18/12/19

غبارِ خاطر: ایک مطالعہ مضمون نگار: محمد ریحان


غبارِ خاطر: ایک مطالعہ
محمد ریحان


غبار خاطر‘ مکتوب نگارمولانا ابوالکلام آزاد کا مکتوب الیہ حبیب الرحمن خان شیروانی کو لکھے گئے خطوط کا مجموعہ ہے۔’غبار خاطر‘کے دیباچے میں مذکور ہے کہ اس کا عنوان میر عظمت اللہ بے خبر کے رسالہ غبار خاطر سے مستعار ہے۔ غبار خاطر میں درج خطوط کی تعداد 24 ہے۔ مجموعے میں دوسرا اور تیسرا خط کشمیر کی وادیوں میں دوران علالت لکھا گیا ہے۔چوتھا گرفتاری کے بعد دوران سفر لکھا گیا ہے۔پہلا خط شملہ سے 27جون 1945 کامجموعے کی تمہید کے لیے موزوں ہے۔اس کے علاوہ 10 اگست 1942 سے 16 ستمبر1943تک کے خطوط قلعہ احمد نگر کی سنگی دیواروں میں محبوسی کے دوران لکھے گئے ہیں۔ مجموعے میں کچھ خطوط اپنے عناوین رکھتے ہیں، جن کے نام یوں ہیں۔مکتوب سرینگر،مکتوب نسیم باغ،مکتوب سفر، داستان بے ستون و کوہ کن،حکایتِ بادہ و تریاک، حکایتِ زاغ و بلبل،چڑیا اور چڑے کی کہانی۔ یہ عنوان ہی ناقدین ادب کے درمیان خلط مبحث کا نتیجہ بنے اورمختلف آراءسامنے آئیں۔ جیسے مضامین کا دفتر، انشائیہ کا مجموعہ،خود کلامی،خود نوشت کی خوبیوں کا پایا جانا وغیرہ۔جبکہ مختلف جگہوں پہ مکالماتی تحریر ’غبار ِخاطر ‘ کے خطوط کے ہونے پر دال ہیں۔
کل گلمرگ سے روانہ ہو رہا تھا کہ ڈاک آئی اور اجمل خان صاحب نے آپ کا مکتوبِ منظوم حوالہ کیا۔ کہہ نہیں سکتا کہ اس پیام محبت کودل درد مند نے کن آنکھوں سے پڑھا اور کن کانوں سے سنا......ان سطور کو آئندہ خامہ فرسائیوں کی تمہیدتصور کیجیے۔ رہائی کے بعد جو کہانی سنانی تھی وہ ابھی تک نوک قلم سے آشنا نہ ہو سکی۔
(غبار خاطر : مولانا ابو الکلام آزاد، خط نمبر2، ص5)
واقعہ یوں ہے کہ غبار خاطرپڑھنے سے پہلے میرے خیالات یہ تھے کہ مولا نا نے اپنے رفیق حبیب الرحمن خان شیروانی المعروف صدیق مکرم کو خط لکھا ہے۔ اس میں اپنے دوست کے گھریلو حالات پوچھے اور لکھے ہوں گے۔ لیکن جیسے جیسے مطالعہ کرتا گیا۔ میرے سا توں طبق روشن ہو گئے۔دنیا ہی بدلی نظر آئی۔ اب سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ غبار خاطر کے کس پہلو پر بات کی جائے۔ چونکہ علمی پہلو سے غبار خاطر’کوزے میں سمندر‘ کے مصداق ہے۔بات بات میں جہد مسلسل کی دعوت ہے۔ بہ ظاہر یہ ایک خاص شخص کے لیے لکھے گئے خطوط ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ27 جون 1945 کو لکھا گیایہ خط اس سے قبل لکھے گئے خطوں کی تمہید کے طور پردرج کیا گیا ہے :
دل حکایتوں سے لبریز ہے،مگر زبان درماندہ فرصت کو یارائے سخن نہیں مہلت کا منتظر ہوں
(غبار خاطر : مولانا ابو الکلام آزاد، خط نمبر ۱، ص3)
دوسرے خط کا آغاز خرابی طبیعت سے ہوتا ہے۔ اس میں ان کے اپنے علاج کا بیان تعجب خیز ہے۔ذو معنی جملہ ہے۔انتہائی لطیف انداز، پہلے ہی جملے سے یہ بات نکلتی ہے کہ انسانی زندگی جدو جہد سے عبارت ہے۔ صرف ہم ہی نہیں ہمارے ماضی میں بھی لوگ جدو جہد کرتے رہے ہیں۔قارئین کے لیے چند جملے ملاحظہ ہوں:
زندگی کے مقصد میں بہت سی جستجوئیں  کیں تھیں، لیکن اب ایک نئی متاع کی جستجو میں مبتلا ہو گیا ہوں، یعنی اپنی کھوئی ہوئی تندرستی ڈھونڈ رہا ہوں۔ معالجوں نے وادی کشمیر کی گل گشتوں میں سراغ رسانی کا مشورہ دیا تھا......متاع گم گشتہ کا سراغ نہیں ملا۔آپ کو معلوم ہے کہ یہاں فیضی نے کبھی بار عیش کھولا تھا۔
(غبار خاطر : مولانا ابو الکلام آزاد، خط نمبر2، ص4)
جہاں تک غبار خاطر کا سوال ہے تو اسے ہم اردو ادب میں مختلف النوع طرز کا انسائیکلو پیڈیا بھی کہہ سکتے ہیں۔جیسے وادی کشمیر کی روح پرور صبح کی منظر نگاری ہویا قلعہ احمد نگر میں نظر بند ہونے کا واقعہ اور قلعے کے تاریخی حقائق پر پرت درپرت انکشاف، چائے کے مسائل کہ کن کن حصوں میں چائے کی تاثیر کیا ہے، چائے کی ابتدا تا انتہا، معمولی معمولی باتوں کے درمیان دقیق سے دقیق مسائل پر مباحث کے دروازے کھول دینا،بچپن میں جاگنے کی جدو جہدیا والد کے معتقدین سے ملنے کا ذکر، مرسل الیہ کو مخاطب کرنے کا دلکش انداز۔ کہیں تصوف کے مسائل تو کہیں منطق و ریاضی کے شگوفے،کہیں فلاسفہ یونان کا ذکر ہے۔موسیقی میں دلچسپی اس حد تک کہ ارکان موسیقی سے رمز آشنائی قاری کے لیے حیران کن ہے۔اس کے علاوہ یورپ وامریکہ کے تازہ ترین مآثر کا مطالعہ یا خدا پرستی کے ارتقائی پہلو پر مباحث، کس پہلو پر گفتگو کی جائے؟ کارِ مشکل ہے۔انانیتی ادب کے حوالے سے مولانا آزاد ہی کا نقل کیا ہوامیر انیس کا شعرجذبات کی ترجمانی کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے۔
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
مولانا نے خطوط کے اس مجموعے میں کیا کچھ لکھ دیا ہے۔ اگرا نھیں کچھ اور وقت ملتا توان کے نثری جواہر پاروں سے نہ جانے اور کتنے شگوفے پھوٹتے۔ مولانا کے24 خطوط میں 9خط زندگی کی جدو جہد بھرے کوچے میں ایک جملہ باربار دہرا رہے ہیں۔ وہ یہ کہ”وہی چار بجے کا جانفزا وقت ہے“ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ” صبح کے ساڑھے تین بجے ہیں۔“ ان 24 خطوط میں 10 خطوط اس بات کے غماز ہیں کہ مولانا کے نزدیک صبح کی کیا اہمیت ہے۔ ورنہ آج کے مشینی دور میں کون یہ جانتا ہے کہ صبح میں بھی ساڑھے تین بجتا ہے۔ صبح کی کرشمہ سازیا ں کیا ہیں؟ بہ قول مولانا آزاد:
صبح چار بجے کے گرانمایہ وقت کی کرشمہ سازیوں کا بھی کیا حال ہے! قیام کی حالت ہویا سفر کی،ناخوشی کی کلفتیں ہوں یا دل آشوبی کی کاہشیں، جسم کی ناتوانیاں ہوں یا دل ودماغ کی افسردگیاں کوئی حالت ہو، لیکن اس وقت کی سچائیاں افتادگان بستر و الم سے کبھی تغافل نہیں کرسکتیں
(غبار خاطر : مولانا ابو الکلام آزاد، خط نمبر2، ص4)
مولانا اپنے خطوط میں اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ نظر مقصد پر رکھنی چاہیے۔ مولانا اپنے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بڑی آہستگی سے انسانی نفسیات کے مضرابی تاروں کو چھیڑ دیتے ہیں۔اور بڑی ہنر مندی کے ساتھ اپنے نوک قلم کے ذریعے انشائی پیرائے میں طالب علم کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔’جب دنیا جاگتی ہے تو میں سو رہتا ہوں‘’ سحر کے وقت پڑھنے سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ دل کی انگیٹھی ہمیشہ گرم رہنے لگی اور صبح کی اس تھوڑی مہلت  میں تھوڑی آگ جو سلگ جاتی ہے۔اس کی چنگاری کبھی بجھنے نہیں پاتی راکھ کے تلے دبی دبائی کام کرتی رہتی ہیں‘ القصہ مختصر یہ کہ طالب علم کے لیے سحر خیزی نعمت عالی ہے۔
غبار خاطر میں چارمخصوص عناوین کے تحت خط لکھے گئے ہیں۔ جو خط کم اور معلومات کے ساتھ انشاءپردازی کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ ایک نظر ان پر ڈالی جانی چاہیے۔ مولانا کی نثری تفہیم ویسے بھی عام فہم نہیں ہے۔ کیونکہ ناقدین فن کے حوالے سے مولانا کی تحریروں میں رومانیت کی جھلک ملتی ہے۔ رومانیت کی تفہیم صفدر امام قادری نے کچھ یوں کی ہے۔”رومانیت لفظوں میں اشارے بھرنے اور جذبوں کو حسب گنجائش کرنے کا نام بھی ہے۔“اس لیے بھی ان نثری جواہر پاروں کی جولانیاں پورے عروج پر ہیں۔
 داستانِ بے ستون کوہ کن ‘ 10 اگست 1942 کا خط ہے۔ اس میں مولانا کی بلند حوصلگی کا قدم بہ قدم قائل ہونا پڑتا ہے۔ طبیعت خراب ہے گرفتاری کی افواہیں گرم ہیں۔ یہ بات یقین کی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ آج گرفتا ر کر لیے جائیں گے۔ ایسے وقت میں مولانا اظہار خیال کرتے ہیں۔ کہ جتنا جلد ممکن ہو کھا پی کر سو جانا چاہیے۔ رات جو باقی ہے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ مولانا کا عزم دیکھیے کہ چار بجے بیدار ہو کر لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد گرفتاری عمل میں آتی ہے۔ اس پورے خط میں گرفتاری کا عمل اور قلعہ احمد نگر کی تاریخی حیثیت کی وضاحت کرتے ہیں۔ بہ قول مولانا آزاد جیل میرے لیے آرا م گاہ ہے۔
نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
مولانا نے خود شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کی باوجود اس کے دوسرے شعرا کے بر محل اشعار رقم کرکے، قاری کو اپنے قوت حافظہ سے حیران کر دیتے ہیں۔ عربی، فارسی، اردواور انگریزی کل ملا کر تقریباً 646 اشعار و مصرعے قلم بند کرکے نثر کی معنویت میں بے پناہ اضافہ کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ قلعہ احمد نگر سے متعلق جو باتیں مولانا نے لکھی ہیں۔ ان تاریخی حقائق کو قلم بند کر دینا مضمون کے متقاضی معلوم ہو تا ہے۔
(1)      پندرہویں صدی کے آواخر میں جب دکن کی بہمنی حکومت کمزور پڑ گئی تو ملک احمد نظام الملک بھیری نے علم استقلال بلند کیا۔ اور بھینگر کے نزدیک قلعہ احمد نگر کی بنیاد ڈالی۔
(2)      ملک احمد نے جو قلعہ تعمیر کیا تھا۔ اس کا حصار مٹی کا تھا۔ اس کے لڑکے نظام شاہ اوّل نے اسے منہدم کرکے از سر نو پتھرکا حصار تعمیر کیا۔
(3)      یہی قلعہ ہے جس کی سنگی دیواروں پر نظام شاہ کی بہن چاند بی بی نے اپنے عزم و شجاعت کی یادگار زمانہ داستانیں کندہ کی تھیں۔
(4)      قلعہ کی خندق جس کی نسبت ابوالفضل نے لکھا ہے کہ 40 گز چوڑی اور چودہ گز گہری تھی۔
مضمون کی طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے۔ مولانا کے ذہنی دریچے کے سا رے حقائق قلم بند کرنا ممکن نہیں۔ مقصود یہ تھا کہ جیل میں بلا ذرائع،وقائع نگاری کا ایک لا متناہی سلسلہ مولانا ہی کا طرہ امتیاز ہے۔
حکایت بادہ وتریاک‘27اگست1942 کا خط ہے۔ جس کے مطالعے نے احساسات کی دنیا کو زیروزبر کر دیا۔جملوں کی ساخت پر غور کروں یا نثری جواہر پاروں کی سلاست و روانی کے دریا میں بہنے سے اپنے آپ کو روکوں۔دوران مطالعہ عجیب فرحت وانبساط کی کیفیت ہے۔پڑھتے جائیں پڑھتے جائیں۔ رکنے کا مطلب ہے کہ مولانا کے عیش و طرب کی سرمستیوں سے آنکھیں چرالی جائیں۔امیر غریب،ادنیٰ و اعلیٰ،قیدی و آزاد کے درمیان اس دنیا کے متعصب نظام پر طنز کرتے ہوئے قانون فطرت کے نظام کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیںکہ سورج نکلتا ہے تو اس کی روشنی چہار دیواری میں اتنی ہی پہنچتی ہے جتنی کہ باہر۔ اس لیے کبھی پژمردہ و مایوس نہیں ہونا چاہیے۔کیونکہ خوش رہنا طبعی احتیاج ہی نہیں بلکہ اخلاقی ذمے داری بھی ہے۔ اس کے لیے مور کی مثال پیش کرتے ہیں۔دور حاضر میں بھی مور کی مثال دی جا رہی ہے۔ اس سے قطع نظر مولانا کی مثال عزم و حوصلہ بخشتی ہے۔پژمردگی کے احساس سے نجات دے دیتی ہے:
جنگل کے مور کو کبھی باغ و چمن کی جستجو نہیں ہوتی۔ اس کا چمن خود اس کی بغل میں موجود رہتا ہے۔ جہاں کہیں اپنے پر کھول دے گا ایک چمنستان بو قلموں کھِل جائے گا۔“(غبار خاطر : مولانا ابو الکلام آزاد، خط نمبر9، ص68)
علم کے راہ رو کے لیے ضروری ہے کہ مایوسی و پژمردگی کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔ عزم و حوصلہ سے پر لطف چاشنی میں ڈوبا ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
ایوان و محل نہ ہوں تو کسی درخت کے سائے سے کام لے لیں دیبا و مخمل کا فرش نہ ملے تو سبزۂ خود رو کے فرش پر جا بیٹھیں۔اگر برقی روشنی کے کنول میسر نہیں تو آسمان کی قندیلوں کو کون بجھا سکتا ہے۔اگر دنیا کی ساری خوشنمائیاں اوجھل ہوگئی ہیں تو ہو جائیں؛ صبح اب بھی ہر روز مسکرائے گی، چاندنی اب بھی ہر روز جلوہ فروشیاں کرے گی لیکن اگر دلِ زندہ پہلو میں نہ رہے، تو خدا را بتلائیے، اس کا بدل کہاں ڈھونڈھیں!“
غبار خاطر : مولانا ابو الکلام آزاد، خط نمبر 9، ص70)
مندرجہ بالا اقتباس ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ دنیا میں ہر شے کا بدل موجود ہے۔ لیکن مردہ دل کا کوئی بدل نہیں یہ اجڑا تو ساری دنیا اجڑ جائے گی۔ زندہ دلی کے ساتھ جینا ہوگا۔ جینے کے لیے عزائم کی جولانیا ںمصمم ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ ’حکایت زاغ و بلبل‘ اور’ چڑیا اور چڑے کی کہانی‘ ہے۔ جو معلومات افزا اور والہانہ پندو موعظت کا نمونہ بھی ہیں۔
غبارخاطر کے آخری خط میں مولانا نے اپنے میدان کار کے بر عکس ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا ہے۔ مکتوب الیہ کو لکھتے ہیں کہ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ ایک زمانے میں مجھے فن موسیقی کے مطالعے اور مشق کا شوق بھی رہ چکا ہے۔پھر فن موسیقی اور دنیا جہاں کے مشہور موسیقاروں کی موسیقی کے اقسام پہ باتیں کرکے، قاری کو ایک نئی دنیا میں پہنچا دیتے ہیں۔ جیسے کہ ”فقیر اللہ سیف خان عہد عالم گیری کا ایک امیر، ہندستانی موسیقی کے علم و عمل میں ماہر تھا۔ فن موسیقی کے متعلق اس کی کتا ب ’راگ درپن ‘ سنسکرت کی کتاب کا فارسی ترجمہ تھی۔یہ کتاب جب میرے ہاتھ لگی تو میں نے اوّل تا آخر پڑھ لیا۔ اس کے بعد یہ سمجھ آئی کہ جب تک موسیقی کے مصطلحات پر کسی ماہر فن سے اس کی مبادیات نہ سمجھی جائیں کتاب کا سمجھ میں آنا کارِ مشکل ہے۔پھر والد گرامی کا ایک مرید مسیتا خان جو کہ موسیقی جانتا تھا، سیکھنے کی ابتدا کی۔ مزید طلب و جستجو کے لیے دوسرے ماہر فن کے دروازوں پر دستک دی۔اگر دیکھا جائے مذہب اسلام میں موسیقی سے ایک دوری روا رکھی گئی ہے۔ اس کے بعد بھی موسیقی میں امیر خسرو جو نظام الدین اولیا کے مرید خاص میں شمار ہوتے ہیں۔ موسیقی میں نئی دھنوں کے موجد ہیں۔“اسی خط میں امراؤ جان ادا کے خالق مرزا محمد ہادی رسوا سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”وہ موسیقی میں کافی دخل رکھتے تھے۔ قیام لکھنؤ کے درمیان موسیقی سے متعلق ان سے مذاکرے ہوتے رہے۔ ’معارف النغمات‘ کی ترتیب میں انھوں نے مدد بھی دی۔“عربی موسیقی کے اسرارو موزپر گفتگو کر تے ہوئے اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ عربی موسیقی میں بارہ راگنیاں ہیں جو یونانی موسیقی کی تقلید میں وضع ہوئی تھیں۔اسحاق موصلی اور ابراہیم بن مہدی ہارون رشید کے درباری موسیقار تھے۔’عراق‘او’ر حجاز‘جن کو ہم الگ الگ ملکوں کے نام سے جانتے ہیں۔یہ عربی موسیقی کی دو راگنیوں کے نام ہیں۔
مولا نا کا موسیقی سے گہرا تعلق اس بات سے بھی پتا چلتا ہے کہ موسیقی کی دنیا میں کون،کہاں، کس شہرت کا مالک ہے۔ اپنے خط میں پوری تفصیل لکھتے ہیں۔جیسے مصر کے شیخ سلاّمہ حجازی کی منڈلی کا ذکر،مصر کی مشہور عالمہ’طاہرہ‘ طنطا کی رہنے والی تھی۔ مصر میں عالمہ موسیقی کا علم جاننے والی کو کہتے ہیں،۔ شیخ سلاّمہ حجازی بھی اس کے فن کا قدر دان تھا۔ اس کی شکل و شباہت اور ملاقات کے بارے میں لکھتے ہیں :
وہ خود بھی بلائے جان تھی۔ مگر اس کی آواز اس سے بھی زیادہ آفتِ ہوش وایمان تھی۔اس سے بھی شناسائی بہم پہنچائی اور عربی موسیقی کے کمالات سنے۔ دیکھیے اس خانماں خراب شوق نے کن کن گلیوں کی خاک چھنوائی۔
(غبار خاطر : مولانا ابو الکلام آزاد، خط نمبر24، ص263)
مصر کی ام کلثوم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”میں نے اس کے بے شمار ریکارڈ سنے ہیں۔ جس شخص نے ام کلثوم کی آواز نہیں سنی وہ موجودہ عربی موسیقی کی دلآویزیوں کا کچھ اندازہ نہیں کر سکتا۔“ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ”موسیقی کے اسرار و رموز کو جن گہرائیوں تک ہندستانیوں نے پہنچایا ہے۔ قدیم تمدنوں میں سے کوئی تمدن اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔“اس کے ساتھ ہی یورپ کے باکمال موسیقارجنھوں نے موسیقی کی بنیاد رکھی اس کا اعتراف بھی کیا۔یہی وہ باتیں جن سے مولانا آزاد کی فن موسیقی کی باریکیوں میں دلچسپی اظہر من الشمس ہے۔
ہندستان میں موسیقی کی سر پرستی مسلم بادشاہوں سے پہلے مسلم صوفیوں نے شروع کر دی تھی۔پھر دیکھتے ہیں کہ ایک لمبی فہرست شمالی ہند کے بادشاہ خلجی اور تغلق کے دربار کے بعد دکن میں بہمنی اور نظام شاہی سلطنتوں کے ذوق و شوق کا مکمل احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”مالوہ کی سر زمین موسیقی کے علم و عمل کا تخت گاہ بن گئی۔ عہد جہانگیر ی میں موسیقی کا علم فنون دانشمندی میں شمار کیا جانے لگا۔“ آگے ذکر کرتے ہیں کہ ”جس طرح مدارس میں تمام فنون کی تحصیل کا اہتمام کیا جاتا تھا۔اسی طرح موسیقی کی تحصیل کے لیے ملک کے ہر حصے سے فن موسیقی کے با کمالوں کو بلایا جاتا۔ امراءو شرفا کے گھروں میں بڑی تنخواہوں پر ملازم رکھے جاتے۔ تاریخ فرشتہ کی ولادت’ مازندران‘ کی تھی لیکن اسے ہندستانی موسیقی سے اس درجہ تعلق ہوا کہ اس موضوع پر ایک پوری کتاب تصنیف کردی۔“غرض یہ کہ مولانا آزاد نے موسیقی کے موضوع پر تاریخ کے مختلف ادوار میں فن موسیقی کے باکمالوں کاذکر اتنی تفصیل سے کیا ہے کہ انھیں مجتہد عصر، مفکر ملت،مجاہد آزادی،عظیم سیاستداں،امام الہند کے علاوہ موسیقی شناس کی حیثیت سے بھی یاد کیا جانا چاہیے۔ مولانا خود اپنے بارے میں رقم طراز ہیں:
اس کوچہ میں بھی قدم رکھا، تو جہاں تک راہ ملی، قدم بڑھائے جانے میں کوتا ہی نہیں کی۔ ستار کی مشق چار پانچ سال تک جاری رہی تھی۔ بین سے بھی انگلیاں نا آشنا نہیں رہیں۔ لیکن زیادہ دلبستگی اس سے نہ ہو سکی پھر اس کے بعد ایک وقت آیا کہ یہ مشغلہ یک قلم متروک ہوگیا....... البتہ انگلی پر سے مضراب کا نشان بہت دنوں تک نہیں مٹا تھا۔
)غبار خاطر : مولانا ابو الکلام آزاد، خط نمبر24، ص256-57)
غبار خاطر‘اپنے اند ر موضوعات کے لامتناہی سلسلے کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ارادے کی پختگی،تاریخی حقائق، مذہبی موشگافیاں، توحید کے لیے دلائل و براہین،درس قوت عمل، اخلاقیات کے پہلو، سحر خیزی جیسے بے شمار زاویے ہیں۔جن پر روشنی پڑتی ہے۔

Md. Raihan
Research Scholar,
Depat. Of A,P,U & Islamic Studies
Visva Bharati University
Santiniketan - (WB)
Email : raihanansari53@gmail.com
 ماہنامہ اردو دنیا،دسمبر 2019


 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں