11/12/19

بیسویں صدی میں عربی صحافت مضمون نگار۔ محمد نافع عارفی



بیسویں صدی میں عربی صحافت
محمد نافع عارفی
صحافت کے لغوی معنی کتاب یا رسالہ ہے۔علامہ ابن منظورتحریر کرتے ہیں:
صحف صحیفہ کی جمع ہے، یعنی وہ صفحہ جس پر قرآن کریم لکھا گیا ہو، اللہ کا ارشاد ہے، یقینا یہ پہلی کتابوں میں ہے موسیٰ اور ابراہیم ؑ کی کتابوں میں ہے۔(سورۃ الاعلیٰ: 18-19)یعنی وہ کتابیں جو حضرت موسیٰ،ابراہیم اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں۔
)لسان العرب،ج9،ص187، ابو الفضل جمال الدین ابن منظور(
جبکہ علامہ جار اللہ زمخشری صحافت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
صحیفہ، صحف اور صحائف چمڑے یا کاغذ کے ٹکڑے پر لکھی ہوئی تحریر ہے۔
)اساس البلاغۃ،ج2،ص6، علامہ محمود عمر جار اللہ زمخشری(
گویا صحافت نام ہے تحریر یا اشیائے کتابت کا۔ پرانے زمانہ میں عرب اس لفظ کو خبر، اعلان اور معلومات کے معنی میں استعمال کیا کرتے تھے۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں بھی لفظ صحافت کا استعمال ان معنوں میں فرمایا ہے۔ جیسا کہ سورہ اعلیٰ کی آیت نمبر18-19 میں ارشاد ہے کہ یہ چیزیں پہلے صحیفوں میں ہیں،ابراہیم اور موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں۔گویا لغت میں صحافت نام ہے ان تمام خبروں کا جس کا کسی بھی طرح کا تعلق حیات انسانی سے ہو۔  اسی لیے عرب اس معاہدہ نامہ کو جس میں رسول اللہؐ  کے سماجی بائیکاٹ کا اعلان تھا اور کعبہ پر لٹکایا گیا تھا صحیفہ کہتے تھے۔
صحافت کی اصطلاحی تعریف:
صحافت کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر محمود عزمی رقم طراز ہیں:
صحافت ایک اجتماعی ذمہ داری ہے اور اس کا مقصد معلومات،روشن اور پختہ افکار و خیالات کی اشاعت کے ذریعہ عوامی رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔
)الصحافۃ العربیۃ نشأتھا و تطورھا،ص17، الاستاذ ادیب مروہ(
جبکہ عبد السلام خورشید تحریر کرتے ہیں:
صحافت کا لفظ’صحیفہ‘ سے نکلا ہے، صحیفہ کے لغوی معنی ہیں کتاب یا رسالہ۔ بہر حال عملاً ایک عرصہ دراز سے صحیفہ سے مراد ایسا مطبوعہ مواد ہے جو مقررہ وقفوں کے بعد شائع ہوتا ہے، چنانچہ تمام اخبارات و رسائل صحیفے ہیں اور جو لوگ ان کی ترتیب و تحسین اور تحریر سے وابستہ ہیں، انھیں صحافی کہا جاتا ہے اور ان کے پیشے کو صحافت کانام دیا گیا۔ صحافت کا مترادف انگریزی لفظ جرنلزم (Journalism) ہے، جو’جرنل‘ سے بنایا گیا ہے، جرنل کے لغوی معنی ہیں ’روزانہ حساب کا بہی کھاتا‘ روزنامچہ۔ جب صحافت کا آغاز ہوا تو اسی اصطلاح کو مؤقت الشیوع اخبار یا رسالے کے لیے استعمال میں لایا جانے لگا، جرنل کو ترتیب دینے والوں کے لیے”جرنلسٹ“ کا لفظ بنا اور اس پیشے کو جرنلزم کا نام دیا گیا۔“ (فن صحافت،ص13، عبد السلام خورشید)
صحافت کی تعریف مختلف مفکرین نے اپنی اپنی فکر اور اپنے اپنے نظریے کے اعتبار سے کی ہے۔آج صحافت کا لفظ ان تمام وسائل کے لیے بولا جاتا ہے؛ جس کے ذریعہ خبریں حاصل کی جاتی ہوں، خواہ اس کا تعلق اخبار و رسائل سے ہویا ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے۔تاہم صحافت کی صحیح تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ صحافت ایسی تحریر کا نام ہے؛جس کے آئینے میں سماج اور دنیا اپنی صحیح صورت اور شکل دیکھ سکے، اور اس کی روشنی میں اپنے مستقبل کی تعمیر کا صحیح لائحہ عمل تیار کر سکے۔
صحافت کی ابتدا:
اللہ پاک نے انسان کی فطرت میں جستجو اور کھوج کی صفت ودیعت کر دی ہے۔انسان فطری طور پر اپنے ارد گرد اور دوردراز کی خبریں جاننے کا متمنی ہوتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ موجودہ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے اس کی اطلاع اسے ملتی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم ترین زمانوں میں بھی خبر رسانی اور ابلاغ کا تصور پایا جاتا ہے۔ فرعون سے ہزار سال پہلے بھی ملکی خبریں عبادت گاہوں کے دروازے پر منقش انداز میں لگائی جاتی تھیں۔ اس دور میں عبادت گاہوں کی دیواریں ہی اخبارات کے صفحات ہوا کرتے تھے اور اسی کے توسط سے لوگوں کو ملکی خبروں سے آگاہی حاصل ہوتی تھی۔ اسی طرح چار ہزار سال ق م کی مصر میں ایسی چیزیں ملتی ہیں جسے کسی درجے میں صحافت کا نام دیا جا سکتا ہے۔
)الصحافۃ العربیۃ نشأتہاوتطورہا،ص53(
قدیم ہندوستان میں بھی صحافت کا تصور کسی نہ کسی درجے میں پایا جاتا تھا۔ چنانچہ مشہور بادشاہ منو مہاراج کے دور میں اس سلسلے کی کئی چیزیں ملتی ہیں۔جبکہ چندرگپت کے عہد حکومت میں تو اس فن نے بہت حد تک ترقی کر لی تھی۔کیونکہ چندرگپت ملکی اورغیر ملکی خبروں کے حصول کا بڑا دلدادہ تھا۔
)تاریخ صحافت،ص25، امداد صابری(
لیکن معلوم تاریخ کا سب سے پہلا اخبار ’کین بان‘ ہے؛ جو چینی حکومت کا ترجمان تھا۔یہ اخبار چین سے  نکلا تھا۔ یہ ماہنامہ حکومت کا ترجمان تھا؛ جس میں حکومتی خبروں کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی خبریں درج ہوا کرتی تھیں لیکن اس اخبار کا کوئی خاص نام نہیں تھا۔ بعد کے لوگوں نے اس کے مشمولات کو دیکھتے ہوئے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس کا نام رکھ دیا۔ چنانچہ معین الدین احمد ندوی نے اس اخبار کا نام ”Tasingpao“ اور انگریزی مؤرخین نے ”Paking Gazette“ اور عبد السلام خورشید نے ’تے پاؤ‘ کے نام سے اس کا ذکر کیا ہے۔ (معارف، ج2،شمارہ2،ص41، اعظم گڑھ)
کہا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا روزنامہ ”Acta Duna“تھا۔ Actaکے معنی خبروں کے ہیں اور Dunaکے معنی روزنامہ کے ہیں۔ یعنی روزانہ کی خبریں۔یہ اخبار روم سے 691 ق م  میں نکلا۔لیکن صحیح بات یہ ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا یومیہ اخبار618 ق م میں چین کی دار الحکومت بیجنگ سے جاری ہوا۔ یہ اخبار’ستنگ‘ نامی چینی زرگر کی ایجاد کردہ لکڑی کے کھدے ہوئے حروف کے ذریعہ لکھاجاتاتھا۔  (نگار اگست،1926)
ہندوستان میں عربی صحافت:
ابتدائی دور ہی سے عربوں میں فطری طور پر خبر رسانی اورتلاش و جستجو کی تڑپ پائی جاتی تھی۔ خبروں کا حصول اور اس کی نشرو اشاعت قدیم زمانے میں بھی ان کے یہاں اہم سماجی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی۔خبروں اور اطلاعات کا فراہم کرنا مختلف قبائل کے حالات، ان کی تاریخ،بہادری کی داستان سے واقفیت حاصل کرنا اور اس پر اپنے فخر و مباہات کی عمارت کھڑی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ غرور،خاندانی فخر وحماسہ نے اس صفت کو اور بھی مہمیز لگایا۔ مکہ کا عکاظ میلہ، اس طرح کی چیزوں کے لیے بہترین اکھاڑہ تھا۔ عرب کے قبائل ان میلوں میں اپنے اپنے شعراء کو پیش کرتے،وہ شعراء اپنے اپنے قبائل و خاندان کی عظمت کے قصیدے پڑھتے، یہ قصیدے عرب کی تاریخ اور اس خاندان اور قبیلے کے مکمل احوال و کوائف سے پر ہوا کرتے تھے۔ پھر یہی اشعار پورے عرب میں پھیل جاتے۔ گویا عربی صحافت کا یہ اولین بیج ہے جو عکاظ کے میلے میں بویا گیا تھا۔ زمانہ آگے بڑھتا گیا، کیلنڈ رکے اوراق الٹتے گئے، عربی صحافت بھی کبھی سست رفتاری اور کبھی تیز گامی سے اپنا سفر طے کرتی رہی۔ یہاں تک کہ بر صغیر نے ”ا لنفع العظیم لاھل ھذا الاقلیم“ لاہور سے اپنی عربی صحافت کا آغاز کیا۔یہ اخبار ہفت روزہ تھا؛ جس کا پہلا شمارہ 17/اکتوبر 1871 میں منظر عام پر آیا۔ اس اخبار کو شیخ شمس الدین لاہوری نے جاری کیا تھا۔ جس کے مدیر مولوی مقرب علی جبکہ سرپرست G.W.Laitail تھے۔ابتداً یہ اخبار آٹھ صفحات پر مشتمل تھا،پھر چند اشاعتوں کے بعد دو صفحے کا اضافہ ہوا اور دس صفحات پر نکلنے لگا۔ اخبار پنجابی پریس لاہور سے چھپتا تھا۔اس اخبار میں دینی، ادبی اور سماجی مضامین اور خبریں ہوا کرتی تھیں۔ اس اخبار نے سر سید کی تحریک کو آگے بڑھانے میں بہت ہی اہم رول ادا کیا۔ اخبار ان کے نظریات اور افکار کو اہمیت کے ساتھ شائع کرتا تھا۔ اخبار 1885 تک لگاتار شائع ہوا لیکن پریس کے مالک منشی محمد عظیم کی وفات کے ساتھ اخبار کی اشاعت نے بھی دم توڑ دیا۔ 
)دیکھیے : تاریخ صحافت اردو، امداد صابری، ج2،ص206(
غیر منقسم ہندوستان میں یہ عربی صحافت کا اولین نقش ہے اور اسی اخبار کو سب سے پہلا عربی اخبار ہونے کا شرف حاصل ہے۔لیکن اخبار کی اشاعت سے پہلے کلکتہ گزٹ نے مارچ 1787 میں ایک اعلان شائع کیا تھا؛جو فارسی،بنگالی اور عربی میں تھا۔ یہ اعلان 13دسمبر 1787 کے شمارے میں تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ عربی صحافت کا اولین نقش ہے جو اعلان کی شکل میں کسی اخبار کے صفحہ کازینت بنا۔
مجلہ’البیان‘:
النفع العظیم لاھل ھذا الاقلیم“کے بند ہو جانے کے بعد تقریباً بیس سال کا عرصہ ایسا گزرا جب ہندوستان میں عربی کی آواز خاموش رہی۔ان ایام میں پورے ملک سے کوئی بھی عربی مجلہ یا اخبار شائع نہیں ہوا۔ 20/ذی الحجہ 1319ھ مطابق مارچ 1902 کو ماہنامہ ’البیان‘ لکھنؤ سے شائع ہوا۔ یہ ہندوستان میں عربی صحافت کی تاریخ کا دوسرا اخبار ہے۔عام طور پر محققین کی یہی رائے ہے کہ عربی صحافت کی تاریخ کا یہ دوسرا اخبار ہے۔ ’النفع العظیم‘اور ’البیان‘کے درمیانی وقفے میں کوئی اور اخبار عربی زبان میں نہیں نکلا۔جیسا کہ ڈاکٹر سلیم الرحمن خان ندوی،اورڈاکٹر محمد ایوب تاج الدین ندوی کا دعویٰ ہے۔ 
)الصحافۃ الاسلامیۃ فی الہند،ص224، نیز دیکھیے الصحافۃ العربیۃ فی الہندنشأتھا وتطورھا، ص68(
لیکن بعض محققین کا خیال ہے کہ’البیان‘ کی اشاعت سے پہلے 1901 میں بھوپال سے ریاض الدین احمد بریلوی نے پندرہ روزہ ’الریاض‘ جاری کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب بھوپال کی رانی سلطان جہاں بیگم تھیں۔یہ مجلہ عربی اور اردو دونوں زبانوں میں ایک ساتھ شائع ہوتا تھا۔ جس میں ہندوستان کی خبریں عربی زبان میں ہوا کرتی تھیں جبکہ عالم عربی کی خبریں اردو میں ہوا کرتی تھیں۔
)اردو ادب کی ترقی میں بھوپال کا حصہ،ص371، ڈاکٹر سلیم حامد رضوی(
تاہم بعض محققین کی رائے ہے کہ یہ مجلہ 1934 میں شائع ہوا۔ 
)مدھیہ پردیش میں اردو صحافت،ص47،66قمر جمالی اور شوکت رموزی(
البیان‘علمی، سیاسی اور تاریخی موضوعات کو شامل اشاعت کرتا تھا۔ ابتداً ماہانہ کی شکل میں شائع ہوا لیکن بعد کو پندرہ روزہ بن گیا۔ ’البیان‘ کے مدیر مشہور ادیب شیخ عبد اللہ عمادی تھے،لیکن کچھ دنوں کے بعد شیخ عمادی مستعفی ہو گئے، اخبارکے مشرف عبد العلی مدراسی نے بھی اخبار سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔تا ہم ڈاکٹریوسف ہارون المانی استاذ مشرقی زبان علی گڑھ اسلامیہ کالج علی گڑھ کی سر پرستی میں اخبار نکلتا رہا۔ جبکہ ادارت کے فرائض سید سلیمان آفندی اور سید علی زینی کے سپرد ہوئے۔
)’البیان‘،شعبان 1328ھ(
کچھ شماروں کے بعد اس اخبار نے بھی دم توڑ دیا۔ عبد الرزاق ملیح آبادی کی کوششوں سے اس کے تن مردہ میں جان تو آئی، لیکن وہ بھی آخری پہر کا چراغ ہی ثابت ہوئی۔ مجلہ ’البیان‘ کا اداریہ ’ھذا بیان للناس‘ کے عنوان سے تحریر کیا جاتا تھا جس میں قرآن کی بعض آیتوں کی تفسیر کے علاوہ عالم اسلامی کی خبریں بھی شائع ہوتی تھیں۔ اس اخبار نے پورے ہندوستان میں اپنی ایک منفرد شناخت بنائی اور اہل علم نے اسے سر آنکھوں پر سجایا۔ اخبار کا اسلوب دلکش اورجدید تھا۔ جس نے قاری کے ذہن و دماغ پر مثبت اثرات مرتب کیے۔ یہ اخبار ہندوستانی مسلمانوں کا ترجمان حال تھا اور اسی کے واسطے عرب دنیا ہندوستانیوں کے حالات سے با خبر ہوا کرتی تھی۔
الجامعۃ‘:
1923 میں ہندوستان کے عظیم قائد، اولین وزیر تعلیم، مجاہد آزادی اوربے نظیرادیب مولانا ابو الکلام آزاد نے کلکتہ سے عربی میں ’الجامعۃ‘ کے نام سے پندرہ روزہ انقلابی مجلہ جاری کیا۔ جس کے ایڈیٹر عبد الرزاق ندوی ملیح آبادی تھے۔
الجامعۃ‘اپنی بے باک تحریروں، دلکش اسلوب بیان اورپختہ افکار کی نشرو اشاعت میں اپنے دور کا سب سے عمدہ رسالہ تھا۔ اس نے حکومت وقت پر بے لاگ تنقیدیں کیں۔ اس نے ہر اس عمل پر جو ہندوستان اور مسلمانوں کے خلاف تھا  سخت نکیریں کی۔اخبار نے پوری علمی دنیا میں اپنی امتیازی شان کے ساتھ قبولیت حاصل کی۔ عوام کے دلوں میں آزادی کا جذبہ بیدار کیا۔ حتیٰ کہ اس کی ضربوں نے عالم عرب کے بعض حکمرانوں کو سخت زک پہنچائی۔ عالم عرب کے حکمراں جو جمہوریت اور اسلامی اصول کے خلاف حکمرانی کر رہے تھے الجامعۃ کی تیکھی تحریروں سے بلبلا اٹھے۔چنانچہ حجاز کا حکمراں شریف حسین ’الجامعۃ‘ کی چوٹ برداشت نہ کر سکا اور اس نے اپنے ترجمان ’القبلہ‘ میں ’الجامعۃ‘ کے بانی مولانا ابو الکلام کو ابوالکلاب لکھا اور ان پر اوچھی تنقیدیں کیں۔        
)صحافت پاکستان و ہند میں،ص465(
کیونکہ شریف مکہ برطانوی حکومت کا حلیف تھا اور مولانا آزاد کی تحریریں برطانوی سامراج کے خلاف شمشیر بے نیام تھیں۔ 
الجامعۃ‘کا پہلا شمارہ اپریل1923 میں منظر عام پر آیا،لیکن نا مواقف حالات سے مجبور ہو کر مارچ 1924 میں اس مجلے نے بھی اپنی آخری سانس لے لی۔
صوت الحق‘:
1925 میں شیخ محمد معراج اور شیخ عبد اللہ شریف نے ممبئی سے ’صوت الحق‘ جاری کیا۔ لیکن تھوڑے دنوں کے بعد اس کی اشاعت بند ہو گئی۔
مجلہ ’الضیاء‘:
ہندوستان میں عربی صحافت کا ایک روشن ستارہ ماہنامہ ’الضیاء‘ہے۔ جو ہندوستانی افق صحافت پر محرم الحرام 1351 مطابق مئی 1932 کو جلوہ گر ہوا۔ ماہنامہ ’الضیاء‘ عربی زبان و ادب کے عظیم مرکز ندوۃ العلماء لکھنؤ سے شائع ہوا۔ جس کے مدیر ہندوستان کے معروف ادیب اور عربی کے ممتاز نثر نگار مولانا مسعود عالم ندوی تھے۔ جبکہ علامہ سید سلیمان ندوی اور شیخ تقی الدین ہلالی مراقشی جیسے شہرہئ آفاق، ادیب، مؤرخ اور اسلامی علوم کے رمز شناس اس اخبار کے معاون ایڈیٹر تھے۔ ’الضیاء‘ کو عالم اسلام کے ممتاز ادیب،مؤرخ ماضی قریب عظیم مفکر مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی اورمتعدد عربی کتابوں کے مصنف مولانا محمد ناظم ندوی کی خدمات بھی حاصل تھی۔ 
)پرانے چراغ،ج:1،ص:321,326 از سید ابو الحسن علی ندوی(
اس مجلے نے ہندوستان اور ہندوستان کے باہر اپنی انفرادیت قائم کی۔ عربوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کے مضامین اہل علم دلچسپی سے پڑھا کرتے تھے۔ ضیاء نے اسلامی ادب کا ایک روشن اور خوبصورت نمونہ عالم عربی کے سامنے پیش کیا۔ یہ مجلہ محض اخبار نہ تھا بلکہ وہ اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی روایات و افکار کا ترجمان اور مسلمانان ہند کی زبان حال تھا۔ لیکن افسوس کہ اس ادبی اسلامی مجلے کی زندگی بہت طویل نہ ہو سکی اور 1935 میں مالی پریشانیوں نے اس روشن چراغ کو گل کر دیا۔ضیا کی اہمیت کا اندازہ شام سے شائع ہونے والے عربی اخبار کے اس تبصرے سے لگایا جا سکتا ہے:
مجلہ ضیا کا یہ چوتھا سال ہے اور یہ واقعی روشنی اور ہدایت کا چراغ ہے، یہ مجلہ بڑے مفید اور عمدہ مضامین اور مقالات شائع کرتا ہے، اگر اس کی اشاعت تھوڑے عمدہ کاغذاور طباعت کے ساتھ ہوتی تواس مجلہ کو عربی زبان میں شائع ہونے والے صف اول کے مجلوں میں شمار کیا جاتا گو کہ یہ ایک عجمی ملک سے شائع ہو رہا ہے“ 
)الضیاء، ج: 4،8/شعبان1354ھ(
جبکہ لبنان سے شائع ہونے والا اخبار ’صفا‘مجلہ ’الضیاء‘ کے سلسلے میں اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کرتا ہے:
لکھنؤ سے ضیا نامی ایک مجلہ استاذ سید مسعو د عالم ندوی شائع کرتے ہیں، وہ اسلامی اور مفید ترین مقالات پر مشتمل ہوتا ہے، ہندوستان سے شائع ہونے والے رسائل میں اس کا کوئی ہم پلہ نہیں ہے۔ زبان واسلوب کے اعتبار سے یہ عرب دنیا سے شائع ہونے والے رسائل وجرائد سے بھی ممتاز ہے۔“(حوالہ سابق(
غرض کہ’ضیاء‘ کی روشنی اپنی روشن اور پاکیزہ تحریر، قیمتی مواد، دلکش اسلوب، دلنشیں انداز بیان کے ذریعہ عرب وعجم کو اپنی زلف کا اسیر بنا چکی تھی۔ ہر دن اس کے لیے عزت و عظمت کا پیام لاتا تھا۔ لیکن باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے باقی سب فانی ہے اور”ضیاء“ بھی فنا سے نہ بچ سکا۔
نسیم الصبا‘، سندھ گزٹ،سندھ سدھار، یسٹرن  پریس، التوحیدیہ وہ رسائل ہیں جو اس زمانہ میں لاہور، کراچی وغیرہ سے شائع ہوا کرتے تھے۔سندھ گزٹ، سندھ سدھار، ایسٹرن پریس، التوحیدوغیرہ عربی اور سندھی دونوں زبانوں میں مشترکہ طور پر شائع ہوا کرتے تھے۔
اس کے بعد ماہنامہ ’العرب‘ممبئی سے 1938 میں جاری ہوا۔ جس کی اشاعت آزادی ہند تک برابر جاری رہی۔ لیکن اس اخبار کوہندوستانی سماج،ہندوستانی احوال و کوائف اور ہندوستانیوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نہ ہی اس اخبار کو زبان و ادب کی ترقی سے مطلب تھا۔ تقسیم وطن کے بعد اس کے مدیر عبد المنعم عدوی پاکستان منتقل ہو گئے۔ ان کے ساتھ ہی اخبار بھی کراچی پاکستان چلا گیا۔ اوروہیں سے اس کی اشاعت عمل میں آئی۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا عربی اخبار ہے۔
)البعث الاسلامی،جنوری1957(
ثقافۃ الہند‘:
1947 میں جب ملک کو انگریزی سامراج سے آزادی حاصل ہوئی اور ہندوستان میں ہندوستانیوں کی اپنی حکومت تشکیل پاگئی،ملک کے پہلے وزیر اعظم ہونے کا فخر جواہر لال نہرو کو حاصل ہوا تو ملک کے پہلے وزیر تعلیم کی مسند کو مولانا ابو الکلام آزاد نے عزت بخشی۔ مولانا آزاد نے وزارت تعلیم کی طرف سے مارچ1950 میں سہ ماہی ’ثقافۃ الہند‘ جاری کیا۔ یہ مجلہ آج بھی وزارت تعلیم کے ترجمان کی حیثیت سے جاری ہے۔ اس کا مقصد ہندوستان اور عربی ثقافت کے رشتوں کو مضبوط کرنا، ہند عرب تعلقات کوفروغ دینا اور ہندوستان میں عربی زبان کو رواج بخشنا ہے۔ اس کے پہلے مدیر مولاناعبد الرزا ق ملیح آبادی تھے۔ابتداً یہ مجلہ سال میں چار فصلوں کے اعتبار سے نکلتا تھا، لیکن بعد کو یہ سہ ماہی ہو گیا۔
)الصحافۃ العربیۃ فی الہندنشأتھا وتطورھا،ص113(
البعث الاسلامی‘:
عربی زبان و ادب کی تاریخ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ عرب ممالک سے دور ہندوستان بلکہ بر صغیر ہندو پاک بنگلہ دیش میں جو کچھ بھی عربی کی خدمت نظر آتی ہے اس کا کوئی نہ کوئی تعلق ندوۃ العلماء سے ضرور ہے۔ اس عظیم مرکز نے ہندوستان میں اس زبان کی تعلیم و تربیت کی راہ ہموار کی جس کو اللہ پاک نے اپنی کتاب کے لیے پسند فرمایا۔ جس زبان میں ہم سب کے محسن نبی اکرم ؐ اور ان کے اصحاب گفتگو فرمایا کرتے تھے، اس زبان کی تعلیم کے لیے ندوہ نے خالص عربی منہج پر تدریسی نظام قائم کیا اور اس زبان کو ہندوستان میں پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے کے لیے ایسی فضا عطا کی جس میں ہر سوعربیت ہے۔اسی مبارک ادارہ سے کسی زمانے میں ’الضیاء‘نکلا کرتا تھا لیکن جب حوادث زمانہ نے ’الضیاء‘ کی روشنی گل کر دی تو ایک طویل وقفہ ایسا گزرا جب ہندوستانی صحافت سے عربی نایاب ہو گئی، لیکن 1955 میں ندوۃ العلماء کے ہی ایک اولوالعزم فرزند اور البیلے ادیب مولانا محمد الحسنی نے ’البعث الاسلامی‘ کے نام سے ادبی، علمی اور اسلامی مجلہ جاری کیا۔ اس طرح ہندوستانی عربی صحافت کی تاریخ میں ایک روشن دور کا آغاز اکتوبر1955میں ہوا۔ ’البعث الاسلامی‘ کو ابتدا ہی سے مولانا محمد الحسنی کے علاوہ عالم اسلام کے مشہور ادیب مولانا سعید الاعظمی ندوی اور ڈاکٹر محمد اجتبا ندوی کی خدمات حاصل رہیں۔ مارچ1960 سے یہ مجلہ ندوۃ العلما کے ترجمان کی حیثیت سے شائع ہو رہا ہے۔ 
ایک طویل عرصے سے اس کے ایڈیٹر ڈاکٹر سعید الاعظمی ندوی اور مولانا واضح رشید ندوی جیسی شخصیتیں اس کی ادارت سے وابستہ رہی ہیں۔ ابتداً یہ مجلہ32صفحات پر مشتمل ہوتا تھاجبکہ آج کل اس کے مشمولات 100/ صفحات پر پھیلے ہوتے ہیں۔
ہندوستانی عربی صحافت کی تاریخ میں ’البعث الاسلامی‘ کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس نے ہندوستان کی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی علمی، ادبی اورثقافتی رہنمائی کی ہے۔ البعث کے ٹائیٹل پیج پر شائع ہونے والا یہ چھوٹا سا لیکن انتہائی بلیغ جملہ اس مجلے کے مقاصد کو اجاگر کرتا ہے۔ مجلہ یہ جملہ ”شعارنا الوحید الی الاسلامی من جدید“ اپنے ٹائیٹل پیج پر پابندی سے شائع کرتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ پورا مجلہ اسی بلیغ جملے کی علمی، ادبی تفسیر ہوا کرتا ہے۔ 
ہر دور میں ’البعث‘ کے لکھنے والوں میں عالم اسلام کے ممتاز ادباء اور مفکرین شامل رہے ہیں جن کی نگارشات اعلیٰ اورمعیاری ادب کے ساتھ ساتھ صحیح اسلامی فکر کو پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مجلے نے عربوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ چنانچہ خلیج کے ممالک کے علاوہ عراق،لیبیا، تیونس، الجرائز، مصروغیرہ میں عزت کی نگاہ سے پڑھا جاتا ہے۔ دنیا اس کی منتظر ہوتی ہے۔
البعث الاسلامی‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ’الرابطۃ الاسلامیۃ‘ کے ایڈیٹر تحریر کرتے ہیں:
البعث الاسلامی گذشتہ بیس سالوں سے ہندوستانی مسلمان اور ان کے مسائل کو پوری قوت سے اٹھانے والا یہ ایسا مجلہ ہے جس نے اپنی پوری توانائی اسلامی فکرکی حفاظت میں صرف کی ہے،یہ لگاتار اسلام اور مبادی اسلام کی دفاع میں سرگرم عمل ہے“۔ 
)البعث الاسلامی،ج24، عدد2/ شوال 1399ھ(
الرائد‘:
ندوہ نے اپنے قیام ہی کے دن سے قرآن وحدیث کی زبان عربی کی ترویج و اشاعت کی کوششیں کیں۔ اس کی کوششیں رنگ لائی اور ہندوستان جیسے ملک میں عربی زبان کو رواج حاصل ہوا۔ اسی مبارک کوشش کی ایک مبارک کڑی ’الرائد‘ ہے۔ پندرہ روزہ ’الرائد‘ 1959 میں ندوہ سے جاری ہوا۔ اس کے بانی مولانا سید رابع حسنی ہیں۔ الرائد کے بھی مقاصد وہی ہیں جو البعث الاسلامی کے مقاصد ہیں۔ الرائد نے ہندوستان میں عربی صحافت کو نئی جہت عطا کی۔ دار العلوم ندوۃ العلماء کے طلباء کے ترجمان کی حیثیت سے اس کی خدمات تاریخ صحافت کی زریں کڑی ہے۔ یہ اخبار جس زمانہ میں نکلا اس زمانہ میں پورے ملک میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی۔ مجلس ادارت میں مولانا محمد رابع حسن ندوی کے علاوہ مولانا سعید اعظمی ندوی جیسے اہل قلم شامل ہیں۔ جبکہ اخبار کو مشہور ادیب مولانا واضح رشید حسنی ندوی کی سر پرستی ابتدائی ایام سے ہی حاصل ہے۔ 1959 سے یہ اخبار پوری پابندی کے ساتھ آج تک اپنی امتیازی شان کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ ہر پندرہ روز پہ اخبار نئے اسلامی، ادبی، فکری مضامین کے ساتھ منصہ شہود پر جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ 
دعوۃ الحق‘:
ہندوستان کی علمی، دینی، ادبی، فکری فضا پر دار العلوم دیوبند کے اثرات کا کوئی مؤرخ انکار نہیں کر سکتا۔ دار العلوم دیوبند نے ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو صحیح اسلامی فکر اور منہج پر زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا۔ ہندوستان کا کوئی خطہ نہیں جس پر دار العلوم کے دینی اثرات نمایاں نہ ہوں۔ دار العلوم دیوبند نے نہ صرف مسلمانوں کی دینی، فکری رہنمائی کی بلکہ جنگ آزادی کی مکمل قیادت بھی کی۔1857 کے انقلاب کی ناکامی کے بعد اگر دار العلوم دیوبند نہ ہوتا تو شاید ہندوستان میں بھی اندلس کی تاریخ دہرا دی جاتی۔یہ بلند بالا مسجد کی منارے آج خون کے آنسو رو رہے ہوتے، لیکن اللہ نے فضل فرمایا اور امام نانوتوی نے دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان کے تمام مدارس اور دینی مراکز کا سلسلہ نسب کسی نہ کسی طرح دار العلوم سے مل جاتا ہے۔
آزادی کے بعد ملک میں عربی زبان کو اہمیت حاصل ہوئی اور اصحاب فکر و نظر کی توجہ سے یہ زندہ زبان ہندوستان میں بھی زندہ ہوئی۔ دار العلوم دیوبند نے اپنی عربی صحافت کا آغاز’دعوۃ الحق‘ کے اجراء سے کیا۔ یہ مجلہ فروری 1965 میں مطلع صحافت پر طلوع ہوا۔اس کے بانی اور پہلے مدیر عالم اسلام کے مشہور عالم دین، ادیب اور متعدد لغات کے مصنف علامہ وحید الزماں کیرانوی تھے۔یہ مجلہ سہ ماہی ہوا کرتاتھا۔ لیکن افسوس کہ دس سال بعد 1975 میں اس کی اشاعت بند ہو گئی۔
ابتداً’دعوۃ الحق‘ 64 صفحات پر مشتمل ہوتا لیکن بعد کو 80 صفحات کر دیے گئے۔مجلہ اپنا اداریہ ’افکار وخواطر‘ کے عنوان سے لکھتا تھا۔ مجلہ خالص عربی اسلوب میں شائع ہوتا تھا۔ اس مجلے کو ہندوستان اور ہندوستان کے باہر عربی دنیا میں قبول عام حاصل ہوا۔ ممتاز عرب علماء نے مجلے کی پذیرائی کی۔ چنانچہ سعودی عرب سے شائع ہونے والا مجلہ ’المنھل‘کے ایڈیٹر عبد القدوس انصاری لکھتے:
مجھے آپ کا خط اور شاندار عربی مجلہ دعوۃ الحق ملا میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ یہ مجلہ تیز رفتار ترقی کرے۔
)دعوۃ الحق،ج:1،شمارہ1،فروری1965(
جبکہ’جمعیۃ ابحاث العلمیۃ‘ کے صدر ڈاکٹر محمد یحیٰ ہاشمی تحریر کرتے ہیں:
میں نے انتہائی خوشی ومسرت کے ساتھ آپ کے عظیم الشان رسالہ جو بیش قیمت علمی مواد سے پرتھا کا مطالعہ کیا۔“(دعوۃ الحق،ج:1،شمارہ:3، اگست 1965(
غرض کہ اس مجلے نے بہت تھوڑے دنوں میں پوری علمی دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
الہند‘:
جن دنوں میں ہندوستان انگریزی سامراج سے دست و گریباں تھا،انھیں ایام میں شام بھی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ شام کو بھی آزادی کی نعمت عظمیٰ میسر آئی۔ حکومت ہند آزادی کے بعد سے ہی عربوں سے بہتر تعلقات کی خواہاں رہی ہے،اور ہندوستانی کلچر کو عرب میں متعارف کرنے کے لیے متعدد عربی مجلات جاری کیے۔ اسی غرض سے شام میں ہندوستانی سفارت خانہ نے دمشق سے 1972 میں ’الہند‘ جاری کیا۔ ’الہند‘ کے مقاصد بھی وہی تھے جو ’ثقافۃ الہند‘ کے ہیں یعنی عربوں کو ہندوستانی ثقافت اور بطور خاص قدیم ہندوستانی ثقافت سے واقف کرانا، ہند اور عرب تعلقات استوار کرنا، ہندوستانی احوال و کوائف سے عربوں کو روسناش کرانا وغیرہ۔ اس مجلے نے شام اور ہندوستان میں گہری دوستی کی نیو رکھی۔ اور عربوں سے بھی دوستی کو بڑھاوا دینے میں ’الہند‘نے اہم کردار ادا کیا۔ (الہند، شمارہ141، ستمبر1995،ص3(
الکفاح
جوں جوں ہندوستان اور عرب تعلقات مضبوط ہوتے گئے اور ہندوستان میں عربی زبان کو بحیثیت زبان مقام ملتا گیا عربی صحافت کا بھی رواج ہندوستان میں بڑھتا گیا۔ چنانچہ جنوری1973 میں جمعیت العلماء ہند نے پندرہ روزہ ’الکفاح‘ مولانا وحید الزماں کیرانوی کی ادارت میں جاری کیا۔ 
یہ جریدہ اپنے پہلے صفحہ پر جمعیت کے علمی، ثقافتی، سماجی اور رفاہی کاموں کی خبریں شائع کرتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ عرب دنیا کی خبریں، مقالات و مضامین شائع کیا کرتا تھا۔ جبکہ آخری صفحے پر عربی زبان سیکھنے کے خواہش مند لوگوں کے لیے عربی مفردات شائع کیا کرتا تھا۔ عربی زبان سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ اخبار ایک طرح کا معلم تھا۔ 
الداعی‘:
          دار العلوم دیوبند نے اپنی عربی صحافت کا آغاز  ’دعوۃ الحق‘ سے کیا؛ جس کی اشاعت 1975 میں بند ہو گئی۔ لیکن اس نقصان کا بہترین بدل دار العلوم نے عربی دنیا کو پندرہ روزہ ’الداعی‘کے ذریعہ دیا۔ ’دعوۃ الحق‘سہ ماہی تھا۔ جبکہ ’الداعی‘ پندرہ روزہ ہے۔ چند دنوں کے خسارہ کا یہ نعم البدل تھا۔ ’الداعی‘ جون1976 میں پہلی دفعہ منظر عام پر آیا اور اس کے پہلے مدیر مولانا وحید الزماں کیرانوی تھے۔ مولانا کیرانوی کے بعد ’الداعی‘ کو ملک کے ممتاز ادیب مولانا بدر الحسن قاسمی دربھنگوی(حال مقیم کویت)کی خدمات حاصل ہوئی۔ مولانا قاسمی کے کویت منتقل ہونے کے بعد سے آج تک ’الداعی‘ کے رئیس التحریرکی حیثیت سے عالم اسلام کے معروف ادیب، متعدد علمی ادبی کتابوں کے مصنف مولانا نور عالم خلیل الامینی مظفر پوری انجام دے رہے ہیں۔
الداعی‘ اپنی انفرادیت اور امتیاز کے ساتھ آج بھی پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔ ابتداً ’الداعی‘ آٹھ صفحات پر شائع ہوتا تھا۔ اس مجلے نے پوری علمی،عربی دنیا میں اپنی ایک پہچان قائم کی ہے۔ خود عرب بھی اس مجلہ کو عزت کی نگاہ سے پڑھتے ہیں۔ اس کے لکھنے والوں میں دنیا کے ممتاز اہل قلم شامل ہیں۔ چنانچہ ’الداعی‘ پراپنے تاثرات کا اظہار ملک عبد العزیز جدہ کے پروفیسر ڈاکٹر احمد عبد القادر باحفظ اللہ تحریر کرتے ہیں:
مجھے آج آپ کے مجلے کا اکیسواں شمارہ ملا، میں بتا نہیں سکتا کہ مجھے کس قدر خوشی ہو رہی ہے، مجلہ الداعی کے مشمولات نہایت ہی عمدہ بیش قیمت افکار وخیالات اور روشن مضامین سے پر ہیں، بطور خاص مجھے اس بات کی خوشی ہورہی ہے کہ آپ نے بڑے ہی اہتمام کے ساتھ عالم عربی کی خبروں کو نشر کیا ہے۔
(الداعی،ج2،شمارہ24،10/ستمبر1978)
آج بھی ’الداعی‘ عربی زبان وادب کا ایک ممتاز معیاری رسالہ سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان اور عرب دنیا کی نگاہیں  اس کے لیے فرش راہ رہتی ہیں۔
الدعوۃ‘:
اپریل1975 میں جماعت اسلامی ہند نے اپنا عربی ترجمان ’الدعوۃ‘ کے نام سے جاری کیا۔ اور اس کے مدیر سلمان ندوی بنائے گئے۔’الدعوۃ‘ جماعت اسلامی کی علمی، دینی، سماجی اور فلاحی خبریں شائع کرنے کے علاوہ علمی مقالات و مضامین بھی شائع کرتا تھا۔ اس اخبار نے بھی عربی دنیا میں اپنا ایک خاص مقام بنا لیا۔ اخبار ہر پندرہ روز پر شائع ہوتا تھا۔ 
چند دیگر عربی مجلات و رسائل:
ان مجلات کے علاوہ ہندوستان سے متعدد عربی رسائل وجرائد بھی وقفے وقفے سے نکلتے رہے۔ اور آج بھی ہندوستان کے مختلف مقامات سے عربی رسائل و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ جس سے اس زبان کی اہمیت اور اس ملک کے لوگوں کی عربی زبان سے دلچسپی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان جرائد و رسائل میں ’الصبح‘، ’المجمع العلمی الہندی‘، ’الثقافہ‘، ’الدراسات الاسلامیہ‘ (دار العلوم سے شائع ہوتا تھا جس کے مدیر سعید احمد اکبر آبادی تھے) ’الرابطۃ الاسلامیۃ‘، ’صوت السلام‘ دار العلوم سبیل السلام، حیدر آباد”الرشاد“ جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ،’الصحوۃ الاسلامیۃ‘ دار العلوم حیدر آباد، ’صوت الاسلام‘ غازی پور، ’النور‘ اشاعۃ العلوم اکل کنواں، مہاراشٹر، ’التاریخ الاسلامیۃ‘ دہلی، ’المظاہر‘ جامعہ اسلامیہ مظاہر العلوم، سہارن پور (یوپی)، ’الحرم‘ جامعہ امدادیہ مراد آباد، ’منار الہدی‘ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات، ’النھضۃ الاسلامیۃ‘ دار العلوم اسلامیہ بستی، ’المعلم‘، ’المیزان‘، ’الثقافہ‘، ’نداء الہند‘ کیرالہ، وغیرہ ہندوستان کے مختلف دینی، علمی،تحریکی مراکز سے شائع ہوئے۔ ان میں سے بیشتر مجلات آج بھی پوری پابندی کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔
ریڈیائی صحافت:
ہندوستان میں عربی صحافت نے اخبارو رسائل کی دنیا میں جہاں اپنا مقام بنایا وہیں اس نے نشریات کی دنیا میں بھی اپنی منفرد پہچان بنائی یا بہ الفاظ دیگر پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ عربی الکٹرانک میڈیا نے بھی عرب دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ چنانچہ 22/مارچ 1953 کو ہندوستان میں عربی ریڈیائی صحافت کا آغاز ہوا اور ’آکاش وانی،دہلی‘نے اپنی نشریات میں عربی کو شامل کیا۔ پہلی دفعہ ’آکاش وانی‘ دہلی نے 22/مارچ 1953 بروز اتوار شام 7 بجکر 55 منٹ پر عربی زبان میں اپنی نشریات کا آغاز کیا۔ اس نشریہ نے عرب دنیا میں قبول عام حاصل کیا۔ ’آکاش وانی‘ نے عربی نشریات کے لیے صبح و شام کا وقت مختص کیا۔ صبح 6:30 سے 7 بجے اور شام 7:30 سے 9:30 تک عربی خبریں وغیرہ نشر ہوا کرتی تھیں۔ ’آکاش وانی‘ کے متعدد عربی نشریات تھے۔ مثلاً قرآن کریم کی تلاوت، خبروں پر تبصرے، عربی گانے، جمعہ، اتوار اور منگل کو نشر ہوتے تھے تو ہندی گانے سوموار، بدھ،سنیچر اور جمعرات کو نشر ہوا کرتے تھے۔
غرض کہ بیسویں صدی میں ہندوستان میں عربی صحافت نے روشن منارے قائم کیے۔ کوئی بھی عربی زبان و ادب اور صحافت کا مورخ ہندوستانی عربی صحافت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ نہ صرف ہندوستانیوں نے رسمی طور پر عربی اخبار ورسائل جاری کیے بلکہ اپنے اسلوب بیان اور طرز تحریر کا عربوں سے بھی اعتراف کروایا۔ آج بھی عرب دنیا ہندوستانیوں کی عربی دانی پر عش عش کرتی ہے۔ اس دوران ہندوستان سے شائع ہونے والا کون سا ایسا مجلہ یا رسالہ ہے؛ جس نے عربوں سے خراج تحسین وصول نہ کیا ہو۔ خواہ وہ ’البیان‘کا بیان موجز ہو یا ’الضیا‘کی ضیا پاشیاں یا ’الرائد‘ کی قیادت اور ’البعث‘ کی ادبی اڑان یا پھر’الداعی‘ کی دعوت عام۔ہندوستانی مجلے عرب کے جس حلقے میں پہنچے ان کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی اور ان کے افکار کا جلا بخشا۔

Mohd Nafe Arfi
Mahad-ul-Islami
Harsanghpur
Darbhanga - 846004 (Bihar)


ماہنامہ اردو دنیا،دسمبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں