9/12/19

آج کے عالمی تناظر میں اردو کا تحفظ اور فروغ مضمون نگار۔ سعدیہ صدف



آج کے عالمی تناظر میں اردو کا تحفظ اور فروغ
سعدیہ صدف

انسانی وجود کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے۔ اس کے امتیازی وصف کے سبب ہی خدا کی طرف سے اسے اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہوا۔ لیکن اس کے وجود کی رعنائی، دلکشی،حسن و لطافت کی جو مظہر ہے وہ اس کی زبان ہے۔ یہاں زبان سے مراد اعضائے جسم تو ہے مگر معاشرے میں جذبات کے اظہار، اس کی ترسیل اور روابط کے لیے زبان کو لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی الفاظ روابط کا ذریعہ ہیں۔ یہی الفاظ زبان زد ہوتے ہوئے عوامی زبان Language   بن جاتے ہیں۔ زبانیں تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔چونکہ ہندوستان رنگا رنگ تہذیب وتمدن کا ملک ہے اس لیے یہاں مختلف اقوام اور ان کی زبانیں رائج ہیں۔
کسی بھی زبان کی پیدائش اور اس کی ترقی لمحے پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ اس کا ارتقائی سفر صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔شکستہ، لڑھکتی، سنبھلتی، اپنے قدم جماتی ہوئی، تشکیل وتعمیر کی منزلوں سے گزرتی ہوئی زبانیں اپنی تکمیل کو پہنچتی ہیں اور مختلف تجربوں سے دو چار ہوتی ہوئی اپنی بنیادوں کو مستحکم بناتی ہیں اور ترقی یافتہ شکل اختیار کرتی ہیں۔ زبانوں کی ترقی کبھی منجمد نہیں رہتی۔ زمان و مکان کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ زبانوں میں بھی تبدیلیاں اور ترقیاں ہوتی رہتی ہیں۔ 
دنیا کی تمام زبانوں کی طرح اردو زبان بھی ارتقائی مراحل سے گزر کر آج ہمارے سامنے شستہ و نفیس صورت میں موجود ہے۔ زبان اردو جو اپنے بطن میں مختلف زبانوں کے الفاظ سموئے ہوئے ہے، مختلف قوموں کے لسانی اختلاط کے سبب وجود میں آئی ہے۔ یہ اختلاط بیرون ممالک سے آنے والے تجار، امراء اور سلاطین کی رہین منت ہے۔ان تمام افراد نے شعوری یا غیر شعوری طور پر اردو زبان کو نہ صرف پھلنے پھولنے کا موقع عطا کیا بلکہ اسے دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچا کر اسے عالمی وقار بخشا۔
اردو صرف ایک زبان کا نام نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے اس تہذیب کا جس کے ہم پروردہ ہیں۔ اور جس کی آبیاری نہ صرف ہمارے قدما نے کی بلکہ آج کی نسل بھی اس کی ترقی و بقا کے لیے متحرک ہے۔ اس کے فروغ میں ماضی کی کاوشوں کے ساتھ عصر حاضر کی جدو جہد بھی لائق ستائش ہے۔اسے ہر محاذ پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ بھی ملا اور تحفظ و بقا کی خاطر کامیاب کوششیں بھی کی گئیں۔ اس ضمن میں اردو زبان کے ابتدائی سفر کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوسکے گاکہ اردو کے تحفظ اوربقا کے لیے کسی نہ کسی طرح ہر زمانے میں پے در پے کوششیں ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ کیونکہ ہماری زبان میں رد و قبول کی صلاحیت موجود ہے۔اور یہی وصف اسے آج بھی زندہ و تابندہ کیے ہوئے ہے۔اردو زبان نے خوشگوار تبدیلیوں کا تو ہمیشہ خیرمقدم کیا مگر اپنی پرانی شناخت کو کسی بھی طرح معدوم نہ ہونے دیا۔اسی سبب اس کے ارتقا کے مثبت و موثر امکانات روشن ہوتے گئے۔
مشترکہ تہذیب کی علامت، ہمارا ملک ہندوستان صدیوں سے اردو تہذیب کا امین رہا ہے۔اس کے گہوارے میں ہی ہماری زبان پرورش پاتی رہی اور ادب نے کروٹیں بدلیں۔ مختلف اقوام کی ہم آہنگی سے ملک کی رنگا رنگ تہذیب پروان چڑھتی رہی۔ ابتدا میں یہاں بولی جانے والی زبان ہندوی یا ہندوستانی تھی جس کو عوام میں مقبولیت حاصل تھی۔اسی عوامی زبان کو ہم آج اردو کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔۔ اس سلسلے میں گوپی چند نارنگ یوں رقمطراز ہیں:
 ”……کوئی بھی سچائی جب جنم لیتی ہے،اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ سچائیوں کو نام تو اس وقت ملتا ہے جب وہ خانہ زاد ہوجاتی ہیں۔پراکرتوں کی دھرتی سے جب نیا اکھوا پھوٹا اور اس میں عربی، فارسی، ترکی اثرات کا پیوند لگا تو اس کا کوئی بھی نام نہیں تھا،ہند یعنی ہندوستان کی ہر چیز ’ہندی‘ تھی، فارسی یائے نسبتی کے ساتھ، اس طرح ہر زبان ہندی تھی۔امیر خسرو نے اسے ہندوی بھی کہا اور دہلوی بھی۔ اسی زمانے میں جب راگ رنگ کی محفلوں میں اس کے نغمے سماں باندھنے لگے، تو اسے ریختہ بھی کہا گیا۔ دکن اورگجرات پہنچی تو دکنی اور گجری کہلائی، پھر کسی نے اردو کہا، کسی نے ہندی، کسی نے کھڑی، بنیاد وہی ایک، راہیں الگ الگ ہو گئیں۔“
(اردو زبان و لسانیات: گوپی چند نارنگ، ص37،رام پور رضا لائبریری 2006)
 نارنگ صاحب نے اردو زبان کے وجود میں آنے کے تعلق سے جو وضاحت کی ہے وہ بہت ہی اہم ہے اور اس کی ہندوستانیت پردال ہے۔ 
معاملہ بازار کا ہو کہ دربار کا اردو کے نقوش اور اس کے خدو خال ابتدا سے ہی خال خال، خام حالت میں موجود ضرور تھے۔ آریاؤں کی آمد سے لے کر ان کے بسنے تک، ترکوں کے حملے اور مغلوں کی اندرونِ ہند پیش قدمی نے اس کی پرورش و پرداخت کے لیے ایسی فضا سازی کی کہ اس کے اثرات روز افزوں مرتب ہوتے گئے۔لشکری زبان ہونے کی وجہ سے درباروں تک رسائی حاصل کرنے میں یہ ناکام رہی۔البتہ عوام الناس نے اور مغل فوج کی گود میں پروان چڑھنے کے اسے اچھے مواقع نصیب ہوئے۔اسی دوران صوفیائے کرام نے بھی آسان فہم زبان میں اپنے مقاصد و پیغامات کی ترسیل کے لیے اسی عوامی زبان کو وسیلہ بنایا جو اردو کی ہی ابتدائی شکل میں موجود تھی۔
صوفیائے کرام نے عوام میں رائج زبان کے استعمال کے ذریعے سبق دینے کی کوششیں کیں۔اور اس زبان کو استحکام بخشنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ البتہ یہ سب اردو زبان کے ایام طفلی کے عناصر ہیں۔ اردو کے اسی پودے نے دیکھتے ہی دیکھتے تناور اور چھتنار درخت کی شکل اختیار کرلی۔ اس کے ارتقائی سفر میں مذکورہ بالا عناصرِ لازمی نے راہیں فراہم کیں اور اسے بحیثیت ایک صحت مند زبان کے طور پر استحکام بخشا۔اس کے بعد کئی اور عوامل اس کی ترقی کے پس پشت شامل رہے جن کے طفیل اردو کو نہ صرف بے پناہ فروغ حاصل ہوا بلکہ اس نے اپنا وہ مقام بھی بنا لیا کہ غیر اردو داں حضرات بھی اس کے اسیر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔اس جہت میں اس زمانے کی روداد، محفل سخن اور داستانوں کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔بعد کو بیرونی ممالک سے آنے والے سیاح اور ان کی ہندوستانی کلچر میں دلچسپی نے اردو کے فروغ کے امکانات وسیع ترکردیے۔
تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ شعراء کی انجمنیں اس کی اشاعت میں معاون رہیں۔ پھر وہ دور بھی آیا جب اردو نے درباروں اور ایوانوں تک رسائی حاصل کی۔ ایسا اس لیے ہوا تھا کہ انگریزوں نے ملک پر تسلط قائم کر کے فارسی کی گردن ماردی تھی۔انھیں اس بات کا فطری طورپراحساس تھا کہ ملک پر حکمرانی اسی وقت ممکن ہے جب کہ محکوم ملک کی زبان، تہذیب او رمعاشرت سے واقفیت ہو۔لہٰذا انھوں نے اس سمت سنجیدگی سے عملی اقدامات اٹھائے جس سے مفادات کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کو بھی فائدہ ہوا۔اس فائدے کی نشان دہی فورٹ ولیم کالج کے قیام سے ہوتی ہے۔ انگریزوں کی تعلیم وتدریس کے ساتھ یہاں اردو نثر، دوسری زبانوں کے داستانوں سے اس قدر مالا مال ہوگئی کہ اس کا اپنا دامن وسیع ہوتا چلا گیا۔چونکہ اس کالج کو منصوبہ بند طریقے سے سیاسی مقاصد کی تکمیل کی خاطر قائم کیا گیا تھا لہٰذا مقصد کی تکمیل پر اسے بند بھی کردیا گیا مگر اسی قلیل مدت میں یہاں ایسی ایسی تالیفات و تصنیفات منصہئ شہود پر آئیں جن کی مثالیں نہیں ملتیں۔
اردو زبان کی ترویج میں فورٹ ولیم کالج کے بعد دوسرا اہم ادارہ دلی کالج تھا۔ دلی کالج نے فورٹ ولیم کے ڈالے ہوئے بیجوں کی آبیاری کی اور اس کے باقی ماندہ کام کو پایہئ تکمیل تک پہنچایا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ فورٹ ولیم کی تعلیم کا مقصدانگریزوں کو ملک کی تہذیب سے آشنا کرانا تھا جبکہ دلی کالج نے علمی اور عالمی سطح پر اپنے ہم وطنوں کی تعلیمی شخصیت سازی کا فریضہ انجام دیاتاکہ ہماری قوم تعلیمی میدان میں ابھر سکے اور وہ کسی صورت کسی سے پیچھے نہ رہ جاتے۔ درس و تدریس کے اسی جذبے نے بڑے بڑے اہل دانش اردو ادب کو دیے۔جن کے نام آج بھی تاریخی صفحات پر جگمگاتے ہیں۔
ان تدریسی انجمنوں کے علاوہ اداراتی سطح پر اردو کی ترویج و اشاعت میں علی گڑھ تحریک اور انجمن پنجاب  کومساوی اہمیت حاصل ہے۔ اول الذکر کی کاوشوں کے سبب اس زمانے میں اردو والوں کے لیے نہ صرف عظیم الشان دانش گاہ قائم ہوئی بلکہ مسلمانوں کو ذہنی و فکری طورپربیدار کرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا اہم فریضہ ادا کیا۔انجمن پنجاب نے جدیدنظم اور نیچرل شاعری بالخصوص نظموں کے فروغ کو مد نظر رکھا۔ اور شاعری میں فطرت پسندی کے عناصر سموئے۔غرض انجمنیں ہوں یا ادارے، ان کے اغراض و مقاصد کچھ بھی ہوں،بہر صورت ان کے پرچم تلے زبان و ادب کو فروغ پانے کا خوب خوب موقع ملتا رہاہے۔ 
 اردو کے فروغ و ترویج میں ادبی و علمی تحریکیں تو کارفرما رہی ہیں ساتھ ہی ملک کی سیاسی و باغیانہ تحریکوں نے بھی اسے فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ کیوں کہ زبانوں کی تقسیم کے باوجود اہل وطن نے تقسیم سے قبل تک اسی زبان کو اپنے تمام مقاصد کے لیے اپنایا تھا۔ باغیوں، سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور ادیبوں کی کاوشوں نے اس بات کا احساس دلادیا کہ اردو کی محبت ان کے سینوں میں اب بھی موجودہے۔اس زبان میں اپنے مقاصد کی ترسیل کر کے اس کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے قومی یگانگت، تہذیبی و ثقافتی اتحاد کا بھی ثبوت پیش کیا۔حب الوطنی کے اظہار کی خاطر جتنی کاوشیں اس زبان میں ہوئیں کسی اور زبان میں نہ ہو سکیں۔
ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ بازار ہو کہ دربار، خانقاہ ہوکہ میدانِ کارزار‘عوام ہوں کہ خواص، ہرسمت،ہرجگہ،ہر کسی نے اسی زبان کو اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنایا۔ ہر طرح کے ماحول میں جانفشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اردو زبان نے ہر عہد کا ساتھ نبھایا۔ غزل میں جو پائیداری موجود تھی وہ اردو ہی کی دین تھی۔یعنی غزل کی طرح اردو زبان بھی سخت جان نکلی۔یہ تمام واقعات، اور ادارتی سطح کی کاوشیں بہر صورت اردو کے فروغ اور کسی نہ کسی صورت اسے تحفظ دینے میں کار فرما رہی ہیں۔ اس کے لیے حفاظتی اقدامات تقسیم کے بعد تیزی سے کیے جانے لگے۔اس کا حلقہئ اثر گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتا ہی رہا۔ کیونکہ اردوزبان نے خود کو کسی خاص طبقے تک محدود نہ ہونے دیا۔ اسی وصف نے اسے ہر دل عزیزی اور محبوبیت بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی عمر آج تک دراز ہے۔نئے ملک کے قیام کے بعد وہاں اسے سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہوگئی۔لیکن ہمارے ملک میں اردو زبا ن پر تقسیم کے بہت برے اثرات واضح ہوئے اور بعض دفعہ تو یہاں تک کہہ دیا گیا کہ اردو اپنے ملک میں اجنبی ہوگئی،مگر اس سمت سنجیدگی برتتے ہوئے جتنے بھی اقدامات برتے گئے وہ اس کی ترقی کی جہد پر دال ہیں۔ لوگ تیزی سے تلاشِ معاش کی خاطر غیرممالک کا رخ کرنے لگے تو ان کے ساتھ اردو بھی دیارِ غیر پہنچ گئی۔پھران علاقوں میں اردو بولنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اردو میں روزگار کے مواقع بڑھنے لگے جس سے اس کے امکانات کی ایک اور سبیل نکل آئی۔ان کے قیام کے ساتھ اردو زبان بھی فروغ پانے لگی۔لوگوں نے اپنے ذوق کی تسکین کے لیے ادبی انجمنیں قائم کیں، مشاعروں،مذاکروں اور سمیناروں کے اہتمام کی طرح ڈالی اوراس طرح اپنی نئی شناخت اردو کی نئی بستی کے نام سے بنا ئی۔
آج ان خطوں میں اردو نہ صرف بولی جا رہی ہے بلکہ وہاں سے اردو میں اخبارات و رسائل‘مجلے اورشعری و نثری مجموعے بھی تواتر کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔ گویااردو کی یہ نئی بستیاں بھی اردوزبان و ادب کی ترویج وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔اردو زباں کے تئیں ان کی سنجیدگی اور دلچسپی نیک فال اور لائق تحسین ہے۔ اردو کی اسی بڑھتی مقبولیت نے ان ممالک میں نئی نسل میں اردو سے متعلق ایسی دلچسپی پیدا کردی ہے کہ ان ممالک میں اردو یونیورسٹی کے قیام کی مانگ کی جارہی ہے۔یہ اردو زبان کے دورس اثرات نہیں تو اور کیا ہیں کہ میر و غالب کے اشعار نے غیر ملکیوں کو بھی اپنی طرف مائل کیا۔ اور جب کبھی کسی غیر اردو داں سے اپنے شعراء کے کلام سنتے ہیں تو ہم فخروانبساط سے سرشار ہوجاتے ہیں۔ اس جذبہئ سرشاری کو گلزار کی نظم ’یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا‘ کے ذیل کے مصرعوں میں بخوبی محسوس کیا جا سکتاہے:
عجب ہے یہ زباں ا ردو
کبھی یونہی سفر کرتے اگر کوئی مسافر
شعر پڑھ دے میر و غالب کا
وہ چاہے اجنبی ہو
یہی لگتا ہے وہ میرے وطن کا ہے
اس طرح ہماری زبان کسی مخصوص طبقے یا علاقے میں سمٹنے کی بجائے آکاش بیل کی مانند پھیلتی ہی گئی۔ اس جہت میں عالمی مشاعرے، مذاکرے، سمینار اور سمپوزیم وغیرہ کا بڑا دخل ہے اوران اقدامات کو یقینی شکل دینے میں جوسب سے زیادہ محرک ثابت ہوئی وہ جدید ٹکنالوجی ہے۔
ہر زمانے میں اس زمانے کے تقاضے کے مطابق ادبا و شعرا زبان و ادب کی بے لوث خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اس کے فروغ میں قوموں کے آپسی اختلاط کے ساتھ سائنسی ایجادات بھی اثرانداز ہوئی ہیں۔ سائنسی ایجادات کا حیرت انگیز کرشمہ کمپیوٹر ہے۔سائنسی ایجادات نے نہ صرف ہماری زندگی کو سہل بنا دیا ہے بلکہ بے شمار فوائد بخشتے ہوئے ہمارے قیمتی وقت کو بھی ضائع ہونے سے بچا لیا ہے۔انفارمیشن ٹکنالوجی کا انقلاب جب رونما ہوا تو اس نے ہمیں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے وابستہ کردیا۔اس سہولت نے جہاں ہمیں فائدہ پہنچایا وہیں اس سے نقصانات کے اندیشے بھی جڑ پکڑنے لگے تھے۔مثلاً کمپیوٹر کے رواج نے خطوط نویسی کے چلن کو بہت زیادہ متاثر کردیاتھا۔ کچھ حدتک  تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کی شاندار روایت بالکل اٹھ ہی چکی تھی۔ مگرایسا بالکل بھی نہیں ہوا۔ آج بلاگ پوسٹ کی شکل میں لوگ ایک ساتھ دنیا کے کسی بھی کونے سے تاثراتی،علمی و ادبی مذاکرے و مباحثے میں شامل ہورہے ہیں۔ پیغامات کی ترسیل ای میل کی مدد سے پلک جھپکتے ہی ہوجارہی ہے۔ان روشن پہلوؤں کے اعتراف سے کس کافر کو انکار ہے۔ موجودہ دور میں کمپیوٹر،ٹیلی فون ایسے ذرائع ابلاغ ہیں جنہوں نے ٹکنالوجی کی دنیا میں ہلچل مچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ٹیلی فون کی تو اب شکل ہی بدل گئی ہے۔ کمپیوٹر کے بعد لیپ ٹاپ، پام ٹاپ اور موبائل فون سائنسی ایجادات کے ایسے کرشمے ہیں جنھوں نے تصورات کو حقیقت کی شکل دے کر لفظ’ناممکن‘ کو ہمارے تخیل کے پردے سے ہی محو کردیا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی نے ترقی کرتے ہوئے دنیا کے فاصلے سمیٹ دیے ہیں اور ہم گلوبل ویلج کی اصطلاح استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پھر جلد ہی اس نے ترقی کے ایک اور زینے کو عبور کیا جسے الیکٹرونک عہد سے تعبیر کیا گیا۔یہیں سے ڈیجیٹل عہد کا تصور ابھرا اور اب ہم سائبر ایج میں سانسیں لے رہے ہیں۔ 
کمپیوٹر کی سہولتوں نے اردو والوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔پھر کیا تھا جلد ہی اردو کا Unicode  سسٹم تیار کیا گیا۔جس کے سبب کسی بھی گیجٹ (Gadget)میں اردو زبان کا استعمال سہل ہوگیا۔اور اب تو ہم نے ایسے ایسے سافٹ وئیر بھی ایجاد کر لیے ہیں جن کی مدد سے خوبصورت فونٹس میں اردو کے رسم الخط کا استعمال کر کے ہم کتابیں وغیرہ پرنٹ کرسکتے ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ آج ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں۔اب ان کے بغیر زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں۔لمحے بھر میں انگلیوں کی ایک ٹچ سے مطلوبہ تفصیل و معلومات، مواد کے ترجمے، پیغامات کی ترسیل، آن لائن ایڈیٹنگ، آن لائن ریڈنگ،غرض کہ ہر اہم و غیر اہم معلومات کی مکمل تحصیل، جدید ٹکنالوجی کا عطیہئ بے بہا ہے۔اس دور میں بھی اردو کا سفر کہیں تھمتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ اس دور میں اردو نے بھی اس جدت پسندی سے ہم آہنگی کر لی کیونکہSurvival of the fittest  کا کلیہ دنیا کی ہر شے کی طرح زبانوں پر بھی صادق آتا ہے۔ یعنی زندہ وہی زبانیں رہتی ہیں جو اپنے زمانے کے تقاضوں سے مطابقت پیدا کرلیں ورنہ ان کا معدوم ہوجانا یقینی ہوجاتا ہے۔ بہر حال اردو کی ترقی اس بات میں بھی مضمر ہے کہ اس نے ذرائع ابلاغ کا وسیلہ بننے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہ کی۔اردو کو زندہ رکھنے کے لیے نئے نئے طرزِ عمل سے کام لیاجانے لگا۔ یعنی عالمی طور پر اردو کے فروغ کے لیے اردو کی بیشتر کتابوں کو آن لائن اپلوڈ کردیا گیا، آن لائن ریڈنگ، آن لائن لائبریری وغیرہ کی سہولتیں میسر کرائی گئیں۔اب تو گھر بیٹھے آن لائن ٹیوٹر کی مدد سے اردو سیکھنے کا رواج بھی عام اور مقبول ہوچکا ہے۔انٹرنیٹ کی بدولت مشاہیر ادب کی کمیاب و نایاب کتابوں کو نہ صرف ہم دیکھ سکتے ہیں بلکہ پڑھ بھی سکتے ہیں۔ ٹکنالوجی کایہ دور اردو کے فروغ میں بڑا ہی سود مند ثابت ہوا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ایسی صورت میں ہم ببانگ دہل کہہ سکتے ہیں اردو کو جدید ٹکنالوجی نے بیش بہا فائدے پہنچائے اور اس کی ترویج و اشاعت میں کلیدی حیثیت کی حامل بن چکی ہے۔انٹرنیٹ کی سہولت نے عالمی طور پر اردو کے فروغ اور اس کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں معاونت کی ہے۔ اب تو بین الاقوامی سطح پر مشاعرے، مذاکرے وغیرہ آن لائن ہو رہے ہیں جن سے عالمی سطح پر ترسیلی فاصلے مٹ رہے ہیں۔
اسی آپسی اختلاط نے ہماری زبان کے پھلنے پھولنے اوربڑھنے کے مزید امکانات روشن کر دیے۔آج عالم یہ ہے کہ ہماری زبان کو عالمی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور اب کسی کو بھی یہ شکایت نہیں کہ ”اردو اپنے وطن میں ہی اجنبی ہے۔“اس ضمن میں ڈاکٹر مشتاق احمد اپنے مضمون”اردو زبان: حال اور مستقبل“میں رقمطراز ہیں:
”اردو زبان کے متعلق ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اردو صرف شاعری کی زبان ہے، ادب کی زبان ہے لیکن حقیقتاً اردو میں ہر قسم کے علوم و فنون سے متعلق مواد و معلومات کا ذخیرہ موجود ہے۔ جدید تر اصطلاحات کی بھی کمی نہیں اور اردو کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی کم نہیں ہیں۔ غرض کہ اردو زبان میں وہ علمی اور فکری سرمایہ موجود ہے جس کی بدولت ہم اس عالمی گاؤں میں جی سکتے ہیں اور ان طاقتوں کو اپنی گرفت میں لا سکتے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی لسانی پسماندگی کا ازالہ کرسکیں۔ وہ دن گئے جب اردو میں صرف گل و بلبل کے قصے ہوا کرتے تھے، غم عشق اور غم روزگار کا تذکرہ لکھا جاتا تھا۔ آج اردو کمپیوٹر کی زبان بن چکی ہے، اس میں سائنس، تاریخ فلسفہ، نفسیات، سیاسیات، معاشیات، غرض کہ تمام علمی خزینہ موجود ہیں۔ اس لیے نئی نسل کو، جو اردو سے بیگانہ ہوتی جارہی ہے، اس کو اردو کی تعلیم سے وابستہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور اگر ہماری یہ کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو پھر اردو کا حال تابناک رہے گا اور مستقبل بھی قابل فخر ثابت ہوگا۔“
(اردو زبان: حال اور مستقبل، مضمون نگار: ڈاکٹر مشتاق احمد، بحوالہ: اکیسویں صدی میں اردو کا سماجی و ثقافتی فروغ۔مرتب: پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین۔ص 177-178،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی2014)
ناظم الدین مقبول نے اپنے مضمون اردو جاب مارکیٹ(بازاراور روزگار)میں اردو زبان سے متعلق یہ پیشن گوئی کی تھی:”مستقبل قریب میں ہم اردو میں Tweet  کرسکیں گے اور Facebook  پر بھی اردو کا چلن رائج ہوگا۔“اب یہ قیاس حقیقت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آج اردو نہ صرف فیس بک اور ٹوئیٹر کی زبان بن گئی ہے بلکہ بیشتر ایپلی کیشنز میں بھی بحیثیت فنکشنل لنگویج کا م کررہی ہے۔اور عالمی طور پر اپنی حیثیت منوا کر اپنے حلقہئ اثر کو طویل سے طویل تر کررہی ہے۔
سائنسی ایجادات نے زندگی کو ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیا ہے۔یہ ترقی ذرائع ابلاغ کے توسط سے شرمندہئ تعبیر ہوئی ہے۔اس سلسلے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے اہم کردار ادا کیے ہیں۔ اس زمرے میں اخبارات، رسائل،مجلے اور مجموعے وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جنھوں نے ہمارے ادب کا دامن وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ نئے ذہنوں کو سمجھنے اور ادب کا معیار قائم رکھنے کی کامیاب کوششیں کیں اور کررہے ہیں۔اس ضمن میں ساہتیہ اکاڈمی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زباں و دیگر ریاستی سرکاری و غیر سرکاری اداروں کا ذکر ناگزیر ہے۔ جنھوں نے اردو کے فروغ کی خاطر معیاری رسائل جاری کرکے نہ صرف اردو زبان و ادب کی خدمت کا فریضہ انجام دیا ہے بلکہ نئی نسل کو تحقیقی شعور عطا کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس فضا کو خوشگوار بنانے میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زباں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس نے نہ صرف ریسرچ اسکالرس کی ادبی نشوو نما کی خاطر ’فکرو تحقیق‘ جیساسہ ماہی رسالہ جاری کیا بلکہ ’بچوں کی دنیا‘کے نام سے تربیت طفلاں کی خاطر خوبصورت تفریحی رسالہ پیش کردیا۔ اس ادارے نے عالمی طور پر اردو والوں کو رابطے میں رکھنے کی خاطر اور عالمی عصری تناظر کو سمجھنے کی خاطر ’اردو دنیا‘ جیسا اہم رسالہ شائع کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کونسل نے اس ڈیجیٹل دور میں اس کے تقاضوں کے ساتھ بچوں کے ذوق و دلچسپی کا سارا سامان اپنے رسالے میں جمع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ’خواتین کی دنیا‘ بھی اسی ادراے کی دین ہے۔مالی تعاون کے ذریعے بھی کونسل دیگر ریاستوں میں اردو کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ غرض کہ یہ ادارہ نہ صرف اردو کے فروغ کے لیے نئی نئی جہتوں میں کام کررہا ہے بلکہ موجودہ عہد میں اردو کانیا معیار قائم کرنے میں بھی سرگرداں ہیں۔اس ادارے نے سب سے پہلے اداراتی سطح پر کمپیوٹر کے ذریعے آن لائن تدریس اردو کااہم کا رنامہ انجام دے کر دنیا کے گوشے گوشے سے شائقینِ اردو کو زبان سیکھنے کی جانب متوجہ کیا۔دنیا کے مصروف ترین طالب علموں کے لیے آن لائن اردو سیکھنے کی آسان سبیل پیدا کردی۔قومی کونسل کا یہ کارنامہ اہم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو سکھانے کی راہ میں پہلی اینٹ ثابت ہوا۔اسی کی پیروی کرتے ہوئے دیگرتمام ریاستوں نے بھی تدریس اردو کی غرض سے سرٹیفائڈ کورس کرانا شروع کردیا۔اب تو اس کونسل کے اشتراک سے بھی زبانوں کے سکھانے کے سندی کورس کرائے جارہے ہیں۔
خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ اب اردو کے بیشتر اخبارات، جرائد،  رسالے، اہم شمارے بآسانی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔یعنی اب پرنٹ میڈیا بھی الیکٹرانک میڈیا کا حصہ بن گئی ہے۔اردو زبان کو انٹرنیٹ کی سہولتوں سے دور دور پہنچانے میں ریختہ ڈاٹ کام کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس نے نہ صرف قدما کی نثری و شعری تصنیفات کوEbook   کی شکل میں   Uploadکرکے اردو کے چاہنے والوں کے لیے زندہ جاوید کردیا بلکہ ہر اس آنکھ کو اپنا ممنون بنا دیا جو نایاب کتابوں کی دیوانی تھی۔اردو کے حوالے سے اور بھی ویب سائٹ ہیں لیکن ریختہ ان معنوں میں انفرادیت کا حامل ہے کہ اس سائٹ پر قدیم وجدید تمام شعرا کی تخلیقات، ان کے کوائف، ان کی ویڈیوز تک دستیاب ہیں۔ یعنی یہاں تشنگانِ شعروادب کی سیرابی کے تمام لوازمات مہیا کردیے گئے ہیں۔اس ویب سائٹ نے اردو کو غیر اردو داں حلقے میں پہنچانے کی خاطر تین زبانوں کی سہولت بھی دے رکھی ہے مثلاً اردو، انگریزی اور ہندی، تینوں رسم الخط میں آپ کو مطلوبہ معلومات بآسانی دستیاب ہیں۔ اس سلسلے میں اہم، کمیاب،  نادر، کتابیں ریختہ میں اپ لوڈ ہو چکی ہیں، بقیہ اپ لوڈ کے مرحلے میں ہیں۔جن پر بڑے انہماک کے ساتھ کام کیا جارہا ہے۔وہ دن دور نہیں جب شائقین اردو اس زبان کے تمام فن پاروں سے ریختہ پر باآسانی مستفیض ہوسکیں گے۔ اداراتی سطح کی یہ کاوشیں واقعی د اد وتحسین کی مستحق ہیں۔
اسی طرح الیکٹرانک میڈیانے بھی اردو زبان کی ترویج میں ہر زمانے میں معاونت کی۔ اس سلسلے میں ہمیں ترسیل کے بڑے اہم ذرائع ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی شکل میں ملے۔برقی وسائل کی مدد سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے یہ سب سے دلچسپ ذرائع ثابت ہوئے۔ ریڈیو  عالمی طور پہ ذرائع ابلاغ کا سب سے قدیم وسیلہ ہے۔ جو اپنی مقبولیت کے سبب جلد ہی گھر گھر پہنچ گیا تھا۔ ابتدا میں چونکہ ملک میں اردو کا زور تھا لہٰذا اردو زبان میں تمام پروگرامز نشر ہوتے مگر زمانے کی تبدیلی کے سبب لسانی عصبیت نے اس شعبے کو بھی متاثر کیا۔ ٹی وی کی ایجاد نے بہت حد تک یہ تشویش پیدا کردی تھی کہ اب بس ریڈیو کا دور ختم ہی ہوجائے گالیکن ریڈیو نے بھی زمانے کا ساتھ دینے کی ٹھانی اور اس کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرکے ایف۔ ایم کی شکل میں ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی۔ایک بار پھر اس کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔آج بھی اس کا خمار کچھ کم نہیں۔ اس کی اہم اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں چونکہ لہجے کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے لہٰذا لفظوں کے صحیح تلفظ اور کم سے کم جملوں میں اپنے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے اس لیے اردو کا کثرت سے یہاں استعمال ہوتا ہے۔ خاص بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بیشتر ریاستوں میں اردو کے الگ پروگرامز بھی نشر کیے جاتے ہیں۔ مغربی بنگال سے بھی اردو پروگرامز نشر ہوتے ہیں۔ اب تو ریڈیو کے ایسے ایپ بھی دستیاب ہیں جن کی مدد سے دنیا کے کسی بھی کونے میں نشر ہونے والے پروگرامز کو ہم آسانی سے سن سکتے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ رابطے کے اس ذریعے کو بھی اردو سے ہی توانائی حاصل ہے۔اردو زبان میں نشریات کے سبب اردو کا فروغ اور تحفظ دونوں حقیقت بن چکے ہیں۔
ٹی وی اور فلموں کے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی حالات رہے۔ ابتدائی دور میں مکالمے، نغمے، یہاں تک کہ اشتہار کی زبان میں بھی اردو کا بڑا دخل رہا۔ مگر وہی طرز تغافل جو ریڈیو کے ساتھ برتے گئے یہاں بھی جڑ پکڑنے لگے تھے۔ اس کے بعد اس میڈیم کا جو حشر ہوا وہ سبھی کو معلوم ہے لیکن اس صورت میں گزشتہ دہائی سے بڑی ہی خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی ہیں۔اب پھر سے اردو کے بہترین الفاظ سے مکالمے اور نغموں کو ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ یعنی ایسے نغمے اب فلموں میں شامل کیے جا رہے ہیں جن کے الفاظ شیرینی بکھیرنے کے ساتھ روح کی تسکین بھی کر جاتے ہیں۔ ایک طرح سے جس شور شرابے نے جس طرح نغمے کی ریڑھ ماری تھی اس کا اب خاتمہ ہو چلا ہے یعنی:
پھر آگئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم
ان خیالات کی وضاحت خواجہ محمد اکر ام الدین صاحب کی مندرجہ ذیل آرا سے ہوجاتی ہے:
”…… اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذرائع ابلاغ کی حیثیت سے ارد و زبان کے امکانات روشن ہی نہیں روشن تر ہیں۔ لیکن یہ وہ زبان ہے جو معرب اور مفرس نہیں بلکہ عام فہم اور سلیس و سہل ہے۔ آج کے کثیر لسانی معاشرے میں ایسی ہی زبان چلے گی جس کی رسائی عوام تک ہے۔ اب اکیسویں صدی میں میڈیا کے ان تقاضوں اور وقت کے مطالبات کو سامنے رکھ کر اگر اردو کے فروغ کی جانب مناسب توجہ دی گئی تو خود اردو زبان میں پوشیدہ وسعت امکان اور تنوع اس کی عالمگیر مقبولیت کا ضامن ہوں گے۔“
(اکیسویں صدی میں الیکٹرانک میڈیا کے تقاضے اور اردو بحوالہ: اردو زبان کے نئے تکنیکی وسائل اور امکانات، ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین،  ص59،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،دہلی2012) 
ریاستی سطح پر اردو کی ترویج کی خاطر سرکاری اسکولوں میں سہ لسانی منصوبے کے تحت اردو کو بھی بحیثیت زبان نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ تاکہ یہ زبان نہ صرف ترقی پاتی رہے بلکہ موجود ہ نسل اور آنے والی نسلیں اپنی تہذیبی وراثت سے محروم نہ رہ جائیں۔اس حوالے سے بنگال، بہار، حیدرآباد اورآندھرا پردیش کے کئی علاقوں میں اردو کی حالت بہت اچھی ہے۔یہاں اس زبان کو دوسری سرکاری زبان کی طرح حق حاصل ہے۔ ان ریاستوں نے نہ صرف اردو کا معیار بلند کیابلکہ غیر اردو داں طبقے کو بھی اردو کی طرف مائل کردیاہے۔ان علاقوں میں اردو کا حال روشن اور مستقبل تابناک ہے۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں جبکہ تعلیم و تدریس سے لے کر تمام شعبہ ہائے حیات ڈیجیٹلائز ہوچکی ہیں۔اسی طرح ہماری زبان بھی ان عوامل سے پرورش و پرداخت پارہی ہے  غرض یہ کہ ٹکنالوجی کے پروں پر سفر کرتے ہوئے ہماری زبان نے ایسا مقام حاصل کر لیا ہے کہ اس کا مستقبل سنہرا ہی سنہرا ہے۔
انٹرنیٹ کی آمد سے نہ صرف عالمی طور پر اردو زبان کی اشاعت ہوئی بلکہ اس کی شناخت بھی قائم ہوئی۔آج دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اردو زبا ن اور اس کے اشعار سے محظوظ ہورہا ہے۔اردو رسم الخط کے حوالے سے یہ تشویش بھی ظاہرکی گئی کہ اب اس کا چلن بھی ختم ہوجائے گا۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ایسا کہنا غلط ہے کیونکہ اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ اردو رسم الخط میں اپنے مقاصد کے ساتھ ساتھ دوسری زبان میں اس کے تراجم بھی پوسٹ کردیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف اردو، اپنے زبان والوں میں مقبول ہورہی ہے بلکہ غیر اردو داں بھی اس کی طرف مائل ہورہے ہیں۔گلوبل ویلج، سائبر اسپیس، یہ سب اس وسیلے کی دین ہیں۔ سمٹتے ہوئے فاصلوں نے قاری اور ادب کو ایک دوسرے سے اتنا قریب کردیا کہ زبان کی ترقی کو مضبوط پنکھ لگ گئے نیزعصری تناظر میں اس کی اڑان کے ضامن بھی بن گئے۔انٹرنیٹ ہماری زبان کے حق میں جو رول ادا کررہا ہے اس کے لیے ہمیں ٹکنالوجی کا شاکر ہونا ہی پڑے گا۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عصری تناظر میں زبانِ اردو اپنی ممکنہ جہات تک پہنچ چکی ہے۔ ان جہات کا سفر کافی پرپیچ تھا،دشوار ترین مراحل اورناہمواریوں کو پاٹتے ہوئے، عصری تقاضوں سے ہم آہنگی برتتے ہوئے ہماری زبان آج دنیا کے گوشے گوشے میں نہ صرف شان سے سانس لے رہی ہے بلکہ اشاعتی سلسلے سے اپنی تابندگی کا ثبوت بھی فراہم کررہی ہے۔پوری دنیا میں آج کیا اردو داں اور غیر اردو داں، سب ہی اس سے مستفیض ہورہے ہیں اور ادب کی خدمت انجام دیتے ہوئے اس کے تحفظ کو نقش ایقان بخش رہے ہیں۔ عالمی منظر نامے میں اردو کی صورت حال کافی خوشگوار ہے جس سے اس کی ترقی اورتحفظ کے امکانات روشن ہیں۔

Sadia Sadaf
67, Maulana Shaukat Ali Street (Colootola Street)
Kolkata - 700073 (West Bengal)
Mob.: 9831365693

 ماہنامہ اردو دنیا،دسمبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں