10/12/19

اختر شیرانی کی نظم نگاری مضمون نگار۔ فیروز عالم

اختر شیرانی کی نظم نگاری
فیروز عالم



اردو میں رومانی شاعری کی ایک طویل روایت رہی ہے۔اردو شاعری کے ابتدائی دور سے ہی دکن میں قلی قطب شاہ، ولی،  سراج اور شمالی ہند میں فائز، مضمون اور یک رنگ کے کلام میں رومانیت کے نقوش ملتے ہیں۔ بعد کے دور میں غالب، مومن، اقبال، عظمت اللہ خاں، جوش ملیح آبادی، جمیل مظہری، پرویز شاہدی، روش صدیقی، اسرارالحق مجاز، ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، حفیظ جالندھری، ساغر نظامی، معین احسن جذبی، جگر مراد آبادی، حسرت موہانی، فراق گورکھ پوری اور فیض احمد فیض کی شاعری میں بھی رومانی عناصر ملتے ہیں۔لیکن اردو کا سب سے بڑا رومانی شاعرہونے کا اعزاز اختر شیرانی کے سر ہے۔ ان کی انفرادیت یہ ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں وہ واحد ایسے شاعر ہیں جن کا پورا کلام رومانیت سے بھرپور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں اردو شاعری میں رومانیت کا امام تسلیم کیا جاتا ہے۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پھولوں کے گیت‘ 1936میں شائع ہوا جو بچوں کی نظموں پر مشتمل ہے۔ نغمہئ  حرم 1939میں چھپا۔ اس میں عورتوں اور بچوں کے لیے نظمیں ہیں۔ تیرہ سانیٹ اورچار نظموں پر مبنی شعری مجموعہ ’شعرستان‘1941 میں اور رومانی نظموں کا مجموعہ ’صبح ِ بہار‘ 1945میں منظر عام پر آیا۔  ’اخترستان‘ (1946) اور ’لالہئ طور‘ (1947) میں نظمیں اور سانیٹ ہیں جبکہ ’طیور آوارہ‘(1946) میں غزلیں، گیت اور رباعیاں اور ’شہناز‘ اور’شہرود‘ (1949) میں نظمیں، غزلیں، ماہیے، نعتیں اورسانیٹ ہیں۔ اختر شیرانی  (1905-1948) نے  اگرچہ نہایت مختصر عمر پائی۔ وہ صرف 43برس جیے لیکن اس عرصے میں انھوں نے اچھا خاصا کلام یادگار چھوڑا۔
اپنی تخلیقات کی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر وہ اپنے عہد میں مقبول ہوئے اور آج بھی پسند کیے جاتے ہیں۔
اختر شیرانی کی شاعری میں اگرچہ رومانیت کی تمام خصوصیات نہیں ملتیں لیکن جوش و جذبہ، فطرت سے لگاو، عشق و محبت اور خیال آرائی وغیرہ خوبیاں ان کے کلام میں کثرت سے موجود ہیں۔اخترشیرانی کی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ انھوں نے اپنی نظموں میں محبوبہ کے طور پرعورت کا ذکر تانیثی صیغے میں کیا اور اردو شاعری کومتعدد نسوانی کرداروں سے متعارف کرایا۔انھوں نے ابتدائی تعلیم کے زمانے میں اردو اور فارسی کے ساتھ ساتھ عربی بھی سیکھی تھی اور عربی ادب کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ عربی شاعری کی روایت پر ان کی گہری نظر تھی۔عربی شعرو ادب میں عورت سے اظہارِ عشق معیوب نہیں ہے۔ اختر شیرانی نے اس روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اردو میں محبوبہ کو عورت کی جنس میں پیش کیا۔ ان سے قبل اردو شاعری میں محبوبہ کی جنس اس قدر واضح نہیں تھی۔دبستان دہلی کے شعرا نے عشقیہ مضامین میں محبوب کی جنس واضح نہیں کی۔ لکھنوی شعرا نے محبوبہ کی جنس کی تخصیص ضرور کی لیکن انھوں نے جنس مذکر استعمال کی اور سراپا مونث کا پیش کیا۔ اختر شیرانی نے پہلی بارسلمیٰ، عذرا، ریحانہ اور شیریں وغیرہ ناموں کے ذریعے محبوبہ کی جنس واضح کی۔سلمیٰ ان کا سب سے تواناکردار ہے جو ان کی زندگی کا مرکز ومحور ہے۔اختر شیرانی کی محبوبہ میں نسوانی حسن کی تمام خصوصیات ملتی ہیں۔ان کی محبوبہ میں مشرقی تصور ِحسن و جمال، شرم و حیا، پاکیزگی اور نازو ادا کی خوبیاں ملتی ہیں۔اختر شیرانی نے اپنی نظموں میں عورت سے جس محبت کا اظہار کیا ہے اس میں خلوص، سچائی اور زندگی کو خوب صورت بنانے کا جذبہ ملتا ہے۔
اختر شیرانی کی شاعری میں عشق کا جسمانی تصور ملتا ہے جس طرح ان کی محبوبہ گاؤں کی ایک الھڑ لڑکی ہے اسی طرح ان کا عشق اور ان کے جذبات و احساسات بھی عام انسان کے ہیں۔ انھوں نے عشق کے روایتی تصور کے بجاے فطری جذبات و احساسات کی عکاسی کی۔ ان کی شاعری میں عریانی اور فحاشی نہیں ملتی۔وہ جنسی جذبات کا اظہار بھی مہذب انداز میں کرتے ہیں۔ وہ عشق کو گناہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے انسان کا فطری جذبہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عشق کی مختلف کیفیات مثلاً ہجر، وصال، انتظار اور درد وکرب  کے ساتھ ساتھ صداقت اوروالہانہ پن کا اظہار فطری انداز میں ملتا ہے۔نظم ’اعتراف ِ محبت‘ کا ایک بند بطور مثال پیش ہے       ؎
جب رات کی بے کس تنہائی میں، آپ کو تنہا پاتا ہوں
میں بربط دل سے سوز و گدازِ عشق کے نغمے گاتاہوں
اتنا تو بتا دو تم بھی مجھے، کیا میں بھی کبھی یا د آتا ہوں
بتلاؤ کہ منت کرتا ہوں
میں تم سے محبت کرتا ہوں
دیگر رومانوی شعرا کی طرح اختر شیرانی کی نظموں میں بھی تخئیل اور جذبات کی فراوانی ملتی ہے۔ان کے تخئیل کا محور حسن ہے۔ وہ کبھی جنت سے زمین پر بہاریں بھیجنے کی گزارش کرتے ہیں،کبھی آسمان سے اپنے ستاروں کو زمین پر بچھانے کی التجا کرتے ہیں اور کبھی فطرت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بادل کے ٹکڑوں کو رقص کا حکم دے۔ نظم ’انتظار‘ میں کہتے ہیں       ؎
زمیں پر بھیج دے آج اے بہشت اپنی بہاروں کو
بچھا دے خاک پر اے آسماں اپنے ستاروں کو
خرام و رقص کا دے حکم فطرت ابر پاروں کو
وہ بے خود چاند کی نظروں سے گھبرائے گی وادی میں
سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں
دردو غم اور جذبات کی عکاسی بھی اختر شیرانی کی نظموں کی اہم خصوصیت ہے۔ ’آج کی رات‘، ’اے عشق کہیں لے چل‘،  ’او دیس سے آنے والے بتا‘ اور ’جہاں ریحانہ رہتی تھی‘ میں کچھ کھو جانے کا احساس اور درد انگیز فضا ملتی ہے۔ نظم ’آج کی رات‘ کا ایک بند بطور نمونہ درج ہے     ؎
ہم میں کچھ جرأت گویائی بھی ہوگی کہ نہیں
ہمت ناصیہ فرسائی بھی ہوگی کہ نہیں
شرم سے دور شکیبائی بھی ہوگی کہ نہیں
آج کی رات! اف اومیرے خدا، آج کی رات!
والہانہ پن اور بے خودی بھی اختر شیرانی کی نظموں کے نمایاں اوصاف ہیں۔ان کا کمال یہ ہے کہ وہ جس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں اس کی ایسی تصویرلفظوں کے ذریعے کھینچ دیتے ہیں کہ قاری آسانی سے اس کیفیت سے آشنا ہو جاتا ہے۔وہ خارجی جذبات اور محسوسات کو بھی داخلی رنگ و آہنگ عطا کر دیتے ہیں۔وہ جو کچھ محسوس کرتے ہیں اسے فطری انداز میں جو ں کا توں بیان کردیتے ہیں۔نظم ’انتظار‘ میں کہتے ہیں       ؎
تمنا اور حیا کی کش مکش کیوں کر مٹاؤں گا
میں اس کے یاسمیں پیکر کو کیسے گدگداؤں گا
اور اس کے لعل لب سے کس طرح بوسے چراؤں گا
وہ پھولوں اور ستاروں سے بھی شرمائے گی وادی میں
سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں
سیدھے سادے اندازمیں جذبات کی عکاسی کا یہ طریقہ اختر شیرانی کی نظموں کو تصنع سے محفوظ رکھتا ہے۔ان کی بات دل سے نکلتی ہے اور قاری کے دل میں بیٹھتی ہے۔
اختر شیرانی کی نظموں میں پیکر تراشی کے بھی عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ وہ ایسی تصویریں بناتے ہیں اور اس سلیقے سے کوئی منظر پیش کرتے ہیں کہ وہ پورا منظر قاری کی آنکھوں میں پھرنے لگتا ہے۔نظم ’او دیس سے آنے والے بتا‘ کے دو بند ملاحظہ کیجیے       ؎
او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر پنہاریاں پانی بھرتی ہیں
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں
اور اپنے گھر کو جاتے ہوئے ہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیں
اود یس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی فجر دم چرواہے ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں
اور شام کے دھندلے سایوں کے ہمراہ گھروں کو آتے ہیں
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں عشق کے نغمے گاتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا
اختر شیرانی نے منظر نگاری کرتے ہوئے بے جان چیزوں میں بھی جان ڈال دی ہے۔
کھجوروں کے حسیں سائے زمیں پر لہلہاتے تھے
ستارے جگمگاتے تھے، شگوفے کھلکھلاتے تھے
اگرچہ اختر شیرانی کی شاعری کا بیشتر حصہ عشق اور واردات ِ عشق پر مبنی ہے لیکن انھوں نے وطن دوستی، قوم پرستی اور فطرت نگاری پر بھی توجہ دی ہے۔ ’ساقی اٹھ تلوار اٹھا‘، ’نذر وطن‘، ’اے ابرِ رواں‘، ’آزادی‘، ’نغمہ ئ امن‘، ’دلیران ِ وطن‘، ’وطن کے شہیدانِ جنگ‘اور’موسم ِ بہار‘ اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔ ان کی مختصر نظم ’عشق و آزادی‘ کے مطالعے سے ان کی حب الوطنی کاا ندازہ ہوتا ہے۔
عشق و آزادی بہارِ زیست کا سامان ہے
عشق میری جان آزادی مر اایمان ہے
عشق پر کردوں فدا میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
ساقی اٹھ تلوار اٹھا‘اپنی نوعیت کی غالباً پہلی نظم ہے جس میں شاعر نے امن ِعالم کے قیام، جنگ و جدل اور خوں ریزی کے خاتمے اور وطن کی آزادی کے لیے تلوار اٹھانے کی تلقین کی ہے۔اختر شیرانی کو اپنے وطن اور اس کی مٹی سے بہت محبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ا ن کی نظموں میں اپنی دھرتی کی سوندھی خوشبو ملتی ہے۔وطن کی ہر شے اور ہر نظارے پر ان کی نظر جاتی ہے۔کبھی وہ رہٹ کی آواز سننے کے متمنی نظر آتے ہیں، کبھی اسکول کے زمانے کے ساتھیوں کو یاد کرتے ہیں اور کبھی دیہاتی لڑکی کے شب و روز کا ذکر کرتے ہیں۔نظم ’نغمہئ سحر‘ کے چند اشعار دیکھیے    ؎
سنو یہ کیسی آواز آرہی ہے
کوئی دیہاتی لڑکی گا رہی ہے
اٹھی ہے شاید آٹا پیسنے کو
کہ چکّی کی صدا بھی آرہی ہے
غموں سے چوٗراپنے ننھے دل کو
ترانہ چھیڑ کر بہلا رہی ہے
اختر شیرانی کی شاعری میں حالات سے فرار اور ہجرت کی آرزو ملتی ہے۔ وہ اس دنیا سے دور ایک نئی دنیا بسانے کے آرزو مند ہیں۔ان کی شاعری میں کوشش اور عمل  کے جذبے کا فقدان ہے۔وہ یہ دنیا بدلنا تو چاہتے ہیں لیکن ان میں حالات کا مقابلہ کرنے کا جذبہ اور حوصلہ نہیں ہے۔وہ ناسازگار حالات سے پریشان ہو کر حسن و عشق کی دنیا میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔وہ ایک ایسی جگہ بسنا چاہتے ہیں جہاں عورت اور فطرت دونوں کا حسن موجود ہو۔
اے عشق کہیں لے چل اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہہ عالم سے، لعنت گہہ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے، اس نفس پرستی سے
دور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
فن کے اعتبار سے اختر شیرانی کی شاعری بہت اہم ہے۔ان کی نظمیں سبک اور شیریں الفاظ کے استعمال، موسیقیت اور غنائیت، دلکش تراکیب، تشبیہات کے خلاقانہ استعمال، پیکر تراشی، منظر نگاری اور مختلف ہئیتوں کے موزوں استعمال کی وجہ سے نمایاں نظر آتی ہیں اوراپنی انوکھی تاثیر رکھتی ہیں۔آتش لکھنوی کی طرح وہ بھی شاعری کو مرصع سازی کا فن سمجھتے تھے۔موسیقیت کو ان کے فن میں اہم مقام حاصل ہے۔لفظوں کے استعمال،بحروں کے انتخاب اور خیال کے اتار چڑھاو میں انھوں نے موسیقیت کوہمیشہ پیش نظر رکھا ہے۔وہ کبھی رواں، سبک اور شیریں الفاظ سے شعر میں موسیقیت پیدا کرتے ہیں، کبھی ہم قافیہ الفاظ کی تکرار سے اور کبھی ہندی کے نرم، لطیف اور مترنم الفاظ سے شعر کو غنائیت عطا کرتے ہیں۔
نئی تراکیب وضع کرنے اور انھیں اشعار میں خوب صورتی سے استعمال کرنے کا سلیقہ بھی اختر شیرانی کو خوب آتا تھا۔ان کی وضع کردہ چند تراکیب مندرجہ ذیل ہیں۔
شعلہئ مینا نشیں، دیدہئ افسانہ کار، دختر گردن دراز،فردوسِ وجود و رقص، بادہ نوشانِ تخئیل،بہارِ جنتِ ویرانہ، نغمہئ ویرانہ، ہم رنگ گلہائے حسیں، نظر آشوب، فردوس زارِ آرزو، سیارہئ بے آسماں، ہجومِ ِریشم وکمخواب، مصر جمال ناز، حسنِ نوشابہ بینائی، کیف صہبائے غمِ روح، نسریں بدناں، کیف لرزاں، غزالِ دیدِ لیلائے نجد، چمن زارِ شعاعِ نور، کیف رواں، رخسارودہاں، مرکز انتظار آغوش، خوابستانِ مینا، دفترِ مینائی، آرام گاہ، گوشہئ داماں۔
سلمیٰ کے جسم کو ہجوم ِ ریشم و کمخواب، طوائف کو پامال شبنمستاں، محبوب کو عید پہلو اور نوروز نگاہ کا نام دینا اختر شیرانی کے اعلیٰ تخئیل اور جمالیاتی ذہن کا غماز ہے۔
اختر شیرانی نے خوب صورت تشبیہات سے بھی اپنی نظموں کو دلکشی اور اثر انگیزی عطا کی ہے۔نادر تشبیہات کی وجہ سے ان کی نظم ’وادیِ گنگا میں ایک رات‘ یادگار ہوگئی ہے۔ ’تیتری‘،  ’نغمہئ سحر‘وغیرہ نظمیں بھی تشبیہات کے حسن ِ استعمال کی وجہ سے نہایت مقبول ہیں۔  وہ بعض اوقات مرئی اشیا کو غیر مرئی اشیا سے تشبیہہ دیتے ہیں۔
اک خواب نو مصور ِ رنگیں طراز کا
صورت نواز کا
یا ایک مطربہ کے دل ِ پُر گداز کا
لحن پریدہ ہے
گزرے ہوئے دنوں کی کوئی دلگداز یاد
رنگیں طراز یاد
یا کیف ِ عشق کی کوئی پُر سوز وساز یاد
تلخی چشیدہ ہے
الفاظ کے صیغہئ جمع کے استعمال سے بھی اختر شیرانی نے جذبات کی شدت کا اظہار کیا ہے۔
غموں پہ کی ہیں فدا شادمانیاں ہم نے
خدا کے نام پہ تج دیں جوانیاں ہم نے
گزار دی ہیں یوں ہی زندگانیاں ہم نے
دمِ اخیر تو غم سے چھڑا بھی جا سلمیٰ
بہار بیتنے والی ہے آبھی جا سلمیٰ
اختر شیرانی کی شاعری میں ہئیت کے مختلف تجربے ملتے ہیں۔یہ تجربے شوقیہ نہیں، ضرورت کے تحت کیے گئے ہیں۔ان تجربوں کی وجہ سے نظموں کے حسن و تاثیر اور نغمگیت میں اضافہ ہوا ہے۔
 اختر شیرانی کی شاعری کی ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے اردو کی شعری روایت کے بر خلاف رقیب کو اپنا دوست اور ہمدم  تصور کیا ہے۔نظم’او دیس سے آنے والے بتا‘ میں کہتے ہیں       ؎
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا
وہ غیرت ِ ایماں کیسی ہے
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی
وہ آفت ِ دوراں کیسی ہے
ہم دونوں تھے جس کے پروانے
وہ شمع شبستاں کیسی ہے
او دیس سے آنے والے بتا
اختر شیرانی کے بعد فیض احمد فیض واحد شاعر ہیں جنھوں نے رقیب کو روسیاہ اور دشمن سمجھنے کے بجاے ہمدردوغم گسار اور ماضی کی یادوں کا شریک کار بنا کر پیش کیا ہے۔ اپنی نظم ’رقیب سے‘ میں کہتے ہیں۔
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
اختر شیرانی کی شاعری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے بعد آنے والی ایک پوری نسل اس سے متاثر ہوئی۔اس دور میں جتنے بھی نئے شاعر ابھرے اور شاعری میں نمایاں مقام حاصل کیا،وہ سب اختر شیرانی سے فیض یاب ہوئے۔ پنجاب کے شعرا مثلاً فیض احمد فیض، ن م راشد، ساحر لدھیانوی اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے کلام پر خاص طور سے اختر شیرانی کا اثر محسوس کیا جاسکتا ہے۔سردار جعفری، اسرارالحق مجاز اور روش صدیقی کی نظموں اور غزلوں میں بھی اختر شیرانی کا اثر موجود ہے۔ان تمام شعرا کے کلام میں عشق کا جسمانی تصور ملتا ہے۔ن م راشد کے پہلے مجموعہ کلام ’ماورا‘ میں نہ صرف عشق کا یہ تصور ملتا ہے بلکہ جس محبوبہ سے خطاب کیا گیا ہے وہ عورت ہے۔البتہ بعدمیں ان کے نقطہ ئ نظر میں تبدیلی آئی اور عورت کا یہ تصور ان کی شاعری میں باقی نہیں رہا۔ فیض کی محبوبہ بھی ابتدا میں عورت ہی تھی لیکن بعد میں انھوں نے وطن اور آزادی کو عورت اور محبوبہ کی شکل میں پیش کیا۔
اختر شیرانی کی نمائندہ نظموں میں ’او دیس سے آنے والے بتا‘، ’ایک نوجوان بت تراش کی آرزو‘، ’تاثراتِ نغمہ‘، ’سلمیٰ‘، ’عذرا‘، ’انتظار‘،  ’گجرات کی رات‘، ’اے عشق کہیں لے چل‘، ’بستی کی لڑکیوں میں‘، ’یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی‘، ’اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘، ’ایک دیہاتی لڑکی کا گیت‘، ’نذر وطن‘ اور ’وادیِ گنگا میں ایک رات‘ وغیرہ قابل ِ ذکر ہیں۔

Dr. Firoz Alam
Asst.Professor of Urdu
Centre for Urdu Culture Studies (CUCS)
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli, Hyderabad - 500 032 (Telangana)  India
Email:

ماہنامہ اردو دنیا،دسمبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں