10/12/19

ادا جعفری بحیثیت نظم نگار مضمون نگار۔ جمشید احمد


ادا جعفری بحیثیت نظم نگار
 جمشید احمد
    اردو کی نظمیہ شاعری میں جن شاعرات کو خصوصیت کے ساتھ اہمیت حاصل ہے ان میں ادا جعفری کا نام قابل قدر ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات خاصے وسیع ہیں۔ ان میں فرسودگی نہیں بلکہ جدت و ندرت ہے۔ انھوں نے استعارات و تشبیہات کا بحسن و خوبی استعمال کیا ہے۔ان کی نظمیں زبان و بیان اور غیر معمولی خود اعتمادی کی بنا پر قاری کو بے حد متاثر کرتی ہیں۔ ادا جعفری 22 اگست 1924 کو یوپی کے ایک مشہور شہر بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ان کا اصل نام عزیز جہاں تھا۔ آغاز میں ادا   بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔1947میں نورالحسن جعفری سے شادی ہوجانے کے بعد اپنا نام ادا جعفری لکھنے لگیں۔
ادا جعفری بلا شبہ ایک بے باک اور حوصلہ مند شاعرہ ہیں۔ وہ پروین شاکر کی پیش رو ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نسائی احساسات و جذبات کے اظہار کو اگر پروین شاکر نے ایک بے مثل شعری پیکر عطا کیا ہے تو ادا جعفری اس جرات و حوصلہ مندی کی بنیاد گزار ہیں۔ادا جعفری نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ آج کی طرح کھلی فضا یا آزاد روش کا نہیں تھا بلکہ اس زمانے میں تہذیب، ادب و آداب کے نام پر قدم قدم پر ایسی پابندیاں تھیں جس سے رو گردانی کرنا گناہ عظیم سمجھا جاتا تھا۔لیکن ان ناساز گار حالات میں بھی اداجعفری نے غیر معمولی جرات اظہار کا ثبوت دیا۔ان کی نظموں میں روایت کی بے جا پابندیوں سے چھٹکارا پانے کی جدوجہد ہے۔وہ ستائش اور صلے کی پروا کیے بغیر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہیں اور جو  ان کے دل پر گزرتی رہی اسے بغیر کسی تامل کے شعری پیکر عطا کرتی رہیں۔ذیل کے یہ مصرعے اس کی ترجمانی کرتے ہیں:
دل ضدی ہے اسے کچھ نہ کہو
  آنسو دل سے چہرے مانگے
   اور ناکام پھرے 
    زخموں کی تپش سہتا ہے
  کرچیاں،کنکر،کانٹے چن کر
 خوش رہتا ہے 
  رو لینے دو
جو کہنا ہے کہہ لینے دو
اسے کچھ نہ کہو
ادا جعفری کی شاعری عشق و محبت کی تلخ و شیریں واردات اور عورت کے فطری جذبات و احساسات سے عبارت ہے۔وہ ایک درد مند دل لے کر پیدا ہوئی تھیں لہٰذا فطری جبلت یعنی دردِ عشق و محبت ان کی نظمیہ شاعری میں خاص انداز سے جلوہ گر ہے۔عشق میں صرف وصل کے مزے ہی نہیں ہوتے بلکہ ہجر کی المناکیاں بھی سہنی پڑتی ہیں اور ہجر کا یہ لمحہ کتنا کرب ناک ہوتا ہے،اس کا اظہار ادا جعفری اپنی ایک نظم میں کچھ اس طرح سے کرتی ہیں      ؎
ہاں ابر سیہ انجم رخشندہ پہ چھا جا
  آنکھوں تلے پھرنے لگے ماضی کے نظارے
   تاروں کی طرح میرے تصورمیں ہیں روشن
    وہ لمحے جو فردوس محبت میں گزارے
     کیا بھول گئے ہیں وہ محبت کی کہانی
       کیا  یاد  انہیں اب نہیں جمنا کے کنارے
میرے مہ تاباں سے اد اکون یہ پوچھے
تنہا کوئی کب تک شب مہتاب گزارے
ادا جعفری کی نظموں میں عشق و محبت کا یہ حوالہ بہت دیر تک قائم نہیں رہتا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تانیثیت کا موقراور معتبر حوالہ ان کے یہاں اس طرح رچ بس جاتا ہے کہ اسے ان کی زندگی اور شاعری کے محور کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔معاشرتی زندگی میں عورتوں کو جن مشکلات و مسائل کا سامنا ہے اس کا اظہار ادا جعفری بڑے ہی خلوص اور درد مندی کے ساتھ کرتی ہیں۔ان کے نزدیک زندگی جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں کے مانند ہے۔ لہٰذا وہ زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں سے گھبراتی نہیں ہیں بلکہ اس سے نبرد آزما  ہوتی ہیں اور  دوسروں کو بھی جدوجہد کی دعوت دیتی ہیں۔اس سلسلے میں ان کی نظم ’پیش لفظ‘ملاحظہ ہو       ؎
وہ کم  عمری تھی
  نادانی کے دن تھے
کہ میں نے وقت کے ساحر سے
       پوچھا تھا پتہ اپنا
     اور اس جادو کے لمحے نے 
  نہ جانے کیا کہا مجھ سے 
   نہ جانے کیا سنا میں نے
کہ میں اب تک سفر میں ہوں 
 ادا جعفری کے یہاں ’سفر‘کم عمری و نادانی کے دن سے ہی شروع ہوجاتا ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کا سلسلہ صدی در صدی جاری رہتا ہے۔ادا جعفری کے یہاں سفر کا استعمال بطور علامت ہوا ہے۔یہ سفر علامت ہے جہد مسلسل کی ناساز گار حالت سے نبرد آزماں ہونے کی، باطل سے ٹکرانے کی،بے جا پابندیوں سے آزادی حاصل کرنے کی۔ان کے نزدیک یہ سفر ہی فکر و نظر کی تبدیلی اور کامیابی کا ضامن ہے         ؎
 بتاتیں کیا؟ ہمارے زخم کے گلاب
  ماہ و آفتاب سب گواہ ہیں۔
   کہ ہم نے کیا نہیں سہا
    صعوبتوں کے درمیاں 
ہمارے ساتھ اک یقیں رہا
گواہ یہ زمین و زماں رہے
نہ آج سوگوار ہیں 
نہ کل ہی نوحہ خواں رہے
شرر جو کل لہو میں تھے 
  وہ آج  بھی لہو میں ہیں 
ہمارے خواب سانس لے رہے  ہیں آج بھی
  کوئی دیا بجھا نہیں 
   کہ ہم ابھی تھکے نہیں 
           اور اک  صدی سے دوسری  صدی تلک
    )سفر میں ہیں   (سفر باقی ہے
ادا جعفری کی نظموں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نا مساعد حالات میں بھی یقین کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتیں۔انھوں نے خواتین کے لیے بھی یہی پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی خوابیدہ صلا حیتوں کو بروئے کار لاکر اپنی دنیا آپ پیدا کریں اور ہجوم غم میں بھی جہد و عمل کو اپنا شعار بنائیں۔ادا جعفری کی انفرادیت کو اجاگر کرتے ہوئے فیض احمد فیض نے لکھا ہے کہ:
ادا کے لہجے میں ایسا تیقن اور ان کی آواز میں ایسی تمکنت ہے کہ جو شاعر کوجہد اظہار میں اپنا مقام ہاتھ آجانے کے بعد ہی نصیب ہوتا ہے۔ادا نے درد کا جو شہر تخلیق کیا ہے اس شہر کے درو دیوار ان کی ذات تک محدود نہیں،قریب قریب عالمگیر ہیں۔اس درد میں حزن ویا س کا عنصر بہت کم اورعزم و استقلال کا دخل بہت زیادہ ہے۔
(بحوالہ فضائے حیات ومسائل کائنات کی مرقع ساز: ادا جعفری، فاروق ارگلی، ماہ نامہ اردو دنیا، دہلی، جون 2015ص53)
ادا جعفری کی نظموں کے مو ضوعات خاصا وسیع ہیں۔ انھوں نے تانیثیت اور نسا ئیت کے علاوہ حیات و کا ئنات کے دیگر مسائل کو بھی شعری پیکر عطا کیا ہے۔اس سلسلے میں اردو کے نامور ناقد ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:
اس سے انکار نہیں کہ ادا جعفری نے ایک خاتون کی حیثیت سے نسائیت کے بعض ایسے نفسیاتی کوائف اور جذبوں کی تر جمانی بھی  کی ہے جو کسی مرد شاعر سے ممکن نہ تھا لیکن وہ اسی دائرے میں گھر کر نہیں رہ گئیں۔انھوں نے نسوانی فضا سے آگے بڑھ کر ذات کے حصار سے باہر نکل کر عام انسانی فضاء حیات ومسائل کائنات کواپنی شاعری کا مو ضوع بنایا ہے اور اس خوبصورتی اور تواتر کے  ساتھ کہ ان کا شمار عصر حاضر کے نمائندہ و معتبر شعراء میں کیا جانا ہے۔
)بحوالہ فضائے حیات ومسائل کائنات کی مرقع ساز: ادا جعفری، فاروق ارگلی ماہنامہ اردودنیا، دہلی، جون 2015، ص53(
اس سلسلے میں ان کی نظم .  شہر آشوب ملاحظہ ہو۔جس کے مطالعے سے اداجعفری کی و سعت نظر اور عصری آگہی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔یوں تو یہ نظم پاکستان کے حالات پر مبنی ہے لیکن اس کا اندازِ بیان کچھ ایسا ہے کہ اس کو کسی بھی پر فتن شہر کے پس منظر میں دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی معنویت میں ا ضافہ ہوتا جا رہا ہے۔نظم اس طرح ہے       ؎
ابھی تک یاد ہے مجھ کو 
  میرے آنگن میں خیمے دعاؤں کے
   یقین آئے نہ آئے میرے بچوں کو                                                                                 
گئے وقتوں کا قصہ ہے
کہ برگ گل کبھی قدموں تلے ر وندانہ جاتا تھا 
ہوا بر گشتہ گام آتی نہ تھی پہلے
یقین اغوا نہ ہوتا تھا
میرے آنگن میں نقشِ پا سجے تھے 
  خون کے دھبّے نہ ہوتے تھے 
دھوئیں کے ناگ کا پہرہ نہ ہوتا تھا
  گئے وقتوں کی باتیں ہیں 
   میرے بچوں کو شاید ہی یقین آئے
    درودیوار کے اوپر 
     کسی آسیب کا سایہ نہ ہوتا تھا
سبھی تنہا تھے لیکن یوں کوئی تنہا نہ ہوتا تھا 
ابھی تک یاد ہے مجھ کو
(شہرِآشوب(
ادا جعفری نے قومی مسائل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مسائل کو بھی اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہے۔اس سلسلے میں ان کی نظم ’مسجد اقصی‘ بہت مشہور ہوئی جس میں انہوں نے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پرصدائے احتجاج بلندکیا ہے     ؎
ایسا اندھیرا تو پہلے نہ ہوا تھا لو گو
لو چراغوں کی تو ہم نے بھی لرزتے دیکھی
آندھیوں سے کبھی سورج نہ بجھا تھا لو گو
آئینہ اتنا مکدر ہو کہ اپنا چہرہ 
دیکھنا چاہیں تو اعتبار کا دھوکا کھائیں 
ریت کے ڈھیر پہ ہو محمل ارماں کا گماں 
  )مسجد اقصیٰ(
ادا جعفری کی شاعری بلا شبہہ ساحری کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے اردو ادب کو ما لا مال کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں ساز ڈھونڈتی رہی، شہر درد، غزالاں تم تو واقف ہو، ساز سخن بہانہ ہے، حرف شنا سائی، اور سفر باقی ہے، ان کے یہ چھ شعری مجموعے اردوادب کا بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان سب کا مجموعہ ’موسم موسم‘کے عنوان سے کلیات کی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ ان کی ادبی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں مختلف اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔مثلاً ان کے مجموعہ کلام شہر در شہر پر آدم جی ایوارڈ، ان کی مجموعی ادبی خدمات پر تمغہء امتیاز،کمالِ فن ایوارڈ، پرائڈ آف پرفارمنس، بابائے اردو ایوارڈاور قائدِ اعظم ادبی ایوارڈوغیرہ۔
ادا جعفری کی نظمیں پابند بھی ہیں اور آزاد بھی۔ انھوں نے غزلیں بھی لکھی ہیں جو مقبول خاص و عام ہیں۔ ان کی ترکیبیں نئی اور دلکش ہیں۔ ان کا لسانی شعور بہت پختہ ہے۔انھیں لفظوں کی جمالیات سے گہری واقفیت ہے جس سے ان کے کلام کی معنویت میں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ ادا جعفری عہد حاضر کی ایک عظیم المرتبت شاعرہ ہیں۔انھوں نے اردو ادب کی بے لوث خدمت کی ہے جس کی بنا پر اردو ادب میں ان کا نام ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا رہے گا اور ان کے اشعار قاری کو ہر عہد میں رجائیت کا پیغام دیتے رہیں گے۔میں اپنی بات ادا جعفری کی ایک نظم پر ختم کرنا چاہتا ہوں جس کا  عنوان ہے،میراثِ آدم۔نظم یوں ہے       ؎
وہ انسان ہیں 
  اک کلی کے لیے،اک کرن کے لیے
زہر پیتے رہے،جی گنواتے رہے 
غم رسیدہ نہ ہو دل گرفتہ نہ ہو
آج کی موت بس آج کی موت ہے
زندگی موت سے کب خجل ہو سکی
تیرگی قسمت آب و گل ہو سکی
Dr. Jamshed Ahmad
Dept of Urdu, Pandeshwar College
Pandeshwar
Burdwan - 713342 (WB)
Mob.: 9593664494
Email: jamshed78@gmail.com

ماہنامہ اردو دنیا،دسمبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں