13/12/19

خاموش غازی پوری: ایک مقبول عوامی شاعر( 11.10.1981 - 20.07.1932 ) مضمون نگار: معصوم شرقی




 خاموش غازی پوری: ایک مقبول عوامی شاعر
(11.10.1981  -  20.07.1932 )

 معصوم شرقی


غازی پور اتر پردیش کا ایک مردم خیز خطہ اور گہوارہئ علم و فن رہا ہے۔ عہد قدیم سے موجودہ زمانے تک اس نے مختلف ادوار اور شعبۂ حیات میں عبقری (Genius) اور لائق احترام شخصیتیں پیدا کی ہیں جن کے علم و کمال اور ادبی و شعری خدمات نے ماضی میں اس شہر کانام روشن کیا۔ غازی پور کی قابل ذکر شخصیتوں میں مولانا آسی غازی پوری، ہنرغازی پوری، سامری غازی پوری، بقا غازی پوری، ڈاکٹر مونس‘رضاعابدی، پروفیسر امیر حسن عابدی، ہمیل خاں، عبدالحمید خاں۔ پروفیسر سید نورالحسن مولانا عبدالوحید صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، ڈاکٹر سید محمود‘نذیر حسین، ڈاکٹر راہی معصوم رضا، سید مشیرالحق، ڈاکٹر انس، خاموش غازی پوری، ظہیر غازی پوری، سید منیر نیازی اور عزیز الحسن صدیقی کی ذات گرامی اپنے اپنے میدان فکر و عمل میں سرگرم رہی ہیں۔ 
میدان علم و ادب ہویا جہان سیاست اس میں چند ایسی بدیع روزگار ہستیاں منصبی شہود پر آئیں جنہوں نے زندگی کے قلیل عرصے میں اپنے علم و کمال سے ایک عالم کو متا ثر کیا اور نقش دائمی چھوڑ گئیں۔ زندگی نے کچھ اور وفا کی ہوتی تو مزید کارہائے نمایاں انجام پاتے۔ مسٹر ملا نگ۔ مسٹر گوکھلے، ڈاکٹر ستیش چندر، پنڈت بشن نرائن در، جون ملٹن، سوکا نتو، خواجہ غلام الثقلین، میراجی، دیا شنکر نسیم، ناصر کاظمی، مجید امجد، مجاز، سارہ شگفتہ، پروین شاکر، شکیب جلالی، آنس معین‘ زیب غوری اور اشک امرتسری جیسے لوگ کم عمری میں نذراجل ہو گئے۔ خاموش غازی پوری بھی ایسے ہی فنکار وں میں سے تھے جنہوں نے زندگی کی صرف 48بہاریں دیکھیں اور دار فانی سے رخصت ہوگئے مگر یہ کہہ گئے    ؎
میں وہ سورج ہوں نہ ڈوبے گی کبھی جس کی کرن
رات ہوگی تو ستاروں میں بکھر جاؤں گا
خاموش کے انتقال کی خبر سن کر مشہور شاعر شعری بھوپالی نے بے ساختہ کہا تھا     ؎
”ہاے!  ایسے شاعر روز روز پیدا نہیں ہوتے۔“ 
خاموش نے 1945میں شاعری کی ابتدا کی۔لیکن آزادی کے بعد ان کی شاعری میں ایک نوع کی درشتگی پیدا ہوگئی تھی۔ 1947 ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عہد کی سب سے ممتاز خصوصیت ہے ’بے اطمینانی‘ اور ’اضطراب‘۔ اس احساس کی صحیح عکاسی آزادی کے بعد کی غزلیہ شاعری میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ آزادی کے نام پر موسم گل کا فریب ہاتھ آیا۔ وطن کی زمین انسانی لہو سے لالہ زار بنی۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا پھیلا اور انسانیت تڑپ تڑپ کر دم توڑ تی رہی۔ ان احساسات کو ہمارے شعرا نے شعری پیکر عطا کیا۔ خاموش بھی ایسے اشعار کہنے پر مجبور ہوئے  ؎
کسی نے دیکھا نہ بیخودی میں کہ دھوپ شامل ہے چاندنی میں 
بہار بن کر خزاں جو آئی فریب کھا ہی گیا زمانہ
وہ دن ہے نزدیک باغباں جب ہمارے رحم و کرم پہ ہوگا
جو آج بجلی گرارہا ہے وہی بنائے گا آشیانہ
یہ کہہ دو خاموش رہبر وں سے، بھرم حقیقت کاکھل چکا ہے
یہ کھوٹے سکے نہیں چلیں گے کہ ہوش میں آگیا زمانہ
چمن کے بدلے یہ چاند تارے، یہ کہکشاں لے کے کیاکریں گے 
زمیں کے دامن میں کیا نہیں ہے، ہم آسماں لے کے کیا کریں گے
جو رنگ و بو کے حریف ٹھہرے، وہ کب گلوں سے وفا کریں گے
چمن کو تقسیم کرنے والے، چمن کی تنظیم کیا کریں گے
یہی جو حالت رہی چمن کی تو اک دن ایسا بھی حال ہوگا
کوئی نہ دیکھے گا بجلیوں کو اور آشیانے جلا کریں گے
بدل چکا ہے نظام عالم، اب اس کو خاموش کیاکریں ہم
چمن ہمارا چمن نہیں ہے، کلی ہماری کلی نہیں ہے
اچھی تدبیر نکالی ہے یہ صیادوں نے
ذہن کو قید کیا پاؤں کو آزاد کیا
سوال یہ نہیں تاریک ہے فضا اب تک
سوال یہ ہے کہ تاریک یہ فضا کیوں ہے
خاموش کی شاعری جذبات اور احساسات کی ایک کھلی کتاب ہے جس میں ان کی زندگی اور شخصیت کے روشن گوشوں کا با آسانی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ خاموش کی شعری بقا کے لیے ان کے یہ اشعار کافی ہیں۔ تشبیہات و استعارات اور دیگر محاسن شعری کی جلوہ گری ملاحظہ کیجیے        ؎
غالب کی اک غزل کی طرح ہے یہ زندگی
ایسی غزل جو سب کو سنائی نہ جا سکے
ہر لمحہئ نشاط کی قیمت کہاں رہے
ہر لمحہئ نشاط اگر جاوداں رہے
ڈوب جانے دو مرے ذہن کو پیمانوں میں 
زندگی کیا ہے یہ سوچوں گا تو مر جاؤں گا
راحت میں بھی خلش ہے مصیبت میں بھی خلش
کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی زندگی مجھے
آج کے دور میں انساں کے کئی چہرے ہیں 
مسکراتے ہوئے چہروں پہ نہ جاؤ لوگو
دل ان کا نام سن کے دھڑکتا ہے آج بھی
زنجیر ٹوٹ کر بھی چھنکتی ضرور ہے
خاموش ترک عشق و محبت کے بعد بھی
سینے میں کوئی چیز کھٹکتی ضرور ہے
وہ یوں نظروں سے اوجھل ہو رہے ہیں 
کہ جیسے دھوپ سمٹی جارہی ہے
جب میں چلتا ہوں رہ احساس میں 
ساتھ چلتی ہیں تری پرچھائیاں 
خاموش کے یہاں عشق کا نشاطیہ پہلو بھی نمایاں ہے مگر غم کی دھیمی آنچ بھی بین السطور محسوس ہوتی ہے۔ ان کے کلام میں وہ غنائیت موجود ہے جو رومانی شاعری کے لیے ضروری ہے۔ جمالیاتی حس خاموش کو فطرت سے ودیعت ہوئی تھی اور آزادہ روی کو انھوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ رومانی فضا انھیں پوری طرح راس آگئی۔ خاموش کو اگر اختر شیرانی کی طرح ’شاعررومان‘ کہاجائے تو بیجانہ ہوگا۔ ان کے یہاں بیشتر وہی عشقیہ شاعری ہے جو اردو غزل کی روایت رہی ہے۔ خاموش رومانیت کے حامل تھے۔ ان کی شاعری پر جگر اور اختر شیرانی کا اثر نمایاں ہے۔ سمندر کی سطح پر کوئی طوفان نہیں ملتا لیکن اس کی تہہ نشیں موجوں میں مسلسل اضطراب پنہاں رہتا ہے۔ یہی کیفیت خاموش کی داخلی زندگی میں تھی۔ ان کی غزلوں میں ذاتی محرومیوں کا شدید احساس پایا جاتا ہے۔ ایسے چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎
شاید اسی کا نام ہے بیچارگی عشق
سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں اختیار میں 
رات تاریک اگر ہے تو خطا رات کی ہے
کیا ستم ہے کہ چراغوں کو سزا دی جائے
ترے فریب مسلسل کے باوجود اے دوست
تری وفا پہ مجھے اعتبار سا کیوں ہے
ہماری صبح پریشاں، ہماری شام الم
خدا کرے کہ تمہاری نظر سے کم گزرے
بیکار مسرت ہے اگر راس نہ آئے
راس آئے کسی کو تو بڑی چیز ہے غم بھی
کہو تم اپنی کہ ترک الفت کے بعد کس کا سہارا ہوگا
ہمارا کیا ہم تو جبر کر کے کبھی کبھی مسکراہی لیں گے
خاموش کی حساس طبیعت اور دل کی تہہ میں محبت کی موجیں آتش خاموش بن کر رقصاں تھیں۔ ان کی شاعرانہ شخصیت کی تکمیل میں غم جاناں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اختر شیرانی کی تصور اتی ہیروئن ریحانہ، سلمہ اور عذرا اور مجاز کی نوراکی طرح خاموش کی کوئی تصوراتی محبوبہ نہیں تھی بلکہ ان کی محبوبہ کا وجود تھا جسے انھوں نے جنون کی حد تک چاہا تھا۔ لیکن ناکامی محبت نے خاموش کی زندگی کے شیراز ے کو تار تار کردیا اور وہ کہنے پر مجبور ہوئے  :
محبت کی شکستہ آرزؤوں کا لہو دے کر
تمہارے تذکرے میں رنگ پیدا کر دیا میں نے 
اس کیفیت کا نام محبت ہے غالباً
جو کیفیت کسی کو بتائی نہ جا سکے
کس کو معلوم تھا دیکھتے دیکھتے آرزؤوں کے سپنے بکھر جائیں گے
جیسے بادل کا سایہ نہ ٹھہر ے کہیں یوں محبت کے لمحے گزر جائیں گے
جہاں پہ ہم نے محبت کے گیت گائے تھے
وہ سوگوار فضا ئیں سلام کہتی ہیں 
مرے سکون کی دنیا کو لوٹنے والے
مری غریب دعائیں سلام کہتی ہیں 
تو نے ہی تو جینے کا انداز سکھایا ہے
اے دوست ترے غم کو دیتے ہیں دعا آنسو
جس میں خلش نہ ہو وہ کوئی زند گی نہیں 
اچھا ہوا کہ میں نے تمہیں پاکے کھو دیا
وہ بھی تھی ایک زندگی چین نہ تھا ترے بغیر
یہ بھی ہے ایک زندگی میں نے تجھے بھلا دیا
خاموش کے اشعار غم کے گہرے احساس سے آراستہ ہیں۔ زندگی کے ہیجانات کی شدید کشمکش اور اس کے اظہار کو خاموش نے ایک خوبصورت لہجہ عطا کیا ہے۔ ان کے اشعار دل کی دھڑکن بن کر پردہئ سماعت سے ٹکراتے ہیں اور تحت الشعور کے خوابیدہ احساس کو بیدار کرتے ہیں۔ ان کے اشعار ذاتی حالات اور داخلیت کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ بعض اشعار میں شکست زندگی کا احساس بہت گہرا ہو گیا ہے۔ نظم ’ہم سفر چھوٹ گیا‘ میں خاموش نے محبوب سے بچھڑنے کا ذکر درد انگیز پیرائے میں کیا ہے۔ بند ملاحظہ کیجیے       ؎
کس کو معلوم تھا انجام سفر سے پہلے
موسم گل کی طرح تٗو بھی بدل جائے گا
عہد رفتہ کے جنازے پہ سسکنے کے لیے
یاد رہ جائے گی اور وقت نکل جائے گا

بھول جاؤں گا کہ اظہار محبت کر کے
خوبصورت سا کوئی جرم کیا تھا میں نے
بھول جاؤں گا کہ خود تجھ سے اجازت لے کر
تیرے ہونٹوں کو کبھی چوم لیا تھا میں نے
داغ، حسرت، فانی، سیماب اور جگر نے صنف غزل کی کلاسکی روش کو دوام بخشا۔ خاموش کو اس سلسلے کی آخری کڑی کہا جائے تو بیجانہ ہوگا۔معروف شاعر و نقاد ظہیر غازی پوری رقمطراز ہیں :
”خاموش کی شاعری میں عام طور پر محسوس کی جانے والی تمام واردات قلبی کی بازگشت موجود ہے۔ حسن و عشق، کائنات کی طلسمی فضا، ہجر و فراق کے کرب انگیز لمحوں کی خوں آشامی، ذات و کائنات کی ابہامی کیفیات، سیاسی بحران کی اندو ہنا کی، تہذیبی و معاشرتی قدروں کی زبوں حالی اور عہد رواں میں ٹوٹتے بکھرتے انسانی رشتوں کی اذیت ناکی ایسے موضوعات ہیں جو ان کے قلم کی زد میں بار بار آتے ہیں۔ ان کی شاعری ایسی متوالی خوشبو کے مصداق ہے جو ہر دہلیز سے گزرتی ہے اور ہر ذکی الحس کو قلندرانہ مستی عطا کرتی ہے۔ ایسی شاعری کو بجاطور پر کلاسکی ادبی اقدار کا ایسا آبشار کہہ سکتے ہیں جو نشیب و فراز کی پروا کیے بغیر ہمیشہ رواں دواں ہے۔“
                خاموش تاحیات نامساعد حالات سے نبرد آزمار ہے۔ حادثے، محبوب کی بے وفائی، تلخ یادیں اور ذاتی غم جزو زندگی بن گئے جن سے نجات پانے کی خاطر انھوں نے اپنی زندگی شراب کی نذر کردی اور بے تحاشہ مے نوشی کرنے لگے۔
                یاد جب زخم بن جاتی ہے تو محبوب کو بھلانا آسان نہیں ہوتا۔ غیر ارادی طور پر آنکھوں میں آنسوؤں کے دیے جھلملانے لگتے ہیں جن پر شاعر قابو پانا چاہتا ہے     ؎
بھیگ جاتی ہیں جو پلکیں کبھی تنہائی میں 
کانپ اٹھتا ہوں مرا درد کوئی جان نہ لے
یہ بھی ڈرتا ہوں کہ ایسے میں اچانک کوئی
مری آنکھوں میں تجھے دیکھ کے پہچان نہ لے

ڈھونڈتا ہوں عشق میں تسکین لا حاصل کو میں 
کس جگہ پہ پھینک آؤں اضطراب دل کو میں 
کاش کوئی لے لے میرے عہد ماضی کے عوض
بیچنے آیا ہوں اپنے حال و مستقبل کو میں 
شاعر کو محبوب کی رسوائی منظور نہیں۔ وہ اپنی آنکھوں کو نمناک کرنے اور جذبہئ شوق کو زبان پر نہ لانے کی قسم کھاتا ہے        ؎
جذبہئ دل کو کبھی عام نہ ہونے دوں گا
اس فسانے کا اب انجام نہ ہونے دوں گا
اپنی خاطر تجھے بدنام نہ ہونے دوں گا
خود ہر الزام اٹھا نے کی قسم کھاتا ہوں 
آج پھر تجھ کو بھلانے کی قسم کھاتا ہوں 

غم کی خاموش گھٹاؤں کو نہ چھانے دوں گا
اپنی آنکھوں کو ستارے نہ بنانے دوں گا
آنسوؤں کو کبھی دامن پہ نہ آنے دوں گا
ان چراغوں کو بجھانے کی قسم کھاتا ہوں 
آج پھر تجھ کو بھلانے کی قسم کھاتاہوں 
(فرار)
شراب خاموش کو پی چکی تھی اور وہ وہاں پہنچ چکے تھے جہاں سے بازیابی کی کوئی امید نہ تھی۔ شراب بڑے بڑے فنکاروں کو کھا گئی۔منٹو‘ اختر شیرانی، عبدالحمید عدم، اسرار الحق مجاز، ساحرلد ھیا نوی، نریش کمار شاد، ارشاد کاشف اور ناظر خیامی سب کے سب شراب کی نذر ہوگئے۔ 
شراب پی کر خاموش شاذ و نادرہی بہکتے تھے۔ ان کے ہوش و حواس قائم رہتے تھے اور کوئی خلاف تہذیب بات ان کی زبان سے نہیں نکلتی تھی۔ ان کے پینے میں بھی ایک سلیقہ اور قرینہ تھا۔ وہ پی کر بھی اخلاق و آدب کو ملحوظ رکھتے تھے۔ 
خاموش کے کلام میں محبت کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ ان رنگوں کے قوس و قزح میں ان کی زندگی اور زمانے کی بعض حقیقتیں بھی جھلک دکھاجاتی ہیں۔ وہ محبت کو وسیع نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہ اشعار دیکھیے:
ایک نعمت ہے محبت بھی مگر
سب کو یہ دیوانگی ملتی نہیں 
کچھ نہ سمجھو تو محبت کی نظر کچھ بھی نہیں 
اور سمجھو تو محبت کی نظر سب کچھ ہے
اس کیفیت کا نام محبت ہے غالباً
جو کیفیت کسی کو بتائی نہ جا سکے
سچ جو پوچھو تو محبت کے بغیر
زندگی بھر زندگی ملتی نہیں 
سچ یہ ہے محبت کا مزا مل نہیں سکتا
جب تک کہ محبت میں رقابت کی کمی ہے
یہ ربط محبت بھی کیا ربط محبت ہے
دل ان کا وہاں دھڑکا آواز یہاں آئی
خاموش کے سرمایہئ سخن کا کچھ حصہ حب الوطنی اور وطن پرستی پر بھی مشتمل ہے۔ انھوں نے چند کامیاب اور مؤ ثر نظمیں بھی کہی ہیں جن میں سارے ہندوستانیوں کو ایک قوم سمجھنے کا تصور، ہندوستانی کلچر سے دلی وابستگی اور غازی پور کی تہذیبی روایات کا احترام ملتا ہے     ؎ 
ہمیں فصل گل میں بھی باغباں کے ستم اٹھا نے پڑے مگر
نہ تو ہم نے ترک وفا کیا نہ چمن کو چھوڑ کے ہم گئے
راز کھل جائے نہ ساقی کی تہی دستی کا
جام خالی سہی ہونٹوں سے لگائے رکھنا
کسی طرح نہ مٹی جب چمن کی تاریکی
لگا دی آگ نشیمن میں روشنی کے لیے 
                وطن پرستی اور وفا داری کے باوجود شاعر فرقہ پرستوں کی نگاہ میں مشکوک ہے۔ ایسی حالت میں وہ پکار اٹھتا ہے :
کہتے ہو تم ہمیں کہ وفادار ہی نہیں 
دل میں ہمارے جذبہئ بیدار ہی نہیں 
آزادی وطن سے ہمیں پیار ہی نہیں 
یعنی ہمارے ہاتھ میں تلوار ہی نہیں 
ہم تم سے پوچھتے ہیں وہ انسان کون تھے
عبدالحمید کون تھے عثمان کون تھے
اور دشمنوں کو للکارتا ہے      ؎
مانگے کے اسلحوں سے ڈرانے کا غم نہیں 
طوفان سرحدوں پہ اٹھا نے کا غم نہیں 
کانٹے قدم قدم پہ بچھانے کا غم نہیں 
ہم متحد ہیں ہم کو زمانے کا غم نہیں 
مانا کہ آبروئے وطن کا سوال ہے 
ہم پہ اٹھائے آنکھ یہ کس کی مجال ہے 
خاموش نے کم و بیش20-25 برسوں تک شاعری کی مگر انھوں نے اس طویل مدت میں بہت کم لکھا۔ ان کا صرف ایک مجموعہئ کلام ’نوائے خاموش‘جو 160 صفحات پر مشتمل ہے ظہیر غازی پوری نے 1970میں ترتیب دیا تھا۔ خاموش میں شعر گوئی کی تمام ترصلا حیتیں موجود تھیں مگر وہ ضرورتاً شعر کہا کرتے تھے اور عام طور پر عوامی پسند اور ذوق کو مدنظر رکھ کر شاعری کرتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے کلام میں سادگی اور جذبے کی شدت زیادہ ہے۔
خاموش کم گو شاعر تھے۔ البتہ انھیں زبان و بیان پر قدرت حاصل تھی اور بات کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ اخلاق و محبت، دوستی و رواداری، ہمدردی و شرافت ان کی شخصیت کا جوہرتھی۔ہر مکتبہ فکر کے لوگ ان کا احترام اور ان سے محبت کرتے تھے۔ ان کے دوستوں، قدر دانوں اور ملاقاتیوں کی تعداد اس لحاظ سے بہت زیادہ تھی کہ وہ عوامی شاعر تھے اور اپنی آواز اور سخن سازی دونوں کے ذریعے بڑی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ انھوں نے اپنی سحر انگیز آواز کے ذ ریعے اردو شعر و ادب کی خدمت انجام دی اور اردو کے ایک مخصوص طبقے میں اپنا مقام بنالیا تھا۔ہندستان کے بڑے بڑے مشاعروں میں خاموش کی شرکت ناگزیر سمجھی جاتی تھی۔ حقیقتاً وہ مشاعرے کی جان تھے۔ عشق و محبت کے راز و نیاز اور حسن کی دل فریبی کا اظہار کچھ ایسی کیفیت پیدا کرتا کہ سامعین وجد میں آجاتے اور دادو تحسین سے نواز تے۔ ان کی مسحور کن آواز آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے اور آج بھی اہل ذوق حضرات ان کے اشعار گن گناتے ہیں۔ بقول ظہیر غازی پوری :
”خاموش واقعی غازی پور کے مجاز تھے۔“
عوام پسند شاعری وہی ہوتی ہے جو ذہن و دل کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی ادبی حیثیت چاہے جو بھی ہو مگر ایسی شاعری عوام میں اس درجہ مقبول ہوتی ہے کہ جابہ جا لوگ اشعار دہر اتے ہیں اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر نظیر اکبرآبادی، اکبر الہ آبادی اور اشک امرتسری کے بہت سارے اشعار زبان زد عام ہیں۔ ہندی شاعری میں د وہے عوامی زبان میں کہے جاتے تھے لہٰذا کبیر، تلسی اورر حیم کے بے شمار دو ہے آج بھی لوگوں کو ازبر ہیں۔ 
بقول ملک زادہ منظورا حمد :
”اردو کی بہترین نظمیں مشاعروں ہی کے ذریعہ عوام تک پہنچیں۔ لہٰذا عوامی شاعری کی حیثیت بھی بہر حال مسلم اور لائق تحسین ہے۔“
خاموش غازی پوری اس لحاظ سے ایک مقبول اور کامیاب شاعر قرار دیے جاسکتے ہیں۔ 

Dr. Masoom Sharqi
At & P.O.:  R.L.B.Lane
24-Pgs(N) 743194  (W. B.)


ماہنامہ اردو دنیا،دسمبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں