تازہ کار نسل ہمہ وقت کچھ بہتر کرنے کی طرف گامزن ہے۔ ضرورت ہے اس کی ذہانت کو نئے آفاق دینے اور اس کی بہتر طور پر راہنمائی کرنے کی  کہ اسی سے زبان و قوم کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔

Aquil Ziad
B-176, Pkt-1, Mayur Vihar -1
Delhi - 110091



 ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

2 تبصرے: